ترویج اور بقاء دین مقدس اسلام میں سیدہ کائنات علیھا السلام کا کردار
شیخ طاہرعباس، مدرس جامعۃ الکوثر
چکیدہ
سیدہ کائنات نے ترویج و بقاء دین مقدس اسلام میں اہم کردار ادا فرمایا ہے آپ نے اپنے خطبات اور اشعار کے ذریعہ دین اسلام کے معارف اور تعلیمات کی تبلیغ اور نشر و اشاعت کا اہتمام کیا اور اپنے عمل و کردار سے بھی بھرپور انداز سے اسلامی اقدار کی تشریح فرمائی اور آپ نے تربیت اولاد اور عملی اقدامات کی بدولت دین اسلام کی بقاء میں اپنا وافر حصہ ڈالا ہے ۔
«کلیدی الفاظ: ترویج، بقاء دین، سیدہ کائنات ، سیرت و کردار»
مقدمہ
خداوند کریم نے انسان کو کمالات کے اختیاری حصول کیلئےخلق فرمایا اور اس کی رہنمائی کیلئے آسمانی کتابیں نازل کیں اور انبیاء اور مرسلین علیھم السلام کو الہی منشور کی تشریح و تبلیغ کیلئے بھیجا ۔ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیھم السلام نے بشریت کی سعادت اور خوش بختی کی تعلیم کیلئے کوششیں کی ۔ ان میں حضرت محمد مصطفی ﷺ آخری پیغمبر اور ان کی کتاب قرآن کریم آخری کتاب ہے ۔اس میں فلاح دارین کا نسخہ کیمیا موجود ہے ۔آپ ﷺ کے بعد نہ کوئی نبی آنے والا ہے اور نہ کوئی کتاب اور شریعت ۔پس خدا نے اس کتاب اور اس دین کی تعلیمات کی حفاظت اور ترویج کیلئے اولیاء علیھم السلام کو منتخب فرمایا جن کی عصمت و طہارت کی خود گواہی دی ہے۔ انہوں نے اپنے اقوال اور اعمال کے ذریعہ دین کی ترویج اور نشر و اشاعت کی ایسی کوششیں فرمائی ہیں کہ بشریت قیامت تک ان سے نور ہدایت حاصل کرتی رہے گی ۔
دین کی ترویج و بقاء کے سلسلہ میں سیدہ کائنات خاتون جنت علیھا السلام کا کردار نہایت شاندار رہا۔ آپ نے اپنے اقوال و اعمال میں دین کی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں انمول اور انمٹ نشانات چھوڑے۔خاتون جنت کے بارے میں قرآن کریم اور سنت نبوی میں عظیم فضائل و مناقب بیان ہوئے ۔آیت مباہلہ میں آپ کو معرکہ حق و باطل میں صادقین کی فتح میں شمار کیا گیا(1) اسی طرح آیت تطہیر میں آپ کی عصمت و پاکی کردار کی گواہی دی گئی (2)، آیت مودّت میں آپ کی محبت و مودت کو فرض کیا گیا(3) ۔سورہ دہر میں آپ کے ایثار و اطعام کا قصیدہ بیان ہوا(4)اور سورہ کوثر میں آپ کو خیر کثیر قرار دیا گیا (5)۔
سنت نبویہ میں آپ کو جگر گوشہ رسول بیان کیا گی(6) اور زنان جنت کی سیدہ و سردار بتایا گیا ہے(7) ۔ آپ کی عظمت و بلند مرتبے کیلئے سیرت پیغمبر ص کا یہ عجیب پہلو ہے کہ سید الانبیاء آپ کی تعظیم کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے اور آپ کو اپنی مسند پر بٹھاتے (8)۔ میدان حشر میں آپ کی آمد کے سلسلے میں بیان ہوا :اہل محشر کو آواز دی جائے گی :غضوا ابصارکم؛ اپنی آنکھیں جھکا لو(9)۔یہ سب فضائل و مناقب آپ کی اس سیرت و کردار کی بدولت تھےجو آپ نے رسول اکرم ص کے دین کی ترویج و بقاء کے سلسلے میں انجام دیئے۔آپ نے جہاں تک بن پڑا بھرپور تبلیغ و ترویج دین کی سرگرمیاں انجام دیں اور اپنے عمل و کردار سے اس فریضہ کو ادا کیا ۔ اس مختصر تحقیق میں دین مقدس کی ترویج و بقاء کے لئے آپ کی کوششوں کے چند نمونے بیان کئے جائیں گے۔
ترویج و بقاء کا مفہوم
کسی حد تک ان الفاظ کا مفہوم واضح ہے لیکن ترویج و بقاء دین کے سلسلہ میں سیدہ کائنات کے کردار کو سمجھنے کیلئے ان مفاہیم کو بیان کرنے کی ضرورت ہے ۔ ترویج عربی زبان میں روّج یروّج سے مصدر ہے جس کا معنی تبلیغ اور نشر و اشاعت کی کوشش ہوتا ہے اگرچہ اس میں قدرےبیشتر گہرائی پائی جاتی ہے ۔ ترویج اس وقت صادق آتی ہے جب کسی چیز کو اس طرح پہنچایا جائے کہ وہ لوگوں کے معاملات اور رسم و رواج کا حصہ بن جائے(10)۔
