سیرتسیرت امام علی رضاؑ

حیات امام ثامن علی ابن موسیٰ الرضاؑ کے چند پہلو (چوتھا پہلو)

ولی عہدی کی وجوہات اور دلائل
آپ علیہ السلام کی ولی عہدی:
عباسی دور میں سب سے اہم واقعہ یہ رونما ہوا کہ مامون نے امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عہد بنا دیا یعنی وہ عباسی خلافت جو علوی سادات سے دشمنی رکھتی تھی، اس میں تبدیلی واقع ہو گئی اور اس بڑے واقعہ کا خاص و عام دونوں میں گفتگو و چرچا ہوا اور سب مبہوت ہو کر رہ گئے، وہ سیاسی روش جس میں عباسیوں نے علویوں کا بالکل خاتمہ کر دیا تھا، اُن کے جوانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا، اُن کے بچوں کو دجلہ میں غرق اور شیعوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قتل کر دیا تھا۔عباسیوں کی علویوں سے دشمنی بہت آشکار تھی، یہ دشمنی محبت و مودت میں کیسے بدل گئی، عباسی اُن کے حق کے معترف ہو گئے اور عباسی حکومت کا اہم مرکز اُن (علویوں ) کو کیسے سونپ دیا، اسی طرح کی تمام باتیں لوگوں کی زبانوں پر تھیں۔یہ مطلب بھی بیان ہونا چاہیے کہ مامون نے یہ اقدام اس لیے نہیں کیا تھا کہ یہ علویوں کا حق ہے اور وہ خلافت کے زیادہ حقدار ہیں، بلکہ اُس نے کچھ سیاسی اسباب کی بناء پر ولایت کا تاج امام رضا علیہ السلام کے سر پر رکھا ، جس کے کچھ اسباب مندرجہ ذیل تھے:
مامون کا عباسیوں کے نزدیک اہم مقام نہیں تھا اور ایسا اس کی ماں مراجل کی وجہ سے تھا کہ جو اسکے محل کے پڑوس اور اس کے نوکروں میں سے تھی، لہٰذا وہ لوگ مامون کے ساتھ عام معاملہ کرتے تھے، وہ اس کے بھائی امین کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے، کیونکہ اُن کی والدہ عباسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی، لہٰذا مامون نے امام رضا علیہ السلام کو اپنی ولی عہدی سونپ کر اپنے خاندان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی۔
مامون نے امام علیہ السلام کی گردن پر ولی عہدی کی ذمہ داری ڈال کر یہ آشکار کرنا چاہا تھا کہ امام علیہ السلام دنیا کے زاہدوں میں سے نہیں ہیں، بلکہ وہ ملک و بادشاہت اور سلطنت کے خواستگار ہیں، اسی بناء پر انھوں نے ولی عہدی قبول کی ہے، امام علیہ السلام پر یہ سیاست مخفی نہیں تھی، لہٰذا آپ علیہ السلام نے مامون سے یہ شرط کی تھی کہ نہ تو میں کسی کو کوئی منصب دوں گا، نہ ہی کسی کو اس کے منصب سے معزول کروں گا، اور میں ہر طرح کے حکم سے کنارہ کش رہوں گا۔ امام کی اِن شرطوں کی وجہ سے آپ علیہ السلام کا زاہد ہونا واضح ہو جاتا ہے۔
مامون کے لشکر کے بڑے بڑے سردار شیعہ تھے لہٰذا اس نے امام علیہ السلام کو اپنا ولی عہد بنا کر اُن سے اپنی محبت و مودت کا اظہار کیا۔
عباسی حکومت کے خلاف بڑی بڑی اسلامی حکومتوں میں انقلاب برپا ہو چکے تھے اور عنقریب اُس کا خاتمہ ہی ہونے والا تھا، اور اُن کا نعرہ الدعوة الی الرضا من آل محمد، تھا۔
جب امام رضا علیہ السلام کی ولیعہدی کے لیے بیعت کی گئی تو انقلابیوں نے اس بیعت پر لبیک کہی اور مامون نے بھی اُن کی بیعت کی، لہٰذا اس طرح سے اُس کی حکومت کو در پیش خطرہ ٹل گیا۔اِن ہی بعض اغراض و مقاصد کی وجہ سے مامون نے امام رضا علیہ السلام کو اپنا ولی عہد بنایا تھا۔
فضل کا امام رضا علیہ السلام کو خط لکھنا:
