سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

سیدہ نساء العالمین سلام اللہ علیھا کی سیرت کے گم گشتہ نکات

مختار حسین توسلی، (حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق)
چکیدہ
اللہ تعالی نے جن ہستیوں کی سیرت کو بنی نوع انسان کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے تاکہ وہ اس پر چل کر کمال کی منزل کو پہنچ سکیں ان میں سے ایک شخصیت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں، آپ کی سیرت کے مختلف پہلو ہیں اور ، ہر پہلو نمونہ عمل ہے ۔جناب سیدہ نے بیٹی کی حیثیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتنی خدمت کی کہ آپ کو ” ام ابیہا ” کا لقب ملا ۔ بیوی کی حیثیت سے شوہر داری کے جو اصول پیش کیے ہیں وہ پوری دنیا کی عورتوں کےلئے اسوہ حسنہ ہیں ۔ ماں کی حیثیت سے آپ نے اولاد کی تربیت کا جو اسلوب پیش کیا ہے وہ پوری دنیا کی ماوں کے لیے رول ماڈل ہے، چنانچہ آپ کی گود میں ایسے بچوں نے تربیت پائی ہے جو دین اسلام کے محافظ بن گئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں سے آگاہی حاصل کی جائے تاکہ ہمیں بھی اپنی زندگی کو منشاء الہی کے مطابق گزارنے کا سلیقہ آجائے ۔
مقدمہ :
اللہ تعالی نے انسان کو ایک اعلی و ارفع مقصد کے لیے خلق فرمایا ہے، البتہ اس مقصد تک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں ہے، کیونکہ اس تک پہنچنے کا راستہ بڑا کٹھن اور دشوار ہے لہذا اس پر چلنے کے لیے اسے کسی الہی نمائندے کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد و آل محمد علیہم السلام خدائے رحمٰن و رحیم کی برگزیدہ ترین مخلوق ہیں، چنانچہ اللہ تعالی نے ان کی سیرت مبارکہ کو بنی نوع انسان کے لیے اسوہ حسنہ قرار دیا ہے ، ان ذوات مقدسہ میں سے ایک نامی گرامی شخصیت خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا ہیں، آپ خود بھی معصوم ہیں، آپ کے بابا معصوم، شوہر معصوم اور بیٹے بھی معصوم ہیں، آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے ان سب ہستیوں کے تعارف کا ذریعہ بھی آپ ہی کی ذات کو قرار دیا ہے۔ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی سیرت مبارکہ کے مختلف پہلو ہیں،اور ہر پہلو دوسروں کے لیے نمونہ عمل ہے ۔ بیٹی کی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو رحمة للعالمين کی بیٹی ہونے کے ناطے آپ نے اپنے والد گرامی کی اتنی خدمت کی کہ آپ کو ” ام ابیہا ” کا لقب ملا ۔
بیوی کی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو کل ایمان کی بیوی بن کر آپ نے جو طرز عمل اختیار کیا اور شوہر داری کے جو اصول پیش کیے وہ پوری دنیا کی عورتوں کے لیے بالعموم اور مسلمان عورتوں کےلئے بالخصوص اسوہ حسنہ ہیں ۔
ماں کی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو جوانان جنت کے سرداروں کی ماں ہونے کے اعتبار سے جو سیرت چھوڑی ہے وہ ساری دنیا کی ماؤں کے لئے نمونہ عمل ہے ۔
واضح رہے کہ ماں کی اولین ذمہ داری اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ہے، دنیا کی مثالی ماں ہونے کے ناطے جناب سیدہ سلام اللہ جانتی تھیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیسے کرنا ہے، چنانچہ آپ کی گود میں ایسے بچوں نے تربیت پائی ہے جو دین اسلام کے محافظ و نگہبان بن گئے ۔
غرض شہزادی کونین کی سیرت تمام مسلمانوں خاص کر عورتوں کے لیے نمونہ عمل ہے، لہذا آپ کی سیرت و کردار پر بطور نمونہ عمل نگاہ ڈالنے اور بیان کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آپ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں، لہذا آپ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونگی، اب ظاہر ہے کہ ہر وہ شخص جس کے دل میں جنت میں جانے کی تمنا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ کے نقش قدم پر چلنے کی ہر ممکن سعی و کوشش کرے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سیدہ نساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی حیات مبارکہ کے مختلف پہلوؤں کا بغور مطالعہ کیا جائے تاکہ آپ کی سیرت و کردار سے آگاہی حاصل ہو اور ہمیں بھی اپنی زندگی کو منشاء الہی کے مطابق گزارنے کا ہنر اور سلیقہ آجائے، چنانچہ اس مختصر سے مقالے میں ذیادہ گنجائش نہ ہونے کی بنا پر سیدہ نساء العالمین کی سیرت مبارکہ کے صرف تین پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے،اور وہ تین پہلو یہ ہیں : سیدہ نساء العالمین بحیثیت بیٹی، سیدہ نساء العالمین بحیثیت بیوی، سیدہ نساء العالمین بحیثیت ماں ۔
سیدہ نساء العالمین بحیثیت بیٹی :
خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جب دوسال کی عمر کو پہنچیں تو کفار و مشرکین نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، بنی ہاشم اور دیگر مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کرکے انہیں شعب ِ ابی طالب میں محصور ہونے پر مجبور کر دیا، ان کٹھن حالات میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی اور پیاری بیٹی نے کمال ِ صبر اور برداشت کا مظاہرہ کیا جبکہ غربت و افلاس نے ان کو سخت جکڑ لیا تھا یہ سلسلہ تین سال تک جاری رہا، بعد ازاں اس قید و بند کی صعوبتوں سے انہیں نجات ملی ۔ (1)
شعب ِ ابی طالب کا محاصرہ در اصل مسلمانوں کی روحانی و جسمانی تربیت کے لئے ایک بنیادی مرحلہ تھا تاکہ وہ آنے والے دنوں میں بدترین حالات اور اعصاب شکن مشکلات کا مقابلہ کر سکیں، اس تربیتی مرحلے میں جناب سیدہ بھی اپنے والدین اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ موجود تھیں، انتہائی کم سنی کے باوجود آپ نے ان نا گفتہ بہ حالات کو برداشت کیا ۔
