سلائیڈرسیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا باطل پر حق کی فتح

آیت اللہ العظمی صافی گلپایگانی
یہ جان لینا چاہئے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے یہ اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے طفیل ہے۔ اگر آپ ان ہستیوں کے علاوہ دوسرے انسانوں کی کہی گئی باتوں کو ملاحظہ کریں تو معلوم ہو گا کہ وہ کسی طرح سے بھی (اس ذات سے) متصل نہیں ہیں اور ان پر اعتماد نہیں کر سکتے۔
بسم الله الرحمن الرحيم
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے باعظمت مقام اور آپ کے وجودکی برکتوں کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں اور کہاں سے شروع کرنا چاہئے؟ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا تعلق اس اہل بیت عصمت و طہارت سے ہے کہ جن کے وجود کی وجہ سے خداوند متعال نے کائنات کو خلق کیا اور اس بارے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
لَوْ لَا نَحْنُ مَا خَلَقَ‏ اللهُ‏ آدَمَ‏ وَ لَا حَوَّاءَ وَ لَا الْجَنَّةَ وَ لَا النَّارَ وَ لَا السَّمَاءَ وَ لَا الْأَرْض
عيون اخبار الرضا علیہ السلام؛ ج1، ب26، ح22
یعنی اگر ہم نہ ہوتے تو خداوند متعال نہ تو آدم کو خلق کرتا اور نہ حوا کو، نہ تو جنت کو خلق کرتا اور نہ جہنم کو، نہ تو آسمان کو خلق کرتا اور نہ زمین کو۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے معاویہ کو لکھے گئے خط میں رقم فرمایا ہے:
فَإِنَّا صَنَائِعُ رَبِّنَا وَ النَّاسُ‏ بَعْدُ صَنَائِعُ لَنَا
نہج البلاغہ، نامہ28
یہ عبارت معنی کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔کچھ لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس روایت کا معنی یہ ہے لوگ ہمارے مکتب کے پروردہ اور تربیت یافتہ ہیں لیکن حقیقت میں یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اس روایت کا معنی یہ ہے خلقت کا اصل ہدف محمد و آل محمد علیہم السلام کا وجود ہے ۔
یا حدیث قدسی کا جملہ کہ جس میں خداوند عالم فرماتا ہے:خَلَقْتُكَ لِأجْلِي
الجواهر السنية؛ شيخ حر عاملي، ص710
میں نے تمہیں اپنے لئے خلق کیاہے
اور دوسری حدیث میں فرمایا:لَوْلَاكَ مَا خَلَقْتُ‏ الْأَفْلَاكَ‏
بحار الانوار ج15،ب1، ح48
اگر تم نہ ہوتے تو میں کائنات کو خلق نہ کرتا
انسان بالکل یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ خداوند متعال کے اس فرمان کے کیا معنی ہیں کہ میں نے تمہیں اپنے لئے خلق کیا اور پوری کائنات کو تمہارے لئے خلق کیا ؟
ان فرامین سے صرف یہی سمجھاجا سکتا ہے کہ ان کا خداوند متعال کے ساتھ رابطہ بہت گہرا اور بلندو بالا ہے کیونکہ خداوند خود ارفع و اعلیٰ ہے۔البتہ خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عجز و ناتوانی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مَا عَرَفْنَاكَ‏ حَقَ‏ مَعْرِفَتِكَ
بحار الانوارج68،ص61، ح1
یعنی ہم نے تمہیں اس طرح نہیں پہچانا جس طرح تمہاری معرفت کا حق تھا۔
یہ جان لینا چاہئے کہ ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے یہ اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے طفیل ہے۔ اگر آپ ان ہستیوں کے علاوہ دوسرے انسانوں کی کہی گئی باتوں کو ملاحظہ کریں تو معلوم ہو گا کہ وہ کسی طرح سے بھی (اس ذات سے) متصل نہیں ہیں اور ان پر اعتماد نہیں کر سکتے۔مکتب اہل بیت علیہم السلام میں ہر چیز موجود ہے اور پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
