مقالات قرآنی

توبہ کی حقیقت اور ارکان و شرائط

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
توبہ نصوح کیا ہے؟
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ
اے ایمان والو! اللہ کے آگے توبہ کرو خالص توبہ، بعید نہیں کہ اللہ تم سے تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی،
تفسیر آیات
۱۔ تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا: النصح کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو اور خلوص کے معنوں میں بھی آتا ہے۔ چنانچہ خالص شہد کو ناصح العسل کہتے ہیں۔ اس صورت میں توبہ کو نصوح کہنے کا مطلب یہ ہو جاتا ہے کہ ایسی توبہ کرو جو نہایت خالص ہو چونکہ نصوح صیغہ مبالغہ ہے جیسے ضروب صیغہ مبالغہ ہے۔ نہایت خالص توبہ کا مطلب یہ ہے کہ دوبارہ اس گناہ کا نہ سوچے جس سے توبہ کی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
توبہ و استغفار کے چھ ستون ہیں۔ i۔ گزشتہ گناہوں پر ندامت۔ ii۔ عدم اعادہ کا عزم۔ iii۔ وہ تمام فرائض انجام دے جو چھوٹ گئے ہیں۔ iv۔ لوگوں کا حق ذمے نہ ہو۔ v۔ گناہ کے ذریعے جو گوشت بنا ہے وہ غم و اندوہ سے بدل کر تازہ گوشت بن جائے۔ vi۔ اپنے کو اطاعت کی تلخی چکھا دے جیسا کہ گناہ کی لذت چکھ لی ہے۔ ( مستدرک الوسائل ۱۲: ۱۳۰۔ قریب منہ فی الکشاف ۴: ۵۶۹)
۲۔ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ: چونکہ توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں:
التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہُ۔ ( الکافی ۲: ۴۳۵)
گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔
لہٰذا توبہ، گناہوں کا مؤثر ترین کفارہ ہے۔ واضح رہے: ’’ عَسٰی ‘‘ و ’’ لعل ‘‘ کے بعد اللہ تعالیٰ جس بات کا ذکر فرماتا ہے وہ ایک پسندیدہ بات ہوتی ہے جسے اللہ ضرور انجام دیتا ہے۔ یہ تقریباً وعدے کی مانند ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 230)
توبہ کے ارکان و شرائط
اِنَّمَا التَّوۡبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السُّوۡٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوۡبُوۡنَ مِنۡ قَرِیۡبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوۡبُ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿النساء: ۱۷﴾اللہ کے ذمے صرف ان لوگوں کی توبہ (قبول کرنا) ہے جو نادانی میں گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں، اللہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔
تفسیر آیات
تَّوۡبَۃُ رجوع کرنے، پلٹنے اور متوجہ ہونے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ گناہوں سے توبہ کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی نافرمانی کر کے منہ پھیرنے کے بعد اپنے کیے پر پشیمانی کی حالت میں اپنے رب کی طرف دوبارہ رجوع کرتا ہے۔
توبہ دو عناصر سے مرکب ہے: ایک اپنے کیے پر نادم ہونا اور دوسرا دوبارہ عدم ارتکاب کا عہد کرنا۔ یعنی توبہ ضمیر کی بیداری اور نئی زندگی کا عہد ہے۔
عَلَي اللہِ: توبہ قبول کرنا اللہ کے ذمے ہے، یعنی لازم ہے۔ اس کا مطللب یہ نہیں کہ کسی نے اللہ کے ذمے لازم قرار دیا ہے، بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اور توبہ کو پسند فرمایا ہے:
اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ ۔۔۔ (۲ بقرہ : ۲۲۲)
بے شک خدا توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔
انَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ (۱۳ رعد : ۳۱)
یقیناً اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شرائط کی موجودگی میں توبہ قبول کرنا لازمی امر ہے۔
