سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

حدیث "الجار ثم الدار” کا علمی، تحقیقی اور تطبیقی مطالعہ

مولانا سید اصغر علی نقوی، حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق
چکیدہ
یہ مقالہ پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر خاتون جنت حضرت سیدہ عالم کی مشھور حدیث الجار ثم الدار کے متعلق ہے جس میں حدیث کے علمی تحقیقی اور تطبیقی پہلوؤں کو بیان کیا گیا حدیث کے بین الفریقین مصادر و منابع ،فنی اور علمی حیثیت اور مورد بحث جملہ الجار ثم الدار سیدہ دوعالم ؑ کے علاؤہ کن کن ہستیوں کی زبان حقیقت بیان سے صادر ہوا ان کو بیان کیا گیا ہے ساتھ ہی ساتھ اس حدیث کے انفرادی و اجتماعی اور اخلاقی و تربیتی پہلووں مثلاً ،ایثار ،حب الہی ،اسلوب دعا ،شب زندہ داری ،تربیت اولاد ،احساس ،ہمسایہ کے حقوق و ہمسائیگی کی حدود پہ بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔کچھ اخلاقی و عرفانی مطالب ایسے ہیں جو ہیں تو اسی حدیث سے ماخوذ مگر چونکہ وہ اس حدیث پہ اس سے پہلے لکھے جانے والے عربی ،فارسی مقالات میں موجود ہیں لہذا ان مطالب کو ذکر کرنے سے گریز کیا گیا ہے البتہ محققین کی آسانی کے لیے ان کی طرف اشارہ کردیا گیا ہے تاکہ شائقین تحقیق ان کی طرف رجوع فرمائیں۔
مقدمہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کی تعلیم و تربیت اور اخلاق و کردار کی بہتری کے لیے کچھ ہستیوں کو نمونہ عمل اور واجب الاطاعت بنا کر بھیجا ۔ان ہستیوں کو جہاں اللہ تعالیٰ نے عصمت جیسی نعمت عطاء فرمائی اور ان کی زندگی کو اول سے آخر خطاء و عصیان سے پاک قرار دیا وہیں پہ ان ہستیوں کو فصل الخطاب اور جوامع الکلم بھی عطاء فرمائے اور ان کے کلام کو اسلوب قرآنی سے ایسے ہم آہنگ و منسجم فرمایا کہ اگر لوگ ان کے کلام کے محاسن کو سمجھ لیں تو ان کی اتباع کریں ۔ یہ ہستیاں انبیاء و مرسلین علیہم السلام اور چودہ معصومین علیہم السلام کی ذوات مقدسہ ہیں ۔ان ہستیوں میں ایک ہستی ایسی ہے جو مرکز و محور اہل بیت مصطفی ،ام ابیہا ،سیدہ نساء العالمین ،ہمسر گوہر کعبہ ،مادر حسنین ،ام السبطین جیسے القابات کی حامل ہیں ۔ جن کا کلام معجزہ ،کردار معصوم خطاب سچا اور دعوی و دلیل حقیقت پہ مبنی ہے ۔ اور وہ ہستی جناب سیدہ فاطمہ الزھراء علیھا السلام ہیں ۔آپ کی مدح و توصیف کا حق ادا کرنا غیر معصوم کے بس کی بات نہیں ۔ آپ کی زندگی پہ بہت کچھ کہا گیا لکھا گیا بیان کیا گیا اور آپ کے کلام کی بہت زیادہ تشریح کی گئی مگر پھر بھی بہت کم کی گئی اور ابھی بھی بعض پہلو اور مطالب تشنہ جستجو و کلام ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ آپ افصح العرب ص کی بیٹی ، بلیغ العرب کی زوجہ اور صاحب انجیل اہل بیت کی جدہ ہیں۔غیر معصوم زبان آپ کے کلام کی تفہیم و بیان کا حق ادا نہیں کر سکتی ماسوائے کوشش بمطابق قوت ۔ زیر نظر مقالہ سیدہ دوعالم کے فرمان ذیشان و حقیقت بیان الجار ثم الدار کے متعلق ہے ۔ جس میں اس مختصر سی حدیث کے اندر چھپے دقیق و عمیق مطالب میں سے کچھ مطالب کو بیان کیاگیا جو معاشرتی اخلاقیات اور تربیتی پہلووں سے متعلق ہیں ۔ اس مختصر سے مقالہ کو پڑھنے کے بعد یقینا قاری یہ فیصلہ فرمائینگے کہ معاشرہ کے بہت سارے مسائل کا حل اور بہت سارے تربیتی پہلو اس چھوٹے سے جملہ کے اندر محصور ہیں الجار ثم الدار ۔اور سیدہ کونین س نے جس خوش اسلوبی سے اس مطلب کو ادا فرمایا وہ اسلوب فقط گھرانہ عصمت ع کا خاصہ ہے ۔
حدیث "الجار ثم الدار” کا مصدر
یہ حدیث بہت سارے شیعہ و سنی منابع اور بنیادی مصادر میں وارد ہوئی ہے بعض شیعہ منابع میں زیادہ تر اس جملہ “الجار ثم الدار ” کی نسبت سیدہ کونین ع کی طرف ہے(1) اور بعض میں نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم یا دوسرے آئمہ معصومین علیھم السلام اور لقمان حکیم ؒ کی طرف ہے (2) اہل سنت میں اس جملہ کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ اور حکیم لقمان رح کی طرف ہے۔(3)
حدیث کا یہ ٹکڑا “الجار ثم الدار ”چونکہ بنیادی مصادر و منابع میں وارد ہوا ہے اس کے متن و سند میں کوئی کلام نہیں آج تک از لحاظ سند ومتن کسی نے کلام نہیں کیا لہذا یہ قابل قبول و احتجاج ہے ویسے بھی یہ حدیث اخلاقیات سے تعلق رکھتی ہے جس میں سند سے زیادہ متن کوملحوظ رکھا جاتا ہے یعنی ایسی احادیث چونکہ احکام یا بنیادی عقائد کے اثبات کے لیے نہیں ہیں لہذا انکے قبول و رد کا معیار متن ہوتا ہے نہ کہ سند۔
مضمون حدیث
امام حسن مجتبی علیہ السلام بیان فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی مادر گرامی حضرت زھراء سلام اللہ علیہا کو رات بھر مصلی عبادت پہ مسلسل رکوع وسجود کرتے دیکھا یہاں تک کہ صبح کی سپیدی نمودار ہوئی میں نے سنا کہ مادر گرامی مومنین و مومنات کے نام لیکر کثرت سے ان کے لیے دعا فرما رہی ہیں مگر اپنے لیے کوئی بھی دعا نہ فرمائی میں نے عرض کی اے اماں جان : آپ نے اپنے لیے دعا کیوں نہ کی جیسے آپ لوگوں کے لیے دعا فرما رہی تھیں تو مادر گرامی نے جواب دیا بیٹا پہلے ہمسایہ پھر اہل خانہ (4)
حدیث” الجارثم الدار” یہ حدیث اپنے اندر انتہائی اہم اخلاقی، تربیتی انفرادی و اجتماعی ،پہلو چھپائے ہوئے ہے جن پہ ایک حسن معاشرے کی بنیاد قائم ہے اور ایک بگڑے معاشرے کی اصلاح پوشیدہ ہے ہم ذیل میں چند ایک کے بیان پہ اکتفاء کرتے ہیں مگر اس سے پہلے چند چیزیں قابل وضاحت ہیں۔
ہمسائیگی کی حد
باعتبار لغت لفظ جار ہمسایہ و قرابت اور تعلق داری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔(5)