إنّي تاركٌ فيكُمُ الثّقلين كتاب الله وَ عِتْرَتي
بیشک میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے کا رہا ہوں کتاب خدا اور اپنی عترت و اہل بیت۔ اس سے یہ مراد ہے کہ ہر چیز اہل بیت علیہم السلام سے اخذ کی جائے اور ان کے علاوہ کسی سے کچھ اخذ نہ کیا جائے۔حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہ ان سے آگے بڑھو اور نہ پیچھے رہ جاؤ کیونکہ اگر آگے بڑھے تو گمراہ ہو جاؤ گے اور اگر پیچھے رہ گئے تو ہلاک ہو جاؤ گے. نیز آپ نے فرمایا: لاتُعَلِّمُوهُم فإنَّهُم أعْلَمُ مِنْكُم
انہیں کوئی چیز تعلیم نہ دو ،کیونکہ یہ تم سب لوگوں سے اعلم ہیں۔اب اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے درمیان ایک خاص محوریت ہے؛ ملاحظہ فرمائیں کہ جب اہلبیت علیہم السلام کا تعارف کروایا تو سیدۂ دو عالم جناب زہراء سلام اللہ علیہا مرکزیت کی حامل ہیں هُمْ ‏فَاطِمَةُ وَ أبُوهَا وَ بَعْلُهَا وَ بَنُوهَا
عوالم العلوم، ص933
اہلبیت علیہم السلام میں سے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا ایک خاص مقام و عظمت کی مالک ہیں اور تمام ائمہ اطہار علیہم السلام ان کے وجود پر افتخار کرتے ہیں۔در حقیقت اہل بیت علیہم السلام کے ہر فرد کے لئے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا حجت ہیں۔یعنی وہ اپنی حقانیت کو اور غاصبوں اور ستمگروں کے بطلان کو اسی ہستی کے ذریعہ ثابت کرتے ہیں۔تمام اہل بیت علیہم السلام حجت ہیں لیکن ان جہات سےحضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی حجیت سب سے زیادہ ہے.
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سيدة نساء العالمين، بضعة الرسول و قرينة وليّ الله، حکم قرآن سے مباہلہ میں شریک واحد خاتون ہیں نیز اہل بیت علیہم السلام سے بھی وہ واحد خاتون ہیں کہ جو اپنے بابا،شوہر اور بیٹوں کی طرح مقام عصمت و طہارت سے آراستہ ہیں۔ اور وہ مورد اجتماع کہ جس میں حتی امّ سلمہ کو بھی حاضر ہونے کی اجازت نہ ملی اور انہیں بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے إنّكِ على الخير کہہ کر رخصت کر دیالیکن وہاں بھی شریک ہونے والی تنہا خاتون حضرت زہراء سلام اللہ علیہا تھیں۔مقام نبوت کے علاوہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہ ااخلاق،علم اور کمالات کے اعتبار سے اپنے بابا کی طرح اصل نسخہ کے عین مطابق تھیں اور تمام ائمہ علیہم السلام کی طرح آنحضرت کی سيرت اور کرداروگفتار بھی دین و شریعت میں احکام الٰہی کی دلیل ہیں۔
آپ علم و ہدایت کے لحاظ سے مقام امامت پر فائز اور صدر اسلام میں بھی عصمت و عفت اور کرامت کے لحاظ سے اسوہ ہیں۔گھر سے باہر کے امور میں مصروفیت اور نامحرم مردوں کے ساتھ کام کرنا کسی بھی باوقار اور باعفت خاتون کی شان کے خلاف ہے تو پھر وہ خاتون کہ جس کی شان میں یہ فرمایا گیا :«إنّ اللهَ تَعَالى يَغْضِبُ لِغَضَبِ فَاطِمة وَ يَرْضى لِرِضَاهَا» اس سے یہ امر محال ہے۔
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا عظیم معجزہ
