سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

سیرت جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے گم گشتہ نکات

مقالہ نگار: گلفام حسین حیدری
مقدمہ:
چودہ سو سال سے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا پر لکھا بھی جا رہا ہے اور پڑھا بھی جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی بی بی سلام اللہ علیہا کے متعلق کچھ ایسے حقائق اور معارف ہیں جو آج بھی کتابوں کے سینوں میں دفن ہیں اور عوام الناس ان سے آگاہ نہیں ہیں۔چنانچہ ہم نے اس مختصر سے مقالے میں یہ کوشش کی ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی فضیلت و سیرت کے وہ گم گشتہ نکات کہ جن سے عامۃ الناس مطلع نہیں ہے انہیں آسان اور عام فہم انداز میں بیان کیا جاسکے۔ جب میں نے اس عنوان کے متعلق مطالعہ کرنا شروع کیا تو میرے سامنے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی سیرت کے اتنے زیادہ گم گشتہ واقعات تھے کہ اگر لکھنا شروع کرتا تو ایک کتاب بن جاتی ۔لیکن مقالہ کی شرائط کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس موضوع کو جامع اور مختصر انداز میں بیان کرنے کے لئے میں نے یہ کوشش کی ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی ان گم گشتہ کنیات کو بیان کروں اور ان پر روشنی ڈالوں جو آج تک کتابوں کی کونپلوں میں موجود ہیں تاکہ معرفت کے یہ پھول میرے مقالے کے گلستاں میں کھل کر اپنے ہر پڑھنے والے کے ذہن کو اپنی معرفت کی خوشبو سے معطر کرتے رہیں۔ ان گم گشتہ کنیات کی تشریح کے دوران ہی بی بی سلام اللہ علیہا کی فضیلت و سیرت کے وہ موتی نکھر کے سامنے آئیں گے جو آج تک گم گشتہ ہیں ۔ کیونکہ ہر ایک کنیت بی بی سلام اللہ علیہا کے کسی نہ کسی کمال کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔
بی بی سلام اللہ علیہا کی گم گشتہ کنیات میں سے (امّ الاسماء؛ ام الھناء؛امّ الکتاب؛ امّ البلجة؛ امّ التقیٰ ؛ امّ الموانح اور امّ العطیةہیں ۔( الاسرار الفاطمیۃ: ص:٢٨٩)
نوٹ: ان تمام کنیات سے پہلے لفظ "امّ” استعمال ہوا ہے ۔ جس کے بہت سے معانی ہیں ۔ کہ جن کو بیان کرنے کی اس مختصر سے مقالے میں گنجائش نہیں ہے ۔ صرف اتنا عرض کرتا ہوں کہ ان تمام معانی میں سے جو معنیٰ زیادہ یہاں پر سازگار ہے ۔ وہ اصل و بنیاد کا معنیٰ ہے ۔ یعنی اگر سیدہ ام الفضائل ہیں تو تمام فضائل کی بنیاد سیدہ سلام اللہ علیہا ہیں ۔ اور اگر سیدہ ؑام العلوم ہیں تو تمام علوم کی بنیاد جناب سیدہ سلام اللہ علیہا ہیں ۔ اب ہم ان گم گشتہ کنیات کی حتی الامکان تشریح و توضیح کرتے ہیں ۔
۱:ام الھناء
بی بی سلام اللہ علیہا کی غیر معروف کنیات میں سے ایک کنیت "امّ الھناء” ہے ۔بی بی سلام اللہ علیہا کی اس کنیت کو صرف شیخ حر عاملی ؒنے اپنے منظومات میں ذکر کیا ہے ۔ (الخصائص الفاطمیہ: ص؛ ١١٧(
تجزیہ و تحلیل:
سب سے پہلے ہم اس کے لغوی معنیٰ کے متعلق بحث کرتے ہیں۔
لغوی معنیٰ:
امّ الھناء: یہ باب ھناْ یھناْ سے ہے۔جسکے معنی خوشی کے ہیں۔ من الھنئ و الحیاة الطیبة الھنیئة ۔ یہی "ھناْ” خوشگوار اور طیب و طاہر زندگی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اور اسی "ھناْ” سےعید اور خوشیوں کے موقع پر تہنیت پیش کی جاتی ہے ۔
