سلائیڈرعقائدعقائد کا مطالعہ

اہل بیت علیہم السلام کی اطاعت واجب ہونے پر احادیثِ پیغمبرﷺ سے دلیل کی خواہش

سید عبدالحسین شرف الدین عاملی
کلام مجید یا حدیثِ نبویﷺ سے کوئی ایسی دلیل پیش کیجیے جس سے معلوم ہو کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہی کی پیروی واجب ہے۔ قرآن و حدیث کے ماسوا چیزوں کو رہنے دیجیے۔ کیونکہ آپ کے ائمہ کا کلام مخالفین کے لیے حجت نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کے کلام سے استدلال اس مسئلہ پر دور کا مستلزم ہے۔ آپ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہی کی پیروی واجب ہے اور آپ دلیل میں انہیں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا قول پیش کرتے ہیں جن کی پیروی محل بحث ہے۔
جواب مکتوب
ہماری تحریر پر غور نہیں کیا گیا۔ ہم نے حدیث سے ابتدا ہی میں ثبوت پیش کردیا تھا۔ اپنے مکتوب میں یہ لکھتے ہوئے کہ بس ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہی کی پیروی ہم پر واجب ہے نہ کسی غیر کی۔ ہم نے حدیث اشارے کے ساتھ ذکر کردی تھی۔ جس میں یہ لکھا تھا کہ پیغمبرﷺ نے انہیں کتاب خدا کےہمراہ صاحبانِ عقل کے لیے مقتدی، نجات کا سفینہ، امت کے لیے امان قرار دیا ہے اور باب حطہ فرمایا۔ تو میری یہ عبارت انہیں مضامین کی احادیث کی طرف اشارہ تھی جو کہ اکثر و بیشتر کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔ ہم نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ آپ ماشاء اﷲ ان لوگوں میں ہیں جن کے لیے اشارہ ہی کافی ہے، تصریح کی ضرورت نہیں۔ لہذا جب ہمارے ائمہ کی اطاعت و پیروی کے متعلق اتنی کثرت سے احادیث موجود ہیں تو اب ان کے اقوال مخالفین کے مقابلہ میں بطور استدالال پیش کیے جاسکتے ہیں اور کسی طرح دور لازم نہیں آتا ۔ ہم نے اقوال پیغمبرﷺ کی طرف ابتداء میں اشارہ جو کیا تھا ان کی تفصیل بھی کیے دیتے ہیں۔ پیغمبرﷺ نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا :
حدیثِ ثقلین
ببانگ دہل اعلان فرمایا :
يا ايها الناس انی تارک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
ترمذی و نسائی نے جناب جابر سے روایت کی ہے اور ان دونوں سے ملا متقی نے کنزالعمال ج1، ص۴۴، باب اعتصام الکتاب والسنہ کے شروع میں نقل کیا ہے۔
اے لوگو! میں تم میں ایسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم انہیں اختیار کیے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتابِ خدا دوسری میرے اہل بیت علیہم السلام ۔
یہ بھی ارشاد فرمایا :میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑیں کہ اگر تم ان سے محبت کرو تو کبھی گمراہ نہ ہو۔ ایک کتابِ خدا جو ایک رسی ہے آسمان سے زمین تک کھینچی ہوئی، دوسری میری عترت واہل بیت علیہم السلام۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچیں۔ دیکھنا میرے بعد تم ان سے کیونکر پیش آتے ہو ۔
ترمذی نے زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کنزالعمال ج اول ص ۴۴ پر بھی موجود ہے۔
یہ بھی آپﷺ نے فرمایا کہ:میں تم میں اپنے دو جانشین چھوڑے جاتا ہوں، ایک کتابِ خدا جو ایک دراز رسی ہے آسمان سے لے کر زمین تک۔ دوسرا میری عترت و اہل بیت علیہم السلام۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔
امام احمد نے زید ابن ثابت سے دو صحیح طریقوں سے اس کی روایت کی ہے پہلے مسند ص ۱۸۳۔۱۸۴ ج ۵، کے بالکل آخر میں طبرانی نے بھی معجم کبیر میں زید بن ثابت سے روایت کیا ہے کنزالعمال ج اول ص۴۴ پر بھی موجود ہے۔
