قرآنیاتمقالات قرآنی

بعثت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہداف و مقاصد

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا وَ یُزَکِّیۡکُمۡ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمۡ مَّا لَمۡ تَکُوۡنُوۡا تَعۡلَمُوۡنَ۔ فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ۔
( بقرہ:آیت 151-152)
"” جیسے ہم نے تمہارے درمیان خود تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاکیزہ کرتا ہے اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں ان چیزوں کی تعلیم دیتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔”
تشریح کلمات
رَسُول:
(ر س ل) یہ اَلرِّسْل سےمشتقہےیعنینرمیکےساتھچلپڑنا۔کبھیصرفروانہہونےکےمعنیمیںاستعمالہوتاہےاورکبھی اس شخص کو رسول کہتے ہیں جسے پیغام دے کر روانہ کیا گیا ہو۔ قرآن مجید میں لفظ رسول اسی آخری معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
یَتۡلُوۡا:
(ت ل و) کسی کے پیچھے اس طرح چلنا کہ درمیان میں کوئی اجنبی چیز حائل نہ ہو۔ تلاوت میں اتباع و پیروی کا مفہوم مضمر ہوتاہے۔ لہٰذا اگر اتباع کی غرض سے پڑھا جائے تو اسے تلاوت کہیں گے، بصورت دیگر صرف پڑھنے کو قرائت کہتے ہیں۔
یُزَکِّیۡکُمۡ:
(ز ک و) لغوی معنی نمو و فزونی ہے۔ تزکیہ یعنی پاک کرنا اور تربیت کے ذریعے ارتقائی منازل سے گزارنا۔
اشۡکُرُوۡا:
(ش ک ر) کسی نعمت کے اظہار کو شکرکہتے ہیں، خواہ یہ اظہار منعم کی زبانی تعریف کے ذریعے ہو یا عملی سپاس کے ذریعے۔
تفسیر آیات
اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس امت پر اتمام نعمت اور احسانات کا ذکر ہو رہا ہے۔ احسان کے ذکر کے لیے: اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡکُمۡ کی   تعبیراختیارکیجاتی ہے۔یعنی ہم نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
لَقَدۡ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ بَعَثَ فِیۡہِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ ۔۔۔ {۳ آل عمران: ۱۶۴}
ایمان والوں پر اللہ نے بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا ۔
اس کے برخلاف اگر اتمام حجت کا مقام ہو تو اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۔۔{ ۷۳ مزمل: ۱۵} ’’تمہاری طرف رسول بھیجاـ‘‘کی تعبیراختیارکیجاتی ہے۔
اس آیہ کریمہ میں رسول کے درج ذیل فرائض منصبی بیان ہوئے ہیں :
۱۔ یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا ۔۔۔۔ تلاوت: یعنی بیان احکام۔
تلاوت چونکہ صرف پڑھنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ بغرض اطاعت و اتباع پڑھنے سے عبارت ہے، اس لیے رسول کریم (ص) نے قرآن کی یہ تلاوت ۲۳ سال کے عرصے میں پوری کی۔
لِتَقۡرَاَہٗ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکۡثٍ ۔۔۔ {۱۷ اسراء : ۱۰۶}
تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائیں۔
۲۔ وَ یُزَکِّیۡکُمۡ تزکیہ یعنی فکری و عملی خبائث سے پاک کر کے ارتقائی منازل کی طرف لے جانا۔
اس کا تعلق فکری، عملی، ظاہری، باطنی، مادی، عقلی، جسمانی، روحانی، انفرادی، اجتماعی اور سماجی امور سے ہوگا تاکہ ان تمام میدانوں میں انسانوں کو اخلاقی اور انسانی اقدار کا مالک بنایا جائے اور ان کے ظاہر و باطن کو سدھارا اور سنوارا جائے، جس سے انسان کو حیات ابدی اور جاوداں زندگی مل جاتی ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۚ {۸ انفال : ۲۴}
