مقالات قرآنی

دعا کی اہمیت اور آداب و شرائط

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
"وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ”(البقرہ:186)
"اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں تو (کہدیں کہ) میں (ان سے) قریب ہوں، دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں، پس انہیں بھی چاہیے کہ وہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ راہ راست پر رہیں”۔
تفسیر آیات
اس آیہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کا نہایت مشفقانہ انداز میں اظہار ہو رہا ہے، توجہ کیجیے: عِبَادِیۡ ’’میرے بندے ‘‘کی دلنواز تعبیر میں کس قدر انس و محبت نہفتہ ہے اور مؤمن کے دل میں اس وقت سکون و اطمینان آجاتا ہے، جب اسے یہ پتہ چلتا ہے کہ جس رب کو وہ پکارتا ہے اور مشکلات میں جس ذات کی طرف وہ رجوع کرتا ہے، وہ نہایت قریب ہے: فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ اور اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب، بلکہ خود انسان سے بھی زیادہ قریب ہے:
"وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡکُمۡ وَ لٰکِنۡ لَّا تُبۡصِرُوۡنَ” ( ۵۶ واقعہ :۸۵ )
اور (اس وقت ) تمہاری نسبت ہم اس شخص کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے ۔ اور وہ ہر وقت حاضر و ناظر ہے: اِنَّ رَبِّیۡ قَرِیۡبٌ مُّجِیۡبٌ ۔ ( بے شک میرا رب بہت قریب ہے، (دعاؤں کو) قبول کرنے والا ہے۔ ۱۱ ہود:۶۱)
اس تک اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے وقت صرف نہیں ہوتا اور اس کی بارگاہ میں اپنی درخواست پہنچانے کے لیے مادی و سائل و ذرائع کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ امیر و فقیر یکساں طور پر اپنے رب کریم کی بارگاہ میں اپنی آواز بآسانی پہنچا سکتے ہیں تو وہ اطمینان اور سکون کے بحر بیکراں میں ڈوب جاتا ہے۔
کس قدر شیریں ہے رب کریم کا ارشاد : میں پکارنے والوں کی پکار پر لبیک کہتا ہوں اور ان کی دعا قبول کرتا ہوں۔
علامہ طباطبائی فرماتے ہیں:
یہ وہ واحد آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے سات مرتبہ واحد متکلم کی ضمیر استعمال کی ہے۔
ملاحظہ ہو : جب آپ سے
۱۔ میرے بندے: عِبَادِیۡ
۲۔ میرے متعلق سوال کریں: عَنِّیۡ
۳۔ تو میں ان سے قریب ہی ہوں: فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ
۴۔ دعا کرنے والا جب مجھے پکارتا ہے: دَعَانِ
۵۔ میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں: اُجِیۡبُ
۶۔ پس انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں: فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ
۷۔ اورمجھ پر ایمان رکھیں: وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ
کس مہرو محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کو اپنے بندوں کے سامنے پیش فرما رہا ہے۔ یاد رہے اللہ تعالیٰ نے اپنی کبریائی کا اظہار جمع کی ضمیر کے ساتھ فرمایا ہے:” اِنَّا مُنۡزِلُوۡنَ عَلٰۤی اَہۡلِ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ "
( ۲۹ عنکبوت: ۳۴)
"بے شک ہم اس بستی میں رہنے والوں پر ان کی بدعملی کی وجہ سے آسمان سے آفت نازل کرنے والے ہیں”۔ وغیرہ لیکن اپنی مہربانی اور رحمت و شفقت کا اظہار واحدمتکلم کی ضمیر کے ساتھ فرماتا ہے:
"فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ”
اس آیت میں پوشیدہ نکات:
۱۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خطاب ہے:
اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ ’’جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق سوال کریں‘‘۔ کیونکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی وہ وسیلہ ہیں جن کے ذریعے رب کو پہچانا جاتاہے اور انہی کے ذریعے فیوضات الٰہی بندوں پرنازل ہوتی ہیں اور وہی عالمین کے لیے رحمت ہیں۔
۲۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رب کے بارے میں سوال کے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ اے رسول! کہدیجیے کہ میں قریب ہوں، بلکہ بلا واسطہ اور براہ راست اللہ خود اپنے بندوں سے ارشاد فرماتا ہے: فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ’’میں تو ان سے نزدیک ہوں‘‘۔ اس طرح خود طرز کلام سے بھی اللہ کے قرب اور اس کے لطف و کرم کا اندازہ ہوتا ہے۔
۳۔ دعا کی قبولیت کا وعدہ۔ اس کی شرط یہ ہے کہ دعا حقیقتاً دعا ہو۔ اِذَا دَعَانِ یعنی جب وہ مجھے (حقیقی معنوں میں) پکارے۔ اپنے دل و جان بلکہ اپنے پورے وجود کے ساتھ مجھے پکارے تو میں اس کی دعاقبول کروں گا، لیکن اگر صرف زبان ہلائے تو یہ دعا نہیں ہے۔
۴۔ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ پوری کائنات پرہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے اس کائنات کی ہر شے میں تصرف کرتا ہے۔ یہودیوں کا باطل نظریہ ہے کہ خدا مخلوقات کو خلق کرنے اورقضا و قدر بنانے کے بعد بے بس ہے اور کوئی جدید تصرف نہیں کر سکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ہر وقت کائنات میں اپنا تصرف اور عمل جاری رکھتا ہے: "کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ” ( رحمن : ۲۹)
” وہ ہر روز ایک (نئی ) کرشمہ سازی میں ہے”۔یہاں مسئلہ بدا کے سمجھنے کا مقام ہے، یعنی دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے اور اللہ کے پاس لوح محو و اثبات ہے۔
واضح رہے کہ جس طرح تشریعی دنیا میں نسخ ہوتا ہے اور اللہ کے تشریعی اور قانونی فیصلے بدل جاتے ہیں ، اسی طرح ’’تکوینی دنیا‘‘ میں بدا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے تکوینی فیصلے بدل جاتے ہیں ۔ یعنی حالات کے تقاضوں کی بنا پر ایک حکم بدل جاتا ہے، اسے نسخ کہتے ہیں اور استحقاق و اہلیت آنے پر انسان کی تقدیر بدل جاتی ہے، اسے بدا کہتے ہیں۔
دعا سے انسان رحمت الہی کا مستحق اور اللہ کے ارادے کے لیے اہل بن جاتا ہے، یہاں سے اس کی تقدیر بدل جاتی ہے۔
چنانچہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
"الدُّعَائُ یَرُدُّ الْقَضَائَ المُبْرَمَ بَعْدَ مَا اُبْرِمَ اِبْرَامًا”(المستدرک ۵ : ۱۶۶)