اس مفہوم کیلئے اکثر و بیشتر استعمال ہونے والا لفظ تبلیغ ہے قرآن و سنت میں بہت اہم مواقع پہ اس کا استعمال ہوا ہے ۔جیسے اللہ تعالی نے فرمایا: الَّذِینَ يُبَلِّغُونَ رِسَالاَتِ اللَّهِ وَ يَخْشَوْنَهُ وَ لاَ يَخْشَوْنَ أَحَداً إِلاَّ اللَّهَ وَ كَفَى بِاللَّهِ حَسِیباً؛ وہ لوگ جو اللہ کے پیغامات کی تبلیغ کرتے اور اسی سے ڈرتے ہیں اور سوائے اس کے کسی سے نہیں ڈرتے(11)۔
نبی اکرم ﷺ سے خطاب میں فرمایا: اے رسول ! پہنچا دیجئے جو آپ کے خدا کی طرف سے آپ کی طرف نازل ہوا اور اگر آپ نے نہیں پہنچایا تو آپ نے اس کی رسالت کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا(12)۔
تبلیغ کی انواع و اقسام اور شرائط کو بھی بیان کیا گیا (13)۔
1)کبھی تبلیغ زبان و کلام سے ہوتی ؛
2)اور کبھی عمل و کردار سے ہوتی ہے۔
اور اسے اسلامی منابع میں تبلیغ کا بلند ترین اور موثر ترین مرتبہ قرار دیا گیا ہے، اور اگر انسان کا عمل و کردار اس کے اقوال و کلام سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اس کو تبلیغ کی کمزوری سمجھا گیا ہے بلکہ فرمایا: وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتے (14)۔
پس تبلیغ و ترویج دین کا بلند ترین مرتبہ وہ ہے جو قول و فعل اور کلام اور عمل کی مطابقت پر مشتمل ہو بلکہ اگر کردار سے اس فریضہ کو انجام دیا جائے تو اس کے اثرات و نتائج دور رس ہوتے ہیں ۔
قرآن کریم اور ترویج دین میں خواتین کا کردار
اللہ تعالی کے کلام میں زمانہ جاہلیت کے باطل عقائد و نظریات کے برخلاف، کہ وہ خواتین کو باعث ننگ و عار سمجھتے تھے اور ان کے معاشرتی اور ثقافتی کردار کو یکسر نظر انداز کرتے تھے –عورتوں کے تبلیغ و ترویج دین کے معاملہ میں کردار کو بھرپور انداز میں بیان کیا گیا ہے ، فرمایا: وَ الْمُؤْمِنُونَ وَ الْمُؤْمِناتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِیاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُقیمُونَ الصَّلاةَ وَ يُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَ يُطیعُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ أُولئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عَزیزٌ حَكیمٌ (15،16)
ترجمہ :مومن مرد اور عورتیں ایک دوسرے کے ولی اور خیر خواہ ہیں وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکات ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں خدا ان پر رحم کرنے والا ہے بے شک اللہ زبردست، حکمت والا ہے ۔
اس آیت کی روشنی میں عورتیں اسلامی معاشرہ کی بہتری کیلئے کوشش کرنے اور دین اسلام کی ترویج و تبلیغ کرنے میں برابر کی شریک ہیں۔ بلکہ قرآن میں اس حقیقت کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ اگر اس راہ میں قربانی دینی پڑے اور گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑے تو بھی اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے؛ فرمایا:
پس خدا نے ان کی دعا قبول کرلی اور وہ نیک عمل کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا چاہے وہ مرد ہو یا عورت، پس جن لوگوں نے ہجرت کی اور گھروں سے نکالے گئے اور راہ خدا میں اذیت کا شکار ہوئے… میں انہیں جنت میں داخل کروں گا(( ))(17)۔
سیدہ کائنات کی ترویج دین کے نمونے
حضرت زہراء ؑنے ترویج دین کو بہترین انداز میں انجام دیا اور آپ کی زندگی کے مختلف مراحل میں اس کے نمونے موجود ہیں:
ترویج کلامی کے نمونے
جہاں تک آپ کے اقوال و فرامین میں ترویج و تبلیغ لسانی کے نمونے ہیں تو اس کیلئے آپ کے کلام کی درج ذیل تقسیم کو بیان کرنا مناسب ہے:
1۔خطبات حضرت زہراء ؑ
سیدہ کائنات نے دین اسلام کے معارف کو بیان کرنے کیلئے جو خطبات ارشاد فرمائے جہاں وہ دینی تعلیمات کے متنوع مطالب پر مشتمل ہیں وہاں ان میں پائی جانے والی فصاحت و بلاغت ہر دور کے صاحبان ادب کیلئے منبع قرار پائی ہے چناچہ یہ عمل آپ کے خطبہ فدک کی لطافت اور بلاغت کی بدولت ہی تھا کہ سادات کے خاندانوں میں اسے زبانی یاد کیا جاتا تھا (18)۔ اور جب اس کے موضوعات کی تقسیم کی گئی تو اس میں جہاں توحید و رسالت کا بیان ہے وہیں احکام دین کو بھی بیان کیا گیا ۔مستزاد یہ ہے کہ اس میں قرآنی آیات سے استناد کیا گیا ہے اور مطالب کو مدلل و مبرہن بیان کیا گیا ہے ۔
جیساکہ تاریخ اسلام کے منابع میں ہے یہ خطبات حضرت زہراء نے اصحاب پیغمبر ﷺکے سامنے ارشاد فرمائے اور انہیں اسلامی اقدار کی پاسداری کی تاکید فرمائی اور اختلافی مسائل میں دلیل و برہان سے اپنے موقف کی وضاحت فرمائی ہے ۔آپ کے معروف خطبہ فدک سے دو مختصر اقتباس نمونہ کے طور پر ملاحظہ ہوں:
آپ نے قرآن کریم کے متعلق ارشاد فرمایا:
كِتَابُ اللَّهِ النَّاطِقُ وَ الْقُرْآنُ الصَّادِقُ وَ النُّورُ السَّاطِعُ وَ الضِّيَاءُ اللَّامِعُ بَيِّنَةٌ بَصَائِرُهُ مُنْكَشِفَةٌ سَرَائِرُهُ مُنْجَلِيَةٌ ظَوَاهِرُهُ مُغْتَبِطَةٌ بِهِ أَشْيَاعُهُ قَائِدٌ إِلَى الرِّضْوَانِ أَتْبَاعُهُ مُؤَدٍّ إِلَى النَّجَاةِ اسْتِمَاعُهُ بِهِ تُنَالُ حُجَجُ اللَّهِ الْمُنَوَّرَةُ وَ عَزَائِمُهُ الْمُفَسَّرَةُ وَ مَحَارِمُهُ الْمُحَذَّرَةُ وَ بَيِّنَاتُهُ الْجَالِيَةُ وَ بَرَاهِینُهُ الْكَافِيَةُ وَ فَضَائِلُهُ الْمَنْدُوبَةُ وَ رُخَصُهُ الْمَوْهُوبَةُ وَ شَرَائِعُهُ الْمَكْتُوبَة؛
یہ اللہ کی کتا،ب سچا قرآن، چمکتا ہوا نور اور روشن چراغ ہے، اس کے دروس واضح عبرت ہیں اور اس کے اسرار و رموز آشکار ہیں اور اس کے ظاہری معانی روشن ہیں اور اس کے پیروکار قابل رشک ہیں۔ اس کی پیروی رضوان جنت کی طرف لے جاتی ہے اور اسے سننا بھی ذریعہ نجات ہے اور اس روشن قرآن کے ذریعہ اللہ کی روشن دلیلوں کو پایا جاسکتا ہے اس کے واجبات کی تفصیل بیان ہوچکی اور اس کے محرمات سے روکا جا چکا ہے، روشن دلائل، اطمینان بخش براہین، مستحبات پر مشتمل فضائل اور جائز مباح اور اسکے واجب دستور کو پایا جاسکتا ہے۔
اس طرح بہترین انداز میں قرآن مجید کی حقانیت اور منبع ہدایت ہونے کو بیان کیا گیا ہے جس سے خود اس کلام کا فصیح و بلیغ انداز بیان اسے نہج البلاغہ سے مشابہ بناتا ہے ۔اسی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت سیدہ ؑکی تاکید درحقیقت اسلام کے منبع ہدایت کو زندہ جاوید بنا کر اسلام کی بقاء اور جاودانگی کی ترویج کرنا تھی ۔
اسی خطبہ میں سیدہ نے احکام اسلام کے اغراض و مقاصد کے بارے میں ارشاد فرمایا:
فَجَعَلَ اللَّهُ الْإِیمَانَ تَطْهِیراً لَكُمْ مِنَ الشِّرْكِ وَ الصَّلَاةَ تَنْزِیهاً لَكُمْ عَنِ الْكِبْرِ وَ الزَّكَاةَ تَزْكِيَةً لِلنَّفْسِ وَ نَمَاءً فِی الرِّزْقِ وَ الصِّيَامَ تَثْبِیتاً لِلْإِخْلَاصِ وَ الْحَجَّ تَشْيِیداً لِلدِّینِ وَ الْعَدْلَ تَنْسِیقاً لِلْقُلُوبِ وَ طَاعَتَنَا نِظَاماً لِلْمِلَّةِ وَ إِمَامَتَنَا أَمَاناً لِلْفُرْقَةِ وَ الْجِهَادَ عِزّاً لِلْإِسْلَامِ وَ الصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَى اسْتِیجَابِ الْأَجْرِ وَ الْأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعَامَّةِ وَ بِرَّ الْوَالِدَيْنِ وِقَايَةً مِنَ السُّخْطِ وَ صِلَةَ الْأَرْحَامِ مَنْسَأَةً فِی الْعُمُرِ وَ مَنْمَاةً لِلْعَدَدِ وَ الْقِصَاصَ حَقْناً لِلدِّمَاءِ وَ الْوَفَاءَ بِالنَّذْرِ تَعْرِیضاً لِلْمَغْفِرَةِ وَ تَوْفِيَةَ الْمَكَايِیلِ وَ الْمَوَازِینِ تَغْيِیراً لِلْبَخْسِ وَ النَّهْيَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزِیهاً عَنِ الرِّجْسِ وَ اجْتِنَابَ الْقَذْفِ حِجَاباً عَنِ اللَّعْنَةِ وَ تَرْكَ السَّرِقَةِ إِیجَاباً لِلْعِفَّة؛
اللہ نے ایمان کوقرار دیا تاکہ تمہیں شرک سے پاک کرے ، نماز کو بنایا کہ تمہیں غرور و تکبر سے محفوظ رکھے اور زکات کو نفس کی پاکیزگی اور رزق میں اضافہ کیلئے اور روزہ کو اخلاص کی پائیداری کیلئے ، حج کو دین کی تقویت اور مضبوطی کیلئے، عدل و انصاف کو دلوں کو جوڑنے کیلئے ، ہماری اطاعت کو امت کی ہم آہنگی کیلئے ، ہماری امامت کو تفرقہ سے بچاؤ کیلئے، جہاد کو اسلام کی سربلندی کیلئے، صبر کو حصول ثواب کیلئے، امربالمعروف کو عوام کی بھلائی کیلئے، والدین پر احسان کو قہر الہی سے بچنے کیلئے، صلہ رحمی کو درازی عمر اور افراد کی کثرت کیلئے ،قصاص کو خون کی ارزانی روکنے کیلئے، منت و نذر کو پورا کرنا مغفرت میں تاثیر کیلئے، پورے ناپ تول کو کم تولنے سے بچنے کیلئے ، شراب نوشی کی ممانعت پلیدی سے بچنے کیلئے، بہتان تراشی سے اجتناب کو نفرت سے بچنے کیلئے ، چوری سے پرہیز کو شرافت کے قیام کیلئے اور شرک کی ممانعت کو اپنی ربوبیت کو خالص بنانے کا ذریعہ بنایا ہے(19)۔
2۔ اشعار حضرت زہراء ؑ
حضرت فاطمہ زہراء ؑنے جہاں خطبات و نثر یہ کلام میں دینی معارف کو بیان کیا وہیں فصاحت و بلاغت سے بھرپور اشعار میں بھی دینی معارف کی نشر و اشاعت کا سامان کیا ہے ، آپ سے منسوب اشعار کی تعداد اتنی ہے کہ انہیں جمع کرکے دیوان سیدہ فاطمہ زہراء ؑکے عناوین سے شائع کیا گیا ہے۔اور اگر ان کے موضوعات کو جمع کیا جائے تو اس میں بہت تنوع پایا جاتا ہے ۔
ان اشعار میں جہاں نبی اکرمﷺ کی وفات پر گہرے غم کا اظہار پایا جاتا ہے وہیں آپ کے بعد پیش آمدہ مسائل کی عکاسی بھی کی گئی ہے اور فقراء و مساکین کی مدد کیلئے ایثار و قربانی کے جذبہ کو اجاگر کیا گیا ہے ؛
آپ نے نبی اکرمﷺ کے مرثیہ میں فرمایا:
قد كان جبرئیل بالآیات یؤنسنا فغبت عنا فكل الخیر محتجب
فكنت بدرا و نورا یستضاء به علیك ینزل من ذی العزة الكتب
ترجمہ: آپ کی حیات میں جبرئیل آیات کے ذریعہ ہم سے مانوس تھا ۔اب آپ چل دیئے تو ساری خیر و برکت ہی روک لی گئی، آپ ضیاء افشانی کرنےو الے چاند اور نور تھے آپ کے پاس قدرتمند خدا کی طرف سے کتاب نازل ہوتی تھی
(20)۔
اپنے دوسرے اشعار میں ارشاد فرمایا:
میں یتیموں کو بے دریغ عطا کروں گی اور اپنے بچوں پر اللہ کے حکم کو ترجیح دوں گی ،میرے بچے گرسنہ رہیں حالانکہ وہ میرے جگر کے ٹکڑے ہیں ان میں جو چھوٹا ہے وہ کربلا میں ظلم سے شہید ہوگا اس کے قاتلوں کیلئے وبال و ہلاکت ہو
(21)۔
3- کلمات قصار میں دینی معارف کی ترویج
سیدہ کائنات نے دین اسلام کی تعلیمات کی ترویج و تبلیغ کیلئے اپنے بہت سے مختصر و جامع اقوال و فرامین بیان کئےہیں ۔ان میں بعض میں نبی اکرم کی احادیث کو نقل کیا ہے اور بعض آپ کے اپنے فصیح و بلیغ کلمات قصار ہیں اگر ان کو جمع کیا جائے تو یہ مستقل علمی کتاب مسند بن جائے بلکہ محدثین اسلام نے اس عنوان سے کتب بھی تحریر کیں جیساکہ علامہ سیوطی نے مسند فاطمہ کے عنوان سے کتاب تحریر فرمائی جو عربی زبان میں تحریر ہوئی اس کتاب میں علامہ محدث نے 286 روایات کو جمع کیا جن میں متنوع موضوعات کو بیان کیا گیا ہے ۔اس کا اردو ترجمہ حیدر آباد دکن سے 1986ء میں شائع ہوا اور اس کی تحقیق جدید 2016 میں شائع ہوئی
