سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

حیات سیدہ کونین علیھا السلام میں تربیت اولاد کے عملی نمونے

مولانا صابر حسین سراج
چکیدہ:
تمام ادیان اور مفکرین عالم کے مطابق اولاد کے اخلاق و کردار سمیت ہمہ جہات سے سے تربیت کرنا والدین کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ دین مقدس اسلام نے نہ صرف اولاد کی تربیت کو قرآن و حدیث میں فرض قرار دیا ہے بلکہ چہاردہ معصومین کی سیرت طیبہ کی روشنی میں عملی لحاظ سے بھی اتمام حجت کے لئے نمونہ عمل پیش کیا ہے۔ سیدہ کونین س کی ذات گرامی کا گھرانہ دنیا جہاں کے والدین کے لئے تربیت اولاد کے سنہرے اصولوں کو سیکھنے اور انکے عملی نتائج اخذ کرنے کے لئے کائنات کی سب سے بہترین درسگاہ ہے۔ اسی نکتہ کو واضح کرنے کے لئے اس مقالہ میں حیات سیدہ کونین س سے تربیت اولاد کے چند عملی نمونوں کو ضبط قرطاس کیا ہے، جیسے الجار ثم الدار کہہ کر اخلاقیات و معنویات کا کمال سمجھانا، تین دن بھوکے رہ کر مسکین، یتیم و اسیر کو اپنے حصے کا طعام عطا کر کے انفاق فی سبیل اللہ کی عظیم مثال قائم کرنا، عورت کے لئے بہترین چیز حجاب قرار دیکر بیٹیوں کے لئے عملی طور پر حجاب کی اہمیت کو اجاگر کرنا، گھریلو کام کاج خود سے انجام دینا، اپنے ماتحت افراد کے ساتھ حسن سلوک کا بہترین نمونہ پیش کرنا، گھر میں محبت و شفقت اور ایک دوسرے کی معاونت کی فضا قائم کرنا وغیرہ تربیت اولاد کے بہترین عملی نمونے ہیں۔ اگر آج کے اس دور پر فتن میں بھی والدین اپنی اولاد کی نیک تربیت کرنا چاہتے ہیں تو تربیت اولاد کے سنہرے اصول اور ان کے عملی نمونے در سیدہ کونین علیھا السلام سے ہی ملیں گے۔
کلیدی کلمات: سیرت جناب سیدہ کونین ،عائلی نطام زندگی، ؑ، تربیت اولاد، عملی نمونے
مقدمہ
تربیت (training) کی اصطلاح عام طورپر زندگی کے ہر شعبے سے وابستہ افراد کے ہاں رائج ہے۔ علوم و فنون کی بات ہو یا جسمانی و روحانی پرورش کی، کھیل وتفریح کا میدان ہو یا علم و تحقیق کی وادی، گھر کی چار دیواری ہو یا میدان جنگ کی لڑائی، دین و مذھب کی اتباع ہو یا شوبز میں فنکاروں کی شھرت و شمولیت ہر جگہ تربیت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے کیونکہ ماں کے پیٹ سے کوئی بھی کسی بھی شعبے کا ماہر بن کر نہیں آتا بلکہ ہر میدان میں انسان کی بہترین تربیت ہی انسان کو اس میدان کا نابغہ روزگار بنا دیتی ہے۔ اسی لئے مفکرین عالم انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارنے کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کو تربیت کا نام دیتے ہیں، جیسے شہید مرتضی ٰ مطہری ؒ تربیت کی تعریف اس طرح بیان فرماتے ہیں،
” تربیت کا معنی پرورش دینا ہے اس سے مراد کسی جاندار شیء کے اندرموجود بالقوہ صلاحیتوں کو فعلیت کے مرحلہ پر لے آنا اور ان کی پرورش کرنا ہے”۔(1) اس تعریف کی رو سے تربیت ،انسان کی ہر قسم کی صلاحیت و قابلیت چاہے جسمانی ہو یا روحانی کو پروان چڑھانے کا نام ہے۔ البتہ تربیت کی تمام اقسام میں سب سے اہم انسان کے اخلاق و کردار کی تربیت ہے جس کا تعلق انسان کی روح سے ہے۔ تمام ادیا ن الہی خصوصا دین مقدس اسلام کےتمام احکامات و تعلیمات کا محور انسان کے اخلاق و کردار کی تربیت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے انبیاء الہی کے بعثت کے بنیادی اہداف میں سے ایک اہم ہدف بنی نوع بشر کی فکری تربیت کر کے اخلاق و کردار کے اوج کمال پر پہنچانے کو قرار دیا ہے جسے تزکیہ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے۔ :
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ "(2)
"وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے”
اب سوال یہ ہے کہ انسان کے اخلاق و کردار اور عادات و اطوار کی پرورش کا آغاز کب سے اور کہاں سے کرنا چاہیے؟ اس سوال کا جواب دین مقدس اسلام سمیت تمام مفکرین عالم یہی دینگے کہ اس کا بہترین وقت انسان کے بچپن کا زمانہ ہے۔ بلکہ اسلام نے انسان کی پیدائش سے پہلے رشتہ ازواج کے وقت سے ہی اولاد کے اخلاق و کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم اٹھانے کی تاکید کی ہے اور تربیت اولاد کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے اسے والدین پر فرض قرار دیا ہے۔
اب اس عظیم ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہمیں ایک آئیڈیل کی ضرورت ہے۔کائنات میں مولائے کائنات ؑ اور سیدہ کونین ؑ کے گھرانے سے بڑھ کر اور کس کا گھرانہ ہو سکتا ہے جو تربیت اولاد کے حوالے سے تمام اولین و آخرین کے لئے نمونہ عمل ہو۔ کیونکہ اس گھرانے میں مولی المتقین و ایمان کل علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسا فخر موجودات عالم باپ کا کردار ادا کر رہے ہیں تو سیدۃ النساء العالمین جیسی ہستی ماں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہی وہ گھرانہ ہے جس سے امام حسن ؑ و امام حسین ؑ جیسے جوانان جنت کے سردار اور جناب زینب ؑ و ام کلثوم ؑجیسی عظیم ہستیاں افق عالم پر منور ہوئیں ۔ آج اگر والدین اپنی اولاد کی بہترین انداز میں تربیت کرنا چاہتے ہیں اور ان کو ایمان و اخلاق و نیک کردار میں کمال پر پہنچانا چاہتے ہیں تو در سیدہ کونین علیھا السلام سے ہی اولاد کی پرورش کے سنہرے اصولوں اور عملی نمونوں کو اخذ کر کے ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جناب فاطمہ زھراء س کی سیرت کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑ اولاد کی تربیت زبانی وعظ و نصائح سے زیادہ اپنے عمل و کردار سے کیا کرتیں تھیں۔
