خطبات جمعہرسالاتسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:212)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک04 اگست 2023ء بمطابق 16 محرم الحرام 1445ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: پیغام کربلا اور امام سجادؑ کا کردار
واقعہ کربلا کے بعد جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ امام حسین (علیہ السلام) کی عظیم قربانی اور اس کے پیغام کو نشر کرنا تھا۔ اس اہم ذمہ داری کو امام زین العابدینؑ اور ان کی پھوپھی جناب زینب (سلام اللہ علیہا)نے اسیر ہونے کے باوجود بہت ہی شجاعت اور شہامت سے انجام دیا۔
امام سجاد عليہ السلام کی حيات طيبہ کا ايک نہايت اہم پہلو يہ ہے کہ آپ (ع) کربلا کے واقعے ميں اپنے والد ماجد سيد الشہداء امام حسين عليہ السلام کے ہمراہ تھے اور شہيدوں کی شہادت کے بعد اپنی پھوپھی ثانی زہرا سلام اللہ عليہا کے ہمراہ کربلا کے انقلاب اور عاشورا کی تحريک کا پيغام لے کر بنو اميہ کے ہاتھوں اسيری کی زندگی قبول کر لی اور اسيری کے ايام ميں عاشورا کا پيغام مؤثر ترين انداز سے دنيا والوں تک اور رہتی دنيا تک کے حريت پسندوں تک، پہنچايا۔
عاشورا کا قيام زندہ جاويد اسلامی تحريک ہے کہ جو محرم سن 61 ہجری کو انجام پائی۔ يہ تحريک دو مرحلوں پر مشتمل تھی:
پہلا مرحلہ تحريک کا آغاز، جہاد و جانبازی اور اسلامی کرامت کے دفاع کے لیے خون و جان کی قربانی دينے کا مرحلہ تھا جس ميں عدل کے قيام کی دعوت بھی دی گئی اور دين محمد (ص) کے احياء کے لیے اور سيرت نبوی و علوی کو زندہ کرنے کے لیے جان نثاری بھی کی گئی، پہلا مرحلہ رجب المرجب سن 60 ہجری سے شروع اور 10 محرم سن 61 ہجری پر مکمل ہوا جبکہ دوسرا مرحلہ اس قيام و انقلاب کو استحکام بخشنے، تحريک کا پيغام پہنچانے اور علمی و تہذيبی جدوجہد نيز اس قيام مقدس کے اہداف کی تشريح کا مرحلہ تھا۔ پہلے مرحلے کی قيادت امام سيد الشہداء عليہ السلام نے کی تھی تو دوسرے مرحلے کی قيادت سيد الساجدين امام زين العابدين عليہ السلام کو سونپ دی گئی۔
امامت شيعہ اور تحريک عاشورا کی قيادت امام سجاد عليہ السلام کو ايسے حال ميں سونپی گئی تھی کہ آل علی عليہ السلام کے اہم ترين افراد آپ (ع) کے ہمراہ اسير ہو کر امويوں کے دار الحکومت دمشق کی طرف منتقل کیے جا رہے تھے۔ آل علی (ع) پر ہر قسم کی تہمتوں اور بہتانوں کے ساتھ ساتھ جسمانی طور پر بھی بنی اميہ کے اذيت و آزار کا نشانہ بنے ہوئے تھے اور ان کے متعدد افراد امام حسين عليہ السلام کے اصحاب کے ہمراہ کربلا ميں شہادت پا چکے تھے اور بنی اميہ کے دغل باز حکمران موقع سے فائدہ اٹھا کر ہر قسم کا الزام لگانے ميں اپنے آپ کو مکمل طور پر آزاد سمجھ رہے تھے کيونکہ مسلمان جہاد کا جذبہ کھو چکے تھے اور ہر کوئی اپنی خيريت کو مناسب و بہتر سمجھتا تھا۔
