خطبہ حجۃ الوداع اور خطبہ فدک کے مشترکات اور امتیازات
مقالہ نگار: مولانا خلیل احمد
چکیدہ
اس مختصر مقالے میں ہم نے دو عظیم شخصیتوں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی بیٹی جناب صدیقہ طاھرہ حضرت فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا کے دو عظیم خطبوں خطبہ حجۃ الوداع المعروف بخطبہ غدیر اور خطبہ فدک کے مشترکات اور ان میں موجود امتیازات کو بیان کرنے کی سعی کی ہے ، اس سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کی ذات کے بعد سب سے عالم ترین فرد اس کائنات میں حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی ذات مبارک ہے تو انہوں نے جو خطبہ دیا ہے س میں تو کسی قسم کے شک کی گنجائش ہی نہیں ہے لیکن ان کی رحلت کے بعد انہی کی بیٹی جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا نے جو خطبہ دیا ہے اور اس میں اپنے بابا سے ورثے میں ملے ہوئے علم کے ذریعے سے جو معارف بیان کیے ہیں وہ صرف مالی وراثت ہی نہیں بلکہ ان کے علم کی وارث ہونے کی بھی بہترین دلیل ہے۔
مقدمہ
جب کوئی بھی عالم فرد کوئی بھی خطبہ دیتا ہے تو حد الامکان یہی سعی وکوشش کرتا ہے کہ اپنے مقصود کو تمام پہلووں کے ساتھ مکمل بیان کردے لیکن اگر ہم بات کریں اس کائنات کے عالم ترین افراد کی تو بغیر کسی شک و شبہ کے ان کا بیان و خطبہ تمام جوانب و اطراف سے مکمل ہونا چاہیے ۔
لہذا جب خالق کے بعد اس کائنات کے سب سے بڑے عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور انہی کی گود کی پروردہ اور انہی کی جگر گوشہ حضرت سیدۃالنساء فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا کے خطبوں کی بات کریں تو ہم کو یہ اطمینان و یقین ہوتا ہے کہ ان ہستیوں نے ان خطبوں کے اندر انسان کی ضرورت کی تمام چیزوں کو بیان کیا ہوگا تو اسی بات کے پیش نظر ہم اس مختصر مقالے میں حضرت خاتم النبیین کے خطبہ حجۃ الوداع (المعروف خطبہ غدیر) اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدک کے مشترکات اور امتیازات کا جائزہ لیں گے۔
دونوں خطبوں کے بیان کا پس منظر
خطبہ حجۃ الوداع کا پس منظر
حضرت رسول مکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب ۱۰ ہجری میں اپنی زندگی مبارکہ کا آخری حج انجام دے کر مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف واپس پلٹ رہے تو غدیر خم کے مقام پہ جبرئیل علیہ السلام بحکم خدا یہ آیت لیکر نازل ہوئے کہ
” یااَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡصِمُکَ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔(۱)
اے رسول ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔
تو اسی وقت پیمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحاب کو ٹھہرنے کا حکم دے کر ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرما یا جس میں اپنے بعد اپنی خلافت کے حقیقی جانشین کا بحکم خدا اعلان فرمایا۔(۲)
خطبہ فدک کا پس منظر
جس ولایت و امامت کا اعلان پیمبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں ارشاد فرمایا تھا جب ان کی رحلت کے بعد وہ اعلان بھلا دیا یہاں تک کہ اپنی زندگی میں جو فدک نامی ایک باغ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کو عطا کیا تھا وہ ان سے واپس لے لیا گیا تو وہ اس حقیقت کو بیان کرنے اور لوگوں کو اپنے حق میراث کی بابت بتانے کے لیے دربار جاتی ہیں اور ایک بہادر اور جرات مندانہ انداز میں ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرماتی ہیں جو تاریخ میں خطبہ فدک کے نام سے مشہور ہے۔(۳)
پہلا باب
خطبہ حجۃ الوداع اورخطبہ فدک کے مشترکات
توحید
ان دونوں مبارک ہستیوں نے اپنے خطبوں کی ابتدا توحید خداوند تبارک و تعالی سے فرمائی ہے۔
پیغمبر گرامی ا سلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
"الْحَمْدُ للّه الَّذی عَلا فی تَوَحُّدِهِ وَدَنا فی تَفَرُّدِهِ وَجَلَّ فی سُلْطانِهِ وَعَظُمَ فی أَرْکانِهِ، وَأَحاطَ بِکُلِّ شَیءٍ عِلْما وَهُوَ فی مَکانِهِ، وَقَهَرَ جَمیعَ الْخَلْقِ بِقُدْرَتِهِ وَبُرْهانِهِ، حَمیدا لَمْیزَلْ، مَحْمُودا لا یزالُ وَمَجیدا لا یزُولُ، وَمُبْدِئا وَمُعیدا وَکُلُّ أَمْرٍ إلَیهِ یعُودُ.”