تربیت اولاد کی ضرورت و اہمیت
دین مقدس اسلام کی نگاہ میں ایمان و کردار کے لحاظ سے اولاد کی تربیت اور پرورش کس حد تک اہم ہے اور اس کی کس قدر ضرورت ہے اس کو واضح کرنے لئے ہم قرآن و حدیث سے چند نمونے یہاں پیش کرینگے۔
جیسا کہ ارشاد الہی ہے ۔ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ ” (3)
” اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے”
صاحب الکوثر فی تفسیر القرآن اس آیت کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ "وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا ” کے تحت یہ بات کافی نہیں ہے کہ انسان خود تقدس مآب بن جائے اور اہل و عیال کو آتش جہنم سے نہ بچائے۔ مذکورہ آیت اور حدیث مبارکہ "کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ (تم میں سے ہر ایک ذمے دار ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا) ۔ (بحار ۷۲: ۳۸) کی روشنی میں جس طرح ہر شخص اپنی ذات کے بارے میں ذمہ دار ہے۔ اپنے اہل و عیال جو اس کی رعیت ہے، کا ذمے دار ہے۔ (4)
اسی طرح رسالتمآب ؐ نے ارشاد فرمایا: أدبوا أولادكم على ثلاث خصال: حب نبيكم، وحب أهل بيته، وقراءة القرآن
"اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت دو: اپنے نبی کی محبت، اپنے نبی کے اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن مجید”
تربیت اولاد کس قدر سنگین ذمہ داری ہے اور اس کی کس قدر ضرورت و اہمیت ہے ا سکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام جیسی ہستی اپنی دعاؤں میں اولاد کے حق میں دعا کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
اللھم اعنّی علی تربیتھم و تادیبھم و برّھم
(اے اللہ! (میری اولاد) کی تربیت و تادیب اور ان سے اچھے برتاو میں میری مدد فرما” (5)
سیرت سیدہ کونین علیھا السلام میں تربیت اولاد کے عملی نمونے
کائنات میں سیدہ کونین جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کی ذات گرامی ان ہستیوں میں سے ایک ہیں جن کی حیات طیبہ کو حدود و قیود کے بغیر عالمین کی مخلوقات کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔آپ ؑ نہ صرف خواتین عالم کے لئے نمونہ عمل ہیں بلکہ آپ کی حیات بابرکت میں تمام انسانیت کے لئے بھی درس عمل موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے "واما ابنتی فاطمۃ،فانھا سیدۃ نساء العالمین من الاولین و الآخرین "” بے شک میری بیٹی فاطمہؑ عالمین میں موجود اولین و آخرین کی تمام عورتوں کی سردار ہیں”(6) کا اعلان کرتے ہوئے آپ ؑ کو عالمین کے خواتین کے لئے آئیڈئل قرار دیا وہاں فرزند رسول ؐ حجت برحق قائم آل محمد عج نے اپنی توقیع میں ” "فی ابنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ لی اسوۃ حسنۃ” ” "میرے لیے رسولِ خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بیٹی میں بہترین نمونہِ عمل ہے” (7) کہہ کر آپ ؑ کی شخصیت کو ائمہ اطہار سمیت مرد و عورت سبھی انسانوں کے لئے نمونہ عمل ہونے کو واضح فرمایا۔ اس تمہید ی نکتہ کے بعد واضح ہوگیا کہ سیدہ کونین علیھا السلام کی پوری زندگی تمام انسانوں کے لئے بالعموم اور خواتین عالم کے لئے بالخصوص نمونہ عمل ہے۔
چونکہ اس مقالہ میں، جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کی حیات طیبہ سے تربیت اولاد جیسے اہم اور بنیادی فریضے کی انجام دہی کے لئے درس عمل لینا ہمارا مقصود ہے لھذا اختصار کے ساتھ یہاں آپ کی عائلی زندگی میں تربیت اولاد کے چند عملی نمونے بیان کرینگے جو بالعموم تمام والدین کے لئے اور بالاخص ماؤں کے لئے اولاد کی حسن تربیت کی خاطر مشعل راہ ہونگے۔
اولاد کے لئے اچھے ناموں کا انتخاب
بچے کی پیدائش کے بعد اولین کام جس کا والدین کو حکم ہے بچے کے لئے بہترین نام کا انتخاب ہے۔ اس حوالے سے بہت ساری روایات وارد ہوئیں ہیں ۔ جیسا کہ ارشاد رسول گرامی ؐ ہے۔ ” ان اول ماینحل احدکم ولدہ الاسم الحسن فلیحسن احدکم اسم ولدہ” (8)
”باپ کابیٹے کے لئے پہلاتحفہ اچھانام رکھناہے لہذا تم میں سے ہر ایک کو بچے کے لئے اچھے نام کا انتخاب کرناچاہئے.۔
