قرآنیاتمقالات قرآنی

اصول ابلاغ قرآن (حصہ دوم)

سید مون کاظمی

ساتواں اصول:  نصیحت اور یاددہانی 
ابرِرحمت کی فیاضیاں تو بلا امتیاز و تفریق ہیں مگر روئیدگی اسی زمین کے حصہ میں آتی ہے جو اپنے اندر نموپذیری کی صلاحیت رکھتی ہو اور بارش کے پانی کےلیے قوتِ جاذبہ بھی رکھتی ہو۔بارش کا پانی پتھروں اور چٹانوں سے پھسل کر نشیب میں چلا جاتا ہے۔چٹانیں ویسے کی ویسی چٹیل رہتی ہیں جبکہ نشیب میں سرسبز و شاداب فصلیں لہلہا اٹھتی ہیں۔یہی حال قرآنی نصیحتوں کا ہے قرآن نصیحت ہے سب انسانوں کےلیے لیکن ہدایت انہی کے حصہ میں آتی ہے۔
– جو سینوں میں دل رکھتے ہیں
– اور ایسے دل کہ جن میں قرآنی نصیحت کےلیے انجذاب و کشش پائی جاتی ہے اور اس انجذاب کی وجہ سے وہ حضوری کی کیفیت میں آیاتِ الہٰی سنتے ہیں:
"اِنَ فِی ذٰلِكَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَه قَلْبّ اَو اَلْقَی السَمعَ وَ هوَ شَهیْد”۔
اس میں نصیحت کا سامان ہے اس انسان کے لیےجس کےپاس دل ہواورحضورِقلب کے ساتھ بات سنتا ہو”۔ (ق#37)
قرآن نصیحت ہے اور داعی قرآن ناصح اب ناصح کو چاہیےکہ قرآنی نصیحتوں کے لیے مناسب اوقات، مناسب الفاظ کا استعمال کرے اور مناسب قلوب کا انتخاب کرے۔اس نصیحت کا سب سے مناسب وقت اولِ عمر کے ایام ہیں۔حضرت علی علیہ السلام اپنے فرزندِاکبر حضرت امام حسن علیہ السلام کے نام وصیت میں فرماتے ہیں:
"کیونکہ کمسن کا دل اس خالی زمین کی مانند ہوتاہےجس میں جو بیج ڈالا جائے اسے قبول کرلیتی ہے لہٰذا قبل
اس کے کہ تمہارا دل سخت ہو جائے تمہاراذہن دوسری باتوں میں لگ جائے میں نے تمہیں تعلیم دینے کےلیے قدم
اٹھایا”۔ (نہج البلاغہ)
زندگی کے ابتدائی ایام قبولیتِ حق کےلیے اور شجرہ طیبہ کی نشوونما کےلیے بہترین ثابت ہوتے ہیں ورنہ بعد میں گناہوں کا گردوغبار اور شیطانی اوھام کے سنگریزے دلوں کو سخت کردیتے ہیں اور پھر وہ حق کی کاشت کے قابل نہیں رہتے۔دلوں کو سخت بنانے والی اور دلوں کو مردہ کردینے والی باتوں میں سے دو کی نشاندہی کرتے ہوئے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
"ترک العبادة یقسی القلب وترک الذکر یمیت النفس”۔
ترکِ عبادت دلوں کو سخت بنادیتی ہے اور ترکِ نصیحت دلوں کو مردہ کردیتی ہے۔
بڑی عمر کے دلوں کا حال اس سرکش گھوڑے کی طرح ہے جس پر سواری نہ کی جائے، مشقتوں میں نہ ڈالا جائے تو منہ زور ہوجاتا ہے۔اس کی عادات بگڑ جاتی ہیں اسی طرح دلوں کو اگر موت کی یاد سے نرم اور عبادات کی عادات سے آشنا نہ کیا جائے تو سخت اور ٹھوس ہوجاتے ہیں۔
ناصح اپنی نصیحتوں سے دلوں کو نرم و گداز بناتا ہےتاکہ وہ شجرہ طیبہ کی تخم ریزی کے حسبِ حال ہوسکیں۔ ناصح اپنے آپ کو اسی رول تک محدود رکھتا ہے اور اس سے آگے نہیں بڑھتا۔ بس وہ تو پیغامِ الہٰی پہنچا دینے کے بعد یہ کہہ دیتا ہے:
"اِنَ هذِه تَذْکِرَة فَمَنْ شَآءَ اتَخَذَ اِلٰی رَبِه سَبِیْلاَ”۔(المزمل#19)
یہ تو بس نصیحت اور یاددھانی ہے۔اب جس کاجی چاہے اپنےرب کےراستےپرہولے۔