عموما شعب ابی طالب میں بنی ہاشم اور دیگر مسلمانوں کے گزارے گئے قید و بند کے ماہ و سال کے ضمن میں شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ذکر نہیں کیا جاتا جبکہ آپ کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ ہونا چاہیے کیونکہ ایک ایسی بچی جس نے ملکة العرب حضرت خدیجہ الکبری سلام اللہ علیہا جیسی مال دار خاتون کی گود میں پرورش پائی ہو اس کے لیے انتہائی کمسنی کے عالم میں شعب ابی طالب کی صعوبتوں کو برداشت کرنا آسان نہیں تھا لیکن ان روح فرسا سختیوں اور پریشانیوں کے باوجود آپ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی چنانچہ آپ نے خندہ پیشانی سے ان کا مقابلہ کیا ۔
بعثت کے دسویں سال جب جناب سیدہ کی عمر مبارک فقط چھے سال تھی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر مصائب و آلام کا ایک نیا پہاڑ ٹوٹا کیونکہ اس سال آپ کے دو عظیم حمایتی اور اسلام کے محسن حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ الکبری سلام اللہ علیہما کا انتقال ہوگیا، ان دو بزرگوار شخصیتوں کے انتقال سے گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے حضرت خدیجہ الکبری سلام اللہ علیہا نے نامساعد حالات میں اپنے مال و دولت کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدد و نصرت کی جبکہ حضرت ابو طالب نے بچپن میں ان کی تربیت، یتیمی میں ان کی کفالت اور اعلان بعثت کے بعد ان کی نصرت کی،تھی اسی لیے آپ نے ان کی وفات کے سال کو عامُ الحزن یعنی غم کا سال قرار دیا ۔ (2)
ان دو عظیم ہستیوں کی وفات کی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ بلکل تنہا ہو گئے اور دشمن مزید جری ہو گیا چنانچہ آپ کے لیے مکہ مکرمہ میں رہنا دشوار تر ہو گیا، یوں آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا فیصلہ کر لیا، ان پر آشوب حالات میں جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا نے ہی کم سنی کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے رنجیدہ دل کو راحت و سکون کا سامان فراہم کیا، آپ نے اپنے بابا سے حد درجہ پیار و محبت کا اظہار کیا اور اس قدر ان کی خدمت کی کہ آپ اُمُّ ابیھا یعنی اپنے بابا کی ماں کے لقب سے ملقب ہوئیں، یہ آپ کا منفرد مقام ہے جو کائنات کی کسی اور خاتون کے حصّے میں نہیں آیا .
یہ لقب آپ کو ایسے ہی نہیں ملا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بے مثال خدمت کرنے کی وجہ سے عطا ہوا، اس سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے والدین کے ساتھ ہمیشہ عزت و احترام اور پیار و محبت سے پیش آنا چاہیے، مشکلات اور سختیوں میں والدین کو ڈھارس پہنچانی چاہیے تاکہ خدا و رسول ہم سے راضی و خوشنود ہوں ۔
نیز کتب تاریخ و سیر میں ملتا ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت و احترام کا بہت ذیادہ خیال رکھتی تھیں، روایات میں آیا ہے کہ جب بھی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کی خدمت میں تشریف لے آتے تو آپ ان کا پرتپاک استقبال کر لیتی، چنانچہ حضرت عائشہ سے مروی ہے : میں نے کسی بھی شخص کو فاطمہ سے بڑھ کر کلام اور گفتگو میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مشابہ نہیں پایا، ۔ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے پاس آ جاتے تو وہ آپ کے استقبال کے لیے کھڑی ہو جاتی اور آپ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتی ۔ (3)
اس سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے والدین کا بہت ذیادہ احترام کرنا چاہیے، ان کے ہاتھوں کو بوسہ دینا چاہیے اور ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہو جانا چاہیے ۔
سیدہ نساء العالمین سلام اللہ علیہا بحیثیت بیوی :
جب خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ عقد ہوا تو جس طرح قریش کی عورتوں نے آپ کی والدہ گرامی حضرت خدیجہ الکبری سلام اللہ علیہا کو طعنہ دیا کہ انہوں نے مال دار خاتون ہونے کے باوجود محمد ابن عبداللہ جیسے ایک یتیم اور غریب انسان سے شادی کی ہے، اسی طرح آپ کو بھی طعنہ دینے لگیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کی شادی بھی علی ابن ابی طالب جیسے مفلس انسان سے کر دی ہے جن کے پاس مال ِو دنیا میں سے ظاہری طور پر کچھ بھی نہیں ہے ، لیکن آپ ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتی تھیں کیونکہ آپ کو بخوبی علم تھا کہ آپ کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی ہے جو اسلام میں سب سے اول، ایمان میں سب سے قوی، علم میں سب سے برتر اور فضل میں سب سے اکمل ہے ۔
تاریخ میں ملتا ہے کہ بہت سارے لوگ خاص کر مہاجرین جو اپنے آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریبی سمجھتے تھے جناب سیدہ سے شادی کی امید لگائے بیٹھے تھے، لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی کا عقد امیر المومنین علیہ السلام سے کر دیا تو یہ ان پر شاق گزرا اور انہوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا : ” لَولَا عَلِيٌّ لَمْ یَکُن لِفَاطِمَةٍ کُفْوٌ، یعنی اگر علی نہ ہوتے تو فاطمہ کا کوئی کفو اور ہمسر نہ ہوتا ” (4)
گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان پر واضح کر دیا کہ فاطمہ کا ہاتھ علی کے ہاتھ میں، میں نے نہیں دیا بلکہ خدا نے دیا ہے۔