سیرت سیدہ کونین ؑ میں اس اصول کا عملی نمونہ یوں ملتا ہے کہ سیرت کی کتابوں کے مطابق بیت فاطمہ زھراء ؑ میں بچوں کے نام رکھنے کے حوالے سے خاص اہتمام ہوا کرتا تھا۔ آپ کے دونوں بیٹوں کی پیدائش کے وقت امام علی ع پہلے جناب زھراء سے پوچھتے ہیں بچے کا نام کیا رکھا ہے؟ جناب زھراء عرض کرتی ہیں یا علی ع کیسے ہوسکتا ہے میں اس کام میں آپ پر سبقت لے جاوں۔ پھرجب رسول خدا ص تشریف لاتے ہیں اور نام کے بارے میں استفسار کرتے ہیں تو امیر کائنات یہی عرض کرتے ہیں ، یا رسول اللہ ص کیسے ہوسکتا ہے اس کام میں آپ کے ہوتے ہوئے ہم آپ ص پر سبقت لے جائیں۔ تو رسول اللہ ص بھی ارشاد فرماتے ہیں کہ پھر اس کام میں کیسے میں اپنے خا لق کائنات سے سبقت لے سکتا ہوں۔ اتنے میں جبرئیل ؑ پیغام الٰہی کو لیکر نازل ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یا رسول اللہ ؐ !پروردگار آپ کو سلام کہتاہے اورفرماتاہے کہ علی ؑ کو آپ ؐسے وہی نسبت ہے جوہارون کوموسی سے ہے مگریہ کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے لھذا اپنے بیٹے کاوہی نام رکھیں جوہارون کے بیٹے کانام تھا ۔ جناب ہارون کے بیٹوں کے نام شبر و شبیر تھے۔ رسول اللہ ؑ فرماتے ہیں یہ تو عبرانی نام ہیں تو جناب جبرئیل ؑ اس کا عربی نام حسن ؑ و حسین ؑ تجویز کرتے ہیں۔ دونوں فرزندوں کے نام اسی اہتمام کے ساتھ معین ہوتے ہیں ۔ (9) یہ واقعہ دونوں بیٹوں کی ولادت کے وقت الگ الگ پیش آیا ہے ۔اسی طرح بیٹیوں کے نام رکھنے میں بھی خاص اہتمام نظر آتا ہے۔
توحید، بندگی، ایثار، آداب دعا، خلق خدا سے محبت اور حقوق و فرائض کا عملی درس
آپ ؑ کی حیات طیبہ میں اولاد کی عملی تربیت کے حوالے سے جو واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں ان میں سے ہر واقعہ اپنے اندر عملی درس زندگی کے کئی گوشے پنہاں رکھتا ہے۔ جیسا کہ آپ ؑ کے فرزند ارجمند امام حسن مجتبیٰ ؑ سے روایت ہے ۔
قال الحسن ابن العلی علیھما السلام: رایت امی فاطمۃ علیھا السلام قامت فی محرابھا لیلۃ جمعتھا فلم تزل راکعۃ و ساجدۃحتی اتضح عمود الصبح سمعتھا تدعو للمومنین و المومنات و تکثر الدعاء لھم ولا تدعو لنفسھا بشئی فقلت لھا یا اماہ! لم تدعین لنفسک کما تدعین لغیرک ، فقالتؑ: الجار ثم الدار۔”
امام حسن علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ کو دیکھا وہ شب جمعہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہیں اور ساری رات رکوع و سجود میں گزار دیتی ہیں حتی کہ صبح نمودار ہوجاتی ہے اور ساری رات مومنین اور مومنات کے لیے دعائیں مانگتی ہیں اپنے لیے کوئی سوال نہیں کرتیں تو میں نے عرض کیا اے مادر گرامی ! آپؑ نے دوسروں کے لئے دعائیں کیں لیکن اپنے لئے کو ئی دعا نہیں مانگی ۔ تو آپ (س) نے فرمایا!”پیارے بیٹے : پہلے پڑوسی پھر گھر والے ۔” (10)
یہ دیکھنے میں ایک واقعہ ہے لیکن اس کے اندر تربیت اولاد کے کئی عملی دروس پنہاں ہیں۔ اس واقعہ میں جہاں جناب فاطمہ ؑ اپنے بچوں کے سامنے رات بھر عبادت الٰہی میں مصروف رہ کر معرفت خداوندی، توحید اور بندگی کا عملی درس دے رہی ہیں وہاں اسی واقعے میں آداب دعا ، ایثار اور حقوق و فرائض بھی عملی طور پر بچوں کو سیکھا رہی ہیں۔ کیونکہ آپ ؑ نے بچوں کے سامنے عبادت الٰہی کی بجا آوری کے بعد اپنے لئے خدا سے کچھ مانگے بغیر ہاتھ اٹھا کر تمام مومنین و مومنات کے حق میں دعا فرما کر اور اپنے فرزند کے سوال پر ” الجار ثم الدار” کہہ کر آداب و روش دعا، جذبہ ایثار اور خلق خدا سے محبت کا عملی نمونہ یہاں پیش کیا۔ ساتھ ہی پڑوسیوں اور دیگر مومنین و مومنات کے حقوق اور ان سے متعلق فرائض کی جانب بھی بچوں کو متوجہ فرمایا۔اس کے علاوہ اسی واقعہ میں آپ بچوں کو خود پسندی ، لہو و لعب اور فرائض میں کوتاہی سے دوری کا عملی درس بھی دے رہی تھی۔
آداب مجلس ، تعلیم و تعلٗم کی تشویق و اہمیت اور بچوں کی حوصلہ افزائی کا عملی درس
ایک اور واقعہ جو جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کی تربیت اولاد کے حوالے سے بہترین روش کے طور پر معروف ہے وہ یہ ہے۔ابن شھر آشوب ابو السعادات سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن مجتبی(ع) سات سال کی عمر میں ہر روز (مسجد میں) رسول اللہ ؐ کی مجلس میں حاضر ہوجایا کرتے تھے اور (پیغمبر اکرم(ص) سے وحی الہی کو سن کر اسے ذہن نشین کرلیتے تھےاور جب اپنے گھر واپس آتے تو اپنی والدہ ماجدہ جناب سیدہ کونین(س) کو من و عن سناتے تھے اور جب حضرت امیر المؤمنین(ع) گھر تشریف لاتے تھے تو حضرت صدیقہ طاہرہ(س) وہ سب باتیں ان کے سامنے بیان کردیتی تھیں۔ایک دن حضرت امیر المؤمنین(ع) نے پوچھا اے فاطمہ تم تو مسجد میں نہیں گئیں یہ باتیں کہاں سے سیکھیں اسی وقت جناب سیدہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ مجھے میرا بیٹا حسن بتلاتا ہے وہ ہر روز مسجد میں جاتا ہے اور اپنےجدحضرت محمد (ص) سے جو کچھ سنتا ہے وہ مجھےگھرآکربتادیتاہے۔
