سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں احترام فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نمونے
مولانا اشرف حسین اخوندزادہ، حوزہ علمیہ نجف اشرف
اس مقالے میں ہمارا موضوع "سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں احترام فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نمونے”ہے ۔ پس یہاں مذکور چند نمونے احترام فاطمہ سلام اللہ علیہا میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جزئی واقعات نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے بار بار اور مستقل طرز عمل کے طور پر انجام دئیے جانے والے احترام کے مظاہر ہیں ۔ اس اہم موضوع کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سیرت اور تاریخ میں فرق کو سمجھیں۔
سیرت اور تاریخ میں فرق
سیرت اور تاریخ میں فرق کو ہم دو سوالوں کی صورت میں بآسانی سمجھ سکتے ہیں
1۔جب حضرت ابو طالب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کفار مکہ کا پیغام پہنچایا کہ دعوت توحید کو ترک کرنے کے عوض آپ جس چیز کا مطالبہ کریں ہم پورا کرنے کے لئے تیار ہیں تو اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا جواب دیا ؟
2۔ جب آپ کو کفار مکہ طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے تو ان کے مقابلے میں آپ کا رد عمل کیسا ہوتا تھا ؟
ان دونوں سوالوں میں دو چیزیں مشترک ہیں
1۔ دونوں سوالوں کا تعلق ماضی سے ہے
2۔ دونوں کا تعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رد عمل سے ہے ۔
لیکن دونوں سوالوں میں ایک چیز مختلف ہے ، وہ یہ کہ پہلا سوال ایک خاص اور جزئی واقعے کے تناظرمیں ہے جبکہ دوسرا سوال ایک رویے کے مقابل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رویے کے تناطر میں ہے ۔ لہذا ان دونوں سوالوں میں سے پہلے کا جواب تاریخ کہلائے گا جبکہ دوسرے کا جواب سیرت۔
"پس رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکہ میں ولادت ، آپ کا حضرت عبد المطلب اور حضرت ابو طالب علیہما السلام کے سایہ عاطفت میں پرورش پانا ، آپ کی حضرت خدیجہ کبریٰ سلام اللہ علیہا سے شادی ، آپ کا غار حرا میں عبادت کرنا ، آپ پر وحی الہی کا
نازل ہونا ، آپ کو معراج کے سفر پر لیجایا جانا ، کفار مکہ کی طرف سے آپ کو قسم قسم کی اذیتیں دینا ، آپ کا مدینہ کی جانب ہجرت کرنا وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تاریخ ہے ۔
جبکہ تبلیغ دین حنیف کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر قسم کی مشکلات کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرنا ، باطل کے مقابل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اشداء ہونا اور مؤمنین کے لئے رؤف ہونا ، آپ کا صاحب خلق عظیم ہونا، آپ کا لا تاخذ فی اللہ لومۃ لائم ہونا ، آپ کا ہر کسی کی بات کو غور سے سننا ، آپ کا اپنے دشمنوں کو معاف کرنا ، بطور انسان سب کا احترام کرنا وغیرہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت ہے” (1)
تاریخ سے بھی آپ کی شخصیت ، اللہ تعالی کی جانب سے آپ پر خصوصی عنایات ، آپ کی خاندانی عزت و وقار ، اور ذاتی کمالات کا پتہ چلتا ہے لیکن سیرت سے جہاں مذکورہ امور کا پتہ چلتا ہے وہاں سیرت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی طور پر اقتداء کا تقاضا بھی موجود ہے۔ اس لئے قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
"لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ،” (2)
"بتحقیق تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ ہے ۔”(احزاب۔ 21)
اسی طرح سورہ آلعمران آیت31میں فرمایا
"قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡیُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ " (3)
” کہدیجئے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا ۔”(آلعمران آیت31)
سیرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہمیت ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام کو اگر مجسم کیا جائے تو سیرت و کردار مصطفی کیشکل میں ہی دکھائی دیگا ۔ لہذا دین الہی کی عملی شکل اور کلام الہی پر درست عمل کی کیفیت کو جاننے اور سمجھنے کے لئے سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے زیادہ معتبر کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا ۔ پس سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم سے آشنائی فقط تاریخی واقعات کا علم حاصل کرنا نہیں بلکہ اسلام کی عملی صورت کو اس کی سب سے معتبر ، سب سے بڑی اور سب سے عظیم شخصیت کے عمل میں مجسم طور پر تلاش کرنا بھی ہے ۔ لہذا سیرت نبوی سے ہمیں
1۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی شخصیت اور مقام و مرتبے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔
2۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے عمل سے ہمارے لئے عملی زندگی کے بہت سے احکام واضح ہو جاتے ہیں ۔
3۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے سلوک کی روشنی میں دیگر افراد کے مقام و مرتبے اور شخصیت کا اندازہ ہو جاتا ہے ،اور ان کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کی تشخیص ہو جاتی ہے ۔
سیرت نبوی میں احترام فاطمہ سلام اللہ علیہاکے نمونے۔
1۔ رسول خدا کا فاطمہ سلام اللہ علیہا کے احترام میں کھڑے ہونا
عن عائشة بنت طلحة، عن عائشة قالت: ما رأيتُ أحداً كان أشبَهَ كلاماً وحديثاً من فاطمة برسول الله، وكانت إذا دخَلَت عليه رحّب بها وقام إليها فأخذ بيدها فقبّلها، وأجلَسَها في مجلسه » (4)
عائشہ بنت طلحہ نےام المؤمنین عائشہ سےروایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا : میں نے بات کرنے اور گفتگو کرنے میں فاطمہ سلام اللہ علیہا سے زیادہ رسول خدا کے مشابہہ کسی کو نہیں دیکھا ۔ جب بھی فاطمہ رسول خدا کی خدمت میں تشریف لاتیں تو رسول خدا آپ کو خوش آمدید کہتے ، آپ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے احترام میں کھڑے ہوتے ،ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اس کا بوسہ لیتے اور پھر فاطمہ سلام اللہ علیہا کو رسول خدا اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے ۔ اگرچہ یہ احترام دونوں طرف سے تھا ، یعنی جس طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ سلام اللہ علیہا کا احترام فرماتے تھے بالکل اسی طرح فاطمہ سلام اللہ علیہا بھی رسول خدا کا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے حد احترام کیا کرتی تھیں مگر ان دونوں کے احترام میں یقنا فرق تھا ۔
اولاد کی جانب سے والدین کا احترام
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اولاد کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے والدین کا احترام کرے ، جیسا کہ سورہ الاسراء کی آیت نمبر 23میں ارشاد رب العزت ہے۔
” وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعبُدُوا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالوَالِدَینِ اِحسَانًا ؕ اِمَّا یَبلُغَنَّ عِندَکَ الکِبَرَ اَحَدُہمَاۤ اَو کِلٰہمَا فَلَا تَقُل لَّہمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنہرہمَا وَ قُل لَّہمَا قَولًا کَرِیمًا۔”
” اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس ہوں اور بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا بلکہ ان سے عزت و تکریم کے ساتھ بات کرنا۔”
اس لئے فاطمہ سلام اللہ علیہا کا رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا احترام کرنا ، آپ کے احترام میں کھڑے ہو جانا تو آسانی سے سمجھ میں آنے والی باتیں ہیں جبکہ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیٹی کے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں ،ان کا استقبال کرتے ہیں ، ان کے ہاتھوں کو چومتے ہیں اورپھران کو اپنی جگہ پر بٹھاتے ہیں۔ تو یہ چیزیں غیر معمولی اور بہت اہمیت کی حامل ہیں ۔ خصوصا جب ہم اسلام سے قبل کے معاشرے میں بیٹیوں کی حالت کا مطالعہ کرتے ہیں ،جبکہ اس زمانے کو گزرے ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں ہوا تھا اور زمانہ جاہلیت کی رسوم کی جڑیں ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھیں ۔
اسلام سے قبل بیٹیوں کی حالت
اسلام سے پہلے بیٹیوں کے زندہ رہنے کا جو بنیادی انسانی حق ہے وہ بھی اس کے والد کے رحم و کرم پر تھا ۔ والد اس کو اپناحق سمجھتا تھاکہ وہ فیصلہ کرے،بچی کو زندہ رکھنا ہے یا اسے مارنا ہے یا پھر زندہ دفن کر دینا ہے ۔ اس بات کی گواہی سورہ مبارکہ تکویرکی آیت میں خدا وند متعال ان الفاظ میں دے رہا ہے ،
"وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتۡ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ۔”
” اور جب زندہ درگور لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی ؟” (5)
فقر و تنگدستی کے خوف کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے وہ بچے مار دیتے تھے اور قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس جانب ان الفاظ کے ساتھ اشارہ فرمایا ہے ۔
"وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ مِّنۡ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُکُمۡ وَ اِیَّاہُمۡ ۚ” (6)
” تنگدستی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی ۔”