نیز امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :” لَوْ لَا أَنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ (ع) تَزَوَّجَهَا مَا كَانَ لَهَا كُفْوٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ آدَمُ فَمَنْ دُونَهُ ۔
” اگر امیر المؤمنین علیہ السلام نے جناب سیدہ سلام الله عليها سے شادی نہ کی ہوتی تو اس روئے زمین پر آدم اور دیگر میں سے کوئی بھی ان کا ہمسر نہ ہوتا. (5)
مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں خاتون جنت حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی سیرت کو نمونہ عمل بنائیں تاکہ دنیا میں بہت سارے مفاسد سے بچا جا سکے اور آخرت میں دائمی سعادت اور ابدی نجات سے ہمکنار ہو سکیں، ان پر واضح ہونا چاہیے کہ شادی کے موقع پر جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی سیرت کو بالائے طاق رکھ کر موجودہ زمانے کے معیارات کو سامنے رکھنا اگرچہ مادی اعتبار سے کچھ فائدہ مند ہو لیکن معنوی و روحانی اعتبار سے خسارے کے سوا کچھ نہیں اور آخرت میں پشیمان ہونا پڑے گا، لہٰذا روایات میں آیا ہے کہ بڑے بڑے مال دار اور سرمایہ دار افراد نے شہزادی کونین سلام اللہ علیہا سے خواستگاری کی تھی، لیکن آپ نے امیر المومنین علیہ السلام کے علاوہ کسی کو بھی قبول نہیں کیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شوہر کے انتخاب میں دین داری، ایمان داری اور امانت داری معیار ہے۔
خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد جو طرز عمل اختیار کیا وہ پوری دنیا کی عورتوں کے لیے بالعموم اور مسلمان عورتوں کےلئے بالخصوص اسوہ حسنہ ہے ۔
شوہر داری کے اصول
شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد شوہر داری کا جو اسلوب اختیار کیا اور جن اصولوں پر کاربند ہوئی وہ پوری دنیا کی عورتوں کے لیے نمونہ عمل ہیں ، جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے شوہر داری کے جو اصول پیش کیے ذیل میں ان میں سے کچھ اہم مطالب کو بعض عناوین کے تحت بیان کیا جائے گا ۔
شوہر کی اطاعت :
اللہ تعالی نے گھر کے انتظامی امور میں مردوں کو عورتوں پر فضیلت و برتری دی ہے وہ پورے گھر کے نگران اور محافظ ہیں اس لیے عورتوں پر لازم ہے کہ ازدواجی رشتے سے منسلک ہونے کے بعد اپنے شوہروں کی اطاعت کریں ، قرآن مجید نے اطاعت گزاری کو نیک بیوی کا خاصہ شمار کیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :” اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلۡغَیۡبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ۔”
” مرد عورتوں پر نگہبان ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس لیے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے، پس جو نیک عورتیں ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں، اللہ نے جن چیزوں (مال اور آبرو) کا تحفظ چاہا ہے، (خاوند کی) غیر حاضری میں ان کی محافظت کرتی ہیں۔” (6)
خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے شوہر نامدار امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی ایسی اطاعت وفرمانبرداری کی کہ اس کی نظیر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی، یہی وجہ ہے کہ جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے محسنہ اسلام حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی موجودگی میں دوسرا عقد نہیں کیا (جبکہ ان کی رحلت کے بعد متعدد خواتین سے عقد نکاح کر لیا) اسی طرح حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے بھی جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی حیات مبارکہ میں دوسرا عقد نہیں کیا، اس سے پتہ چلتا ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا اپنے شوہر کی کتنی تابع فرمان تھیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں امیر المومنین علیہ السلام سے فرمایا : اے ابن عم : آپ نے مجھے کبھی دروغ گو اور خائن نہیں پایا، جب سے آپ نے میرے ساتھ زندگی کا آغاز کیا ہے میں نے آپ کے احکامات کی کبھی مخالفت نہیں کی، اس پر امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا : اے دختر رسول ! معاذاللہ کہ آپ نے گھر میں مجھ سے کبھی برا سلوک کیا ہو، کیونکہ آپ کی معرفت خداوندی، نیکو کاری اورخدا ترسی اس حد تک تھی کہ اس پر شک نہیں کیا جاسکتا آپ کی جدائی مجھ پر بہت گراں گزرے گی۔” (7)
تمام مسلمان خواتین کے لیے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہما کا طرز زندگی نمونہ عمل ہے کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری میں گزاری اور کبھی بھی ان کی حکم عدولی نہیں کی۔
شوہر کی خوبیوں کو بیان کرنا :
ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی کمزوری اور عیب پایا جاتا ہے لہذا اس کو آشکار کیے بغیرایک دوسرے کی خوبیوں کو بیان کرنا ایک اچھے میاں بیوی کی علامت ہے، قرآن مجید میں اس بارے میں بہت ہی خوبصورت تعبیر ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :” ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ ، یعنی ازواج تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو ۔ (8) لباس کی خوبی یہ ہے کہ وہ انسان کے جسم پر موجود عیوب اور نقائص کو چھپاتا ہے ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اور خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ازدواجی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ ایک دوسرے کے عیوب اور کمزوریوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے کی بجائے خوبیوں اور اچھائیوں کو بیان کرنا چاہیے، اس سلسلے میں ان ہستیوں کی سیرت میں ہمیں ایک خاص درس ملتا ہےاور وہ یہ کہ شادی کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ دونوں کی زندگی کے بارے میں سوال کیا، چنانچہ شادی کے دوسرے دن رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مولائے کائنات سے پوچھا کہ یا علی ! آپ نے اپنی شریک حیات کو کیسا پایا ہے ؟