شخصیاتمحافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

حدیث ” يَا فَاطِمَةُ إِنَّ اللَّهَ يَرْضَى لِرِضَاكِ وَ يَغْضَبُ لِغَضَبِكِ” کی توضیح و تشریح

مولانا جعفر علی تبسم
مقدمہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی سوانح حیات ، ان کے صفات عالیہ ، گھر میں اپنے شوہر نامدار کے ساتھ ان کا رویہ ، بچوں کی تربیت اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوں سے متعلق بہت سارے علماء نے تاریخ اسلام کی شروع سے اب تک بہت کچھ لکھتے آئے ہیں کیونکہ ان کا وجود ایک ایسا سمندر ہے جس سے جتنا پانی اٹھائے کم نہیں ہوتا ۔نہ صرف کم نہیں ہوتابلکہ علم و معرفت کے نئے چشمے انکشاف ہوتے جاتے ہیں اور دنیامیں موجود علم کے پیاسے او رمعرفت کے متلاشی لوگ سیراب ہوتے جاتے ہیں۔ لہذا ہم نے بھی اپنی علمی پیاس کو بجھانے کیلئے اس بے کراں سمندر کے موجوں سے چھونے کی کوشش کی ہے۔۔حدیث پیغمبر اکرم (ص) ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا: "يَا فَاطِمَةُ إِنَّ اللَّهَ يَرْضَى لِرِضَاكِ وَ يَغْضَبُ لِغَضَبِكِ ” اے فاطمہ ؑ! تیری رضا سے الله راضی ہوتا ہے اور تیری ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتاہے ۔” (مناقب آل أبي طالب عليهم السلام (لابن شهرآشوب)، ج‏3، ص: 359)
اس حدیث کی روشنی میں ہم اس مقالے میں یہ بیان کریں گے کہ حضرت زہراء ؑکی ذات اللہ کے ہاں کیا مقام رکھتی ہے اور انبیاء اور معصومین علیہم السلام کی نظر میں حضرت زہرا ء ؑ کا کیا مقام ہے اور وہ کونسی منزلت ہے جہاں اللہ کی رضایت آپ کی رضایت سے جڑ جاتی ہے ۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات روشن ہوجاتی ہے کہ انبیاء اور اولیاء اپنے سارے امور کو اللہ کی رضایت حاصل کرنے کیلئے انجام دیتے تھے لیکن اس پاک خاتون کے بارے میں یہ تعبیر آئی ہے کہ آپ کی رضا میں اللہ کی رضاہے لہذا ہم اپنےاس مختصر مضمون میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے مقام اور منزلت کو اس حدیث کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
اہمیت اور ضرورت :
پیغمبر اکرم (ص)کی اس حدیث کی روشنی میں حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیہا کی منزلت اور مقام کے بارے میں لکھنا اس لئے ضروری اور لازم سمجھا تاکہ اسی بہانے سے ہم بھی اپنی استطاعت اور توان کے مطابق آپ ؑ کی معرفت حاصل کرسکیں کیونکہ معرفت ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے انسان کسی چیز کی حقیقت تک پہنچ سکتاہے ۔ اور انسان کی قدر و قیمت بھی معرفت کے بل بوتے پر ہی بڑھ جاتی ہے ۔اگرچہ خاتون جنت کی ذات ایسی ذات ہے کہ جن کی حقیقی معرفت کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی جیسا کہ امام صادقؑ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:وَ إِنَّمَا سُمِّيَتْ فَاطِمَةُ لِأَنَّ الْخَلْقَ فُطِمُوا عَنْ مَعْرِفَتِهَا ( یعنی فاطمہ کا نام فاطمہ اس لئے رکھا گیا کیونکہ ساری مخلوق ان کی معرفت سے عاجز ( جدا) ہے۔) (تفسير فرات الكوفي، ص 581)
لہذا جس طرح اللہ تعالی کی کماحقہ معرفت حاصل کرنا ممکن نہیں ہے بلکل اسی طرح حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی ذات کی معرفت بھی کما حقہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ آپ کی معرفت کی راہ بلکل بند ہو بلکہ اپنی توان اور استطاعت کے حساب سے اس بی بی کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرنا امت مسلمہ میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے ۔
