سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

عظمت و سیرت فاطمہ زہراء علیھا السلام مفکرین عالم کی نگاہ میں

ڈاکٹر علی حسین عارف، مدرس جامعۃ الکوثر
چکیدہ
الٰہی شخصیات کسی کی تعریف اور مدح سرائی کی محتاج ہوتی ہیں، اور نہ کسی کی عظمت سرائی سے ان کے مقام ومنزلت میں کوئی اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی کسی باعظمت اور بافضیلت ہستی کی شان میں عقیدت کا اظہار کرتا ہے، تو جس طرح قطرہ سمندر سے جا ملنے کے نتیجے میں بقا ء پاتا ہے اسی طرح یہ عظمت سرائی اور عقیدت کا اظہار اس محب کی عظمت اور بقاء کا سبب بنتا ہے، انہی الٰہی شخصیات میں سے ایک بی بی کونین حضرت فاطمہ زہراؑ کی ذات ہے جن کی شان میں ایک طرف قرآن مدح سرا ئی کررہا ہے تو دوسری طرف نبی اکرم حضرت محمد ﷺ اور ائمہ طاہرینؑ کے دسیوں فرامین موجود ہیں۔ اسی طرح مفکرین عالم بھی مدح، عظمت اور سیرت سیدہ فاطمہ زہراؑ میں اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے نظر آتے ہیں۔ زیر نظر مقالہ میں جناب سیدہ ؑکی عظمت اور سیرت کے بارے میں مفکرین عالم کے تاثرات اور خیالات کو بقدرِ وسعت وامکان بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
کلیدی الفاظ: عظمت، سیرت، فاطمہ زہرا ؑ، مفکرین، عالم
مقدمہ
کچھ چیزیں ایسی ہیں جن سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے، انہی چیزوں میں سے کمال اور احسان بھی ہیں ۔ اور صاحب کمال اور محسن سے محبت ان کے کمال اور احسان کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ احسان، کبھی ذات ،فرد پر اور کبھی پورے معاشرے پر کیا جاتا ہے، معاشرہ پر احسان سے مراد سماجی، معاشرتی، سیاسی، علمی، اور دینی خدمات ہوتی ہیں، اور ان خدمات کی وجہ سے لوگ انہیں پسند کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اسی طرح اچھی صفات وکمالات کے حامل افراد بھی دو قسم کے ہوتے ہیں : کچھ قابل تعریف ہوتے ہیں لیکن انہیں زندگی کے لیے نمونہ عمل کے طور پر مانا نہیں جاتا، اور کچھ ایسے باکمال افراد ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے نمونہ عمل بن جاتے ہیں۔ اسی طرح نمونہ عمل افراد بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ، بعض افراد خاص زمان ومکان ، دین ومذہب اورقوم وملک تک محدود ہوتے ہیں اور بعض افراد کسی بھی محدودیت سے بالاتر ہوکر آفاقی اور عالمگیر ہوتے ہیں، اور انہیں نمونہ عمل اورمشعل راہ سمجھنے والے ہر قوم اور ملک میں ہوتے ہیں۔
انہیں آفاقی اور عالمگیرشخصیات میں سے ایک شخصیت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ہیں۔ آپ مناصبِ الٰہیہ میں سے نبوت، رسالت اور امامت پر فائز نہ تھیں لیکن تمام انسانوں کے لیے بالعموم اور عالمین کی تمام خواتین کے لیے بالخصوص نمونہ عمل تھیں۔ آپ سلام اللہ علیھا کی حیات مبارکہ اگرچہ مختصر تھی، لیکن اپنی ولادت سے لیکر شہادت تک کا ہر لمحہ قابل مطالعہ اور ہر قول وفعل باعث ہدایت ہے۔ آپ سلام اللہ علیھا کے بارے میں بہت سوں نے بہت کچھ لکھا، لیکن پھر بھی کچھ نہیں لکھا، آئندہ بھی بہت کچھ لکھا جائے گا لیکن کوئی یہ دعویٰ نہیں کرسکے گا، کہ اس نے سب کچھ لکھا ہے، مزید لکھنے کی گنجائش اور ضرورت نہیں ہے کیونکہ سیرت کے جتنے گوشے منکشف ہوئے ہیں یا منکشف ہوں گے وہ ان مخفی گوشوں کی نسبت بہت کم ہوں گے۔اور عظمت، وحقیقت زہراؑ محشر کے میدان ہی واضح ہوگی جب میدانِ محشر میں اولین اور آخرین سبھی جمع ہوں گے تو حکم الٰہی ہوگا ، ائے محشر والو! اپنی نظریں جھکاؤ کیوں فاطمہ بنت محمدﷺ میدان محشر سے گزر رہی ہیں ، وہاں پر رک کر آپ ؑ اپنا تعارف پیش کریں گی۔ زیرِ مطالعہ مقالہ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مفکرین عالمعظمت و سیرت سیدہ سلام اللہ علیھا کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
عظمت سیدہ ؑ مفکرین عالم کی نگاہ میں
جناب سیدہ کائناتؑ کی شان اور عظمت میں جہاں قرآن کی متعدد آیات موجود ہیں وہیں نبی رحمت للعالمین ﷺ ، اور ائمہ طاہرین سے دسیوں احادیث ملتی ہیں ۔ آپ ﷺ کبھی فرماتے ہیں فاطمہ میرےجگر کا ٹکڑا ہے (۱) کبھی فرماتے ہیں فاطمہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، کبھی کہتے ہیں فاطمہ میرا دل ہے، کبھی دل کا قرار(۲)، کبھی فرماتے فاطمہ اپنے باپ کی ماں، (۳)کبھی فرماتے ہیں، فاطمہ حورا انسیہ ہیں، کبھی فرماتے ہیں فاطمہ خواتین عالم کی سردار، اور کبھی فرماتے ہیں فاطمہ کی خوشنودی میری خوشنودی، اور فاطمہ کی ناراضگی میری ناراضگی، جس نے فاطمہ کو خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے فاطمہ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ ( ۴)
نبی اکرم حضرت محمد ﷺ بی بی کی شان یوں بیان فرماتے ہیں: يَا فَاطِمَةُ إِنَّ اللَّهَ يَغْضَبُ لِغَضَبِكِ، وَيَرْضَى لِرِضَاكِ۔
جناب سیدہ فاطمہ زہراؑ کی شان میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے ان سب کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے، صرف بعض شخصیات کے تاثرات کو بیان کریں گے:
امام خمینیؒ: حضرت فاطمہؑ کوئی معمولی خاتون نہ تھیں آپؑ ایک روحانی، اور ملکوتی خاتون تھیں جو ہر اعتبار سےانسان کامل تھیں ، تمام معنیٰ میں خاتون تھیں اور آپ میں وہ تمام صفات باتم موجود تھیں جو ایک نیک خاتون میں متصور ہیں، ۔۔۔ ، آپؑ اللہ کی غیبی مدد، اور نبی اکرم ﷺ کی تربیت سے کمال کے مراحل طے کرتے ہوئے ایسی منزل ِکمال پر پہنچی جہاں تک سوائے چند شخصیات کے کسی کی رسائی نہیں ہے (۵)
شہید مرتضٰی مطہری : اسلام کی تاریخ میں بہت سی مقدس اور برگزیدہ خواتین موجودہیں لیکن ایسے لوگ کم ہیں جو حضرت خدیجہ (س) کی برابری کرسکیں اورحضرت زہرا (س) کی عظمت اور برابری سوائے چند ذوات کے کوئی کر ہی نہیں سکتا۔ (۶)