عربوں کے ہاں اس ظلم کی بنیاد اس بات پربھی تھی کہ جزیرہ العرب میں صحرائی زندگی کے تقاضوں کے مطابق لوگ زندگی گزارتے تھے ، ان کی زندگی کا انحصار ان کے پالتو جانوروں پر ہوا کرتا تھا ، پانی اور گھاس ہر جگہ میسر نہ ہونے کی وجہ سے وہ جانوروں کے لئے ان چیزوں کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ اوردوسری جگہ سے تیسری جگہ ہجرت کرتے رہتے تھے ، یعنی وہ خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے ۔ دوسری جانب کسی قسم کی مرکزی حکومت یا قانون کا بھی رواج نہ تھا لہذا ایسے حالات میں طاقتور کا کمزور پر ظلم کرنا اور طاقت کے زور پر ان سے ان سہولیات کو چھیننا ایک عام سی بات تھی ۔ یوں طاقت کی ہمیشہ ضرورت اور دفاعی اعتبار سے مردوں کے مقابلے میں عورتوں کا کمزور ہونا ، اور پھر ان کی حفاظت کا مشکل ہونا اس بات کا موجب بنتا تھا کہ لوگ اپنی بیٹیوں کو قتل کرتے تھے یا پھرانہیں زندہ درگور کر دیتے تھے ، جیسے کہ قرآن مجید کی سورہ نحلمیں اللہ تعالی نے عربوں کی اس بدترین صورت حال کو بیان فرمایا ہے
” وَ اِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمۡ بِالۡاُنۡثٰی ظَلَّ وَجۡہُہٗ مُسۡوَدًّا وَّ ہُوَ کَظِیۡمٌ ۚ”
” یَتَوَارٰی مِنَ الۡقَوۡمِ مِنۡ سُوۡٓءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ؕ اَیُمۡسِکُہٗ عَلٰی ہُوۡنٍ اَمۡ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَحۡکُمُوۡنَ۔” (7)
"اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو مارے غصے کے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے۔اس بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کیا اسے ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دے یا اسے زیر خاک دبا دے؟ دیکھو! کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں؟”
یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآؒلہ وسلم نے حضرت عائشہ کے سوال کے جواب میں یہ نہیں فرمایا کہ میں کیوں نہ اس سے محبت کروں ، کیوں نہ اس کا احترام کروں جبکہ یہ میری بیٹی ، میرے جگر کا ٹکڑا اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، کیونکہ اس زمانے میں کسی باپ سے اپنی بیٹی کے لئے اس طرح کےاحترام کا تصور ہی نہیں تھا ۔
البتہ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ رسول اکرم کی سیرت کو تمام مسلمان بلا اختلاف احکام شرعی کے لئے دلیل تسلیم کرتے ہیں ، اور رسول خدا کے قول و فعل کو سنت کا نام دیا جاتا ہے مگر کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ باپ کے لئے اپنی بیٹی کے احترام میں کھڑے ہونا سنت ہے کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیٹی کے احترام میں کھڑے ہوا کرتے تھے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تمام مسلمانوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا اس طرح احترام کرنا باپ بیٹی کے رشتے کی وجہ سے نہیں تھا ،
2: سفر پر جاتے ہوئے اور واپس آنے پر آپ ص کی سیرت
عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ
” ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا خرج کان آخر عہدہ فاطمۃ و اذا رجع کان اول عہدہ فاطمہ” (8)
"کہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کبھی سفر پر نکلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے آخر میں فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے مل کر نکلتے اور جب واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے ملاقات فرماتے ۔”
اسی مطلب کو محمد بن قیس کی اس روایت کے شروع میں بھی بیان کیا گیا ہے ، جسے ہم نےچوتھے نمونے میں ذکر کیا ہے ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل میں جہاں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے آپکی بے پایاں محبت کا پہلو نمایاں ہے ، کہ آپ چاہتے تھے کہ سفر پر نکلتے ہوئے چونکہ آپ اپنی عزیز از جان بیٹی سے جدا ہو رہے ہوتے تو آپ سعی فرماتے کہ آپ کی آنکھوں میں جو تصویر سب سے آخر میں اور نمایاں طور پر نقش ہو کر آپ کے صفحہء ذہن پر ہر دم واضح رہے وہ آپ کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا ہی کی ہو ،تاکہ فاطمہ کی یاد کے ساتھ دل و دماغ میں ان کی صورت بھی نمایاں رہے ،اور جب واپس تشریف لاتے تو آپ فاطمہ سلام اللہ علیہا سے سب سے پہلے ملاقات فرماتے کہ آپ کی آنکھوں میں موجود زہراء سلام اللہ علیہا کی آخری تصویر اوروجود زہراء سلام اللہ علیہا کے درمیان کوئی اور صورت حائل نہ ہو ۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زہراء سے جدا ہو کر دوبارہ ملاقات تک صورت زہراء سلام اللہ علیہا کو اپنی آنکھوں میں محفوظ رکھتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عمل سے احترام کا یہ پہلو بھی نکلتا ہے کہ انسان کو اپنے عزیز و اقارب سے ملتے ہوئے یا جدا ہوتے ہوئے مراتب کا خیال رکھنا چاہئے ،زہراء چونکہ رسول خدا کے لئے ام ابیہا کی منزل پر بھی فائز تھیں اس لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زہراء سے ملنے اور جدا ہونے میں ان کے ساتھ ماں والا سلوک کیا کرتے تھے ۔