(22)۔ اسی طرح جناب سیدؑہ کے متعلق جامع ترین کتاب 25 جلدی موسوعہ کبری
(23)میں بھی فریقین کےمصادر سےبکثرت روایات کو جمع کیا گیا ہے جس سے آپ کی ترویج دین کی بابت میراث علمی کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔
حضرت سیدہ کا فرمان ہے : من اصعد الی الله خالص عبادته اهبط الله عزو جل الیه افضل مصلحته؛ جو شخص خدا کی بارگاہ میں اپنی خالص عبادت پیش کرتا ہے خدا بہترین مصلحت اس کے حق میں نازل فرماتا ہے
(24)۔
نیز سیدہ نے فرمایا: مَا يَصْنَعُ الصَّائِمُ بِصِيَامِهِ إِذَا لَمْ يَصُنْ لِسَانَهُ وَ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ وَ جَوَارِحَهُ؛ اگر روزہ دار اپنی زبان، کان، آنکھ اور اعضاء و جوارح کی حفاظت نہیں کرتا تو اس کا روزہ اسے فائدہ نہیں دیت
(25)۔
4-صداقت لسانی کی ترویج
سیدہ کائنات کا ایک لقب صدیقہ ہے یعنی بہت زیادہ سچ بولنے والی، آپ کا قول و فعل اور گفتار و کردار ایک دوسرے کی تائید کرتے تھے آپ کی صداقت کو آیت مباہلہ کی روشنی میں بھی سمجھا جاسکتا ہے جہاں معرکہ حق و باطل میں سچوں کی جماعت نبی اکرمﷺ کے ساتھ میدان میں آئی جن میں سیدہ کائنات اور آپ کے شوہر اور دو بیٹے شامل تھے ۔نیز نبی اکرمﷺ نے امام علیؑ سے فرمایا: اے علی! آپ کو تین ایسی چیزیں ملی ہیں جو کسی کو نصیب نہیں ہوئی: میرے جیسا سسر نصیب ہوا جو مجھے بھی نہیں ملا ، زوجہ کے طور پر فاطمہ زہراء جیسی صدیقہ میری بیٹی تمہیں ملی مجھے بھی ایسی زوجہ نہ ملی اور تمہارے نسب سے حسنین ہیں جو مجھے بھی نہیں ملے
(26)۔
نیز ام المومنین حضرت عائشہ کا بیان ہے فرمایا: ما رایت اصدق منها الا اباها؛ میں نے آپ کے والد کے سوا کسی کو فاطمہؑ سے زیادہ سچا نہیں دیکھا (27)۔
یہی وہ زبان صداقت ہے جس سے امت مسلمہ کو حقائق و معارف کا ایسا بیان نصیب ہوا جس سے بہتر تبلیغ و ترویج نہیں ہوسکتی تھی چناچہ جب آپ سے سوال کیا گیا :
عورتوں کیلئے بہترین چیز کیا ہے؟
فرمایا: عورتوں کیلئے بہترین چیز یہ ہے کہ کوئی نا محرم مرد ان کو نہ دیکھے اور وہ نامحرم مردوں کو نہ دیکھیں (28)۔
ترویج عملی کے نمونے
حضرت زہراءؑ نے دین اسلام کی عملی ترویج کیلئے بہت سے اقدامات کئے اس کے چند نمونے پیش ہیں:
شعب ابی طالب میں تحمل مصائب کا مظاہرہ
حضرت زہراء ؑنے اپنی زندگی کے ابتدائی سال شعب ابی طالب میں گزارے جب کفار مکہ نے نبی اکرمﷺ کا اقتصادی اور معاشرتی بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ ان تین سالوں میں سخت ترین وقت گزرا ۔مصائب اور مشکلات کی اس گھڑی میں حضرت زہراء نے اپنے والدین کے ساتھ بے پناہ آزمائشیں برداشت کیں اور اپنے والدین کی حوصلہ افزائی فرماتی رہیں اس عظیم فدا کاری کو دیکھتے ہوئے نبی اکرم ﷺ نے آپ کو ام ابیھا کا لقب دیا (29)۔
ہجرت اسلامی میں شرکت
حضرت فاطمہؑ نے دین اسلام کی حفاظت کی خاطر اپنا وطن چھوڑا اور ہجرت کی رات تلواروں کے حصار میں صبر و استقامت کے ساتھ شجاعت اور حوصلہ کا ثبوت دیا حالانکہ اگر ایسا پر ہول وقت کسی اور گھرانے پہ آتا تو وہاں عورتوں کی چیخ و پکار بلند ہوجاتی مگر رسول اکرم ﷺکے گھر میں سناٹا تھا نہ کوئی اضطراب کا مظاہرہ ہوا اور نہ چیخ و پکار کی آواز سنائی دی ۔
