خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:124)

موضوع: قناعت کی اہمیت، ضرورت اور اثرات
(بتاریخ: جمعۃ المبارک 26 نومبر 2021ء بمطابق 20 ربیع الثانی 1443 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

آئمہ جمعہ و جماعت سے متعلق ہماری وٹس ایپ براڈکاسٹ لسٹ میں شامل ہونے کے لیے ہمیں وٹس ایپ کریں۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
ہمارے آج کے معاشرے کی ایک بہت بڑی مشکل، قناعت اور سادگی کو فراموش کرنا ہے۔ ہر شخص کی یہ خواہش ہے کہ اس کے پاس سب کچھ ہو، جو اس کے پاس ہے وہ اس پر قناعت اور خدا کا شکر ادا نہیں کرتا، اس کے دو نقصان ہیں، ایک تو یہ کہ جو اس کے پاس ہے وہ اس سے خوش نہیں ہے اور جو نہیں ہے اسے حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، جس کہ نتیجہ میں نہ وہ اپنی اس زندگی پر خوش ہے اور جو زندگی آنے والی ہے، اس کہ بارے میں بھی پریشان ہے۔ یہ پریشانی اور اضطراب اس کے پاس قناعت اور سادگی نہ ہونے کی وجہ سے ہے، اگر جو چیز اس کے پاس ہے وہ اسی پر خوش ہوتا تو نہ اسے اپنی اِس زندگی کے بارے میں افسوس ہوتا اور نہ وہ اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں پریشان ہوتا، ہم کو قناعت اور سادگی کے ساتھ زندگی گذارنے کے لئے معصومین(علیہم السلام) کی سیرت کو اپنانا چاہئے۔
قناعت کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ انسان کسی چیز کے بارے میں اپنی ضرورت بھر مقدار کے اوپر رک جائے۔ اسی طرح قناعت کے معنی یہ بھی بیان کئے گئے ہیں کہ کوئی اپنی قسمت پر راضی رہے۔قناعت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا سے اپنی ضرورت بھر استعمال کرے نہ یہ کہ دنیا سے بالکل کوئی فائدہ نہ اٹھائے۔ دینی کتابوں میں قناعت کو ایسی صفت بتایا گیا ہے جو مشق اور محنت کے ذریعے سے انسان کے اندر ملکہ اور عادت کی صورت میں پیدا ہوجاتی ہے، جس کے بعد انسان کم چیز پر خوش اور راضی ہو جاتا ہے اور زیادہ خواہی سے اپنے نفس کو روک لیتا ہے۔
حضرت علی نے اپنے ماتحتوں اور گورنروں کو اسراف اور تبذیر سے پرہیز کرنے کی بہت سفارش کی ہے اور ان کے اوپر لازمی کیا ہے کہ بیت المال کی بچت اور کم استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ آپ فرماتے ہیں کہ قلم کی نوک کو باریک اور سطروں کے فاصلوں کو کم کر لو اور بیت المال کو زیادہ استعمال کرنے سے پرہیز کرو اس لیے کہ مسلمانوں کے مال کو کوئی خسارہ نہیں ہونا چاہیے۔( بحارالانوار ج۴۱ ص۱۰۵)
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہےؒ: مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ
ترجمہ:جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے،
نیک عمل انجام دینے والے پاکباز لوگ نہ صرف اخروی زندگی سنوارتے ہیں بلکہ ان کو دنیا میں بھی ایک پاکیزہ زندگی مل جاتی ہے۔ ان کی زندگی بد عمل لوگوں کی زندگی کی طرح نہیں ہوتی۔ اگرچہ دونوں کی زندگی کی نوعیت ایک ہے لیکن خصوصیت ایک نہیں ہے۔ چنانچہ آیت کی تعبیر یہ ہے کہ ہم اس مؤمن کو پاکیزہ زندگی دیں گے۔ حیات طیبہ کے ساتھ احیا کریں گے۔ یہ ایک خاص حیات ہے جو اللہ صرف مؤمن کو دیتا ہے۔ وہ اس پاکیزہ زندگی کے ساتھ جو کامیابیاں اور زندگی کی لذت حاصل کرتا ہے، وہ بد عمل لوگوں کو میسر نہیں آتی۔ نیک کردار بوریا نشین جس کیف و سرور کے لمحات اپنے رب کی بارگاہ میں گزارتا ہے وہ کسی امیر و شاہ کو نصیب نہیں ہوتے۔ غریب پرور کو مساکین و فقرا کی داد رسی میں جو لذت حاصل ہوتی ہے وہ غریبوں کا خون چوسنے والوں کو کبھی نصیب نہیں ہوتی۔