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں۔
۳۔ وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۔۔۔۔ تعلیم: پہلے دو مرحلوں میں اجمالی اور کلی طور پر اسلامی احکام کی تبلیغ اور اسلامی معاشرے کے افراد کا تزکیہ کر کے شرعی احکام کے نفاذ کا راستہ ہموار کیا گیا تاکہ لوگوں کو اس قابل بنا دیا جائے کہ علوم قرآن کے امین بن جائیں۔ اس استعداد کے حصول کے بعد تعلیم کتاب کا مرحلہ آتا ہے۔
تعلیم کتاب :یعنی قرآن کے کلی احکام کی تفصیل و تشریح، مجملات و متشابہات کے قواعد و ضوابط، اشارات کا بیان، عمومات کی تخصیص اور مطلقات کی تقیید۔ بالفاظ دیگر تعلیم کتاب یعنی سنت۔ کیونکہ کتاب اللہ کی تعلیم و تشریح و تفسیر کا واحد ذریعہ سنت معصوم (ع) ہے۔ حکمت کی تعلیم کیا ہے؟ اس موضوع کی تفصیل ہم آئندہ صفحات میں بیان کریں گے۔
فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اس کلمے کے ابتدائی فاء کو فاءتفریعی کہتےہیں۔یہحرفسابقہکلامکےنتیجےکوبیانکرنےکےلیےاستعمالکیاجاتاہے۔مطلب یہ ہواکہ جب اللہ تعالیٰ نےاس امت کوامامت کامنصب عطاکردیا،اسےامتوسط اورامت شہیدبنایا، اس کا پسندیدہ قبلہ مقرر کر دیا اور بالآخر ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول(ص) مبعوث فرما کر اسے منصبی فرائض بھی سونپ دیے تو نتیجۂ کلام کے طور پر ارشاد قدرت ہے کہ میری ان لا تعداد نعمتوں اور احسانات کو کبھی فراموش نہ کرنا: فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ ۔ پس تم مجھے یاد رکھو اور میرا ہی ذکر کیا کرو۔ ذکر کے مختلف طریقے ہیں:
ذکر لفظی :جیسے تسبیح و تہلیل۔
ذکر عملی: جیسے اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کی عبادت اور نیک اعمال بجالانا۔
ذکر قلبی: اپنے دل میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو حاضر سمجھنا اور خدا کے عشق و محبت کو ہمیشہ دل میں رکھنا۔ پس ذکر خدا زبان سے بھی ہوتا ہے، اعضا و جوارح سے بھی اور قلب و ضمیر سے بھی۔ ذکر کے مقابلے میں نسیان اور غفلت ہے، جس کا لازمی نتیجہ عدم اطاعت اور اللہ کی رضا سے دوری ہے:
اِسۡتَحۡوَذَ عَلَیۡہِمُ الشَّیۡطٰنُ فَاَنۡسٰہُمۡ ذِکۡرَ اللّٰہِ {۵۸ مجادلہ: ۱۹}
شیطان نے ان پر قابوپا لیا ہے اور انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے۔
نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِیَہُمۡ ۔۔۔ {۹ توبہ: ۶۷}
انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔
وَ لَا تُطِعۡ مَنۡ اَغۡفَلۡنَا قَلۡبَہٗ عَنۡ ذِکۡرِنَا وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۔۔۔۔ {۱۸ کہف: ۲۸}
اور آپ اس شخص کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اورجو اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔
اَذۡکُرۡکُمۡ میں تمہیں یادرکھوںگا۔مفسرین یہاں متعددتوجیہات پیش کرتےہیں۔مثلاًتممجھےاطاعت وعبادت سےیادکرو،میں تمہیں اپنی رحمت کےذریعے یاد رکھوں گا۔ بعض کے نزدیک مقصود یہ ہے: تم مجھے شکر کے ذریعے یاد رکھو، میں تمہیں نعمتوں میں اضافے کے ساتھ یاد رکھوں گا وغیرہ۔