جس طرح شب ہجرت حضرت علیؑ نے تلواروں کے سائے میں بستر رسولﷺ پر سو کر رضوان خدا کو حاصل کیا اسی طرح حضرت زہراء نے اس پر خطر ماحول کو جاگ کر گزارا اور ہرگز خوف و ہراس کا غلبہ نہ ہونے دیا ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ کائناتؑ نے اس رات قوی دل و جگر سے تحفظ اسلام کیلئے اس خوفناک منظر کو تحمل فرمایا اور اپنے بچوں کی بھی ایسی تربیت فرمائی کہ طول تاریخ میں ان کی شجاعت و استقامت ضرب المثل بن گئی ۔
حضرت فاطمہ زہراء کی مثالی شادی
سیدہ کائنات رسول اکرم ﷺکی اکلوتی بیٹی تھیں اور اپنے زمانے میں ممتاز شخصیت تھیں ، حسب و نسب کے لحاظ سے پورے عرب و عجم میں کوئی ان کی مانند نہیں تھا لیکن آپ کے کمالات اور بلندی کردار کا عملی نمونہ اور دین کے معاشرتی اور سماجی اہم معاملہ کی تبلیغ و ترویج کا مسئلہ آن پہنچا تھا ۔چناچہ آپ نے اپنی والدہ گرامی کی طرح قریش کی مالدار شخصیات کے رشتے ٹھکرا کر بحکم خدا حضرت امام علی ع کا رشتہ قبول فرمایا۔
روایت میں ہے: جب امام علیؑ خواستگاری کیلئے تشریف لائےتو پیغمبر اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پہلے بھی کچھ لوگ آ چکے ہیں اس سلسلے میں جب بھی فاطمہ ؑسے بات کی تو چہرے پر ناراضگی کے آثار دیکھے ہیں ، پھر فرمایا: ٹھہریں ، میں ابھی واپس آتا ہوں۔جب رسول اکرم ﷺنے حضرت علیؑ کی خواستگاری کی خبر دی تو خاموش رہیں جس سے رضایت کا اظہار ہوتا تھا ، آپ نے تکبیر بلند کی اور فرمایا: فاطمہ کی خاموشی رضایت کی دلیل ہے (30)۔
شادی کےاخراجات کا ذکر ہوا تو حضرت علی ؑنے عرض کی: مال دنیا سے ایک زرہ ، ایک اونٹ اور ایک تلوار کے علاوہ کچھ نہیں ، نبی اکرمﷺ اس پر خوش ہوئے اور فرمایا: شادی کے انتظامات کیلئے زرہ فروخت کر دو اور اخراجات پورے کرو ، آپ نے پانچ سو درہم میں زرہ فروخت کی اور بہت سادہ اور معمولی جہیز خریدا۔ اسی میں ضیافت کا اہتمام ہوا اور مسلمانوں کو کھانا بھی کھلایا گیا ۔ عقد کی تقریب مسجد میں ادا ہوئی اور رسول اکرم ﷺ نے خطبہ عقد پڑھا اور دعاؤں کے ساتھ حضرت علیؑ کے گھر کی طرف رخصت فرمایا(31)۔
یہ مثالی شادی ہر اعتبار سے شیعیان جہاں اور مسلمانو کیلئے نمونہ عمل ہے اگر دور حاضر میں شادی بیاہ کے مسائل کو اس کی روشنی میں حل کیا جائے تو معاشرہ جنت نظیر بن جائے ۔
اسلامی تربیت یافتہ اولاد کا تحفہ
سیدہ کائناتؑ نے حسن معاشرت سے گھر کے ماحول کو جنت نظیر بنا دیا تھا ۔عملی تبلیغ کا ایک واضح نمونہ اسلامی معاشرہ میں تربیت یافتہ فرزندان کو پیش کرنا ہے جو ہر دور میں اسلام کی حیات کیلئے مددگار ثابت ہوئے ۔ امام حسن ؑو امام حسین ؑ اگرچہ امام معصوم تھے لیکن ان کے ساتھ حضرت زینب و ام کلثوم کی تربیت و کردار بھی نمونہ ہے جہاں ائمہ معصومین ؑنے میدان میں قدم رکھا وہاں ان بہنوں نے مدد اور معاونت فرمائی ۔جہاں کربلا میں شہداء کا سفر ختم ہوا وہیں حضرت زینب و ام کلثوم نے کوفہ و شام کے بازارو دربار میں مقصد امام حسین ؑ کو اور اسلامی معارف کو بہت شجاعت کےساتھ پیش فرمایا۔
ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ اس گھر کا ماحول ایسا قرآنی تھا کہ اس گھر میں خدمت کرنے والی عورتیں بھی وحی و الہام کا مزاج پہچان گئیں تھیں اور عمر بھر انہوں نے قرآن کی زبان میں بات چیت کی (32)۔
مالی مدد اور اوقاف ابدی
جس طرح آپؑ کی والدہ ماجدہ حضرت خدیجہ ؑنے دین اسلام کی تبلیغ کیلئے اپنی بے پناہ دولت اور ثروت نچھاور کر دی ۔ جس کا تذکرہ نبی اکرم ﷺہمیشہ فرماتے تھے ۔آپ کا مشہور فرمان ہے : خدیجہ نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگ میری تکذیب کرتے تھے اور انہوں نے اس وقت اپنا مال میرے حوالے کیا جب لوگ مجھے محروم کرتے تھے (33)۔
عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِیمَ عَنْ أَبِیهِ عَنِ ابْنِ أَبِی نَجْرَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِی بَصِیرٍ قَالَ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع أَ لَا أُقْرِئُكَ وَصِيَّةَ فَاطِمَةَ ع قَالَ قُلْتُ بَلَى قَالَ فَأَخْرَجَ حُقّاً أَوْ سَفَطاً فَأَخْرَجَ مِنْهُ كِتَاباً فَقَرَأَهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ۔ هَذَا مَا أَوْصَتْ بِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ ص أَوْصَتْ بِحَوَائِطِهَا السَّبْعَةِ الْعَوَافِ وَ الدَّلَالِ وَ الْبُرْقَةِ وَ الْمِیثَبِ وَ الْحَسْنَى وَ الصَّافِيَةِ وَ مَا لِأُمِّ إِبْرَاهِیمَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ ع فَإِنْ مَضَى عَلِيٌّ فَإِلَى الْحَسَنِ فَإِنْ مَضَى الْحَسَنُ فَإِلَى الْحُسَيْنِ فَإِنْ مَضَى الْحُسَيْنُ فَإِلَى الْأَكْبَرِ مِنْ وُلْدِی شَهِدَ اللَّهُ عَلَى ذَلِكَ وَ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ وَ الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ وَ كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ.(34)
ابو بصیر کا بیان ہے کہ امام باقر ع نے فرمایا: کیا میں تمہیں حضرت فاطمہ کی وصیت نہ سناؤں؟ عرض کی: جی مولا، راوی کا بیان ہے کہ آپ نے ایک ٹوکری یا بڑا کاغذ نکالا اور اس کو پڑھا ، جس پر لکھا تھا: خدا کے نام جو رحمن و رحیم ہے : یہ فاطمہ بنت محمد نے اپنے سات باغات کے بارے میں وصیت کی؛
عواف، دلال، برقہ، میثب، حسنی، صافی ، مال ابراہیم یہ وصیت علی بن ابی طالب کیلئے ہے اگر علی چلے جائیں حسن اور اگر وہ بھی فوت ہوجائیں تو حسین کی طرف ہے اوراگر وہ چلے جائیں تو میری اولاد میں بڑے بیٹے کی صوابدید پہ ہے اس پر اللہ نے گواہی دی نیز مقداد بن اسود، زبیر بن عوام سے گواہی لی اور اور یہ تحریر علی بن ابی طالب نے لکھی ہے ۔
اس طرح سیدہ کائناتؑ نے اپنے ذاتی اموال اور دولت کا بہت سا حصہ قیامت تک کیلئے وقف کر دیا ۔گویا آپ نے اوقاف ابدی کا ایسا موثر اقدام فرمایا جس کے ذریعہ قیامت تک مسلمان ان منابع سے استفادہ کرکے اسلامی اقدار کی نشر و اشاعت میں استفادہ کر سکتے ہیں ۔
عبادت و بندگی کی تعلیم و ترویج
حضرت سیدہ کائناتؑ نے عبادت و بندگی کی ایسی مثال پیش کی جس سے مفہوم عبادت کو وقار ملا امام حسن مجتبیؑ نے فرمایا: میری والدہ شب جمعہ صبح تک خدا کی عبادت میں مشغول رہتیں اور متواتر رکوع و سجود بجا لاتیں یہاں تک کہ صبح نمودار ہوتی۔میں نے سنتا تھا کہ آپ مومنین کیلئے نام لیکر دعا کرتی تھیں لیکن وہ اپنے لیے دعا نہیں کرتی تھیں ، میں نے عرض کی: اماں جان! آپ اپنے لیے دعا کیوں نہیں کرتی ہیں؟
سیدہ ؑ نے فرمایا: بیٹا! پہلے پڑوسی پھر اپنا گھر
(35)۔
اسی عملی تربیت کا اثر تھا کہ میدان کربلا میں شہداء کربلا نے ان مشکل ترین حالات میں بھی عبادت و بندگی کا عظیم مظاہرہ کیا بلکہ شب عاشور کو مانگ لیا اور ساری رات دعا و مناجات اور تلاوت قرآن میں مشغول رہے اور روز عاشور نماز جماعت کا اہتمام کیا اور شام غریباں سے کوفہ و شام تک کہیں بھی خدا کی عبادت و بندگی میں غفلت نہ برتی گئی ۔