حضرت علی علیہ السلام سے حَیٰوۃً طَیِّبَۃً کے بارے میں سوال ہوا تو آپؑ نے فرمایا: ھی القناعۃ ۔ ( نہج البلاغۃ کلمات قصار : ۲۲۹) وہ قناعت ہے۔ چونکہ قناعت سے طمع، لالچ ختم اور حرام و شبہات سے پرہیز آسان ہو جاتا ہے اور زندگی پاکیزہ ہو جاتی ہے۔ قناعت حَیٰوۃً طَیِّبَۃً کا ایک مصداق نہیں بلکہ مکمل تعریف ہے۔ چنانچہ قرآن، اطاعت خدا و رسولؐ کو لبیک کہنے کو حیات قرار دیتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَجِیۡبُوۡا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ اِذَا دَعَاکُمۡ لِمَا یُحۡیِیۡکُمۡ ۔۔۔۔ (۸ انفال:۲۴)
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں۔۔۔۔
قناعت کے مراتب:
قناعت کے دو مراتب ہیں ایک عالی اور ایک اعلی۔پہلا مرتبہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت کے مطابق مقدار پر راضی ہو جانا اور دوسرا رتبہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت سے کم تر پر راضی رہنا۔(اخلاق عملی ص:636)
معترّ اور قانع کا فرق
سورہ حج کی 36 ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے : وَ اَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَ الۡمُعۡتَرَّ ؕ اور سوال کرنے والے اور سوال نہ کرنے والے فقیر کو کھلاؤ،
یعنی قربانی کا گوشت قانع اور معتر کو کھلاؤ۔ قانع: وہ شخص ہے جو، جو کچھ آپ نے اسے دیا ہے اس پر راضی ہوتا ہے اظہار ناراضی نہیں کرتا۔ الۡمُعۡتَرَّ: وہ شخص ہے جو دست سوال دراز کرتا ہے۔ (الکافی ۳: ۵۶۵)
تفسیر میں قانع اور معتر کے فرق کے سلسلہ میں آیا ہے کہ قانع اسے کہتے ہیں کہ اگر کوئی چیز اسے دے دو تو اسی پر قناعت کرتا ہے اور راضی اور خوش رہتا ہے اور کوئی اعتراض یا غصہ نہیں کرتا ہے۔ اور معتر اسے کہتے ہیں جو خود آپ کے پاس آتا ہے اور آپ سے تقاضا کرتا ہے اور مانگتا ہے اور ممکن ہے کہ اگر آپ اسے کچھ دیں تو اس پر راضی نہ ہو اور اعتراض کرے۔ پس اہم بات یہ ہے کہ معتر کے اوپر قانع کا مقدم ہونا اس بات کی علامت ہے کہ جو محروم لوگ، پاک نفس اور خود دار ہیں ان کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ توجہ ملنا چاہئے۔
قناعت اور سیرت سیدہ زہرا سلام اللہ علیھا:
حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کا وجود تمام کائنات کے لئے ایک چراغ کی طرح ہے، جو ساری کائنات کو نورانی کر رہا ہے، آپ کی فضیلت میں یہی کہنا کافی ہے کہ امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) نے آپ کو اپنے لئے نمونۂ عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا: «وَ فِي ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلوات الله علیه لِي‏ أُسْوَةٌ حَسَنَة
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی بیٹی میرے لئے نمونہ عمل ہے»(بحار الأنوار، ج۵۳، ص۱۸۰)
جب امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) اپنے لئے فرمارہے ہیں کہ حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا) کی ذات ان کے لئے نمونۂ عمل ہے تو ہمارے لئے بدرجہ اولی ان کی سیرت پر عمل کرنا ضروری ہے، اسی مقصد کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم سیدہ زہرا(سلام اللہ علیہا) کی قناعت کے ایک گوشہ کو بیان کرتے ہیں تاکہ آپ کی قناعت کو دیکھ کر ہم بھی اپنی زندگی میں اسے اپنائیں۔
