شہید کی زندگی از نظر قرآن
اقتباس از الکوثر فی تفسیر القرآن
وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ
اور جو لوگ راہ خدا میں مارے جاتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو، بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم (ان کی زندگی کا) ادراک نہیں رکھتے۔( البقرۃ 154)
تفسیر آیات
بعض مفسرین کے نزدیک شہیدوں کی حیات سے مراد ان کی خدمات ،ان کے نام اور کارناموں کی بقا ہے۔ لیکن اس قسم کی حیات کی نفی خود یہی آیت کر رہی ہے: وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ کہ جو حیات ہمارے شعور میں آتی ہے، وہ یقینا مراد نہیں ہے، بلکہ شہیدوں کی حیات ہمارے شعور و حواس سے ماوراء ہے۔ پس حیات سے مراد ان کے زندہ و جاوید کارنامے وغیرہ نہیں، کیونکہ انہیں تو ہم بخوبی جانتے ہیں۔
یہاں یہ اعتراض کیاجاتا ہے کہ حیات بعد الموت مسلمانوں کے بنیادی عقائد میں سے ہے اور اس آیت کے مخاطبین بھی عقیدہ رکھتے تھے کہ اس جہان سے جانے کے بعد انسان نے ایک ابدی زندگی گزارنی ہے۔ پس اگر شہید زندہ ہیں تو یہ کوئی ایسی بات نہیں جو شہید کے ساتھ مخصوص ہو، بلکہ ہر انسان مرنے کے بعد زندہ ہوتا ہے۔
اس کا جواب اولاً تو یہ ہے کہ مرنے کے بعد عالم بر زخ یا عالم آخرت میں اگرچہ ہر انسان کو آثار حیات سے دور ایک عام قسم کی زندگی ملتی ہے۔ لیکن شہداء کی زندگی میں وہ آثار حیات موجود ہوتے ہیں جو عام زندوں میں نہیں ہوتے۔ شہید کی حیات کے آثار میں سے ایک کا ذکردوسری آیت میں کیا گیا ہے کہ وہ عند اللّٰہ رزق پاتے ہیں۔ اس رزق کی نوعیت بھی ہمارے شعور و حواس کے لیے قابل ادراک نہیں ہے، لیکن اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ شہید اپنی اس حیات میں لذت یاب ہوتے ہیں اور اللہ سے عطائے جاری حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ سے رزق پانے کایہ مطلب نکلتا ہے کہ وہ نعمتوں سے مالا مال ہیں۔ وہ آرام و راحت اور خوشی میں ہیں۔ ان کے پاس حیات و کمال سے متعلق سب کچھ موجود ہے اور موت یا نقص سے مربوط کوئی شے ان میں نہیں ہے۔
وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ ۔فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۙ وَ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمۡ یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ مِّنۡ خَلۡفِہِمۡ ۙ اَلَّا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔
اور جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں قطعاً انہیں مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔اللہ نے اپنے فضل سے جو کچھ انہیں دیا ہے اس پر وہ خوش ہیں اور جو لوگ ابھی ان کے پیچھے ان سے نہیں جا ملے ان کے بارے میں بھی خوش ہیں کہ انہیں (قیامت کے روز) نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔وہ اللہ کی عطا کردہ نعمت اور اس کے فضل پر خوش ہیں اور اس بات پر بھی کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔(آل عمران 169 -171)
تفسیر آیات
۱۔ وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا: موت شعور سلب ہونے سے عبارت ہے۔ شہید چونکہ رزق پاتے ہیں، لہٰذا وہ شعور کی زندگی گزار رہے ہیں اور خوشی بھی شعور کی علامت ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ آخرت میں مومنین کے لیے جو ثواب مہیا کر رکھا ہے، وہ ان کی موت سے پہلے ہی اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
۲۔ بَلۡ اَحۡیَآءٌ: اللہ سے رزق حاصل کرنے کا ایک لازمہ یہ ہے کہ اس رزق کے بعد نہ خوف رہتا ہے نہ حزن و ملال۔ کیونکہ جب کسی موجود اور میسر خوبی و آسائش کے سلب ہونے کا خطرہ ہو تو خوف لاحق ہوتا ہے اور اگر کوئی چیز سلب ہو جائے تو حزن و ملال ہوتا ہے۔ اخروی زندگی میں رب کی بارگاہ سے رزق پانے کے بعد اس کے سلب ہونے کاکوئی خطرہ قابل تصور نہیں ہے۔ لہٰذا کسی قسم کے خوف کا بھی وہاں تصور نہیں ہے نیز یہ رزق ابدی ہے، لہٰذا اس کے چھن جانے کی نوبت نہیں آ سکتی، اس لیے حزن بھی قابل تصور نہیں ہے۔