قرآن مجید میں بھی لفظ "ھنیئا” اسی معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔جیسا کہ سورۃ النساء میں ہےکہ( فَاِنۡ طِبۡنَ لَکُمۡ عَنۡ شَیۡءٍ مِّنۡہُ نَفۡسًا فَکُلُوۡہُ ہَنِیۡٓــًٔا مَّرِیۡٓــًٔا ۔ترجمہ: اگر وہ کچھ حصہ اپنی خوشی سے معاف کر دیں تو اسے خوشگواری سے بلا کراہت کھا سکتے ہو۔( القرآن 4:4)
مندرجہ بالا بحث سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ "ھناء الطیبة"ایسی خوشگوار زندگی کو کہا جاتا ہے کہ جس میں تکلف اور کسی پر کسی قسم کا کوئی بوجھ نہ ہو۔لہذا اسی معنی کی رو سے جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی یہ گم گشتہ کنیت (امّ الھناء) بی بی سلام اللہ علیھا کی سیرت کے بہت ہی خوبصورت اور دلکش پہلو کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ کنیت یہ بتا رہی ہے کہ جب بی بی سلام اللہ علیہا اپنے باپ کے گھر میں تھیں تو باپ کے لئے "امّ الھناء” تھیں اور جب شوہر کے گھر گئیں تو شوہر کے لیے "امّ الھناء” تھیں۔ یعنی جب بابا کے گھر میں تھی تو بابا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےسامنے ایسی کوئی فرمائش پیش نہیں کی کہ جن سے انھیں کوئی تکلّف اور بوجھ محسوس ہو۔ اور جب شوہر کے گھر میں تھیں تو شوہر کے سامنے کبھی کوئی ایسی فرمائش نہیں کی کہ جن سے انہیں کوئی زحمت محسوس ہوئی ہو ۔ بی بی سلام اللہ علیہا تمام حالات میں چاہے وہ خوشحالی کے ہوں یا تنگدستی کے خوش رہا کرتی تھیں۔
ہم نے اس کنیت کی جو وضاحت کی ہے اس کی تائید امام جعفر الصادق علیہ السلام سے منقول وہ روایت ہے کہ جس میں امامؑ نے فرمایا (عن یونس ابن ظبیان قال: قال ابو عبداللہ علیہ السلام لفاطمة تسعة اسماء عنداللہ عزوجل: فاطمة و الصدیقة و المبارکة و الطاھرة و الزکیة و الراضیة و المرضیة و المحدثة و الزھراء)
” اللہ عزوجل کے ہاں ہماری دادی زہراء سلام اللہ علیہا نو اسماء ہیں۔ فاطمہ’صدیقہ ”مبارکہ طاہرہ’ذکیہ’ راضیہ’مرضیہ محدثہ اور زہراء ہیں۔
( امالی الصدوق :ص۴٧۴)
اس روایت میں بی بی سلام اللہ علیہا کا ایک نام راضیہ ذکر ہوا ہے جو کہ ہماری اس وضاحت کی تائید کرتا ہے ۔ اس لیے کہ راضیہ اس بی بی کو کہا جاتا ہے کہ جو پوری زندگی خدا کی رضا پر راضی رہی ہو۔ جیسا کہ مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی دام عزہ نے بھی لفظ راضیہ کی تفسیر کرتے ہوئے یہی فرمایا ہے ؛ رَاضِیَۃً: کا مطلب وہ دنیا میں اللہ کے ہر فیصلے پر راضی تھا ۔ اس کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع تھی۔( الکوثر فی تفسیر القرآن،ج10،ص 165)،اور مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام بھی فرماتے ہیں کہ (ما راْیت فاطمة مکروھا وما اغضبتنی قط) کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا فاطمہ ؑ مجھ سے ناراض ہو گئی ہو یا مجھ پر غصہ ہوئی ہو۔
بی بی پاک سلام اللہ علیہا کی سیرت کے اس پہلو میں ہماری خواتین کے لیے بہت بڑا درس ہے۔ کہ اگر وہ باپ کے گھر میں ہیں تو کبھی بھی باپ کو اور اگر شوہر کے گھر میں ہیں تو کبھی بھی شوہر کو خواہ مخواہ کی فرمائشوں سے پریشان نہ کریں ۔ اور ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی کوشش کریں ۔ تو پھر دیکھیں کہ ان کی زندگی بھی کس طرح جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی زندگی کی طرح خوشگوار ہوجاتی ہے ۔ اس لئے کہ خوشگوار اور کامیاب زندگی کا اصل راز سیرت جناب سیدہ سلام اللہ علیہا پر عمل کرنے میں مضمر ہے ۔