شہزادی کونین کی قناعت کی یہ حالت تھی کہ آپ کی سادہ چادر کو دیکھ کر جناب سلمان جیسے صحابی بھی تعجب کرنے لگے، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں جناب سلمان نے جو آپ کی سادہ چادر کو دیکھ کر تعجب کیا اس کے بارے میں فرمایا: یا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ سَلْمَانَ تَعَجَّبَ مِنْ لِبَاسِي، فَوَ الَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ نَبِيّاً مَا لِي وَ لِعَلِيٍّ مُنْذُ خَمْسِ سِنِينَ إِلَّا (مَسْكُ) كَبْشٍ، تُعْلَفُ عَلَيْهِ بِالنَّهَارِ بَعِيرُنَا، فَإِذَا كَانَ اللَّيْلُ افْتَرَشْنَاهُ، وَ إِنَّ مِرْفَقَتَنَا لَمِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفُ النَّخْلِ»
«اے اللہ کے رسول! سلمان میری سادہ چادر کو دیکھ کرتعجب کررہے ہیں! خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ اپنا نبی بنا بھیجا، پانچ سال ہوگئے ہیں کہ میرا اور علی(علیہ السلام) کا بستر ایک بکرے کی کھال ہے، جس کو دن میں ہم اپنے اونٹوں کی غذا کے لئے استعمال کرتے ہیں، اور ہمارا تکیہ ایک کھال ہے جس کہ اندر کھجور کے درخت کے پتّے ڈال کر سوتے ہیں»(بحار ج۸، ص۳۰۲)
ایک دن رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)، حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا) کے گھر گئے، آپ نے کیا دیکھا کہ حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا) زمین پر بیٹھی ہوئی ہیں، ایک ہاتھ میں اپنے فرزند کو لئے ہوئے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے چکی پیس رہی ہیں۔ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جب یہ دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں آگئے، اس وقت آپ نے فرمایا: «یا بِنْتَاهْ تَعَجَّلِی مَرَارَةَ الدنیا بِحَلاوَةِ الْآخِرَة
بیٹی! دنیا کی کڑواہت(سختیوں) کوآخرت کی مٹھاس(آسانی) کے لئے برداشت کرلو!»، جب حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا) نے یہ سنا تو خدا کا شکر اداء کیا۔(بحار الانوار ج۵، ص۶۸۳)
پس حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) جو تمام عالم کی عوتوں کی سردار ہیں، ایک بکرے کی کھال جس پر اونٹوں کو غذا دی جاتی، اسے اپنا بستر بنا کر اور اپنے ہاتھوں سے چکی پیس کر ہمیں یہ بتارہی ہیں کہ دیکھو تم لوگ جسے کائنات کی عورتوں کی سردار کہتے ہوں وہ یہ کام کرسکتی ہے، تو تم لوگ اپنے زندگی میں اتنے عیش اور آرام کے باوجود راضی کیوں نہیں ہو۔
قناعت کے فوائد و اثرات:
قناعت کرنا کوئی معمولی کام نہیں بلکہ اس کے لیے اپنے آپ کو بہت کنٹرول کرنا پڑتا ہے شاید اس لیے امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
مِن شَرَفِ الهمَّة لُزومُ القَناعَة
قناعت کی پابندی، عظیم ہمت و حوصلے کا کام ہے۔(غررالحکم و درر الکلم ص۳۹۱، ح ۸۹۹۹)
اسی طرح نہج البلاغہ میں فرمایا:
لا كَنزَ أغنى مِن القَناعَةِ.(نهج البلاغة : الحكمة ۳۷۱)
کوئی خزانہ قناعت سے زیادہ بے نیاز کرنے والا نہیں۔
یعنی قناعت ایک ایسا خزانہ ہے جو انسان کو دوسرے لوگوں سے بے نیاز کرکے ان کا محتاج بننے سے بچاتا ہے کیونکہ قناعت کے زریعے انسان اپنی ضروریات خود پوری کرتا رہتا ہے تھوڑے پر راضی و قانع رہتا ہے یوں اسے لوگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑتے اور آج کے دور میں یہی سب سے بڑی بے نیازی ہے۔
اسی لیے ایک مقام پہ امام علی علیہ السّلام فرماتے ہیں:
طَلَبتُ الغِنى فما وَجَدتُ إلاّ بالقَناعَةِ ، علَيكُم بالقَناعَةِ تَستَغنُوا.