حافظ ابو نعیم اصفہانی: اللہ تعالیٰ کی طرف سے چنی ہوئی متقی اور پرہیزگار ہستیوں میں جناب فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا ( جن کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے) کا نام لے سکتے ہیں ۔ آپ ایک پاکدامن خاتون تھیں،پیغمبر اکرم ﷺ کے وجود کاحصہ تھیں،پیغمبر اکرم ﷺکےقلب و روح سے سب سے قریب ترین اور پیغمبر کی وفات کے بعد ان سے ملنے والی پہلی شخصیت تھیں۔ آپ دنیا اور اس کی رنگینیوں سے دور تھیں ، اوردنیاکی بے ارزشی، برائیوں اور آفتوں سے مکمل آگاہی رکھتی تھیں۔(۷)
عبدالحمیدبن ابی الحدید: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم لوگوں کے وہم وخیال سے بڑھ کر جناب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عزت، تعظیم اور تکریم فرماتے تھے ، یہ عزت وتکریم کسی بھی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کی کیجانے والی عزت اور تکریم کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ آپ ﷺ اپنی اس بیٹی کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے: إنھا سیدۃُ نساء العالمین ، وانّھا عدیلۃ مریم بنت عمران، وانھا اذا مرّت فی الموقف نادی منادٍ من جھۃ العرش یا اَہل الموقف غضّوا اّبصارکم لتعبر فاطمۃ بنت محمد (۸)۔
سلیمان کتانی: فاطمہ زہرا ؑ کا مقام ومنزلت اس سے کہیں زیادہ بلند تر ہے، جس کی طرف تاریخی اور روایتی شواہد اشارہ کرتے ہیں ، ان کی عظمت اور مرتبہ کو بیان کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے، پس ان کے بارے میں اتنا کہنا مناسب ہوگا کہ وہ محمد مصطفیٰ ﷺ کی بیٹی، علی مرتضیٰ ؑ کی ہمسر، اور حسنؑ وحسین ؑ کی مادر اوردنیا کی ایک عظیم خاتون ہیں۔
دوسری جگہ لکھتے ہیں: ” بہادری کسی سپاہی کی طرح نہیں ہوتی جو طاقتور جسم وبازو رکھتی ہویا جس کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہو ، بلکہ بہادری ایک ایسی چیز ہے جو منطق، عقل ، اور رشد وفہم کو استعمال میں لاتی ہے ، پھر اہداف کو معین کرکے اسی کے مطابق لائحہ عمل اور منصوبہ بندی کرتی ہے ، فاطمہ زہراؑ کی بہادری یہ تھی کہ لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے آپ نے اپنے کمزور اور نحیف بازؤں ، اور ضعیف وناتواں بدن کو مؤثر انداز میں استعمال کیا۔(۹)
ماسینیوں فرنسی محقق: حضرت ابراہیمؑ نے جن بارہ انوار مقدسہ کے لیے دعائیں کیں وہ فاطمہ (س) کی نسل سے ہونے کی خبر دیتی ہیں۔ حضرت موسیٰ کی تورات احمد مرسل ، آپ کی مبارکہ بیٹیاور دو فرزندوں حسن اور حسین (مثل اسماعیل اور اسحاق) کی آمد کی خوشخبری دیتی ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی انجیل بھی احمد مصطفیٰ کی آمد کی نوید سناتی ہے، اور یہ بشارت بھی دیتی ہے کہ آپﷺ کو ایک بابرکت بیٹی عطا ہوگی جن سے دو بیٹے پیدا ہوں گے۔ (۱۰)
استاد عباس محمودعقاد: اگرعیسائیت میں مریم عذرا جیسی مقدس خاتون موجود ہیں ؛تو اسلام میں فاطمہ بتول جیسی پاکیزہ ہستی موجود ہیں ، ہر مذہب میں ایک کامل اور قابل قدرعورت موجود ہوتی ہےجسکی تعظیم کی خاطر اہل ایمان اس کے آگے جھک جاتےہیں۔۱۱)
توفیق ابوعالم: زہراؑ وہ خاتون ہیں جولاکھوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور ان کی زبان پر آپ کا اسم مبارک زدِ عام ہے ، آپ ایک ایسی خاتون ہیں جن کے باپ انہیں "اپنےباپ کی ماں” کہتے ہیں ۔فاطمہ زہراؑ اسلامی تاریخ کے بنیاد گزاروں اور تاریخ سازوں میں شمار ہوتی ہیں ۔ آپ کی گفتگو نہایت فصیح اور بلیغ، آپ کے مکارم اخلاق اعلیٰ وارفع، اور آپ کی بخششیں اور فیوضات ہر طرف بکھرے ہوئے تھے ۔ آپ خودپسندی، خودنمائی اور تکبر جیسی صفات سے پاک ومنزہ، نڈر، دلیر اور دیگر تمام تر اعلیٰ انسانی صفات کی حامل خاتون تھیں۔ آپ سچائی اور پاکدامنی کے بلندترین مرتبہ پر فائز تھیں۔ (۱۲)
علامہ شیخ صاوی شعلان: فاطمہ (س) دنیاکی تمام خواتین کے لیے ایک نمونہ عمل ہیں ۔
یہ ان سینکڑوں مفکرین میں سے بعض کا جناب سیدہ سلام اللہ علیھا سے عقیدت کا اظہار تھا، وگرنہ ذاتِ جناب سیدہ ؑ کے بارے میں عقیدت کا اظہار کرنے والے افراد تقریباً ہر مذہب اور ملت میں پائے جاتے ہیں۔
جناب سیدہ کونینؑ کی سیرت عملی
ذیل میں جناب سیدہ کونینؑ کی سیرت عملی کے چند اہم پہلؤوں کو بیان کیا جاتا ہے۔
۱۔ عالَمین کی سرداری کے لیے باعظمت نَسب کے ساتھ اعلیٰ کردار بھی ضروری
انسان کی شخصیت وعظمت میں دو چیزیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں ؛ نسب اور سبب۔ نسب کی وجہ سے جو عظمت ملتی ہے وہ اختیاری نہیں ہوتی ، لیکن اس کے برخلاف جو کمالات سبب کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں وہ انسان کے اختیار میں ہوتے ہیں ، جناب سیدہ کائناتؑ کی سیرت میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ آپؑ سرور ِدو جہاں، خاتم ِالانبیاء، اور نبی رحمت حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی لخت جگر، امام المتقین، امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی شریکۃ الحیات، اور سرداران جنت امام حسن مجتبیٰؑ اور امام حسینؑ کی مادر گرامی ہونے کے ساتھ اخلاق حسنہ، عبادت وپرہیزگاری، زہدوتقویٰ اور دیگر ذاتی کمالات میں عظیم صفات کی مالکہ تھیں ۔ اسی وجہ سے آپ نمونہ عمل تھیں ، صرف نسب کی وجہ سے کوئی بھی شخص نمونہ عمل نہیں بن سکتا، بلکہ نمونہ عمل بننے کے لیے ایسے اعمال بجالانا ضروری ہیں جو دستور وآئینِ الٰہی کے مطابق اور فطرت سلیمہ کے مخالف نہ ہوں۔ لہذا جناب سیدہؑ نے صرف نسبی عظمت پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ ایسا کردار اپنایا جس کی وجہ سے آپؑ تمام خواتین کے لیے نمونہ عمل بن گئیں ، جیسا کہMary F. Thurlkill اپنی کتاب Chosen Among Women: Mary and Fatima in Medieval Christianity and Shiete Islam میں لکھتی ہے:
Unlike Mary, Fatima provides a practical model for women to imitate, available for all wives and mothers instead of a Mo-nastic audience married only to a spiritual bridegroom. (۱۳)