احادیث و اقوال علماء کے مطالعہ کے بعد ہم اس نتیجہ پہ پہنچتے ہیں کہ ہمسایہ صرف آپ کے ساتھ رہنے والے کو نہیں کہتے ہیں بلکہ جس معاشرہ میں آپ رہتے ہیں اس معاشرہ کے رہنے والے آپ کے ہمسائے شمار ہوتے ہیں بعض احادیث میں ہمسائے کی حد تمام اطراف سے چالیس گھروں تک بیان کی گئی ہے(6) جس کا مجموعہ 180 ہیں جس دور میں یہ حدیث بیان کی گئی جسے ہم عصر نص یا زمانہ حدیث کہتے ہیں اس دور میں عام طور پہ ایک معاشرہ اتنے ہی افراد پہ مشتمل ہوتا تھا اور اسلوب حدیث کو دیکھا جائے تو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حد بندی انحصاری نہیں ہے بلکہ ہمسائیگی کی وسعت کی طرف اشارہ ہے پس لغت ،احادیث اور اقوال اعلام کی بنیاد پہ ہم کہہ سکتے ہیں جس معاشرہ میں آپ رہتے ہیں وہاں رہنے والے آپ کی ہمسائیگی میں ہیں اور ان کے حقوق آپ کے ذمہ ہیں ۔
ہمسایہ کے حقوق
احادیث معصومین علیہم السلام میں ہمسایہ کے حقوق کو اس قدر اہمیت دی گئی کہ ہمسایہ کو مثل پدر قرار دیا (7)کہ جیسے حقوق پدر سے کوتاہی کرنا سنگین اخلاقی جرم ہے اسی طرح ہمسایہ کے حقوق بھی بہت ارزش کے حامل ہیں جن سے بے اعتنائی نہیں کی جاسکتی ۔حدیث میں ہے کہ ہمسایہ کی بد سلوکی پہ صبر ،اور اسکی حمایت مصادیق شجاعت میں سے ایک مصداق ہے (8) ایک اور حدیث میں ہے کہ ہمسایہ کو تکلیف پہنچانا سلب ایمان کا باعث ہے (9)وہ مومن نہیں جس کا ہمسایہ اس سے امن میں نہیں (10) اور ایسا کرنے والا شخص ملعون ہے (11) ہمسایہ سے حسن سلوک انسان کی عمر میں اضافہ کا باعث ہے (12) امام صادق سے منقول ہے کہ ہمسایہ سے حسن سلوک رزق میں اضافہ کا موجب ہے۔ (13)
پس ان نکات کی وضاحت کے بعد ہم حدیث کے اندر چھپے دقیق اور عمیق، انفرادی و اجتماعی ،اخلاقی و دینی ،تربیتی و تعلیمی ان گنت پہلوؤں میں سے چند ایک کے بیان پہ اکتفاء کرتے ہیں۔
انفرادی پہلو
ایثار
حدیث میں سیدہ کونین ع نے فرمایا کہ پہلے جار پھر دار یعنی اپنے اوپر ہمسایہ کو مقدم کرو اس سے بہتر ایثار و قربانی کو بیان نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس سے بہتر کوئی مثال ہے کیونکہ جب آپ پروردگار سے دعا مانگتے ہیں تو آپ اپنی نظر میں سب سے بہتر چیز مانگتے ہیں اور اس ہستی سے طلب کرتے ہیں جو بہترین عطاء کرنے والی ہے اس مقام پہ اپنے سے زیادہ کسی اور کو اہمیت دینا اور اسکی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے خود پہ مقدم کرنا بہترین ایثار اور قربانی ہے کہ اپنے سے زیادہ اسے اہمیت دو ۔اور یہ چیز انسان کے اندر ایثار اور قربانی کا جذبہ بھی پیدا کرتی ہے اور ایثار کی بہترین مثال ہے عام طور پہ دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ ہر چیز میں خود کو مقدم رکھتے ہیں ان میں قربانی کا جذبہ کبھی بھی جنم نہیں لیتا اور خود پہ دوسروں کو مقدم کرنے والے ہمیشہ قربانی کا جذبہ اپنے اندر دوسروں سے زیادہ رکھتے ہیں ۔
احساس