آپ نے جواب دیا : نِعْمَ الْعَوْنُ عَلَى طَاعَةِ اللهِ ، یعنی زہرا خدا کی اطاعت کے سلسلے میں بہترین مدد گار ہیں۔ امير المومنين حضرت علی علیہ السلام نے اس مختصر سے جملے كے ذريعہ اسلام كى برگزیدہ اور مثالى خاتون كا تعارف بھى كرايا اور ازدواجى زندگى كے بنيادى اور اہم مقصد كو بھى بيان فرماديا ، آپ نے اپنے اس کلام کے ذریعے واضح کیا کہ قابل تعریف زوجہ وہی ہے جو شوہر کی تابعداری کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کی اطاعت بھی کرے ۔
اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے پوچھا کہ علی کو کیسا شوہر پایا ؟
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے جواب دیا : خَيْرُ بَعْلٍ ، یعنی علی بہترین شوہر ہیں، یہ سننے کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے حق میں دعائے خیر فرمائی ۔ (9)
قناعت اور سادگی اختیار کرنا:
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی حیات مبارک کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ان کی زندگی بہت سادہ نظر آتی ہے، اگرچہ آپ خاتون جنت تھیں، سیدالانبیاء کی اکلوتی بیٹی تھیں اور کائنات کی عورتوں کی سردار تھیں لیکن اس کے باوجود آپ کی گھریلو زندگی قناعت اور سادگی سے عبارت تھی جو آج کی مسلمان عورتوں کے لیے نمونہ عمل ہے، جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے زندگی کے ہر موڑ پر امیر المومنین علیہ السلام کا بھر پور ساتھ دیا، ہر موقع پر ان کے جذبات و احساسات کا خیال رکھا آپ نے کبھی ان سے ایسی کوئی فرمائش نہیں کی جس کو پورا کرنے کے لیے انہیں مشقت اٹھانی پڑے جو یقینا آج کی خواتین کے لیے نمونہ عمل ہے ۔
ایک مرتبہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا بیمار ہوئیں تو مولائے کائنات سلام اللہ علیہ نے خود ان سے فرمایا : کچھ کھانے کو دل چاہتا ہو تو بتائیں، جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا : کسی بھی چیز کو دل نہیں چاہتا، مولاۓ کائنات نے جب اصرار کیا تو عرض کی : میرے پدر بزرگوار نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ سے کسی بھی چیز کا سوال نہ کروں، کیونکہ ممکن ہے کہ آپ اسے پورا نہ کرسکیں، جس کی وجہ سے آپ کو رنج پہنچے، لیکن جب مولائے کائنات علیہ السلام نے قسم دیدی تو جناب سیدہ سلام اللہ علیہا فرمایا : انار کھانے کو جی چاہتا ہے۔
سبحان اللہ ! شوہرداری اسی کا نام ہے کہ اصرار کے باوجود بھی اس سے اپنی خواہش کا اظہار نہ کیا جائے، البتہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیوی اپنے شوہر سے کسی بھی چیز کا تقاضا نہ کرے اور اس سے کسی بھی چیز کی فرمائش نہ کرے بلکہ وہ اپنے شوہر کی حیثیت کو مدنظر رکھ کر اپنی پسند کی چیزیں منگوا سکتی ہے، اس سلسلے میں شوہر کو بھی چاہیے کہ بیوی کی جائز فرمائش کا احترام کرتے ہوئے اس کو پورا کرے تاکہ دونوں کی باہمی محبت و الفت میں اضافہ ہو جائے۔
چونکہ خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پورا وجود دوسروں کے لئے نمونہ عمل تھا اس لیے آپ کی زندگی بہت سادہ تھی، سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ملکة العرب حضرت خدیجہ الکبری سلام اللہ علیہا کی بیٹی اور سیدالاوصیا حضرت علی علیہ السلام کی زوجہ ہونے کے ناطے آپ شاہانہ زندگی گزار سکتی تھیں لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا جو یقینا مسلمان عورتوں کے لیے نمونہ عمل ہے، چنانچہ خود بھوکے رہ کر اپنا سارا مال و متاع غریبوں، مسکینوں اور یتیموں میں بانٹ دیا ۔
شوہر کے اقرباء سے حسن سلوک سے پیش آنا:
جب خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا رشتہ ازدواج سے منسلک ہو کر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے گھر گئیں تو اس وقت مولائے کائنات کی والدہ گرامی جناب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا زندہ تھیں چنانچہ آپ نے ان کے ساتھ نیک برتاؤ کیا، ہمارے معاشروں میں ساس بہو کے تعلقات اکثر و بیشتر ناخوشگوار ہوجایا کرتے ہیں لیکن جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے ایسا دستور بنایا کہ کبھی آپ اور جناب فاطمہ بنت اسد کے درمیان کشیدگی پیدا نہیں ہوئی۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے گھریلو امور کو یوں تقسیم کیا ہوا تھا کہ اعزا اقرباء کی ملاقات، شادیوں اور خوشی غمی کی تقریبات میں شرکت وغیرہ کو جناب فاطمہ بنت اسد علیہ السّلام کے سپرد کیا ہوا تھا اور امور خانہ داری اپنے ذمے رکھ لئے تھے، چنانچہ تاریخ میں ان دو باعظمت خواتین کے درمیان کسی بھی زاویے سے باہمی کشیدگی کا سراغ نہیں ملتا۔ (10)
اگر ان میں کبھی اَن بن اور نوک جھونک ہوئی ہوتی تو تاریخ اس کا ضرور ذکر کرتی، لہذا اس کا سراغ نہ ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے گھریلو زندگی کے اس اہم مرحلے کو بھی نہایت خوش اسلوبی سے طے کرلیا تھا جو یقینا دوسری عورتوں کے لئے نمونہ عمل ہے۔
امور خانہ داری کو انجام دینا :