ترجمہ؛۔ ساری تعریف اس اللہ کےلئے ہے جو اپنی یکتائی میں بلند اور اپنی انفرادی شان کے باوجود قریب ہے۔ وہ سلطنت کے اعتبار سے جلیل اور ارکان کے اعتبار سے عظیم ہے وہ اپنی منزل پر رہ کر بھی اپنے علم سے ہر شے کا احاطہ کئے ہوئے ہے اور اپنی قدرت اور اپنے برہان کی بناء پر تمام مخلوقات کو قبضہ میں رکھے ہوئے ہے ۔وہ ہمیشہ سے قابل حمد تھااور ہمیشہ قابل حمد رہے گا ،وہ ہمیشہ سے بزرگ ہے وہ ابتدا کرنے والا دوسرے (خداوند عالم کا علم تمام چیزوں کا احاطہ کئے ہو ئے ہے درحالیکہ خداوند عالم اپنے مکان میں ہے ۔البتہ خداوند عالم کےلئے مکان کا تصور نہیں کیا جا سکتا ،پس اس سے مراد یہ ہے کہ خداوند عالم تمام مو جودات پر اس طرح احاطہ کئے ہوئے ہے کہ اس کے علم کےلئے رفت و آمد اور کسب کی ضرورت نہیں ہے) وہ پلٹانے والاہے اور ہر کام کی باز گشت اسی کی طرف ہے۔
اسی طرح جب حضرت زہراء سلام اللہ علیھا اپنے حق کو ثابت کرنے کے لیے خطبہ دینے دربار میں آئیں تو انہو ں نے بھی اس کی ابتدا توحید باری تعالی سے اس انداز میں فرمائی ۔وَ اَشْهَدُ اَنْ لااِلهَ اِلاَّ اللَّـهُ وَحْدَهُ لاشَریكَ لَهُ، كَلِمَةٌ جَعَلَ الْاِخْلاصَ تَأْویلَها،
ترجمہ میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں (کلمہ شھادت) ایک ایسا کلمہ ہے کہ اخلاص (درعمل) کو اس کا نتیجہ قرار دیا ہے۔
قارئین کرام! آپ ان دونوں خطبوں کی ان عبارتوں میں اگر تھوڑی سی ہی دقت کریں گے تو یہ آپ پر واضح ہو جائے گا کہ رسول اللہﷺ خدا کی عظمت کو اس کے واحد ہونے کے ذریعے سے بیان فرما رہے ہیں او ر حضرت سیدہ سلام اللہ علیھا اپنے خطبے میں اسی توحید کی گواہی کو وحدانیت خدا کے اقرار کا نتیجہ قرار دے رہی ہیں۔
بیان نبوت
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی خطبے میں اپنی نبوت پہ دوسرے انبیاء کی گواہیوں کو پیش کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ
مَعاشِرَ النّاسِ، بیـ وَاللّهِ ـ بَشَّرَ الاْءَوَّلُونَ مِنَ النَّبِیینَ وَالْمُرْسَلینَ، وَأَنَا ـ وَاللّهِ ـ خاتَمُ الاْءَنْبِیاءِ وَالْمُرْسَلینَ، وَالْحُجَّةُ عَلی جَمیعِ الْمَخْلُوقینَ مِنْ أَهْلِ السَّماواتِ وَالاْءَرَضینَ. فَمَنْ شَکَّ فی ذلِکَ فَقَدْ کَفَرَ کُفْرَ الْجاهِلِیةِ الاْولی، وَمَنْ شَکَّ فی شَیءٍ مِنْ قَوْلی هذا فَقَدْ شَکَّ فی کُلِّ ما أُنْزِلَ اءلَی (۴)
ترجمہ اے لوگو! خدا کی قسم تمام انبیاء علیہم السلام و مرسلین نے مجھے بشارت دی ہے اور میں خاتم الانبیاء والمرسلین اور زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کےلئے حجت پروردگار ہوں جو اس بات میں شک کرے گا وہ گذشتہ زمانہ ٴ جا ہلیت جیسا کا فر ہو جا ئے گا اور جس نے میری کسی ایک بات میں بھی شک کیا اس نے گویا تمام باتوں کو مشکوک قرار دیدیا۔
پیمبر اس جملے میں صرف اپنی نبوت کو ہی بیا ن نہیں کر رہے بلکہ دوسرے انبیاء کا حوالہ دے کر ان کی نبوت و رسالت کا بیان بھی فرمارہے ہیں۔
بالکل اسی طرح فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں کہ
وَ اَشْهَدُ اَنَّ اَبی مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، اِخْتارَهُ قَبْلَ اَنْ اَرْسَلَهُ، وَ سَمَّاهُ قَبْلَ اَنْ اِجْتَباهُ،
"میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے پدر محمد اللہ کے عبد اور رسول ہیں اللہ نے ان کو رسول بنانے سے پہلے انہیں برگزیدہ کیا تھا اور ان کی تخلیق سے پہلے ان کا نام روشن کیا۔”
بیان امامت و اطاعت اہل البیت
امامت ہی وہ واحد مقصد تھا جس کے لیے یہ دونوں خطبے دیے گئے تاکہ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد گمراہی اور ظلمتوں کی دلدل سے بچایا جا سکے اور ان کو ابلیس کی پیروی سے محفوظ کرکے رحمان کا عبد بنایا جا سکے اور ان کے دین کو تفرقے سے بچایا جا سکے اور نظام دنیاوی کو معمول کے مطابق چلاکر اسلام کو تمام خطرات سے محفوظ بنایا جائے اس سلسلے میں ترجمان وحی خدا خاتم النبیین فرماتے ہیں کہ
مَعاشِرَ النّاسِ، إنَّما أَکْمَلَ اللّهُ عَزَّ وَجَلَّ دینَکُمْ بِإمامَتِهِ. فَمَنْ لَمْیأْتَمَّ بِهِ وَبِمَنْ یقُومُ مَقامَهُ مِنْ وُلْدی مِنْ صُلْبِهِ إلی یوْمِ الْقِیامَةِ وَالْعَرْضِ عَلَی اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَأُولئِکَ الَّذینَ حَبِطَتْ أَعْمالُهُمْ فِی الدُّنْیا والاْآخِرَةِ وَفِی النّارِ هُمْ خالِدُونَ، «لا یخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذابُ وَلا هُمْ ینْظَرُونَ»
ترجمہ !اللہ نے دین کی تکمیل علیؑ کی امامت سے کی ہے ۔لہٰذا جو علیؑ اور ان کے صلب سے آنے والی میری اولاد کی امامت کا اقرار نہ کرے گا ۔اس کے دنیا و آخرت کے تمام اعمال بر باد ہو جا ئیں گے وہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا ۔ ایسے لوگوں کے عذاب میں کو ئی تخفیف نہ ہو گی اور نہ انہیں مہلت دی جا ئے گی ۔
دین کی تکمیل اور کامیابی و فلاح رسول اللہ کی نگا ہ مبارک میں امامت میں ہے اور اسی وجہ سے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقرار امامت کے بغیر تمام اعمال کو باطل قرار دے رہے ہیں اور منکرین امامت کو قیامت میں جھنم اور عذاب الھی کی بشارت دے رہے ہیں۔
اب جب ہم سیدہ سلام اللہ علیھا کے خطبہ فدک کی جانب نگاہ کرتے ہیں تو وہ ہم کو یہ اعلان کرتی نظر آتی ہیں کہ
"طاعتنا نظاما للملہ ” ہماری اطاعت کو امت کی ہم آھنگی کا سبب بنایا
و امامتنا امانا للرقہ "اور ہماری امامت کو امت میں تفرقے سے بچنے کے لیے امان قرار دیا”
جناب سیدہ سلام اللہ علیھا یہ فرمانا چا ہ رہی ہیں کہ پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد جو بھی تفرقہ وجود رکھتا ہے اس کی واحد وجہ ہماری امامت کا اقرار نہ کرنا ہےاور یہ سب ہمارے بغض کی وجہ سے ہے۔
بیان نماز
ان دونوں ہستیوں نے اپنے بیان میں فروعات دین کی تلقین فرمائی ہے۔حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز اور زکاۃ کے بار ےمیں فرماتے ہیں کہ "مَعاشِرَ النّاسِ، أَقیمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّکاةَ کَما أَمَرَکُمُ اللّهُ عَزَّ وَجَلَّ”
ترجمہ اے لوگو!نماز قائم کرو اور زکوٰة ادا کرو جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے۔