حضرت نے فرمایا فاطمہ(س)! میں بھی یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کا بیٹا کیسےبتلاتا ہے ۔جناب صدیقہ طاہرہ(س) نے فرمایا میرا خیال ہے کہ وہ شرم کی وجہ سے آپ کے سامنے نہیں سنا پائے گا حضرت نے فرمایا میں کسی جگہ پر چھپ کر اس کی باتیں سن لوں گا اگلے دن امام حسن(ع) ہر روز کی طرح مسجد سے گھر ےتشریف لائے تو حضرت صدیقہ (س) نے فرمایا:اے میرے نور نظر! تمہارے نانا نے آج کیا فرمایا ہے؟ امام حسن(ع) ہر روز کی طرح بیان کرنا چاہتے تھے لیکن زبان مبارک میں لکنت آجاتی تھی اور اپنی بات مکمل طور پر بیان نہ کرنے پر فرمانے لگے :’’یا اماه قل بیانی وکل لسانی لعل سیداً یرعانی‘‘۔ اے والدہ گرامی! میرا بیان کم ہو گیا ہے اور میری زبان گنگ ہو گئی شاید کوئی بزرگوار مجھے دیکھ رہے ہیں حضرت امیر علیہ السلام جلدی سے دروازے کے پیچھے سے نکل آئے اور بے اختیار انہیں اپنی آغوش میں بٹھایا اور ان کے ہونٹوں کا بوسہ لیا۔ (11)
اس واقعہ میں ایک طرف جناب فاطمہ زھراء ؑ کی بچوں کی بہترین نگہداری اور سر پرستی نمایاں ہیں تو دوسری طرف آپ ؑ کا اپنے بچوں کو بچپن میں مسجد بھیجنا اور وہاں سے واپسی پر رسول اللہ ؐ کے بیان کردہ بیانات و احکامات کے بارے میں استفسار کرنا آپ ؑ کی سیرت سے اپنے بچوں کو آداب مجالس کی تعلیم دینے اور تعلیمات اسلامی کو سیکھنے کی تشویق دلانے اور اس کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا عملی نمونہ اجاگر کرتاہے۔ کیونکہ جناب فاطمہ زھراء ؑ اس واقعہ کے ضمن میں اپنے بچوں کو آداب مجالس ( مجالس و محافل میں جو کچھ بیان ہو اسے غور سے سننا اور ذھن نشین کرنا) کی تعلیم کے ساتھ ساتھ با مقصد مجالس میں شرکت اور وہاں سے کچھ سیکھنے کا عملی درس دے رہی تھیں ۔ساتھ ہی آپ ؑ کا اپنے فرزند سے روز احوال مجالس اور وہاں بیان شدہ وحی کے بارے میں استفسار کرنا اور اپنے فرزند کی حوصلہ افزائی کرنا آپ ؑ کا بچوں کو تعلیمات اسلامی کو سیکھنے کی تشویق اور اس کی اہمیت اجاگر کرنے کی عملی مثال ہے۔اور آپ ؑ کا امام علی ؑ کو اس روش سے بخوشی آگاہ کرنا پھر امام ؑ کا اپنے فرزند کے اس عمل پر ان کو بہت زیادہ پیار دینا اور ان کے بوسے لینا ،بچوں کی بہترین تربیت ، نیک عمل پر ان کی حوصلہ افزائی اور تعلیمات اسلامی سیکھنے کی تشویق کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہے۔
بچوں سے پیار و محبت میں بھی عملی درس زندگی
تمام مفکرین عالم اور دین مقدس اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کو بچپنے میں پیار و محبت کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام نے بھی بچپنے میں اولاد سے پیار و محبت سے پیش آنے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے۔ چنانچہ امام جعفر صادق ؑ سے روایت ہے۔
"عن أبى عبد الله عليه السلام قال: قال موسى عليه السلام يا رب أي الاعمال أفضل عندك ؟ قال: حب الاطفال فاني فطرتهم على توحيدي فان أمتهم أدخلتهم جنتي برحمتي.” (12)
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت موسیؑ نے عرض کیا: خدا یا کون سا عمل تیرے نزدیک افضل و برتر ہے؟ ارشاد ہوا: بچوں سے محبت کرنا کیونکہ میں نے ان کی فطرت کو اپنی توحید پر استوار کیا ہے اور اگرمیں ان کو موت دوں تو میں اپنی رحمت کے ساتھ ان کو اپنی جنت میں دا خل کروں گا۔
جناب فاطمہ زھرا ء کی پوری حیات طیبہ میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ آپ ؑ نے کبھی اپنے بچوں پر غصہ کیا ہو بلکہ آپ ؑ ہمیشہ بچوں سے مہر ومحبت سے پیش آتیں تھیں۔ یہی نہیں بلکہ آپ بچوں سے اظہار محبت میں بھی ان کو عملی زندگی کا درس دے رہی ہوتیں تھیں۔ چنانچہ نقل ہوا ہے کہ آپ ؑ اپنے فرزند ارجمند امام حسن ؑ سے پیار و محبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کو ہاتھوں پر اچھال کر یہ اشعار ارشاد فرماتی تھیں۔
’اشبه اباک یا حسن واخلع عن الحق الرسن واعبد الها ذالمین ولا توال ذا الاحن‘‘ (13)
"اے حسن اپنے والد کی طرح بنو اور حق کی گردن سے رسی اتار پھینکو اور نعمت عطا کرنے والے خدا کی عبادت کرو اور کینہ پرستوں کو دوست نہ رکھو۔”
سبحان اللہ ! بچے سے اظہار محبت بھی ہے اور محبت کے ساتھ بچے کو اپنے بابا کی طرح شجاع بننے حق پر قائم رہنے ذات الہی کی عبادت انجام دینے اور دوستی سے متعلق نصیحت بھی فرما رہی ہیں۔ چونکہ بچہ اظہار محبت کے دوران مکمل محبت کا اظہار کرنے والے کی جانب کاملا متوجہ ہوتا ہے اسلئے اس موقع پر پیار و محبت میں بچے کو عملی زندگی کے لئے آمادہ کرنا جناب فاطمہ س کی سیرت طیبہ سے نمایاں ہوتا ہے۔
اسی طرح حدیث کساء میں ہم پڑھتے ہیں کہ جناب فاطمہ زھرا ؑء کس قدر محبت اور شفقت کے انداز میں اپنے فرزندوں کو پکارتی ہیں۔ کہ جب امام حسن مجتبی و امام حسین علیھما السلام باری باری گھر تشریف لاتے ہیں اور آپ پر سلام کرتے ہیں۔ تو آپ کس خوبصورتی اور محبت بھرے انداز میں جواب دیتی ہیں ملاحظہ فرمائیں جو کہ جناب فاطمہ زھراء سے ہی روایت ہے۔
