سیرتسیرت امام محمد تقیؑ

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کے بعض کرامات اور مختصر ارشادات

صاحب تفسیر علامہ حسین واعظ کاشفی کا بیان ہے کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی کرامات بے شمار ہیں۔
روضۃ الشہداء ص 438
علامہ عبد الرحمن جامی تحریر کرتے ہیں کہ :
مامون رشید کے انتقال کے بعد حضرت امام محمد تقی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اب تیس ماہ بعد میرا بھی انتقال ہو جائے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
ایک شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ ایک مسماۃ(ام الحسن) نے آپ سے درخواست کی ہے کہ اپنا کوئی جامہ کہنہ (پرانا لباس) دیجیے تا کہ میں اسے اپنے کفن میں رکھوں آپ نے فرمایا کہ اب جامہ کہنہ کی ضرورت نہیں ہے۔ روای کا بیان ہے کہ میں وہ جواب لے کر جب واپس ہوا تو معلوم ہوا کہ 13 ۔ 14 دن ہو گئے ہیں کہ وہ انتقال کر چکی ہے۔
ایک شخص (امیہ بن علی) کہتا ہے کہ میں اور حماد بن عیسی ایک سفر میں جاتے ہوئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ سے رخصت ہو لیں، آپ نے ارشاد فرمایا کہ تم آج اپنا سفر ملتوی کر دو، چنانچہ میں حسب الحکم ٹہر گیا، لیکن میرا ساتھی حماد بن عیسی نے کہا کہ میں نے سارا سامان سفر گھر سے نکال رکھا ہے اب اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ سفر ملتوی کر دوں، یہ کہہ کر وہ روانہ ہو گیا اور چلتے چلتے رات کو ایک وادی میں جا پہنچا اور وہیں قیام کیا، رات کے کسی حصے میں عظیم الشان سیلاب آ گیا، اور وہ تمام لوگوں کے ساتھ حماد کو بھی بہا کر لے گیا۔
شواہد النبوت ص 202
علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ معمر ابن خلاد کا بیان ہے کہ ایک دن مدینہ منورہ میں جب کہ آپ بہت کمسن تھے مجھ سے فرمایا کہ چلو میرے ہمراہ چلو ! چنانچہ میں ساتھ ہو گیا حضرت نے مدینہ سے باہر نکل کر ایک وادی میں جا کر مجھ سے فرمایا کہ تم ٹھر جاؤ میں ابھی آتا ہوں چنانچہ آپ نظروں سے غائب ہو گئے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس ہوئے واپسی پر آپ بے انتہاء ملول اور رنجیدہ تھے، میں نے پوچھا : فرزند رسول ! آپ کے چہرہ مبارک سے آثار حزن و ملال کیوں ہویدا ہیں ارشاد فرمایا کہ اسی وقت بغداد سے واپس آ رہا ہوں وہاں میرے والد ماجد حضرت امام رضا علیہ السلام زہر سے شہید کر دئیے گئے ہیں۔ میں ان پر نماز وغیرہ ادا کرنے گیا تھا۔
قاسم بن عباد الرحمن کا بیان ہے کہ میں بغداد میں تھا میں نے دیکھا کہ کسی شخص کے پاس تمام لوگ ہمیشہ آتے جاتے ہیں، میں نے دریافت کیا کہ جس کے پاس آنے جانے کا تانتا بندھا ہوا ہے یہ کون ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ ابو جعفر محمد بن علی علیہ السلام ہیں، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ آپ ناقہ پر سوار اس طرف سے گذرے ، قاسم کہتا ہے کہ انہیں دیکھ کر میں نے دل میں کہا کہ وہ لوگ بڑے بیوقوف ہیں جو آپ کی امامت کے قائل ہیں اور آپ کی عزت و توقیر کرتے ہیں، یہ تو بچے ہیں اور میرے دل میں ان کی کوئی وقعت محسوس نہیں ہوتی، میں اپنے دل میں یہی سوچ رہا تھا کہ آپ نے قریب آ کر فرمایا: اے قاسم بن عبد الرحمن جو شخص ہماری اطاعت سے گریزاں ہے، وہ جہنم میں جائے گا۔ آپ کے اس فرمانے پر میں نے خیال کیا کہ یہ جادوگر ہیں کہ انہوں نے میرے دل کے ارادے کو جان لیا ہے، جیسے ہی یہ خیال میرے دل میں آیا آپ نے فرمایا کہ تمہارا خیال بالکل غلط ہے۔ تم اپنے عقیدے کی اصلاح کرو یہ سن کر میں نے آپ کی امامت کا اقرار کیا اور مجھے ماننا پڑا کہ آپ حجت اللہ ہیں۔
