حق وراثت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا
(علامہ شیخ کاظم الازدی ؒ)
نقضوا عھد احمد فی اخیہ واذاقوا البتول ما اشجاھا
یوم جاءت الیٰ عدی و تیم ومن الوجد ما اطال بکاھا
فدنت واشتکت الیٰ اللہ شکوی والرّواسیٌّ تھتز من شکواھا
لست ادری اذ روِّعت وھی حسریٰ عاند القوم بعلھا و اباھا
تعظ القوم فی اتمِّ خطاب حکت المصطفیٰ بہ وحکاھا
ھٰذہ الکتب فسئلوھا تروھا بالمواریث ناطقا فحواھا
و بمعنی یوصیکم اللہ امرٌ شامل للانام فی قرباھا
فاطمانت لھا القلوب وکادت ان تزول الاحقاد ممن طواھا
ایھا القوم راقبوا اللہ فینا نحن من روضتہ الجلیل جناھا
و لنا من خزائن الغیب فیض ترد المھتدون منہ ھداھا
ایھا الناس ای بنت نبی عن مواریثہ ابوھا زواھا
کیف عنی تراشی عتیق باحادیث من لدنہ افتتراھا
کیف لم یوصنا بذالک مولانا ویتیما من ذوننا اوصاھا؟
ھل رآنا لا نستحق اھتداء واستحقت تیم الھدیٰ فھداھا
ام تراہ اضلنا فی البرایا بعد علم لکی نصیب خطاھا
انصفونی من جائرین اضاعا حرمۃ المصطفیٰ وما رعیاھا
”ان لوگوں نے پیمان پیغمبرؐ جو ان کے بھائی کے بارے میں تھا توڑ ڈالااوران کی دختر فرزانہ بتولؑ کو وہ درد رنج دیئے کہ جن کے سننے سے ہر آزاد انسان کا دل تڑپ کررہ جاتاہے۔جب اس دن عدی اور تیم کے پاس آئیں توان پر مظالم ڈھائے گئے۔ان کا گریہ طولانی ہوگیا۔جب انھوں نے بارگاہ خداوندی میں اپنا شکوہ پیش کیا تو ان کے شکوے سے بلند وبالا پہاڑ لرز رہے تھے ۔میں نہیں جانتا اس ظالم گروہ نے ان کے گھر پر جاکر ان کی تہدید کی اورانھیں ڈرایا دھمکایا۔لوگوں نے ان کے شوہر اور ان کے والد گرامی سے عناد کیا۔وہ اس قوم کے پاس گئیں اورانھیں خطاب فرمایا۔ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے رسولؐ اللہ خطاب فرمارہے ہوں۔یہ آسمانی کتابیں ہیں،ان سے پوچھ لیجئے یا ان کا مطالعہ کرلیجئے۔یہ آپ کو بتائیں گی کہ قانون میراث باقی ہے ہر والد میراث چھوڑتا ہےاور اس کے رشتہ دار اس کی میراث لیتے ہیں اور یہ سبھی کتابیں بتاتی ہیں کہ اللہ کی وصیت کا معنیٰ یہی ہے یہ امر کائنات کے ہر فرد کو شامل ہے اور کوئی انسان قانون میراث سے مستثنیٰ نہیں ہے۔
ان کی اس گفتگوسے دلوں میں اطمینان ٹھہرا اور قریب تھا کہ بغض کینے دوستی میں بدل جائیں ۔فخر دانش و بینش نے فرمایا:اے لوگو! ہمارے مورد وحقوق اور امنیت و اقتداکے لیے ہوش میں آیئے کیونکہ ہم خداے بزرگ کے بوستان جان بخش کا میوہ ہیں ۔ہمارے پاس غیب کے خزانے ہیں۔جن لوگوں نے ہدایت پائی ہے انھوں نے ہم سے ہی فیض حاصل کیا ہے۔
اے لوگو !وہ کس نبیؐ کی بیٹی ہے کہ جسے اللہ نے اس کے والد کی میراث سے محروم کیاہے؟کیا تمھارے نبیؐ کی بیٹی کے علاوہ ان کی اولاد میں سے کوئی اور فرد تھا۔اس آدمی نے میری میراث کو ضبط کرلیا ہے۔اس نے جس روایت کا سہارا لیا ہےاس کی حقیقت نہیں ہے۔
میرے بابا نے اس امر کی مجھے وصیت کیوں نہ فرمائی تھی؟ میرے علاوہ انھوں نے صرف تم کو وصیت کی تھی۔ کیا ہمارے بزرگوار نے ہمیں اس امر کی ہدایت ہمارے لیے ضروری نہیں سمجھی تھی اور ہمارے غیر کے لئے ہدایت ضروری خیال کی تھی۔ ساری امت میں اس امر کا ہمیں علم نہیں ہے۔کیا ہم خطا پر ہیں ۔ان لوگوں نے ہم پر ظلم کیا اور محمدؐ مصطفیٰ کی حرمت کو ضائع کیا اور ہمارے حقوق کی رعایت نہیں کی ہے خود مدعی اور منصف بن بیٹھے“۔