3:رسول خدا کا فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بوسے لینا
” قالت عائشۃ: كنت ارى رسول الله يقبل فاطمة فقلت يارسول الله إني أرىك تفعل شيئا ما كنت أرى تفعله من قبل قال النبي صلى الله عليه وآله لما عرج بي إلى السماء أخذ بيدي جبرئيل (ع) فأدخلني الجنة فناولني من رطبها فأكلته، فتحول ذلك نطفة في صلبي، فلما هبطت إلى الأرض واقعت خديجة فحملت بفاطمة، ففاطمة حوراء إنسية، فكلما اشتقت إلى رائحة الجنة شممت رائحة ابنتي فاطمة۔” (9)
” حضرت عائشہ فرماتی ہے کہ میں نے رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے بوسے لے رہے تھے تو میں نے کہا کہ اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ کو ایک ایسا کام کرتے دیکھ رہی ہوں کہ جسے کرتے میں نے پہلے آپ کو نہیں دیکھا تھا ،تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اے حمیرا ! جس رات مجھےمعراج کے سفر پر لے جایا گیا ،اس وقت مجھے جنت میں داخل کیا گیا ، میں نے وہاں ایک درخت دیکھا کہ جو جنت میں موجود تمام درختوں میں سب سے زیادہ خوبصورت ، جس کے پتے سب سے زیادہ منظم اور جس کا پھل سب سے زیادہ لذیذ تھا ،میں نے اس درخت سے ایک پھل لیا اور اسے کھایا ،جس سے میرے صلب میں زہراء سلام اللہ علیہا کا نطفہ وجود میں آیا۔۔ ۔۔ جب بھی میں جنت کی خوشبو کا مشتاق ہوتا ہوں تو میں فاطمہ کی خوشبو سونگھتا ہوں ۔ اے حمیرا ! فاطمہ دیگر انسانوں کی بیٹیوں کی طرح نہیں ہے ۔”
اس روایت سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے بوسے لینا اور ان کی خوشبوسونگھنا ایک دو بار کا عمل نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا ،اور جب بھی جنت کی خوشبو سونگھنے کی خواہش ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیٹی کی خوشبو سونگھا کرتے تھے ۔
اسی طرح اس روایت سے چند اور نکات بھی سامنے آتے ہیں
1۔ زیارت وارثہ جو حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی زیارات میں سے ایک اہم زیارت ہے اس میں ہم پڑھتے ہیں کہ
"اشہد انک کنت نورا فی الاصلاب الشامخۃ وآلارحام المطھرۃ لم تنجسہ الجاھلیۃ بانجاسھا و لم تلبسک من مدلھمات ثیابھا ” (10)
” شیخ طوسی نے المصباح میں اور ابن قولویہ نے المزار میں اس جملے کو نقل کیا ہے ،جو کہ ہمارا عقیدہ بھی ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام کے انوار کو خدا نے پاک صلبوں سے پاک رحموں میں منتقل کیا، ”
مگرمذکورہ بالا روایت کی روشنی میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اللہ رب العزت نے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے نور کا سرکار دو عالم سے پہلے کسی کو بھی محرم نہیں بنایا ، لہذا آپ سلام اللہ علیہا کا نورحتی کہ ان پاک اصلاب وارحام میں بھی نہیں تھا ، بلکہ نور زہراء کو جنت سے ہی براہ راست رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صلب اطہر میں رکھا ۔
2۔ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے نور کو زمین پر نہیں بھیجا بلکہ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ نور لینے معراج پر بلایا گیا ۔
3۔ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی حقیقت خدا اور اس کے رسول کے درمیان ایک راز تھی کہ جس سے آشنائی کسی کو حاصل نہیں ہوئی ۔ جیسا کہ تفسیر فرات کوفی میں امام جعفر الصادق علیہ السلام کی حدیث مبارکہ ہے۔
” سمیت فاطمۃ لأن الخلق فطموا عن معرفتھا ۔” (11)
” آپ کا نام فاطمہ رکھا گیا کیونکہ مخلوقات کو آپ کی معرفت سے باز رکھا گیا ہے۔”
اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو شب قدر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
” إنّ فاطمة هي ليلة القدر ، من عرف فاطمة حقّ معرفتها فقد أدرك ليلة القدر۔”
بتحقیق فاطمہ ہی لیلۃ القدر ہیں ، جس نے بھی فاطمہ کی حقیقی معنوں میں معرفت حاصل کی گویا اس نے لیلہ القدر کوپا لیا ۔
4۔ تربیت میں احترام کا خیال