"فَمَن شَآءَاتَخَذَ اِلٰی رَبِه مَابًا”۔(النباء#39)
اب جس کا جی چاہے اپنے رب کے ہاں مقام بنالے۔
کیونکہ نصیحت کو زبردستی کسی پر مسلط کرنے کا حق تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر گرامی قدر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی دیا۔ پیغمبرِحق (ص) صرف مبلغ ہیں اور لٹھ بردار داروغہ کی حیثیت سے مسلط نہیں کیے گئے ہیں:
"فَذَکِرْ اِنَمَا اَنْتَ مُذَکِرّ لَسْتَ عَلَیْهم بِمُصَیْطِر”۔(الغاشیہ#21/22)
پس آپ(ص)نصیحت کرتے رہیں کہ آپ (ص)فقط نصیحت کرنے والے ہیں آپ (ص) ان پر مسلط نہیں ہیں۔
"فَاِنَمَاعَلَیكَ الْبَلٰغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَاب” (رسول) آپ(ص) کے ذمہ صرف پیغام پہنچانا ہے اورحساب لینا ہماری ذمہ داری ہے۔ (الرعد#40)
لہٰذا اس اہم ذمہ داری کی ادائیگی کے وقت اپنی حدود کو یاد رکھیے اور اس سے تجاوز نہ کیجیئے۔ہمدرد، خیرخواہ، غمخوار، شفیق و مہربان بن کر ابلاغِ قرآن کرتے رہے اور الہٰی وعدہ و وعید یاد دلاتے رہیئے اور بس:
"وَمَااَنْتَ عَلَیْهم بِجَبَارٍفَذَکِرْ بِالْقُرْاٰنِ مَن یَخَافُ وَعِیْدِ”۔ آپ(ص) ان پر جبر کرنےوالےنہیں ہیں۔آپ(ص) قرآن کے ذریعہ نصیحت کرتے رہیں ان لوگوں کوجو عذاب سے ڈرتے ہیں۔(ق#45)
اس انداز و اخلاص سے حقِ نصیحت وہی ادا کرسکتا ہے جو حریصِ دنیا نہ ہو بلکہ آخرت کا طلبگار ہو۔
ایک بار عباسی خلیفہ منصور نے حضرت امام جعفرالصادق علیہ السلان کو لکھا کہ میری خواہش ہے کہ آپ میری مصاحبت اختیار کریں تاکہ آپ کی نصیحتوں سے مستفید ہوسکوں۔ امام علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا:
"جو شخص دنیا کا طالب ہو وہ تمہیں نصیحت نہیں کرے گا اور جو آخرت کا طلبگار ہےوہ تمہاری مصاحبت اختیار
نہیں کرے گا”۔
منصور نے آپ(ع) کا جواب پڑھ کر کہا خدا کی قسم امام جعفرالصادق (علیہ السلام) نے بہترین کسوٹی ہمارے حوالے کی ہے جس کے ذریعہ سے لوگوں کی شناخت ہوسکتی ہے کہ کون دنیا کا طالب ہے اور کون آخرت کا۔

 آٹھواں اصول:  صبر و استقامت 
اصلاحِ خلق اور تعمیرِانسانیت ایک صبرآزما اور جانگسل عمل ہے:
– ایک تو اس لیے کہ نتائج جلد برآمد نہیں ہوتے۔
-دوسرے یہ کہ بسااوقات نتائج توقع کے بالکل برعکس نکلتے ہیں۔
– تیسرے یہ کہ لوگوں کا ردِعمل اکثر و بیشتر معاندانہ ہوتا ہے۔
اس لیے اس مشن کے علمبرداروں کو عالی ظرف، حوصلہ مند، کریم النفس، شریف الطبع اور منکسرالمزاج ہونا چاہیے۔وہ نرم خو، صلح جو اور خوگر صبر واستقامت ہوں اور اللہ کےلیے اس قدر خالص ہوں کہ کسی بھی کامیابی پر اترانے کی بجائے شکرِ پروردگار ادا کرتے ہوں۔ وقتی اور ظاھری ناکامی کی صورت میں یاس اور ناامیدی کی بجائے حالات پر صبر سے کام لیں اور اللہ کی طرف رجوع میں مزید آگے بڑھ جائیں۔شیطان کی ساری ترغیبات اور نفس کی تمام خواھشات کو یکسر مسترد کرکے لقاءِ پروردگار کے لیے ھمہ تن مصروفِ عمل رہنے والے ہوں۔دنیا کی رونقوں پر فریفتہ ہوں نہ دنیاوی حسرتوں پر دل گرفتہ ہوں بلکہ تلخی حالات کو "قربة الی اللّٰه” ہنس کر سہہ لیں اور "راضیًا مرضیةً” کی عملی تصویریں ہوں۔