مامون نے اپنے وزیر فضل ابن سہل سے کہا کہ وہ امام علیہ السلام کو ایک خط تحریر کرے کہ میں نے آپ علیہ السلام کو اپنا ولی عہد مقرر کر دیا ہے، خط کا مضمون یہ تھا:علی ابن موسیٰ الرضا علیہما السلام کے نام جو فرزند رسول خدا ﷺ ہیں، رسول خدا ﷺ کی ہدایت کے مطابق ہدایت کرتے ہیں، رسول خداؐ کے فعل کی اقتدا کرتے ہیں، دین الٰہی کے محافظ ہیں، وحی خدا کے ذمہ دار ہیں، اُنکے دوست فضل ابن سہل کی جانب سے جس نے اُن کے حق کو دلانے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا اور دن رات اس راہ میں کوشش کی،اے ہدایت کرنے والے امام علیہ السلام آپ علیہ السلام پر صلوات و سلام اور رحمت الٰہی ہو ، میں آپ علیہ السلام کی خدمت میں اس خدا کی حمد بجا لاتا ہوں کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ اپنے بندے محمد ﷺ پر درود بھیجے۔
اما بعد :امیدوار ہوں کہ خدا نے آپ علیہ السلام کو آپ علیہ السلام کا حق پہنچا دیا اور اُس شخص سے اپنا حق لینے میں مدد کی جس نے آپ علیہ السلام کو حق سے محروم کر رکھا تھا، میں امیدوار ہوں کہ خدا آپ علیہ السلام پر مسلسل کرم فرمائی کرے، آپ علیہ السلام کو امام اور وارث قرار دے، آپ علیہ السلام کے دشمنوں اور آپ علیہ السلام سے روگردانی کرنے والوں کو سختیوں میں مبتلا کرے،میرا یہ خط امیر المومنین بندہ خدا مامون کے حکم کی بناء پر پیش خدمت ہے، میں آپ علیہ السلام کو یہ خط لکھ رہا ہوں تا کہ آپ کا حق واپس کر سکوں، آپ کے حقوق آپ علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر سکوں، میں چاہتا ہوں کہ اس طرح آپ علیہ السلام مجھ کو تمام عالمین میں سعادتمند ترین قرار دیں اور میں خدا کے نزدیک کامیاب ہو سکوں، رسول خدا ﷺ کے حق کو ادا کر سکوں، آپ علیہ السلام کا معاون قرار پاؤں اور آپ کی حکومت میں ہر طرح کی نیکی سے مستفیض ہو سکوں، میری جان آپ پر فدا ہو،
جب میرا خط آپ تک پہنچے اور آپ مکمل طور پر حکومت پر قابض ہو جائیں یہاں تک کہ امیر المومنین مامون کی خدمت میں جا سکیں جو کہ آپ علیہ السلام کو اپنی خلافت میں شریک سمجھتا ہے، اپنے نسب میں شفیع سمجھتا ہے اور اس کو اپنے ماتحت پر مکمل اختیار حاصل ہے تو آپ علیہ السلام ایسی روش اختیار کریں جس کی وجہ سے خیر الٰہی سب کے شامل حال ہو جائے اور ملائکہ ٔ الٰہی سب کی حفاظت کریں اور خدا اس بات کا ضامن ہے کہ آپ علیہ السلام کے ذریعہ امت کی اصلاح کرے اور خدا ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہترین ذمہ دار ہے اور آپ علیہ السلام پر خدا کا سلام اور رحمت و برکتیں ہوں۔
(حیاة الامام علی بن مو سیٰ الرضا علیہ السلام، ج 2 ص 284)
مامون کا امام رضا علیہ السلام کا استقبال کرنا:
مامون نے امام رضا علیہ السلام کا رسمی طور پر استقبال کرنے کا حکم دیا، اسلحوں سے لیس فوجی دستے اور تمام لوگ امام کے استقبال کے لیے نکلے، سب سے آگے آگے مامون، اس کے وزراء اور مشیر تھے، اُس نے آگے بڑھ کر امام علیہ السلام سے مصافحہ اور معانقہ کیا اور بڑی گرمجوشی کے ساتھ مرحبا کہا، اسی طرح اس کے وزیروں نے بھی کیا اور مامون نے امام علیہ السلام کو ایک مخصوص گھر میں رکھا جو مختلف قسم کے فرش اور خدم و حشم سے آراستہ کیا گیا تھا۔
مامون کی طرف سے امام رضا علیہ السلام کو خلافت کی پیش کش:
مامون نے امام علیہ السلام کے سامنے خلافت پیش کی، اس نے رسمی طور پر یہ کام انجام دیا اور امام علیہ السلام کے سامنے یوں خلافت پیش کر دی:
اے فرزند رسول ﷺ مجھے آپ علیہ السلام کے فضل، علم، زہد، ورع اور عبادت کی معرفت ہو گئی ہے، لہٰذا میں آپ علیہ السلام کو اپنی خلافت کا سب سے زیادہ حقدار سمجھتا ہوں۔
امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:
میں دنیا کے زہد کے ذریعہ آخرت کے شر سے چھٹکارے کی امید کرتا ہوں اور حرام چیزوں سے پرہیز گاری کے ذریعہ اخروی مفادات کا امید وار ہوں، اور دنیا میں تواضع کے ذریعہ خداوند سے رفعت و بلندی کی امید رکھتا ہوں ۔۔۔۔مامون نے جلدی سے کہا:میں خود کو خلافت سے معزول کر کے خلافت آپ علیہ السلام کے حوالے کرنا چاہتا ہوں۔امام علیہ السلام پر مامون کی باتیں مخفی نہیں تھیں، اس نے امام علیہ السلام کو اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کی وجہ سے خلافت کی پیشکش کی تھی، وہ کیسے امام علیہ السلام کے لیے خود کو خلافت سے معزول کر رہا تھا، جبکہ اُس نے کچھ دنوں پہلے خلافت کے لیے اپنے بھائی امین کو قتل کیا تھا؟
امام علیہ السلام نے مامون کو یوں صاف جواب دیا:
اگر خلافت تیرے لیے ہے تو تیرے لیے اس لباس کو اُتار کر کسی دو سرے کو پہنانا جائز نہیں ہے کہ جس لباس کو اللہ نے تجھے پہنایا ہے، اور اگر خلافت تیرے لیے نہیں ہے تو تیرے لیے اس خلافت کو میرے لیے قرار دینا جائز نہیں ہے۔ مامون برہم ہو گیا اور غصہ میں بھر گیا اور اس نے امام علیہ السلام کو اس طرح دھمکی دی: آپ علیہ السلام کو خلافت ضرور قبول کرنا ہو گی۔امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:میں ایسا اپنی خوشی سے نہیں کروں گا۔ امام علیہ السلام کو یقین تھا کہ یہ اُس (مامون) کے دل کی بات نہیں ہے، اور نہ ہی اس میں وہ جدیت سے کام لے رہا ہے کیونکہ مامون عباسی خاندان سے تھا کہ جو اہل بیت علیہ السلام سے بہت سخت کینہ رکھتے اور انھوں نے اہل بیت علیہم السلام کا اس قدر خون بہایا تھا کہ اتنا خون کسی نے بھی نہیں بہایا تھا تو امام اُس پر کیسے اعتماد کرتے ؟
ولی عہدی کی پیشکش:
جب مامون امام علیہ السلام سے خلافت قبول کروانے میں مایوس ہو گیا تو اس نے دوبارہ امام علیہ السلام سے ولیعہدی کی پیشکش کی تو امام علیہ السلام نے سختی کے ساتھ ولیعہدی قبول نہ کرنے کا جواب دیا ، اس بات کو ہوئے تقریباً دو مہینے سے زیادہ گزر چکے تھے اور اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آ رہا تھا اور امام علیہ السلام حکومت کا کوئی بھی عہدہ و منصب قبول نہ کرنے پر مصر رہے۔
امام علیہ السلام کو ولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کرنا:
جب مامون کے تمام سیاسی حربے ختم ہو گئے کہ جن سے وہ امام علیہ السلام کو ولی عہدی قبول کرنے کے لیے قانع کرنا چاہتا تھا تو اُس نے زبردستی کا طریقہ اختیار کیا اور اس نے امام علیہ السلام کو بلا بھیجا تو آپ علیہ السلام نے اُس سے فرمایا:خدا کی قسم جب سے پروردگار عالم نے مجھے خلق کیا میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور مجھے نہیں معلوم کہ تیرا کیا ارادہ ہے ؟مامون نے جلدی سے کہا: میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔امام نے فرمایا: میرے لئے امان ہے ؟مامون نے کہا: ہاں آپ علیہ السلام کے لیے امان ہے۔تیرا ارادہ یہ ہے کہ لوگ یہ کہیں کہ علی ابن موسیٰ علیہ السلام نے دنیا میں زہد اختیار نہیں کیا، بلکہ دنیا نے ان کے بارے میں زہد اختیار کیا، کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ انھوں نے خلافت کی طمع میں کس طرح ولی عہدی قبول کر لی؟مامون غضبناک ہو گیا اور اُس نے امام علیہ السلام سے چیخ کر کہا:آپ علیہ السلام ہمیشہ مجھ سے اس طرح ملاقات کرتے ہیں کہ جسے میں ناپسند کرتا ہوں اور آپ علیہ السلام میری سطوت جانتے ہیں، خدا کی قسم یا تو ولی عہدی قبول کر لیجئے ورنہ میں زبردستی کروں گا، قبول کر لیجئے ورنہ میں آپ علیہ السلام کی گردن اڑا دوں گا۔
امام علیہ السلام نے خدا کی بارگاہ میں تضرّع کیا:
خدایا تو نے مجھے خود کشی کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ میں اس وقت مجبور و لاچار ہو چکا ہوں ، کیونکہ عبد اللہ مامون نے ولیعہدی قبول نہ کرنے کی صورت میں مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے، میں اس طرح مجبور ہو گیا ہوں کہ جس طرح جناب یوسف علیہ السلام اور جناب دانیال علیہ السلام مجبور ہوئے تھے، کہ اُن کو اپنے زمانے کے جابر حاکم کی ولایت عہدی قبول کرنی پڑی تھی،امام علیہ السلام نے نہایت مجبوری کی بناء پر ولی عہدی قبول کر لی حالانکہ آپ علیہ السلام بڑے ہی مغموم و محزون تھے۔
امام رضا علیہ السلام کی شرطیں:
امام نے مامون سے ایسی شرطیں کیں کہ جن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ علیہ السلام کو اس منصب کے قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ وہ شرطیں مندرجہ ذیل ہیں :
آپ علیہ السلام کسی کو ولی نہیں بنائیں گے۔
کسی کو معزول نہیں کریں گے۔
کسی رسم و رواج کو ختم نہیں کریں گے۔
حکومتی امور میں مشورہ دینے سے دور رہیں گے۔
مامون نے اِن شرطوں کے اپنے اغراض و مقاصد کے متصادم ہونے کی وجہ سے تسلیم کر لیا۔
امام رضا علیہ السلام کی بیعت:
مامون نے امام رضا علیہ السلام کو ولی عہد منتخب کرنے کے بعد اُن کی بیعت لینے کی غرض سے ایک جشن منعقد کیا جس میں وزراء، فوج کے کمانڈر، حکومت کے بڑے بڑے عہدیدار اور عام لوگ شریک ہوئے اور سب سے پہلے عباس ابن مامون، اس کے بعد عباسیوں اور ان کے بعد علویوں نے امام علیہ السلام کی بیعت کی۔لیکن بیعت کا طریقہ منفرد تھا کہ جس سے عباسی بادشاہ مانوس نہیں تھے، امام نے اپنا دست مبارک بلند کیا جس کی پشت امام علیہ السلام کے چہرہ اقدس کی طرف تھی اور ہاتھ کا اندرونی حصہ لوگوں کے چہروں کی طرف تھا ، مامون یہ دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ گیا اور امام علیہ السلام سے یوں گویا ہوا:آپ علیہ السلام بیعت کے لیے اپنا ہاتھ کھولیے۔امام علیہ السلام نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ اسی طرح بیعت لیا کرتے تھے۔
(مقاتل الطالبین، ص 455)
لہٰذا بیعت کرنے والے کا ہاتھ نبی اور امام علیہ السلام کے ہاتھ سے اوپر ہونا صحیح نہیں ہے۔
(حیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام،ج 2 ،ص 303)
مامون کا امام رضا علیہ السلام سے خوف و رعب:
ابھی امام رضا علیہ السلام کو ولی عہد بنے ہوئے کچھ ہی مدت گزری تھی کہ مامون آپ علیہ السلام کی ولی عہدی کو ناپسند کرنے لگا، چاروں طرف سے افراد آپ علیہ السلام کے گرد اکٹھے ہونے لگے اور ہر جگہ آپ علیہ السلام کے فضل و کرم کے چرچے ہونے لگے ہر جگہ آپ علیہ السلام کی فضیلت اور بلند شخصیت کی باتیں ہونے لگیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ خلافت کے لیے زیادہ شایانِ شان ہیں۔بنی عباس چور اور مفسد فی الارض ہیں، مامون کی ناک بھویں چڑھ گئیں اس کو بہت زیادہ غصہ آ گیا، اور مندرجہ ذیل قانون نافذ کر دیئے :
اُس نے امام کے لیے سخت پہرے دار معین کر دیئے، کچھ ایسے فوجی تعینات کی کہے جنہوں نے امام علیہ السلام کا جینا دو بھر کر دیا اور نگہبانوں کی قیادت ہشام ابن ابراہیم راشدی کے سپُرد کر دی کہ جو امام علیہ السلام کی ہر بات مامون تک پہنچاتا تھا۔
اُس نے شیعوں کو امام علیہ السلام کی مجلس میں حاضر ہو کر آپ علیہ السلام کی گفتگو سننے سے منع کر دیا، اس نے اِس کام کے لیے محمد ابن عمر و طوسی کو معین کیا جو شیعوں کو بھگاتا اور ان کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتا تھا۔
علماء کو امام علیہ السلام سے رابطہ رکھنے اور اُن کے علوم سے استفادہ کرنے سے بھی منع کر دیا گیا۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button