بِجَہَالَۃٍ: جہالت کا ایک استعمال علم اور دوسرا استعمال عناد اور ضد کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ یہ غلطی ضد اور اناکی وجہ سے نہیں بلکہ جہالت کی وجہ سے نادانی میں سرزد ہوئی ہے۔ یعنی غفلۃً سرزد ہوئی ہے۔ لہٰذا غلط کار کو عرف میں نادان کہاجاتا ہے۔ آیہ شریفہ میں جہالت سے مراد وہ حالت ہے جب انسان پر خواہشات اور غضب کا غلبہ ہوتا ہے۔ یہاں اگرچہ انسان کو گناہ کا علم ہوتا ہے، لیکن شہوت و غضب انسان کو ایسی غفلت میں ڈال دیتے ہیں گویا عقل و شعور سلب ہو جاتے ہیں۔ اس حالت کو جہالت کہا گیاہے۔ لہٰذا جہالۃً گناہ سرزد ہونے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ انسان گناہ کا ارتکاب اللہ کے ساتھ عناد اور ضد کی حالت میں نہیں کرتا۔ مثلاً نافرمانی کرتے ہوئے اس کا خیال یہ نہیں ہوتا کہ چلو میں زنا کرتا ہوں اللہ میرا کیا بگاڑ سکتا ہے، بلکہ وہ اس عمل کو مولا کی نافرمانی خیال کرتا ہے، لیکن جہالۃً یعنی خواہشات کی وجہ سے غفلۃً اس سے یہ گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔ جہالت کے دوسرے معنی یہ ہو سکتے ہیں کہ انسان گناہ کے انجام بد اور ناراضگی رب اور عذاب اخروی سے غافل ہو جاتا ہے۔
مِنۡ قَرِیۡبٍ: یعنی جہالت ختم ہوتے ہی، شہوت و غضب فرو ہوتے ہی بلا فاصلہ پشیمانی ہوتی ہے تو توبہ ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں وارد شدہ احادیث کی روشنی میں مفسرین قَرِیۡبٍ سے مراد پوری زندگی لیتے ہیں۔
یعنی موت قریب ہی ہوتی ہے، اس لیے موت سے پہلے توبہ کر لے۔ فرصت ہاتھ سے جانے سے قبل توبہ کر لے۔ اس پر دلیل اس کے بعد آنے والی آیت ہے جس میںارشاد فرمایا ہے کہ ان لوگوں کی توبہ قبول نہ ہو گی جو زندگی بھر گناہ کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں:
السَّیِّاٰتِ ۚ حَتّٰۤی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّیۡ تُبۡتُ الۡـٰٔنَ ۔۔۔۔ (۴ نساء :۱۸)
یہاں تک کہ ان میں سے کسی کی موت کا وقت آ پہنچتا ہے تو وہ کہ اٹھتا ہے: اب میں نے توبہ کی۔
اس سے معلوم ہوا کہ موت سامنے آنے سے پہلے توبہ کی گنجائش رہتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ توبہ رجوع اختیاری اور بیدار یٔ ضمیر و تجدید عہد کا نام ہے۔ یہ صورت انسان کی زندگی میں ممکن ہے۔ موت یقینی ہونے کی صورت میں رجوع صادق نہیں آتا اور نہ تجدید عہد صادق آتا ہے۔
توبہ انسانی زندگی پر محیط ہو تو قبول ہے۔ ماضی کے عمل بد پر ندامت مستقبل کے لیے تجدید عہد اور نئی زندگی کا آغاز، مستقبل میں ارتکاب گناہ سے دور رہنے کا عزم و ارادہ۔ ندامت اور ارادہ دونوں باطنی عمل ہیں، جن کا نتیجہ کردار سے ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا توبہ میں ندامت اور اراد ے کا ہونا ضروری ہے۔ جس کی موت حاضر ہے، اس کے لیے ندامت تو ممکن ہے لیکن اس کے پاس مستقبل نہیں، جس کے لیے وہ عزم و ارادہ کرے: وَ اَسَرُّوا النَّدَامَۃَ لَمَّا رَاَوُا الۡعَذَابَ ۔۔۔ (۳۴ سبا: ۳۳) جب وہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو دل میں ندامت لیے بیٹھیں گے۔
احادیث
رسالتمآب (ص)سے روایت ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:
لما ھبط ابلیس قال و عزتک و جلالک و عظمتک لا افارق ابن آدم حتی تفارق روحہ جسدہ فقال اللہ سبحانہ: و عزتی و جلالی و عظمتی لا احجب التوبۃ عن عبدی حتی یغرغر بھا ۔ (بحار الانوار ۶ : ۱۶ ۔ البیان ۴: ۱۴۷)
ابلیس نے جب زمین پر نزول کیا تو کہا: تیری عزت و جلال و عظمت کی قسم، میں ابن آدم کی روح جسم سے خارج ہونے تک نہیں چھوڑوں گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مجھے میری عزت و جلال و عظمت کی قسم ہے کہ میں اپنے بندے کے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھوں گا جب تک اس پر نزع روح کا غرغرہ طاری نہ ہو جائے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 273)
توبہ کی برکات
اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿الفرقان:۷۰﴾
مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک عمل انجام دیا تو اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے اور اللہ تو بڑا غفور رحیم ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ اِلَّا مَنۡ تَابَ: وہ لوگ جہنم میں دائمی عذاب میں نہ ہوں گے جو کفر و شرک سے توبہ کرتے ہیں اگرچہ ان لوگوں نے کفر و شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ قتل نفس اور زنا کا بھی ارتکاب کیا ہے تاہم توبہ، ایمان لانے اور اعمال صالحہ کی وجہ سے ان کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔
۲۔ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا: نیک اعمال بجا لانے کی وجہ سے یعنی اپنے ایمان پر قائم رہنے اور مذکورہ گناہوں سے دوری اختیار کر کے عمل صالح بجا لانے کی وجہ سے نہ صرف ان کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بلکہ
۳۔ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ: اللہ ان کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے گا۔ یہ سب توبہ اور ایمان کے اثرات ہوں گے کہ تمام گناہوں کی جگہ ایمان لے لے گا اور نیکی ہی نیکی ہو گی۔ یُبَدِّلُ کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اس توبہ کے بعد اعمال سیئہ کی جگہ اعمال حسنہ لیں گے۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ اللہ ان کے گناہ مٹا کر ان کی جگہ نیکیاں لکھے گا۔
قرین واقع تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ اور ایمان کی وجہ سے اس کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے گا۔ لہٰذا اگر ایک شخص توبہ و ایمان لانے کے بعد فوراً مر جاتا ہے تو یہ آیت اس پر بھی صادق آتی ہے۔
اہم نکات
۱۔ توبہ اس کیمیکل تبدیلی کی طرح ہے جس سے متعفن غلاظت، شیرین میوہ میں بدل جاتی ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 6 صفحہ 50)
توبہ اور اصلاح کا باہمی ربط
ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیۡنَ عَمِلُوا السُّوۡٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَ اَصۡلَحُوۡۤا ۙ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿النحل:۱۱۹﴾
پھر بے شک آپ کا رب ان کے لیے جنہوں نے نادانی میں برا عمل کیا پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور اصلاح کر لی تو یقینا اس کے بعد آپ کا رب بڑا بخشنے والا ، مہربان ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ یہاں جہالت سے مراد حقیقت گناہ اور اس کے ارتکاب کے برے اثرات سے ناآگاہی ہو سکتا ہے ورنہ بغیرکسی کوتاہی کے گناہ کا علم نہ ہو تو یہ سرے سے گناہ ہی نہیں ہے۔
بِجَہَالَۃٍ کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۃ النسآء آیت ۱۷۔
۲۔ توبہ کے بعد اصلاح کاذکر اس لیے آیا کہ اصلاح توبہ کا لازمی نتیجہ ہے کیونکہ توبہ گزشتہ برے اعمال سے برگشتہ ہونے کو کہتے ہیں اور برے اعمال کو چھوڑنے کا مطلب اصلاح ہے۔ ورنہ صرف لفظی استغفار سے توبہ وجود میں نہیں آتی۔
اہم نکات
۱۔ گزشتہ سے توبہ آیندہ کی اصلاح کے عہد کے ساتھ مربوط ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 475)
اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَ اَصۡلَحُوۡا ۟ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿آل عمران:۸۹﴾
سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کر لی، پس اللہ بڑا بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا: وہ اس لعنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ یعنی وہ ہمیشہ اللہ کی رحمت سے دور رہیں گے اور جس عذاب کے یہ لوگ مستحق ٹھہرے ہیں، وہ ایسا عذاب ہے جس میں تخفیف کی نوبت کبھی بھی نہیں آئے گی۔
۲۔ اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا: البتہ توبہ کی گنجائش موجود ہے۔ صرف توبہ اور پشیمانی کافی نہیں،بلکہ توبہ کے بعد استقامت شرط ہے۔ یعنی دوبارہ ایسے گناہوں کا ارتکاب نہ کیا جائے۔
۳۔ وَ اَصۡلَحُوۡا: اصلاح سے مراد بھی یہی ہے۔ توبہ ایک باطنی انقلاب اور خاص کیفیت کا نام ہے اور اصلاح سے مراد اس کے مطابق عمل کرنا ہے۔ عمل نہ ہو تو ایک بار کا ارادہ کافی نہیں ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ ہمیشہ توبہ کے ساتھ اصلاح اور عمل کا بھی ذکر فرماتا ہے۔
اہم نکات
۱۔ گناہوں کی مغفرت اور نجات کے لیے توبہ اور اصلاح، دونوں کی ضرورت ہے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 116)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button