ولایت علیؑ

تحریر: حسین بشیر سلطانی
وہ کون سی ہستی ہے جسکی پیدائش بیت اللہ میں ہوئی اور جس نے کعبہ کو عزت بخشی ؟ کون ہے وہ جس کے علم پر "أنا مدينة العلم وعلي بابها” کی مہریں ثبت ہوں؟ کون تھا جس نے دوش نبی پہ چڑھ کر بتوں کو توڑا؟ صاحبِ علم کتاب، راسخون فی العلم و عروۃ الوثقی، کون ہے ؟عین اللہ ، یداللہ و نور اللہ جن کی ولایت آفتابِ ہدایت ہے۔ وہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں جو ، نورِ معرفت کا وہ مینار ہے جو ہر صدی کے اندھیروں کو چیرتا ہے۔ وہ زہد کا پیکر، عدل کا معیار، علم کا سمندر اور بندگی کا راز ہے۔ آپ کی زبان سے حکمت پھوٹتی ہے، سکوت میں بصیرت چھپی ہےاور کردار میں قرآن مجسم دکھائی دیتا ہے۔ علی علیہ السلام دنیا کے ہجوم میں تنہا سچ کا علمبردار ہے، جو خلافت کو جاہ نہیں بلکہ ذمہ داری قرار دیا۔ وہ دلوں کے زخموں پر مرہم ہےاور عقلوں کے سفر کا رہنما۔ مولائے کائنات علیہ السلام صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک مکتب ہے — ایسا مکتب جو انسان کو اُس کی اصل پہچان تک لے جاتا ہے۔
محترم قارئین کرام! ولایت و امامت کوئی اختیاری شئی نہیں، یہ اسی طرح واجب ہے جیسے نماز، روزہ، حج اور زکات۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن، جو کلام الٰہی ہے، اور حدیث، لبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیضان ہے، دونوں علیؑ کی ولایت کے آئینہ دار ہیں۔
﴿إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاَةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ﴾ (المائدة: 55)
جب سائل نے مسجد میں صدا بلندکی اور سب خاموش رہے، ایک ہی ہاتھ بڑھا، ایک ہی انگوٹھی اتری، اور ایک ہی رکوع مقبول ہوا۔ وہ ہاتھ علیؑ کا تھا، وہ رکوع علیؑ کا تھا، اور وہ انفاق علیؑ کا تھا دراصل یہ اعلانِ ولایت تھا جس کی حدیں اتنی وسیع ہیں کہ علی علیہ السلام کی زکوٰۃ حضرت سلمان علیہ السلام کی پوری حکومت قرار پائی یعنی اہل سنت کی بعض عظیم شخصیات نے کہا کہ وہ انگوٹھی جو مولائے کائنات نے حالت رکوع میں بطور زکوٰۃ دی وہ وہی انگوٹھی تھی جس کے ذریعے حضرت سلیمان علیہ السلام اپنی نادر و نایاب حکومت کو کنٹرول کرتے تھے۔ خیر ہمارا مقصد فضائلِ علی علیہ السلام نہیں بلکہ حق ولایتِ علی علیہ السلام کو ثابت کرنا ہے۔
آیہ ولایت کے بارے میں اہلِ سنت کی معتبر تفاسیر—از قبیل زمخشری، فخرالدین رازی، اور طبری—نے بھی مانا کہ یہ آیت علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اس آیت میں اللہ نے اپنی ولایت، رسولؐ کی ولایت اور علیؑ کی ولایت کو ایک ہی لڑی میں پرو دیا—کیا کسی اور کے لیے یہ شرف نازل ہوا؟
﴿يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ﴾ (المائدة: 67)
یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی جب حجة الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے میدان پر پالانوں کا نایاب ممبر بنا اور اعلانِ ولایت مکمل ہوا۔ اگرچہ نبوت کا ہر پیغام مکمل ہو چکا تھا، مگر علیؑ کی ولایت کا اعلان ابھی باقی تھا۔ رسولؐ نے فرمایا:
"من کنت مولاه فهذا علي مولاه، اللهم وال من والاه وعاد من عاداه…”
(حدیث متواتر، اہل سنت کی معتبر کتب: مسند احمد، ترمذی، نسائی، مستدرک حاکم وغیرہ)۔
کیا یہ ولایت فقط دوستی تھی؟ نہیں، "مولا” صرف دوست نہیں، نگہبان، سرپرست، حاکم، اور امام کے معانی رکھتا ہے۔ خود رسولؐ نے اسی خطبے میں فرمایا: "ألست أولى بكم من أنفسكم؟” پھر فرمایا: "من كنت مولاه فهذا علي مولاه"۔ یہ خلافت علیؑ کا کھلم کھلا اعلان تھا، نہ کہ صرف محبت کا مشورہ کیونکہ مودت کا حکم تو پہلے بھی قرآن میں نازل تھا، یہاں "مولا” کا اعلان ایک سماجی، سیاسی، اور دینی قیادت کی تفویض تھی۔
﴿اليوم أكملت لكم دينكم واتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام ديناً﴾ (المائدة: 3)
غدیر کے اعلان کے فوراً بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ امام فخر الدین رازی، قرطبی، ابن کثیر، اور دیگر مکتب اہل سنت کے جید مفسرین کے مطابق یہ آیت غدیر خم میں علیؑ کی ولایت کے اعلان کے بعد نازل ہوئی۔ یعنی دین اُس وقت مکمل ہوا جب علیؑ کی ولایت کو نبوت کے بعد کا وارث بنایا گیا۔ کیا دین بغیر امام کے مکمل ہو سکتا ہے؟
"یا علی! أنت مني بمنزلة هارون من موسى، إلا أنه لا نبي بعدي” (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
جس طرح ہارونؑ موسیٰؑ کے وزیر، بھائی، جانشین، اور شریکِ رسالت تھے، ویسے ہی علیؑ کو رسولؐ نے اپنی جگہ قرار دیا۔ اور ساتھ وضاحت بھی کر دی کہ صرف نبوت باقی نہیں بلکہ باقی تمام مناصبِ ہارونیہ علیؑ میں موجود ہیں۔
یہاں ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا نبی کے بعد نبی ہی وصی بنے گا؟
یہ کوئی ثابت حقیقت نہیں ہے ،نہ قرآن مجید میں ایسا کوئی اشارہ آیا ہے ۔ کون یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے وصی سارے کے سارے نبی ہی تھے؟ کیا قدرت خدا چاہے تو غیر نبی کو وصایت کے لئے منتخب نہیں کرسکتی. یہ استدلال ہی بنی اسرائیلی استدلال ہے کہ نبی ہی نبی کا وصی ہوگا ورنہ ہم نہیں مانیں گے۔
جب رسول اللہؐ نے نبوت کے آغاز میں اہلِ قریش کو دعوت دی اور فرمایا: "کون ہے جو میری نصرت کرے؟اس وقت صرف علیؑ اٹھے تو آپؐ نے فرمایا:
"ھذا أخي و وصیي و خليفتي فیکم” (تاریخ طبری، ابن اثیر)