آپ کی معرفت حاصل کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آپ کل قیامت کے دن اللہ کے حضور یہی شکوہ کرےگی کہ آپ کو دنیا والوں نے نہیں پہچا نا اور اللہ سے کل قیامت کے دن آپ یہی چاہیں گی کہ لوگوں کو آپ کی معرفی کرائے چنانچہ روایت میں آیا ہے کہ جب قیامت کا دن ہو گا تو آپ جبرئیل اور میکائیل اور اللہ کے دیگر مقرب فرشتوں کے جھر مٹ میں جنت کی طرف جائیں گیں اور جنت کے دروازے سے یہ کہہ کر رکیں گیں کہ خدایا میں یہ چاہتی ہوں کہ آج کے دن لوگ میری معرفت حاصل کریں اور میری قدر ومنزلت کو جاں لیں جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلا پیغمبر اکرم ﷺ سے ایک طولانی حدیث نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فَإِذَا صَارَتْ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ تَلْتَفِتُ فَيَقُولُ اللَّهُ يَا بِنْتَ حَبِيبِي مَا الْتِفَاتُكِ وَ قَدْ أَمَرْتُ بِكِ إِلَى جَنَّتِي فَتَقُولُ يَا رَبِّ أَحْبَبْتُ أَنْ يُعْرَفَ قَدْرِي (أن تريني قدري‏)فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْم‏ ( جب فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اپنے قافلہ کے ساتھ جنت کے دروازہ پر پہنچ جائینگی تو گویا خدا کی طرف متوجہ ہو نگی اتنے میں اللہ تعالی کی طرف سے آواز آئے گی اے میرے حبیب کی دختر نیک جب میں نے تمھیں جنت کی طرف جانے کا حکم دیا ہے تو یہ تیرا متوجہ ہونا کیسا ہے؟ اس وقت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کہے گی خدایا ! میں چاہتی ہوں آج کے دن میری قدر منزلت کی پہچان ہو جائے ۔) ( شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار عليهم السلام، ج‏3، ص: 63 وبحار الأنوار (ط – بيروت)، ج‏43، ص)
لہذا خاتون جنت معرفت کی پیاسی ہے ۔ وہ یہ چاہتی ہے کہ ان کی معرفت حاصل کی جائے ۔ لہذا ہم ان کے چاہنے والوں میں سے ہونےکے ناطے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی مختصر سی زندگی میں ان کی معرفت حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہیں۔
رضایت کا معنیٰ
لغت میں (ر ض و،یا، ر ض ی)) رضی کا معنی ہے راضی اور خوشنود ہوناہے۔( قاموس قرآن، ج‏3، ص 102) کچھ لوگوں نے رضی سے مراد ناراض نہ ہونا لیا ہے۔( لسان العرب، ج‏14، ص 323)
اصطلاح میں انسان کسی کام سے راضی ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان کا نفس افعال میں سے کسی فعل کے انجام پر موافقت اور ہم آھنگ ہونا، چاہے وہ فعل انسان کےپسند کے مطابق ہو یا نہ ہو۔( لسان العرب، ج‏14، ص 323)
اور اللہ کسی کام سے راضی ہونے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی اس بندہ کے ساتھ اس طرح سے پیش آتاہے جس طرح ایک انسان کسی دوسرے سے خوش ہوتاہے تو اس کے ساتھ پیش آتاہے۔ اس پر اپنی نعمت اور رحمت بھیج دیتاہے۔لہذا اللہ کی صفت رضایت صفات فعل میں سے ہے پس اس کی تبدیل اور تغییر سے ذات خدا میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کیونکہ صفات ذات نہیں ہے۔
قرآن میں رضایت خدا :
قرآن میں بہت ساری آیات ایسی ہیں جن میں اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کی صفات بیان کرنے کے بعد کہا ہے کہ اللہ تعالی ان صفات کے حامل افراد سے راضی ہے اور وہ افراد بھی اللہ سے راضی ہیں۔ البتہ بعض موارد میں کسی شخص کی کسی صفت سے اللہ راضی اور خوش ہونے کو بیان کیاگیا ہے جیسے وَ رَضِيَ لَهُ‏ قَوْلا ( اور اس کی بات کو پسند کرے۔)( طه، 109)وَ إِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُم‏”(اگر تم شکر کرو گے تو وہ اسے تمھارے لئے پسند کرے گا۔(الزمر:07)
