شیعہ منابع پر ایک سرسری نظر(دوسرا حصہ)

عمومی منابع
تاریخ تشیع کے بارے میں بعض خصوصی کتابوں کی مختصر تحقیق کے بعد تاریخ کے عمومی منابع سے متعلق ہم تحقیق کریں گے، موضوع کی حیثیت سے عمومی منابع اس طرح ہیں:
(۱)ائمہ(علیہ السلام) کی زندگانی
(۲)کتب فتن وحروب
(۳) کتب رجال وطبقاتہ
(۴)کتب جغرافیہ
(۵) کتب اخبار
(۶)کتب نسب
(۷)کتب حدیث
(۱)ائمہ(علیہ السلام) کی زندگانی
ائمہ علیہم السلام کی زندگی سے مربوط جو کتابیں ہیں ان میں شیخ مفید کی کتاب الارشاد، ابن جوزی کی تذکرۃالخواص کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
کتاب الارشاد مہم ترین شیعوں کا پہلا مآخذ ہے جس میں بارہ اماموں کی زندگی موجود ہے اس اعتبار سے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی کا بعض حصہ رسول اسلا م صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں تھا،پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو بھی اس کتاب میں بیان کیا گیا ہے خصو صا آنحضرت کی جنگیں،جنگ تبوک کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام تمام جنگوں میں موجود تھے، اس کتاب کے بارے میں صرف اتنا ہی کہناکافی ہے کہ تاریخ تشیع اور امام معصوم کی زندگی کی تاریخ کے بارے میں کوئی بھی محقق اس کتاب سے بے نیاز نہیں ہے۔
(۲) کتب فتن و حروب
یہ کتاب ان جنگوں کے بیا ن سے مخصوص ہے جو مسلمانوں کی تاریخ نگاری میں کافی اہمیت کی حامل ہیں، ان میں سے قدیم ترین کتاب وقعۃالصفین ہے جونصربن مزاحم منقری(متوفی ۲۱۲ھ)کی تالیف ہے۔ جس میں صفین کے واقعہ میں اور جنگ کو بیان کیا گیا ہے، اس کتاب میں حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان مکاتبات اور حضرت کے خطبات اور مختلف تقریروں کے سلسلہ میں اہم اطلاعات موجود ہیں، اس کتاب کے مطالب کے درمیان مفید معلومات اصحا ب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضرت علی علیہ السلام سے متعلق خیا لات اور عرب کے مختلف قبائل کے درمیان تشیع کے نفوذ کی عکاسی پائی جاتی ہے۔
کتاب الغارات موٴلف ابراہیم ثقفی کوفی۲۸۳ھ یہ کتاب بھی ایک اہم منابع میں سے ہے جو اسی سلسلے میں لکھی گئی ہے اس کتاب میں امیرالمو منین علیہ السلام کی خلافت کے زمانے کے حالات بیان کئے گئے ہیں، اس کتاب میں معاویہ کے کا رندوں اور غارت گروں کے بارے میں کہ جوحضرت علی علیہ السلام کی حکومت میں تھے تحقیق کی گئی ہے، اس کتاب سے امیرالمومنین علیہ السلام کے دور کے شیعوں کے حالات کو سمجھا جا سکتا ہے۔
الجمل یا نصرۃالجمل شیخ مفید کی یہ کتاب ارزش مند منابع میں سے ایک ہے کہ جس میں جنگ جمل کے حالات کی تحقیق کی گئی ہے چونکہ یہ کتاب حضرت علی علیہ السلام کی پھلی جنگ جو آپ کی خلافت کے زمانے میں واقع ھوئی ہے اس کے متعلق ہے لہٰذا اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا مرتبہ عراق کے لوگوں کے درمیان آپ کے وہاں جانے سے پھلے کیا تھا۔
(۳)کتب رجال و طبقات