كان النبيّ (صلى الله عليه وآله) إذا قدم من سفر بدأ بفاطمة (عليها السّلام)، فدخل عليها فأطال عندها المكث، فخرج مرّة في سفر، فصنعت فاطمة (عليها السّلام) مسكتين من ورق وقلادة وقرطين وستراً لباب البيت لقدوم أبيها وزوجها (عليهما السّلام). فلمّا قدم رسول الله (صلى الله عليه وآله) دخل عليها، فوقف أصحابه على الباب ﻻ يدرون يقفون أو ينصرفون، لطول مكثه عندها، فخرج عليهم رسول الله (صلى الله عليه وآله)، وقد عرف الغضب في وجهه حتّى جلس عند المنبر، فظنّت فاطمة (عليها السّلام) أنّه إنّما فعل ذلك رسول الله (صلى الله عليه وآله) لما رأى من المسكتين والقلادة والقرطين والستر، فنزعت قلادتها وقرطيها ومسكتيها، ونزعت الستر، فبعثت به إلى رسول الله (صلى الله عليه وآله)، وقالت للرسول: قل له:تقرأ عليك ابنتك السلام وتقول: اجعل هذا في سبيل الله.فلمّا أتاه قال (صلى الله عليه وآله): فعلت، فداها أبوها – ثلاث مرّات – ليست الدنيا من محمّد ولا من آل محمد، ولو كانت الدنيا تعدل عند الله من الخير جناح بعوضة، ما سقى فيها كافراً شربة ماء، ثمّ قام فدخل عليها. (12)
ترجمہ: رسول خدا جب بھی سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے فاطمہ سلا م اللہ علیہا کے پاس جاتے اور ان کے پاس دیر تک بیٹھتے رہتے ، ایک دفعہ رسول اکرم صلی الہ علیہ وآلہ وسلم کسی سفر پر گئے تو حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنے لئے دو کنگن اور ہار اور بندے بنوائے اور ایک پردہ بنوا کر دروازے پر لگا دیا ، یہ سب آپ سلام اللہ علیہا نے اپنے بابا رسول خدا اور اپنے شوہر امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی واپسی کی خوشی میں ان کے استقبال کی غرض سے کیا تھا ، جب رسول خدا واپس تشریف لائے تو آپ حسب معمول فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر گئے ، مذکورہ چیزوں کو دیکھا تو آپ زیادہ دیر ٹھہرے بغیر فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر سے نکلے اور سیدھا مسجد تشریف لے گئے ۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا سمجھ گئیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کم التفاتی کی وجہ کیا ہوئی ،آپ نے مذکورہ چیزوں کو اتارا ،انہیں مسجد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم آپ کی بیٹی آپ پر سلام بھیجتی ہے اور کہتی ہے کہ ان چیزوں کو راہ خدا میں تقسیم کر دیجئے ، جونہی یہ چیزیں اور پیغام رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا فعلت ،فداھا ابوھا ، اس پر اس کا باپ قربان ، کہ اس نے (بابا کی خواہش پر عمل)کر دیا۔”
اگرچہ گھر کی زینت کے لئے کچھ چیزیں خریدنا بذات خود بری بات نہیں ہے ، خصوصا جب کہ کسی عزیز نے سفر سے واپس آنا ہو تو گھر کو سجانا اور ان کے شایان شان بنانا ایک مستحسن عمل ہے ، لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی ہونے کے ناطے معاشرے میں موجود غریبوں کی طرز زندگی کو اپنانا اور ہر قسم کے مظاہر عیش و عشرت سے اجتناب کو رسول خدابہتر سمجھتے تھے اور عام زندگی میں فاطمہ سلام اللہ علیہا کی اپنی سیرت بھی یہی تھی ،
اس موقع پر رسول خدا نے تربیت کا جو اسلوب اپنایا وہ ہم سب کے لئے بہترین درس بھی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر پر واپس آتے ہی حسب دستور سب سے پہلے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر تشریف لے گئے ،گھر میں ان چیزوں کا مشاہدہ فرمایا مگر فاطمہ سلام اللہ علیہا سے کچھ فرمائے بغیر تھوڑی دیر ٹھہر کر تشریف لے گئے ۔
لیکن جس ہستی کی تربیت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود کی ہو اسے یہ سمجھنے میں کوئی دقت کیوں کر ہوتی کہ رسول خدا کی کم التفاتی کی وجہ کیا ہے ؟ فورا آپ نے ان پردوں کو اتارا اور مسجد نبوی میں رسول خدا کے پاس بھیج دئیے ۔اسکے ساتھ پیغام بھیجا کہ ان چیزوں کو راہ خدا میں تقسیم فرمادیجئے ۔ یہ سن کررسول خدا صلى الله عليه وآلہ وسلم بے حد خوش ہوئے اور آپ نے فرمایا ، فداھا ابوھا ، اس کا باپ اس پر قربان ، اس نےبابا کی مرضی کے مطابق کام کر دیا ۔
5۔فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دروازے پر آیت تطہیر کی تلاوت
” أخرج الحاكم في المستدرك
عن أنس بن مالك رضي الله عنه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يمر بباب فاطمة رضي الله عنها ستة أشهر إذا خرج لصلاة الفجر ، يقول :
الصلاة يا أهل البيت (إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا)
هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه ” (13)
” حاکم نیشاپوری نے المستدرک میں نقل کی ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل چھ مہینے تک جب بھی آپ نماز صبح کے لئے تشریف لے جاتے تو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوتے اور فرماتے الصلاۃ یا اھل البیت ، اور پھر آپ آیت مجیدہ انما یرید اللہ ۔۔۔۔ کی تلاوت فرماتے ۔”