تاریخ نسوان عالم کا مطالعہ اور مشاہدہ بتاتا ہے کہ نسب کی بنیاد پر شاہانِ وقت، حکمران اور دیگر امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والی خواتین عموماً ایسے کاموں کو انجام نہیں دیتیں جنہیں عام طور پر معاشرے کی باقی خواتین انجام دیتی ہیں ۔ لیکن کیا شان ہے خیرالنساء العالمین کی، کائنات کی سب سے زیادہ باشرف اور باعظمت خاتون ہونے کے باوجود کبھی بھی نسبی عظمت اور شرافت پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ہر نیک عمل کو بطریق احسن انجام دیا اور خواتینِ عالم کے لیے نمونہ عمل قرار پائیں۔ آپ کی سیرت ان تمام خواتینِ عالم کو دعوت فکر دیتی ہے جو دوسروں کے کمالات اور نسبی شرافت اور عظمت پر اکتفاء کرتے ہوئے نیک کاموں کی انجام دہی سے کتراتی ہیں بلکہ بعض خواتین اسی عظمت سے سوء استفادہ کرتے ہوئے ہر بُرے کام کو بغیر کسی شرم وحیاء کے فاخرانہ انداز میں انجام دیتی ہیں۔
۲۔ صبر واستقامت بامقصد اور کامیاب زندگی کی ضرورت
انسانی زندگی غم وخوشیوں کا مجموعہ ہے، کبھی غم کو خوشی پر اور کبھی خوشی کو غم پر غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ یوں یہ غم اور خوشی کا معرکہ پوری زندگی جاری رہتا ہے۔ یہ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ بہت سارے بہادر، نڈر، بے باک اور صاحبان عزت و اقتدار جب زندگی کے نامساعد ، تکلیف دہ اور پریشان کن حالات کی زد میں آتے ہیں، تو ہوش وحواس کھو بیٹھتے ہیں اور نامعقول اور غیر سنجیدہ حرکتیں انجام دیتے ہیں جن سے ان کی ساری عظمتوں پر پانی پھیر جاتا ہے۔ لیکن جناب فاطمہ زہراؑ کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپؑ نے ولادت سے شہادت تک طرح طرح کی ناقابل تحمل مشکلات دیکھیں اور برداشت کئیں۔ آپ نے کبھی اپنے والد بزرگوار نبی رحمت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو کفارِ قریش کی طرف سے طعنے، اور اذیتیں دیتے ہوئے دیکھا، اور کبھی طائف کی گلیوں میں پتھر وں سے زخمی ہوتے ہوئے مشاہدہ فرمایا، اور کبھی جنگوں میں دندان مبارک کو شہید ہوتے ہوئے دیکھا، لیکن ان تمام مشکلات میں آپؑ حوصلے نہیں ہارے، بلکہ شفیق ماں کی طرح نبی رحمت کو دلاسہ دیتی رہیں اور آپ کی ان محبتوں کو دیکھ کر رحمت للعالمین ﷺ نے ام ابیھا کا لقب عطا فرمایا۔ مصائب اور مشکلات کا یہ سلسلہ رحمت للعالمینﷺ کی رحلت کے بعد مزید بڑھتا گیا، اور آپ ؑ نے اپنے آپ کو میراث سے محروم، اور اپنے شوہر نامدار حضرت علیؑ کو خلافت سے محروم ہوتے ہوئے دیکھا۔ حتی کہ آپؑ کو اتنی اذیتیں دی گئیں اور آپؑ کو کہنا پڑا:
یا ما ذا علی من شمّ تُربۃ احمد اَ ن لا یشمّ مدی الزمان غوالیا
ٍ صبّت علیَّ مصائِبُ لو انّھا صبّت علی الایام صرن لیَالیا(۱۴)
لیکن ان تمام مشکلات میں آپؑ نے کبھی بارگاہ رب العزت میں شکوہ وشکایت نہیں فرمائی، بلکہ صبر واستقامت کا مظاہر کیا۔ آپؑ کے اسی صبر واستقامت کو دیکھتے ہوئے، کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر کرسٹوفر کلوسی آپ کی شان اور عظمت کو ایران کے عظیم مفکر ڈاکٹر شریعتی کے ان الفاظ کے ذریعے بیان کرتے ہیں "فاطمہ زہرا انصاف کے متلاشیوں، جبر واستبداد، ظلم وبربریت، اور امتیاز ات کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کو حوصلہ دیتی ہیں۔ فاطمہ وہ خاتون ہیں اسلام چاہتا ہے کہ ہر عورت آپ کی طرح بنے۔”
وہ مزید کہتے ہیں یہ فاطمہ زہراؑ کی انسانیت اور جرات تھی جس کی وجہ سے آپ نے تمام اخلاق سے عاری مذہبی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی حصاروں اور حدود کو توڑدیا۔ اورآپ جرات وسچائی میں نہ صرف مسلمانوں اور عورتوں کے لیے، بلکہ تمام انسانوں کے لیے نمونہ عمل ہیں”۔ (۱۵)
فاطمہ اناستازیا یژووا (Fatima Anastasia Ezhova) کہتی ہیں کہ جنابحضرت زہراؑ کی سیرت بتاتی ہے عورت کا ایک ماں، اور زوجہ ہونا، ظلم وناانصافی کے خلاف لڑنے اور معاشرے میں عدل وانصاف کے قیام کے لیے کردار ادا کرنے سے متصادم نہیں ہے۔آج اسلام لانے والے بہت سارے نئے مسلمان، خواتین کی حقیقی شناخت جناب فاطمہ زہراؑ کی باعظمت اور منفرد شخصیت میں تلاش کرتے ہیں اور وہ آپ ؑ کی سیرت کو پڑھ کر ایمان و یقین کی محبت سے سرشار ہوکر آپؑ کو اپنی زندگی کے لیے نمونہ عمل قرار دیتے ہیں۔(۱۶)
ایک میکسکن خاتون سوخی اینوخوسا کلین کہتی ہیں، "حضرت زہرا ؑ کی زندگی کا ہر لمحہ میرے لیے منفرد نمونہ عمل ہے۔ وہ ایک پاک دامن ، بہادر، اور صاحب بصیرت خاتون تھیں ، آپ ایک اچھی زوجہ ، ایک مہربان ماں اور ایک منفرد بیٹی تھیں۔وہ مزید کہتی ہے میں نے جو کچھ بھی حضرت زہرا ؑ کے متعلق پڑھا اور سنا ، وہ بہت دلچسپ ہے اور یہ ساری چیزیں سبب بنیں کہ میں آپ کو اپنا نمونہ عمل قرار دیدوں ۔ میرے لیے آپ کی شجاعت اور حوصلے ہمیشہ قابل تعریف ہیں، اگر کسی دن میں انہیں خواب میں دیکھوں تو کہوں گی کہ میں ان سے کتنی محبت کرتی ہوں اور وہ میرے لیے کتنی قابل احترام اور مثالی خاتون ہیں۔ اے بی بی! میری زندگی کی تمام مشکلات اور مسائل، آپ کی مشکلات اور پریشانیوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں ، آپ نے ہمیشہ مشکلات کا مقابلہ کمالِ صبر ، استقامت اور شعور سے کیا۔(۱۷) جناب سیدہ سلام علیھا نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی صبر کے دامن کو تھامے رکھا اور حضرت نبی اکرم ﷺ کی سیرت پر چلتے ہوئے دین مقدس اسلام کی ترویج اور بقاء کے لیے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔
۳۔ عدل وانصاف اور مساوات باعظمت شخصیات اور ذوات کا طرّہ امتیاز
خواتین اور غلاموں کو تاریخ میں جس ناروا برتاؤ اور سلوک کا سامنا کرنا پڑا، وہ قابل بیان نہیں ہے۔ ان سے ہر وہ کام لیا جاتا تھا جو حیوانوں سے بھی نہیں لیئے جاسکتے۔ یہ انسانیت سوز مظالم کسی خاص زمان ومکان تک محدود نہ ہیں بلکہ طول ِ تاریخ پر محیط ہیں۔ لیکن جب طلوع ِاسلام ہوا تو غلاموں اور کنیزوں کو نہ صرف انسانوں میں شامل کیا گیا بلکہ ان کے حقوق مقرر کر دئیے گئے ۔ ان کے ساتھ نیکی کرنے، اور ان کو آزاد کرنے کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا برتاوٴ کرتے ہیں ، اورمیں اپنی خواتین کے ساتھ بہترین برتاوٴ کرنے والا ہوں (۱۸)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صنف نازک کو مارنے پیٹنے یااس کو کسی بھی قسم کی تکلیف دینے سے سختی سے منع فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو اس طرح نہ پیٹنے لگے جس طرح غلام کو پیٹا جاتا ہے اور پھر دوسرے دن جنسی میلان کی تکمیل کے لیے اس کے پاس پہنچ جائے(۱۹)
