اخلاقیاتدعا و مناجاتمکتوب

"شرح مناجات شعبانیہ” علامہ انور علی نجفی دامت برکاتہ

چھٹا درس
"وَعُدْ عَلَيَّ بِفَضْلِكَ عَلى مُذْنِب قَدْ غَمَرَهُ جَهْلُهُ. اِلـهي قَدْ سَتَرْتَ عَلَيَّ ذُنُوباً في الدُّنْيا وَاَنَا اَحْوَجُ اِلى سَتْرِها عَلَيَّ مِنْكَ في الآخْرةِ، اِذْ لَمْ تُظْهِرْها لاَِحَد مِنْ عِبادِكَ الصّالِحينَ، فَلا تَفْضَحْني يَوْمَ الْقِيامَةِ عَلى رُؤُوسِ الأشْهادِ. اِلـهي جُودُكَ بَسَطَ اَمَلي، وَعفْوُكَ اَفْضَلُ مِنْ عَمَلي. اِلـهي فَسُرَّني بِلِقائِكَ يَوْمَ تَقْضي فيهِ بَيْنَ عِبادِكَ. اِلـهىِ اعْتِذاري اِلَيْكَ”
مناجات شعبانیہ، یہ وہ دعا ہے جو امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ کی زبان مقدس پر جاری ہوئی اس کے بعد تمام آئمہ ؑ نے شعبان میں ان مناجات کو اپنی زبانوں پر جاری کیا اور انہیں کلمات کے ذریعے خود بھی مناجات کی اور ہمیں بھی یہ مناجات تعلیم فرمائی۔
وَعُدْ عَلَيَّ بِفَضْلِكَ عَلى مُذْنِب قَدْ غَمَرَهُ جَهْلُهُ
اے اللہ ، تو میرے ساتھ اپنے فضل سے معاملہ کر ۔
عَلى مُذْنِب قَدْ غَمَرَهُ جَهْلُهُ "
وہ گناہ گار جو اپنی جہالت میں ڈوبا ہوا ہے جہالت کے بدلے میں تو فضل عنایت کرنے والا ہے کیونکہ میں جہل میں مبتلا ہوں اس لئے تیرا فضل مانگ رہا ہوں۔ان تمام چیزوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور ان کا مقایسہ کرنےکی ضرورت ہے کیونکہ میں جاہل ہوں،جہل میں ہوں اس لئے فضل تلاش کر رہا ہوں۔اگر میں عالم ہوتا تو کچھ کر لیتا۔تو یہاں پر کون جاہل ہے؟آیا جواحکام کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے؟یا جو خدا کی معرفت رکھتا نہیں ہے وہ جاہل ہے؟ نہیں، جو جانتا ہے وہ بھی جاہل ہےکیونکہ جاننے کے با وجود گناہ کرتا ہے۔
جب یہ وائرس پھیلا مجھے اس کےانجام کاپتا نہیں تھا اس کو چھونے سے کیا ہوگا اس لئے چھوتا تھا۔مجھے پتا تھا ،بتا دیا گیا تھاخبردار کر دیا گیا تھا کہ نہیں چھونا لیکن میں نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا اس لئے یہ بیماری پھیلتی گئی ۔ یہاں بھی جہل سے یہی مراد ہے کیونکہ میں جاہل ہوں اس لئے فضل مانگ رہا ہوں، مناجات امیر المومنین اگر آپ پڑھیں :
مولای یا مولای انت المولی انا العبد "
اے مولا میں عبد ہوں اور تو مولا ہے ،میں جہل رکھتا ہوں اور تو فضل رکھتا ہے،میں عبد ہوں تو مولا ہے ۔
"وھل یرحم العبد الا المولی "
عبد پر مولا کے علاوہ اور کون رحم کرے گا
” مولای یا مولا انت العزیز و انا الذلیل "