ان دونوں آیات میں اللہ تعالی نے انسان کی صفت سے راضی ہونے کو بیان کیا ہے یعنی انسان کی بات سے اللہ راضی اور خوشنود ہے اسی طرح انسان کی شکر گزاری کی صفت سے اللہ خوش اور راضی ہوتاہے۔ جبکہ بعض دوسری آیات میں اللہ تعالی کچھ صفات کی وجہ سےخود اس شخص سے خوش اور راضی ہونے کو بیان کیا گیاہے جو ان صفات کے حامل ہے جیسے” قالَ اللَّهُ هذا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّادِقينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْري مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدينَ فيها أَبَداً رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظيم‏”
اللہ نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی فائدہ دے گی ان کے لئے ایسی جنتیں ہونگی جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے وہ اللہ سے راضی ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہوگا۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے۔( المائدہ،۱۱۹)
اس آیت شریفہ میں جس صفت کو نمایاں کرکے بیان کیا گیاہے اور اسی صفت سےمتصف لوگوں پر اللہ راضی ہونے کی خبر دی جارہی ہے و ہ صفت صدق ہے ۔اور یہ بات سب پر آشکار ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ کی مشہور صفات میں سے ایک صفت صدیقہ ہے جیسے کہ امام جعفر صادق ؑ سے کسی نے پوچھا کہ مولا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو کس نے غسل دیا تو آپ نے جواب میں فرمایا: فَإِنَّهَا صِدِّيقَةٌ لَمْ يَكُنْ يُغَسِّلُهَا إِلَّا صِدِّيق‏ (فاطمہ صدیقہ اور سچی خاتون ہیں اور سچے کو سچا(علیؑ) ہی غسل دیتاہے۔) (الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏3، ص 159)
اور اس آیہ مجیدہ میں یہ بشارت دی جارہی ہے کہ قیامت کے دن صادقین اور سچوں کو ان کی صداقت کام آئے گی اور یہ وہ لوگ ہیں جن سے اللہ راضی ہے ۔ اسی طرح دوسری آیت میں فرمایا:لاجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ يُوادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لَوْ كانُوا آباءَهُمْ أَوْ أَبْناءَهُمْ أَوْ إِخْوانَهُمْ أَوْ عَشيرَتَهُمْ أُولئِكَ كَتَبَ في‏ قُلُوبِهِمُ الْإيمانَ وَ أَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَ يُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْري مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهارُ خالِدينَ فيها رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ أُولئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُون‏۔ ” ٓپ کبھی ایسے افراد نہیں پائیں گے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے (بھی) ہو ں لیکن اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے محبت رکھتے ہوں خواہ وہ ان کے باپ یاان کے بیٹے یا ان کے بھائی یاان کے خاندان والے ہی کیوں نہ ہوں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہےاور اپنی خاص روح کے ذریعے تائید کی ہے اور وہ انہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے راضی ہیں ۔اور یہی لوگ ہی اللہ کی جماعت ہیں ۔آگاہ رہو اللہ کی جماعت والے ہی کامیاب ہونے والے ہیں۔” (المجادلہ،۲۲)