نماز اور زکاۃ کو اس طرح سے انجام دو جیسا پروردگار نے حکم دیا ہے اگر ہم اس فقرے کو جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کے جملوں کے ساتھ ملائیں گے تو مطلب ہمارے ذہنوں میں واضح ہوجائے گا ۔ آپ ارشاد فرماتیں ہیں۔
وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَكُمْ عَنِ الْكِبْرِوَ الزَّكاةَ تَزْكِیةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ”
"خدا نے نماز کو تمہیں تکبر سے محفوظ رکھنے کے لیےقرار دیا ہے اور زکاۃ کو نفس کی پاکیزگی اور رزق میں اضافے کا سبب قرار دیا ہے
رسول مکرم ؐ اپنے خطبے میں نماز کو پڑھنے کا حکم دے رہے ہیں جب کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا ان اعمال کی بجاآوری کے بعد حاصل ہونے والے اثر کو بیان کررہی ہیں کہ نماز تم پڑ ھوگے لیکن اس نماز کا اثر یہ ہے کہ وہ تم کو تکبر جیسے بدترین گناہ سے بچاتی ہے اور خدا کی کبریائی کا معترف ہونے کا سبب بنتی ہے یعنی جب بندہ اللہ کی بارگاہ میں اس کی بڑائی کا اعتراف کرتا ہے تو پھر اس کے دل میں اپنے لیے کسی تکبر اور بڑائی کی کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔
اسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ اپنے بیان میں زکوا ۃ دینے کا حکم دے رہے ہیں لیکن سیدہ سلام اللہ علیھا اس زکاۃ کے نتائج کو بیان کر رہی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اپنے کمائے ہوئے مال سے زکواۃ دیتے وقت تمھارے ذہن میں یہ خیال آجائے کہ اس سے تو تمھارا مال کم ہو جائے گا لیکن ہرگز ایسا نہیں ہے زکواۃ کے دو بڑے فائدے ہونگے ایک تو یہ کہ تمھارا مال کم نہیں ہوگا اور دوسرا سب سے بڑا فائدہ کہ زکاۃ تمہارے نفسوں کا تزکیہ کرے گی اور تم کو پاک کرے گی
حج کا بیان
حج اسلام کی بنیادی عبادتوں میں سے ایک اہم رکن ہے جس میں پوری دنیا کے مسلمان مکہ معظمہ میں جمع ہو کر بغیر کسی اونچ نیچ کے فرق کے خدا کی عبادت کو انجام دیتے ہیں اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کے گھر کا طواف کرتے ہیں اور قربانی کے ذریعے سے اپنے حج کو مکمل کرتے ہیں اس بارے میں پیغمبر فرماتے ہیں کہ
"مَعاشِـرَ النّاسِ، حِجُّـوا الْبَیتَ، فَما وَرَدَهُ أَهْـلُ بَیتٍ إلاَّ اسْتَغْنَـوْا وَأُبْشِـرُوا، وَلا تَخَلَّفُـوا عَنْهُ إلاّ بُتِـرُوا وَافْتَقَرُوا”
اے لوگو خا نہ ٴ خدا کا حج کرو جو لوگ یہاں آجاتے ہیں وہ بے نیاز ہو جا تے ہیں خوش ہوتے ہیں اور جو ا س سے الگ ہو جا تے ہیں وہ محتاج ہو جا تے ہیں ۔
اور اسی حج کے بارے میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں کہ ” وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ"(خدا نے) حج کو دین کی تقویت کا سبب بنایا ہے ۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے ہیں کہ جب تم حج کو انجام دو گے تو تم پھر بے نیاز ہو جاو گے اور پھر تم محتاج نہیں رہوگے اور سیدہ اپنے بیان میں اس عظیم عبادت کو دین اسلام مبین کی طاقت کا سبب اور قوت دینی کا سرچشمہ بتا رہی ہیں کہ جب سارے مسلمان ایک ہی لباس میں ایک جگہ جمع ہوں گے تو بغیر کسی شک و تردد کے دشمنان اسلام کے دلوں میں ایک رعب و خوف پیدا ہوجائے گا۔
امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا بیان