علی ابن بی طالب ؑ کے کلما ت ہیں اے خدا، تو عزیز ہے اور میں ذلیل ہوں ۔
وھل یرحم الذلیل الا القوی "
اور ذلیل پر قوی وعزیز کے علاوہ کون رحم کر سکتا ہے؟
مولائ یا مولا انت الہادی و انا الضال”
اے میرے آقا و مولا تو ہادی ہے اور میں گمراہ ہوں۔
اس طرح بہت سے کلمات ہیں سب کا مطلب یہ ہے کہ میں کمتر ہوں ،ہیچ ہوں،گناہ گار ہوں، اسی لئے تو تجھ سے فضل مانگ رہا ہوں،تجھ سے مغفرت مانگ رہا ہوں اور اس جہالت میں مبتلا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک ہم نکال سکتے ہیں ہم اپنے آپ کو اس جہالت سے نکال دیں، لیکن اگر ہم خود سے اس جہل میں رہنا چاہتے ہوں اور وہ فضل جو ہماری دسترس میں ہے اس کو حاصل نہ کرنا چاہتے ہوں اور نہ کریں تو اللہ کا فضل ہمیں مشکل سے حاصل ہوگا،میں پھر بھی یہ نہیں کہ سکتا کہ اس کا فضل نہیں ہوگا کیونکہ اس کا فضل بہت وسیع ہے اور وہ ذات بہت کریم ہے،لیکن اس کا فضل پھر مشکل ہو جائے گاکیونکہ یہ زبان مانگنے والی نہیں رہے گی۔ یہ زبان مانگنے والی تب ہو سکتی ہے کہ علی ابن ابی طالب ؑ کی تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں جاری کرے۔
"الهي قد سترت علی ذنو با فی الدنیا”
میرے معبود،میرے الہ،میرا خدا، میں تجھ سے مخاطب ہوں ، میرا خطاب تجھ سے ہے اور میں تیرے انتہائی قریب آگیا ہوں اب میں دعا نہیں میں نجوی کر رہا ہوں میں آہستہ سے بول رہا ہوں۔
کوئی نہ سنے صرف تو سنے۔تو نے میرے سارے گناہوں پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔دنیا میں میری جتنی زندگی تھی،میرے سارے گناہوں پر تو نے پردہ ڈالا،میرے سارے عیب چھپائے ۔ میرے بارے میں بہت اچھی چیزوں کو تو نے پھیلایا ۔
وَاَنَا اَحْوَجُ اِلى سَتْرِها عَلَيَّ مِنْكَ في الآخْرةِ
دنیا میں ایک عمر گزاری اور میرے عیبوں پر پردہ رہا،میری کوتاہیا ں چھپی رہیں اور لوگ نہ جانے مجھے کیا سمجھتے رہے۔
ان گناہوں کو قیامت کے دن، جب سارے پردے اٹھ جائیں گے ، سارے راز کھل جائیں گے، سب کو حقیقتیں پتا چل جائیں گی اس دن مجھے رسوا نہ فرمانا ،اس دن مجھے اس حجاب کی اس ستر کی اس پردہ پوشی کی زیادہ ضرورت ہے۔
"اِذْ لَمْ تُظْهِرْها لاَِحَد مِنْ عِبادِكَ الصّالِحينَ "
اے اللہ تو وہ ہے کہ تو نے اس دنیا میں اپنے خاص بندوں کو بھی نہیں بتایا ۔وہ جو صاحبان دل ہیں جو بصیرت رکھتے ہیں، جو حقائق کو دیکھتے ہیں ان کو بھی تو نے میری حقیقت نہیں بتائی۔ میرے عیوب مخفی رکھا۔
فَلا تَفْضَحْني يَوْمَ الْقِيامَةِ عَلى رُؤُوسِ الأشْهادِ