” وَاِذا بِوَلَدِىَ الْحَسَنِ قَدْ اَقْبَلَ وَقالَ السَّلامُ عَلَیْکِ یا اُمّاهُ فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ السَّلامُ یا قُرَّهَ عَیْنى وَثَمَرَهَ فُؤ ادى ۔۔۔۔ وَاِذا بِوَلَدِىَ الْحُسَیْنِ قَدْ اَقْبَلَ وَقالَ السَّلامُ عَلَیْکِ یا اُمّاهُ فَقُلْتُ وَعَلَیْکَ السَّلامُ یا وَلَدى وَیا قُرَّهَ عَیْنى وَثَمَرَهَ فُؤ ادى ۔۔” (14)
"اور پھر میرے بیٹے حسن ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میرا میوہ دل۔۔۔ اورجب میرے بیٹے حسین ؑ تشریف لائے اور کہا مادر جان ! آپ پر سلام ہوِ،تو میں نے کہا تم پر بھی سلام ہو اے میرے لخت جگر، میری آنکھوں کی ٹھنڈک اورمیرے میوہ دل۔۔”
جب آپ کے دونوں باری باری تشریف لاکر آپ کو سلام کرتے ہیں تو آپ نہ صرف سلام کا جواب دیتی ہیں بلکہ ان سے پیار و محبت کا اظہار بھی فرماتی ہیں۔ جیسے صرف و علیک السلام نہیں کہا بلکہ دونوں کے سلام کے جواب میں فرمایا وعلیک السلام اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور میوہ دل۔۔ یہاں آپ نے بچوں سے پیار و محبت کے ساتھ بات چیت کی اس کے ساتھ ساتھ اولاد کے ساتھ محبت میں یکسانیت کا درس بھی دیا کہ جس طرح امام حسن ع سے محبت کا اظہار کیا بالکل انہی الفاظ اور اسی انداز میں امام حسین ع کے ساتھ بھی اظہار محبت فرمایا۔
آپ اپنے بچوں سے کس قدرمحبت کرتیں تھیں اس کا اندازہ ہم اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جب آپ ؑ کی رحلت نزدیک تھی تو حضرت علی ؑکے لئے وصیت فرماتی ہیں کہ میرے بچوّں کے لئے کوئی ایسی خاتون تلاش کریں جو ان سے محبت کرتی ہوں تاکہ میری اولاد ماں کی محبت سے محروم نہ ہو۔” (15)
ایثار و قربانی جودو سخا اور انفاق فی سبیل اللہ کا عملی درس
صاحب الکوثر فی تفسیر القرآن سورہ دھر کی آیت نمبر 5سے 22 تک کی تفاسیر کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ یہ آیات اہل بیت علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔ان آیات کا شان نزول زمخشری نے اپنی تفسیر الکشاف میں درج کیا ہے کہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حسن و حسین (علیہما السلام) مریض ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چند لوگوں کے ہمراہ عیادت کے لیے آئے۔ لوگوں نے کہا: اے ابوالحسن! اپنے بیٹوں کی خاطر نذر مان لیں۔ چنانچہ علیؑ فاطمہؑ اور ان کی کنیز فضہ نے نذر مانی کہ اگر حسنین (علیہما السلام) شفایاب ہو جائیں تو تین دن روزہ رکھیں گے۔ چنانچہ حسنین (علیہما السلام) شفایاب ہوئے لیکن ان کے گھر میں کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ علی (ع) نے شمعون خیبری یہودی سے تین صاع جو قرض لیا۔ اور فاطمہ (س) نے ایک صاع جو پیس لیئے اور پانچ روٹیاں پکائیں اور ان کے سامنے افطار کے لیے رکھ دیں تو ایک سائل ان کے دروازے پر کھڑا ہوا اور کہا: السلام علیکم اہل بیت محمد! میں مسلمانوں کے مساکین میں سے ایک مسکین ہوں مجھے کچھ کھلائیں۔ اللہ آپ کو جنت کے دسترخوان سے اطعام کرے۔ چنانچہ سب نے اس مسکین کو ترجیح دی اور صرف پانی پر افطارکیا اور دوسرے دن روزہ رکھا۔ دوسرے دن بھی جب افطار کے لیے بیٹھ گئےاور ایک یتیم نے سوال کیا تو سارا کھانا اس یتیم کو دیا۔ تیسرے دن ایک اسیر نے سوال کیا تو سارا کھانا اس اسیر کو دیا۔ چنانچہ علی علیہ السلام حسن اور حسین (علیہما السلام) کے ہاتھ پکڑ کر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انہیں گرسنگی کی وجہ سے چوزے کی طرح لرزتے دیکھا تو فرمایا: جو حال تمہارا میں دیکھ رہا ہوں اس سے میں شدید متاثرہوا ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے ہمراہ گئے تو دیکھا حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) محراب عبادت میں گرسنگی کی حالت میں ہیں اور آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئے پس جبرئیل نازل ہوئے اور کہا یہ لیجیے اپنے اہل بیت کے بارے میں آپ کو مبارک ہو۔ پھر یہ سورہ پڑھ کر سنایا۔۔ (16)
اس واقعہ سے آشکار ہوتا ہے کہ جناب فاطمہ زھراء س اپنے خاندان کے افراد کے ہمراہ منت کے تین دن روزہ رکھتی ہیں اور آپ کے دونوں بچے امام حسن و امام حسن علیھما السلام بھی آپ ؑکی معیت میں روزے رکھتے ہیں اور تینوں دن مسکین و یتیم اور اسیر آنے پر افطاری کے وقت اپنی افطاری کو راہ خدا میں انفاق کر دیتے ہیں ۔ تو خدا بھی ان ہستیوں کی مدحت میں سورہ دھر ناز ل فرماتا ہے۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح بہترین اور خوبصورت ترین انداز میں آپ ؑ نے اپنے بچوں کو عملی طور پر ایثار و قربانی جودو سخا اور انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین درس دیا۔
امامت و ولایت کی ضرورت و اہمیت اور محافظت کا عملی درس
دین مقدس اسلام میں امامت و ولایت کی کس حد تک اہمیت اور ضرورت ہے اس کا اندازہ خود جناب زھراء علیھا السلام کے تاریخی خطبہ "خطبہ فدک” سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ؑ فرماتی ہیں: ” فجعل الله…اطاعتنا نظاما للملة و امامتنا أمانا للفرقة” (17)