یہ بھی آپﷺ نے فرمایا کہ :میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ کتاب خدا اور میرے اہل بیت علیہم السلام۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں ۔
امام حاکم مستدرک ج ۳ ص ۱۴۸ پر اس کو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث شیخین یعنی مسلم و بخاری کے شرائط کے لحاظ سے بھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے اس کو درج نہیں کیا۔
یہ بھی آپﷺ نے فرمایا کہ :قریب ہے میں بلایا جاؤں اور مجھے جانا پڑے۔ میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ ایک خدائے بزرگ و برتر کی کتاب دوسری میری عترت۔ کتابِ خدا تو ایک رسی ہے جو آسمان سے زمین تک دراز ہے اور میری عترت میرے اہل بیت علیہم السلام ہیں۔
امام احمد نے اس حدیث کو ابو سعید خدری سے دو طریقوں سے روایت کیا ہے ایک ج ۳ ص ۱۷ پر دوسرے ص ۲۶ ج ۳ پر۔ ابی شیبہ یعلی اور ابن سعد نے ابو سعید خدری سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ کنزالعمال ،ج1، ص ۴۷ پر بھی موجود ہے۔
اور خداوندِ عالم لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر پہنچیں۔ پس دیکھو میرے بعد تمہارا سلوک ان کے ساتھ کیسا رہتا ہے ۔
امام حاکم نے اس حدیث کو مستدرک ج۳، ص ۱۰۹ پر مرفوعا نقل کیا ہے اور نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم وبخاری کے معیار پر بھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے درج نہیں کیا پھر اسی ج۳،ص۵۳۳ پر دوسرے طریقے سے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری و مسلم نے ذکر نہیں کیا علامہ ذہبی نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کو باقی رکھا ہے اور اس کے صحیح ہونے کا اعتراف کیا ہے۔
اور جب حضرت محمدﷺ حجِ آخری سے پلٹے اور مقام غدیر خم پر پہنچے تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا :مجھے ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جلد ہی میری طلبی ہوگی اور مجھے جانا پڑے گا۔ میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جن میں ایک دوسری سے بڑی ہے۔ کتاب خدا ، دوسری میرے اہل بیت علیہم السلام دیکھو خیال رکھنا کہ ان کے ساتھ تم کس طرح پیش آتے ہو۔ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں۔
پھر آپﷺ نے کہا کہ خدائے قوی و توانا میرا مولا وآقا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔ پھر آپﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا کہ :میں جس کا مولا ہوں یہ علی علیہ السلام بھی اس کے مولا ہیں میرے بعد خداوندا ! دوست رکھ اس کو جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اس کو جو ان کو دشمن رکھے ۔
طبرانی نے اس حدیث کو درج کیا ہے جیسا کہ علامہ نبہانی کی اربعین فی الاربعین اور علامہ سیوطی کی احیاء المیت میں مذکور ہے آپ ناواقف نہ ہوں گے کہ آنحضرتﷺ کا اس دن کا خطبہ صرف اسی فقرہ پر ختم نہیں ہوا تھا کیونکہ صرف اتنا کہنے پر خطبہ کا لفظ صادق نہیں آتا۔ لیکن سیاست نے بیشتر محدثین کی زبانیں بند کردیں اور لکھنے والوں کے قلم روک دیے مگر باوجود اس کے صرف یہ ایک فقرہ اس سمندر کا یہ ایک قطرہ بہت کافی ہے۔
عبداﷲ بن اخطب سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے مقام جحفہ پر خطبہ ارشاد فرمایا جس میں کہا :کیا میں تم پر تم سے زیادہ اختیار نہیں رکھتا ؟لوگوں نے کہا بے شک یا رسول اﷲﷺ۔ آپﷺ نے اس پر ارشاد فرمایا :میں تم سے دو چیزوں کے متعلق پوچھوں گا۔ ایک کتابِ خدا دوسری میرے اہل بیت علیہم السلام۔
