محافلمناقب رسول خدا صمناقب و فضائل

حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے القاب(حصہ اول)

آیۃ اللہ حسین مظاہری
آپ کا اسم گرامی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ,مشہور لقب احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مصطفیٰ اور مشہور کنیت ابوالقاسم ہے۔ جمعہ کے دن صبح کے وقت عام الفیل کے سال سترہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ وہی سال جس میں خداوند عالم نے ابابیل کے ذریعے اپنے گھر کی حفاظت کی اور ہاتھی والوں کو جو خانہ خدا کو ڈھانے کی غرض سے آئے تھے نابود کیا۔ آپ کی شہادت ۲۸ صفر ۱۱ہجری کو ایک یہودی عورت کے زہر دینے کی وجہ سے واقع ہوئی۔
۲۵ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے شادی کی۔ یہ وہی خاتون ہیں جن کا اسلام اور مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عام الفیل کے چالیسویں سال ۲۷ رجب المرجب کو مبعوث برسالت ہوئے۔ تیرہ سال تک مکہ میں کمر توڑ مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ کی۔ لیکن کفار قریش اسلام کی تبلیغ میں مانع ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی اور وہیں سے آپ نے اپنی رسالت کا پیغام دنیا میں پھیلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد حضرت عبداﷲ بن عبدالمطلب علیہ السلام عرب کے سرداروں میں سے تھے۔ تاریخ کی گواہی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و بزرگواری کے ہم پلہ بہت کم لوگ تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد ماجد نے شام کے سفر سے لوٹ کر مدینہ میں وفات پائی اور وہیں پر مدفون ہوئے۔ اس وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب علیہ السلام نے کی اور آپ کی رضاعت کے لیے دایہ مقرر کی جن کا نام حلیمہ سعدیہ رحمۃ اللہ علیہاتھا۔ ان خاتون کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پرورش ان کے ہاتھوں ہونے پر فخر کرتے تھے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رحمۃ اللہ علیہانے چھ سال تک پرورش کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ سلام اللہ علیہا کے پاس پہنچایا۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ محترمہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ اپنے والد کی قبر کی زیارت کے لیے مدینہ چلے گئے مگر وہاں سے واپسی پر راستے میں حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا نے وفات پائی اور حضرت ام ایمن سلام اللہ علیہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب علیہ السلام تک پہنچایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک آٹھ سال کی تھی تو حضرت عبدالمطلب علیہ السلام نے وفات پائی۔ اور ابوطالب علیہ السلام جیسے چچا اور فاطمہ بنت اسد علیہا السلام جیسی چچی نے ماں اور باپ بن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرورش کی۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یتیمی کا احساس نہ ہوا مگر اس کے ملال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم نے اس نکتے کی طرف ارشاد فرمایا :
أَ لَمْ يَجِدْكَ يَتيماً فَآوى‏ وَ وَجَدَكَ ضَالاًّ فَهَدَى‏ وَ وَجَدَكَ عَائلًا فَأَغْنى‏
کیا تمہیں یتیم نہیں پایا کہ پناہ دیدی؟ تمہیں راہ بھٹکتے دیکھا تو ہدایت دی اور آپ کو تنگ دست پایا تو مالدار کر دیا۔)الضحی 6-8)
اس بنا پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ یتیم ، غریب اور محتاج تھے مگر اس کے اثرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نہیں ملتے ہیں۔ کیونکہ خداوند عالم نے ابوطالب علیہ السلام جیسی ہستی کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پناہ دی ۔ اور حضرت خدیجہ علیہ السلام جیسی دولت مند خاتون کو شادی کے وقت جس نے یہ اعلان کیا کہ میری دولت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے اور میں خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیز ہوں، مالی ضروریات کی طرف سے خداوند عالم نے یوں بے نیاز کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مادر گرامی حضرت آمنہ علیہ السلام ایک عظیم خاتون تھیں۔ ان کی عظمت کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرافت ، کرامت اور عالی صفات اور معجزات اس قدر زیادہ ہیں،جن کی تفصیل دوسری مفصل کتابوں میں موجود ہے۔ چونکہ ہمیں یہاں اختصار مطلوب ہے اس لیے صرف ایک معجزے کے بیان پر اکتفا کرتے ہیں اور قرآن کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں جو کہا ہے اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد اختصار کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب کی تفسیر بیان کرتے ہیں اور آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے بارے میں کچھ بحث کرتے ہیں۔