نبوت کے آغاز میں علیؑ کو بھائی، وصی، اور خلیفہ کہنا ایک بلند مرتبہ اعلان تھا۔ جب اسلام کے پاس مال و دولت نہ تھی، تب بھی علیؑ ہی اسلام کا سرمایہ تھے۔ کیا خاتم النبیین نے اس وعدے کو پورا کیا؟ اگر نہیں تو بتائیں کہ کیا عہد شکن شخص کو قرآن کریم نے بدترین لوگوں میں شمار نہیں کیا؟ نعوذباللہ ،کیا آپ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ایسی بے سروپا باتیں منسوب کرکے توہین رسالت نہیں کر رہے ہیں؟
"مثل اهل بيتي كسفينة نوح، من ركبها نجا، ومن تخلف عنها غرق وهوىٰ” (مسند احمد، مستدرک حاکم)
اہلِ بیتؑ کی قیادت کو کشتی نوحؑ کہا گیا، اور اس کشتی کا بادبان اور امام علیؑ ہیں جو اس سفینہِ نجات سے ہٹ گیا، وہ فنا ہوا۔ یعنی دیکھئے کس کا مکتب بادشاہوں کی سہولت کا موجب بنا ہو اہے اور کس نے اپنا سب کچھ قربان کرکے دین اور مکتب کی حفاظت کی ہے؟ کن کے فیصلے قرآن مجید کے بنیادی قوانین کو پائمال کرتے ہیں؟
مکتبِ علی علیہ السلام کے علاوہ کون سا مکتب ہے جو آج کے فرعونوں کو للکاراتا ہے اور مظلوموں کی حمایت کرتا ہے؟کیونکہ یہ مکتب وہی قرآنی مکتب ہے جس کی بنیاد نبوی ہے۔ اگر نبوت ایک شمع ہو تو ولایتِ علیؑ اس کی لو ہے۔ اگر رسالت ایک باغ ہے تو علیؑ اس کا دروازہ ہے ۔ اگر قرآن ایک آئینہ ہے تو علیؑ اس کا عکسِ جمیل۔ اگر دین ایک جسم ہے تو علیؑ اس کی روح ہے۔ ولایت علیؑ کے بغیر دین بے حرکت جسم کی مانند ہےجس میں حرکت نہیں، حرارت نہیں، اور ہدایت نہیں۔
کیا خالقِ حکیم، دین کو بغیر وارث کے چھوڑے گا؟ کیا رسولؐ، جو ہر شئی کی تعلیم دیتا ہے، امت کو بغیر رہبر کے چھوڑ سکتا ہے؟ نہیں، مولا علیؑ کو ولی بنا کر، خدا نے اپنے دین کو محفوظ کیا ہے۔ مولائے کائنات وہ دریا ہیں جن سے ہر علم کا سمندر پھوٹا، وہ شمشیر ہیں جن سے باطل کی گردن کٹی، وہ زبان ہیں جس سے کلامِ حق جاری ہوا اور توحید جیسے مرکزی موضوع پر آپ نے فصیح و بلیغ خطبے دیئے۔
غیر عقلی اعتراضات کا مدلل جواب۔
1۔”صحابہ سب برابر تھے، علیؑ کی فضیلت الگ نہیں”
اگر سب برابر تھے تو صرف علی علیہ السلام کے رکوع کو قرآن مجید نے اتنی فضیلت کیوں دی، علی کی جنگیں، علی کا مباہلہ میں بلانا جیسے توحیدی معرکۃ الآرا میدانوں میں آپ کے حق میں قرآنی آیتوں کا نزول کیوں نازل ہوا؟ باقی اس شرف سے کیسے مشرف نہ ہوئے؟
اگر سب برابر تھے تو "انا مدينة العلم” کا دروازہ صرف علیؑ ہی کیوں؟
اگر سب برابر تھے تو "من کنت مولاه” صرف علیؑ کے لیے کیوں کہا؟ دعوت ذوالعشیرہ کا وعدہ صرف علی سے مخصوص کیوں؟
اگر سب برابر تھے تو بدر، احد، خندق، خیبر، ہجرت اور اہم معرکوں میں علیؑ کیوں نمایاں ہوئے اور باقی کیوں نہیں؟
2۔”ولایت صرف محبت ہے، قیادت نہیں”
محبت تو تمام مومنین سے مطلوب ہے، پھر اس اعلان کی کیا خاص اہمیت ہے؟