"دعا تقدیر کو اس وقت بھی بدل دیتی ہے جب وہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہو”۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
"لاَ یُرَدُّ الْقَضَائَ اِلَّا الدُّعَائُ وَ لَا یَرِیْدُ فِی الْعُمْرِ الا البِرُّ "
(کنز العمال جلد دوم حدیث ۳۱۴۸۔ مطبوعہ الرسالۃ ۱۹۸۹ء)
"تقدیر کو صرف دعا بدل سکتی ہے اور نیکی سے ہی عمر بڑھ سکتی ہے”۔
۵۔ اللہ تعالیٰ بندوں کو دعوت دیتا ہے کہ میں قریب ہوں، بندوں کی دعا قبول کرتا ہوں۔ آؤ مجھے پکارو اور میری اس دعوت پر لبیک کہو: فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ اس ایمان کے ساتھ مجھے پکارو کہ میں تمہاری درخواست کو قبول کرنے اورتمہاری حاجت روائی پر قادر ہوں۔ اس ایمان و سکون اورپورے اعتماد کے ساتھ مجھے پکارو گے تو دعا سنی جائے گی: وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ پھر تم رشد حاصل کرو گے۔ اس میں تمہاری ارتقا نہفتہ ہے، تمہارا تکامل پوشیدہ ہے۔ نتیجتاً صحیح ہدایت بھی اسی میں ہے: لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ۔
احادیث
۱۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے :
"اَلدُّعَا سَلَاحُ الْمُؤْمِنِ وَ عَمُودُ الدِّیْنِ وَ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ”
(اصول الکافی ۲ : ۴۶۸۔ کنز العمال جلد دوم حدیث: ۳۱۱۷)
"دعا مؤمن کا اسلحہ ہے، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کے لیے روشنی ہے”۔
۲۔ ایک اور جگہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے:
"اِفْزَعُوْا اِلَی اللّٰہِ فِیْ حَوَائِجِکُمْ وَ الْجَاُوْا اِلَیْہِ فِیْ مُلِمَّاتِکُمْ وَ تَضَرَّعُوْا اِلَیْہِ وَ ادْعُوْہُ فَاِنَّ الدُّعَامُخُّ الْعِبَادَۃِ "
(المستدرک ۵ : ۱۷۴)
"اپنی حاجات اللہ کی بارگاہ میں لے جاؤ اور حوادث کی صورت میں اللہ کی پناہ میں جاؤ، اسی کی طرف گریہ و زاری کرو اور اسی کو پکارو، کیونکہ دعا عبادت کی روح ہے”۔
۳۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
"اُدْعُوا اللّٰہَ وَ اَنْتُمْ مُوْقِنُوْنَ بِالْاِجَابَۃِ "(المستدرک ۵ : ۱۹۰)
"تم اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کے یقین کیساتھ دعا کرو”۔
۴۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
"اَفْضَلُ الْعِبَادَۃِ الدُّعَائُ وَ اِذَا اَذِنَ اللّٰہُ لِعَبْدٍ فِی الدُّعَائِ فَتَحَ لَہٗ اَبْوابَ الرَّحْمَۃِ اِنَّہٗ لَنْ یَّھْلِکَ مَعَ الدُّعَائِ اَحَدٌ”
(الوسائل ۷ : ۳۱ ۔ کنز العمال جلد دوم حدیث ۳۱۴۷)
"بہترین عبادت دعا ہے ۔جب اللہ کسی بندے کو دعا کی اجازت دیتا ہے تو اس کے لیے رحمت کے دروازے بھی کھول دیتا ہے۔ یاد رکھو! جو دعاکا سہارا لے وہ ہلاکت میں ہرگز مبتلا نہ ہو گا”۔
۵۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
"اَلدُّعَائُ کَھْفُ الْاِجَابَۃِ کَمَا اَنَّ السَّحَابَ کَھْفُ الْمَطَرِ” (اصول الکافی ۲ : ۴۷۱)
"دعا قبولیت کا خزانہ ہے جس طرح بادل بارش کا خزانہ ہے”۔
۶۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