حدیثِ ثقلین کا متواتر ہونا
احادیثِ صحیحہ جن کا قطعی فیصلہ یہ ہے کہ بس ثقلین( اہل بیت علیہم السلام و قرآن کی پیروی واجب ہے) معمولی درجہ کی حدیثیں نہیں بلکہ متواتر حدیثیں ہیں اور بیس سے اوپر صحابیوں سے بکثرت طریقوں سے مروی ہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کو واجب بتانے کے لیے ایک مرتبہ نہیں بار ہا اور متعدد مواقع پر پیغمبرﷺ نے علی الاعلان کھلے لفظوں میں فرمایا۔ کبھی غدیر خم میں اعلان کیا جیسا ابھی بیان کرچکا ہوں۔ حج آخری کے موقع پر عرفہ کے دن اعلان کیا کبھی طائف سے واپسی کے موقع پر اعلان کیا۔ ایک مرتبہ مدینہ میں بر سرِمنبر اعلان کیا پھر دوسری مرتبہ جب آپ بسترِ مرگ پر حجرہ میں تھے اور آپﷺ کا حجرہ صحابیوں سے بھرا ہوا تھا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا :اے لوگو! عنقریب تم سے رخصت ہونے والا ہوں۔ میں پہلے ہی تم سے سب کچھ کہہ سن چکا ہوں۔ پھر کہے دیتا ہوں کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنی عترت واہل بیت علیہ السلام۔
پھر آپﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور ارشاد فرمایا کہ :دیکھو یہ علی علیہ السلام ہیں یہ قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے۔ یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں ۔
ملاحظہ فرمائیے۔ علامہ ابن حجر کی صواعق محرقہ باب ۹ فصل ۲ کی آخری سطریں۔
رسالت مابﷺ کی اس وصیت پر جمہور مسلمین کے سربرآوردہ افراد کی ایک جماعت نے اقرار و اعتراف کیا ہے۔ یہاں تک کہ ابن حجر نے اپنی کتاب میں حدیث ثقلین درج کر کے لکھا ہے کہ حدیث تمسک بکثرت طریقوں سے مروی ہے اور بیس سے زیادہ صحابیوں نے اس کی روایت کی ہے۔ پھر آگے چل کر کہتے ہیں کہ یہاں ایک شبہ ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ حدیث بکثرت طریقوں سے مروی ہے مگر کہیں یہ ہے کہ آپﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات میں فرمایا۔ کہیں یہ ہے کہ مدینہ میں جب آپ بسترِ بیماری پر تھے تب ارشاد فرمایا۔ اور حجرہ اصحاب سے بھرا ہوا تھا۔ کہیں یہ ہے کہ غدیر خم میں فرمایا۔ کہیں یہ ہے کہ جب آپﷺ طائف سے واپس ہوئے ہیں تو دوران خطبہ آپﷺ نے فرمایا۔
لیکن یہ شبہ درست نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے کلام ﷲ اور اہل بیت علیہم السلام کی عظمت و جلالت کا لحاظ کرتے ہوئے اور لوگوں کو ان کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دلانے کے لیے ان تمام مواقع پر اس حدیث کو تکرار کے ساتھ ارشاد فرمایا ہو، تاکہ اگر پہلے سے کسی کے کانوں میں یہ بات نہ پڑی ہو تو اب پڑجائے۔ پہلے کسی نے نہ سنا ہو تو اب سن لے۔
صواعق محرقہ، ص۸۹ باب ۱۱ فصل اول۔
اور جب اہل بیت طاہرین علیہم السلام خدا اور رسولﷺ کے نزدیک قرآن کے ہم پلہ و ہم وزن ہیں، تو جو قرآن کی شان ہے وہی ان کی بھی شان ہوگی جس طرح قرآن کا اتباع و اطاعت ہر مسلم پر فرض ہے اس طرح اہل بیت علیہم السلام کی اطاعت بھی ہر ایک پر واجب و لازم ہے لہذا ان ان کی اطاعت اور ان کے مذہب و مسلک کی پابندی سے مفر ہی نہیں۔ مجبور ہے انسان کہ بس انہیں کی اتباع کرے کیونکہ کوئی مسلمان یہ نہیں پسند کرتا کہ کتابِ خدا کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کو کسی اور چیز کو اس کے بدلے میں اپنا دستور العمل بنائے ۔ تو جب کتابِ خدا کے بدلے میں کسی دوسری چیز کو اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ناممکن ہے تو کتاب خدا کے ہم پلہ و ہم درجہ جو ہستیاں ہیں ان سے روگردانی کر کے دوسرے اشخاص کی پیروی بھی اس کی نظر میں درست نہ ہوگی۔