۳۔ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ: اپنے رب کے پاس زندہ ہیں۔ اس سے ان کی حیات کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حیات دنیوی حیات کی طرح بھی نہیں ہے اور باقی ارواح کی حیات کی طرح بھی نہیں ہے، بلکہ ایک خاص حیات ہے۔
آل عمران کی ان آیات میں حیاتِ شہید کے درج ذیل آثار بتائے گئے ہیں:
۱۔ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ اپنے پروردگار کی بارگاہ سے رزق پاتے ہیں۔
۲۔ فَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ان نعمتوں پر مسرور ہیں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کی ہیں۔
۳۔ وَ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمۡ یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ مِّنۡ خَلۡفِہِمۡ بعد میں آنے والے شہداء کے بارے میں بھی یہ لوگ خوش ہیں۔
۴۔ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۔۔۔۔ وہ اللہ کے انعام اور فضل سے خوش ہو رہے ہیں۔
چنانچہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے ارواح مؤمنین کی باہمی ملاقات کے بارے میں فرمایا:
مِنْھُمْ مَنْ یَزُوْرُ کُلَّ جُمْعَۃٍ وَ مِنْہُمْ مَنْ یَّزُوْرُ عَلٰی قَدْرِ عَمَلِہٖ ۔
ان میں سے کچھ ہر جمعہ کو اور کچھ اپنے عمل کے مطابق ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔
{بحار الانوار ۶: ۲۵۶}
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ برزخ کی زندگی کی نوعیت ہر شخص کے لیے اس کے عمل کے مطابق ہے ۔
ثانیاً: اگر تسلیم کر لیا جائے کہ یہ حیات، شہداء کے ساتھ مخصوص ایک امتیازی حیات نہیں ہے تو آیت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ تم راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں ،کیونکہ مؤمن کے لیے فنا نہیں ہے اور حقیقی زندگی تو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے:
وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ۔
بے شک آخرت کا گھر ہی زندگی ہے، اگر انہیں کچھ علم ہوتا۔
{۲۹ عنکبوت: ۶۴}
بنا بریں یہ آیت مؤمن کے ذہن میں اس نظریے کو راسخ کرتی ہے کہ تم ظاہر بینی سے کام لیتے ہوئے انہیں مردہ نہ کہو۔ حقیقت میں عالم آخرت، مؤمنین کے لیے ’’ دار حیات ‘‘ ہے۔ البتہ کفار کے لیے ’’دار بوار‘‘ یعنی ہلاکت ہے:
ثُمَّ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی ۔
پھر اس میں نہ مرے گا اور نہ جیے گا۔
{۸۷ اعلیٰ : ۱۳}
مؤمنین کے بارے میں ارشاد فرمایا:
مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۔
جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مؤمن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے۔
{۱۶ نحل: ۹۷}
احادیث:
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: میں جہاد میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔ آپ (ص) نے فرمایا :
فَجَاہِدْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ عِزَّ وَ جَلَّ فَاِنَّکَ اِنْ تُقْتَلْ تَکُنْ حَیًّاعِنْدَ اللّٰہِ تُرْزَقْ وَ اِنْ تَمُتْ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُکَ عَلَی اللّٰہِ ۔
راہ خدا میں جہاد کرو کہ اگرتم قتل ہوگئے تو تم زندگی اور رزق پاؤ گے، لیکن اگر فوت ہوگئے تو تمہارا اجر اللہ کے ذمے ہو گا۔{اصول الکافی ۲ : ۶۰}
اہم نکات
۱۔ جس چیز کی حقیقت کا علم نہ ہو اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنی چاہیے:
وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ۔۔۔۔
۲۔ شہید اللہ کی نعمتوں سے مالا مال زندگی سے بھرپور لطف اندوز ہوتاہے۔ لہٰذا اسے مردہ سمجھنا قرآنی تصریحات کے خلاف ہے:
بَلۡ اَحۡیَآءٌ ۔
۳۔ دوسری زندگی کے بہت سے حقائق ہمارے شعور سے بالاتر ہیں:
لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ۔
4۔ہر نعمت کا سرچشمہ اللہ کی ذات ہے: بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۔
5۔شہیدوں کو خوف اور غم سے پاک زندگی ملے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 439/ الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