(بحارالانوار : ۶۹ / ۳۹۹ / ۹۱ )
میں نے تونگری (بے نیازی یا لوگوں کا محتاج نہ ہونا) کو تلاش کیا تو اسے قناعت میں پایا۔ تم پر بھی لازم ہے کہ قناعت اختیار کرو تاکہ تونگر (بے نیاز و غنی) بن جاؤ۔
قناعت سے دین کا تحفظ:
قانع افراد، اپنے دین کو بچانے میں کوشاں رہتے ہیں؛
کیونکہ وہ کسی کے سامنے اپنا ہاتھ نہیں پھیلاتے اسی لئے اپنے دین کو لالچ کے خطرے سے بچا لیتے ہیں۔
امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا: «اقنعوا بالقلیل من دنیاکم لسلامۃ دینکم» (غرر الحکم، ح 9075)
اپنی دنیا میں سے کم پر اکتفا کرو تاکہ تمہارا دین بچ جائے۔
قناعت باعثِ سکون ہے:
لوگوں کی سب سے بڑی ضرورتوں میں سے ایک” سکون“ ہے؛ پریشانی، زندگی کے سکون کے لئے رکاوٹ ہے۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: «وَ مَن قَنَعَ بِالمَقسُومِ اِستَراحَ من الَهمِ وَالکَرْبِ وَالتَّعبِ» (بحار الانوار، ج68، ص 349)
جو شخص اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر قانع ہوجائے تو وہ غم، سختی اور تکلیف سے نجات پاجاتا ہے۔
قناعت محتاجی سے بچاتی ہے:
قناعت ناصرف انسان کو لوگوں کا محتاج ہونے سے بچاتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ انسان کو ہر مشکل سے مشکل وقت میں بھی خدا کا شکرا گزار بندہ بناتی ہے نیز اس سے لالچ جیسی بری صفت سے بھی انسان محفوظ رہتا ہے۔ علم اخلاق میں قناعت کو حرص اور لالچ کے مقابلے میں قرار دیا جاتا ہے اور قناعت کی وجہ سے انسان اپنی ضرورت بھر کی مقدار کے اوپر اکتفا کرتا ہے اور اس سے زیادہ کا خواہش مند نہیں ہوتا۔جیسا کہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
أشكَرُ الناسِ أقنَعُهُم ، وأكفَرُهُم لِلنِّعَمِ أجشَعُهُم .(بحارالانوار : ۷۷ / ۴۲۲ / ۴۰)
لوگوں ميں خداکا سب سے زياده شکر گزار وه ہے جو سب سے زياده قناعت کرتا ہے۔ اور خداکی نعمتوں کا سب سے بڑا ناشکرا بہت بڑا لالچی شخص ہوتا ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:أنعَمُ النّاسِ عَيشا مَن مَنَحَهُ اللهُ سُبحانَهُ القَناعَةَ ، وأصلَحَ لَهُ زَوجَهُ .(غرر الحکم: ۳۲۹۵)
سب سے زیادہ نعمات بھری زندگی اس کی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قناعت سے نوازا اور اسے صالح شریکہ حیات عطا فرمائی ۔
اسی طرح امام علی علیہ السّلام کے فرمان کے مطابق قناعت سے انسان کی عزت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں:
أصلُ العَفافِ القَناعَةُ ، وثَمَرَتُها قِلَّةُ الأحزانِ .(مطالب السؤول : ۵۰)
اصل پاکدامنی قناعت ہے جس کا پھل رنج و غم میں کمی ہے۔
يَنبَغي لِمَن عَرَفَ نَفسَهُ أن يَلزَمَ القَناعَةَ والعِفَّةَ .(غرر الحکم : ۱۰۹۲۷)
جو اپنے آپ کو پہچان لے اسے چاہیے کہ قناعت اور پاکدامنی اختیار کرے۔
اور سیاسی اور معاشی اعتبار سے بھی سیاسی اور معاشی عزت ایک قوم کی قناعت پسندی اور ضرورت بھر استعمال کرنے میں ہی پائی جاتی ہے۔فرمایا:
اِقنَعْ تَعِزَّ .(بحارالانوار : ۷۸ / ۵۳ / ۹۰)
قناعت سے کام لو عزت میں رہو گے۔