علم رجال ان علوم میں سے ہے کہ جن کاربط علم حدیث سے ہے اور اس علم کا استعمال احادیث کی سند سے مربوط ہے، اس علم کے ذریعہ راویان حدیث اور اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات زندگی کا پتہ چلتا ہے،رجال شیعہ میں اصحا ب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ ائمہ معصومین علیہ السلام کے اصحاب کو بھی مورد بحث قرار دیا گیا ہے، علم رجال شناسی دوسری صدی ہجری سے شروع ہو ا اور آج تک جاری ہے اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ا س میں تکامل وترقی ہوتی جارہی ہے۔
اہل تشیع کی اہم ترین کتابیں درج ذیل ہیں:
(۱)اختیار معرفۃ الرجال کشی،شیخ طوسی ۴۶۰ھ
(۲)رجال نجاشی(فہرست اسماء مصنفی الشیعۃ)
(۳)کتاب رجال یا فہرست شیخ طوسی
(۴)رجال برقی،احمد بن محمد بن خالد برقی۲۸۰ھ
(۵)مشیخہ، شیخ صدوق ۳۸۱ھ
(۶)معالم العلماء، ابن شھر آشوب مازندرانی۵۸۸ ھ
(۷)رجال ابن داؤد،تقی الدین حسن بن علی بن داؤد حلی۷۰۷ھ
البتہ شیعوں کے درمیان علم رجال نے زیادہ تکامل وارتقا پیدا کیا ہے اور مختلف حصوں میں تقسیم ہوا ہے۔
بعض کتب رجال جیسے اسد الغابہ، فھرست شیخ، رجال نجاشی اور معالم العلماء کو حروف کی ترتیب کے لحاظ سے لکھا گیا ہے اور کچھ کتابیں جیسے رجال شیخ اور رجال برقی رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکرم اور ائمہ(علیہ السلام) کے اصحاب کے طبقات كے حساب سے لکھی گئی ہیں، علم رجال پر اور بھی کتابیں ہیں جن میں لو گوں کو مختلف طبقات کی بنیاد پر پرکھا گیا ہے ان میں سے اہم کتاب طبقات ابن سعد ہے۔
(۴)کتب جغرافیہ
کچھ جغرافیائی کتابیں سفر نا موں سے متعلق ہیں، جن میں اکثر کتابیں تیسری صدی ھجری کے بعد لکھی گئی ہیں چونکہ اس کتاب میں تاریخ تشیّع کی تحقیق شروع کی تین ہجری صدیوں میں ہوئی ہے، اس بنا پر ان سے بہت زیادہ استفا دہ نہیں کیا گیا ہے،ہاں بعض جغرافیائی کتابیں جن میں سند کی شناخت کرائی گئی ہے اس تحقیق کے منابع میں سے ہیں، ان کتابوں میں معجم البلدان جامع ہونے کے اعتبار سے زیادہ مورد استفادہ قرار پائی ہے، اگر چہ موٴلف کتاب”یاقوت حموی“ نے شیعوں کے متعلق تعصب سے کام لیا ہے اور کوفہ کے بڑے خاندان کا ذکر کرتے وقت کسی بھی شیعہ عالم اور بڑے شیعہ خاندانوں کا ذکر نہیں کیا ہے۔
(۵)کتب اخبار
کتب اخبارسے مراداحادیث کی وہ کتابیں نہیں ہیں جن میں حلال و حرام سے گفتگو کی گئی ہے بلکہ ان سے مراد وہ قدیم ترین تاریخی کتابیں ہیں جو تاریخ کی تدوین کے عنوان سے اسلامی دور میں لکھی گئی ہیں کہ ان کتابوں میں تاریخی اخباراور حوادث کو راویوں کے سلسلہ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، یعنی تاریخی اخبار کے ضبط ونقل میں اہل حدیث کا طرز اپنایا گیاہے۔ اس طرح کی تاریخ نگاری کی چند خصوصیات ہیں، پھلی خصوصیت یہ کہ ایک واقعہ سے متعلق تمام اخبار کو دوسرے واقعہ سے الگ ذکر کیاجاتا ہے وہ تنھا طور پر مکمل ہے اورکسی دوسری خبر اور حادثہ سے ربط نہیں ہے،دوسری خصوصیت یہ کہ اس میں ادبی پھلوؤں کا لحاظ کیا گیاہے یعنی موٴلف کبھی کبھی شعر، داستان مناظرے سے استفادہ کرتا ہے یہ خصوصیت خاص طور پر سے ان اخبار یین کے آثار میں زیادہ دیکھنے میں آتی ہے جو ”ایام العرب“ کی روایات سے متاثر تھے، اسی وجہ سے بعض محققین نے ”خبر “ کی تاریخ نگاری کو زمانہٴ جاہلیت کے واقعات کے اسلوب و انداز سے ماخوذ جانا ہے۔تیسری خصوصیت یہ کہ ان میں روایات کی سند کا ذکر ہوتا ہے۔