ایک اور روایت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور بہترین برتاوٴ کو کمالِ ایمان کی شرط قرار دیا ہے ، حضرتِ عائشہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں میں اس آدمی کا ایمان زیادہ کامل ہے جس کا اخلاقی برتاوٴ بیوی کے ساتھ لطف ومحبت کا ہو۔ (۲۰)
اسلام میں کنیزوں کا مقام ومنزلت سمجھنے کے لیےحضرت زہراؑ کی کنیز جناب فضہ ؓ کی زندگی کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ جناب فضہ اہلِ بیت اطہارؑ کی بارگاہ میں ایک خادمہ کی حیثیت سے داخل ہوئیں لیکن بہت جلدایک شہزادی کامقام حاصل کیا۔ خاتون جنت سلام اللہ علیھا عدل وانصاف کی پیکر تھیں ، آپؑ شہزادی تھیں لیکن گھر کے امورایک دن آپ سلام اللہ علیہااور ایک دن حضرت فضہ رضی اللہ تعالی عنہا انجام دیا کرتی تھیں۔ایک دن خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور دیکھا کہ آپ سلام اللہ علیھا بچے کو گود میں لیے چکی پیس رہی ہیں ، خاتم النبیینﷺ نے فرمایا کہ ایک کام فضہ کے حوالے کر دو،سیدہ پاک سلام اللہ علیہا نے جواب دیا کہ بابا جان آج فضہ کی باری کا دن نہیں ہے۔(۲۱)
اسی سیرت کو اپنانے کی آج بھی معاشرہ میں اشد ضرورت ہے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں سیرت ِسیدہؑ کے برعکس آج بھی غلامی کی وہی سوچ ایک نئے انداز میں موجود ہے، خواتین اور پسے طبقے کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جاتا ہے جو قرونِ سابق میں غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ آج بھی انسانوں کی قدر وقیمت اس کے معاشرتی مقام ومنزلت کے حساب سے لگائی جاتی ہے۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ وہی استحصالی رویے اپنائے جاتے ہیں جن کی مذمت دین اسلام کرتا ہے۔
ان تمام گفتگووں سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے، خاتون کو عظمت وشرافت، مقام ومنزلت، اور رفعت وبلندی صرف کام لینے سے نہیں ملتی، بلکہ خود کام کرنا بھی ضروری ہے۔ اور سیدہ کونینؑ کی سیرت بتاتی ہے آزاد خواتین کو کنیز بنانا اور ان کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھانا دنیا کی بے شرف اور خود ساختہ عظمتوں والی خواتین کی سیرت ہے، لیکن کنیزوں کو شہزادی کا مقام دے کر ان کا احترام کرنا، اور ان سے برابری کا سلوک کرنا عالمین کی سردار خاتون کی سیرت ہے۔
۴۔ سادگی اور قناعت پسندی باشرف خواتین کی علامت
معاصر دنیا کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ رنگینیوں سے پُر بے مقصد اور بے ہدف زندگی ہے، جس کی دوڑ میں آنکھیں بند کرکے سبھی رواں دواں ہیں ، جہاں ایک طرف امراء اور صاحبان اقتدار گھرانوں کی خواتین مال ودولت بے مقصد،بےتحاشا اور بے دریغ استعمال کرتی نظر آتی ہیں ، تو دوسری طرف بنیادی ضرور یات اور سہولیات سے محروم گھرانوں کی خواتین جو سادگی اور قناعت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کی بجائے صبح وشام حسرت بھری نگاہوں سے اپنی قسمت کا رونا روتی نظر آتی ہیں۔ ایسی حالت میں اگر فاطمہ زہراؑ کی ذات گرامی کی تعلیمات اور سیرت کو معاشرے میں عام کیا جائے تو اس کے نتیجے میں ایک طرف فضول خرچی اور دولت کے ضیاع سے معاشرے کو بچایا جاسکتا ہے تو دوسری طرف غربت کے مارے ہوئے سفید پوش گھرانوں کی خواتین سُکھ کا سانس لے سکتی ہیں۔ آپؑ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ خاندانی اعتبار سے ہی باشرف تھیں اتنی ہی عملی زندگی میں سادگی پسند تھیں۔ جیسا کہ روایت کی جاتی ہے کہ آپؑ نے مشکل سے مشکل حالات میں بھی حضرت علیؑ سے اپنی ذات کے لیے کسی چیز کا تقاضا نہیں کیا۔ آپؑ کے گھر ملائکہ کی آمد ورفت ہوا کرتی تھی، نبی اکرمﷺ گھر کی دہلیز پر تشریف لاکر سلام کیا کرتے تھے،لیکن گھر کا کل اثاثہ چند بنیادی چیزوں پر مشتمل تھا۔آپؑ مادی وسائل کو شخصیت کا حصہ نہیں سمجھتی تھیں بلکہ مادی وسائل سے بقدرِ ضرورت استفادہ کی قائل تھیں اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جن خواتین کو دولتِ دنیا ء کی وجہ سے عزت وشہرت ملی ، وہ دولت کے ساتھ ہی ختم ہوگئیں اور ڈھونڈنے سے بھی تاریخ میں نہیں ملتیں ، لیکن جنہوں نے بلند کردار، قناعت، سادگی، اور سخاوت جیسی صفات کو اپنایا وہ آج بھی لوگوں کے دلوں پر راج کررہی ہیں، اور قیامت تک آنے والی خواتین کے لیے نمونہ زندگی بن گئیں۔
شاعر مشرق علامہ اقبال اس عظیم خاتون کی قناعت پسندی اور ان کے شوہر نامدار کے بارے میں کہتے ہیں:
پادشاہ وکلبہ ایوان او یک حسام ویک زرہ سامان او
یہ مکرمہ ایک ایسی شخصیت کی زوجہ ہیں جو بادشاہ ہیں لیکن اس کا ایوانِ بادشاہت اور قصر بادشاہی ایک جھونپڑا ہے، اس کا کل سرمایہ ایک زرہ، اور ایک تلوار ہے(۲۲)
۵۔ پردہ کرنا عظمت و بلندی، اور رضاءِ الٰہی کے حصول کا ذریعہ
عورت پردہ کو کہا جاتا ہے، اور پردہ کے بغیر عورت سب کچھ بن سکتی ہے لیکن عورت نہیں رہ سکتی۔ پردہ کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر تمام مہذب معاشروں میں عورتوں سے یہ تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی عفت، پاکدامنی، اور حجاب کا خیال رکھیں۔ یہی ان کی اور خاندان کی عظمت، شرافت، اور عزت سمجھی جاتی ہے۔ اسلام ادیانِ الٰہیہ میں سے آخری دین ہونے کے ناطےانسانیت کے شرف کے لیے ضروری تمام معیارات اور اصولوں کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے، انہی اصولوں میں سے ایک خواتین کے لیے پردے کا حکم ہے، عورتوں کا پردہ کرنا جہاں اپنی عفت اور حفاظت کی ضمانت ہے وہاں معاشرتی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے۔ لیکن پردہ کے بارے میں جو تصور ہے وہ یہ ہے کہ پردہ ان لوگوں سے کرنا واجب ہے جو نامحرم ہوں، اور جن میں قوت بصارت موجود ہو۔ اگر سامنے کوئی مرد ہو لیکن بینائی سے محروم ہو اس سے پردہ کرنا واجب نہیں ہے۔