قیامت کے دن جب تمام لوگ میدان حشر میں ہوں گے اور سب دیکھ رہے ہوں گے ،سب میری طرف متوجہ بھی ہوں گے اس دن مجھے رسوا نہ فرمانا،ستاریت ،ستر اور اللہ کا ستار ہونا، یہ اہلبیتؑ کی دعاوں میں بہت زیادہ ہے ،بہت زیادہ اور دعائے ابی حمزہ ثمالی ،رمضان آنے کو ہے تیار کیجئے، ابھی سے تیار کیجئے اور رمضان میں پڑھیں :
رب جللنی بسترک "
اے میرے اللہ میرے گناہوں پر پردہ ڈال ۔
” لا لانک اھون الناظرین ”
ہم کہیں بھی ہوں تووالد یا وہ جو خاص لوگ ہیں ان کے سامنے ذرا سنبھل کر بیٹھتے ہیں اور اگر کوئی عام بندہ ہو جس کی نظر میں ہماری اہمیت نہیں ہے تو ہم آرام سے بیٹھتے ہیں۔کیونکہ دیکھنے والے کے دیکھنے سے ہمیں فرق نہیں پڑھتا،ہم اس کو خاطر میں نہیں لا رہے ہوتے ۔ اے اللہ ،تو مجھے ہمیشہ دیکھ رہا ہے اور تیرے محضر میں تیرے سامنے اگر گناہ کر رہا ہوں تو نعوذ بااللہ ،یہ اس لئے نہیں کہ تجھے کمتر سمجھ رہا ہوں،اھون الناظرین سمجھ رہا ہوں، ایک بچے کے سامنے گناہ نہیں کرتا تیرے سامنے گناہ کر رہا ہوں میرے سامنے وہ بچہ تجھ سے زیادہ بڑا ہو ، ایسا ہرگزنہیں ہے "و اخف المطلعین "اگر میں گناہ کر رہا ہوں اور اس کی اطلاع جہاں ہو رہی ہےوہ میرا کچھ نہیں میرا بگاڑ سکتا تو میں اس کے سامنے کچھ نہ کچھ گناہ کر جا تا ہوں۔جب کے خدا کے ساتھ تو ایسا نہیں ہے توپھر میں خدا کے محضرمیں گناہ کیوں کرتا ہوں؟
لانک یا رب خیر الساترین "
یہ جو مجھے جر ات ہوئی ہے اور میں تیرے سامنے گناہ کر لیتا ہوں ا س کی وجہ یہ ہے کہ تو خیر الساترین ہے ،تو کسی کو نہیں بتاتا تو کسی کو پتا نہیں چلنے دیتا چھپا لیتا ہے اس ماں کی طرح جو اپنے بچے کے نقائص کو چھپاتی ہے تو ماں کے سامنے بچہ تھوڑا کھل کر رہتا ہے اس لئے نہیں کہ ماں کی اہمیت نہیں ہے ۔ اس لئے کہ تو خیر الساترین ہے میں تیرے محضر میں گناہ کر لیتا ہوں اور تو جس طرح اس دنیا میں میری پردہ پوشی کرتاہے قیامت کے بھی میرے گناہوں پر پردہ ڈال دےگا۔۔۔آیا ان دعاوں کوسن کر ہم جری ہو جائیں؟
دو قسم کے گناہ ہیں ایک گناہ وہ ہے جسےانسان کنٹرول نہیں کر سکتا ،نفس امارہ ہے،شیطان ہے اور وسوے ہیں۔ جب حضر ت آدم ایک پھل پہ صبر نہ کر سکے ،ہمارے سامنے توہزاروں دانے ہیں اس دنیا کی انتہائی پر کشش رعنائیاں ہیں ہم ان سے نہیں رک سکتے ۔وہ گناہ جن سے ہم نہیں رک سکتے اور ہم اللہ کی عظمت کو جانتے ہوئے اسے خیر الساترین سمجھ کر چھپ کر جو خود گناہ کرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو اس دنیا میں علی الا اعلان گناہ کرتے ہیں وہ ان میں شامل نہیں ہیں۔