دوم: امّ الاسماء
بی بی سلام اللہ علیہا کی دوسری گم گشتہ کنیت” امّ اسماء” یا” امّ الاسماء”ہے۔
الف لام کے ساتھ یا الف لام کے بغیر دونوں طریقوں سے وارد ہوا ہے ۔ بی بیؑ کی اس کنیت کو علامہ باقرمجلسی ؒنے بحار الانوار میں ذکر کیا ہے(الخصائص الفاطمیہ:١١٩) ۔ان کی گفتگو سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ یوم ولادت سے لے کر ہجرت سے پہلے کا جو زمانہ ہے اس میں بی بیؑ کی کنیت امّ اسماء تھی۔
تجزیہ و تحلیل :
سب سے پہلے ہم اس کے لغوی معنیٰ کے متعلق بات کرتے ہیں۔
لغوی معنیٰ :
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ ام کے معنی اصل اور بنیاد کے ہیں۔اور اسماء اسم ( نام) کی جمع ہے ۔ یوں اس کنیت کا مطلب بنتا ہے اسماء کی ماں ۔بادی النظر میں بی بیؑ کی یہ کنیت بڑی معمولی سی محسوس ہوتی ہے ۔ اور ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کنیت کا مطلب کیا ہے ؟؟
لیکن جیسے ہی انسان غور و فکر و تحقیق کی وادی میں قدم رکھتا ہےتو اس پر جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی معرفت کے دروازے کھلتے جاتے ہیں ۔ اگر ہم غور کریں تو قرآن مجید میں بھی لفظ "الاسماء "کئی مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔مثال کے طور پر سورہ اعراف میں ہے۔( وَ لِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی فَادۡعُوۡہُ بِہَا)ترجمہ: اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو۔(القرآن :7:180)۔
جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس آیت کے بارے پوچھا گیا تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا (واللہ نحن اسماء الحسنی)خدا کی قسم ہم ہی اسمائےحسنیٰ ہیں۔ (اصول کافی :ج1 باب نوادر حدیث نمبر 4(
مصنف ؒ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ جس طرح اسم مسمیٰ پر دلالت کرتا ہے اور اسم مسمیٰ کے لیے علامت ہوتا ہے ۔اسی طرح یہ معصومین علیھم السلام بھی وہ ادلاء ہیں کہ جو اللہ کے وجود پر دلالت کرتی ہیں اور یہ ہستیاں مظہر و صفات الہی ہیں۔
یعنی اگر اللہ عالم ہے تو اس کا علم ان ہستیوں کے ذریعے ظاہر ہوتا ہے ۔ اگر وہ غفور رحیم ہے تو اس کی صفت غفوریّت روز عاشور حضرت حرؑ علیہ السلام کو معاف کرکےوجود امام حسین علیہ السلام کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ اگر وہ رحیم ہے تو اس کی رحمت وجود رحمت اللعالمین کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ اگر وہ باطن ہے تو اس کی صفت اخفاء حجاب جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے ظاہر ہوتی ہے۔تو خلاصہ کلام یہ ہے کہ چونکہ ائمہ معصومین علیھم السلام اسماء الہی ہیں ۔اور جناب سیدہ سلام اللہ علیہا معصومین کی ماں ہیں اسی لئے ان کا لقب امّ الاسماء ہے ۔
سوم: ام الکتاب
جناب زہراء سلام اللہ علیھا کی تیسری وہ کنیت کہ جس میں کئی گم گشتہ نکات پائے جاتے ہیں وہ” امّ الکتاب” ہے ۔