امام زين‏ العابدين عليہ السلام نے ايسے حالات ميں امامت کا عہدہ سنبھالا جبکہ صرف تين افراد آپ (ع) کے حقيقی پيروکار تھے اور آپ (ص) نے ايسے ہی حال ميں اپنی علمی و تہذيبی و تعليمی جدوجہد اور بزرگی علمی و ثقافتی شخصيات کی تربيت کا آغاز کيا اور ايک گہری اور مدبرانہ اور وسيع تحريک کے ذريعے امامت کا کردار ادا کرنا شروع کيا اور امام سجاد عليہ السلام کی يہی تعليمی و تربيتی تحريک امام محمد باقر اور امام جعفر صادق عليہما السلام کی عظيم علمی تحريک کی بنياد ثابت ہوئی۔ اسی بناء پر بعض مصنفين اور مؤلفين نے امام سجاد عليہ السلام کو ” باعث الاسلام من جديد ” یعنی نئے سرے سے اسلام کو متحرک اور فعال کرنے والے کا لقب ديا ہے۔
امام علیہ السلام نے حکومت وقت کے ظلم اور اہل بیت علیہم السلام کی مظلومیت کو اپنی دعاؤں میں بیان کرنا شروع کیا اور ان دعاؤں میں لوگوں کو تعلیم دینا شروع کیں امام ؑ کی وہ دعائیں آج ہمارے پاس صحیفہ سجادیہ کی شکل میں موجود ہیں، چنانچہ امام علیہ السلام کی یہ دعائیں مؤمنین میں رائج ہوتی چلیں گئیں۔ ان دعاؤں میں حاکم وقت کی حقیقت اور اس کے ظلم و جور کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور لوگوں کے ذہن کو ان سازشوں کی طرف متوجہ کیا کہ حکومت وقت تعلیمات دین کو ختم کرنا چاہتی ہے اور مقام اولیاء اللہ و اصفیاء اللہ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے نیز حلال و حرام میں تحریف کرنا چاہتی ہے اور سنت رسول کو نابود کرنا چاہتی ہے۔
چنانچہ امام سجاد علیہ السلام نے ان سخت حالات کا مقابلہ اپنی دعاؤں کے ذریعہ کیا ، امام (ع) کی ان دعاوٴں کے مجموعہ کو صحیفہ سجادیہ کہا جاتا ہے، امام کی یہ عظیم میراث ہمارے لیے بلکہ ہر زمانے کے لیے حقیقت کو واضح کر دیتی ہے۔یہ امام سجاد (علیہ السلام) کے عظیم علمی اور عرفانی کارناموں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب میں ۵۷ دعائیں اور مناجات ہیں۔ ان دعاؤں میں توحید کے علاوہ سماجی اور اخلاقی موضوعات کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ اسے "زبور آل محمد ( ص )”  کہا جاتا ہے۔
امام سجاد علیہ السلام کی عظیم میراث میں سے ایک حقوق نامی رسالہ بھی ہے جس میں تمام خاص و عام حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ جس کے مطالعہ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ عوام الناس کے حقوق کیا ہیں اور خداوند کے حقوق کیا کیا ہیں، انسان کو اپنے اعضاء و جوارح پر کیا حق ہے اور کیا حق نہیں ہے۔
امام کا عظیم خطبہ:
امام علیہ السلام نے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک واقعہ کربلا کی حقانیت لوگوں کو بتائی اورپھر اپنی بقیہ تمام زندگی مختلف طریقوں سے واقعہ کربلا کو زندہ رکھا۔حضرت امام سجاد(ع) ہی وہ ہستی ہیں کہ جنہوں نے امام حسین(ع) کے برپا کردہ انقلاب کو اپنی پھوپھی اور اسیران کربلا کے ہمراہ آب حیات پلایا اور انقلاب عاشوراء کا زندگی کی آخری سانسوں تک دفاع کیا اور دنیا کو اس عظیم انقلاب کے اغراض و مقاصد سے آگاہ کیا اور اس کے ثمرات کو ہر خطے تک پہنچا دیا۔دربار یزید میں امام کا خطبہ بہت مشہور ہے۔جس کے بارے بیان کیا جاتا ہے کہ ایک خطیب دربار منبر پر گیا اور حضرت علی (علیہ السلام) اور اہل بیت اطہار کے سلسلے میں (نعوذ باللہ) بد کلامی کرنے لگا اور یزید اور بنی امیہ کی تعریف میں قصیدے پڑھنے لگا۔