ان کے پاس یہ زبان نہیں ہے وہ یہ نہیں کہ سکتے کیونکہ تو چھپاتا تھا میں تو آشکار گناہ کر رہا ہوں اور یہ گناہ جو میں انجام دے رہا ہوں اس کو شامل ہیں۔میرے ہاتھ میں آج کل موبائل میں گانے،فلمیں اور بہت سی گناہ کی چیزیں ہیں انہیں شئیر کر رہا ہوں۔ خود میں نے جو گانا سننا وہ اور ہے لیکن جومیں گانے شئیر کر رہا ہوں اس لئے کر رہا ہوں کہ میری نظر میں خدا اھون الناظرین ہے خدا کی اہمیت نہیں ہے اور پھر یہ کتنا عظیم گناہ ہے کہ کل میں خدا سے نہیں کہہ سکتا کہ میرے ان گناہوں پہ پردہ ڈال۔ جن گناہوں کو تو نےسوشل میڈیا پر عام کر دیا ہے اس پر خدا کیوں پردہ ڈالے گا؟
تو نے خدا کو پردہ ڈالنے کی مہلت ہی نہیں دی پھر یہ وہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ جس میں کوئی لذت نہیں اور گناہ کتنا بڑا ہے تو نے ایک چیز شئیر کر دی اور چلنا شروع ہو گئی چلتی چلتی کئی ملین تک پہنچ گئی تو خود دنیا سے چلا گیا ہےلیکن اس کے چلنے کا سلسلہ ابھی جاری و ساری ہے اور گناہوں کا وبال تیرے گردن پر آتا رہے گا تیرا نامہ اعمال گناہوں سے بھرتا جا رہا ہےلذت دوسرے لے رہے ہیں گناہ تیرے کھاتے میں جارہے ہیں اور تیرا خدا سے ان مناجات کا بھی کوئی رشتہ نہیں ہے اس طرح لڑکی کا کسی لڑکےکو نمبر دے دیا تو نے انہیں ملانے میں سہولت فراہم کی۔ وہ گناہ کرتے رہے اور تو ان کےگناہ میں شریک ہوتا گیا۔
اور تیرا یہ گناہ کتنا عظیم ہے کہ ”
الفتنة اشد من القتل”
فتنہ قتل سے شدید ہے”آیت ہے ۔ یہ جو فتنہ اور بے حیائی پھیلا رہا ہے گانے اور بے حیائی کی چیزیں یا وہ ویڈیوز جس میں گالیاں ہیں گلوچ ہے حتی کی بے ہودہ عبث جس کی وجہ سے کسی مسلمان ،مومن کو کچھ نہ ملےتو اس ضیاع کا تو ذمہ دار ہے۔ یہ دو منٹ کا ذمہ دار نہیں اس نے دو آدمیوں کو بھیجا اس نے آگے دس آدمیوں کو بھیجا،انہوں نے آگے دس اورلوگوں کو بھیجا،اسی طرح تعداد بڑھتی جا رہی ہیں جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے اتنے گناہ تیرے ذمے لکھے جا رہے ہیں ۔ا یک کلک ایک شئیر جو ہورہا سب ریکاڑ ہو تا جا رہا ہے۔
” لانک یا رب خیر الساترین”
اسی دعاابو حمزہ ثمالی میں پڑھتے ہیں”الہی فبحلمک امہلتی فبسترک سترتنسی” تو نے اپنے حلم سے اپنے صبر سے مجھے اتنی مہلت دی اور اپنی پردہ پوشی سے میرے گناہوں کو اتنا چھپا دیا حتی کانک اغفلتنی "میں تو بھول گیا کہ میں گناہ کر رہا ہوں میں معصیت کر رہا ہوں ۔ کتنا عظیم ہے۔
” یا من اظهر الجمیل و ستر القبیح "