لیکن اسلام کی با عظمت خاتون کی سیرت یہ تھی کہ آپ ان لوگوں سے بھی پردہ کرتی ہیں، جو بینائی سے محروم تھے۔ جیسا کہ روایت کی جاتی ہے ایک مرتبہ رسول اکرمﷺ کسی نابینا صحابی کے ساتھ جناب سیدہؑ کے گھر تشریف لائے اور آپؑ نے اس سے بھی پردہ فرمایا ، تو جناب رسالتمآب ﷺ نے فرمایا، بیٹی یہ صحابی نابینا ہے تو آپؑ نے ارشاد فرمایا، بابا ! میں تو بینائی رکھتی ہوں۔ اسی طرح ایک اور واقعہ بھی ملتا ہے ، کہ جب ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے اصحاب سے پوچھا : عورت کی سب سے بہترین صفت کیا ہے؟ تو اصحاب نے مختلف جوابات دیئے، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، باتیں سب کی ٹھیک ہیں لیکن اصل جواب یہ نہیں ہے۔ تو فاطمہ زہراؑ سے پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: سب سے بہترین عورت وہ ہے جو نہ کسی مرد کو دیکھے اور نہ کوئی مرد اس کو دیکھے۔ آپ ؑ پردہ کو نہایت پسند فرماتی تھیں، حتیٰ کہ بعد از وفات بھی ، جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ عربوں میں میت اٹھانے کے لیے جو طریقہ موجود تھا آپ اس پر راضی نہ تھیں، جب آپؑ نے اپنی پریشانی جناب فضہ کے سامنے پیش کی، تو جناب فضہ نے حبشہ میں بنائے جانے والے تابوت کے بارے میں بتایا جو جنازہ کو قبر تک لے جانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تو بیحد خوش ہوئیں۔ آپؑ کی یہ پردہ داری اللہ کو اتنی پسند آگئی کہ روز محشر جب آپؑ میدان محشر میں وارد ہوں گی تو اللہ تعالیٰ تمام اہل محشر کو نگاہیں جھکانے کا حکم دے گا ۔(۲۳)
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ پردہ کے لیے سامنے والا مرد بینا ہونا ضروری نہیں ہے،اسی طرح باعفت خاتون اپنی موت کے بعد بھی اپنے سراپے پر نامحرموں کی نظر پڑنے کو بھی پسند نہیں کرتی۔ لیکن آج کا یہ معاشرہ پردہ داری کو دقیانوسی نظریہ خیال کرتا ہے، اور بے پردگی کو جدت پسندی، جس کے نتیجہ میں معاشرتی ، اور خاندانی شیرازے بکھر رہے ہیں۔ آج کے نام نہاد آزاد خیال مرد اور عورت کے لیے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے فاطمہ زہراؑ جیسی جنتی عورتوں کی سردار، سرور دو جہاں ﷺ کی شہزادی، حضرت علی مرتضیٰؑ کی زوجہ، اور جناب حسنین کریمینؑ کی مادر گرامی اپنی زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی پردہ کا اہتمام کررہی ہیں تو عام خواتین کا پردہ کرنے سے یہ کہہ انکار کرنا کہ پردہ دل میں ہونا چاہیے سراسر جہالت، ضلالت اورضعف ِایمان بلکہ عدم ایمان کی دلیل ہے۔
مسیحی مفکر سلیمان کتانی حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعدکہتے ہیں : کہ عالمین کی خواتین کی سردار وہ باعظمت خاتون ہیں، جو حسِ لطافت، پاک معدن، سخاوت اور نورانیت سے سرشار اور عقلِ کامل کی مالکہ ہیں۔ مناسب یہی ہے کہ ایسی شخصیت کے بارے میں کتاب لکھی جائےاور اِن سے نمونے اخذ کیے جائیں۔ یوں عربوں کو مالی مشکلات اورمعاشرتی مشکلات حل کرنے کے ساتھ خانوادگی نظام کو بہتر اور بافضیلت بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی کھوئی ہوئی تاریخی عظمت کو حاصل کرسکیں، اور اسے نسل نو تک منتقل کرسکیں، اگر وہواقعاً ایسا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ فاطمہ زہراؑ کی سیرت کو اپنائیں تاکہ وہ اپنے تمام اجتماعی مسائل کا حل نکال سکیں۔(۲۴)یوں یہ مفکر بھی عربوں کی اہم مشکلات میں سے ایک مشکل کا سبب خانوادگی نظام ہی کو سمجھتے ہیں اور سیرتِ فاطمہ زہراؑ سے استفادہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
۶۔ غریب سے اس کی شناخت اور مذہب پوچھا نہیں جاتا
طبقاتی نظام اور وسائل کی غیر منصفانہ وغیر عادلانہ تقسیم کی وجہ سے معاشرے میں دو قسم کے طبقات وجود میں آئے ، ایک طبقہ امیر اور مراعات یافتہ لوگوں کا اور دوسرا غریب اور محروم لوگوں کا۔ اور ہر دور میں غربت کے خاتمہ کے نام پر غریبوں کا استحصال کیا جاتا رہا ، اور تھوڑی سی مدد کے نام پر عزت نفس کی نیلامی کی جاتی رہی اور انسانیت سے عاری یہ مددگار افراد کبھی ضمیر کے خریدار ہوئے تو کبھی عدل وانصاف کے دعویٰ دار۔
اس حقیقت کو غریبوں کے نام پر بننے والی بہت سی سماجی، فلاحی، اور سیاسی تنظیموں کی کارکردگی کے مطالعہ سے بخوبی ادراک کیا جاسکتا ہے جو ایک طرف بلا تفریق ِرنگ ونسل، مذہب وملت، اور قوم وملک غریبوں کی مدد اور خدمت کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں تو دوسری طرف ان دعؤوں اور نعروں کی آڑ میں اپنے ہی رشتہ داروں، ہم وطن ، اور قوم و نسل کے افراد کو نوازنے میں مصروف عمل نظر آتی ہیں۔ لیکن جناب فاطمہ زہراؑ کی سیرت بتاتی ہے کہ آپؑ نے کبھی بھی در پر آنے والے غرباء اور مساکین اور مانگنے والوں سے ان کا نام پوچھا اور نا ہی ان کا مذہب وقوم۔ آپؑ مانگنے والوں کو کبھی اپنا طعام، کبھی لباس، اور کبھی گلوبند، المختصر اپنے پاس جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ راہ خدا میں دے دیتی ہیں ۔ یوں آپؑ کی سیرت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ غریب کی مدد سے پہلے اس سے مذہب پوچھا نہیں جاتا ۔ آپؑ کی اسی عظمت اور بزرگی سے متاثر ہوکر فرانس کے مسیحی مفکر جناب کربن کہتے ہیں: فاطمہ زہراؑ امام اول کی زوجہ، دو اماموں کی مادر گرامی، واسطہ فضل و فیض الٰہی ہیں ، آپ اللہ تعالیٰ کے کمال معرفت کا ذریعہ ہیں ، اور آپ تمام خواتین عالم کے لیے نمونہ عمل ہیں۔ جناب سیدہ کونینؑ کی غریب پروری کو دیکھ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کہتے ہیں:
بہر محتاجی دلش آن گونہ سوخت بہ یہودی چادرِ خود را فروخت(۲۵)