"اَلدُّعَائُ تُرْسُ الْمُؤْمِنِ وَ مَتَی تُکْثِرْ قَرْعَ الْبَابِ یُفْتَحُ لَکَ ” (الوسائل ۷ : ۳۹)
(دعا مؤمن کی ڈھال ہے۔ جب دیر تک دروازے پر دستک دو گے تو آخر تمہارے لیے کھل جائے گا)۔
۷۔ حضرت علی علیہ السلام سے رویات ہے:
"اَلدُّعَامَفَاتِیْحُ النَّجَاحِ وَ مَقَالِیْدُ الْفَلَاحِ وَ خَیْرُ الدُّعَائِ مَا صَدَرَ عَنْ صَدْرٍ نَقِیٍّ وَ قَلْبٍ تَقِیٍّ”
(اصول الکافی ۲ : ۴۶۸)
"دعا کامیابی کی کنجی اور فتحیابی کا تمغہ ہے۔ بہترین دعا وہ ہے جو پاکیزہ سینے اور متقی دل سے نکلے”۔
۸۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:
"اَلدُّعَا مُخُّ الْعِبَادَۃِ " (الوسائل ۷ : ۲۷)
"دعا عبادت کی روح ہے”۔
"اَلدُّعَاھُوَ الْعِبَادَۃُ”
(کنز العمال جلد دوم حدیث: ۳۱۱۳)”دعا نفس عبادت ہے”۔
آداب دعا
۱۔ دعا کی ابتدا بسم اللّٰہ سے ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے :
"لَا یُرَدُّ دُعَااَوَّلُہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم”
(مستدرک الوسائل ۵ : ۳۰۴)
"وہ دعا رد نہ ہوگی جس کی ابتدا بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم سے ہو”۔
۲۔محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا جائے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
"صَلَاتُکُمْ عَلَیَّ اِجَابَۃٌ لِدُعَائِکُمْ وَ زَکوٰۃٌ لِاَعْمَالِکُمْ "
(الامالی للطوسی: ۲۱۵)
"مجھ پر تمہارا درود تمہاری دعاؤں کی قبولیت کا ضامن اور تمہارے اعمال کی تطہیر ہے”۔
حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے:
"کُلُّ دُعَائٍ مَحْجُوْبٌ عَنِ السَّمَآئِ تَعَالٰی حَتّٰی یُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ آلِہٖ "
(الوسائل ۷ : ۹۶۔ کنز العمال جلد دوم حدیث ۳۲۱۵۔ آل محمد کی جگہ اھل بیتہ ہے)
"محمد و آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے تک دعا اور آسمان کے درمیان پردہ حائل رہتا ہے” ۔
۳۔اعتراف گناہ کے بعد دعا کرنی چاہیے ۔حضرت صادق آل محمدعلیہ السلام سے منقول ہے :
"اِنَّمَا ھِیَ الْمِدْحَۃُ ثُمَ الثَّنَائُ ثُمَّ الْاِقْرَارُ بِالذَّنْبِ ثُمَّ الْمَسْئَلَۃُ "(اصول الکافی ۲ : ۴۸۴)
"دعا فقط یہ ہے کہ پہلے خدا کی حمد و ثنا ہو، پھر گناہوں کا اعتراف اور آخر میں طلب حاجت”۔
۴۔ خضوع و خشوع کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
"لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ دُعَآ قَلْبٍ سَاہٍ "(الوسائل ۷ : ۵۳۔ کنز العمال جلد دوم حدیث ۳۱۷۶)
"اللہ غافل دلوں کی دعا قبول نہیں کرتا”۔
"اِغْتَنِمُوا الدُّعَاعِندَ الرِّقَّۃِ فَاِنَّہَا رَحْمَۃٌ "(بحار الانوار ۹۰ : ۳۱۳۔ کنز العمال حدیث ۳۳۴۱)
"جب رقت طاری ہوجائے اس وقت دعا کرو کیونکہ رقت ایک رحمت ہے”۔
۵۔ دعا سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔
۶۔ اصرار کے ساتھ دعا کرنی چاہیے:
"اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُلَحِّیْنَ فِی الدُّعَا(مستدرک الوسائل ۵ : ۱۹۳)
"اللہ تعالیٰ دعا میں اصرار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے”۔