اس آیت مجیدہ میں ایک بہت اہم صفت کی طرف اشارہ ہوا ہے اور وہ دشمن خدا اور دشمن رسول سے محبت نہ رکھنا یا دوسرے لفظوں میں دشمن خدا سے نفرت کرنا ہے۔ آیت کی ر و سے جو شخص دشمن خدا اور دشمن رسول (ص) سے اظہار ہمدردی کرتا ہے۔ اگرچہ زبان سے کلمہ شہادت پڑھ بھی لے وہ مومن ہی نہیں ہے ، بلکہ حقیقی مومن تو وہ ہے جو زبان سے اقرار کے سات دل سے دشمن خدا سے اظہار بیزاری کرے اگرچہ وہ دشمن خدا اس کے عزیز و اقاریب میں سے ہی کیوں نہ ہو اور خدا کے مقابلے میں وہ ساری چیزیں اکھٹی ہوجائیں جن سے انسان کی مادی محبت جڑی ہوئی ہے مثلا ماں،باپ اولاد یہ وہ چیزیں ہیں جن سے انسان محبت کرتاہے لیکن خدا کے مقابلےمیں اگر یہ چیزیں آجائیں تو یہ ساری چیزیں حقیقی مومن کے سامنے ہیچ ہوجاتی ہے ۔ تاریخ اسلام گواہ ہے دین خدا کی محبت میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نےولی خدا کا دفاع کیا ۔انہوں نے ولی خدا کا دفاع کرتے کرتے اپنی جان آفرین خدا پر قربان کردی۔ لہذا قرآن مجید میں جن اوصاف کی بنا پر اللہ تعالی اپنے خاص بندوں سے راضی ہونے کا اعلا ن کرتا ہے وہ تمام صفات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ذات میں بطور کامل پائی جاتی ہیں۔ اسی لئے آپ کو مرضیہ کے نام سے بھی پکارا جاتاہے ۔ کیونکہ اللہ آپ سے راضی ہے اور راضیہ بھی کہا جاتاہے کیونکہ آپ اللہ تعالی سے راضی ہیں ۔گویا آپ اس آیت مجیدہ کا مصداق کامل ہیں:يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعي‏ إِلى‏ رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً"لہذا زہراء کی ذات وہ نفس مطمئنہ ہے کہ جس سے اللہ راضی ہے اور وہ خود بھی اللہ سے راضی ہیں۔ اس کے علاوہ حدیث مبارک میں جس نکتہ کی طرف اشارہ ہوا ہے وہ اس مقام سے بھی بالاترہے جس کی طرف بعد میں اشارہ ہوگا۔( الفجر،۲۷-۲۸)
رضا اور بغض کے مراتب:
رضا کا معنی حب اور محبت کا ہے ۔حب اور بغض کیا چیز ہیں؟ حب اور بغض صرف انسان سے مختص نہیں ہیں ایسا نہیں کہ صرف انسان ہی محبت اور نفرت کرتاہو بلکہ محبت اور نفرت کا عمل نباتات سے شروع ہوتاہے نباتات میں ایک خدا داد قوت ہےجسے وقت مدافعہ اور جاذبہ کہا جاتاہے قوت مدافعہ کے ذریعے اپنی ذات سے نامناسب اور ناملائم چیزوں کو دور کرتاہے اور قوت جاذبہ کے ذریعے اپنی ذات سے مناسب اور ملائم چیزوں کو جذب کرتاہے اس کیفیت کو نباتات میں حب وبغض سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔
حیوانات میں بھی حب وبغض پایاجاتاہے جسے عام طور پر غرائز حیوانی سے تعبیر کیا جاتا ہے اور غریزہ دافعہ اور جاذبہ میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ حیوانات خود سے خطرات کو دور کرتے ہیں ۔ کیونکہ ان سے بغض ہے اور منفعت کو جذب کرتےہیں کیونکہ ان سے محبت ہےاور حب ہے ۔
اگر انسان میں حب وبغض کی مقدار جانوروں جتنی ہو تو ایسے انسان کو حیوان سے تعبیر کیا جائے گا أُولئِكَ كَالْأَنْعام‏ بلکہ بعض اوقات انسان حیوانوں کی صف سے بھی گر جاتا ہے قرآن کی تعبیر کے مطابق ایسا انسان حیوانوں سے بھی بدتر ہے بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولئِكَ هُمُ الْغافِلُون”( الاعراف،۱۷۹)کیونکہ انسان کو اللہ تعالی نے عقل جیسی نعمت دیکر دوسری مخلوقات پر فضیلت دی اس کے باوجود بھی اگر انسان عقل سے کام نہ لے اور حیوانی غرائز میں مبتلا رہے تو یقینا ایسا انسان حیوان سے بھی بدتر ہے ۔ لہذا انسان کی انسانیت اور بنیاد عقل پر استوارہے جیسے روایت میں آیاہے:َ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ ع "دِعَامَةُ الْإِنْسَانِ الْعَقْل"‏ "یعنی انسان کا ستون عقل ہے۔” (الكافي (ط – الإسلامية)، ج‏1، ص: 25) لہذا انسان کا حب اور بغض عقل کے معیار پر استوار ہوتاہے اگر کسی انسان کی زندگی کے سارے پہلو میں حب اور بغض عقل کے معیار پر اترتے ہوں تو اس انسان کو معصوم کہا جاتاہے اور زندگی کے مختلف پہلوں میں جتنا انسان عقل کے معیار پر اترے گا اتنا مقام عصمت کے نزدیک اور قریب ہو تاہے ۔