صرف پردہ نہیں ہے صرف گناہوں کو چھپاتا نہیں ہے۔ اگر اپنے بدن کا سار انظام دیکھیں کتنا قبیح ہے کتنا خون ہے اگر کوئی زخم لگ جائے کسی کاپیٹ پھٹ جائے تو اس کے قریب کوئی نہیں جا تا ۔ یہ سارا نظام اندر ہے لیکن سب سے چھپایا ہوا ہے "ستر القبح اور اظہر الجمیل”ہے اگر ہم دیکھیں کہ ہمارے باطن میں کتنی ساری قباحتیں ہیں نجس خون ہے اور بہت کچھ ہے لیکن پھر بھی لوگ مل کر خوش ہوجاتے ہیں یہ خدا کا جمال ہے” یا من اظهر الجمیل و ستر القبیح "
امام جعفر صادقؑ سے ایک بہت ہی خوبصورت روایت ہے: ہر شخص کی عرش خدا پر ایک شبیہ ہوتی ہے۔آپ دنیا میں ہوتے ہیں لیکن آپ کی شبیہ عرش خدا پر ہوتی ہے۔ خود یہی کم ہے۔؟ اگر آپ اچھے کام کرتے ہیں تو وہ شبیہ بھی اچھے کام کرتی ہے اور ان اچھے کام کو دیکھ کر عرش کے فرشتے تسبیح کرتے ہیں آپ کو داد دیتے ہیں آپ کو دعائیں دیتے ہیں جبکہ آپ کو اس عمل کا ثواب مل رہا ہوتا ہے اور اس عمل کی وجہ سے جو فرشتے اور عرش والے تسبیح کر رہےہیں اس کا بھی ثواب آپ کو مل رہا ہوتا ہے ۔ یہ تو بہت خوبصورت ہے کہ عرش خدا پر ایک شبیہ ہے اور آپ کے عمل کی وہاں پر پیروی ہو رہی ہے اور ان اعمال کو فرشتے دیکھ رہے ہیں عرشیان دیکھ رہے ہیں لیکن جب ہم کوئی قبیح کام انجام دیتے ہیں تو خدا اس شبیہ پر پردہ ڈال دیتا ہے کہ فرشتے بھی ہمارے ان برے اعمال کو نہ دیکھیں۔اگر ہمارے گنا ہوں سے یہ فرشتے آگاہ ہوجائیں کوئی دوسراا نسان آگاہ ہو جاتا تو کوئی برداشت نہ کرتا اگر خدا نے ہمارے اعمال کے مطابق ہم سے حساب لینا ہوتا تو آج دنیا میں اس روئے زمین پر کوئی بھی نہ ہوتا۔اے خدا تو جو پردہ پوشی کر رہا ہے۔ انا احوج الی سترہااس پردہ پوشی کا آخرت میں زیادہ محتاج ہوں اسے لئے کہ وہاں جو رسوائی ہے تمام عالم کے سامنے ہے۔وہ رسوائی رسول خدا کے سامنے رسوا ہونا ہے ،علی مرتضیؑ کے سامنے رسوا ہونا ہے ،فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیہا کے سامنے رسوا ہونا ہے یہ ہمیں برداشت نہیں ،ہم وہاں کی رسوائی سے بچنا چاہتے ہیں تو نے یہاں جو پردہ پوشی کی ہے تو یہاں جو ستار ہے یہی ستاریت وہاں بھی جاری رکھ ۔لیکن یہ ستاریت ان مومنین کے لئے ہے جو مناجات شعبانیہ یا یا دعائے کمیل یا دعائے ابی حمزہ ثمالی یا دعا ےافتتاح کو پڑھنے والے ہیں ، قرآن کی تلاوت کرنے والے ہیں یہی ان کے اعمال وہاں بھی جاری رہیں گے۔ یہاں ان سے گناہ ہو جا تاہے خداستار ہے ،ستار العیوب ہے ۔ یہ ستاریت بھی پتا ہے کیا ہے ؟ یہ ایک رمز ہے ،معشوق کی عاشق کو اپنی طرف کھیچنے کے لئے پردہ پوشی ہے ۔
إِلهِي جُودُكَ بَسَطَ أَمَلِي