بی بیؑ کی یہ کنیت بی بی کی سیرت کی اس بلندی کو بیان کرتی ہے کہ جو بی بیؑ کے علاوہ کسی اور خاتون کو حاصل نہیں ہے ۔
تجزیہ و تحلیل :
بی بی کے متعلق بحث کرنے سے پہلے میں یہ بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ تمام سنی شیعہ مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سورۃ الفاتحہ کا بھی ایک نام امّ الکتاب ہے۔
توہم بی بی سلام اللہ علیہا کی اس کنیت کی وضاحت کے لئے اور اس پر روشنی ڈالنے کے لیے سورۃ الفاتحہ کے اس نام سے مدد حاصل کریں گے ۔ یعنی ہم کتب تفاسیر میں اس سورۃ کے اس نام کی وجہ تسمیہ تلاش کرنے کی کوشش کریں گے اور پھر وہی نکات کے جن کی وجہ سے اس سورت کا نام ام الکتاب ہے وہی نکات سیرت جناب سیدہ سلام اللہ علیہا میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔
تو سب سے پہلے ہم اس سورت کا وجہ تسمیہ تلاش کرتے ہیں ۔
۱:اس سورت کو ام الکتاب اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ اصل قرآن ہے ۔بلکہ یہ سورت تمام کتب سماویہ کی اصل ہے ۔
جیسا کہ علامہ بیضاوی لکھتے ہیں کہ یہ وہ سورت ہے جس میں توحید؛مبدا و معاد ؛قضا و قدر ؛نبوت انبیاء ؛ثناء خداوندی ؛توّلیٰ تبرّا؛ اطاعت ؛طلب مکاشفات و مشاہدات؛ گویا تمام چیزیں موجود ہیں۔ ) تفسیر البیضاوی جلد نمبر 1 صفحہ 7:8 منقول از الخصائص الفاطمیہ)
ہم کہتے ہیں کہ اگر سورۃ الفاتحہ اس لیے امّ الکتاب ہے کہ اس میں تمام چیزوں کا علم ہے۔تو اسی معنیٰ میں اس کنیت کا جناب زہراءؑ پر صادق آنا عین حقیقت ہے ۔جیسا کہ بی بی سلام اللہ علیہا کی ایک کنیت ام العلوم بھی اسی معنی کی تائید کرتی ہے ۔ یعنی ام العلوم اس بی بی کو کہا جاتا ہے جو سر چشمہ علم ہو جو منبع علم ہو ۔ جیسا کہ مولائے کائنات علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے متعلق ملتا ہے ۔ (یتفجر العلم من جوانبہ )علم امام علیہ السلام کے پہلوؤں سے پھوٹتا تھا ۔
( ینابیع المودہ :منقول از خصائص الفاطمیہ)
اور نہج البلاغہ میں ہے کہ مولا خود اپنے بارے میں فرماتے ہیں ؛”ینحدر عنّی السیل ولا یرقیٰ الی الطیر "کہ میں وہ کوہ بلند ہوں جس پر سے علم کا سیلاب گزر کر نیچے گرتا ہے اور کسی کی معرفت کا پرندہ بھی وہاں تک پر نہیں مار سکتا۔
( نہج البلاغہ :خطبہ شقشقیہ)
اسی طرح بی بی سلام اللہ علیہاکی ذات گرامی سے بھی علم پھوٹتا ہے۔اور اس پر دلیل جناب زہرا سلام اللہ علیہا کا اپنا یہ جملہ ہے جو انہوں نے مولائے کائنات سے ارشاد فرمایا(یاعلی لو اردت حدثتک علم الاولین والاخرین))یا علیؑ اگر میں چاہوں تو آپ کو اولین و آخرین کے علم کے بارے میں بتا سکتی ہو)الخصائص الفاطمیہ ص ١٢٠)
اور فاتحہ میں تو تمام چیزوں کا علم اجمالی طور پر پایا جاتا ہے جبکہ جناب زہراء سلام اللہ علیھا تفصیل کے ساتھ تمام علوم کو جانتی تھیں ۔جیسا کہ مصحف فاطمہ کے متعلق امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث ہے۔یہاں میں اس حدیث میں سے کچھ حصے کا ترجمہ پیش کرتا ہوں تاکہ قارئین جان سکیں کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کتنی بڑی عالمہ تھیں۔