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چھ مہینے تک یعنی آیت تطہیر کے نزول سے لیکر آپ کی رحلت تک در زہراء پر کھڑے ہونا اور الصلاۃ یا اھل البیت کہنا ایک طرف زہراء کی عظمت ، رسول خدا کی نگاہ میں آپ کا مقام اور رسول خدا کے دل میں آپ کے احترام کی دلیل ہے ، وہیں پر آپ کا ہر بار یا اھل البیت کہنا شاید اھل مدینہ کو یہ سمجھانے کا ذریعہ بھی تھا کہ آیت انما میں اھل بیت سے مراد نبی کے گھر والے ہی ہیں لہذا اوروں کو سند تطہیر کی فضیلت میں شامل کرنے کی سعی لا حاصل نہ کرنا ، کیونکہ اھل البیت سے مراد وہی ہیں کہ جن کے دروازے پر رسول خدا کھڑے ہو کر اس آیت کی مسلسل تلاوت کرتے ہیں ۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کااس قدر احترام کیوں ؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی فضیلت ، آپ کی شان ، آپ کا مرتبہ ،آپ کی عظمت خدا اور رسول سے آپ کی محبت اور خدا اور رسول کی آپ سے محبت وغیرہ کے بارے میں مختلف مواقع پراصحاب کرام کو آگاہ فرمایا ،شیعہ و سنی کتابوں میں موجود احادیث کی ایک بڑی تعداد اس بات پر شاہد ہے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف بیان پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ عملا بھی آپ نے ہر مقام پر فاطمہ سے اپنی محبت اور احترام کے رشتے کا اظہار فرمایا ۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی طور پر فاطمہ سلام اللہ علیہا کے اس غیر معمولی احترام کی درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں :
1۔ الفاظ بعض اوقات معانی پر دلالت کرنے کے لئے قرائن کے محتاج ہوتے ہیں ، جن لوگوں تک وہ قرائن نہ پہنچے وہ ان الفاظ سے معانی مقصودکو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ، جبکہ فعل کو دیکھنے کے بعد مقصود بلا شبہہ سمجھ میں آتا ہے۔ یوں رسول اکرم کا فعل خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل سے آپ کے قول پر قرینہ بنتے ہیں اور قول و فعل کےاس اتحاد کے بعد آپ کے بیان سے مقصود سمجھ نہ آنے کا کوئی امکان نہیں رہ جاتا ۔
2۔ رسول اکرم کا کسی فعل کو بار بار انجام دینا اس کی اہمیت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں اس کی عظمت و قدر ومنزلت کو بیان کرتا ہے ،جو کہ مسلمانوں کو اس فعل میں رسول خدا کی پیروی کرنے کی جانب راغب کرنے کے لئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل امر ہے ۔
3۔ رسول خدا کا یہ عمل اصحاب کو سوال پوچھنے پر مجبور کرتا تھا ، جس کے جواب میں رسول خدا کو فاطمہ سلام اللہ علیہا کے مزید فضائل بیان کرنے کا موقع ملتا ،جس طرح حضرت عائشہ کے سوال کے جواب میں آپ نے بیان فرمایا ۔
حضرت فاطمہ کا احترام صرف بیٹی ہونے کی بناء پر؟
اس سوال کے جواب سے پہلے یہ جاننا بھی اہم ہے کہ کیا رسول خدا کی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے علاوہ اور بیٹیاں بھی تھیں ؟
اس بات میں علماء کے درمیان اختلاف ہے کہ رسول خدا کی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے علاوہ اور بھی بیٹیاں تھیں ، اھل سنت علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول خدا کی تین اور بیٹیاں بھی تھیں ،زینب ،رقیہ اور ام کلثوم ۔ علماء شیعہ میں سے بھی مشہور علماء اسی بات کے قائل ہیں جیسے،
شيخ مفيد قدس سره، أجوبة المسائل العكبرية المسئلہ خمسین ص 120
الكليني قدس سره نے الکافی 1/439میں،
الشيخ الطبرسي قدس سرہ نے اعلام الوری باعلام الھدیٰ ص146 میں ،
علامہ ابن شھر آشوب نےمناقب آل ابی طالب 1/140میں،
المحقق التستري رحمة الله عليه نے قاموس الرجال 9/450میں،
مامقانی رحمۃ اللہ علیہ نے تنقیح المقال 3/79میں ،
جبکہ شیعہ علماء میں سے متاخرین کی غالب اکثریت اس بات کو مانتی ہے کہ رسول خدا کی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے علاوہ کوئی اور بیٹی نہیں تھی ۔
جو لوگ رسول کی ایک ہی بیٹی مانتے ہیں ان کے سامنے بھی یہ سوال ہے لیکن جولوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک سے زیادہ بیٹیوں کے قائل ہیں ان کے سامنے یہ سوال زیادہ شدت کے ساتھ کھڑا ہے ۔ کیونکہ خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ ص نے فرمایا۔
"اتقوا اللّه و اعدلوا في أولادكم. ” (14)
” إن اللّه يحب ان تعدلوا بين أولادكم حتى في القبل۔” (15)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ،تقوی الہی اختیار کرو اور اپنی اولاد میں برابری قائم رکھو ۔ جبکہ دوسری روایت میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی کو یہ پسند ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان برابری قائم رکھو حتی کہ بوسے لینےمیں بھی