۷۔ مناسب اوقات میں دعا کرنی چاہیے۔ مثلاً نماز وتر، فجر، ظہر اور مغرب کی نماز کے بعد۔
۸۔ اجتماعی دعا ہو تو بہتر ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
"مَا مِنْ رَھْطٍ اَرْبَعِیْنَ رَجُلًا اِجْتَمَعُوْا فَدَعَوُا اللّٰہَ فِیْ اَمْرٍ اِلَّا اِسْتَجَابَ اللّٰہُ لَہُمْ "
(اصول الکافی ۲ : ۴۸۷)
"چالیس افراد پر مشتمل اجتماع اگر دعا کرے تو ان کی دعا قبول ہوگی”۔
۹۔ رازداری میں ہونی چاہیے۔
۱۰۔ چالیس مؤمنین کے لیے دعا: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
"مَنْ قَدَّمَ فِیْ دُعَائِہٖ اَرْبَعِیْنَ مِنَ الْمُوْمِنِیْنَ ثُمَّ دَعٰی لِنَفْسِہٖ اُسْتجِیْبَ لَہ"(الوسائل ۷ : ۱۱۷)
"اگر کوئی شخص پہلے چالیس مؤمنین کے لیے دعا کرے اور بعد میں اپنے لیے دعا کرے تو اس کی دعا قبول ہو گی”۔
۱۱۔ دعا کثرت سے مانگنی چاہیے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
"اِذَا اُلْہِمَ اَحَدُکُمْ اَلدُّعَائَ عِنْدَ الْبَلاَئِ فَاعْلَمُوْا اَنَّ الْبَلَائَ قَصِیْرٌ " (اصول الکافی ۲ : ۴۷۱)
"کسی مصیبت میں مبتلا ہونے کی صورت میں بھی اگر دعا کرنے کو جی چاہے تو سمجھ لو کہ یہ بلا تھوڑی دیر کے لیے ہے”۔
۱۲۔ نزول رحمت کے موقع پر دعا کرنی چاہیے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:
"اِغْتَنِمُوْا الدُّعَائَ عِنْدَ اَرْبَعٍ عِنْدَ قِرَائَۃِ الْقُرْاٰنِ وَ عِندَ الَاَذَانِ وَ عِنْدَ نُزُوْلِ الْغَیْثِ وَ عِنْدَ الْتِقَائِ الصَّفَیْنِ لِلْشَہَادَۃِ "(اصول الکافی۲: ۴۷۷)
"چار موقعوں پر دعا کو غنیمت جانو : تلاوت قرآن کے موقع پر، اذان اور بارش کے موقع پر اور جب دو صفیں شہادت کے لیے آمنے سامنے ہوں”۔
۱۳۔ رات کی تاریکی میں دعا کرنی چاہیے رسول اللہصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے:
"اِذَا کَانَ آخِرَ الْلَیْلِ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ ہَلْ مِنْ دَاعٍ فَاُجِیْبَہٗ وَ ہَلْ مِنْ سَائِلٍ فاُعْطِیْہٖ سُؤْلَہٗ وَ ہَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَاغْفِرَ لَہٗ وَ ہَلْ مِنْ تَائِبٍ فَاَتُوْبُ عَلَیْہِ " (الوسائل ۷ : ۶۹)
"جب رات کا آخری پہر آجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ہے کوئی جو دعا کرے کہ میں اس کی دعا قبول کروں۔ ہے کوئی سائل کہ میں سوال پورا کروں۔ ہے کوئی استغفار کرنے والا کہ اسے معاف کروں۔ ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کروں” ۔
۱۴۔ توسل : داؤد رقی راوی ہے:
"اِنِّی کُنْتُ اَسْمَعُ اَبَا عَبْدِ اللّٰہِ اَکْثَرَ مَا یُلِحُّ بِہِ فِی الدُّعَائِ علَی اللّٰہِ بِحَقِّ الْخَمْسَۃِ یَعْنِیْ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ فَاطِمَۃَ وَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ عَلَیْہِمُ السَّلَام " {اصول الکافی ۲ : ۵۸۰}