أشكَرُ الناسِ أقنَعُهُم ، و أكفَرُهُم لِلنِّعَمِ أجشَعُهُم .(الارشاد : ۱ / ۳۰۴)
سب سے زیادہ شکر گزار وہ انسان ہے جو سب سے زیادہ قناعت کرتا ہے، جبکہ بدترین لالچی قسم کا انسان سب سے زیادہ کفران، نعمت کرتاہے۔
اسی طرح قناعت کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کے حساب میں تخفیف و کمی ہوگی۔ جیسا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اقْنَعْ بِما اُوتيتَهُ يَخِفَّ علَيكَ الحِسابُ. (أعلام الدین: ۳۴۴ )
جو چیز تمہیں عطا کی جا چکی ہے اسی پر قناعت کرو اس سے تمہارے حساب میں تخفیف ہوگی۔
امام علی رضا علیہ السلام سے زاہد کے اوصاف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ع نے فرمایا:
مُتَبَلِّغٌ بِدُونِ قُوتِهِ ، مُستَعِدٌّ لِيَومِ مَوتِهِ ، مُتَبَرِّمٌ بحَياتِهِ .(بحارالانوار : ۷۸ / ۳۴۹ / ۶ )
وہ اپنے بقدر کفایت روزی سے بھی کم پر قناعت کرنے والا، موت کے لیے ہر وقت آمادہ اور اپنی زندگی سے پریشان ہوتا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السّلام نے قناعت کو انبیاء کی دس خصوصیات میں سے ایک شمار فرمایا ہے:
إنّ اللهَ تباركَ وتعالى خَصَّ رسولَ الله (ص) بمَكارِمِ الأخْلاقِ ، فامْتَحِنوا أنفسَكُم ؛ فإن كانتْ فِيكُم فاحْمَدوا اللهَ عز و جل وارغَبوا إلَيهِ في الزّيادَةِ مِنها ۔ فذكَرَها عَشرَةً : اليَقينُ ، والقَناعَةُ ، والصَّبرُ ، والشُّكرُ ، والحِلْمُ ، وحُسنُ الخُلقِ ، والسَّخاءُ ، والغَيرَةُ ، والشَّجاعَةُ ، والمُروءَةُ ۔ (أمالی الصدوق : ۱۸۴ / ۸ )
فرمایا: اللہ تبارک وتعالی نے اپنے پیغمبر (ص) کو مکارم اخلاق (بزرگ اور کریمانہ اخلاق)سے مخصوص فرمایا ہے۔لہٰذا تم اپنی ذات کا امتحان کرو(کہ آیا تم میں بھی یہ صفات پائی جاتی ہیں یا نہیں؟) اگر تمہارے اندر یہ صفات پائی جاتی ہیں تو پھر خدا وندتعالیٰ کی حمد بجالائو،اور ان میں اضافہ کی سرتوڑ کوشش کرو۔ پھر حضرت ع نے مکارم اخلاق کی تعداد بیان کرتے ہوئے دس چیزوں کا ذکر فرمایا:کہ وہ یقین، قناعت، صبر،شکر،حلم،حسن اخلاق،سخاوت ،غیرت، شجاعت اور مُروّت ہیں۔
اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام اپنی دعا میں قناعت نہ کرنے والی مذموم صفت سے پناہ مانگتے ہیں:
في الدُّعاءِ وأَعوذُ بكَ مِن نَفسٍ لا تَقنَعُ وبَطنٍ لا يَشبَعُ ، وقَلبٍ لا يَخشَعُ. (إقبال الأعمال : ۱ / ۱۷۴ )
دعا میں عرض کرتے ہیں:’’اور میں ایسے نفس سے تیری پناہ مانگتاہوں جو قناعت نہیں کرتا، ایسے پیٹ سے جوسیر نہیں ہوتااور ایسے دل سے جو خشوع اور انکساری نہیں کرتا۔‘‘
امام جعفر صادق علیہ السّلام ایک مقام پہ قناعت کے بارے میں امیر المومنین کی حدیث یوں بیان فرماتے ہیں:
كـانَ أمـيرُ الـمؤمنينَ صلواتُ الله علَيهِ يقولُ : ابنَ آدمَ ، إنْ كُنتَ تُريدُ مِن الدُّنيا ما يَكْفيكَ فإنَّ أيْسَرَ ما فيها يَكْفيكَ ، وإنْ كُنتَ إنَّما تُريدُ ما لا يَكْفيكَ فإنَّ كُلَّ ما فيها لا يَكْفيكَ . ( الکافی : ۲ / ۱۳۸ / ۶)
امام علی ع فرمایا کرتے تھے:’’اے فرزند آدم ع !اگر تجھے اس دنیا سے بقدر کفایت کی ضرورت ہے تو اس کی تھوڑی سی چیز بھی تیرے لئے کافی ہے اور اگر تجھے اتنی ضرورت ہے جو تیرے لئے نا کافی ہو تو اس دنیا کی تمام چیزیں بھی تیرے لئے ناکافی ہیں۔‘‘