قاسم بن الحسن کا بیان ہے کہ میں ایک سفر میں تھا ، مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مفلوج الحال شخص نے مجھ سے سوال کیا، میں نے اسے روٹی کا ایک ٹکڑا دیدیا۔ ابھی تھوڑی دیر گذری تھی کہ ایک زبردست آندھی آئی اور وہ میری پگڑی اڑا کر لے گئی۔ میں نے بڑی تلاش کی لیکن وہ دستیاب نہ ہو سکی جب میں مدینہ پہنچا اور حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے ملنے گیا تو آپ نے فرمایا کہ اے قاسم تمہاری پگڑی ہوا اڑا لے گئی میں نے عرض کیا جی حضور! آپ نے اپنے ایک غلام کو حکم دیا کہ ان کی پگڑی لے آؤ، غلام نے پگڑی حاضر کی میں نے بڑے تعجب سے دریافت کیا کہ مولا ! یہ پگڑی یہاں کیسے پہنچی ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تم نے جو راہ خدا میں روٹی کا ٹکڑا دیا تھا، اسے خدا نے قبول فرما لیا ہے، اے قاسم خداوند عالم یہ نہیں چاہتا جو اس کی راہ میں صدقہ دے، وہ اسے نقصان پہنچنے دے۔
ام الفضل نے حضرت امام محمد تقی کی شکایت اپنے والد مامون رشید عباسی کو لکھ کر بھیجی کہ ابو جعفرمیرے ہوتے ہوئے دوسری شادی بھی کر رہے ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے تیری شادی ان کے ساتھ اس لیے نہیں کی حلال خدا کو حرام کر دوں انہیں قانون خداوندی اجازت دیتا ہے کہ وہ دوسری شادی کریں، اس میں تیرا کیا دخل ہے۔ دیکھ آئندہ سے اس قسم کی کوئی شکایت نہ کرنا اور سن تیرا فریضہ ہے کہ تو اپنے شوہر ابو جعفر کو جس طرح ہو راضی رکھ اس تمام خط و کتابت کی اطلاع حضرت کو ہو گئی۔
کشف الغمہ ص 120
شیخ حسین بن عبد الوہاب تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دن ام الفضل نے حضرت کی ایک بیوی کو جو عمار یاسر کی نسل سے تھی، کو دیکھا تو مامون رشید کو کچھ اس طرح سے اسکے بارے میں کہا کہ وہ حضرت کے قتل پر آمادہ ہو گیا، مگر قتل نہ کر سکا۔
عیون المعجزات ص 154
حضرت امام محمدتقی علیہ السلام کے ہدایات و ارشادات:
یہ ایک مسلہ حقیقت ہے کہ بہت سے بزرگ مرتبہ علماء نے آپ سے علوم اہل بیت کی تعلیم حاصل کی، آپ کے لیے مختصر حکیمانہ اقوال کا بھی ایک ذخیرہ ہے، جیسے آپ کے جد بزرگوار حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جناب امیر علیہ السلام کے بعد امام محمد تقی علیہ السلام کے اقوال کو ایک خاص درجہ حاصل ہے۔ بعض علماء نے آپ کے فرامین کی تعداد کئی ہزار بتائی ہے۔ علامہ شبلنجی بحوالہ فصول المہمہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ :
خداوند عالم جسے جو نعمت دیتا ہے، بہ ارادہ دوام دیتا ہے ، لیکن اس سے وہ نعمت اس وقت زائل ہو جاتی ہے، جب وہ لوگوں یعنی مستحقین کو دینا بند کر دیتا ہے۔
ہر نعمت خداوندی میں مخلوق کا حصہ ہے جب کسی کو عظیم نعمتیں دیتا ہے، تو لوگوں کی حاجتیں بھی کثیر ہو جاتی ہیں۔ اس موقع پر اگر صاحب نعمت (مالدار) عہدہ برآ ہو سکا تو خیر ورنہ نعمت کا زوال لازمی ہو جاتا ہے۔
جو کسی کو بڑاسمجھتا ہے، اس سے ڈرتا ہے۔
جس کی خواہشات زیادہ ہوں گی اس کا جسم موٹا ہو گا۔
صحیفہ حیات مسلم کا سرنامہ حسن خلق ہے۔
جو خدا کے بھروسے پر لوگوں سے بے نیاز ہو جائے گا، لوگ اس کے محتاج ہوں گے۔
جو خدا سے ڈرے گا تو لوگ اس سے محبت رکھیں گے۔