دعوتِ دین اتنا آسان اور سہل ہوتا تو حق تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قرآن مجید میں انیس بار صبر کی تلقین نہ کرتا بلکہ حکم ہوا:
"فَاصْبِرْکَمَاصَبَرَاُلُواالْعَزْمِ مِنَ الرُسُلِ” (اےمیرے پیارے حبیب) حالات کی ناگواری اور دعوت کی دشواری پر ویسےصبر کروجس طرح اولوالعزم رسول کرتے آئے ہیں” (الاحقاف#35)
کیونکہ اس راہ میں سنگ ہیں اور خار ہیں، کفر و نفاق کے کوہ گراں ہیں لیکن مومن کامل اللہ پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے ان سے ٹکرا جاتا ہے۔نہ وہ خوف کا شکار ہوتا ہے اور نہ ہی لالچ اس کا شکار کرسکتی ہے بلکہ اس کے پیشِ نظر اپنے رب کا حکم ہوتا ہے:
"وَلاَتُطِعِ الکٰفِرِیْنَ وَالمُنفقِیْنَ وَدَعْ اَذٰهم وَتَوَکَلْ عَلَی اللّٰه وَکَفٰی بِاللّٰه وَکِیْلا” کافروں اور منافقوں کی باتوں پر
دھیان نہ دو۔ ان کی ایذا رسانیوں کونظراندازکردو اوراللہ پربھروسہ رکہو۔ (الاحزاب#48)
اور قرآن مجید کی نو آیات میں حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو توکل کا حکم دیا گیا ہے۔وہ آیات درج ذیل ہیں:
1۔آل عمران # آیت نمبر 159
2۔النساء # آیت نمبر81
3۔الانفال # آیت نمبر 61
4۔ہود # آیت نمبر 123
5۔الفرقان # آیت نمبر 55
6۔الشعراء # آیت نمبر 217
7۔النحل # 79
8۔الاحزاب # آیت نمبر 3
9۔ الاحزاب # آیت نمبر 48
دورانِ دعوت کئی مراحل ایسے آتے ہیں کہ ردِعمل کے طور پرگالیاں ملتی ہیں، طعنے سننے پڑتے ہیں، الزام تراشیاں ہیں، بہتان طرازیوں کی بوچھاڑ ہے، اس ردِعمل کا اظہار ان طبقات کی طرف سے آتا ہے جو ان فاسد و باطل نظاموں میں کسی قدر سرداری اور شوکت کے مقام پر متمکن ہوتے ہیں اور حق کے پیچھے چلنے میں ننگ و عار محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ حق ان کی نیابت میں چلے۔یوں وہ اپنے تکبر و استکبار کی بنیاد پر اھلِ حق کو کسی قسم کا آزار پہنچانے سے بھی نہیں چوکتے مگر اللہ کا خالص بندہ "فَاصْبِرْعَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ” پر عمل کرتے ہوئےہنسی خوشی یہ سب کچھ برداشت کرلیتا ہے۔اپنے قدموں کو روکتا نہیں بلکہ حق کی جادہ پیمائی میں یقینِ محکم کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے اور نظروں کو امرِالہٰی پر جمائے رکھتا ہے۔
"فَلِذٰلِكَ فَادْعُ وَاستَقَم کَمَآاُمِرْتَ وَلا تَتَبِعْ اَهوَآءُ هم”۔
پس تم اسی دین کی دعوت دو اور اس پر جمے رہو جیسا کہ تم کو حکم دیا گیا ہےاوران لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو”۔ (الشورٰی#15)
داعی قرآن کو جس صبر سے لیس ہونا چاہیے وہ یہ نہیں ظالم کے ظلم پر صبر کرلے بلکہ ظالم کو ظلم سے روکنے میں استقامت اور ثابت قدمی دکھائے۔اعلائے کلمہ حق کے لیے استقلال و پامردی کا مظاہرہ کرے، ابلاغِ قرآن کے سلسلے میں اصولِ صبر و استقامت پر کاربند رہے:
"استَعِیْنُوابِاللّٰه وَاصبِرُوا”۔ اللہ سے مدد طلب کرو او صبر کرو۔ (الاعراف#128)

نواں اصول:  اُجرت 
تہذیبِ اسلامی کی تاسیس قرآن کے بغیر ناممکن ہے قرآن رسالاتِ الہٰی کا مکتوبی ایڈیشن ہے۔ان رسالات کا ابلاغ ایک فریضہ اور ذمہ داری ہے نہ کہ وسیلہ معاش یا حصولِ زر کا زینہ۔ اس معاملہ میں آجر خود ذاتِ الٰہ ہے اور مبلغِ قرآن اجیر ہے وہ دنیا میں مزدور بن کر لوگوں کے خیالات و رجحانات، افکار و اعمال کو قرآنی سانچے میں ڈھالنے کےلیے شب و روز کام کرتا ہے۔وہ تقوٰی، طہارت، پاکیزگی نفس اور حسن سلوک کی روح پورے انسانی معاشرے میں پھونکنے کی سرتوڑ کوشش کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ اپنی تربیت اور عملی رہنمائی سےنوعِ انسانی کو اس طور سےمنظم کردے کہ ایک نئی سوسائٹی، نئی ذہنیت، نئے آداب و اطوار تخلیق ہوجائیں۔ اس پوری تگ و دو میں وہ کسی اور سے اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا اگر کوئی اجرت دینا بھی چاہے تو وہ بڑے واضح اور دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیتا ہے:
"اِنْ اَجْرِیَ اِلاَ عَلٰی رَبِ الْعٰلِمِیْنَ”۔ میرااجر تو دونوں جہانوں کے پالنہار کے پاس ہے۔(الشعراء#109)
تمام رُسل اور انبیاء علیہم السلام کی یہی سنت رہی ہے کیونکہ یہ محترم ہستیاں نہ اہل دنیا کی مزدور ہیں اور نہ دنیا کے کسی فرد یا گروہ سے اجرت کا تقاضا کرتی ہیں۔اگر ایسا ہوتا تو پھر وہ اپنی تعلیمات کو خالص نہ رکھ سکتے بلکہ جس سے اجرتوں کی وصولی کرتے انکی فاسد خواہشات و ترجیحات کا لحاظ کرنے پر مجبور ہوجاتے۔سورہ شعراء میں اس امر کو بڑی وضاحت کے ساتھ پانچ انبیاء علیہم السلام کا نام لے کر بیان کیاگیا ہے:
1)۔ حضرت نوح علیہ السلام کا آیت نمبر109 میں
2)۔ حضرت ہود علیہ السلام کا آیت نمبر127 میں
3)۔ حضرت صالح علیہ السلام آیت نمبر 145 میں
4)۔ حضرت لوط علیہ السلام کا آیت نمبر 164 میں
5)۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا آیت نمبر 180 میں
ان تمام آیات میں ایک جیسے الفاظ میں باربار اس مضمون کو دہرایا گیا ہے:
"وَمَااَسْئَلُکُم عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلاَ عَلٰی رَبِ الْعَالَمِیْنَ”اور اس کام(تبلیغ) پر میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا میری اجرت تو عالمین کے پروردگار پر ہے۔
یہ اصولِ اجرت اس قدر محکم اور استوار تھا کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام نے انطاکیہ میں مبلغین بھیجے تو انطاکیہ کے مومنِ کامل حبیب نجار نے اپنی قوم سے کہا تم انکی پیروی کیوں نہیں کرتے۔حالانکہ:
*- یہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں
*- اور یہ اس تبلیغ کا تم سے کچھ اجر یا معاوضہ بھی نہیں مانگتے۔
یوں حبیب نجار نے قوم کو اتباع و اطاعت کی طرف مائل کرنے کی کوشش کی اور کہا:
"اتَبِعُوْامَنْ لاَیَسْئَلُکُم اَجْرًاوَھُمْ مُھْتُدُوْن”۔ جو تم سے کوئی اجرت طلب نہیں کرتےاور خود ہدایت یافتہ ہیں ان کی پیروی کرو۔(یٰس#21)
حضراتِ انبیاء علیہم السلام اور اس پاکیزہ سلسلے سے منسلک مبلغین یہ سمجھتے تھے کہ جمہورالناس سے اجرت طلب کرنا ایک مذموم، قبیح اور خودغرضانہ فعل ہے اور انکے لیے ہرگز زیبا نہیں کہ اللہ کے اجیر ہوکر لوگوں کے سامنے دستِ طلب پھیلائیں یا مالِ دنیا جمع کریں یا ان کو گن گن کر تجوریوں میں رکھیں۔
اجرِرسالت کے حوالے سے آقائےنامدار حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں چار آیتیں بیان ہوئی ہیں۔ان سب کو اکٹھا رکھ کر پڑھا جائے تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو انبیاء (علیہم السلا) ماسبق کی سیرت سے مترشح ہے۔اب آیات ملاحظہ فرمائیں:
*- "قُلْ مَآاَسئَلُکُم عَلَیْهِ اَجْرٍ اِلاَ مَن شَآء اَنْ یَتَخَذَاِلٰی رَبِه وَسِیْلاً”۔ کہہ دیجیئے!میں تم سےکچھ اجرِرسالت نہیں مانگتا ہوں مگر یہ کہ جو شخص چاہے اپنے پروردگارکاراستہ اختیارکرے۔(الفرقان#57)
یعنی میں کوئی ذاتی منفعت نہیں چاھتا ہاں مگر یہ کہ تم آزادانہ طور پر بلاجبرو اکراہ اللہ کے راستے پر چلنا شروع کردو تاکہ تم اخروی نجات پاسکو۔
*- "قَلْ مَااَسْئَلُکُم عَلیْه اَجْرٍوَمَآاَنا مِن المُتَکَلِفِیْنَ”۔ کہہ دیجئے! میں تبلیغ رسالت کی کوئی اجرت نہیں مانگتا اور تمہیں کوئی زحمت نہیں دیتا۔(ص#86)
*- "قُلْ لاَاَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ اَجْرًااِلاَالْمُوُدُةفِی الْقُرْبٰی”۔کہہ دیجئے!میں اپنےقرابتداروں کی محبت کے سوا تم سے کوئی اجرِ رسالت نہیں مانگتا۔ (الشورٰی#23)
یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے پوچھاگیا آپ(ص) کے قرابتدار کون ہیں تو فرمایا ! "علی، فاطمۃ، حسن اور حسین علیہم السلام” ان عظیم ہستیوں کی محبت کا اس لیے کہا گیا کہ ہدایت کے تسلسل اور استحکام کےلیے بعد از رسول (ص) انہوں نے ہادی کے فرائض انجام دینے تھے اور ظاہر ہے کہ جب تک کسی ہستی کے ساتھ محبت کا رشتہ استوار نہ ہو اس کی اتباع و اطاعت کا تصورہی پیدا نہیں ہوسکتا۔لازمی نتیجہ یہی نکلتاہے کہ یہ محبت بھی خود لوگوں کی ہدایت کےلیے ہے نہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذاتی فائدے کےلیے۔
*- چوتھی آیت میں تو بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے:
"قَلْ مَاسَاَلْتَکُمْ مِن اَجْرٍفَهوَلَکُمْ اِنْ اَجْرِی اِلاَعَلَی اللّٰه وَهوَ عَلٰی کُلِ شَئٍ شَهیْد”۔
کہہ دیجئے ! جو اجر میں نے تم سے مانگا ہےیہ تمہارےحق میں ہے خدا کےعلاوہ میراکسی پرکوئی اجر نہیں
ہے” (السبا#47)