”اللہ تعالیٰ نے ہماری اطاعت کو ملت کے نظام اور ہماری امامت کو تفرقہ سے امان کا سبب قرار دیا ہے۔” آپ ؑ نے اپنے بچوں کو دین اسلام کے اس بنیادی عقیدے کی اہمیت وضرورت نہ صرف زبانی سمجھا دی بلکہ اپنے عمل سے بچوں کو دکھایا کہ کس طرح مصائب و آلام میں امامت کی حفاظت کی جاتی ہے۔ رحلت رسول اللہ ؐ کے بعد اگرچہ امت کے ظلم و ستم کی وجہ سے سیدہ کونین ؑ صرف پچہتر یا پچانوے دن اس دنیا میں زندہ رہیں لیکن اس قلیل مدت میں آپ ؑ نے امامت و ولایت کے دفاع میں اس قدر جد و جہد کی کہ آپ کو اولین شہیدہ ولایت کہا جاتا ہے۔ آپ جو کچھ عمل ولایت و امامت کی خاطر بجا لا رہی تھیں آپ کے بچے عملی طور پر ان کو ملاحظہ کر رہے تھے۔ بعد از رحلت پیمبر ؐ امامت و ولایت کی محافظت کے لئے دلیرانہ جد و جہد کا مشاہدہ آپ کے بچوں نے بذات خود فرمایا۔
جیسا کہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ جب اہل مدینہ کو آپ ؑ کا اپنے بابا کو یاد کرتے ہوئے گریہ و زاری کرنا بھی گوارا نہ ہوا اور امیر المومنین ؑ کی بارگاہ میں شکایت کی آپ فاطمہ ؑ سے کہیں کہ یا دن کو روئیں یا رات کو، جب امام علی ؑ نے مدینہ کے ان لوگوں کی بات جناب زھراء کی بارگاہ میں پہنچا دی تو آپ نہایت غمگین ہوئیں ۔ اس کے بعد حضرت علیؑ نے بی بی کے لئے قبرستان بقیع میں ایک سائبان تیار کیا جس کا نام بیت الاحزان رکھا گیا۔حضرت فاطمہؑ روزانہ حسنؑ و حسینؑ کو ساتھ لے کر بیت الاحزان میں چلی جاتیں تھیں جہاں شام تک آپ اپنے والد کو رویا کرتی تھیں اور جیسے ہی شام ہوتی حضرت علیؑ وہاں آتے اور بی بی اور بچوں کو ساتھ لے کر گھر آ جاتے تھے۔ (18)
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے آپ ؑ نے رحلت رسول خدا ؐ کے بعد امامت و ولایت کے دفاع کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات میں بچوں کو بھی شامل رکھا چاہے وہ دربار میں حاضر ہوکر خطبہ دینے کا مرحلہ ہو یا بچوں کا ہاتھ تھام کر بیت الاحزان جا کر احتجاج رقم کرنے کا مرحلہ ہو۔یوں آپ ؑ نے عملی طور پر نہ صرف اپنے بچوں کو ولایت و امامت کی ضرورت و اہمیت سے آگاہ فرمایا بلکہ اپنے فرزندوں کو اس عظیم عہدہ الٰہی کو سنبھالنے کے لئے بھی تربیت دی اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب میں صبر و استقامت کے ساتھ عملی جد و جہد کا اپنے عمل سے درس دیا۔
خودداری، عاجزی و انکساری اور ماتحت افراد کے ساتھ حسن سلوک کا عملی درس
کائنات کی سب سے بہترین درس گاہ ” بیت علی و فاطمہ علیھما السلام” نہ صرف اپنی اولاد کے لئے بلکہ کائنات کے تمام مرد و عورت کے لئے تمام معاملات زندگی خصوصا عائلی نظام زندگی کے سنہرے اصولوں کو سیکھنے کے لئے بہترین مرجع ہے۔ سیدہ کونین علیھا السلام سید الانبیاء و ملیکۃ العرب کی صاحبزادی خود اپنے گھریلو کاموں کو انجام دیتی تھیں، چکی چلاتی تھیں اور دیگر تمام کاموں کو بغیر کسی شکوہ شکایت کے اپنا فرض سمجھ کر انجام دیتی تھیں۔ اس حوالے سے امام علی ؑ کی ایک روایت ہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں، ”
انها کانت عندی و کانت من احب اهله الیه و انها استقت بالقربة حتی اثر فی صدرها و طحنت بالرحی حتی مجلت یداها و کسحت البیت حتی اغبرت ثیابها و اوقدت النار تحت القدر حتی دکنت ثیابها فاصابهامن ذالک ضرر شدید۔۔۔۔ الخ” (19)
"وہ میرے پاس آ گئی جبکہ وہ اپنے اہل وعیال میں سب سے محبوب ترین ذات تھی انہوں نے اس قدر کنویں سے مشک کے ذریعے پانی نکالا کہ ان کا سینہ اس کی وجہ سے متاثر ہوا اور اس حدتک آٹا تیار کرنے کے لئے دستی چکی چلائی کہ ان کے ہاتھ زخمی ہوئے اور جھاڑو دینے سے کپڑے گرد آلود ہوتے تھے اور چولہے کو جلاتے جلاتے ان کے کپڑے بھی جل جاتے تھے اور اس کی وجہ سے ان کو بہت زیادہ تکلیف پہنچتی تھی۔۔۔”
اس روایت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام اس قدر خوددار تھیں کہ اپنے کاموں کو خود انجام دیتی تھیں اس کے ساتھ ہی آپ اپنے بچوں کو اپنے اس عمل کے ذریعے خودداری اور اپنے کاموں کو خود سے انجام دینے کا عملی درس بھی دے رہی تھیں۔ اور آپ ؑ کی عاجزی و انکساری کی انتہاء یہی تھی کہ ملیکۃ العرب اور سید الانبیاء و اوصیاء کی صاحبزادی، مولائے کائنات کی زوجہ اور جوانان جنت کی ماں ہونے کے باوجود کبھی گھریلو کاموں کو انجام دینے میں عار محسوس نہ کی۔ اور جب جناب فضہ آپ ؑ کی خدمت کے لئے آئیں تب بھی آپ ؑ نے گھریلو کاموں کی انجام دہی کے لئے اس طرح انتظام فرمائی تھی کہ ایک دن خود کام انجام دیتی تھیں اور ایک دن جناب فضہ کام انجام دیتی تھیں (20) ۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ آپ ؑ کس قدر انکساری اور عاجزی سے پیش آتیں تھیں۔ اس طرح اس قسم کے امور سے آپ ؑکے بچے عملی طور پر آپ ؑ سے خودداری، عاجزی و انکساری اور اپنے ماتحت افراد کے ساتھ حسن سلوک کا درس آپ ع کی حیات طیبہ سے سیکھ رہے تھے۔