انسانی معاشرے کے اندر گھر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ ایک چھوٹی سی ریاست ہے لیکن اس میں انجام پانے والے امور معمولی نوعیت کے نہیں ہیں، اسى بناء پر امور خانہ دارى كو نہايت قابل فخر اور باعزت کام تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں بچوں کی تعلیم و تربیت جیسی اہم ذمہ داری بھی اس کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے، عالمین اور جنت کی عورتوں کی سردار حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اس بات پر فخر کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ وہ ایک خاتون خانہ ہیں، چنانچہ جب آپ کی امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ شادی ہوئی تو آپ نے اس ذمہ داری کو بطریق احسن انجام دیا ۔
علاوہ ازیں عائلی زندگی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی اپنے روز مرہ کے کاموں کو آپس ممیں تقسیم کریں تاکہ وہ بہتر طور پر گھریلو امور کو انجام دے سکیں، واضح رہے کہ اللہ تعالی نے نوع انسانی کو دو صنفوں میں خلق کیا ہے اور دونوں کی جسمانی ساخت اور ذہنی و فکری استعداد میں بھی فرق رکھا ہے اس لیے عائلی زندگی میں دونوں کے ذمہ الگ الگ فرائض اور ذمہ داریاں لگائی ہیں ۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام اور خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی ازدواجی زندگی کے آغاز سے ہی اس مسئلے کی جانب توجہ دی اور اس سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی مدد حاصل کی، اس سلسلے میں ہمارے لئے ان ہستیوں کی سیرت طیبہ نمونہ عمل ہے، جب جناب سیدہ سلام اللہ علیھا مولائے کائنات علیہ السلام کے گھر منتقل ہوگئیں تو آپ کسی اجنبی کے گھر میں نہیں بلکہ مرکز نبوت سے مرکز ولایت میں منتقل ہوگئی تھیں اور اس نئے مرکز میں آپ کے کندھوں پر فرائض کا ایک بارگراں آ گیا، آپ جانتی تھیں کہ اس مرکز میں کیسی اور کس قسم کی زندگی گزارنی ہے ؟
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اگرچہ کائنات کی افضل ترین ہستی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکلوتی اور عظیم مقام و مرتبہ والی بیٹی تھیں نیز آپ کائنات اور جنت کی عورتوں کی سردار تھیں، اس لیے آپ چاہتی تھیں کہ ایک ایسی مثالی زندگی گزاریں جو ہر قسم کے نقص و عیب سے پاک ہو تاکہ آنے والے ادوار میں پوری دنیا کی عورتیں اپنی گھریلو زندگی میں آپ کے طرز عمل اور روش کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دیں، چنانچہ شادی کے ابتدائی دنوں میں آپ امیر المومنین علیہ السلام کو لے کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ آپ گھر کے کاموں کو ہم میں تقسیم کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : گھر کے اندرونی کام فاطمہ انجام دیں اور بیرونی کام علی انجام دیں، جناب زہراء سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں : میں اس تقسیم سے اتنی خوش ہوئی کہ آنحضرت نے گھر کے بیرونی کام میرے سپرد نہیں کیے۔” (11)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس اقدام سے معلوم ہوتا ہے گھریلو امور کی تقسیم جسمانی طاقت و توانائی کے لحاظ سے کرنا ضروری ہے چونکہ مرد گھر کے باہر کے کاموں کو انجام دینے کی توانائی زیادہ رکھتا ہے اور عورت گھر کے اندر کے کاموں کو بہتر طور پر انجام دے سکتی ہے۔
واضح رہے کہ ابتداء میں گھر کے سارے کام جناب سیدہ سلام اللہ علیہا تن تنہا کیا کرتی تھیں لیکن اس کے باوجود آپ نے کبھی ہمت نہ ہاری، اسی لیے آپ نے کبھی امیر المومنین علیہ السلام سے خادمہ کی فرمائش نہیں کی، البتہ 7 ہجری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خادمہ عطا کی جو فضہ کے نام سے مشہور ہیں، لیکن آپ نے جناب فضہ کے ساتھ ایک کنیز کا سا سلوک نہیں کیا بلکہ ایک عزیز رفیق کار جیسا برتاؤ کیا ۔
یہاں بھی جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے گھریلو امور کو تقسیم کیا ہوا تھا چنانچہ ایک دن خود کام کرتیں اور ایک دن جناب فضہ سلام اللہ علیہا سے کام لیتی تھیں اس طرح آپ نے اپنے طرز عمل سے جناب فضہ کو خادمہ ہونے کا احساس ہونے نہیں دیا. (12)
آپ کا یہ طرز عمل یقینا گھروں میں ملازم رکھنے والوں کے لیے نمونہ عمل ہے، لہذا انہیں چاہیے کہ وہ ملازمین کو بھی انسان سمجھتے ہوئے گھریلو امور کی انجام دہی میں ان کا ہاتھ بٹائیں تاکہ ان کے دکھ درد میں کمی واقع ہو۔
علاوہ ازیں ان معصوم ہستیوں کے طرز عمل سے ہمیں جو پیغام ملتا ہے وہ یہ ہے کہ مردوں اور عورتوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے سے متعلقہ امور کو انجام دینے کی کوشش کریں، دوسروں کے امور مداخلت نہ کرےکیونکہ اس سے عائلی نظام زندگی میں خرابی پیدا ہوتی ہے، پس عورتیں اگر مردوں کے امور کو انجام دینے لگ جائیں تو وہ اپنے فرائض کو انجام نہیں دے پائیں گی جس سے عائلی نظام زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے جس کا مشاہدہ آج کے دور میں بخوبی کیا جا سکتا ہے۔
جود و سخا :
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت و کردار سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ایک مسلمان کو فضول خرچی سے احتراز کرنا چاہے لیکن خدمت خلق کے سلسلے میں اپنی مالی کمزوریوں کے باوجود جود و سخا اور بخشش و عطا سے گریز نہیں کرنا چاہیے، اس حوالے سے آپ کی سیرت ہمارے لیے نمونہ عمل ہے، گویا اس میدان میں بھی آپ بے مثال تھیں، گھر میں کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی دروازے پر آنے والے غریب اور نادار افراد کو خالی ہاتھ واپس جانے نہیں دیتی تھیں، ذیل میں اس حوالے سے چند واقعات کے صرف حوالے پیش کیے جاتے ہیں ۔