مورخین کا لکھنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے دن دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ طاق کسریٰ میں شگاف پڑا ۔ اور اس کے کنگرے گر پڑے ، دریائے ساوہ خشک ہوا۔ آتش کدہ فارس جو کئی سالوں سے مسلسل جل رہا تھا بجھ گیا۔ اس دن دنیا کے تمام بادشاہ حیران و پریشان اور گونگے بن گئے تھے۔ تمام بت اوندھے منہ گرے تھے، اس دن ساحروں کا سحر بے اثر ہوگیا تھا۔ لا الہ الا اﷲ کا کلمہ گونج رہا تھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کی برکت سے عالم نور ہویا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لا الہ الا اﷲ کہا تو دنیا جہاں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمزبان ہو کرلا الہ الا اﷲ کہا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں قرآن کریم یوں فرماتا ہے۔
وَ كَذلِكَ جَعَلْناكُمْ أُمَّةً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُهَداءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهيداً
اسی طرح ہم نے تمہیں امت وسط قرار دیا تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم پر گواہ ہوں۔(البقرہ 143)
اس آیت کریمہ کے دو معنی ہیں اور یہ تعبیر ان دونوں معانی کی حامل ہے کہ امت اسلامی انسانیت کے معاشرے کے لیے نمونہ عمل ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت مسلمہ کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ لیکن ان آیت کے ایک اور عمیق معنی بھی ہیں جسے ائمہ علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے اور شیعہ مفسرین خصوصا ہمارے استاد محترم علامہ طباطبائی نے ان روایات کی پیروی کرتے ہوئے مفصل بحث کی ہے اور وہ معنی یہ ہیں کہ قیامت کے دن امت اسلامی لوگوں کےاعمال کی گواہ بننے والی ہے مگر یہ بات صریحی ہے کہ تمام امت والے اس کے لائق نہیں بلکہ یہ امر ائمہ معصومین علیہم السلام پر منحصر رہے گا۔ اہل بیت علیہم السلام کی بے شمار ایسی روایات موجود ہیں جو اس دوسرے معنی پر دلالت کرتی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ خداوند عالم نے ائمہ معصومین علیہم السلام کو اس لیے خلق فرمایا کہ وہ قیامت کے دن لوگوں کے اعمال کے گواہ بنیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے اعمال کے گواہ بنیں۔ اس دنیا میں گواہ کو تمام شرافتوں کا حامل ہونا چاہیے تاکہ وہ قیامت کے دن گواہ قرار پاسکے۔ اور اگر دنیا میں اس نے یہ مسائل نہ دیکھے ہوں تو قیامت کے دن گواہ نہیں ہو سکتا۔ لہذا ائمہ علیہم السلام کے لیے عالم ہستی کے محیط میں موجود ہونا چاہیے تاکہ ان کے اعمال پر مطلع ہوسکیں اور گواہی دے سکیں یہ وہی واسطہ فیض ہے جسے اصطلاح میں ولایت تکوینی کہا جاتا ہے اس صورت میں آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہوا کہ ائمہ علیہم السلام دنیا والوں کے لیے واسطہ فیض ہیں اور ان کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واسطہ فیض ہیں یہی معنی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عقل کا نور مطلق یا اول ما خلق اﷲ کہا گیا ہے۔
اس بارے میں بڑی طویل بحث ہے مگر اس مختصر کتاب میں اس کی گنجائش موجود نہیں۔ ہم نے اپنی کتاب ” قرآن میں امامت و ولایت ” پر نسبتا مفصل بحث کی ہے۔ تفصیل کے خواہشمند اس کا مطالعہ کریں۔ جو کچھ کہا جاسکتا ہے یہ ہے کہ بہت ساری آیات اور روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ ائمہ طاہرین علیہم السلام اس عالم کے لیے فیض کا واسطہ ہیں اور اس دنیا مین جو کچھ نعمت ملتی ہے جیسے کہ ظاہری نعمات مثلا عقل، سلامتی، رزق، تحفظ ، یا نعمات باطنی اور معنوی مثلا علم، قدرت ، اسلام، وغیرہ بھی ان حضرات کے وسیلے سے ہے۔ اور ان حضرات کا وجود جہاں ہستی میں احاطہ علی کی حیثیت رکھتا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ائمہ طاہرین علیہم السلام کے لیے واسطہ فیض ہے اور ان حضرات کے جو نعمات ظاہری اور باطنی میسر ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود با برکت کے ذریعے سے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود ان کے لیے احاطہ اعلی قرار پاتا ہے۔
اور ائمہ علیہم السلام سے جو روایات کہ ہم جو کچھ کہتے ہیں اور رکھتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ بھی رکھتے ہیں وہ خداوند عالم کی طرف سے ہے، کا مطلب بھی یہی ہے۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے لیے بہت سارے القاب وارد ہوئے ہیں جن میں سے ہم کچھ کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی تشریح کریں گے۔
1۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب میں سے ایک لقب احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انجیل میں بھی یہ لقب استعمال میں آیا ہے قرآن کہتا ہے :
وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتي‏ مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَد
حضرت عیسی علیہ السلام نے بشارت دی کہ میرے بعد ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے گا جس کا لقب احمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوگا۔(الصف آیت 6)
احمد کے معنی تعریف کرنے والے کے ہیں۔ یعنی جو شکر اور حمد کا حق بجا لائے وہ احمد ہے۔
ہم روایات میں پڑھتے ہیں کہ کثرت عبادت کی وجہ سے مورد اعتراض قرار پاتے ہیں، تو فرماتے ہیں تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
2۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب میں سے ایک لقب محمود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے جیسا کہ قرآن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم مبارک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محمود اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہا گیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام صفات قابل تعریف ہیں اس بارے میں قرآن فرماتا ہے :
وَ إِنَّكَ لَعَلى‏ خُلُقٍ عَظيمٍ
بے شک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق حسنہ کی عظیم منزلت پر فائز ہیں۔تم کمال کی صفات کے انتہائی درجے پر فائز ہو۔(القلم 4)
ابن عربی کہتا ہے۔ خداوند عالم کے ہزار نام ہیں ان سب میں سے بہترین نام محمد، محمود اور احمد ہیں ۔ محمد اسے کہا جاتا ہے جس میں صفات کمالیہ بدرجہ اتم موجود ہوں ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل کسی کا نام محمد نہیں رکھا گیا تھا۔ یہ نام عالم ملکوت سے ہی آپ کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اور تمام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے تھے۔
3۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم القاب میں سے ایک لقب امی ہے یعنی جس نے لکھا پڑھا نہ ہو قرآن اس کی طرف یوں ارشاد کرتا ہے۔
وَ ما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ وَ لا تَخُطُّهُ بِيَمينِكَ إِذاً لاَرْتابَ الْمُبْطِلُونَ
سورہ،عنکبوت، ۴۸
رسالت سے قبل نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پڑھا اور نہ تو لکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھے پڑھے نہیں تھے اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پڑھے لکھے ہوتے تو ممکن ہے کہ خود غرض لوگ شکوک و شبہات پیدا کرتے۔ لیکن پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود قرآن جیسی کتاب لائے تو کسی کو شک و شبہ کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ یہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ ہے جس شخص کے بارے میں جانتے ہیں کہ پڑھا لکھا نہیں ہے اور ان پڑھ ہے ایک ایسی کتاب لے آیا کہ جو تمام علوم سے مملو ہے اور اپنے کو کتاب ہدایت قرار دیتی ہے۔ہدایت یعنی راستہ دکھانے اور مطلوب تک پہنچانے کے معنوں میں ہے یعنی انسان کو اپنے مطلوب اور مقصد تک پہنچاتی ہے اس میں بہت ساری ایسی آیات ہیں جو فلسفہ کی عمیق گہرائیوں پر مشتمل ہیں مگر بڑی سادگی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔ قرآن صرف فقہ کی کتاب نہیں مگر اس میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ انسانی معاشرے کا سر ان کے سامنے جھک جاتا ہے۔ کسی کی کیا مجال جو قرآن کے برابر قوانین مرتب کرسکے۔ عبادی، معاشرتی ، سیاسی ، قوانین، قصاص کے قوانین ، قوت اجرائی کے قوانین وغیرہ۔ قرآن کہتا ہے۔
قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلى‏ أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هذَا الْقُرْآنِ لا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَوْ كانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهيراً
الاسراء ، ۸۸
4۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب میں سے ایک لقب کریم ہے اور یہ لقب بھی قرآن کریم میں مذکور ہے :
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَريمٍ
التکویر ، ۱۹
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں اس قدر کفار کی اذیت سے دوچار تھے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پتھر برساتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لیتے تھے۔ حضرت ابو طالب علیہ السلام اور حضرت خدیجہ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈ لاتے ۔ بارہا انہوں نے سنا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ
اللهم اهد قومی فانهم لا يعلمون
خداوند میری قوم کی ہدایت فرما۔ یہ لوگ نادان ہیں۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بارہ ہزار کے آراستہ لشکر کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوئے تو اپنے کسی ساتھی کو یہ کہتے ہوئے سنا۔
الیوم یوم المطحمت
آج کا دن جنگ و بدلے کا دن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سن کر امیرالمومنین علیہ السلام کو اس کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ لوگوں کے درمیان یہ اعلان کرا دیں کہ کہ
الیوم یوم المرحمہ
یعنی آج رحمت ، کرامت اور معافی کا دن ہے۔
5۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب میں سے ایک رحمت ہے جو قرآن میں مذکور ہے۔
وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِلْعالَمينَ
ہم نے تمہیں دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کی حدود قرآن میں یوں بیان کی گئی ہیں۔
فَلَعَلَّكَ باخِعٌ نَفْسَكَ عَلى‏ آثارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهذَا الْحَديثِ أَسَفاً
اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم تو شدت حزن سے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے قریب ہے کہ ان پر افسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہلاک کرو۔
(الکہف ، 6)
اگر سیرت مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ غم و دکھ جھیلے ہیں راز و نیاز کیا ہے، صبر کیا ہے اور مشقت و تکلیف برداشت کی ہے۔
لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَريصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنينَ رَؤُفٌ رَحيمٌ
ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے درمیان آیا ہے جو تم میں سے ہے تمہاری سرکشی اورہٹ دھرمی اس کے لیے بڑی گراں ہے تمہاری ہدایت کا خواہاں ہے مومنین پر مہربان اور رحم دل ہے۔
التوبہ، 128
6۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب میں سے ایک لقب متوکل ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ ذات خداوند پر اعتماد رکھتے ہیں اور اپنی ذات پر نہیں بلکہ خدا پر اعتماد کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک یہ ہے۔
اللهم لا تکلنی الی نفسی طرفت عين ابدا
خداوند پلک جھپکنے کے برابر وقت کے لیے بھی مجھے میرے اپنے حوالے نہ کر۔
کہتے ہیں کہ ایک دشمن نے ایک جنگ کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اکیلا پایا اور اپنی تلوار سونپ کر آگے بڑھا اور کہا اے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔! بتاؤ اب تجھے میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کمال اطمینان کے ساتھ جواب دیا میرا خدا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ کہنا تھا کہ اس دشمن کے بدن پر لرزہ طاری ہوا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑھ کر تلوار اٹھائی اور فرمایا مجھے تو میرے پروردگار نے بچایا اب تم بتاؤ تمہیں کون بچائے گا؟ اس نے جواب دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مہربانی اور رحمدلی۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے معاف فرمایا ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر اوقات ایسے اہم امور انجام دیتے تھے کہ عمومی سوچ اور نظریئے کے مطابق ان امور میں کامیابی کم نظر آتی تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوائے خدا کے کسی پر اعتماد نہ کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا پر توکل کرتے تھے خوف خدا رکھتے تھے اس لیے سب کچھ رکھتے تھے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا پر اعتماد رکھتے تھے نہ کہ دنیا پر بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا کو ایک کھوکھلی شے سمجھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت نقل کی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ دنیا درخت کے سائے کی مانند ہے جس کے نیچے ایک مسافر تھوڑی دیر کے لیے آرام کرتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توکل کے تمام معانی کے حامل تھے اپنے آپ پر نہیں بلکہ خدا پر توکل کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسروں پر نہیں بلکہ اپنے خدا پر اعتماد تھا۔
7۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب میں سے ایک لقب امین ہے یہ لقب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبائل عرب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے بہت پہلے دیا تھا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بعثت سے پہلے ہی فوق العادت صفات کے حامل تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاکدامنی ، سچائی، کمزوری کی دستگیری، اچھے آداب و رسوم کا لحاظ، معاشرتی اچھائیوں کا خیال خصوصا صفائی پاکیزگی اور امانت داری عربوں کے درمیان مشہور تھی۔
حضرت ابو طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی آںحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو برہنہ نہیں دیکھا بلکہ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رفع حاجت کے وقت کسی نے بھی نہیں دیکھا۔ جس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسلامی کی کھلم کھلا تبلیغ کا حکم ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کے بزرگوں کو جمع کیا تاکہ انہیں اسلام کی دعوت دین سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے جو بات پوچھی یہ تھی کہ میں تمہارے درمیان کس قسم کا فرد ہوں سب نے یک زبان ہو کر کہا ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو صادق اور امین مانتے ہیں اور جانتے ہیں۔
عبداﷲ بن جزعان ایک کمزور بوڑھا تھا اور اپنا گھر بنانے لگا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی عمر اس وقت سات سال کی تھی بچوں کو لیکر آتے اور اس کے مکان بنانے میں مدد دیتے تھے۔ یہاں تک کہ اس کا گھر تیار ہوا تو اس کا نام “ دار النصرہ” پڑگیا اور کمزوروں کی مدد کے لیے مرکز قرار دیا گیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وقت ادب کے ساتھ چلتے۔ ادب کے ساتھ بیٹھتے اور گفتگو بھی اسی انداز میں کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر وقت متبسم رہتے تھے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو “ ضحوک ” کہا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام فصیح اور شیرین ہوتا تھا۔ کبھی کسی کا دل نہیں دکھاتے تھے جہاں تک ہوسکے دوسروں کے ساتھ لطف و مہربانی سے پیش آتے تھے۔ یہ تمام چیزیں مسلم تاریخی ثبوت ہیں۔
8۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے القاب میں سے ایک لقب “ عبداﷲ” ہے یہ لقب بھی قرآن مجید سےثابت ہے ارشاد ہوا
سُبْحانَ الَّذي أَسْرىٰ‏ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذي بارَكْنا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آياتِنا إِنَّهُ هُوَ السَّميعُ الْبَصيرُ
الاسراء ،۱
پاک ومنزہ ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو رات کے وقت سیر کرائی مسجد الحرام سے لیکر مسجد اقصی تک جس کے ارد گرد کوہم نے با برکت قرار دیا ہے تاکہ اپنی آیات اسے دکھائیں بے شک وہ سننے والا اور با بصیرت ہے۔
یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ لقب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام القاب سے بہترین لقب ہے اس وجہ سے تو تشہد میں رسالت کے ذکر سے پہلے عبدیت کا ذکر ہوا ہے بندگی کے اپنے مراتب ہیں اس کے تمام مراتب میں سے بلند مرتبہ لقاء اﷲ کا ہے جس کے بارے میں قرآن نے باربار تذکرہ کیا ہے یہ بہت بلند مرتبہ ہے ایک ایسا مرتبہ جہاں پہنچ کر انسان سوائے ذات الہی کے اور کہیں دل نہیں لگاتا اس منزل میں اﷲ کے علاوہ اور کسی سے کوئی ربط نہیں رکھتا ہے۔
رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ
یعنی ان کی تجارت اور ان کی خرید و فروخت انہیں یاد خدا سے غافل نہیں کرتی۔
ایک ایسا مرتبہ ہے جہاں انسان کا دل خدا کی محبت سے پر ہوتا ہے اس منزل میں انسان کے لیے کوئی غم و فکر نہیں۔ اس کا دل اطمینان سکون اور وقار سے پر ہوتا ہے۔
أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
یعنی دل اﷲ کے ذکر سے سکون حاصل کرتے ہیں۔” ان میں تڑپ خوف اور اضطراب نہیں ہوتا ہے۔
أَلا إِنَّ أَوْلِياءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ
یونس ۶۲
سنو!جو اولیاء اللہ ہیں انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔
اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبدیت کے انتہائی اعلیٰ مرتبے کے حامل تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گناہوں سے پاک تھے اور دوسروں کے گناہوں کو دیکھ کر غمگین ہوتے تھے۔ عبادت میں لذت پاتے تھے۔ اس قدر عبادت کرتے تھے کہ پائے مبارک سوج گئے تو خداوند عالم کی طرف سے سورہ طہ نازل ہوئی اور عبادت کی زیادہ مشقت اٹھانے سے منع کیا گیا۔
(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔)
اسلام کے محافظ سے اقتباس

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button