ان تمام قرآنی بیانات سے واضح ہوجاتا ہے کہ رسالاتِ الہٰیہ کو پہنچانے والا اور ابلاغِ قرآن کرنے والا اللہ کا اجیر ہے اور اس کی اجرت اس دنیا کے کھوٹے سکے نہیں ہیں۔یہ حالات کا جبر ہے کہ آج ابلاغِ قرآن اور ارسالِ پیغاماتِ الہٰی بظاہر ایک بہت بڑا منفعت بخش کاروبار بن چکا ہے۔مذہب اور دین کے نام پر سرمایہ دارانہ ذہن رکھنے والا طبقہ اشرافیہ پیدا ہوچکا ہے جو عوام الناس کا مالی اور فکری استحصال کررہا ہے۔علمائےیہود کی طرح کتمانِ حق کرتا ہے۔درسِ وحدت کی بجائے فرقے پیدا کرتا ہے اور کلام اللہ کی من مانی، خودغرضانہ تاویلات اور تشریحات کرتا ہے۔
ان کے بارے میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے خوب تبصرہ فرمایا ہے:
"یحتلبون الدنیادرھا بالدین”۔ دین کے بہانے دنیا(کے تھنوں) سے دودھ دوھتے ہیں۔ (نہج البلاغہ)
کاش یہ اپنی عباؤں میں کھوٹے درہم و دینار سمیٹنے کی بجائے دامنِ دل کو رضائے پروردگار کےلیے پھیلادیتے۔ بقول شاعر مشرق علامہ اقبال صاحب:
احکام تیرے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاول سےقرآں کو بناسکتے ہیں پاژند

دسواں اصول: اصولِ تقوٰی 
قرآن صاحبانِ تقوٰی کےلیے ہدایت ہے۔ یہ تقوٰی کیا ہے؟
حقیقتِ تقوٰی کسی خاص وضع یا ہیئت کا نام نہیں ہے اور نہ کسی خاص قسم کی بودوباش کا نام ہے بلکہ یہ نفسِ انسانی کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ اصلی تقوٰی یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو عبدیت کا شعور ہو خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس ہو اس بات کا زندہ ادراک ہو کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک خاص مہلت تک رکھنا ہےاور پھر اپنے یہاں بلاکر پورا پورا حساب لینا ہے۔ اس شعور اور ضمیر کی بیداری کے ساتھ ہی وہ ضبطِ اوقات، نظم وضبط، حسنِ رفاقت اور شہامت و شجاعت کا پیکر بن جاتا ہے۔
ہر چند کہ "اِنَاجَعَلْنَامَاعَلَی الاَرْضِ زِیْنَة” مگر وہ ہر زینت کو چھوڑ کر صرف اللہ سے تعلق استوار کرلیتاہے۔اب کوئی لالچ اس کو گرفتار کرسکتی ہے اور نہ کسی قسم کا خوف لاحق ہوسکتا ہے۔وہ خالص اللہ کا مزدور بن کر آخرت کی کھیتی کا آبادکار بن جاتا ہے۔ پھر وہ اس احساس، شعور اور خیر کے دائرے میں تمام نوعِ انسانی کو لانے کی تگ و دو کرتا ہے اور ہرگز پرواہ نہیں کرتا کہ اس کے راستے میں طوفان آئے یا چٹان، کوہ آئے یا دمن، خارزار ہو یا ریگزار وہ کسی شے کو خاطر میں نہیں لاتا، ہاں اگر ڈرتا ہے تو صرف اور صرف اپنے رب سے:
"اَلَذِینَ یُبَلِغُونَ رِسٰلٰتِ اللّٰه وَیَخْشَونه وَلا یَخْشَوْنَ اَحَدًااِلاَاللّٰه”۔(الاحزاب#39)
وہ جو اللہ کے پیغاموں کو پہنچاتے ہیں وہ بس اللہ سےہی ڈرتےہیں اوراس کےعلاوہ کسی سےنہیں ڈرتے۔
"وَاللّٰه اَحَقُ اَنْ تَخْشٰهُ”۔(الاحزاب#37)
اور یہ حق بنتا ہی ہے کہ اللہ سے ڈرا جائے۔
جب بندہ اللہ سے ڈرتا ہے تو پھر قانونِ قدرت ہے کہ:
"من خاف اللّٰه سبحانه امنه اللّٰه من کل شئ من خاف الناس اخافه اللّٰه سبحانه من کل شئ”۔
جو خداوند سبحان سے ڈرتا ہےاللہ اسےہرچیزکی طرف سے مطمئن کردیتا ہے اور جو لوگوں سے ڈرتاہے اللہ اسےہر شے سےڈراتا ہے۔(غررالحکم)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button