رحمت للعالمین ﷺ کی یہ مہربان اور شفیق بیٹی جب کسی انسان کو تکلیف میں دیکھتی تھیں تو بے قرار ہوجاتیں ہیں ، جب کوئی مانگنے کے لیے گھر پر آتا ہے تو ایک سوال کے بدلے میں متعدد سوالات کرنے کی بجائے اپنے پاس جو کچھ بھی ہوتا تھا تو دیدیتی تھیں۔ یہاں تک کہ آپؑ خود بھوکی رہتیں، اور حسنینؑ بھوکے رہتے ، لیکن سائل کو محروم جانے نہ دیتیں۔ اس سے بڑھ کر انسان کو بالعموم مسلمانوں کو بالخصوص اور کیا مثال چاہیے، کہ عالمین کی سردار یہ معظمہ لباسِ عروسی تک مانگنے والی کو دے دیتی ہیں اور خود وہی بوسیدہ لباس زیب تن کرتی ہیں۔جناب سیدہ فاطمہ زہراؑ کے بارے میں ہندوستان کی ایک مسیحی محقق D.Disvza لکھتی ہیں: اگر ہم نے معاشرہ میں ایک طاقتور اور قدرت مند بن کر رہنا ہے تو ہمیں جناب مادرِ عیسیٰ حضرت مریمؑ اور فاطمہ زہراؑ سے شہامت لینی ہوگی، ان کی سیرت اپنانا ہوگی، اور آگے آنے والی نسلوں تک یہ سیرت منتقل کرنا ہوگی ۔ ہم صرف اسی صورت میں طاقتور بن کر رہ سکتے ہیں اگر ہم اپنی ماؤں کا احترام کریں۔
۷۔ خوشیاں ذمہ داری کے نبھانے اور تقسیمِ امور میں مضمر
خاندان اور معاشرہ میں تیزی سے مفقود ہونے والی چیزوں میں سے ایک اہم شے خوشی اور سکون ہے جو یا تو تاریخی کتب میں نظر آتی ہے یا ناول اور ڈراموں میں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے آج ہر شخص مساوات اور انصاف جیسے مقدس نعروں کی آڑ میں ہر کام اور بات کرنے کو اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے، جبکہ ذمہ داری کا تعین،ان کو نبھانے اور غلطیوں کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی تیار نظر نہیں آتا،جس کی وجہ سے اصلاح ممکن نہیں ہوتی ، اور الزام تراشیوں کا نا ختم ہونے والا ایک سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جبکہ خوشیوں بھری زندگی کے لیے نظام ِخانوادگی ہونا ضروری ہے اور اس کا اہم رکن امورِ خانوادگی کی تقسیم ہے۔ جناب فاطمہ زہراؑ کی حیات مبارکہ میں یہ صفت نمایاں نظر آتی ہے۔ جیساکہ روایت کی جاتی ہے جب آپؑ کی مولیٰ علیؑ سے شادی ہوئی تو نبی رحمتﷺ علی مرتضیٰ علیہ السلام کے گھر تشریف لاتے ہیں اور خوشیاں، اور محبت بھری زندگی کا ایک اہم راہنما اصول دے جاتے ہیں ، جو جو کہ گھریلو امور کی تقسیم ہے۔
جناب رسالتمآب ﷺ نے گھر کے اندر کے امور کی انجام دہی جناب سیدہ ؑ کے ذمے لگائی اور گھر سے باہر کے کاموں کی ذمہ داری جناب امیر المؤمنینؑ کے ذمے لگائی ۔ جناب سیدہ ؑ اس تقسیم پر بے حد خوش ہوئیں اور پوری زندگی اسی پر عمل پیرا رہیں ۔ آپؑ کی اسی عظمت اور شخصیت کو بیان کرتے ہوئے لبنان کے مسیحی شاعر، ادیب اور دانشور سلیمان کتانی لکھتے ہیں : فاطمہ! اے دخترِ مصطفیٰ ! تو نے ہمیشہ محبت بھری زندگی گزاری، تو نے پاکیزگی ، عفت اور پاکدامنی کی زندگی گزاری، ۔۔۔ اے نبی کی بیٹی! اے علی کی زوجہ ! اےحسن وحسین کی ماں اور اے خواتین عالم کی عظیم خاتون۔ (۲۶)
فاطمہ اناستازیا یژووا ایک نو مسلم روسی خاتون دانشور ہیں۔ وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر کی نمایاں خصوصیات کو یوں بیان کرتی ہیں: ’’حضرت زہرا (س) تمام عالمین کی خواتین کے لیے ہر دور اور زمانے میں نمونہ عمل تھیں یہ خاتون مزید کہتی ہیں حضرت زہرا (س) امورِ خانہ داری میں مرکزی کردار کی مالک تھیں ، گھریلو امور کی انجام دہی اگرچہ شرعی اعتبار سے خاتون خانہ پر واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے ، لیکن جب کوئی خاتون خانہ اپنے ہاتھوں سے خوش ذائقہ کھانا پکاتی ہے، اور گھر کے اندر احساس سے بھرا ماحول پیدا کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں گھر میں استحکام پیدا ہوتا ہے، یہی چیز جناب فاطمہ زہرا ؑ کی زندگی میں نمایاں نظر آتی ہے۔ جناب زہرا (س) اور امام علی (ع) کا خاندان عشق ومحبت ، عزت واحترام ، اور افہام وتفھیم کے اعتبار سے تمام دنیا کی زوجین کے لیے حقیقی اور واقعی نمونہ عمل تھا۔ اگر آج کے اس پر فتن دور میں سیرت نبی اکرمﷺ پر چلتے ہوئے والدین امورِ خانوادگی اور ذمہ داریوں کی تقسیم میں بچوں کی مدد اور ان کو اس کا پابند بنائیں ، اور بچے سیرت فاطمہ زہراؑ اور امیرالمؤمنین ؑ پر چلتے ہوئے عملی زندگی کا آغاز کریں تو ایک خوشیوں بھری زندگی میسر آسکتی ہے۔
۸۔ شریک الحیات کی خدمت گزاری اور حوصلہ افزائی نہ کہ برابری
میاں اور بیوی خاندان کی تشکیل اور کامیابی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ، اور کسی بھی شخصیت کی کامیابی کا آغاز اس کے اپنے ہی گھر سے ہوتا ہے، اس قانون سے شاید کوئی مستثنیٰ نہ ہو۔ تاریخ کی عظیم سے عظیم شخصیات چاہے وہ الٰہی ہوں یا غیر الٰہی ، ان کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے ، ان کی کامیابی اپنی ذات سے شروع ہوئی اور اس کے مختلف مراحل سے ہوتے ہوئے وہ اقوام عالم کے کامیاب ترین افراد قرار پائے۔ انہی الٰہی شخصیات میں سے ایک اہم شخصیت حضرت علی ؑ کی ذات گرامی ہے ، آپ ؑ کی شخصیت کی تعمیر اور کامیابی میں جہاں رسالتمآب ﷺ نے بہت اہم کردار ادا کیا وہاں حضرت فاطمہ زہراؑ کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے۔ مولیٰ مؤحدین میدان جہاد میں جتنی استقامت کے مالک تھے ، اس استقامت کی ایک اہم وجہ گھر میں جناب سیدہ ؑ کی پشت پناہی ، حوصلہ افزائی، اور بے پناہ محبت تھی۔ اور دوسری اہم وجہ جوا ٓپ کی کامیابی میں مؤثر تھی وہ آپؑ کی فکر داخلی امور میں مکمل آزاد تھی اور آپؑ کو جناب سیدہ ؑ کی طرف سے نہ صرف کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہ تھی بلکہ مکمل تعاون تھا(۲۷) ۔ اور یہ کہا جاتا ہے کہ مرد جتنا بھی قوی کیوں نہ ہو جب گھر کے محاز پر اس کی شریک الحیات اس کی ہم خیال، ہم فکر، اور ہم مشرب نہ ہو، وہ اپنے مقاصد میں بتمامہ وبکمالہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے افراد اور شخصیات فاتحِ عالم ہونے کے باوجود خاندانی اور گھریلو زندگی میں مطلوب تعاون اور حوصلہ افزائی نہ ملنے کی وجہ بلاآخر ناکام رہتے ہیں یا کم از کم انہیں وہ کامیابیاں نہیں ملتی ہیں جن کی انہیںطلب ہوتی ہیں۔