اے اللہ! تیرا جود ،تیرا کرم بے پایاں ہے تیرا جو بیکراں ہے، تیری سخاوت عظیم ہے اسی لئے میں میری آرزو بھی بے پایاں ہو گئی ہے میری آرزوئیں بھی کتنی زیادہ ہوگئی ہیں اتنی زیادہ کہ میں اتنی کوتاہی کے با وجود تیرا فضل تلاش کر رہا ہوں ”
وَعَفْوُكَ أَفْضَلُ مِنْ عَمَلِي
تیرا عفو تیری معافی ، میرا عمل کتنا ہی برا ہو ،لیکن تیرا عفو اس سے زیادہ ہے ۔یہ جملہ ذرا سنیے گا امیر المومنین ارشاد فرما رہے ہیں:
إِلهِي فَسُرَّنِي بِلِقائِكَ يَوْمَ تَقْضِي فِيهِ بَيْنَ عِبادِكَ
جب قیامت کا دن ہوگا جب وہاں سب کو محشور کیا جائے گا اس دن نفسا نفسی کا عالم ہوگا۔ لیکن گویا کہ وہاں مجھ پر تو نے پردہ پوشی کر دی میں نے دعا کی تو نے مان لیا۔کیوں کہ تیرا فضل ، تیرا کرم ،تیرا جود بے کراں ہے اس لئے اب میں حساب وکتاب کےوقت تیرا دیدار مانگ رہا ہوں۔”فسرنی” مجھے مسرور کر دے یہ شخص جو گناہ گار ہے یہ شخص جو عاصی ہے یہ شخص پہلے کیا کہہ رہا ہے "الہی جودک بسط املی ” تیرے بے کراں کرم نے میری آرزوں کو بھی بے کراں کر دیا ہے اور میری آرزو کہاں پہنچ گئی سب کا حساب ہو رہا ہو اور میں تیرا دیدار کر رہا ہو۔ اللہ اکبر! میں تو اسےنہیں سمجھ سکا۔
” اللهم ان مغفرتك ارجی من عملی”
تیری مغفرت میرے عمل سے بہت وسیع ہے ۔تیری رحمت اور میری گناہ کا کیا مقائیسہ،تیری رحمت بہت وسیع ہے” اللهم ان کان ذنبی عندك عظیما ” اگر میرے گناہ بہت زیادہ ہیں تو ” فعفوک اعظم من ذنبی” تیرا عفو میرے گناہ سے بہت عظیم ہے ” اللھم ان لم اتکن ان ابلغ رحمتک” تیری رحمت بہت وسیع ہے لیکن میں اس قابل نہیں ہوں ،مجھ میں یہ قابلیت نہیں ہے کہ تیری رحمت تک پہنچ سکوں تیری رحمت تو بہت وسیع ہے۔
فرحمتك اھل ان تبلغنی
میں تیری رحمت تک نہیں پہنچ سکتا تیری رحمت تو مجھ تک پہنچ سکتی ہے ، تو میرے نا اہل ہونے کو نہ دیکھ اپنی رحمت کی وسعت اور اس کی اہلیت کو دیکھ اور اس رحمت میں مجھے بھی شامل فرما” لانھا وسعت کل شئی” ہر چیز کو تیری رحمت شامل ہے اور ہر چیز میں میر اگناہ شامل ہے۔برحمتك یا ارحم الراحمین
اب میری آرزو ئیں بڑھ گئی ہیں اور کہاں پہنچ گئی ہیں ؟
"إِلهِي فَسُرَّنِي بِلِقائِكَ "
مجھے اپنے دیدار سے مسرور کر دے ۔ اب اس دیدار سے مراد لقاء ہے رویت مراد نہیں ہے ۔ رویت خدا محال ہے ممکن نہیں ہے۔ یہ اللہ کی شان میں گستاخی ہے کہ ہم اللہ کو محدود کر لیں اور کہیں کہ میں نے اللہ کودیکھ لیا ہے ۔ میری آنکھوں میں تاب کہاں کہ اس لا محدود ذات کو آنکھ سے دیکھ سکوں بلکہ یہ لقاء اللہ ہے۔ اللہ کا لقاء ہے ۔ اللہ سے ملنا کہ میں تیرا دیدار چاہتا ہوں اور مجھے کچھ نہیں چاہیے مجھے صرف تو چاہیے”
گر خمر بهشت است بریزید که بی دوست.