امام زین العابدین(علیہ السلام) نے یزید کو مخاطب کر کے کہا مجھے بھی منبر پر جاکر کچھ کہنے کا موقع دے، جس سے خدا کی خوشنودی حاصل ہو اور یہاں موجود افراد کو ثواب حاصل ہو۔ یزید خاندان عصمت و طہارت کے علم و معرفت اور فصاحت و بلاغت سے واقف تھا اس لیے خوفزدہ تھا اور امام کو اجازت دینے سے ہچکچا رہا تھا، لیکن لوگوں کے اصرار پر مجبور ہوا اور امام کو منبر پر جانے کی اجازت دی۔
امام زین العابدین(علیہ السلام)  رونق افروز منبر ہوئے اور ایسی تقریر کی کہ لوگوں کے دل ان کے حلقوم میں اٹکنے لگے اور آنکھوں سے اشکوں کے سیلاب جاری ہونے لگے، مرد و خواتین رونے اور چلانے لگے، دربار میں ایک کہرام مچ گیا، امام(علیہ السلام) نے فرمایا:
أَيُّهَا النَّاسُ أُعْطِينَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ؛ لوگو! خدا نے ہمیں چھ امتیازات اور سات فضیلتوں سے نوازا ہے؛
أُعْطِينَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ.
ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔
وَ فُضِّلْنَا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ الْمُخْتَارَ مُحَمَّداً
ہماری سات فضیلتیں یہ ہیں:خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد ؐہم سے ہیں۔
وَ مِنَّا الصِّدِّيقُ صدیق (امیرالمؤمنین علیؑ) ہم سے ہیں۔
وَ مِنَّا الطَّيَّارُ جعفر طیار ہم سے ہیں۔
وَ مِنَّا أَسَدُ اللَّهِ وَ أَسَدُ رَسُولِهِ شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔
وَ مِنَّا خيرة نساء العالمين سیدہ نساء العالمین ہم میں سے ہیں۔
وَ مِنَّا سِبْطَا هَذِهِ الْأُمَّةِ. اس امت کے دو سبط حسن و حسین ؑ ہم سے ہیں۔
اس کے بعد امام (ع) نے اپنا تعارف کرایا،
مَنْ عَرَفَنِي فَقَدْ عَرَفَنِي وَ مَنْ لَمْ يَعْرِفْنِي أَنْبَأْتُهُ بِحَسَبِي وَ نَسَبِي.
لوگو! [اس مختصر تعارف کے بعد] جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔
أَيُّهَا النَّاسُ أَنَا ابْنُ مَكَّةَ وَ مِنَى أَنَا ابْنُ زَمْزَمَ وَ الصَّفَا
. لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں،میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں،
أَنَا ابْنُ مَنْ حَمَلَ الرُّكْنَ بِأَطْرَافِ الرِّدَا.
میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجرالاسود کو اپنی عبا کے پلو سے اٹھاکر اپنے مقام پر نصب کیا،
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنِ ائْتَزَرَ وَ ارْتَدَى
میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں،
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنِ انْتَعَلَ وَ احْتَفَى.
میں اس ‏عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے،
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنْ طَافَ وَ سَعَى.
میں بہترین طواف کرنے والوں اور سعی کرنے والے کا بیٹا ہوں؛
أَنَا ابْنُ خَيْرِ مَنْ حَجَّ وَ لَبَّى.
