سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا بیٹی،بیوی اور ماں کی حیثیت سے کردار

ارشادحسین یزدانی ،متعلم حوزہ علمیہ النجف الاشرف
چکیدہ (Abstract )
کسی بھی خاتون کی زندگی بیٹی، بیوی اور ماں جیسے انتہائی اہم کرداروں پر مشتمل ہے۔خاتون ان تین کرداروں کے ذریعے گھر کو جنت نظیر بنا سکتی ہےاور اپنی ذمہ داری ادا نہ کرکے اپنے گھر کو جھنم نما بھی کر سکتی ہے۔حضرت فاطمہ نے جب بیٹی کا کردار ادا کیا تو "ام ابیھا” یعنی باپ کی ماں بن گئیں اور جب بیوی کی صورت میں شوہر کے گھر زندگی گذاری تو علی ع جیسا بلند وبالا صفات کا حامل شخص حضرت فاطمہ زہرا س کی صفات حمیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.
"نعم العون علی طاعۃ اللّٰہ”
اللہ کی اطاعت میں بہترین مددگار مل گیا۔ اور جب ماں کا روپ اختیار کرتی ہیں تو اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کی کہ وہ انسانیت اور اسلام کی بقاء کا باعث بنے۔ حضرت فاطمہ س کے ان تین کرداروں کو ایک جملے میں آپ اس طرح بیان کر سکتے ہیں کہ حضرت فاطمہ س نے بیٹی بیوی اور ماں ہونے کا وہ حق ادا کیا کہ آپ س رسول اللہ ص کی موجودگی میں اپنے خاندان کا تعارف بن گئیں۔
"ھم فاطمۃوابوھا وبعلھا وبنوھا”
مقدمہ
کسی بھی شخصیت کا تعارف دو طرح سے کرایا جاتاہے۔نسب کے ذریعے اور حسب(ذاتی کردار) کے ذریعے اگر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نسب کو ملاحظہ کیا جائے تو حضرت فاطمہ س اس باپ کی بیٹی ہیں جو سلطان الانبیاء، امام الرسل ، خاتم النبیین اور رحمۃ للعالمین ہیں جناب فاطمہ کے شوہر سید الاولیاء،امام الاتقیاء اور کل ایمان ہیں ۔حصرت فاطمہ کی اولاد میں سے حسن و حسین وہ ہیں کہ جو جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔تو حضرت فاطمہ کانسب وہ نسب ہے کہ کائنات میں کسی خاتون کا ایسا نسب نہیں ہے۔علامہ اقبال نے جب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے نسبی کمالات کا تقابل کرانا چاہا۔ تو اولاد آدم کی خواتین میں سے صرف ایک خاتون نظر آئی جو اپنے زمانے کی خواتین کی سردارتھیں اللہ تعالیٰ نے جس کے متعلق ارشاد فرمایا :
’’وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ۔‘‘ 1
ترجمہ : ’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا: اے مریم!بیشک اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے۔‘‘
علامہ اقبال نے جب جناب فاطمہ بتول کے نسب کا حضرت مریم بتول کےنسب سے موازنہ کیا۔تو حضرت فاطمہ کا نسب حضرت مریم کے نسب سے کہیں بلند نظر آیا۔ اس لیے کہ :
مریم از یک نسبت عیسیٰ عزیز از سہ نسبت حضرت زہرا عزیز
’’حضرت مریم کی قدر و منزلت نسب کے اعتبارسے صرف ایک شخصیت کی وجہ سے ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ کی ماں ہیں لیکن حضرت فاطمہ کی عزت وعظمت کے لیے تین نسبتیں ہیں۔‘‘ کہ وہ رسول خدا کی بیٹی ہیں،حضرت علی کی زوجہ ہیں اور حضرت امام حسن و حسین کی ماں ہیں۔
حضرت فاطمہ س کی نسبی عزت و عظمت میں اگر حضرت خدیجہ علیہا السلام کا ذکر نہ آئے تو حضرت فاطمہ س کا نسبی تعارف نا مکمل ہے۔آپ کی والده ماجده حضرت خدیجۃ الکبریٰ وہ عظیم خاتون هیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا هے کہ اسلام اس بزرگ ہستی کا مرهون منّت هے، ایسی ماں جنہوں نے شعب ابی طالب میں بائیکاٹ کئے گئے محصور مسلمانوں کے تین سال تک اخراجات کی ذمہ داری سنبھالی اور اپنی تمام مال و دولت کو اس راه میں خرچ کیا، وه ماں جنہوں نے کئی سال تک مکہ میں اعصاب شکن مصیبتوں اور سختیوں کو برداشت کیا، اور پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کے شانہ به شانہ ره کر اسلام کی مدد کی، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آله وسلم کی همراہی کی بناپر آپ کے جسم مبارک پر پتھر مارے گئے، بے احترامی کی گئی، برا بھلا کہا گیا اور جیسے جیسے یہ مظالم اور مشکلیں بڑھتی رہیں آپ کے صبر و استقامت میں اضافہ هوتا چلا گیا ۔مختصر یہ کہ حضرت خدیجہ علیہا السلام وہ باعظمت ماں ہیں کہ جو اسلام سے پہلے طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے حسبی کمالات کو دیکھا جائے تو جناب سیدہ کی عظمت اور شان کو بیان کرنے کے لیے ان کا نسبی تعارف کافی نہیں ہے۔یہ سچ ہے کہ حضرت فاطمہ اس رسول کے لیے بیٹی کی شکل میں رحمت ہیں جو خود رحمۃ للعالمین ہیں۔