جس طرح ہر چیز کی ایک آفت ہوتی ہے جو اسے نقصان پہنچاتی ہے اسی طرح امام علی علیہ السّلام نے تقوی و پرہیزگاری کی آفت کے بارے فرمایا:
آفةُ الوَرَعِ قلّةُ القَناعةِ ۔(غرر الحکم : ۳۹۳۵)
پرہیز گاری کی آفت قناعت کی کمی ہے۔
یعنی قناعت کی کمی سے انسان کے اندر تقوی و پرہیزگاری کم ہوجاتی ہے۔
ہم نے دیکھا کہ روایات میں قناعت کے بہت سے اثرات ذکر ہوئے ہیں: جیسے رضایت الہی عزت انسان،قیامت میں حساب کا ہلکا ہونا،، لوگوں سے بے نیازی اور حیات طیبہ کا عطا ہونا۔ منجملہ یہ کہ حضرت علی سے سورہ نحل کی آیت نمبر 97 :
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثىَ‏ وَ ہوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہ حَيَوة طَيِّبَة
ترجمہ: جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے،
کے بارے میں سوال کیا گیا کہ حیات طیبہ سے اللہ کی مراد کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: هی القناعہ یعنی اس سے مراد قناعت ہے۔ْ
قناعت پسند بیوی کی تعریف:
قانع زندگی کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی عزت اور آبرو سے چلتی ہے اور انسان کسی کے سامنے دست نیاز دراز کرنے سے محفوظ رہتا ہے، جیسا کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے: ’’ قناعت ایک ایسا خزانہ ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتا ہے‘‘[روضۃ الواعظین، ص 456 ]مزید فرمایا: ’’ قناعت کبھی ختم نہ ہونے والا مال ہے‘‘[روضة الواعظین، ص 456]حضرت علی{ع} اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ’’ قناعت کے علاوہ، بے نیاز کرنے والا کوئی اور خزانہ نہیں ہے‘‘ [ نهج البلاغة، ص 540]اسی لئے امام جعفر صادق علیہ السلام، قانع بیوی کو با برکت بیوی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
: ’’مِنْ‏ بَرَكَةِ الْمَرْأَةِ خِفَّةُ مَؤُونَتِهَا، وَ تَيْسِيرُ وِلَادَتِهَا، وَ مِنْ شُؤْمِهَا شِدَّةُ مَؤُونَتِهَا، وَ تَعْسِيرُ وِلَادَتِهَا؛
بابرکت بیوی وہ ہے جو کم خرچ ہو اور بچہ آسانی سے جنم دیتی ہو ‘‘[ الکافی، ج11، ص303 ] اس کے مقابلے میں اگر پُر خرچ ہو اور بچہ سختی سے جنم دیتی ہو تو یہ اس کی بے برکتی ہوگا۔ پس خواتین کو چاہئے کہ جس قدر ممکن ہو سکے زیادہ با برکت بننے کی کوشش کرنا چاہئے۔
ایک مقام پر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک قانع بیوی کو کاسب اور کمانے والی قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
:’’المَرْأَةُ الصَّالِحَةُ أَحَدُ الْكَاسِبَيْنِ؛ نیک اور شائستہ بیوی بھی کمانے والوں میں سے ایک ہے۔ یعنی عورتوں کے وظائف اور ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری اپنی خواہشات اور فرمائشات میں تعدیل پیدا کرنا ہے ‏‘‘[ مستدک الوسائل و مستبط المسائل، ج14، ص171] یعنی جتنی شوہر کی آمدنی ہوگی اس سے زیادہ خرچ کرنے سے گریز کرے۔
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button