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے معجزات میں سے ایک معجزہ آپ کا فی البدیہہ خطبہ ہے۔حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت اور اس کے بعد کے دیگر مصائب کے باوجود آپ نے ایسا خطبہ دیا کہ جو فصاحت و بلاغت کی معراج ہے۔ امیر المومنین علی علیہ الصلاۃ و السلام امام البلغاء اور امیرالفصحاء ہیں لیکن آپ فرماتے ہیں:
إِنَّا لَأُمَرَاءُ الْكَلَامِ‏ وَ فِينَا تَنَشَّبَتْ عُرُوقُهُ وَ عَلَيْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُونُه
نہج البلاغہ، خ233
گرچہ اس وقت کا ماحول یہ اجازت نہیں دیتا تھا ایسا جامع، ناطق،جاوداں اور منہ توڑ خطبہ دیا جائے۔حضرت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا کی عظمت باعث بنی کہ اس تاریخی اجتماع میں بڑے بڑے حاکم بھی آپ کو خطبہ دینے سے نہ روک سکے۔ اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حاضر ہو گئے ہوں اور جب یہ حقائق بیان ہو رہے تھے تو وہاں موجود بہت سے لوگ گریہ کر رہے تھے۔بہر حال!اس خطبہ میں بہت اعلیٰ مطالب موجود ہیں اور یہ اہلبیت علیہم الصلاۃ و السلام کے معجزات میں سے ہے۔لہذا بلاغات النساء جیسی کتاب میں اس خطبہ کو نقل کیا گیا کہ جو دوسری صدی ہجری میں لکھی گئی۔حضرت زہراء سلام اللہ علیہا بے شمار فضائل کی حامل ہیں ؛پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہی مشہور حدیث کہ إِنَّ اللهَ تَعَالَى يَغْضَبُ‏ لِغَضَبِ‏ فَاطِمَةَ وَ يَرْضَى لِرِضَاهَا
صحيفه امام رضا علیہ السلام، ص45،ح22
اختصار کے باوجود اس میں اہم اور بلند و بالا معنی پائے جاتے ہیں حقائق اور اہم مطالب میں حضرت مہدی علیہ ‌السلام تک اس روایت سے استفادہ کیا جائے گا،یا وہ حدیث کہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو تسکین و اطمینان دلاتے ہوئے ارشاد فرمائی:أبشري يا فَاطِمة إنّ المَهْدِيّ منك
البرهان متقي هندی، ص94
اے فاطمہ!میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ مہدی تم میں سے ہیں۔ یہ بہت اہم ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم امکان کے پہلے شخص ہیں،اور آپ اپنی عزیز بیٹی کو آئندہ پیش آنے والے مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار کرتے ہیں اور اس طرح سے تسلی دیتے ہیں کہ مہدی تم میں سے ہے۔یعنی سب کچھ تجھ سے ہے اور تیرے لئے ہے اور دنیا کی بازگشت تیری طرف ہے،باطل پر حق اور ظلمت پر نور کی فتح تیرے لئے ہی ہے۔بہر حال حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی عظمت و شأن میں بے شمار فرامین ہیں۔
ایام فاطمیہ منانا لازم ہے۔ایّام فاطمیہ،مواضع فاطمہ،سیرت فاطمہ، زہد فاطمہ، عبادت فاطمہ، علم و حکمت فاطمہ ہمیشہ منشور کا لازمی جزء ہونے چاہئیں ۔تقاریر و تالیفات اور ہر مناسب موقع پر انہیں بیان کرنا چاہئے۔ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا پر ہونے والے مصائب اس قدر فاش و آشکارہیں کہ حتی ابن اثیر بھی کتاب’’النهاية ‘‘میں کہ اس کا مؤلف سنّی ہے اور یہ لغت کی کتاب ہے رحلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کے ان مصائب کو ذکر کرنے سے گریز نہیں کر سکا اور اس نے یہ مصائب سب کے لئے بیان کئے ہیں۔