انسان کی تمام خوبیوں کا مرکز زبان ہے۔
انسان کے کمالات کا دار و مدار عقل کے کمال پر ہے۔
انسان کے لیے فقر کی زینت عفت ہے، خدائی امتحان کی زینت شکر ہے، حسب کی زینت تواضع اور فروتنی ہے، کلام کی زینت فصاحت ہے، روایات کی زینت حافظہ ہے، علم کی زینت انکساری ہے، ورع و تقوی کی زینت حسن ادب ہے، قناعت کی زینت خندہ پیشانی ہے، ورع و پرہیز گاری کی زینت تمام مہملات سے کنارہ کشی ہے۔
ظالم اور ظالم کا مددگار اور ظالم کے فعل کے سراہانے والے ایک ہی زمرے میں ہیں، یعنی سب کا درجہ برابر ہے۔
جو زندہ رہنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ برداشت کرنے کے لیے اپنے دل کو صبر آزما بنا لے۔
خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے تین چیزیں ہونی چاہئیں، اول استغفار، دوم نرمی، و فروتنی، سوم کثرت صدقہ۔
جو جلد بازی سے پرہیزکرے گا لوگوں سے مشورہ لے گا ، اللہ پر بھروسہ کرے گا، وہ کبھی شرمندہ نہیں ہو گا۔
اگر جاہل زبان بند رکھے تو اختلافات نہ ہوں گے۔
تین باتوں سے دل موہ لیے جاتے ہیں، 1 ۔ معاشرت با انصاف، 2 ۔ مصیبت میں ہمدردی، 3 ۔ پریشان خاطری میں تسلی ۔
جو کسی بری بات کو اچھی نگاہ سے دیکھے گا، وہ اس میں شریک سمجھا جائے گا۔
کفران نعمت کرنے والا خدا کی ناراضگی کو دعوت دیتا ہے۔
جو تمہارے کسی عطیہ پر شکریہ ادا کرے، گویا اس نے تمہیں اس سے زیادہ دیدیا ہے۔
جو اپنے بھائی کو پوشیدہ طور پر نصیحت کرے، وہ اس کا حسن ہے، اور جو علانیہ نصیحت کرے،گویا اس نے اس کے ساتھ برائی کی ہے۔
عقلمندی اور حماقت جوانی کے قریب تک ایک دوسرے پر انسان پر غلبہ کرتے رہتے ہیں اور جب 18 سال پورے ہو جاتے ہیں تو استقلال پیدا ہو جاتا ہے اور راہ معین ہو جاتی ہے۔
جب کسی بندہ پر نعمت کا نزول ہو اور وہ اس نعمت سے متاثر ہو کر یہ سمجھے کہ یہ خدا کی عنایت و مہربانی ہے، تو خداوند عالم کا شکر کرنے سے پہلے اس کا نام شاکرین میں لکھ لیتا ہے، اور جب کوئی گناہ کرنے کے ساتھ یہ محسوس کرے کہ میں خدا کے ہاتھ میں ہوں، وہ جب اور جس طرح چاہے عذاب کر سکتا ہے، تو خداوند عالم اسے استغفار سے قبل بخش دیتا ہے۔
شریف وہ ہے جو عالم ہے اور عقلمند وہ ہے جو متقی ہے۔
جلد بازی کر کے کسی امر کو شہرت نہ دو، جب تک تکمیل نہ ہو جائے۔
اپنی خواہشات کو اتنا نہ بڑھاؤ کہ دل تنگ ہو جائے۔
اپنے ضعیفوں پر رحم کرو اور ان پر ترحم کے ذریعہ سے اپنے لیے خدا سے رحم کی درخواست کرو۔
عام موت سے بری موت وہ ہے جو گناہ کے ذریعہ سے ہو اور عام زندگی سے خیر و برکت کے ساتھ والی زندگی بہتر ہے۔
جو خدا کے لیے اپنے کسی بھائی کو فائدہ پہنچائے، وہ ایسا ہے، جیسے اس نے اپنے لیے جنت میں گھر بنا لیا ہو۔
جو خدا پر اعتماد رکھے اور اس پر توکل اور بھروسہ کرے خدا اسے ہر برائی سے بچاتا ہے اور اس کی ہر قسم کے دشمن سے حفاظت کرتا ہے۔
دین عزت ہے، علم خزانہ ہے اور خاموشی نور ہے۔
زہد کی انتہا ورع و تقوی ہے۔
دین کو تباہ کر دینے والی چیز بدعت ہے۔
انسان کو برباد کرنے والی چیز لالچ ہے۔
حاکم کی صلاحیت رعایا کی خوشحالی کا دار و مدار ہے۔
دعا کے ذریعہ سے ہر بلا ٹل جاتی ہے۔
جو صبر و ضبط کے ساتھ میدان میں آ جائے، وہ کامیاب ہو گا۔
37- جو دنیا میں تقوی کا بیج بوئے گا، آخرت میں دلی مرادوں کا پھل پائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ذرائع: https://www.valiasr-aj.com/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button