هر شربت عذبم که دهی عین عذاب است
مجھے اس وقت کوئی اور چیز نہیں چاہیے۔ جہاں نفسا نفسی ہے سب کہہ رہے ہیں کوئی چھا وں ملے،پانی ملے، کوئی پناہ گاہ ملے ، میں نہیں کہوں گا کہ وہاں مجھے کسی پناہ گاہ میں لے جاو ، میں کہوں گا مجھے اپنے رب کے پاس لے جاو ۔ " انا للہ و انا الیہ راجعون” میں پلٹ آیا ہوں میں نے اس دنیا میں جو کچھ کیا اس سے واپس آیا ہوں، اس پہ پچھتاوالے کر آیا ہوں، مجھے کچھ اور نہیں چاہیے۔ مجھے صرف اپنا کریم پرودردگار چاہیے۔ محشر میں اس مصیبت میں بہت سی مثبت چیزیں بھی ہیں ، ابھی میں ان کو بیان نہیں کروں گا بہت چیزیں آپ دوسروں سے سن رہے ہیں قیامت میں کیامثبت ہے؟
به وقت صبح قیامت که سر ز خاک برآرم
به گفت و گوی تو خیزم به جست و جوی تو باشم
جب محشر میں قبروں سے سب کو اٹھایا جائے گا وہ کیا خوبصورت صبح ہوگی۔اسے صبح سے تعبیر کر رہا ہوں۔ وہ صبح قیامت کہ خاک سے اٹھنےکے بعد اتنا خوبصورت محسوس کر رہا ہوں ، اتنا خوبصورت محسوس کر رہا ہوں اس لئے کہ تیری ندا سے میں جا گوں گااور تیری جستجو میں چلنا شروع کر دوں گا میرا رب کہا ں ہے؟ " این انت یا الہی ،
به گفتگوئےتو خیزم به جستجوئے تو باشم حدیث روضه نگویم گل بهشت نبویم جمال حور نجویم دواں به سوئے تو باشم

اس دن مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے باغ بھی نہیں چاہیئے بہشت بھی نہیں چاہیئے حور بھی نہیں چاہیے میں تیری تلاش میں ہوں گا۔
مئے بهشت ننوشم ز دست ساقئ رضوان
مرا به باده چه حاجت که مست روئےباشم
بہشت کی بھی مجھے ضرورت نہیں ہے ” اللہ اکبر ”
إِلهِي اعْتِذاري إِلَيْكَ اعْتذارُ مَنْ لَمْ يَسْتغْنِ عَنْ قَبُولِ عُذْرِهِ فَاقْبَلْ عُذْرِي يا أكْرَمَ مَنْ اعْتَذَرَ إِلَيْهِ المُسِيئُونَ
میں تیری بارگاہ میں آیا ہوں ۔تجھ سے ملنے کے بعد کیا کروں گا؟اپنا عذر پیش کروں گا بہانہ پیش کروں گا اپنی عبادتوں کا بھی عذر پیش کروں گا اپنی معصیتوں پر بھی عذر پیش کروں گا۔ اس سے زیادہ نہیں ہو سکا،تیرا حق عبادت کہاں تھا اور میری یہ بندگی کہاں تھی اگرتو میرا عذر قبول نہ کرے تو میں کہیں نہیں جا سکتا میں کہیں کا بھی نہیں رہوں گا۔
فَاقْبَلْ عُذْرِي يا أكْرَمَ مَنْ اعْتَذَرَ إِلَيْهِ المُسِيئُونَ ،
اے وہ ذات جس کی طرف سارے گناہ گار اپنا عذر لے کر آتے ہیں وہ ذات تو ہےپس میرا عذربھی قبول کرلے۔
إِلهِي لاتَرُدَّ حاجَتِي
میری حاجت کو نہ پلٹا،خالی نہ پلٹا
وَلاتُخَيِّبْ طَمَعِي
یہ جو طمع پیدا ہوئی ہے اور میں یہ سوچ رہا ہوں اور یہ جو آرزو میرے دل میں آئی ہے کہ تو مجھے بخش دے گا،مجھے بخش دے۔
وَلاتَقْطَعْ مِنْكَ رَجائِي وَأَمَلِي ،
عذر کیاپیش کرنا ہےبس خدا سے معافی مانگنی ہے اور اپنے نیک عمل اور عبادتوں کو پیش کرنے کے بعد اس دن سمجھ میں آئے گا کہ وہ کچھ بھی نہیں ہے لھذا بس اس دن خدا کے حضور میں عذر پیش کروں گا”