ابن اثیر کتاب النهاية ، لغت (هنبث) میں حضرت زہراء علیہا السلام سے استشہاد کرتے ہوئے دو اشعار ذکرکرتا ہے کہ جو اسلام کی اس یگانہ خاتون پر ہونے والے مظالم و مصائب اور ہتک حرمت کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہر کوئی اور ہر آگاہ شخص ان اشعارسے سب کچھ سمجھ سکتا ہے۔یہ اشعارحضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی تکالیف کی شدت،رنج و غم اور واقع ہونے والے واقعات پر آپ کے اعتراض کو بیان کرتے ہیں کہ آپ اپنے باباسے خطاب کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
قَدْ كانَ بَعْدَك أنباء وَ هَنْبَثة لَو كُنتَ شاهدَها لم يكثر الخُطَب
إنّا فَقَدْناك فَقْد الأرضِ وابلَها فَاختل قومُك فاشْهدهم وَ لاتَغب
لوگوں کے لئے تاریخ کو بیان کرنا چاہئے اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے کلمات اور بالخصوص آپ کا وہ عظیم اور فصیح و بلیغ خطبہ لوگوں کے کانوں تک پہنچانا چاہئے۔ان ایام فاطمیہ میں حضرت زہراء ء سلام اللہ علیہا کی ملکوتی شخصیت کی تجلیل و تعظیم کی جائے اور ان ایام میں سب لوگ اسلام کی اس عظیم خاتون دختر پیغمبر رحمت حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام سے اپنی مودت و عقیدت کو ثابت کریں۔آج ہمیں شدت سے آنحضرت کی ضرورت ہے۔
ہمارے سماج کو شوہر داری اور اولاد کی تربیت کی روش کی ضرورت ہے کہ آنحضرت بہترین طریقہ و روش کی حامل تھیں۔آج جناب فاطمہ زہراءعلیہا السلام کے کلمات تمام خواتین بلکہ مردوں کی زندگی کے لئے بھی نمونۂ عمل ہیں اور آنحضرت نے دنیا تک عورت کی کرامت اور حقیقی مقام پہنچایا اور فرمایا: بہترین عورت وہ ہے کہ نہ وہ نامحرم مرد کو دیکھے اور نہ ہی نامحرم مرد اسے دیکھیں۔
اسی وجہ سے حضرت زہراء علیہ ا السلام آج تک اور تا قیامت آگاہ و خداپرست اور حق کی جستجو کرنے والے افراد کے دلوں میں زندہ ہیں۔فاطمیہ ایک تاریخ ہے ،فاطمیہ یعنی ظالموں کے خلاف فریاد،ٖفاطمیہ یعنی باطل پر حق کی فتح کے لئے جہاد، اور بالآخر فاطمیہ یعنی حضرت مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی الٰہی و عالمی حکومت کا قیام جی ہاں! فاطمیہ عاشورا ہے، ‌فاطمیہ شب قدر ہے، فاطمیہ، غدیراور نیمہ شعبان ہے اور فاطمیہ یعنی ظلمت پر نور کی فتح کا دن۔
جناب فاطمۂ زہراء ءعلیہا السلام کے فضائل کی ایک جھلک میں دین اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی ولایت،اسلام و قرآن اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کی دعوت اور بطور کل رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی تبلیغ ہونی چاہئے۔بدعتوں،اجنبیت،گناہ و فساد،جہالت و گمراہی سے مقابلہ کرنا چاہئے۔اہل بیت علیہم السلام کا مکتب معرفت، علم و بیداری، آگاہی و عدالت ، مساوات، عقلی رشد اور نورانی افکار کا مکتب ہےاور ہم سب کو چاہئے کہ ہم اس فرصت سے مستفید ہوتے ہوئے انہیں بیان کریں اور ہم سب کو ایّام فاطمیہ کی نورانی مجالس کا احسان مند ہونا چاہئے اور ان کی برکتوں سے بطور کامل استفادہ کرنا چاہئے اور خداوند متعال کی بارگاہ میں موفور السرور ،یوسف زہراء ء، عزیز فاطمہ حضرت امام مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور میں تعجیل کی دعا کرکے اپنی اہم ذمہ داری ادا کریں۔
اللّهم عجل فرجه الشريف و اجعلنا من أعوانه و أنصاره و المستشهدين بين يديه
https://wifaqtimes.com/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button