امر بالمعروف و نھی عن المنکر اسلام کی انتہائی اہم عبادتوں میں سے ہیں اور پورے اسلامی نظام کا دارو مدار تقریبا اس بات پہ ہے ۔ اس کی اہمیت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح بیان کیا کہ
"وَاءْمُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِأَلا وَاءنَّ رَأْسَ الاْءَمْرِ بِالْمَعْرُوفِ أَنْ تَنْتَهُوا اءلی قَوْلی وَتُبَلِّغُوهُ مَنْ لَمْ یحْضُرْ وَتَأْمُرُوهُ بِقَبُولِهِ عَنّی وَتَنْهَوْهُ عَنْ مُخالَفَتِهِ، فَاءنَّهُ أَمْرٌ مِنَ اللّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَمِنّی. وَلا أَمْرَ بِمَعْرُوفٍ وَلا نَهْی عَنْ مُنْکَرٍ اءلاّ مَعَ اءمامٍ مَعْصُومٍ.”
"نیکیوں کا حکم دو ، برا ئیوں سے روکواور یہ یاد رکھو کہ امر با لمعروف کی اصل یہ ہے کہ میری بات کی تہہ تک پہنچ جا وٴ اور جو لوگ حاضر نہیں ہیں ان تک پہنچا وٴ اور اس کے قبول کر نے کا حکم دو اور اس کی مخالفت سے منع کرو اس لئے کہ یہی اللہ کا حکم ہے اور یہی میرا حکم بھی ہے اور امام معصوم کو چھو ڑ کر نہ کو ئی امر با لمعروف ہو سکتا ہے اور نہ نہی عن المنکر ۔”
بی بی فاطمہ سلام اللہ علیھا اس بارے میں فرماتی ہیں کہ "وَ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلِحَةً لِلْعامَّةِ،(۵)
"خدا نے امر بالمعروف کو عوام کی بھلائی کا سبب قرار دیا ہے ۔”
اگر ہم ان دونوں جملوں کو ملا کر نتیجہ لیں تو ہم کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ امربالمعروف کس اہمیت کا حامل ہےہم یہاں پہ استاد بزرگوار شیخ محسن علی نجفی کا بیان نقل کرتے ہیں کہ "امر بالمعروف اور نہی از منکر اصلاح معاشرہ کے لئے اسلام کا ایک زرین اصول ہے جس پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ایک متوازن سوچ کا حامل با شعور معاشرہ وجود میں آ تا ہے، جس میں کسی ظالم کو ظلم کرنے اور کسی استحصالی کو استحصال کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ ایک آ گاہ اور باشعور معاشرہ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بصورت دیگر ایک تاریک اور شعور سے خالی معاشرے میں ہرقسم کے ظالم اور استحصالی قوتوں کے لیے کھلی چھٹی مل جاتی ہے۔ حدیث میں مروی ہے : تم اگر امر بالمعروف اور نہی از منکر کے عمل کو ترک کرو گے تو تم پر ایسے ظالم لوگ مسلط ہوجائیں گے جن سے نجات کے لئے تم دعا کرو گے لیکن تمہاری دعا قبول نہ ہو گی” ۔(۶)
دوسرا باب
خطبہ حجۃ الوداع اور خطبہ فدک کے امتیازات
خطیب
خطبہ حجۃ الوداع کا خطیب وہ شخصیت ہے جو خالق کائنات کے بعد تمام مخلوقات میں سب سے افضل و برتر ہیں ۔
خطبہ فدک کی خطیب وہ شخصیت ہیں جو عالمین کی تمام عورتوں کی سردار ہیں۔
محل و مقام
خطبہ حجۃ الوداع کے بیان کا محل و مقام وہ جگہ ہے جسے اللہ نے اپنے قرآن میں مبارک گھر کے نام سے یاد فرمایا ہے اور اس کو عالمین کے لیے محل ہدایت قرار دیا ہے اور خطبہ فدک کے بیان کا محل وہ جگہ ہے جہاں پہ اللہ کا رحمت للعالمین پیغمبرﷺ دفن ہے۔
اعلان و حفاظت ولایت