میں عذر لے کر آیا ہوں میں یہ کہتے ہوئے نہیں آیا ہوں کہ میں بہت کچھ لے کر کے آیا ہوں۔الہی لا ترد حاجتی” میری حاجتوں اور امیدوں کو رد نہ کردے۔
"ارحم من راس ماله الرجا’
میرا کل سرمایہ یہی امید ہے ۔ جو تیری ذات سے ہے ۔
الهي قرعت باب رحمتك بید رجائی”
میں نے اپنی امید کے ہاتھوں سے تیری رحمت کادروازہ کھٹکٹا یا ہے۔ تیرے باب رحمت پر اپنی امید کے ہا تھوں سے دستک دے رہا ہو ں۔
إِلهِي لَوْ أَرَدْتَ هَوانِي لَمْ تَهْدِنِي
اے میرے رب، اے میرے معبود، اے میرے اللہ،اگر تو مجھے رسوا کرنا چاہتا تو میری ہدایت نہ کرتا تو نے جو میری ہدایت کا اتنا سامان کیا ہے اور مجھے اتنے ہادی بھیجےہیں ۔تو نے مجھے جو چودہ معصؤمین ؑ بھیجےہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ تو مجھے رسوا نہیں کرنا چاہتا اسی لئے تو نے مجھے ہدایت دی ہے ۔
وَلَوْ أَرَدْتَ فَضِيحَتي لَمْ تُعافِنِي ،
میری معصیت اگر تو چاہتا تو مجھے عافیت نہ دیتا۔
إِلهِي ما أَظُنُّكَ
میرا تجھ سے یہ گمان نہیں تھا۔
تَرُدُّنِي فِي حاجَةٍ قَدْ أَفْنَيْتُ عُمْرِي فِي طَلَبِها مِنْكَ ،
ایک ہی حاجت ہے تجھ سے کہ مجھے معاف کردے اسی حاجت میں ،میں نے اپنی ساری زندگی گنوا دی ہے ۔ میں نے جس حاجت میں جس آرزو کو دل میں رکھ کر اپنی ساری زندگی گنوا دی ،ساری زندگی بسر کر دی وہی ایک آرزو لے کر تیرے پاس آیا ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ تو ان آرزوں کو پورا نہ کرے؟ خدا سے حسن ظن رکھنا۔ یہ جو تیرے دل میں آرزو ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو تیرا معشوق ہے وہ بھی تجھے چاہتا ہے اگر کوئی عاشق جو یائے وصل ہےتو اس کا مطلب ہے کہ معشوق بھی تلاش وصل میں ہے وہ بھی وصال چاہتا ہے ”
هیچ عاشق خود نباشد وصل ‌جو
که نه معشوقش بود جویای او
لیک عشق عاشقان تن زه کند
عشق معشوقان خوش و فربه کند
خدا کا دل تو نہیں ہے خدا کادل میں تعبیر کر رہا ہوں ۔ یہ ساری تعبیر یں ہیں۔ خدا بھی تجھے بہت چاہتا ہے اگر تیرے دل میں خدا کے لئے محبت ہے اگر تو حسن ظن رکھتا ہے ۔
امام رضاؑ فرماتے ہیں:
أحسن الظن بالله ، فإن من حسن ظنه بالله كان عند ظنه
سب سے بہترین حسن ظن خدا سے حسن ظن رکھنا ہے۔خدا پر حسن ظن رکھو کیونکہ جو خدا پر حسن ظن رکھے خدا اس کے حسن ظن کےمطابق سلوک کرتا ہے۔
أنا عند ظن عبدی المؤمن بی، إن خیراً فخیراً وإن شراً فشراً۔
میرا مومن میرے بارے میں جو گمان رکھے گا میں اس کے مطابق فیصلہ کروں گا اگر میرا حسن ظن یہ ہے کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا تو اللہ مجھے معاف کردے گا ۔اگر میں نا امید ہوں تو پھر میرے گناہ معاف نہیں ہو گا۔
"وما توفیقی الا با للہ علیہ توکلت و الیہ انیب”

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button