ابو بصیر کہتا ہے کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے مصحف فاطمہ کے متعلق پوچھاتو امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا :مصحف فاطمہ میں جو کچھ ہو چکا ہے اور قیامت تک جو ہونا ہے اس میں تمام چیزوں کی خبریں موجود ہیں ۔ آسمانوں میں جتنے فرشتے ہیں اور اس کے علاوہ اللہ نے جتنے افراد کو رسول بنایا ہے اور جنہیں رسالت عطاءنہیں کی ان تمام کے نام اس صحیفےمیں موجود ہیں ۔اور جن لوگوں کی طرف رسول بھیجے گئے ان میں سے جو رسولوں پر ایمان لائے اور جنہوں نے تکذیب کی ان تمام کے نام بھی اس صحیفےمیں موجود ہیں اور اولین و آخرین میں جتنے لوگ مومن ہونگے اور جتنے لوگ کافر ہوں گے ان تمام کے نام اس میں درج ہیں اور اہل جنت کے اوصاف اور جتنے لوگ جنت میں داخل ہوں گے ان تمام کا عدد اور جتنے لوگ جہنم میں داخل ہونگے ان کی تعداد بھی اس میں درج ہے ۔ اور تورات کا علم جیسے وہ نازل ہوئی اور انجیل کا علم جیسے وہ نازل ہوئی اور زبور کا علم جیسے وہ نازل ہوئی ان تمام کا علم بھی اس کتاب میں موجود ہے ۔) الاسرار الفاطمیۃ ص ۴٢١:۴٢٢)
نتیجہ :
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ ثابت ہوا کہ جس طرح سورۃ الفاتحہ کے امّ الکتاب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اولین و آخرین کا علم ہے ۔ اسی طرح جناب زہرا سلام اللہ علیہا کا امّ الکتاب ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ بی بی اولین و آخرین کے علم کی مالک ہیں ۔
۲:سورۃ الفاتحہ کے امّ الکتاب ہونے کی دوسری جو وجہ تسمیہ بیان کی جاتی ہے ۔ وہ یہ ہے کیونکہ یہ سورہ اساس القرآن ہے ۔ اور قرآن کی بنیاد ہے ۔ اس لیے اسے امّ الکتاب کہا جاتا ہے ۔اور یہ اساس القرآن اس لیے بھی ہے کیونکہ یہ سب سے پہلی وہ سورةہے کہ جو مکمل طور پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ۔ اور اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ جو مجمع البیان میں ذکر ہوئی ہے ۔ جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا؛”اساس القرآن فاتحة الکتاب و اساس الفاتحة بسم اللہ الرحمن الرحیم” (مجمع البیان: جلد ١ ص ۴٧)
اگر سورۃ الفاتحہ کے امّ الکتاب ہونے کی وجہ تسمیہ اس نکتہ کو لیا جائے ۔تو اس نکتے کی رو سے بھی اس کنیت کا جناب زہراؑ پر صادق آنا عین حقیقت ہے ۔اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا "انیّ تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی فان تمسّکتم بھا لن تضلوا بعدی” ۔کہ میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں ایک قرآن ایک میری عترت اہل بیت پس تم میں سے جو بھی ان دونوں کے ساتھ متمسک رہا وہ میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگا ۔( اصول الکافی:جلد ٢ ص ۵۴ ح ٣)
اب دو چیزیں ہیں ایک قرآن اور ایک اہل بیت جس طرح سورۃ الفاتحہ اساس القرآن ہے اسی طرح جناب زہرا سلام اللہ علیہا اساس اہل بیت ہیں ۔ اور جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے اساس اہلبیت ہونے پر یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا "الشجرة الطیّبة رسول اللہؐ و فرعھا علیؑ و عنصر الشجرة فاطمة و ثمرتھا اولادھا؛ اغصانھا و اوراقھا شیعتھا۔”