بیٹیوں کو حجاب کی اہمیت کا عملی درس
تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ؐ نے مسجد میں اصحاب کے مجمع سے ایک سوال کیا کہ آپ لوگوں کی نظر میں ایک آزاد اور دانشمند خاتون کے نزدیک بہترین و شائستہ ترین چیز کیا ہے؟ اس دوران امام علی ؑ اٹھے اور گھر تشریف لے جاکر جناب فاطمہ زھراء ؑ کی خدمت میں اس سوال کو پیش کیا تو آپ ؑ نے ارشاد فرمائی”خَيْرٌ لِلِنّساءِ أنْ لا يَرَيْنَ الرِّجالَ وَ لا يَراهنَّ الرِّجالُ. (21) ”عورتوں کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ (نا محرم)مردوں کو نہ دیکھیں اور نہ ہی (نامحرم)مرد انھیں دیکھیں”
ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ایک روز رسول خدا ؐ کے ہمراہ بیت زھراء ؑ میں ایک نابینا آدمی داخل ہوا تو حضرت زہراء (علیہا السلام) نے پردہ کیا. رسول اکرم (ص) نے فرمایا: جان پدر! یہ شخص نابینا ہے اور دیکھتا نہیں ہے تو آپ ؑ نے عرض کیا … "إنْ لَمْ يَكُنْ يَرانى فَإنّى أراه، وَ هوَ يَشُمُّ الريح.”(22) "اگر وہ (نابینا)مجھے نہیں دیکھ سکتا تو میں تو اسے دیکھ سکتی ہوں اور وہ خوشبوتو سونگھ سکتا ہے ۔”
خواتین کے لئے حجاب سے متعلق سیرت جناب زہراء ؑ سے نمونے کے طور پر ان دونوں واقعات کو مشاہدہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف آپ ؑ مذکورہ اقوال و افعال کے ذریعے خواتین عالم کو حجاب کی اہمیت سے آگاہ فرما رہی تھیں تو دوسری جانب آپ ؑ کی بیٹیاں گھر میں آپ ؑ کی اس سیرت کا مشاہدہ کر رہی تھیں تو عملی طور پر آپ ؑ اپنی بیٹیوں کی تربیت بھی فرما رہی تھیں۔
اولاد کے لئے بہترین ماحول کی فراہمی
اسلام نے ماں کی گود کو اولاد کے لئے اولین درسگاہ قرار دیا ہے اور " قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا” ( اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ” کا حکم دیکر اولاد کی نیک تربیت کو والدین کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے قرار دیا ہے۔اس لحاظ سے میاں اور بیوی دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے گھر میں ایسا ماحول مہیا کریں جس میں عملی طور پر ان کی اولاد کی شخصیت سازی ہو جائے۔ اس ضمن میں میاں بیوی کے آپس کے تعلقات کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اگر میاں بیوی اولاد کے سامنے ایک دوسرے سے لڑتے جھگرتے رہیں اور ایک دوسرے کو گالم گلوچ دیتے رہیں ایک دوسرے کی عزت نفس کا خیال نہ رکھیں تو لا محالہ اس کے برے اثرات ان کے بچو ں پر ہونگے۔ اس کے برعکس اگر میاں بیوی ایک دوسرے کا احترام کریں ، کام کاج میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور گھر میں پیار و محبت کی فضا قائم رکھیں تو اس کے بہترین اثرات بچوں پر مرتب ہونگے۔ اگر ہم جناب فاطمہ زھرا ء س کے گھرانے پر اس لحاظ سے نظر دوڑائیں تو ہمیں ایک بہترین آئیڈیل ازدواجی زندگی کی مثال دیکھنے کو ملے گی۔کہ ایک طرف امام علی ؑ گھریلو کام کاج میں جناب فاطمہ س کا ہاتھ بٹا رہے ہیں تو دوسری جانب جناب فاطمہ زھراء ؑ گھریلو کام کاج کے علاوہ مولائے کائنات کے ہتھیاروں بالخصوص ذوالفقار وغیرہ کی صفائی کر کے ان کی معاونت کر رہی ہیں۔ جناب امیر کائنات اور سیدہ کونین علیھما السلام اپنے گھر میں کس طرح کا ماحول بنائے ہوئے تھے اس کو واضح کرنے کے لئے مولائے کائنات ع کی ایک روایت بیان کرتے ہیں۔ امام علی ؑ ارشاد فرماتے ہیں
"فو الله ما اغضبها و لا اکرهتها علی امر حتی قبضها الله ولا اغضبتنی ولا عصت لی امر امرا،لقد کنت انظر الیها فتنکشف عنی الهموم و الاحزان” (23)
"اللہ کی قسم میں نے انکی زندگی میں کبھی ان پر غصہ نہیں کیا اور نہ ہی میں نے کسی معاملے میں ان کو ناراض کیا یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رحلت کر کے بارگاہ الہی میں پہنچ گئیں، اور نہ ہی کبھی انہوں نے مجھے ناراض کیااور نہ خود ناراض ہوئیں اور نہ ہی انہوں نے کسی معاملہ میں میری نافرمانی کی، جب بھی میں ان پر اپنی نگاہ ڈالتا تو میرے ہموم واحزان ختم ہو جاتے اور مجھے سکون مل جاتا”
اس سے اندازہ لگائیے کہ انہوں نے کس طرح کا ماحول اپنی اولاد کو مہیا کیا ہوا تھا کہ عملی طور پر اولاد کی بہترین انداز میں شخصیت سازی ہو رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پھر اس گھرانے سے ایسی ہستیاں صفحہ کائنات پر اجاگر ہوئیں جو پوری انسانیت کے لئے قیامت تک بہترین نمونہ عمل قرار پائیں۔

خلاصہ