لہذا مذکورہ بالا احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے پاس دو میں سے ایک بات کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے ،
1۔ نعوذ باللہ من ذالک ، رسول خدا اپنی ہی تعلیمات کے خلاف عمل کرتے تھے ،
2۔ رسول خدا کا فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا احترام اور آپ سے بے انتہاء محبت صرف بیٹی ہونے کی بنیاد پر نہیں تھی ۔
پہلی بات کو ماننے کا نتیجہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر بہتان باندھنے کی صورت میں نکلتا ہے ۔ لہذا یہ تسلیم کئے بنا کوئی چارہ نہیں کہ رسول اکرم کی فاطمہ سے شدید محبت اور ان کا بے مثال احترام صرف آپ کی بیٹی ہونے کی وجہ سے نہیں تھا۔
جیسا کہ شیعہ علماء کا اس بات پر مکمل اتفاق اور شیعوں کا یہ مسلمہ عقیدہ ہے۔ اس سلسلے میں مزید وضاحت کے لئے حضرت یعقوب اور حضرت یوسف کے قصے کو دیکھا جا سکتا ہے کہ جسے خدا وند متعال نے احسن قصص کہا ہے اور بڑی تفصیل کے ساتھ قرآن مجید میں بیان کیا ہے ۔
حضرت یعقوب علیہ السلام کی محبت حضرت یوسف علیہ السلام سے
حضرت یعقوب کے گیارہ بیٹے تھے ،ان میں سے آپ یوسف کو بے انتہاء پیار کرتے تھے ، یہاں تک کہ آپ کی یوسف سے اس قدر محبت نے آپ کے دیگر بیٹوں کو حسد اور کینہ کی آگ میں جلا دیا بالآخر معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ یعقوب کے باقی بیٹے اپنے ہی بھائی یوسف کو قتل کرنے پر تل گئے ۔
یہاں حضرت یعقوب نبی ہیں اور اولاد کی تربیت کے اصولوں سے واقف بھی ہے ،
” إِنَّا أَخْلَصْناهُمْ بِخالِصَةٍ ذِكْرَى الدَّارِ۔” (16)
"ہم نے انہیں ایک خاص صفت کی بنا پر مخلص بنایا (وہ) دار (آخرت) کا ذکر ہے۔”
جیسی آیات کے ذریعے اللہ تعالی نے ان کے مقام کو واضح کیا ہے پھر بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں میں محبت اور اہمیت و اعتناء کے حوالے سے فرق روا رکھیں ؟
حضرت یعقوب نبی اور حجت خدا تھے وہ حضرت یوسف کی جبین پاک میں نبوت کے آثار کو دیکھ رہے تھے ،اس لئے حضرت یعقوب در اصل اس حجت خدا کا احترام کرتے، اس سے محبت کرتے اور دوسرےبیٹوں سے زیادہ اس کا خیال رکھتے تھے ۔ اگر صرف بیٹا ہونے کی بنیاد پر یوسف کو زیادہ اور باقی بیٹوں کو کم چاہتے تو یہ یقینا نہ صرف تربیت اولاد کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہوتی بلکہ یہ نبی کی شان کے بھی خلاف کام ہوتا ، (17)
پس مذکورہ بالا حقائق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا احترام صرف آپ کی بیٹی ہونے کی بناء پر نہیں کرتے تھے ، بلکہ خدا وند متعال کے ہاں فاطمہ سلام اللہ علیہا کا ایسا مقام و مرتبہ تھا کہ جس کی وجہ سے رحمت للعالمین کو آپ کا بابا قرار دیا گیا ، امیر المؤمنین کو آپ کا شوہر اور جوانان جنت کے آپ کے بیٹے قرار دیئے گئے۔ یہ رشتے اپنے آپ میں اس قدر با عظمت اور با فضیلت ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے شاید کسی اور فضیلت کی ضرورت نہ ہو مگر زہراء مرضیہ کی فضیلت صرف ان رشتوں کی وجہ سے نہیں ہے ۔ آپ سلام اللہ علیہا رسول کی بیٹی ، علی کی زوجہ اور حسنین کی مادر ہونے سے پہلے بھی بڑی عظمت و شان و مرتبہ کی مالکہ ہیں۔ یہاں سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا بے حد احترام ایک حجت خدا کا دوسرے حجت خدا کا احترام ہے ، جس طرح ہم دعائے توسل میں پڑھتے ہیں ” یا فاطمۃ الزھراء یا بنت محمد یا قرۃ عین الرسول ،یا حجۃ اللہ علی خلقہ ۔۔۔۔
اسی لئے خدا وند متعال نے آپ کو آیت المودۃ ، آیت الابرار ، آیت تطہیر اور آیت مباھلہ جیسی بہت سی آیات میں خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، امیر المومنین علی علیہ السلام اور حسنین کریمین علیہما السلام کے ساتھ شامل رکھا جبکہ آپ کے علاوہ کسی اور خاتون کو شامل نہ کیا۔
اسی طرح رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کسی کے بارے میں
1۔ بضعۃ منی (18)میرا ٹکڑا ہے ، نہیں کہا سوائے فاطمہ کے
2۔ ھي قلبي (19) یہ میرا دل ہے ،نہیں کہا سوائے فاطمہ کے
3 روحي التي بين جنبيي (20) یہ میرے سینے میں موجود روح ہے ، نہیں کہا سوائے فاطمہ کے
4 ام ابيها یہ (21) اپنے بابا کی ماں ہے ، نہیں کہا سوائے فاطمہ کے
5 حوراء الانسية (22) ، انسان کی شکل میں حور ہے ، نہیں کہا سوائے فاطمہ کے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کے بارے میں نہیں کہا
1۔ من آذاھا فقد آذآنی (23) ،جس نے اسے اذیت دی ،اس نے مجھے اذیت دی۔
2۔ من اغضبھا فقد اغضبنی (24) ، جس نے اسے غضبناک کیا ، اس نے مجھے غضبناک کیا ۔
3۔ یرضی اللہ لرضاھا ، (25) جس پر یہ راضی ہو اس پر اللہ راضی ہوتا ہے ۔
4۔ فداھا ابوھا ، (26) اس کا باپ اس پر قربان ۔