عظیم اسلامی سکالر الخوارزمی (المتوفیٰ:۵۶۸) جناب سیدہ کونینؑ کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ مولیٰ علیؑ جب بھی میدان جہاد سے فتح اور کامرانی کے ساتھ گھر آتے تھے، جناب فاطمہ زہراؑ آپ کو آفرین کہتیں ، اور حوصلہ افزائی فرماکر مزید جہاد کا شوق دلاتی تھیں اور اپنی بے پناہ محبت سے حضرت علیؑ کو سکون مہیا کرتی تھیں۔ آپ ؑ کی بہادری، جانثاری، اور فداکاری کی تعریف کرتی تھیں، جن سے مولیٰ علیؑ کی تھکاوٹ دور ہوجاتی تھی اور وہ شیر جری بن کر ،قوت اور طاقت کے ساتھ اگلی جنگ کے لیے آمادہ ہوتے تھے۔ جناب سیدہؑ کی اس سیرت کو امیر کائناتؑ کے کلمات سے بخوبی سمجھ سکتے ہیں، جیسا کہ مولیٰ علیؑ فرماتے ہیں: جب میں گھر واپس آتا اور جناب زہرا ؑ کو دیکھتا تھا تو میرے تمام غمِ واندوہ ختم ہوجایا کرتے تھے (۲۸) فاطمہ زہراؑ کی سیرت بتاتی ہے کہ آپ ؑ حضرت علیؑ کی خدمت اور حوصلہ افزائی فرماتی تھیں ۔ حضرت فاطمہ زہراؑ کے اس تعاون اور محبت کو مولیٰ علیؑ کے آپؑ کی شہادت کے بعد پڑھے جانے والے اشعار میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ آپؑ سے منسوب اشعار سے ظاہر ہے:
لكلِّ اجـــتماعٍ مــن خـــليلين فرقـــةٌ وكـــلُّ الـــذي دونَ الـــفـــراقِ قليلٌ
وإن افـــتقـــادي فـــاطماً بـــعد أحـمدٍ دلــــيـــلٌ عـــلـــى ألا يـــدومَ خـليلٌ(۲۹)
یہ تھے جناب سیدہ سلام علیھا کی حضرت علیؑ سے محبت، حوصلہ افزائی اور تعاون کے نمونے، جبکہ آج کے انسانی معاشرہ کا المیہ یہ ہے کہ اس میں خدمت گزاری سے زیادہ برابری کو ترجیح دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں محبت، احترام، اور خوشیاں ختم ہوتی جارہی ہیں اور ان کی جگہ آئے روز نئے نئے گمراہ کن نعرے بلند ہوتے جارہے ہیں جن کے نتیجے میں خاندانی اکائیاں اور بنیادیں متزلزل ہورہی ہیں۔
۹۔ تعلیم وتربیت باعثِ شرف وعزت نہ کہ باعث ندامت وپستی
آج کا معاشرہ جن مشکلات اور مسائل کا شکار ہے ، اس کی بنیادی وجوہات میں ایک وجہ ماؤں کا اپنے کردار اور ذمہ داریوں کو سبک سمجھنا اور اہمیت نہ دینا ہے۔ ان وجوہات کے پیچھے جو علت ہے وہ احساس کمتری ہے چونکہ مائیں تعلیم اور تربیتِ اولاد کو ایک بے قدر، اور بے ارزش عمل سمجھتی ہیں اسی وجہ سے ان ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے شرمندگی اور کمتری محسوس کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں تعلیم اور تربیت کی ذمہ داری کو اور غیروں کے سپرد کیا جاتا ہے جن کا بنیادی مقصد مال ودولت کی جمع آوری ہوتا ہے نا کہ تعلیم وتربیت ، لہذا آئے روز معاشرہ انسانی اور اخلاقی اقدار سے محروم ہوتاجارہا ہے ۔ لیکن سیرت سیدہ کونین ؑ کا مطالعہ بتاتا ہے، آپؑ کی نگاہ میں گھر کا ماحول اور بچوں کی تعلیم وتربیت بہت زیادہ اہمیت کے حامل تھی، اسی وجہ سے آپؑ نے ایک ایسی عظیم تربیت گاہ کی بنیاد رکھی، اور اس میں ایسی عظیم شخصیات کی تربیت کی ، جو ایسے نامساعد ، اور اضطراب وپریشان کن حالات میں بھی اپنے مقصد اور ہدف سے پیچھے نہ ہٹیں، جن حالات میں عام طور پر مضبوط سے مضبوط تر شخصیات کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔
سیدہ کونینؑ کی اسی عظیم تعلیم وتربیت کی وجہ سے انسانوں کو امام حسن مجتبیٰؑ اور امام حسین ؑ جیسے عظیم راہنما ملے۔ سیدہ کی اسی شخصیت کے پہلو پر اظہار نظر کرتے ہوئے فاطمہ اناستاسیاایزووا کہتی ہیں’’حضرت زہرا (س) تمام اعصار اور ازمان کی خواتین کے لیے نمونہ عمل ہیں ، آپؑ میں ایک بہترین خاتون کی تمام تر خصوصیات پائی جاتی تھیں ، آپ ایک محبت کرنے والی نیک کردار، باعمل اور اچھی سیرت وصورت والی زوجہ تھیں کہ جنہوں نے اپنے کردار، محبت اور سیرت وصورت سے اپنے ہمسر کی تمام تر توجہات کواپنی جانب کرلیا۔ آپ ایک عظیم ماں تھیں جنہوں نےانقلابی، اور بہادر بچوں کی تربیت کی، آپ میں سیاست، عدالت اورانصاف جیسی اعلیٰ وارفع صفات باتم موجود تھیں، کہ جنہوں نے امت کو نئی زندگی عطا کی”۔(۳۰)
آپؑ کی اسی سیرت کو بیان کرتے ہوئے شاعر مشرق علامہ اقبال کہتے ہیں:
مادر آن مرکز پرکار عشق مادر آن کاروان سالارِ عشق
آن گرد مولائے ابرارِ جہان قوت بازوئے احرارِ جہان
رشتہ آئین حق زنجیر پاست پاس فرمان جنابِ مصطفیٰ است
ورنہ گرد تربتش گردیدمے سجدہ ھا برخاک او پاشیدمے(۳۱)
امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: آپ ایسی باعظمت خاتون تھیں کہ جنہوں نے ایک چھوٹے اور معمولی سے گھر میں ایسے انسانوں کی تربیت فرمائی جن کی نورانیت سے زمین کے ذرے سے آسمان تک، اور عالم ملکوت سے ملکوت اعلیٰ تک سبھی منور اور روشن ہوئے( ۳۲)۔
۱۰۔ تربیت ، محبت اور کردار وشخصیت سازی کے ذریعےہی ممکن ہے
عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اولاد کی تربیت کا آغاز اس وقت کرنا چاہیے جب بچہ اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے لگے، جبکہ سیرت سیدہ کونینؑ بتاتی ہے کہ اولاد کی تربیت کا آغاز پیدائش کے ساتھ کرنا چاہیے، اور تربیت کا آغاز محبت سے ہونا چاہیے، چونکہ بچہ پیدائش سے ہی محبت کا طلبگار ہوتا ہے ، اور یہ چاہتا تھا کہ والدین اس سے پیار کریں، اور اس کی طرف توجہ دیں۔ آپ ؑ نے حسنین کریمین ؑ اور جناب زینب ؑوام کلثومؑ کی تربیت اسی نہج پر کی، جس کا تقاضا نبی اکرمﷺ فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ بچوں کے لیے سراپا محبت اور شفقت تھے، اور آپﷺ کی بیٹی جناب سیدہ کائنات ؑ قیامت تک کی خواتین کے لیے تربیت کے حوالے سے مکمل نمونہ عمل تھیں۔
بچے کی تربیت میں جو چیز سب سے اہم ہے وہ بچوں کی شخصیت سازی اور ان کا احترام ہے۔ اگر بچوں کی تربیت میں اس پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو اس کے نتیجہ میں وہ احساس کمتری کا شکار ہوجائے گا، اور اس کا نتیجہ جرائم کے ارتکاب کی شکل میں ظاہر ہوجاتا ہے۔ معاصر دنیا کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ آج کی دنیا کے ۷۵ فیصد سے زائد مجرموں کے جرائم کے پیچھے جو علت ہے وہ ان کی مناسب تربیت نہ ہونا ہے اور بچپنے میں ان سے محبت آمیز اور مشفقانہ سلوک نہ کرنا ہے۔ سیرتِ سیدہ کونینؑ بتاتی ہے کہ آپ ؑ اور حضرت علیؑ نے اپنی اولاد کی شخصیت سازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ، جس کے عملی نمونے امام حسنؑ، امام حسینؑ، سیدہ زینبؑ اور سیدہ ام کلثومؑ کی زندگی میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان ہستیوں کی ایسی شخصیت سازی کی ، جس کی وجہ سے انہوں نے جابر اور ظالم حکمرانوں کے آگے سر کٹانے کو سر جھکانے پر ترجیح دی، عزت کو ذلت پر مقدم جانا، اور باعزت موت کو ذلت آمیز زندگی پر فوقیت دی۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ اس تربیتی پہلو کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