جس نے اہل بیت علیہم السلام سے تمسک نہ کیا اس کا گمراہ ہونا
اس کے علاوہ سرورکائنات کا یہ ارشاد کہ :
إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوا كِتَاب اللَّهِ وَ عِتْرَتِي‏
میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتاب خدا دوسری میری عترت۔
اس کا صریحی مطلب یہ ہے کہ جن نے ان دونوں کو ایک ساتھ اختیار نہ کیا، دونوں کی ایک ساتھ اطاعت نہ کی وہ گمراہ ہوگا۔ اس مطلب کی تائید اس حدیث ثقلین سے بھی ہوتی ہے جس کی طبرانی نے روایت کی ہے۔ جس میں آنحضرتﷺ کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ :دیکھو ان دونوں سے آگے نہ بڑھ جانا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اور نہ پیچھے رہ جانا ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور انہیں کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔
ابن حجر فرماتے ہیں کہ سرورکائناتﷺ کا یہ کہنا کہ :تم ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور نہ ان سے پیچھے رہ جانا ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤگے اور انہیں کچھ سکھانا پڑھانا نہیں کہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔اس امر کی دلیل ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے جو افراد مراتب عالیہ اور درجات دینیہ پر فائز ہوئے انہیں اپنے ماسوا تمام لوگوں پر تفوق و برتری حاصل تھی۔
(صواعق محرقہ ص۱۲۹ باب وصیة النبیﷺ پھر پوچھیے ذرا علامہ ابن حجر سے کہ جب آپ اقرار فرماتے ہیں۔ اس کا اعتراف ہے آپ کو تو ہر اشعری کواہل بیت علیہم السلام پر کیوں مقدم کیا گیااہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ کر اشعری کا مسلک کیوں اختیار کیا گیا۔ فروع دین میں تنہا اربعہ ابو حنیفہ مالک، شافعی، حنبل کو اہل بیت علیہم السلام پر کیوں ترجیح دی گئی ہے؟ حدیث میں عمران بن حطان جیسے خوارج کیوں مقدم رکھے گئے۔ تفسیر میں مقاتل بن سلیمان جو فرقہ مرجیہ سے تھا، جسمانیت خدا کا قائل تھا کیوں اہل بیت علیہم السلام پر مقدم سمجھا گیا۔ دیگر علوم میں غیروں کو اہل بیت علیہم السلام کے مقابلہ میں کیوں ترجیح دی گئی۔ رسولﷺ کی جانشینی و نیابت میں برادر رسول ولی پیغمبر جس کے متعلق رسولﷺ فرماچکے تھے کہ ادائے قرض میری جانب سے علیؑ ہی کرسکتے ہیں۔ کیوں پیچھے کردیئے گئے۔ ان کوچھوڑ کر دوسرے کیوں خلیفہ بنالیے گئے۔ کس درجہ سے قابل ترجیح سمجھے گئے جن لوگوں نے دینی معاملات و امور شریعت میں اہل بیت علیہم السلام سے رو گردانی کی اور ان کے مخالفین کے نقش قدم پر چلے انہوں نے حدیث ثقلین اور اس جیسی دیگر حدیثوں پر جن میں اتباع اہل بیت علیہم السلام کا حکم دیا گیا ہے کہاں اور کیونکر عمل کیا اور وہ یہ دعوی کیونکر کرسکتے ہیں کہ ہم اہل بیت علیہم السلام سے تمسک کرنے والے ہیں۔ سفینہ اہل بیت علیہم السلام پر ہیں۔ ان کے باب حطہ میں داخل ہیں۔)
اہل بیت علیہم السلام کی مثال سفینہ نوح علیہ السلام اور باب حطہ کی ہے اور وہ اختلاف فی الدین سے بچانے والے ہیں۔
نیز ایک اور بات جو ہر مسلم کو قہرا اہل بیت علیہم السلام کا پیرو بناتی ہے اور مجبور کرتی ہے کہ دینی معاملات میں بس ان ہی کی پیروی کی جائے۔ سرورکائناتﷺ کی یہ مشہور حدیث ہے :آگاہ ہو اے لوگو ! تم میں میرے اہل بیت علیہم السلام کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے نوح علیہ السلام کا سفینہ ۔ جو شخص اس پر سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے گریز کیا وہ ہلاک ہو گیا۔