میں بہترین حج انجام دینے والے اور بہترین لبیک کہنے والے کا بیٹا ہوں
خطبے کی وضاحت:
فرزند حج
امام سجادؑ نے اس خطبے میں بعض ایسے مسائل کو بیان فرمایا ہے جو نہایت توجہ کے طلبگار ہیں؛ آپ نے فرمایا:
أَنَا ابْنُ مَكَّةَ وَ مِنَى أَنَا ابْنُ زَمْزَمَ وَ الصَّفَا
میں فرزند مکہ و منیٰ، زمزم و صفا ہوں۔ ان جملات کی توضیح میں درج ذیل احتمالات پائے جاتے ہیں:
ان جملوں کا معنا میں فرزند مناسک حج ہوں ہے۔ اس تفسیر کے ساتھ کہ مناسک حج ایک توحیدی مناسک اور عبادت ہونے کے اعتبار سے آپ کے خون اور گوشت میں رچی بسی ہے، نہ یہ کہ آپ دوسرے مسلمانوں کی طرح فقط مناسک حج کو انجام دیتے ہیں بلکہ جتنا زیادہ حج اور اس کے مناسک کے ساتھ مانوس ہونا ممکن ہے وہ آپ کے وجود میں موجود ہے۔ بعض اوقات لوگ کسی چیز کے ساتھ اپنے شدید انس اور لگاؤ کو بتانے کی خاطر اپنے آپ کو اس امر کا بیٹا یا بیٹی قرار دیتے ہیں۔ یہاں امام سجاد یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اے یزید اور یزیدیو! تم ہمیں دین سے خارج سمجھتے ہو؟ میرا دین کے ساتھ اتنا لگاؤ اور انس ہے کہ گویا میں اس کا فرزند ہوں۔
حج کے مراسم حضرت ابراہیم کی یادگار ہے اور مسلمان ان مناسک کو حضرت ابراہیم کے نام سے جدا ناپذیر سمجھتے ہیں۔ امامؑ یہاں پر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں فرزند ابراہیم خلیل ہوں،
ایک اور احتمال یہ بھی ہے کہ امام یہاں پر اپنے آپ کو ایک ایسی شخصیت سے منسوب کرنا چاہتے ہیں جس نے مناسک ابراہیمی کو زندہ کیا یعنی میں فرزند رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہوں۔
پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ اپنی قرابت
پیغمبر اکرمؐ کی تعارف کا مقصد اسیران کربلا کی آنحضرتؐ کے ساتھ موجود قرابت کو لوگوں تک پہنچانا مقصود تھا ورنہ شام کے لوگ پیغمبر اکرمؐ کو تو جانتے تھے اس حوالے سے آنحضرت کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے۔ بلکہ یہاں یہ ان اسیروں کی قافلہ کی رسول خدا کے ساتھ موجود نسبت اور قرابت کو بتانا مقصود تھا جسے حکمران جماعت خارجی کے نام سے متعارف کرا رہی تھی۔
حضرت علیؑ کا تعارف
شام میں بنی امیہ کے ہاتھوں امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کی شخصیت اس حد تک تخریب ہو چکی تھی کہ امام سجادؑ کو اس خطبے میں زیادہ تر حضرت علیؑ کا تعارف کرنا پڑا اور یہ بہترین موقع تھا کہ امام سجادؑ بنی امیہ کے ہاتھوں چالیس سال تک تخریب شدہ حضرت علیؑ کی شخصیت کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے بیان کرے۔
حضرت علیؑ کے فضائل شام کے لوگوں کیلئے ایک نئی چیز تھی یہاں پر ہم ان فضائل میں سے بعض کی مختصر توضیح دیتے ہیں۔
دو تلواروں کے ساتھ جنگ کرنا
امام سجادؑ حضرت علیؑ کی بعض فضائل کو بیان کرنے کے بعد اس فضیلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
أَنَا ابْنُ مَنْ ضَرَبَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ بِسَيْفَيْنِ وَ طَعَنَ بِرُمْحَيْنِ
میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سامنے اور آپ ؐکے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا
میرے دادا نے دو دو تلواروں کے ساتھ جنگ کی۔ یہاں دو تلوار سے کیا مراد ہے، کچھ احتمالات پائے جاتے ہیں:
وہ دو تلواریں جسے پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ کو بخش دی تھی۔ پیغمبر اکرمؐ نے آٹھویں سنہ ہجری کو على ؑ کو منات نامی ایک بت کو توڑنے کیلئے روانہ کیا۔ امام علیؑ نے اس بت کو توڑنے کے بعد اس بت سے متعلق تمام اشیاء کو اٹھا کر پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں لے آئے۔ اس بت سے متعلق اشیاء میں دو تلواریں بھی تھیں جسے حضرت علیؑ نے پیغمبر اکرمؐ کی خدمت میں پیش کیا ان تلواروں کو حارث بن ابى شمر غسانی -پادشاہ غسان- نے اس بت کیلئے ہدیہ کے طور پر دیا تھا۔ ان تلواروں میں سے ایک کا نام مخذم اور دوسرے کا نام رسوب تھا۔ پیغمبر اکرمؐ نے دونوں تلواریں حضرت علیؑ بخش دیں۔۔
دو تلوار سے مراد تنزیل اور تاویل ہے۔پیغمبر اکرمؐ سے ایک حدیث میں آیا ہے کہ:
علی، تاویل کے مطابق جنگ کرینگے جس طرح میں نے تنزیل کے مطابق جنگ کی۔تنزیل یعنی قرآن کے نازل کردہ حکم کے مطابق واضح کفار سے جنگ۔ اور تاویل یعنی قرآن کے جنگی احکام کو تطبیق کرتے ہوئے منافقین سے جنگ
مراد یہ ہے کہ ایک تلوار کے بعد دوسری تلوار لے کر جنگ کرتے تھے جس طرح یہ کام جنگ احد میں انجام دیا کہ آپ کی پہلی تلوار کے ٹوٹنے کے بعد پیغمبر اکرمؐ نے ذوالفقار نامی تلوار دے دیا تھا۔
ممکن ہے آپ کی تلوار یعنی ذولفقار کے دو دھار ہونے کی طرف اشارہ ہو۔۔
دو بار ہجرت
أَنَا ابْنُ مَنْ هَاجَرَ الْهِجْرَتَيْنِ میں اس کا بیٹا ہوں جس نے دو بار ہجرت کی۔
اس خطبے میں حضرت علیؑ کی ایک صفت هَاجَرَ الْهِجْرَتَيْنِ کے عنوان سے ذکر کیا ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپؑ نے دو دفعہ ہجرت کی۔
پہلی ہجرت مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت ہے جبکہ دوسری ہجرت کے بارے میں کئی احتملات ہیں:
پہلا احتمال: شعب ابی طالب کی طرف ہجرت۔
دوسرا احتمال: ایک حدیث میں ابن عباس سے منقول ہے کہ امام علیؑ نے اپنے بھائی جعفر کے ساتھ حبشہ ہجرت کی پھر حبشہ سے مدینہ تشریف لے آئے۔ لیکن یہ نقل ضعیف ہے کیونکہ کسی بھی معتبر تاریخی منابع میں حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں حضرت علیؑ کا نام ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ علاوہ براین جس وقت حبشہ ہجرت کرنے والے مہاجرین حبشہ میں زندگی بسر کر رہے تھے حضرت علیؑ مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تھے۔
تیسرا احتمال: مدینہ سے کوفہ کی طرف ہجرت مراد ہے
امام حسینؑ کی مظلومیت
امام سجادؑ نے حضرت علیؑ کے تعارف اور اپنے آپ کو پیغمبر اکرمؐ اور حضرت فاطمہؑ سے منسوب کرنے کے بعد امام حسینؑ کی مظومیت اور آپ کی شہادت کی نوعیت بیان فرمائی۔ امام سجادؑ کی پیغمبر اکرمؐ اور حضرت فاطمہؑ کے ساتھ قرابت ثابت ہونے اور حضرت علیؑ کے بارے میں بنی امیہ  اور یزید کے جھوٹے پروپیگنڈے اور امام حسینؑ کی مظلومانہ شہادت سے با خبر ہونا شام کے لوگوں پر کافی اثر انداز ہو سکتا تھا اسلئے امام سجادؑ نے اس خطبے میں اپنے والد گرامی کی مظلومانہ شہہادت پر بھی کسی حد تک گفتگو فرمائی۔
امام کے خطبے کا اثر
پس امام سجاد ؑ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر "انا انا” فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام ؑ کا کلام قطع کردیا۔
فَلَمَّا قَالَ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ عَلِيٌّ لَا شَيْ‏ءَ أَكْبَرُ مِنَ اللَّهِ.