تمام چہاردہ معصومین علیھم السلام بشمول سیرت طیبہ جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام کا مطالعہ ایک بحر بیکراں کی مانند ہے جس سے ہم اپنی ظرفیت اور فھم کے مطابق کچھ گوہر حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر جناب فاطمہ زھراء علیھا السلام جیسی ہستی جو اسرار الٰہیہ میں سے ہیں، آپ کی سیرت کے کسی ایک پہلو کا مطالعہ کر کے کچھ مطالب ضبط قرطاس کرنا سمندر کے مقابلہ میں قطرے کی مانند ہے۔ کیونکہ بہت ساری جہات آپ کی سیرت طیبہ میں پنہاں ہیں اور جس قدر اہل علم و فکر ان جہات کا گہرائی سے مطالعہ کرتے جاتے ہیں اسی قدر نت نئی جھات سے پردہ اٹھتا جاتا ہے۔ بہرحال اس مقالہ میں سیرت طیبہ جناب زھراء کی روشنی میں تربیت اولاد جیسے اہم اور بنیادی موضوع پر قلم فرسائی کی ادنی سی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ ان مطالب پر کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں تالیف ہوسکتی ہیں۔ تاہم موجودہ مقالہ میں سیرت فاطمہ س میں سے تربیت اولاد کے چند عملی نمونوں کو مختصرا اور خلاصۃ پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ آپ کی سیرت طیبہ کا بالعموم اور تربیت اولاد کے پہلو کا بالاخص مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہےکہ آپ زبانی تعلیم و تادیب کی بجائے عملی طور پر تعلیم و تادیب کیا کرتیں تھیں۔ آپؑ کا اپنی اولاد کے سامنے رات بھر محراب عبادت میں کھڑے ہو کر عبادت الہی بجالانا، کام کاج کے دوران بھی تسبیح و تقدیس میں مصروف رہنا، صدقات و خیرات فراخدلی سے دینا، اپنے عمل سے بچوں کو تعلیم و تمرین کی تشویق دلانا،اپنے کام کاج خود انجام دینا، اپنے ماتحت افراد کے ساتھ حسن سلوک روا رکھنا ، نابینا شخص سے بھی حجاب کرنا، بچوں کے نام رکھنے کے لئے خاص اہتمام کرنا اور امامت و ولایت کی حفاظت کی خاطر ہر ممکن جدوجہد کرنا سب کچھ نہ صرف آپ ع کی اپنی اولاد کے لئے بلکہ قیامت تک کے والدین کے لئے تربیت کرنے کے سنہرے اصول اور بہترین عملی نمونے ہیں۔لہذا آج کے اس دور پر فتن میں اگر والدین اپنی اولاد کی صالح تربیت کرنا چاہتے ہیں اور انکے اخلاق و کردار کو سنوارنا چاہتے ہیں تو ان کو سیرت طیبہ جناب فاطمہ زھراء س سے تربیت اولاد کے سنہرے اصولوں کو سیکھنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ لا محالہ اگر سیرت فاطمہ س کے مطابق اپنی اولاد کی تربیت کی کوشش کی جائے تو سید رضی و سید مرتضی علم الھدی، آیت اللہ روح اللہ خمینی اور آیت اللہ ابو القاسم خوئی جیسی شخصیات آج بھی دنیا کے سامنے پیش کی جا سکتی ہیں۔

حوالہ جات:

  1. ۔ مطہری، آیت اللہ شہید مرتضی "تعلیم و تربیت در اسلام”، انتشارات صدرا، 2003، ص:43
  2. ۔ القرآن الکریم: 62:02
  3. . القرآن الکریم، 66:06
  4. ۔ نجفی، شیخ محسن علی،  الکوثر فی تفسیر القرآن،  مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور ج:09 ص:229
  5. ۔حسین، مفتی جعفر، ” صحیفہ کاملہ: ادعیہ  امام زین العابدین  علیہ السلام” امامیہ پبلیکشنز لاہور ، ص: 238
  6. ۔ صدوق، شیخ محمد بن علی، الامالی، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات بیروت، لبنان، ص:175
  7. ۔ طبرسی، ابو نصر احمد بن علی، الاحتجاج للطبرسی، دار النعمان، جلد:2، ص: 238
  8. ۔ المجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، الطبعہ الثانیہ، ۱۹۸۳ء، موسسۃ الوفاء ،بیروت لبنان,  ج:104، ص:130۔
  9. ۔ صدوق، شیخ محمد بن علی، معانی الاخبار، الکساء پبلشرز کراچی، 2005، ص،96-97
  10. ۔ العاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعہ، دار احیاء التراث، جلد:4، ص:1151،حدیث:08
  11. ، ۔ ابن شھر آشوب، محمد بن علی، المناقب، المکتبہ الحیدریہ، ج:04، ص؛07
  12. ۔ المجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، الطبعہ الثانیہ، ۱۹۸۳ء، موسسۃ الوفاء ،بیروت لبنان, ج: 101 ,ص 97
  13. ۔ اایضاً،ج 43 ص 286
  14. ۔ قمی، ثقۃ الاسلام محمد عباس، مفاتیح الجنان، العمران پبلیکشنر لاہور، ص:1571۔
  15. ابن شھر آشوب، محمد بن علی، المناقب، المکتبہ الحیدریہ، ج:04، ص؛ 362
  16. ۔ نجفی شی محسن علی الکوثر فی تفسیر القرآن مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور ج:09 ص:419
  17. ۔ المجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، الطبعہ الثانیہ، ۱۹۸۳ء، موسسۃ الوفاء ،بیروت لبنان, ج 43 ,ص 158
  18. ۔ قزوینی، آیت اللہ محمد کاظم، "فاطمہ طلوع سے گروب تک” قزوینی فاونڈیشن قم المقدس ایران، 1980، ص:559۔
  19. . المجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، الطبعہ الثانیہ، ۱۹۸۳ء، موسسۃ الوفاء ،بیروت لبنان ,ج ,43 ,ص 158
  20. 20۔ الزنجانی،اسماعیل  الانصاری ، الموسوعۃ الكبری عن فاطمۃ الزہراء، ج‏ ۱۷، ص ۴۲۹.
  21. ۔ لمجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، الطبعہ الثانیہ، ۱۹۸۳ء، موسسۃ الوفاء ،بیروت لبنان, ج:43، ص:54
  22. ۔ شوشتری، قاضی نور اللہ، احقاق الحق، مکتبۃ الاسلامیۃ تہران، ج:10، ص:258
  23. ۔ المجلسی،محمد باقر، بحار الانوار، الطبعہ الثانیہ، ۱۹۸۳ء، موسسۃ الوفاء ،بیروت لبنان, ج -۴۳، ص ۱۴۳.

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button