انسان کے حب اور بغض کا ایک اور مرحلہ آتاہے کہ جس میں انسان عقل کے معیار کو چھوڑ کر رضائے الہی کو حب اوربغض کا معیار قرار دیتاہے اور اللہ کی مشیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور یہ وہ مقام ہے کہ جس پر انبیاء اور اولیاء فائذ ہیں کہ جن کے بارےمیں قرآن نے کہا: وَ ما تَشاؤُنَ إِلاَّ أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمينَ (تم لوگ صرف وہی چاہتے ہو جو پروردگارعالمین چاہتا ہے۔( التکویر،۲۹)اور ان سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں جیسے کہ روایت میں آیاہے:
عَنْ أَبِي الْحَسَنِ ع قَالَ: إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ قُلُوبَ الْأَئِمَّةِ مَوْرِداً لِإِرَادَتِهِ فَإِذَا شَاءَ اللَّهُ شَيْئاً شَاءُوهُ وَ هُوَ قَوْلُهُ وَ ما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمِينَ. امام نقی الہادی علیہ السلام فرماتے ہیں : اللہ تعالی نے آئمہ معصومین علیہم السلام کے دل کو ارادہ الہی کامرکز بنایا ہے اور جب اللہ تعالی کسی چیز کو چاہتا ہے تو ائمہ علیہم السلام بھی اسےچاہتے ہیں یہی وہ مطلب ہے جوقرآن کی اس آیت میں بیان ہوا ہے وَ ما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعالَمِينَ ۔( البرهان في تفسير القرآن، ج‏5، ص: 598)
امام حسین ؑ کے میدان کربلا میں وہ تاریخی مناجات بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا: رِضاً بِقَضائِكَ وَ تَسْليماً لِامْرِك ۔”خدا یا تیر ی قضاء پر راضی ہوں اور تیرے امر کے سامنے سر تسلیم خم ہوں۔” (موسوعہ عاشوراء،۷۵ و حماسہ حسینی ،ج۱،ص۵۰)
یہاں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اللہ کی مشیت کے مطابق اپنی مشیت کو قرار دیتے تھے اور اللہ تعالی کی رضایت پر راضی او رخوش رہتے تھے ۔
رضایت فاطمہ سلام اللہ علیہا
لیکن حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے بارےمیں پیغمبر اکرم (ص) کی اس حدیث میں جس نکتہ کی طرف اشارہ ہواہے وہ انسان کے دائرہ تعقل و ادراک سے ماوراء ہے۔ کیونکہ سارے آئمہ معصومین علیہم السلام کے بارےمیں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ وہی چاہتے ہیں جو اللہ چاہتاہے اور یہ لوگ اللہ کی رضایت پر راضی ہیں۔ یعنی اللہ کی رضایت کو محور قرارا دیا کہ اللہ کی رضایت پر ائمہؑ بھی راضی ہیں ۔لیکن اس حدیث میں فاطمہ کی رضایت کو اللہ کی رضایت کے لیے محور اور مرکز قرار دیا اور فرمایا: اللہ تعالی فاطمہ کی رضایت پر راضی ہوتا ہے اور فاطمہ کے غضب پر غضبناک ہوتاہے ۔ اور یہ وہ مقام ہے جس کا سمجھنا ہر انسان کے بس میں نہیں ہے۔
شاید اسی نکتے کی طرف امام حسن العسکری علیہ السلام نے اشارہ فرمایا :"نحن حجج اللّه على خلقه، و جدّتنا فاطمة حجة اللّه علينا”ہم اہل بیت اللہ کی مخلوق پر حجت ہیں اور ہماری جدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا ہم پر حجت ہیں۔( عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآيات و الأخبار و الأقوال (مستدرك سيدة النساء إلى الإمام الجواد، ج‏11-قسم-2-فاطمةس، ص: 1030و اطيب البيان فى تفسير القرآن، ج‏13، ص: 225)