جب مؤذن نے کہا:الله أكبر الله أكبر
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔
فَلَمَّا قَالَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ شَهِدَ بِهَا شَعْرِي وَ بَشَرِي وَ لَحْمِي وَ دَمِي.
مؤذن نے کہا:أشهد أن لاإله إلا الله
امام علي بن الحسین علیہ السلام نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں۔
فَلَمَّا قَالَ الْمُؤَذِّنُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ الْتَفَتَ مِنْ فَوْقِ الْمِنْبَرِ إِلَى يَزِيدَ
فَقَالَ مُحَمَّدٌ هَذَا جَدِّي أَمْ جَدُّكَ يَا يَزِيدُ فَإِنْ زَعَمْتَ أَنَّهُ جَدُّكَ فَقَدْ كَذَبْتَ وَ كَفَرْتَ وَ إِنْ زَعَمْتَ أَنَّهُ جَدِّي فَلِمَ قَتَلْتَ عِتْرَتَهُ
جب مؤذن نے کہا:أشهد أن محمدا رسول الله
امام علیہ السلام نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے مؤذن! تمہیں اسی محمد ؐ کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تاکہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمد ؐمیرے نانا ہیں یا تمہمارے؟ اگر کہوگے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولوگے اور کافر ہوجاؤگے اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ ؐمیرے نانا ہیں تو بتائیں کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے اور میرے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟
پھر ایک کہرام بپا ہو گیا، لوگ غش کھا کھا کر گرنے لگے۔ یہ پیغام کربلا تھا جو سب کے کانوں تک پہنچا۔ یہ حق کی وہ آواز تھی جسے تاریخ نے اپنے دامن میں سمیٹ لیا۔ یزید سے جب کوئی بات نہیں بن پڑی تو اس نے ابن زیاد کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔
امام سجادؑ کے خطبے سے مسجد میں موجود لوگ بہت متأثر ہوئے۔ ریاض القدس نامی کتاب میں آیا ہے کہ یزید نماز پڑھے بغیر مسجد سے باہر چلا گیا یوں یہ اجتماع بھی درہم برہم ہو گیا۔ جب امام منبر سے نیچے اتر آئے تو لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو گئے سب نے اپنے کئے پر امام سے معافی مانگ لی۔
دربار میں موجود ایک یہودی کی حکایت
امام سجادؑ کے خطبے کے بعد محفل میں موجود ایک یہودی نے یزید کو برا بھلا کہا اور اپنے پیغمبر کی بیٹی کے اولاد کو اس طرح مظلومانہ طور پر شہید کرنے پر اس کی یوں مذمت اور سرزنش کی:خدا کی قسم اگر ہمارے نبی موسى بن عمران کی کوئی اولاد ہمارے پاس ہوتے تو ہمارا یہ گمان ہے کہ ہم ان کی پرستش کی حد تک احترام کرتے۔ لیکن تم لوگ! تمہارا نبی کل اس دنیا سے چلا گیا ہے اور آج ان کی اولاد پر حملہ آور ہوئے ہو اور اسے تہ تیغ کر ڈالے ہو؟ افسوس ہو تم لوگوں پر!
پس امام کی تقریر نے یزید کے کریہہ چہرے سے نقاب نوچ پھینکی اور وہ اتنا کمزور ہوگیا کہ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اپنے مظالم کا دفاع کیسے کرے۔ اس نے امام سے پوچھا، آپ شام میں رہنا چاہتے ہیں یا مدینہ جانا چاہتے ہیں؟ امام زین العابدینؑ اور جناب زینب کبریؑ نے فرمایا، ہم اپنے جد امجد کی قبر مطہر پر واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔پس ان ہستیوں کو رہا کرنا یزید کی کوئی اچھائی نہیں تھی بلکہ یہ اس کی مجبوری بن گئی تھی وہ زینب و سجاد ؑ کی تقریروں اور انقلابی اقدامات سے خوفزدہ ہوچکا تھا۔

٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button