"مولا” کا مطلب لغت مفرداتِ راغب، سیاقِ حدیث، اور قرآنی الفاظ کی روشنی میں دیکھےتو ملتا ہے کہ مولا: و۔ل۔ی سے بنا ہے جس کا بنیادی معنی قرب، نزدیکی، تعلق، اور تصرف یعنی کسی چیز یا شخص پر اختیار رکھنا۔ وہ جو 70 اور 80 معنی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں وہ معنی اصلی پر نہیں بلکہ مصادیق کو معنی اصلی سمجھ کر واویلا کرتے ہیں دراصل یہ ان کی کم علمی اور اندھی تقلید ہے جس نے ان کا یہ حشر کردیا ہے ورنہ لفظ مولا کے صرف 70 نہیں بلکہ ہزاروں مصداق ڈھونڈے جاسکتے ہیں نہ کہ فقط دوست۔
روز غدیر حسان بن ثابت کے اشعار جسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان ولایت امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے بعد پڑھنے کا حکم دیا تھا یعنی یہ ایک طرح سے تائید تھی؛ بتائیں اس تائید کا کیا بنے گا؟
اگر صرف محبت تھی تو ولایت کے اعلان کے بعد "اليوم اكملت لكم دينكم” یعنی آیہِ ولایت کیوں نازل ہوئی؟
3۔”علیؑ کے فضائل تو ہیں، مگر خلافت اجماع سے طے ہوئی ہے”
کیا وحی سے طے شدہ خلافت کو اجماع منسوخ کر سکتا ہے؟ تو بتائیں دوسری اور تیسری خلافت ایک یا چند بندوں تک محدود کیوں کردی گئی؟ جبکہ سب کے سب صحابہ ستارے تھے!
اگر غدیر میں اعلان ولایت نہ تھا، تو اتنے صحابہ نے کیوں کہا: "بخٍ بخٍ لك يا علي، اصبحت مولاي ومولى كل مومن ومومنة"؟
کیا اجماع اصحاب کے فہم سے مقدم ہو سکتا ہے جن پر قرآن نازل ہوا؟ اگر ایک طرف سے دیکھیں تو اجماع اجماع کی رٹ لگانے والے بتائیں کیا یہ اجماع نہیں تھا۔
4۔”مولا علیؑ کا ذکر قرآن میں واضح نہیں”
قرآن کا اسلوب اشارات و رموز کا ہے، جس میں "صلوۃ” کا لفظ واضح آیا ہے، مگر اس کی تعداد نہیں، حج کا ذکر ہے مگر تفصیل نہیں، پھر علیؑ کا نام لینا ضروری کیوں؟ نام تو ابلیس کا بھی قرآن مجید میں آیا ہے ۔جبکہ ﴿إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ…﴾ جیسے الفاظ، "بلغ ما انزل"، "اکملت لکم دینکم” اور "اولی الامر” جیسے اشارات صراحت سے بڑھ کر دلیل ہیں۔
مولائے کائنات حضرت علیؑ علیہ السلام فقط ایک شخص نہیں، بلکہ نظام اور محورِ ہدایت ہیں۔ انکارِ علیؑ، گویا انکارِ ترتیبِ الٰہی ہے۔
کیا خالقِ حکیم دین کو بغیر وارث کے چھوڑے گا؟ کیا وہ رسولؐ جو وضو کے مسائل بھی تفصیل سے بتاتے ہیں، قیادت کا سوال تشنہ چھوڑ دے گا؟ نہیں، بلکہ علی علیہ السلام کو ولی بنا کر، اللہ تعالیٰ نے دین کی حفاظت، امت کی رہنمائی، اور قرآن کی حفاظت و تشریح کا بندوبست کر دیا ہے۔
ولایت علیؑ نہ فقط ایمان کی شرط ہے، بلکہ ہدایت کا راستہ، شریعت کی تفسیر، اور روحِ نبوت کا تسلسل ہے۔ جس نے علیؑ کو پہچانا، اس نے اللہ کو پہچانا، اور جس نے علیؑ کو چھوڑا، وہ خود گمراہ ہوا۔ ولایت علیؑ، چراغِ وحدت بھی ہے، درِ معرفت بھی، اور قفلِ نجات کی کنجی بھی۔