امام حاکم نے مستدرک ج۳ ،ص ۱۵۱ پر بسلسلہ اسناد جناب ابوذر سے روایت کی ہے۔
نیز آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد :تمہارے درمیان میرےاہل بیت علیہم السلام کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے بنی اسرائیل کے لیے باب حطہ کہ جو شخص اس میں داخل ہوا وہ بخش دیا گیا۔
طبرانی نے اوسط میں ابوسعید سے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ نیز علامہ نبہانی کی کتاب اربعین کے ص ۲۱۶ پر بھی موجود ہے۔
نیز آنحضرتﷺ کا یہ قول کہ :ستارے زمین کے باشندوں کے لیے غرقابی سے امان ہیں اور میرے اہل بیت علیہم السلام میری امت کے لیے دینی معلومات میں اختلاف کے وقت امان ہیں پس اگرمیرےاہل بیت علیہم السلام کی مخالفت کوئی گروہ عرب کرے گا( یعنی احکامِ الہی میں) تو وہ ایک دوسرے سے مختلف ہوکر ابلیس کی جماعت بن جائے گا۔
امام حاکم نے مستدرک ج۳، ص ۱۴۹ پر ابن عباس سے روایت کی ہے اور دریافت کرنے کے بعد لکھا ہے، یہ حدیث صحیح ہے مگر شیخین نے درج نہیں کیا۔
اہل بیت علیہم السلام سے کون مراد ہیں ؟
ملاحظہ فرمائیے ۔ ان روایات کے بعد کیا گنجائش باقی رہتی ہے اور اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کرنے اور ان کی مخالفت سے باز رہنے کے سوا اور کیا چارہ کار رہتا ہے۔ رسولﷺ نے اس حدیث میں جیسے صاف اور صریحی الفاظ میں اس امر کو واضح فرمایا ہے میں تو نہیں جانتا کہ کسی اور زبان میں اس سے بھی زیادہ وضاحت ممکن ہے۔
یہاں اہل بیت علیہم السلام سے مراد مجموع اہل بیت علیہم السلام من حیث المجموع ہیں یعنی جملہ اہل بیت علیہم السلام سب کے سب علی سبیل الاستغراق مقصود ہیں۔ اس لیے کہ یہ منزلت صرف انہیں کے لیے ہے جو خدا کی حجت اور اس کی طرف سے درجہ امامت پر فائز ہیں۔ جیسا کہ عقل بھی کہتی ہے اور احادیث بھی بتاتی ہیں چنانچہ جمہور مسلمین کے علماء اعلام نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ صواعقِ محرقہ میں علامہ ابن حجر مکی تحریر فرماتے ہیں:اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ غالبا اہل بیت علیہم السلام جنہیں رسولﷺ نے امان فرمایا ہے ان سے مراد علمائے اہل بیت علیہم السلام ہیں اس لیے کہ انہیں سے ہدایت حاصل کی جاسکتی ہے جیسے ستاروں سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور جو ہمارے درمیان سے اگر ہٹ جائیں تو روئے زمین کے باشندوں کو آیات الہی کا سامنا ہو جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔
ابن حجر کہتے ہیں :کہ یہ اس وقت ہوگا جب مہدی تشریف لائیں گے جیسا کہ احادیث میں بھی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے اور انہیں کے زمانے میں دجال بھی قتل کیا جائے گا اور اس کے بعد پے در پے خدا کی نشانیاں ظہور میں آتی رہیں گی۔
صواعق محرقہ، باب ۱۱، ص ۹۱ پر ساتویں آیت کی تفسیر۔
دوسرے مقام پر ابن حجر لکھتے ہیں:سرورکائناتﷺ سے پوچھا گیا کہ اہل بیت علیہم السلام کے بعد لوگوں کی زندگی کیسے بسر ہوگی؟ آپ نے فرمایا ۔ ان کی زندگی بس ایسی ہی ہوگی جیسے اس گدھے کی زندگی جس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہو ۔
صواعق محرقہ، ص۱۴۳، اب ہم علامہ ابن حجر سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب علمائے اہل بیت علیہم السلام کی یہ منزلت ہے تو آپ لوگ کدھر جائیں گے۔