ایک دفعہ دروازے پر کوئی سائل آیا تو اس کو دینے کے لیے آپ کے پاس کچھ نہیں تھا کیونکہ تین دن سے آپ کے گھر میں فاقہ چل رہا تھا ، اس وقت آپ نے چادر تطہیر جناب سلمان فارسی کے حوالے کر دی تاکہ وہ اسے بیج کر سائل کی حاجت پوری کر دیں، اس چادر کی برکت سے ایک یہودی مسلمان ہو گیا ۔ (13)
نیز ایک مرتبہ سائل کی حاجت پوری کرنے کے لیے آپ نے اپنے گلے کا ہار اتار کر دے دیا تھا۔ (14)
مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے اپنی لخت جگر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو شادی کے وقت ایک نئی قمیض عطا کر دی تا کہ وہ اسے پہن کر مولائے کائنات کے گھر جا سکیں، ایک روایت کے مطابق رخصتی کی شب کو آپ مصلائے عبادت پر بیٹھی ہوئی بارگاہ ایزدی میں راز و نیاز کر رہیں تھیں کہ اتنے میں ایک سائل نے باہر دروازے پر آواز لگائی کہ اے اہل بیت نبوت ایک پرانے لباس کا سوال ہے، چنانچہ آپ نے سائل کو اس کے سوال کے مطابق پرانا لباس دینا چاہا، اتنے میں آپ کے سامنے قرآن کریم کی یہ آیت آئی : لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ۔
یعنی جب تک تم اپنی پسند کی چیزوں میں سے خرچ نہ کرو تب تک کبھی نیکی کو نہیں پہنچ سکتے اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو یقینا اللہ اس سے خوب باخبر ہے۔ (15)
شہزادی کونین جانتی تھیں کہ انسان کو پرانے لباس کی بجائے نیا لباس پسند ہوتا ہے ، آپ نے اس آیہ کریمہ پر عمل کرتے ہوئے نیا لباس سائل کو دے دیا، دوسرے دن جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی بیٹی کے جسم اطہر پر پرانا لباس دیکھا تو پوچھا کہ اے میری لخت جگر ! آپ نے نیا لباس کیوں نہیں زیب تن کیا ؟
آپ نے جواب دیا کہ بابا جان ! وہ میں نے آپ اوراپنی ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے راہ خدا میں دیدیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کے طرز عمل سے بےحد خوش ہوئے اور آپ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ (16)
علاوہ ازیں جناب سیدہ سلام اللہ علیہانے تین دن تک خود بھوکے رہ کر اپنا اور اپنے اہل و عیال کا کھانا مسکین، یتیم اور اسیر کو دے کر سخاوت کا وہ اعلی نمونہ پیش کیا جس کی نظیر نہیں ملتی ۔ (17)
حقیقت یہ ہے کہ اہل بیت کا گھرانہ صرف سخی نہیں بلکہ کریم بھی تھا، سخی اور کریم میں فرق یہ ہے کہ سخی انسان خود بھی کھاتا ہے اور دوسروں کو بھی کھلاتا ہے جبکہ کریم وہ شخص ہے جو خود نہیں کھاتا بلکہ دوسروں کو کھلاتا ہے، اہل بیت وہ ہستیاں ہیں جو خود بھوکے پیاسے رہ کر دوسروں کو کھلایا کرتی ہیں، اسی سے ہمیں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عظیم المرتبت شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے آپ نے اپنی سیرت کے ذریعے ہمیں پیغام دیا ہے کہ ہمیشہ غریبوں، یتیموں، مسکینوں اور اسیروں کی خوراک و لباس کا خیال رکھنا چاہیے۔
حجاب ِ اسلامی کی پابندی کرنا :
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی سیرت و کردار اور اقوال دونوں سے مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے ، تاریخ میں آیا ہے کہ آپ کا مکان مسجد نبوی سے متصل تھا لیکن اس کے باوجود آپ کبھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا آپ کا وعظ و نصیحت سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن و حسین علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں۔
چنانچہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد نبوی میں منبر پر کھڑے ہو کر اصحاب سے پوچھ لیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے، جب جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو اس سوال کی بابت معلوم ہوا تو آپ نے اس کا ایسا جواب مرحمت فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خوش ہو گئے ۔
ایک دوسری روایت میں آنحضرت نے براہ راست آپ سے پوچھ لیا کہ عورت کےلئے سب سے اہم چیز کیا ہے تو آپ نے جواب دیا : أن لا ترى رجلا و لا يراها رجل، یعنی عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے ۔ (18)
ايک نابينا صحابی نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا كے گھر ميں داخل ہونے كے لئے اجازت چاہی تو آپ پردے كے پيچھے چلی گئیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ يہ نابينا ہے دیکھ نہیں سکتا ، اس وقت جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے جواب دیا : بابا جان ! وه مجھے ديكھ نہیں سكتا ليكن ميں تو اس كو ديكھ سكتی ہوں، یہاں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے اپنے طرز عمل کے ذریعہ ہمیں پیغام اور درس دیا ہے کہ پردہ یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ عمل ہے، اگر مرد نا بینا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت اسے دیکھے، لہٰذا اسے بھی پردے کا خیال رکھنا چاہیے ۔
روایات میں آیا ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا جب کسی بھی نامحرم مرد سے بات کرتی تھیں تو آپ اور اس کے درمیان کوئی نہ کوئی پردہ ضرور حائل کر دیا جاتا تھا ،حتی کہ جب آپ دربار خلافت میں اپنا حق مانگنے گئیں تو اس وقت بھی آپ کے لیے مسجد نبوی میں پردے کا انتظام کیا گیا،تھا جو آپ کی عفت و پاکدامنی کی علامت ہے بلکہ اس سلسلہ میں آپ کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ آپ کو یہ بات بھی بری محسوس ہوئی کہ آپ کی شہادت کے بعد آپ کے جنازہ کو اسی طرح ایک چادر ڈال اٹھایا جائے جس طرح دوسری عورتوں کا جنازہ اٹھایا جاتا ہے چنانچہ آپ نے وصیت فرمائی کی آپ کے جنازے کو تابوت میں رکھ کر رات کی تاریکی میں اٹھایا جائے ۔