یہ جملہ دوسروں کی مشکلات اور ان کی ضروریات کے احساس کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے کہ سیدہ عالم نے مومنین کے لیے دعا فرمائی ۔دعا یا تو طلب حاجت کے لیے کی جاتی ہے یا دفع بلیات و حل مشکلات کے لیے پس آپ کا مومنین کے لیے دعا کرنا اور اپنے اوپر مقدم کرنا بتاتا کہ ہے آپ مومنین کی مشکلات و ضروریات کو کس قدر محسوس کرتی تھیں اور ان کی بابت اللہ سے دعا فرماتی تھیں پس حدیث کا یہ مقطع و ٹکڑا انسان کے اندر احساس جیسی چیز کو زندہ رکھنے کا درس دیتا ہے کہ ہمیشہ اپنے سے زیادہ اپنے اہل علاقہ و تعلق داروں کو ترجیح دو کیونکہ بے حس انسان تو پتھر کی مانند ہے جبکہ احساس کرنے والے انسان انسانیت کا بہترین سرمایہ ہیں۔
مومنین کی اہمیت
اس حدیث سے یہ چیز بھی بہت واضح اور روشن ہوئی کہ آپ س کی نظر میں مومنین کی اہمیت کس قدر زیادہ تھی کہ آپ ع خدا تعالیٰ سے دعا میں مومنین کو خود پہ مقدم رکھ رہی ہیں ۔یہ چیز جہاں آپ کی بلند پایہ سیرت و حسن کردار کو بیان کرتی ہے وہیں پہ مومنین کی اہمیت اور قدر ومنزلت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
اسلوب دعا
اس حدیث پر آپ غور فرمائیں کہ کیا اسلوب دعا اختیار کیا گیا ہے ؟ آپ دوسروں کے لیے دعا کیجیے آپ کی مشکلات خدا خود ہی حل کریگا۔حقیقی اسلوب دعا بھی یہی ہے کہ آپ اپنے مومن بھائیوں کے لیے دعا فرمائیے یا ان کو اپنی دعاؤں میں شامل رکھیے ،قرآن مجید کے اندر مختلف انبیاء کی دعاؤں کا ذکر ہے ۔ یا مومنین کو دعا کا سلیقہ بتایا گیا ہے اور بعض برگزیدہ ہستیوں کی دعاؤں کا بطور خاص ذکر ہے جن میں اکثر جمع کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں(14)جو کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اپنی دعاؤں میں مومنین کو بھی شامل رکھو اس کے علاوہ معصومین ع کے دعائیہ کلمات پر بھی غور کریں تو آپ ہمارے دعوی کی تائید فرمائینگے ۔بلکہ بعض دعاؤں میں تو صراحتا مومنین کے لیے ان کے مشکلات کے حل کے لیے ،ان کی پریشانیوں کی دوری کے لیے ،شر شیطان سے بچنے کے لیے دعا کی گئی پس اس حدیث مبارکہ میں بھی اسی اسلوب دعا کی طرف اشارہ ہے کہ اپنے ساتھ یا اپنے سے بھی زیادہ مومنین کے لیے دعا مانگو ۔اس کا خزانہ وسیع ہے وہ سب کو عطاء کرنے والا ہےبلکہ بعض اوقات انہی مومنین کے وسیلہ سے آپ کی نہ قبول ہونے والی دعائیں بھی قبول ہو جاتی ہیں۔
شب زندہ داری و حب الہی
امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا :” الجار ثم الدار” الخ یعنی یہ حدیث سیدہ عالمین ع کی عبادت و محبت الٰہی کو بیان کرتی ہے کہ آپ کس قدر شب زندہ دار تھیں کہ رات بھر عبادات میں گزراتیں اور رکوع و سجود کرتے کرتے صبح کا اجالا نمودار ہوجاتا ۔بعض دیگر احادیث میں ہے کہ خدایا ان راتوں کو اور لمبا کردے کہ زھراء مزید عبادت کر سکے۔
تربیت