اہل بیت علیہم السلام کو سفینہ نوح علیہ السلام اور باب حطہ سے کیوں تشبیہ دی گئی: آپ اس سے بھی واقف ہوں گے کہ سرورکائناتﷺ نے اہل بیت علیہم السلام کو سفینہ نوح علیہ السلام سے جو تشبیہ دی ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ جس نے اہل بیت علیہم السلام کا مسلک اختیار کیا، اصول و فروغ میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی پیروی اور اتباع کیا وہ عذاب جہنم سے محفوظ رہا اور جس نے ان سے گریز کیا اس کا حشر وہی ہوگا جو سفینہ نوح علیہ السلام سے گریز کرنے والے کا ہوا جو جان بچانے کے لیے پہاڑ پر چڑھ گیا تھا۔ بس فرق یہ ہوگا کہ سفینہ نوح سے گریز کرنے والا پانی میں ڈوبا اور اہل بیت علیہم السلام سے کنارہ کشی کرنے والا جہنم کی آگ میں غرق ہوا۔
اور سرورکائناتﷺ نے اہل بیت علیہم السلام کو باب حطہ سے تشبیہ دی ہے تو اس میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے منجملہ اور بہت سے مظاہر کے جہاں اس کے جاہ و جبروت حکم و فرمان کے آگے بندوں کی عاجزی اور سرِ نیاز خم کرنے کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ باب حطہ کو بھی ایک مظہر قرار دیا تھا اور اسی وجہ سے اسے ذریعہ مغفرت بنایا تھا۔ اسی طرح خداوندِ عالم نے امت اسلام کے لیے اہل بیت علیہم السلام پیغمبرﷺ کے اتباع و اطاعت کو اپنے جاہ و جبروت کے آگے بندوں کی خاکساری و عاجزی اور اپنے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے کے مظاہر میں سے ایک مظہر قرار دیا۔ اسی وجہ سے اتباع اہل بیت علیہم السلام سبب مغفرت ہے۔ابن حجر نے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
صواعق محرقہ، باب ۱۱ ص، ۹۱ تفسیر آیہ ہفتم
چنانچہ اس قسم کی احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :آنحضرتﷺ نے ان اہل بیت علیہم السلام کو سفینہ سے جو تشبیہ دی ہے تو وہ وجہ تشبیہ یہ ہے کہ جو ان سے محبت رکھے گا اور ان کو معزز و محترم قرار دے گا اور ان کے علماء کی ہدایت سے مستفید ہوگا وہ مخالفت کی تاریکیوں سے نجات پائے گا اور جو ان سے تخلف کرےگا وہ کفران نعمت کے سمندر میں غرق ہوا اور طغیان و سرکشی کے بیابانوں میں ہلاک ہوا۔اس کے بعد لکھتے ہیں کہ :باب حطہ سے جو جو تشبیہ دی ہے تو اس میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ خداوند عالم نے باب حطہ میں خاکساری و عاجزی کے ساتھ استغفار کرتے ہوئے داخل ہونے کو بنی اسرائیل کے لیے سبب مغفرت قرار دیا تھا اور اسی طرح امت اسلام کے لیےاہل بیت علیہم السلام پیغمبرﷺ کی مودت و محبت کو ذریعہ بخشش قرار دیا ہے ۔
(آپ ان کی یہ عبارت دیکھیے اور انصاف فرمائیے کہ علامہ ابن حجر نے پھر فروع دین و عقائد فقہ کے اصول و قواعد میں ائمہ طاہرین علیہم السلام کی رہبری کیوں نہ قابل قبول سمجھی ان کے ارشادات پر کیوں نہیں عمل کیا؟ کتاب و سنت، علم الاخلاق ، سلوک و آداب میں ان سے استغفار کیوں نہ کیا؟ کس بنا پر ان سے روگردانی کی اور کفران نعمت کے سمندر میں اپنے کو ڈبو دیا اور طغیان و سرکشی کے صحراؤں میں ہلاک ہوئے۔ انہوں نے ہم شیعوں کے متعلق جو تہمت تراشیاں کی ہیں اور برا بھلا کہا ہے خدا انہیں معاف کرے۔)
غرضیکہ ان اہل بیت علیہم السلام کے اتباع و اطاعت کے واجب و لازم ہونے کے متعلق بکثرت صحیح اور متواتر حدیثیں ہیں۔ خصوصا بطریق اہل بیت طاہرین علیہم السلام سے تو بے شمار متواتر حدیثیں مروی ہیں۔ اگر آپ کی تھکن کا خیال نہ ہوتا تو انہیں شرح وبسط سے ذکر کرتے لیکن جو کچھ لکھ چکے ہیں وہی بہت کافی ہے۔
اقتباس ازکتاب مذہب اہل بیؑت ترجمہ المراجعات

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button