"میں نے حضرت ابو عبداللہ جعفر صادق علیہ السلام کو دعا کرتے ہوئے اکثر سنا کہ آپ پنجتن علیہ السلام سے بہت زیادہ متوسل ہوتے تھے۔ یعنی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، امیرالمؤمنین، حضرت فاطمہ، حضرت امام حسن و حضرت امام حسین علیہم السلام سے متوسل ہوتے تھے”۔
۱۵۔اسمائے حسنیٰ کے ساتھ دعا کی جائے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے۔
"مَنْ قَالَ یَا اللّٰہُ یَا اللّٰہُ عَشَرَ مَرَّاتٍ قِیْلَ لَہٗ لَبَّیْکَ مَا حَاجَتُکَ "(اصول الکافی ۲ : ۵۱۹)
اگر کوئی دس مرتبہ یا اللہ یا اللہ کہے تو اس سے کہا جاتا ہے: لبیک تیری حاجت کیا ہے؟
دعا اور عمل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
"یَا اَبَاذَرْ مَثَلُ الَّذِیْ یَدْعُوْ بِغَیْرِ عَمَلٍ کَمَثَلِ الَّذِیْ یَرْمِیْ بِغَیْرِ وَتَرٍ "(الوسائل ۷ : ۸۴)
"جو شخص عمل کے بغیر صرف دعا پر اکتفا کرتا ہے وہ ایسا ہے جو بغیر کمان کے تیر چلائے "۔
دعا کی عدم قبولیت کی حکمت: روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے اپنے صاحبزادے حضرت امام حسن علیہ السلام سے فرمایا۔
"وَ رُبَّمَا سَأَلْتَ الشَّیْئَ فَلاَ تُؤْتَاہُ وَ أُوتِیْتَ خَیْراً مِنْہُ عَاجِلاً أَوْ آجِلاً أَوْ صُرِفَ عَنْکَ لِمَا ہُوَ خَیْرٌ لَکَ فَلَرُبَّ أَمْرٍ قَدْ طَلَبْتَہُ فِیْہِ ہَلَاکُ دِیْنِکَ لَوْ اُوْتِیْتَہُ "
( نہج البلاغۃ ۔ ۳۱ وصیت نامہ برائے امام حسن علیہ السلام ترجمہ مفتی جعفر حسینؒ ص ۶۷۳۔ طبع امامیہ کتب خانہ لاہور)
"اور کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ تم ایک چیز مانگتے ہو اور وہ حاصل نہیں ہوتی مگر دنیا یا آخرت میں اس سے بہتر چیز تمہیں مل جاتی ہے یا تمہارے کسی بہتر مفاد کے پیش نظر تمہیں اس سے محروم کر دیا جاتا ہے، اس لیے کہ تم کبھی ایسی چیزیں بھی طلب کر لیتے ہو کہ اگر تمہیں دے دی جائیں تو تمہارا دین تباہ ہو جائے”۔
دعا اور تقدیر: دعا کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کے خالق اور اس کے مدبر کے ساتھ رابطہ قائم کیا جائے اور کائنات کے سرچشمۂ قوت اور منبع فیض سے فیض حاصل کیا جائے نیز اس خدا کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلایا جائے جو تمام علتوں کی علت اور پوری کائنات کا حقیقی مالک ہے ۔
دعا کا مقصد اس قادر مطلق کی مشیت سے درخواست کرنا ہے کہ وہ اپنی لوح محو و اثبات میں سائل کی تقدیر بدل دے:
"یَمۡحُوا اللّٰہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثۡبِتُ ۚۖ وَ عِنۡدَہٗۤ اُمُّ الۡکِتٰبِ "
(۱۳ رعد : ۳۹)
"اللہ جسے چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قائم رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے”۔
ائمہ طاہرین علیہم السلام کی احادیث میں یہ بات کثرت سے ملتی ہے کہ دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے۔ امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
"اَلدُّعَائُ یَرُدُّ الْقَضَائَ الْمُبْرمَ بَعْدَ مَا اَبْرَمَ اِبْرَامَا "
(المستدرک ۵ : ۱۱۶۔ کنز العمال ج ۲ حدیث: ۳۱۲۰)
"دعا تقدیر کو اس وقت بھی بدل دیتی ہے جب وہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہو”۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے منقول ہے:
"عَلَیْکُمْ بِالدُّعَائِ فَاِنَّ الدُّعَائَ لِلّٰہ وَ الطَّلَبَ اِلَی اللّٰہِ یَرُدُّ الْبَلَائَ وَ قَدْ قُدَّرَ وَ قُضِیَ وَ لَمْ یَبْقَ اِلَّا اِمْضَائُہٗ فِاِذَا دُعِیَ اللّٰہُ عزَّ وَ جَلَّ وَ سُئِلَ صُرِفَ الْبَلائُ صَرْفَۃً "
(اصول الکافی ۲ : ۴۷۰)
"تم ہمیشہ دعا کیا کرو کیونکہ دعا اور اللہ کی بارگاہ سے کچھ مانگنے سے بلا دفع ہو جاتی ہے، اگرچہ اس کا فیصلہ ہو چکا ہو اور صرف نافذ ہونا باقی رہ گیا ہو۔ پس جب اللہ سے دعا کی جاتی ہے اور سوال کیا جاتا ہے تو یہ بلا رفع دفع ہو جاتی ہے” ۔
دعا اللہ کا پسندیدہ عمل
ارشاد خداوندی ہے:"قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ "
(فرقان : ۷۷)
"کہدیجیے :اگر تمہاری دعائیں نہ ہوتیں تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی نہ کرتا”۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے:
"اِنَّ اللّٰہَ تَبارک و تَعالٰی اَحَبَّ شَیْئًا لِنَفْسِہٖ وَ اَبْغَضَہٗ لِخَلْقِہٖ اَبْغَضَ لِخَلْقِہٖ اَلْمَسْئَلَۃَ وَ اَحَبَّ لِنَفْسِہٖ اَنْ یُّسْألَ وَ لَیْسَ شَیْئٌ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ اَنْ یُّسْألَ "
(اصول الکافی ۴ : ۲۰)
"ایک چیز ایسی ہے جسے اللہ نے اپنے لیے پسند فرمایا اور خلق کے لیے پسند نہیں فرمایا۔ خلق سے سوال کرنے کو ناپسند فرمایا اور خود اپنی ذات سے سوال کرنے کو پسند فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سوال (دعا) سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز نہیں ہے”۔
حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:
"اَحَبُّ الْاَعْمَالِ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ فِی الْاَرْضِ ا لدُّعَائُ "۔
(اصول الکافی ۲ : ۴۶۷)
"روئے زمین میں اللہ کا سب سے زیادہ پسندیدہ عمل دعا ہے”۔
"اللہ اپنے بندوں سے اس لیے محبت رکھتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ راز و نیاز کرتے ہیں اور اپنی حاجت کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں”۔
خالق اور مخلوق کا فرق دیکھیے کہ مخلوق دوسروں کے سوال سے تنگ آ جاتی ہے، لیکن خالق مخلوق کے سوال سے خوش ہوتا ہے، بلکہ اس کے سوال نہ کرنے سے ناراض ہوتا ہے۔ یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا نہ کرنا بدبختی کا موجب ہے اور اس سے مانگنا اس کے ہاں عزیز ہونے کا طریقہ ہے۔
قبولیت دعا کی شرائط
۱۔ معرفت الٰہی: مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے کچھ لوگوں نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہم دعائیں کرتے ہیں لیکن ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
"لاَنَّکُمْ تَدْعُوْنَ مَنْ لَا تَعْرِفُوْنَہٗ "
(ستدرک الوسائل ۵ : ۱۹۱)
"تم ایسی ذات کو پکارتے ہو، جس کی تم معرفت نہیں رکھتے”۔
۲۔ معرفت کے مطابق عمل: ارشاد خداوندی ہے:
"وَاَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ "
( بقرہ : ۴۰)
"اور میرے عہد کو پورا کرو کہ میں تمہارے عہدکو پورا کروں گا”۔