علاوہ ازیں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو پردے کا اتنا خیال تھا کہ آپ نے امیر المومنین علیہ السلام سے وصیت کی کہ وہ خود آپ کو غسل دیدیں، گویا آپ چاہتی تھیں کہ آپ کا محرم ہی آپ کو غسل دیدے تاکہ کسی غیر عورت کی نظر بھی آپ کے جسم مبارک پر نہ پڑے ۔
بلا شبہ شہزادی کونین کی سیرت مسلمان عورتوں کے لئے مشعل راہ ہے، آج اگر وہ آپ کی سیرت و کردار کو اپنے لئے مشعل راہ بنا لیں تو وہ بہت ساری مشکلات سے نکل سکتی ہیں، آج کے دور میں مسلم خواتین دعوی تو کرتی ہیں کہ وہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی پيروکار ہیں لیکن وہ ان کے نقش قدم پر عمل پیرا نہیں ہوتیں، جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے پردے میں رہ کر تدریس بھی کی، تبلیغ بھی کی، رسول خدا صل اللہ علیہ والہ وسلم کی صداقت کی گواہی دینے کے لیے میدان مباہلہ میں گئیں، اور اپنے حق کے لئے خلیفہ وقت کے دربار میں بھی گئیں ، اس سے پتہ نچلتا ہےعورت کا کمال اس میں ہے کہ اسلامی قوانين کی رعايت كرتے ہوئے حجاب اسلامی ميں رہ كر معاشرے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے ۔
سیدہ نساء العالمین سلام اللہ علیہا بحیثیت ماں :
ایک مثالی ماں کی حیثیت سے بھی خاتون جنت شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت دنیا کی ساری ماوں کے لئے نمونہ عمل ہے، ماں کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت کا بندوبست کرے، دنیا کی مثالی ماں ہونے کے ناطے جناب سیدہ سلام اللہ جانتی تھیں کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیسے کرنا ہے، چنانچہ آپ کی گود میں ایسے بچوں نے تربیت پائی ہے جن کے فضائل و مناقب تمام اولاد آدم سے ذیادہ ہیں ۔
شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ آپ نےکوئی عام بچوں کی نہیں بلکہ حسنین کریمین جیسے اماموں اور زینب و کلثوم جیسی انقلاب آفریں بیٹیوں کی پرورش کرنی ہے، آپ ان خواتین میں سے نہیں تھیں کہ جو گھر کے ماحول کو معمولی شمار کرتی ہیں، بلکہ آپ گھر کے ماحول کو بہت اہم اور حساس گردانتی تھیں، آپ کے نزدیک ماں کی آغوش دنیا کی سب سے بڑی درسگاہ تھی، اس لیے آپ نے بڑی جان فشانی سے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے فریضے کو انجام دیا، آپ کی شخصیت بچوں کے سامنے ایک عملی مربّی کی سی تھی، چنانچہ آپ نے اپنے کردار و عمل کے ذریعے اپنے بچوں کی اس انداز سے تربیت کی کہ وہ بھی آپ کی طرح اہلِ عالم کے لئے نمونہ عمل بن گئے ۔
حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میری والدہ گرامی شب جمعہ ساری رات خدا کی عبادت کرتی رہیں، یہاں تک کہ سپیدہ سحر نمودار ہوگیا، میں سنتا رہا ساری رات میری والدہ ماجدہ ہمسایوں، عزیزو اقارب اور دیگر مسلمانوں کے لئے دعا کرتی رہیں، صبح ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ اے والدہ گرامی ! آپ نے اپنے لئے کیوں دعا نہیں کی، اس پر جناب سیدہ سلام اللہ نے جواب دیا: یا بُنیَّ الجارُ ثُمَّ الدّارُ، اے میرے بیٹے ! پہلے پڑوسیوں کے لیے پھر گھر والوں کے لیے دعا کرنی چاہیے ۔ (19)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے شروع ہی سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی ہے، آپ ہمیشہ انھیں حصول علم پر مائل کرتی تھیں، اسی سلسلے میں روایات میں آیا ہے کہ ایک دن آپ نے اپنے فرزند ارجمند امام حسن مجتبی علیہ السلام سے جو کہ تقریبا سات سال کے تھے ( اس کے باوجود کہ آپ جانتی تھیں کہ وہ امام ہیں اور علم لدنی کے مالک ہیں) فرمایا : بیٹا مسجد میں جائیں اور اپنے جد بزرگوار سے جو کچھ سنیں اسے یاد کر کے میرے پاس آئیں اور مجھے سنائیں ۔
قربان جاؤں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے انداز تربیت پر کہ جس کی وجہ سے آپ کے بیٹے اور بیٹیوں نے اپنے لیے کچھ نہیں کیا، جو بھی کیا امت کے لیے کیا، دوسروں کو آرام و آسائش پہنچانے کے لیے خود کو ہمیشہ مشکلات اور سختیوں میں ڈالا، اگر دنیا بھر کی مائیں خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت و کردار کو اپنے لیے نمونہ قرار دے کر اپنے بچوں کی تربیت کریں تو یقینا اس سے اسلامی معاشرے کے حالات سنور جائیں گے اور مسلمان دنیا و آخرت کی سعادت سے بہرہ مند ہونگے۔
خلاصہ
اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں سے بعض شخصیات کو دوسروں کے لئے نمونہ عمل بنا کر پیدا کیا ہے ، باین معنی ان کی سیرت و کردار عام لوگوں کے لیے اسوہ حسنہ ہے جس پر چل کر وہ اپنی دنیا و آخرت دونوں کو سنوار سکتے ہیں، بلاشبہ ان شخصیات میں سے ایک شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی ذات والا صفات بھی ہے، آج کے اس پُر آشوب دور میں ضروری ہے کہ آپ کی حیاتِ مبارکہ کے مختلف پہلووں آگاہی سےحاصل کی جائے تاکہ قیامت تک آنے والے لوگ ان پر عمل پیرا ہوکر مادی و معنوی کمالات کو حاصل کرسکیں، بصورت دیگر کوئی شخصیت کتنی ہی جامع کیوں نہ ہو اگر اس کی سیرت و کردار پر عمل نہ کیا جائے تو معاشرے کو اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچ سکتا، چنانچہ اس شخصیت کی بلند پایہ سیرت و کردار سے فائدہ حاصل کرنا خود لوگوں پر منحصر ہے۔
اگر لوگ اپنے معاشرے کو انسانیت کی بلندیوں پر دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی سیرت و کردار کے مختلف گوشوں سے آگاہ ہوں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ان سے روشناس کرائیں ۔
اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو عالمین کے لئے نبی اور رحمت بنا کر بھیجا ہے ، اسی طرح آپ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو بھی عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دیا ہے، سردار اسے کہتے ہیں جس کی اطاعت کی جاتی ہے، جس کے نقش ِ قدم پر عمل کیا جاتا ہے اور جس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کیا جاتا ہے، اسی سے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی عظیم المرتبت شخصیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
شہزادی کونین سلام اللہ علیہا نے جو کچھہ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے اپنے والدین سے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوہر نامدار مولائے کائنات کے گھر میں عملی جامہ پہنایا، چنانچہ آپ زندگی کے ہر نشیب و فراز سے واقف تھیں ۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ازدواجی زندگی سے منسلک ہونے کے بعد جو طرز زندگی اختیار کیا وہ پوری دنیا کی عورتوں کے لئے نمونہ عمل ہے آپ گھر کے سارے کام کاج اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں جیسے چکی پیسنا، کھانا پکانا، جھاڑو دینا اور بچوں کی تربیت کرنا وغیرہ، لیکن اس کے باوجود کبھی بھی کوئی شکوہ شکایت زابان پر نہیں لائی۔
شہزادی کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت و کردار مسلمان عورتوں کے لئے مشعل راہ ہے، آج اگر تمام عورتیں آپ کے طرز معاشرت کو اپنے لئے نمونہ عمل بنا لیں تو وہ دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہو سکتی ہیں۔
آج کے دور میں مسلمان عورتین دعوی کرتی ہیں کہ وہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی پیروکار ہیں، اگر ایسا ہے تو پھر ان کی سيرت پر عمل بھی كرنا چاہیے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے پردے میں رہ کر احکام الہی کی تعلیم بھی، تبلیغ بھی کی اور اپنے حق کے لئے خلیفہ وقت کے دربار میں آواز بھی بلند کی، لہذا عورت کا کمال اس میں ہے کہ اسلامی قوانين کی رعايت كرتے ہوئے حجاب اسلامی ميں رہ كر معاشرے میں اپنا كردار ادا كرے تاکہ وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی سے ہمکنار ہو ۔
حوالہ جات:
(1) ۔ ابن سعد، أبو عبد الله محمد بن سعد، الطبقات الکبری، دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان، طبع اول 1410ھ ، بہیقی، ابی بکر احمد بن حسین بہیقی، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان، طبع اول 1408ھ، ج 2، ص 311 / 312 ۔
حمیری، ابن ہشام حمیری، السیرت النبویہ، مکتبہ محمد علی صبیح الازہر مصر، نشر 1383ھ ج 1، ص 234/ 235
(2) ۔ یعقوبی، احمد بن اسحاق یعقوبی، تاریخ یعقوبی، تاریخ اشاعت 1883ء، ج 2، ص 35 ۔
(3) ۔ حاکم، ابی عبد اللہ حاکم نیشاپوری، تحقیق: یوسف عبد الرحمن مرعشلی، المستدرک علی الصحیحین، دارالمعرفه بیروت لبنان ، ۳: ۱٥٤ – ١٦٠ ۔
(4) – مجلسی، علامہ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، موسسہ الوفا بیروت لبنان، طبع ثانی 1403ھ / 1983م ، ج 43، ص 145
(5) – الصدوق، أبی جعفر محمد بن علی ابن حسين بن موسى بن بابويه القمی، تحقیق: سید محمد صادق بحر العلوم، علل الشرائع، منشورات المكتبة الحيدرية ومطبعتها في النجف الاشرف، 1385ھ 1966م، ج : 1 ، ص: 178
(6) – قرآن مجید : 4، 34
(7) – مجلسی، علامہ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، موسسہ الوفا بیروت لبنان، طبع ثانی 1403ھ / 1983م ، ج 43، ص 191 ھ ۔
(8) – قرآن مجید 2- 187
(9) – مجلسی، علامہ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، موسسہ الوفا بیروت لبنان، طبع ثانی 1403ھ / 1983م ، ج 43، ص 117)
(10) ۔ کراروی، مولانا سید نجم الحسن کراروی، چودہ ستارے، ناشر : معراج کمپنی لاہور، طبع اول مئی 2013 ء، ص 61
(11) – مجلسی، علامہ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، موسسہ الوفا بیروت لبنان، طبع ثانی 1403ھ / 1983م ، ج 43، ص 81
(12) طبری، محمد بن جریر طبری، دلائل الإمامة، موسسہ بعثت قم، طبع اول 1413ھ، ص 140 – 142 ، زنجانی، اسماعیل انصاری زنجانی، الموسوعة الكبرى عن فاطمة الزهراء، ناشر : منشورات دلیل ما قم، طبع ثانی 1429ھ، ج 17، ص 429 ۔
(13) – ہاشمی، طالب ہاشمی، تذکار صحابیات، البدر پبلیکیشنز راحت مارکٹ اردو بازار لاہور، چوبیسواں ایڈیشن جولائی 2002ء، ص 138
(14) – طبری، عماد الدين أبی جعفر محمد بن أبی القاسم الطبری، تحقيق : جواد قيومی اصفهانی، بشارة المصطفى لشيعة المرتضى، مؤسسة النشر الاسلامی قم المقدس، طبع اول 1420ھ ق، ص : 218 – 219
(15) – قرآن کریم 3، 92
(16) – مرعشی، آیت اللہ سید شہاب الدین مرعشی نجفی، شرح احقاق الحق، مکتبہ آیت اللہ مرعشی قم، سال طبع 1406ھ، ج 19، ص 114
(17) – اربلی، ابى الحسن علی بن عيسى بن ابی الفتح الأربلی، كشف الغمة في معرفة الأئمة، دار الأضواء بيروت لبنان، طبع ثانی، تاریخ نشر : ١٤٠٥ – ١٩٨٥ م، ج : 1، ص : 168 – 169
(18) – شہر آشوب، محمد بن علی بن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، مکتبہ حیدریہ نجف اشرف، نشر 1376ھ، ج 3، ص 119 ، مجلسی ، علامہ محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، موسسہ الوفا بیروت لبنان، طبع ثانی 1403ھ ، ج 43 ص 84
(19) – طبری، محمد بن جریر طبری، دلائل الإمامة، موسسہ بعثت قم، طبع اول 1413ھ، ص 152، ح 65 ، صدوق، ابی جعفر محمد بن علی بابویہ قمی، تحقیق: سید محمد صادق بحر العلوم، علل الشرائع، مکتبہ حیدریہ نجف اشرف، تاریخ اشاعت 1385ھ / 1966 م، ج 1، ص 182 ۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button