ترجمہ: شجرہ طیبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اس کی فرع اور شاخ حضرت علی علیہ السلام ہیں اس کی جڑ اور اساس حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں اس کا پھل آپ ؑ کی اولاد ہے اور اس کے پتے آپ کے شیعہ ہیں ۔
( الاسرار الفاطمیہ :ص ٢٧۴)
امام محمد باقر علیہ السلام نے اس حدیث میں باقی ائمہ اہل بیت کو درخت "پھل” اور شاخوں سے جب کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کو جڑاور بنیاد سے تشبیہ دی ہے ۔ یعنی درخت اس وقت تک سرسبز و شاداب رہتا ہے جب تک اس کی جڑ مضبوط ہو اور اگر جڑ ختم ہو جائے تو پورے کا پورا درخت خشک ہوجائے گا اور اس کی سرسبزی و شادابی بھی چلی جائے گی ۔
تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ائمہ اہل بیت علیھم السلام جو کہ ہدایت کا سر چشمہ ہیں وہ جس مدار کے گرد گھومتے ہیں اس مدار کو جناب زہراء سلام اللہ علیہا کہتے ہیں ۔
نتیجہ :
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ ثابت ہوا کہ جس طرح سورۃ الفاتحہ اساس القرآن ہونے کی وجہ سے ام الکتاب ہے اسی طرح جناب زہراء سلام اللہ علیہا اساس اہلبیت ہونے کی وجہ سے امّ الکتاب ہیں ۔
۳:سورۃ الفاتحہ کو امّ الکتاب کہنے کی جو تیسری وجہ تسمیہ بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کیونکہ یہ سورت باقی تمام سورتوں سے افضل ہے اور اس جیسی اور کوئی سورت نہیں آئی اسی لئے اسے امّ الکتاب کہتے ہیں ۔ جیسا کہ مکہ مکرمہ کیوں کہ تمام شہروں سے افضل ہے اس لئے اسے امّ القریٰ کہتے ہیں ۔ اور چونکہ اس جیسی کوئی اور سورت نہیں آئی اس لیے اسے امّ الکتاب کہتے ہیں ۔ جیسا کہ اس پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث دلالت کرتی ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "والذی نفس محمد بیدہ ما انزل اللہ فی التوراة و لا فی الانجیل ولا فی الزبور سورة مثلھا فاتحة الکتاب و ھی سبع المثانی۔
ترجمہ:مجھے اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں مجھ محمد کی جان ہے کہ اللہ نے تورات و انجیل و زبور میں ایسی کوئی سورت نہیں اتاری جس طرح کی قرآن میں سورۃ الفاتحہ نازل کی ہے اور یہ سبع مثانی ہے ۔(مجمع البیان : جلد ١ ص ۴٨)
اگر اس نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے کہ چونکہ سورۃ الفاتحہ تمام سورتوں سے افضل ہے اور اس جیسی کوئی اور سورت نہیں آئی اس لیے اسے امّ الکتاب کہتے ہیں تو اس معنیٰ کی رو سے بھی امّ الکتاب کی کنیت کا جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے لئے استعمال ہو نا عین حقیقت ہے ۔اس لیے کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا بھی تمام خواتین سے افضل ہیں اور آج تک ان جیسی کوئی خاتون نہیں آ سکی ۔جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا” فاطمة سیدة نساء العلمین”کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا تمام عورتوں کی سردار ہے ۔
( تفسیر عیاشی جلد ١ ص ١٧۴)
نتیجہ:
مندرجہ بالا گفتگو سے یہ ثابت ہوا کہ جس طرح سورۃ الفاتحہ تمام سورتوں سے افضل اور بے نظیر ہونے کی وجہ سے امّ الکتاب ہے ۔ اسی طرح جناب زہرا سلام اللہ علیہا تمام عورتوں سے افضل اور بے نظیر ہونے کی وجہ سے امّ الکتاب ہیں ۔
قابل توجہ نکتہ:
اب کنیات سے ہٹ کر جناب زہراء سلام اللہ علیھا کی سیرت کا ایک اور اہم گم گشتہ نکتہ یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
اکثر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ائمہ جماعت نماز مکمل کرنے کے بعد جب دعائے خیر کے لئے ہاتھ بلند کرتے ہیں تو ایک دعا پڑھتے ہیں "اللھم انی اسئلک بحق فاطمة و ابیھا و بعلھا و بنیھا و سر المستودع فیھا” (اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے صدقے میں ان کے پدربزرگوار،ان کے شوہر نامدار،ان کے فرزندوں اور اس راز کے صدقے میں جو آپ نے بی بیؑ میں ودیعت فرمائی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ وہ راز آخر کیا ہے جو بی بی سلام اللہ علیہا کو اللہ نے عطا کیا ہے اور ہم اس راز کے واسطہ سے اللہ سے دعا مانگتے ہیں ؟
یہ وہ راز ہے جو آج تک ہمارے لئے راز ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ راز اللہ نے بی بی پاک سلام اللہ علیہا کو عطا کیا ہے ۔ یہ راز یا اللہ جانتا ہے یا بی بی سلام اللہ علیہا جانتی ہیں یا ان کے وہ گیارہ فرزند جو مقام عصمت پر فائز ہیں وہ جانتے ہیں ۔ لیکن علمائے کرام نے احادیث و روایات سے استفادہ کرتے ہوئے جو کچھ اس راز کے متعلق بیان کیا ہے ۔ان میں سے چند یہاں ذکر کرنا چاہتے ہیں۔
پہلا احتمال: الشیخ محمد فاضل المسعودی ؒاس کے متعلق لکھتے ہیں ۔کہ وہ راز جو اللہ نے جناب زہرا سلام اللہ علیہا کو عطا کیا اور ہم اس کے صدقے میں دعا مانگتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے وہ راز امام مہدی آخر الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف ہوں ۔اور اسی لیئے وہ آج تک پردہ غیب میں ہیں اور جب اللہ کی مرضی ہوگی تب یہ راز ظاہر ہوگا ۔اور اس راز کو جناب زہراء سلام اللہ علیھا سے اس لیے منسوب کردیا کیونکہ امام مہدی علیہ السلام جناب زہراء سلام اللہ علیہا کے فرزند ہیں۔ یوں تو باقی ائمہ بھی جناب زہراء سلام اللہ علیھا کی اولاد ہیں لیکن امام مہدی علیہ السلام کو خصوصاً بی بی کا فرزند کہا گیا ہے ۔جیسا کہ جناب ام سلمہ سے روایت ہے کہ قالت: سمعت رسول اللہؐ یقول: "المھدی من عترتی من ولد فاطمة ” کہ مہدیؑ میری عترت میں سے اوراولاد فاطمہ سلام اللہ علیہا میں سے ہوگا۔(الاسرار الفاطمیہ :ص ۵٦)
اس احتمال پر یہ اعتراض وارد ہو سکتا ہے کہ اس دعا میں پہلے ہی لفظ "بنیھا” ذکر ہو چکا ہے کہ جس کا معنیٰ ہے کہ اے اللہ تجھے بی بی سلام اللہ علیھا کے بیٹوں کا واسطہ ۔تو ان بیٹوں میں امام مہدی علیہ السلام بھی آتے ہیں ۔تو امام مہدی علیہ السلام پہلے سے ہی اس دعا میں موجود ہیں ۔ تو الگ سے "الستودع فیھا” سے مراد امام مہدیؑ کیسے لی جا سکتی ہے ؟
جواب : اس احتمال پر یہ اعتراض اس لیے وارد نہیں ہوتا کیونکہ یہ ذکر الخاص بعد العام کے باب سے ہے ۔