امامؑ نے اپنی مادر گرامی کو دیکھا کہ وہ مصلی عبادت پہ ہیں اور ایسا دیکھا گیا ہے کہ بچے اپنے والدین سے سیکھتے ہیں یہ حدیث اپنے اندر ایک خوبصورت پیغام رکھتی ہے کہ آپ اتنی عبادت کریں کہ آپ کے بچے مصلی عبادت سے مانوس ہو جائیں ۔اور اس قدر رکوع و سجود کریں کہ آپ کے بچے آپ کی اس عادت کو ہمیشہ یاد رکھیں ۔ اور پھر بچوں کو دوسروں کا خیال رکھنا سکھائیں جیسا کہ امام حسن ؑکے پوچھنے پہ سیدہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا کہ خود پہ ہمسائیوں کو مقدم رکھیے ۔معلوم ہوا کہ اپنے بچوں کو ہمیشہ دوسروں سے پیار محبت ،ایثار و قربانی اور انفاق فی سبیل اللہ سکھائیں کیونکہ جو آپ بچوں کو سیکھائیں گے وہی وہ انجام دیں گے آپ بچوں کو حسن معاشرت کا درس دیں ۔یہ حدیث تربیت اولاد ،کی طرف بھی بہترین راہنما ہے اور بتاتی ہے کہ اپنی اولاد میں کس طرح آپ عبادت کا رجحان اور حسن معاشرت و ایثار وقربانی کا جذبہ پیدا کر سکتے ہیں کہ بچے آپ کے عمل سے سیکھتے ہیں اور آپ کے قول کو دلیل بناتے ہیں۔
اجتماعی پہلو
اخوت و بھائی چارہ
یہ حدیث بتاتی ہے کہ پہلے اپنے ہمسایے اور مومنین کے لیے دعا کریں اور دیگر احادیث بتاتی ہیں کہ چالیس گھروں تک آپ کی ہمسائیگی ہے پس ایسا تبھی ہو سکتا ہے جب آپ کے اندر اخوت و بھائی چارہ قائم ہو کیونکہ کبھی دشمن کے حق میں دعا نہیں کی جاتی۔ کینہ ،بغض و حسد آپ کو اپنے بھائی کے لئے خیر کی دعا سے روکتے ہیں پس جب آپ اس قابل ہو جائیں کہ تنہائی میں اپنے برادر ایمانی کے لیے دعا گو ہیں اور اس کی مشکلات کے لیے چارہ کر رہے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اپنے اندر موجود بغض و حسد یا کینہ جیسی بیماری کو جڑ سے اکھاڑ دیاہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب آپ اپنے مومن بھائی کو اللہ کی ذات کی خوشنودی کے لیے چاہیں گے ۔مصلی عبادت کی اس کے لیے دعا کرنا آپ کے اخلاص اور بھائی چارہ کی بین دلیل ہے۔
حالات سے آگاہی
جیسا کہ سطور بالا میں ذکر کیا کہ ہمسایہ کی حد چالیس (40) گھر ہیں جو ایک کثیر تعدادہے ۔آپ ان کے لیے دعا تبھی کر سکتے ہیں جب آپ کو ان کے حالات کا اجمالی یا تفصیلی علم ہوگا جیسا کہ حدیث الجار میں ہے کہ مؤمنین کا نام لیکر ان کے حق میں دعا فرمایا کرتی تھیں ۔۔جس کا مطلب ہے کہ سیدہ دو عالم نہ صرف مومنین کو جانتی تھیں بلکہ انکی ضروریات سے بھی آگاہ تھیں ۔ایک بہترین انسان وہ ہے جو نہ صرف اپنے بھائیوں کے نام اور پتہ جانتا ہو بلکہ ان کے حالات سے آگاہی بھی رکھتا ہو تاکہ وقت آنے پہ ان کی مدد کر سکے ۔حدیث میں ہے کہ وہ شخص مومن نہیں کہ جس نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے مومن بھائیوں کے حال سے آگاہ نہ ہو ۔اور ایک مشھور حدیث میں ہے کہ وہ شخص مومن نہیں کہ جوس سیراب ہو کر کھانا کھائے مگر اس کا ہمسایہ بھوکا سوئےپس معلوم ہوا کہ سیدہ دوعالم ہماری تربیت فرما رہی ہیں اور اس حدیث کے تعلیمی جنبہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیدہ دوعالم ؑسمجھا رہی ہیں کہ تمہیں اپنے مومن بھائیوں کے حالات سے ہر لمحہ آگاہ ہونا چاہیے ۔