یہاں سے زہراء مرضیہ سلام اللہ علیہا کے مقام و منزلت کا اندازہ لگا یا جاسکتاہے کہ آپ وہ ذات ہیں جس کی رضایت کے گرد اللہ کی رضایت گھومتی ہے۔ اورآپ خدا کے حجتوں تک فیض الہی پہنچانے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں۔
نتیجہ
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ذات ایسی ذات ہے کہ کوئی بھی ان کی ایسی معرفت حاصل نہیں کرسکتا جس طرح معرفت حاصل کرنے کا حق ہے ۔ لیکن آپ کل قیامت کے دن اللہ کے حضور یہی شکایت کریں گی کہ لوگوں نے میری معر فت حاصل نہیں کی، اس لئےاپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق آپ کی معرفت اور شناخت حاصل کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔
آپ وہ ذات ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں پر اور جن اوصاف کی بنا پر اللہ تعالی نے اپنی رضایت کا اعلان کیا ہے وہاں ہمیں ان اوصاف کے مصادیق میں سے سب سے بہترین مصداق حضرت زہراء مرضیہ سلام اللہ علیہا نظر آتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالی ان پر راضی ہے۔ اس لئے آپ کو مرضیہ کہا جاتاہے اور آپ بھی اللہ سے راضی ہیں اس لئے آپ کو راضیہ کہا جاتاہے ۔ نہ فقط یہی بلکہ صادق امین خاتم نبیین (ص) نے یہ خبر بھی دنیا کو دی کہ زہراء مرضیہ کی ذات وہ ذات ہے کہ جس پر وہ راضی اور خوش ہوگی اللہ بھی انہی پر راضی ہوگا۔ یہی وہ مقام اور منزلت ہے جہان سے آپ کی ذات روئے زمین پر اللہ کے حجتوں پر حجت بنتی ہیں اور حجج الہی تک فیض خدا پہنچانے کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔
اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِيَّكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِي‏۔
فہرست منابع
1. القرآن
2. ابن حيون، نعمان بن محمد مغربى‏، شرح الأخبار في فضائل الأئمة الأطهار عليهم السلام‏، جامعه مدرسين‏، قم‏، 1409 ق‏،چ اول۔
3. ابن شهر آشوب مازندرانى، محمد بن على‏، مناقب آل أبي طالب عليهم السلام، ناشر: علامه‏، قم‏ 1379 ق‏،چ اول۔
4. ابن منظور،محمد بن مکرم ،لسان العرب،دارالفکر للطباعۃوالنشر والتوزیع،بیروت ،چ اول۔
5. بحرانى اصفهانى، عبد الله بن نور الله‏،عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآيات و الأخبار و الأقوال، مؤسسة الإمام المهدى عجّل الله تعالى فرجه الشريف‏،ايران؛ قم‏ 1413 ق‏، چ اول‏۔
6. بحرانى، هاشم بن سليمان‏، البرهان في تفسير القرآن‏، موسسة البعثة، قسم الدراسات الإسلامية، ايران- قم‏، 1415 ه. ق‏،چ اول۔
7. روحانی، سید صادق ،الجبر والاختیار،منشورات لسان الصادق، قم،۱۴۲۶،ھ،چ اول۔
8. طباطبايى، محمدحسين‏، الميزان في تفسير القرآن‏، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات‏، بيروت‏، 1390 ه. ق‏،چ ۲۔
9. طيب، عبدالحسين‏، اطيب البيان في تفسير القرآن‏، اسلام‏، ايران- تهران‏،1369 ه.ش‏، چ 2۔
10. قرشى بنابى، على‏اكبر، قاموس قرآن‏، دار الكتب الإسلامية، ايران- تهران‏، 1371 ه. ش‏،چ۶۔
11. كلينى، محمد بن يعقوب‏، الكافي‏، دار الكتب الإسلامية، تهران‏، 1407 ق‏،چ چهارم‏۔
12. كوفى، فرات بن ابراهيم‏، تفسير فرات الكوفي‏، وزارة الثقافة و الإرشاد الإسلامي، مؤسسة الطبع و النشر، تهران‏، 1410 ه. ق‏،چاول۔
13. مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى‏، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي‏، بيروت‏، 1403 ق‏، چ دوم‏۔
14. مطہری ،مرتضی ، حماسہ حسینی ، صدرا،قم،۱۳۷۹،چ،اول۔
15. محدثی ،جواد،موسوعہ عاشورہ ،دار الرسول ﷺ،بیروت،۱۴۱۸،

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button