۳۔ رزق حلال: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"مَنْ اَحَبَّ اَنْ یُسْتَجَابَ دُعاؤہ فَلْیُطَیِّبْ مَطْعَمَہ وَ مَکْسَبَہُ "
(بحار الانوار ۹۰: ۳۷۲ عدۃ الداعی: ۱۳۹)
"جو یہ پسند کرتاہو کہ اس کی دعا قبول ہو تو اسے چاہیے کہ اپنی روزی اورکمائی کو پاکیزہ رکھے” ۔
۴۔ حضور قلب: رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے:
"لَا یَقْبَلُ اللّٰہُ عَزَّ وَ جَلَّ دُعَائَ قَلْبٍ ساہٍ "
(الوسائل ۷ : ۵۳)
"اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں فرماتا”۔
۵۔ دوسرے مؤمنین کے لیے دعا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے
"مَنْ دَعَا لِمُؤْمِنٍ بِظَہْرِ الْغَیْبِ قَالَ الْمَلَکُ وَ لَکَ مِثْلُ ذٰلِکَ ”
(الوسائل ۷ : ۱۰۹)
"جو کسی مؤمن کے حق میں اس کی غیبت میں دعا کرے تو فرشتہ ندا دے گا : اس جیسی تیری حاجت بھی پوری ہو گی”۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
"دُعَائُ الْمَرْئِ لِاَخِیْہِ بِظَہْرِ الْغَیْبِ یُدِرُّ الرِّزْقَ وَ یَدْفَعُ الْمَکْرُوْہَ "
(اصول الکافی ۲ : ۵۰۷)
"اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کے حق میں دعا کی جائے تو اس سے رزق میں فراوانی آتی ہے اور بلا دفع ہوجاتی ہے”۔
۶۔ خوشحالی کے دنوں میں دعا: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:
"مَنْ سَرَّہٗ اَنْ یُسْتَجَابَ لَہٗ فِی الشِّدَّۃِ فَلْیُکْثِرِ الدُّعَائَ فِی الرَّخَائِ "
(اصول الکافی ۲ : ۴۷۲)
"جس کو یہ پسند ہو کہ مصیبت کے دنوں میں اس کی دعا قبول ہو تو وہ خوشحالی کے ایام میں کثرت سے دعا کیا کرے”۔
۷۔ گریہ و زاری: امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"وَلَوْ اَنَّ بَاکِیًا بَکیٰ فِیْ اُمَّۃٍ لَرُحِمُوْا "
(اصول الکافی ۲ : ۴۸۱)
"اگر امت میں ایک آدمی گریہ کرے تو سب پر رحم کیا جائے گا”۔
دعا کی طاقت: جیساکہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ دعا کائنات کے مصدر طاقت کی طرف رجوع کرنے سے عبارت ہے۔ اگر دعاکرنے والااس شعور و ادراک اور یقین و معرفت کے ساتھ دعا کرتا ہے کہ کائنات کا حاکم اعلیٰ اورصاحب اختیار و اقتدار فقط اللہ ہے تو اس کی دعا مؤثر ثابت ہو گی۔
رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے:
"لَوْ عَرَفْتُمُ اللّٰہَ حَقَّ مَعْرِفَتِہٖ لَزَالَتِ الْجِبَالُ بِدُعَائِکُمْ "
(مستدرک الوسائل ۱۷ : ۳۰۱)
"اگر تم اللہ کی اس طرح معرفت حاصل کرو جس طرح اس کا حق ہے تو تمہاری دعا سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہل سکتے ہیں”۔
اہم نکات
۱۔ دعا کائنات کے خالق ،حاکم اعلیٰ اور سرچشمۂ طاقت سے ارتباط کا نام ہے۔
۲۔ مطلوبہ شرائط کی حامل دعا تقدیر ساز اور مؤثر تربیتی عامل بن سکتی ہے۔
۳۔ دعا سے عدم دلچسپی راندۂ درگاہ الہٰی ہونے کی دلیل ہے۔
۴۔ جامع الشرائط دعا کا قبول نہ ہونا ممکن ہی نہیں: اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 498)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button