حسد و کینہ کا علاج
عام طور پہ انسان کو حسد کسی کے پاس وسعت مال یا کثرت عطاء الہٰی دیکھ کر ہوتا ہے ۔یعنی یہ چیز اس کے پاس ہے میرے پاس کیوں نہیں تو اس بنا پہ انسان کسی کا دشمن و حاسد ہو جاتا ہے حتی کہ اگر اللہ بھی کسی کو کوئی چیز عطاء کرے تو لوگوں کی نظر میں وہ بھی محسود شمار ہوتی ہے۔ آیت قرآنی ہے
"ام يحسدون ” ۔۔(15) . لیکن جب آپ خود کسی کے لیے دعا کرینگے اور اس کے لیے وہ مانگیں گے جو آپ کی بھی ضرورت ہے مگر اسے مقدم کرینگے تو یہ چیز حسد و کینہ کو جڑ سے اکھاڑ دیگی کہ جو چیز موجب حسد و بغض بن سکتی ہے آپ اسی کی دعا خود کر رہے ہیں مگر بدون حسد ۔ظاہر ہے جب آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرینگے کہ میرے بھائی کو یہ چیز عطاء فرما تو مطلب یہ ہوا کہ آپ اپنے بھائی سے بغض و حسد نہیں بلکہ اس کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں ۔کہاں وہ اخلاقی پستی کہ کسی کے پاس عطاء الہٰی دیکھ کر حسد کرنا اور کہاں یہ بلندی کردار کہ کسی کے حق میں عطاء الہٰی کی دعا کرنا .حسن کردار اور اعلی اخلاق کی منزل طے کرنے کا بہترین طریقہ سیدہ دوعالم کے اس جملہ میں موجود ہے کہ پہلے ہمسایہ پھر اہل خانہ ۔
عزت نفس
اس دعائیہ جملے کے اندر موجود ایک اور راز کی طرف بھی متوجہ ہونا لازم ہے وہ یہ کہ کس قدر مومنین کی عزت نفس کا خیال رکھا گیا پروردگار سے دعا کی جا رہی ہے کہ ان مومنین کو خود عطاء فرما ، حالانکہ دعا اس طرح سے بھی ہو سکتی تھی کہ پروردگار عالم مجھے اتنا عطاء فرما کہ تیرے بندوں کی ضروریات پورا کرسکوں ، مگر سیدہ دو عالم کی دعا میں ایسا نہیں ہے بلکہ خدا سے دعا ہے کہ مومنین کو خود عطاء فرما اور اپنے لیے کچھ بھی نہیں مانگا کہ انہیں کسی کے دروازے پہ جانے کی ضرورت نہ پڑے ۔کسی کے سامنے دست سوال نہ پھیلائیں واقعا اتنا دقیق اور عمیق نکتہ کلام اہل بیت ع میں ہی پوشیدہ ہو سکتا ہے ۔
ہمسائیگی اور ہمارا رویہ
عام طور پہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنے ہمسائے کا خیال نہیں رکھتے نہ ہی اس کو اہمیت دیتے ہیں بلکہ آج کی اس مصروف زندگی میں تو کسی کو یہ تک خبر نہیں ہوتی کہ میرا ہمسایہ ہے کون ؟؟ جو کہ اخلاقی ،دینی اور معاشرتی حوالے سے بہت ہی افسوس کا مقام اور موجب حیرت چیز ہے ۔یہ چیز تہذیب معاشرہ کے خلاف تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کی ذاتی زندگی اور تربیت اولاد پہ بھی اثر انداز ہوتی ہے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ سیدہ طاہرہ بتول عذراء سلام اللہ علیہا کے اس کلام کو اپنا شعار اور رہنما اصول قرار دیں کہ ہم ہر چیز میں ہمسائے کو مقدم کرینگے ،اسکی بنیادی ضروریات کا خیال رکھیں گے ،اس کی ہر صورت مدد اور معاونت کرینگے ۔