لیکن بہتر یہ ہے کہ ذکر کا وسیع تر مفہوم ہی مراد لیا جائے۔ یعنی اللہ کو بندگی کے تمام مظاہر میں یاد رکھا جائے۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور احسان سے اپنی ربوبیت کے تمام مظاہر میں اپنے بندے کو یادر کھتا ہے۔
وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ شکر سے مراد اظہار نعمت ہے، خواہ زبان سے ہو یا عمل سے۔ اس کے مقابلے میں کفران نعمت ہے۔ یعنی چھپانا اور اظہار نہ کرنا۔ پس اللہ کی نعمتوں کے شکرکا مطلب یہ ہوا کہ ہر جگہ اور ہر عمل میں ان نعمتوں کا اظہار کرو۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
شُکْرُ کُلِّ نِعْمَۃٍ اَلْوَرِعُ عَنْ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْکَ ۔ {بحار الانوار ۶۷ : ۳۱۰}
ہرنعمت کا شکر اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب برتنا ہے۔
بندے کے شکرکرنے سے اللہ کوکیا فائدہ پہنچتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اللہ کا شکر کرنے سے آخر کار خود شکرگزار کو ہی فائدہ پہنچتا ہے:
وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۔ {۳۱ لقمان : ۱۲}
جو شکر کرتا ہے وہ اپنے (فائدے کے) لیے شکر کرتا ہے۔
شکر کرنا اللہ تعالیٰ کے اخلا ق میں سے ہے۔ جیساکہ ارشاد قدرت ہے:
وَ کَانَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِیۡمًا ۔ {۴ نساء ۱۴۷}
اور اللہ بڑا قدردان، جاننے والا ہے۔اسی لیے حکم ہے کہ
تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہِ ۔ { بحار الانوار ۵۸: ۱۲۹}
اپنے آپ کو خدائی اخلاق سے آراستہ کرو۔
احادیث
رسول خدا (ص) سے مروی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:
مَنْ کَانَ یُحِبُّ اَنْ یَّعْلَمَ مَنْزِلَتَہٗ عِنْدَ اللّٰہِ فَلْیَنْظُرْ کَیْفَ مَنْزِلَۃُ اللّٰہِ عِنْدَہٗ فَاِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُنْزِلُ الْعَبْدَ حَیْثُ اَنْزَلَ الْعَبْدُ اللّٰہَ مِنْ نَفْسِہِ ۔ {بحار الانوار ۹۰ : ۱۶۳}
اگر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ اللہ کے نزدیک اس کا کیا مقام ہے تو وہ یہ دیکھے کہ اس کے نزدیک اللہ کا کیا مقام ہے۔ کیونکہ اللہ اپنے بندے کو اتنا ہی مقام دیتا ہے، جتنا بندہ اللہ کو دیتا ہے۔
رسول اسلام (ص) سے مروی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا :
مَنْ اُعْطِیَ لِسَانًا ذَاکِرًا فَقَدْ اُعْطِیَ خَیْرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ ۔ {الوسائل ۷ : ۱۷۷}
جسے ذکر کرنے والی زبان عنایت ہو گئی گویا اسے دنیا و آخرت کی خوبیاں مل گئیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلا م سے مروی ہے:
شِیْعَتُنَا الَّذِیْنَ اِذَا خَلَوْا ذَکَرُوا اللّٰہَ کَثِیْراً ۔ {الوسائل ۷ : ۱۵۸}
ہمارے شیعہ وہ ہیں جو خلوت میں کثرت سے ذکر خدا کرتے ہیں۔
اہم نکات
۱۔ انبیاء (ع) کے فرائض منصبی یہ ہیں :
الف۔ بیان احکام: یَتۡلُوۡا عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتِنَا ۔۔۔۔
ب۔ تزکیہ یعنی خبائث سے پاک کر کے پاکیزہ ارتقائی منازل کی طرف رہنمائی کرنا: وَ یُزَکِّیۡکُمۡ ۔۔۔۔
ج۔ تعلیم کتاب و حکمت: وَ یُعَلِّمُکُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۔۔۔۔
۲۔ آنحضرت (ص) عالمین کے لیے اللہ کی نعمت ہیں: اَرۡسَلۡنَا فِیۡکُمۡ ۔۔۔۔