جابر کی روایت ہے : نبی اکرم ﷺنے حضرت فاطمہؑ کو دیکھا ،موٹا اور معمولی لباس پہنے ہوئے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے چکی چلا رہی ہیں اور اسی حالت میں دودھ پلائی کا فریضہ انجام دے رہی ہیں ۔ یہ دیکھ کر نبی اکرم ﷺکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا: میری بیٹی! دنیا کی تلخی کو آخرت کیلئے برداشت کرو، عرض کی: اے رسول خدا! میں خدا کی نعمتوں پر شکر کرتی ہوں
(36)۔
خلاصہ
سابقہ ابحاث سے نتیجہ نکلتا ہے کہ سیدہ کائنات نے دین اسلام کی ترویج و بقاء کیلئے بھرپور کردار ادا کیا اور اپنے اقوال و کلمات میں دین اسلام کے معارف اور تعلیمات کی تشریح فرمائی اور خطبات و اشعار میں فصیح و بلیغ انداز میں دینی حقائق کو آشکار فرمایا ہے اسی طرح اپنی سیرت و کردار کے ذریعہ دینی اقدار کو زندہ جاوید بنا دیا ہے جو قیامت کے دن تک زندہ ضمیر انسانوں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
حوالہ جات:
- ۔آل عمران61۔
- ۔الاحزاب،33۔
- ۔الشوری؛ 23 ۔
- ۔الانسان،8-14 ۔
- ۔الکوثر،1۔
- ۔ بخاری، محمد بن اسماعیل، الصحیح الجامع،ح 4466.
- بخاری، محمد بن اسماعیل، الصحیح الجامع، 4 ص 210؛ بیروت ، موسسہ دار الفکر، 1413ق۔
- اسماعیل انصاری، الموسوعۃ الکبری 12 ص 239۔
- ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، 9ص193؛ قم، مکتبہ مرعشی نجفی 1404ق ۔
- رجوع ہو: جوہری، اسماعیل بن حماد، صحاح اللغۃ، ج 1ص318، بیروت، دار العلم للملایین، 1410 ھ۔
- الاحزاب، 39۔
- المائدہ ، 59۔
- ۔حر عاملی، وسائل الشیعۃ ، 16ص 256،قم، موسسۃ احیاء تراث اھل البیتؑ ، 1410۔
- ۔الصف 2۔
- (( ))
- التوبہ، 71۔
- ۔آل عمران ۔195۔
- ۔مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج29 ص 215؛ بیروت، دار احیاء التراث، 1403 ق
- ابن طیفور، احمد ، بلاغات النساء، قم، شریف رضی، بلا تاریخ۔
- (( )) ۔ طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، مشہد، 1403۔
- (( )) ۔صدوق، محمد بن علی، الامالی، ص156، بیروت، موسسہ اعلمی، 1400۔
- (( )) ۔محققین موسسہ زہراء، الزہراء فی دیوان الشعر العربی ،ص21؛ بیروت، موسسہ بعثت، 1997۔
- (( )) ۔رجوع ہو : مسند فاطمۃ الزہراء امام جلال الدین سیوطی، ترجمہ و تحقیق: عبد الحمید مدنی ، لاہور، شبیر برادرز، 2016۔
- (( )) ۔اسماعیل انصاری زنجانی، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء ع، قم، دلیل ما، 1429ق۔
- (( )) ۔حلی، ابن فہد، عدۃ الداعی، ص 233؛ قم، دار الکتاب الاسلامی، 1407۔
- (( )) ۔مغربی، نعمان بن محمد، دعائم الاسلام، 1ص268، قم، موسسہ آل البیت ع، 1368۔
- (( )) ۔طبری، الریاض النضرۃ،ج 3،ص152۔
- (( )) ۔حاکم نیشاپوری، محمد بن عبداللہ ، المستدرک علی الصحیحین، 3ص175، تحقیق: مصطفی عبدالقادر، بیروت، دار الکتب العلمیتہ، 1990/1411 ۔
- (( )) ۔اربلی، کشف الغمۃ، ج 2،ص23۔
- (( )) ۔مازندرانی، ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج3 ص 132؛ قم ، موسسہ علامہ، 1379ق۔
- (( )) ۔مازندرانی ، محمد بن علی ، مناقب آل ابی طالب ع، 3ص127۔
- (( )) ۔ اربلی، کشف الغمۃ، 1ص480۔
- (( )) ۔محلاتی ، ذبیح اللہ، ریاحین الشریعۃ، 2 ص 313؛ تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1370ش ۔
- (( )) ۔ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، ص303۔
- (( )) ۔کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، 7ص78۔
- (( )) ۔اربلی،علی بن عیسی، کشف الغمۃ 2ص25؛ تبریز، بنی ہاشمی، 1380۔
- (( )) ۔مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 43 ص86۔