در حقیقت تاریخ نگاری کا یہ پہلا طرز خصوصاً اسلام کی پہلی دو دصدیوں میں کہ جس میں اکثرتاریخ کے خام موادو مطالب کا پیش کرنا ہوتا تھا اسلامی دور کے مکتوب آثار کا ایک اہم حصہ رہاہے۔اسی طرح سے اخبار کی کتابوں کے درمیان کتاب الاخبارالموفقیات جو زبیر بن بکارکی تالیف کردہ ہے زیادہ اہمیت رکھتی ہے، اس کتاب کا لکھنے والا خاندان زبیر سے ہے کہ جس کی اہل بیت(علیہ السلام) سے پرانی دشمنی تھی اس کے علاوہ اس کے، متوکل عباسی( جو امیرالمومنین(علیہ السلام) اور ان کی اولاد کا سخت ترین دشمن تھا) سے اچھے تعلقات تھے اور اس کے بچوں کا استاد بھی تھا۔[1]نیز اس کی جانب سے مکہ میں قا ضی کے عھدے پر فائز تھا [2]ان سب کے باوجوداس کتاب میں ابوبکر کی خلافت پر اصحاب پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعتراضات کے بارے میں ا ہم معلومات ہیں خصوصاً اس میں ان کے وہ اشعاربھی نقل کئے گئے ہیں جو حضرت علی(علیہ السلام) کی جانشینی اور وصایت پر دلالت کرتے ہیں۔
(۶)کتب نسب
نسب کی کتابوں میں انساب الاشراف بلاذری سب سے زیادہ قابل استفادہ قرار پائی ہے جو نسب کے سلسلہ میں سب سے بھترین ماخذ جانی جاتی ہے، دوسری طرف اس کتاب کو سوانح حیات کی کتابوںمیں بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ اگر چہ علم نسب کے لحاظ سے کتاب جمھرۃ الانساب العرب جامع ترین کتاب ہے کہ جس میں مختصر وضاحت بھی بعض لوگوں کے بارے میں میں کی گئی ہے۔
کتاب منتقلہ الطالبیین میں ذریت پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سادات کی مہاجرت سے متعلق تحقیق کی گئی ہے، ان مطالب سے استفادہ کرتے ہوئے ابتدائی صدیوں میں اسلامی سرزمینوں پر تشیع سے متعلق تحقیق کی جا سکتی ہے۔
(۷)کتب ا حادیث
تاریخ تشیع کے دوسرے منابع میں سے حدیث کی کتابیں ہیں عرف اھل سنت میں حدیث سے مراد قول، فعل اور تقریر رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، لیکن شیعوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ائمہ معصومین علیہ السلام کو بھی شامل کیا ہے اور شیعہ رسول کے ساتھ ائمہ معصومین علیہ السلام کے قول، فعل اورتقریر کوبھی حجت مانتے ہیں، اہل سنت کی کتابوں میں صحیح بخاری(۱۹۴۔۲۵۶)مسند احمد بن حنبل(۱۶۴۔۲۴۱) مستدرک علی الصحیحین حاکم نیشاپوری(ف۴۵۰)صحابہ کے درمیان تشیع اور امیرالمومنین(علیہ السلام) کی حقانیت( جو تشیع کی بنیادہے) کی تحقیق کے لئے بہترین کتابیں ہیں۔
شیعہ حضرات کی حدیث کی کتابیں جیسے کتب اربعہ: الکافی کلینی(۳۲۹ھ)، من لا یحضرہ الفقیہ صدوق(ف۳۸۱ھ) تہذیب الاحکام و استبصارشیخ طوسی(وفات ۳۶۰ھ)اوردوسری کتابیں جیسے امالی،غررالفوائدو درر القلائدسید مرتضیٰ(۳۵۵۔۴۳۶) الاحتجاج طبرسی(چھٹی صدی)شیعہ احادیث کا عظیم دائرۃ المعارف(انسائیکلوپیڈیا) بحارالانوار مجلسی(۱۱۱۱ھ) وغیرہ کہ جو اہل سنت کی کتابوںپر امتیازی حیثیت رکھتی ہیں، اس کے علاوہ شیعوں کے فروغ، ان کے رھائشی علاقے، ان کے اجتماعی روابط اور ائمہٴ معصومین علیہ السلام کے ساتھ انکے اربتاط کے طریقہ کار کا اندازہ ان کی حدیثوں سے لگایا جا سکتا ہے۔
حوالہ
[1] خطیب بغدادی،الحافظ ابی بکر احمد بن علی،تاریخ بغداد،مطبعة السعادہ،مصر،۱۳۴۹ھ ج۸،ص۴۶۷
[2] ابن ندیم،الفھرست،بیروت،(بی تا)ص
https://erfan.ir/urdu/84936.html