ہمسایہ کے مذہب و دین کے بارے اس سے پوچھا جائے گا مگر اس کےحقوق کے متعلق آپ سے پوچھا جائے گا لہذا ہمیں اپنے رویوں پہ نظر ثانی کرتے ہوئے الجار ثم الدار پہ عمل پیرا ہونا چاہیے جو کہ تہذیب و تمدن کی اعلی مثال اور اسلام کا ایک روشن چہرہ ہے۔
خلاصہ
1. حدیث الجار ثم الدار شیعہ و سنی بنیادی مصادر میں موجود ہے
2. یہ حدیث فنی اعتبار سے قابل قبول ہے۔
3. جناب سیدہ سلام اللہ علیہا ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم،اور حضرت لقمان حکیم کی طرف اسکی نسبت ہے۔
4. یہ انتہائی اہم انفرادی و اجتماعی تربیتی و اخلاقی مطالب پہ مشتمل ہے۔
5. دانشنامہ جہان اسلام، بنیاد دائرة المعارف اسلامی، برگرفته از مقاله «جار»، شماره۴۳۱۹. مشاور : موسسہ ذکر ان ویب سائٹ پہ اس حدیث پہ لکھے گئے مقالہ جات موجود ہیں ان کے علاؤہ ڈاکٹر مجید عارف اور ڈاکٹر مہین پناھیان بھی ہم سے پہلے اس پہ لکھ چکے ہیں۔
حوالہ جات:
1. العاملی ،محمد بن حسن م 1104ھ،الوسائل الشیعہ ،(دار احیاء التراث لبنا) جلد 4 ص 1151.حدیث نمبر 8
2. معزی اسماعیل الملایری (تحت اشراف سید حسین بروجردی رح ) جامع احادیث الشیعہ جلد 16 ص 103
3. الطبرانی ،سلیمان بن احمد م 360 ھ ،( دار النشر قاھرہ طبعہ الثانی ) معجم الکبیر جلد 4 ص 269 ح 4379 ، الھندی ،علاوالدین علی بن حسام م 975ھ ، ( طبعہ خامسہ موسسہ الرسالہ ) کنزالعمال جلد 15 ص 388 حدیث 41595 ،جلد 16؛ص 116 ح 44103
4. العاملی ،محمد بن حسن ،م 1104 ( دار احیاء التراث ) وسائل الشیعہ جلد 4 ص 1151 ح 8
5. ا فراھیدی ،خلیل بن احمد م 170 ھ ( مکتبہ الھلال) جلد 6 ص 176 ۔جوہری اسماعیل بن حماد م 393 ( دار العلم بیروت ) جلد 2 ص 617
6. صدوق ،محمد بن علی م 381 ھ ( دار المعرفہ بیروت ) معانی الاخبار ص 165
7. کلینی ،محمد بن یعقوب م 329 ھ (دار الکتب اسلامیہ تہران ) جلد 5 ص 32 ح 5 باب اعطاء الامان
8. الحرانی ،حسن بن علی م قرن چہارم ( دار الکتب اسلامیہ تہران) تحف العقول جلد 1 ص 225
9. کلینی ،محمد بن یعقوب م 329 ھ (دار الکتب اسلامیہ تہران)الکافی جلد 2 ص 66 باب حق الجوار حدیث 1
10. اصفہانی محمود موسوی ، مفتاح الکتب الاربعہ جلد 6 ص 134
11. نوری طبرسی ,حسین م 1320 ھ (موسسہ آل البیت احیاء التراث ) مستدرک الوسائل جلد 8 ص 422 .
12. کلینی ،محمد بن یعقوب م 329 ھ (دار الکتب اسلامیہ تہران )الکافی جلد 2 ص 667
13. کلینی ،محمد بن یعقوب م 329 ھ (دار الکتب اسلامیہ تہران )الکافی جلد 2 ص 666
14. القرآن 2/200,201,285,286.3/8,9,53,91
15. قرآن 4: 54

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button