خطبہ حجۃ الوداع وہ عرفانی و روحانی خطبہ ہے کہ جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد اپنے ولی و جانشین کا حکم خدا سے اعلان فرمایایعنی کہ اعلان ولایت فرمایا جبکہ خطبہ فدک میں بی بی فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا نے اسی ولایت کا دفاع کیا اور لوگوں کو نبی کا میدان غدیر میں دیا ہوا فرمان یاد دلائی۔
حکم خدا
خطبہ حجۃ الوداع اور خطبہ فدک میں ایک اورامتیاز یہ بھی ہے کہ یہ خطبہ رسول اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے حکم خدا سے ارشاد فرمایا تھا جب اللہ نے کہا کہ اے رسول ﷺ ! جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویا آپ نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللہ کافروں کی رہنمائی نہیں کرتا۔تو اسی وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے کچھ دور میدان غدیر میں اعلان ولایت کرکے حکم خدا کی تعمیل کی۔
بیعت
خطبہ حجۃ الوداع کا یہ بھی امتیاز ہے کہ اس خطبے کے ذریعے پیغمبر خدا ﷺنے تمام لوگوں سے امیر المومنین علی علیہ الصلاۃ والسلام کی بیعت لی ۔
احتجاج
خطبہ فدک کو ایک امتیاز یہ بھی حاصل ہے کہ اس خطبہ میں بی بی فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیھا نے اپنی وراثت کو ثابت کرنے کے لیے قرآن کی آیات کے ذریعے سے استدلال فرمائی۔جب بی بی سلام اللہ علیھا نے اپنے بابا کی میراث کا مطالبہ کیا تو ان کو یہ کہہ کر واپس کیا گیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا ہم انبیاء وراثت نہیں چھوڑتے۔ تو اس وقت بی بی سلام اللہ علیھا نے خلیفہ کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ
"یابن ابی القحافہ ا فی کتاب اللہ ان ترث اباک ولا ارث ابی”
اے ابو قحافہ کے بیٹے ! کیا یہ کتا ب خدا میں ہے کہ تم اپنے باپ کے وارث بنو اور میں اپنے باپ کا وارث نہ بنوں ؟
کیا تم نے جان بوجھ کر کتاب خدا کو ترک کیا اور اس کو پس پشت ڈال دیا
اذ یقول ” وو رث سلیمان داود "اور سلیمان داود کے وارث بنے ” (۷)
اور پھر اس کے بعد بی بی سلام اللہ علیھا نے قرآن کی مختلف آیات کے ذریعے سے استدلال کیا ۔
خاتمہ
ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ یقینا یہ ایک وسیع بحث طلب موضوع ہے جو اس مختصر سے مقالے میں قطعا نہیں سما سکتا لیکن پھر بھی اس کے باوجود ہم نے اپنی ناقص علمی استعداد کے تحت اس کو جمع کیا ہے اور ان دونوں عظیم ہستیوں کے خطبوں کے مشرکات اور امتیازات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اور انھوں نے جو ان خطبوں میں معارف الہیہ کو بیان کیا ہے ان کو کسی حد تک واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔
حوالہ جات
1. القرآن ؛ ۵؛۶۷
2. القرشی،باقر شریف موسوعۃ سیرت اہل البیت طبع اولی ج ۰۲ الرسول اکرم محمد ص۳۷۸
3. الخوئینی،اسماعیل الانصاری الزنجانی الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزھراء ج ۱۳ ص ۱۶۴
4. خطبہ حجت الوداع کا متن الموسوعۃ سیرت اہل البیت کے ج ۲ سے لیا گیا ہے
5. پورے خطبہ فدک کا متن الموسوعۃ الکبری عن فاطمہ الزہراء کے ج ۱۳ سے لیا گیا ہے
6. النجفی ،شیخ محسن علی ترجمہ خطبہ فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا ص ۵۶
7. القرآن ؛۲۷؛۱۶