سیرت فرزندھا از امھات جوہر صدق وصفا از اامھات
طینت پاک تو مارا رحمت است قوت دین واساس ملت است
علامہ فرماتے ہیں بچوں کی سیرت، کردار اور شخصیت ان کی ماں نکھارتی ہے ان میں صدق وصفا کا جوہر ماں ہی پیدا کرتی ہے، لہذا رسول ﷺ کی بیٹی عظمت اور بلندی کی جس منزل پر فائز تھیں اس کا تقاضا یہ تھاکہ آپؑ اپنے بیٹے اور بیٹیوں میں وہ سارے جوہر اور موتی بھردیں جو دین کی بقاء کے لیے اور ایک مؤمن کامل میں کل ایمان کی صفت پانے کے لیے ضروری ہیں۔
مزرع تسلیم را حاصل بتول مادران را اسوۂ کامل بتول(۳۳)
خلاصہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کائنات کی عظیم ہستیوں جناب نبی اکرم ﷺ کی بیٹی، جناب امیرالمؤمنینؑ کی ہمسر، اور جناب حسنین کرمینؑ کی مادر گرامی ہیں، نبی اکرم ﷺ نے آپؑ کی خوشنودی کو اللہ کی خوشنودی اور آپؑ کی ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی قرار دیدیا۔ آپؑ کی حیات مبارکہ عبادت، سخاوت، شرافت، شجاعت، اطاعت، جد وجہد، زہدوتقویٰ اور جہاد سے عبارت ہے۔ آپؑ نے اپنی مختصر اور بامقصد زندگی نبوت ورسالت اور امامت کے دفاع میں گزاری۔ آپؑ کی زندگی کو جس شخص نے بھی جس زاویے سے دیکھا اسے اس میں کمال نظر آیا ۔ آپؑ نے راہ الٰہی میں سب کچھ قربان کردیا، اور اللہ کی خوشنودی کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ آپؑ نبی، رسول یا امام نہ تھیں لیکن آپ میں وہ تمام صفات باتم موجود تھیں جو کسی بھی الٰہی شخصیت میں موجود ہونی چاہیے۔ آپؑ جہاں حضرت نبی اکرم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھیں وہیں تمام خواتین کے لیے نمونہ عمل اور عالمین کی خواتین کی سردار تھیں۔
حوالہ جات
1. نیشاپوری ، محمد بن الفتال، روضة الواعظین،ص 150 انتشارات دلیل ما ، قم،۲۰۱۰۔
2. خوارزمی، الموفّق بن احمد بن محمد المکی، ۱۳۸۸مقتل الحسین خوارزمی، ج 1، ناشر ممسجد جمکران، قم، ۱۳۸۸۔
3. مجلسی محمد باقر، بحار الانوار، ج ۲۴،تحقیق محمد باقر بھبودی، ناشر مؤسسہ الوفاء ، بیروت لبنان، الطبعۃ الثانیہ المصححہ ۱۴۰۳ ھ ۱۹۸۳ م
4. مجلسی محمد باقر، بحار الانوار، ج ۴۳،تحقیق محمد باقر بھبودی، ناشر مؤسسہ الوفاء ، بیروت لبنان، الطبعۃ الثانیہ المصححہ ۱۴۰۳ ھ ۱۹۸۳ م ، فضائل فاطمہ، عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر العیاشی؛ تحقیق: بنیاد بعثت، ج١، ص٣٠٣۔ ٣٠٤، حدیث٤٢ ٦٨١، قم: بنیاد بعثت، ١٤٢١ق.
5. خمینی، روح‌الله، صحیفه امام: مجموعه آثار امام خمینی، ج ۷، مؤسسه تنظیم ونشرآثارامام خمینی، ۱۳۸۹۔
6. مطہری، مرتضیٰ، مجموعہ آثار شھید مطہری، ج ۱۹، ص ۱۳۴
7. ھمدانی، احمد رحمانی، فاطمہ زہراسرور دل ِ پیامبر، ناشر: منیر، ۱۳۸۳۔
8. عسکری، مرتضیٰ، احادیث ام المؤمنین عائشہ، ناشر: کلیہ اصول دین، ۱۴۱۸
9. کتانی، سلیمان ، فاطمۃ الزہرا وتر فی غمد، المعاونیۃ الثقافیۃ للمجمع العالمی الاسلامی ، ۱۴۲۹۔
10. ماسینیون، لویی، شخصیات قلقه عبد الرحمن بدوی و ضمیمۀآن «المباهله»چاپمیلانبهسال 1944۔
11. فاطمۃ الزہرا والفاطمیون، عباس محمود العقاد، شرکۃ النھضۃ، مصر، ۲۰۰۶۔
12. توفیق، ابو علم، فاطمۃ الزہراؑ، ناشر؛ منشورات سپھر، طہران، ۱۳۷۴۔
13. Mary، F. Thurlkill،Chosen among WomenMary and Fatimain Medieval Christianityand Shi`ite Islam, publisher: University of Notre Dame Press Notre Dame, Indiana, 2010.
14. مدارج النبوہ رکن چہارم، مطبوعہ سکھر، ص: 286، بحوالہ ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، برصغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری، محکمہ اوقاف ، پنجاب، 2002ء ،
15. مقدسی، زینب، فاطمہ زہراؑ در حدیث دیگران، https://farsi.iranpress.com/
16. فاطمہ فاطمہ ہے ڈاکٹر علی شریعتی، ادارہ احیاء تراث اسلامی ۱۹۹۳۔
17. https://rahyafteha.ir/18162، تازه مسلمان مسلمان مکزیکی : به نظر من کسی که حجاب دارد راحت تر زندگی می کند۔
18. ترمذی :کتاب المناقب : باب فضل ازواج النبی ، حدیث : ۳۸۹۵
19. بخاری: کتاب النکاح، باب ما یکرہ من ضرب النساء، حدیث: ۲۹۰۸)
20. نیساپوری، حافظ ابی عبداللہ محمد بن عبداللہ ، الحاکم، المستدرک علی الصحیحین : کتاب الایمان: حدیث: ۱۷۳، ادارہ پیغام القرآن، ۲۰۲۰ ۔
21. آشوب، حافظ محمّد بن علی شہر، مناقب آل ابی طالب علیہ السلام، ناشر: المطبعة الحيدرية، ۲۰۱۸۔
22. اقبال، علامہ محمد، کلیات اقبال، عالمی مجلس اقبال، ۲۰۱۱
23. مجمع الزوائد، باب أی شیٔ خیر للنساء، جلد4۔
24. کتانی، سلیمان ، فاطمۃ الزہرا وتر فی غمد، المعاونیۃ الثقافیۃ للمجمع العالمی الاسلامی ، ۱۴۲۹۔
25. اقبال، علامہ محمد، کلیات اقبال، عالمی مجلس اقبال، ۲۰۱۱
26. حوالہ سابق
27. ابراہیم امینی، اسلام کی مثالی خاتون، انصاریان پبلیکیشنز، قم، ۱۹۹۱
28. الخوارزمی ، المؤفق بن احمد بن محمد المکی ، المناقب، مؤسسۃ النشرالاسلامی، قم، ۱۴۱۱ ۔
29. مجلسی ، محمد باقر ، بحارالانوار، ج ۴۳، ص، ۲۱۶؛ دیوان امام علیؑ، ج، ۱، ص ۳۲۷؛ فضائل فاطمہ الزہرا، ص ۷۹، حافظ ابی عبداللہ الحاکم النیسابوری (۴۰۵) ۲۰۰۸، دار الفرقان للنشر والتوزیع، قاھرہ، مصر۔
30. مقدسی، زینب، فاطمہ زہراؑ در حدیث دیگران، https://farsi.iranpress.com/
31. اقبال، علامہ محمد، کلیات اقبال، عالمی مجلس اقبال، ۲۰۱۱۔
32. خمینی، روح‌الله، صحیفه امام: مجموعه آثار امام خمینی، ج ۷، مؤسسه تنظیم ونشرآثارامام خمینی، ۱۳۸۹۔
33. اقبال، علامہ محمد، کلیات اقبال، عالمی مجلس اقبال، ۲۰۱۱۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button