دوسرا احتمال :علامہ فرماتے ہیں کہ اس” المستودع فیہا” سے مراد وہ علوم ربانیہ ہیں کہ جو بعد از پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وسلم ملائکہ کے توسط سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر نازل ہوئے ہیں ۔ جیسا کہ بی بی سلام اللہ علیہا کا ایک نام "محدثہ” اس کی تائید کرتا ہے ۔ اس لئے کہ محدثہ اس بی بی سلام اللہ علیہا کو کہتے ہیں جو ملائکہ سے گفتگو کرتی ہو ۔ اور وہ علوم ربانیہ مصحف فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی صورت میں ہر امام علیہ السلام کے پاس پہنچتا رہا ہے ۔اور آج تک امام مہدی علیہ السلام کے پاس موجود ہے ۔ اور ان علوم ربانیہ کو راز اس لیے کہا گیا کیونکہ سوائے معصومین علیہ السلام کے کسی نے بھی اس سے بلا واسطہ استفادہ نہیں فرمایا ۔اور جب امام علیہ السلام تشریف لائیں گے تو اس وقت اس راز کو (علوم ربانیہ) دنیا والوں کے سامنے آشکار کریں گےاور دنیا والوں کو ان علوم سے بہرہ مند کریں گے ۔
تیسرا احتمال :اس راز کے متعلق تیسرا احتمال یہ ہے کہ اس راز سے جناب زہراء سلام اللہ علیھا کا علة غائیة ہونا مراد ہے ۔ علت غائیہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اگر وجود جناب زہراء سلام اللہ علیہا نہ ہوتا تو کائنات کی کوئی چیز حتیٰ کہ رسول خداصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مولا علیؑ بھی نہ ہوتے ۔
دوسری طرف جناب زہراء سلام اللہ علیہا کا وجود مقصد نبوت و امامت کی بقا کا بھی ضامن ہے ۔بعثت انبیاء کا مقصد ہے اللہ کے دین کو اللہ کی شریعت کو لوگوں تک پہنچا ۔اور امامت کا مقصد اس دین اور شریعت کی حفاظت کرنا ہوتا ہے ۔اور تاریخ گواہ ہے کہ ہر مشکل میں امامت نے دین اسلام کی حفاظت کی ہے ۔ اس لیے کہ اگر تاریخ میں صلح امام حسن علیہ السلام اور قیام امام حسین علیہ السلام نہ ہوتا تو جو دین آج ہمارے پاس موجود ہے شاید یہ ہمارے پاس اس انداز میں نہ ہوتا ۔تو معلوم ہوا کہ آج اگراسلام موجود ہے تو وہ امام حسن و امام حسین علیھما السلام کی وجہ سے ہے اور امام حسن اور حسین علیھما السلام کا وجود جناب زہراء سلام اللہ علیہا کی وجہ سے ہے ۔تو معلوم ہوا کے ابلاغ دین اسلام اور اس کی حفاظت کہ جو مقصد نبوت و امامت ہے ،وہ ہرگز مکمل نہ ہوتا اگر وجود جناب زہرا ء سلام اللہ علیہا نہ ہوتا ۔
یہ چند مطالب اپنی ظرفیت کے مطابق ضبط قرطاس کیا ہے اگرچہ یہ جناب زہراء سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ کے گم گشتہ نکات کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ مگر اس نیت سے کہ ہمارا شمار بھی جناب زہراء سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ پر قلم اٹھانے والوں میں شامل ہوجائے کچھ نکات قلمبند کیا ہے ۔ خدا ہماری اس ادنی سی کاوش کو اپنی درگاہ میں قبول فرمائے۔آمین
مصادر و مآخذ
1؛ بلاغ القرآن : مفسر قرآن شیخ محسن علی نجفی دام عزہ۔
2:تفسیر الکوثر :مفسر قرآن شیخ محسن نجفی دام عزہ: نہج
3:نہج البلاغہ :سید رضی رحمۃ اللہ علیہ
4:اصول الکافی :محمد بن یعقوب کلینی دارالتعارف بیروت لبنان ۔
5:بحار الانوار :محمد باقر مجلسی داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان
6:تفسیر عیاشی :محمد بن مسعود عیاشی المتوفی 320 ھ
7:امالی الصدوق :شیخ صدوق علیہ الرحمہ المتوفیٰ ٣٨١ موسسة البعثہ قم۔ ایران
8:الاسرار الفاطمیة :الشیخ محمد فاضل المسعودی ۔موسسة الزائر قم
9: الخصائص الفاطمیہ شیخ محمد باقر الکجوری المتوفیٰ ١٢٠٠ تاریخ النشر ١٣٠٠العربی
10:مجمع البیان :الشیخ طبرسی رحمتہ اللہ علیہ المتوفیٰ ۵۴٨لغت عربیہ تاریخ نشر چودہ ١۴١۵

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button