5۔ ھی لیست کنساء الآدمیین (27) ،یہ دیگر لوگوں کی بیٹیوں کی طرح نہیں ہے ۔
مقام فاطمہ سلام اللہ علیہا اور ہماری ذمہ داری
یہ جاننے کے بعد کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا احترام صرف آپ کی بیٹی ہونے کی بناء پر نہیں کرتے تھے ، بلکہ خدا کے ہاں فاطمہ کے بلند مقام اور عظیم مرتبے کی وجہ سے کرتے تھے ، مگر یہ کہ فاطمہ کا مرتبہ کس قدر بلند ہے ؟ آپ کی عظمت کی حدیں کہاں تک جاتی ہیں ؟ نیز آپ کا حقیقی تعارف کیا ہے؟ اس سلسلے میں امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت کے مطابق فاطمہ لیلۃ القدر ہیں ۔ جس کی حقیقی معرفت خدا اور خدا کے ان خاص بندوں کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی کہ جن کو خدا نے یہ معرفت عطا کی ہے جس طرح شب قدر کی عظمت صرف یہ نہیں ہے کہ یہ رات قرآن مجید جیسی لا ریب کتاب کے نزول کا ظرف زمان قرار پائی بلکہ اس شب کی منزلت پہلے بھی تھی کہ اس شب کے علاوہ کسی اور زمان میں اتنی ظرفیت و صلاحیت نہیں تھی کہ وہ نزول قرآن کے لئے ظرف زمان قرار پائے ،جس طرح قلب رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی اور مکان میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ قرآن مجید جیسی کتاب کو تحمل کر سکے اور قرآن کے لئے ظرف مکان بنے۔
اسی طرح امام علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا کہ:
"سمیت فاطمۃ لان الخلق قد فطموا عن معرفتھا۔” (28)
"یعنی فاطمہ سلام اللہ علیہا کی معرفت خلق خداکے دائرہ قدرت سے باہر ہے ۔”
لیکن کامل معرفت حاصل نہ ہونا اس بات کا موجب نہیں بن سکتاکہ ہم اس شخصیت کی نسبت اپنی ذمہ داریوں سے مکمل طور پر لا تعلق ہو جائیں اور جس قدر معرفت ممکن ہے وہ بھی حاصل نہ کریں یا پھر جس قدر معرفت حاصل ہو اس کے مطابق اس کا حق ادا نہ کریں ، حضرت زہراء مرضیہ سلام اللہ علیہا سے محبت ، آپ کا احترام ، آپ کی تعظیم ،آپ کی رضائیت حاصل کرنے کی جستجو ، آپ کی ناراضگی سے بچنے کا اہتمام اور آپ کے دشمنوں سے بیزاری سیرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ درخشندہ اور تابندہ باب ہیں کہ جن پر کوئی بھی مسلمان شک نہیں کر سکتا ۔
مصادر و مآخذ
1۔ القرآن اکریم۔ اردو ترجمہ: النجفی :علامہ شیخ محسن علی ، بلاغ القرآن
2۔ الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن بابویہ القمی، الامالی، ط 1، 1417، قسم الدراسات الاسلامیہ ـ موسسہ البعثہ ـ قم۔
3۔ الطباطبائی : السید محمد حسین ،المیزان فی تفسیر القرآن
4۔ ابن اسحاق :محمد بن اسحاق بن یسار المطلبی (151ھ)السیر والمغازی،ط1، دار الفکر دمشق
5۔ ابن اثیر :علی بن محمد بن محمد الجزری (630ھ)اسد الغابۃ في معرفۃ الصحابۃ ،دار الشعب القاھرہ
6۔ البلازری: احمد بن یحيٰ بن جابر (279ھ) انساب الاشراف،دار المعارف مصر
7۔ الطبری: ابو جعفر محمد بن جریر بن زید (310ھ)تاریخ الرسل و الملوک ،دار المعارف
8۔ الحاکم :ابو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن محمد النیشاپوری(405ھ)المستدرک علی الصحیحین ، مکتبۃ النصر الحدیثیۃ ،الریاض
9۔ ابو نعیم :احمد بن عبد اللہ الاصفھانی(430ھ) دلائل النبوۃ ،دار النفائس ،بیروت لبنان
10۔ البیھقی: احمد بن حسین بن علی (458ھ)دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ ،دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان
11۔ ابن الحجر :احمد بن علی بن محمد (852ھ)الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ،مطبعۃ السعادۃ مصر
12۔ السیوطی :جلال الدین عبد الرحمن بن ابی بکر ، (911ھ)تھزیب الخصائص النبویۃ الکبریٰ،دار البشائر الاسلامیۃ بیروت لبنان
13۔ فتال النیشاپوری : محمد بن احمد (508ھ)روضۃ الواعظین وبصیرۃ المتعظین ، منشورات الرضی
14۔ القرشی: باقر شریف ،موسوعۃ اھل البیت ج 9 فاطمۃ الزہراء ، دار المعروف قم ایران
15۔ الشاکری :حسین ،موسوعۃ المصطفیٰ و العترۃ ج 4 ،فاطمۃ الزھراء ، نشر الھادی قم ایران
16۔ احمد : مھدی رزق اللہ ، السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الاصلیۃ ، مکتبۃ الرشید ، ریاض
17۔ الحسنی : السید نبیل ، ھذہ فاطمہ ۔۔۔ ج4 العتبۃ الحسینیۃ المقدسۃ کربلاء
18۔ السیرۃ العملیۃ للنبی المصطفیٰ ج1 قسم الدراسات الحدیثیۃ فی مجمع البحوث الاسلامیۃ ،ایران
19۔ امینی: عبد الحسین ،فاطمۃ الزھراء ،انتشارات استقلال تہران ایران
20۔ البوطی : محمد سعید رمضان ، فقہ السیرۃ النبویۃ ، منشورات جامعۃ الدمشق ،سوریۃ
21۔ الموسوی : السید محمد باقر ، الکوثر فی احوال فاطمۃ بنت النبی الاطھر ج1 ،دلیل ما
22۔ البدری : السید سامی ، المدخل الی دراسۃ مصادر السیرۃ النبویۃ و التاریخ الاسلامی ،مطبعۃ الکیمیا