۳۔ اگر بندہ اپنی زندگی کے تمام مظاہر میں اللہ کو یاد رکھے تواللہ اپنی ربوبیت کے تمام مظاہر میں بندے کو یاد رکھتا ہے: فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ ۔۔۔
۴۔ شکر کا مطلب گناہوں سے اجتناب کرتے ہوئے ہر قول و عمل میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار کرنا ہے۔
۵۔ شکر تقرب الہٰی کا سبب ہے۔ اس کا فائدہ شکرگزار بندے کو ہی پہنچتاہے: وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ ۔
تحقیق مزید:
الوسائل ۶: ۴۴۲، ۷: ۱۵۷، مستدرک الوسائل ۵ : ۲۰۲ ۔ ۲۸۶، تفسیر القمی ۲ : ۱۵۰، عدۃ الداعیص ۲۵۳، الکافی ۲ : ۵۰۲، المحاسن ۱ : ۳۹۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 432)
2۔ ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ”
"وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔” ( سورہ جمعہ؛ آیت:02)
تشریح کلمات
الۡاُمِّیّٖنَ:
( ا م م ) الامی۔ اس کے معنی ناخواندہ سے کیے جاتے ہیں لیکن یہ لفظ یہودی اصطلاح ہے کہ وہ اپنے علاوہ دوسری قوموں کو اہانت کے طور پر اُمی کہتےہیں۔قرآنی اصطلاح میں جنہیں کتاب نہیں دی گئی یعنی جواہل کتاب نہ ہوانہیں اُمی کہتے ہیں اور اہل کتاب میں بھی جو لوگ کتاب نہیں پڑھ سکتے انہیں بھی قرآن نے اُمی کہا ہے:
وَ مِنۡہُمۡ اُمِّیُّوۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ الۡکِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ۔۔۔۔ (۲ بقرۃ: ۷۸)
ان میں کچھ ایسے ناخواندہ لوگ ہیں جو کتاب (تورات) کو نہیں جانتے سوائے جھوٹی آرزوؤں کے۔
ابن عباس سے روایت کے مطابق عربوں کو اُمی کہتے ہیں خواہ خواندہ ہوں یا ناخواندہ۔
تفسیر آیات
۱۔ ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ: اللہ تعالیٰ کی ذات وہ ہے جس نے غیر اہل کتاب میں سے ایک رسول مبعوث کیا یعنی ناخواندہ قوم میں سے ایک معلم کو مبعوث کیا۔ غیر تعلیم یافتہ قوم میں سے ایک تعلیم دہندہ کو مبعوث کیا۔ جاہل قوم میں سے ایک مقتدر عالم کو مبعوث کیا۔ یہ خود اس رسول کی رسالت پر ایک واضح دلیل ہے۔
آگے اس معلم کی تعلیم کے مضامین کا ذکر ہے۔ وہ مضامین یہ ہیں: تلاوت آیات، تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم۔
۲۔ وَ الۡحِکۡمَۃَ: حکمت واقع بینی اور حقیقت شعاری کو کہتے ہیں۔ خطا اس کی ضد ہے۔ لہٰذا حکمت کی تعلیم سے مراد حقائق تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ تمام مشکلات کی بنیاد حقائق تک رسائی نہ ہونا ہے۔ حقائق تک رسائی نہ ہونے کی صورت میں انسان ایک موہوم چیز کے پیچھے اپنی زندگی تلف کر دیتا ہے۔ زندگی ایک سراب کی مانند ہو جاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کام لوگوں کو سراب سے نکالنا، حقائق سے روشناس کرانا ہے۔
دیگر مضامین کی تشریح کے لیے ملاحظہ فرمائیں سورہ بقرہ آیت ۱۵۱۔
۳۔ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ: اس رسول اُمی کے مبعوث ہونے سے پہلے یہ لوگ نہ دنیاوی زندگی کے بارے میں کچھ جانتے تھے، نہ تہذیب و تمدن سے آشنا تھے اور نہ آخرت اور ابدی زندگی کے بارے میں کچھ جانتے تھے۔ دنیا و آخرت دونوں کے اعتبار سے گمراہ تھے۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 9 صفحہ 165)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button