’’ وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ.‘‘ 3
ترجمہ : اور (اے رسول) ہم نے آپ کو بس عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
حضرت فاطمہ بیوی کی شکل میں اس علی کے ایمان کاحصہ ہیں جو خود کل ایمان ہے۔
’’برز الايمان كله إلى الكفر كلہ۔‘‘4
ترجمہ :کل ایمان کل کفر کے سامنے نکلا ہے۔
اور یہ حقیقت ہے کہ ماں ہونے کے ناطے حضرت فاطمہ کے قدموں میں ان شہزادوں کی جنت ہے جو خود جنت کے سردار ہیں۔
’’الحسن والحسين سيدا شباب اهل الجنة‘‘
ترجمہ:’’حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘۵
لیکن یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی وجود جناب سیدہ سلام الله علیہا کا تعارف نامکمل ہے۔فاطمہ کے مکمل تعارف کے لیے ان کے حسبی کمالات کو جاننا ہوگا۔حضرت زہراء س کو انسانی فضائل و کمالات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس خاتون کی عظمت کے بارے میں کیا بیان جاسکتا ھے جس کے متعلّق رسول اکرم (ص) نے بارہا ارشاد فرمایا ھےکہ اللّٰہ نے آپ کو دنیا اور آخرت میں تمام عورتوں کی سردار بنایا ہے.
’’روت عائشة وغيرها عن النبي (صلى الله عليه وآله) أنه قال: يا فاطمة أبشري فإن الله تعالى اصطفاك على نساء العالمين وعلى نساء الاسلام وهو خير دين‘‘.6
ترجمہ :’’عائشہ اور اس کے علاوہ دیگرنے نبی اکرم ص سے روایت کی ہے کہ آپ ص نے فرمایا اے فاطمہ آپ کے لیے خوشخبری ہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ نے آپ کو عالمین کی اور اسلام کی عورتوں میں سردار کے طور پرمنتخب کیا ہے۔‘‘
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ذاتی کردار کی بہت سی جھات ہیں جن کا احاطہ کرنااس مختصر مقالہ میں نا ممکن ہےاس مقالہ میں ہم جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے اس کردار کو بیان کرنے کی کوشش کریں گےجو کردار حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے بیٹی،بیوی اور ماں کی حیثیت سے انجام دیا۔
حضرت فاطمہ علیہا السلام بیٹی کی حیثیت سے
ہم سب سے پہلے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا بیٹی ہونے کی حیثیت سےجو کردار ہے اس کا جائزہ لیتے ہیں؛
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ولادت باسعادت 20 جمادی الثانی بروز جمعہ بعثت کے پانچویں سال مکہ میں ہوئی۔7
آپ س عرب کے اس معاشرے میں پیدا ہوئیں،جس معاشرے میں بیٹی کی کوئی قدر و عزت نہیں تھی بلکہ وہاں باپ اپنی بیٹی کو اپنے لیے ننگ و عار سمجھتا تھا،قرآن مجید اس معاشرے کی عکاسی کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے کہ جس آدمی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی اور اسکو جب پتا چلتا تو اس کا رنگ سیاہ ہو جاتا اور شرم سے لوگوں سے منہ چھپائے پھرتا اور دل میں کہتا کہ اس ننگ کو زمین میں گاڑ دوں یا پھر اس ذلت کو منہ پر سجائے لوگوں کی نظروں سے بچتا پھروں۔
’’ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ۔ يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ۔‘‘8
ترجمہ:’’اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خبر دی جاتی ہے تو مارے غصے کے اس کا منہ سیاہ ہو جاتا ہے اس بری خبر کی وجہ سے وہ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کیا اسے ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دے یا اسے زیر خاک دبا دے؟ دیکھو! کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں؟‘‘
لیکن حضرت فاطمہ س جس گھر میں پیدا ہوئیں،وہ گھر اسلام کے بانی کا گھر تھا وہ گھر بیت وحی تھا،وہ گھر مختلف الملائکہ تھا،اس گھر میں پیدا ہوکر حضرت فاطمہ س نہ صرف رحمۃ للعالمین کے لیے رحمت کی نوید بن کر آئیں بلکہ سورہ کوثر کے مصداق کی صورت میں ان دشمنان اسلام کے طعنوں کا جواب بن کر آئیں جو رسول اسلام ص کو ابتر ہونے کے طعنے دیتے تھے،ارشاد قدرت ہوا:
’’انا اعطیناک الکوثر فصل لربک وانحر ان شانئک ہو الابتر۔‘‘9
ترجمہ:’’بے شک ہم نے ہی آپ کو ثر عطا فرمایا؛لہٰذا آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی دیں،یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔‘‘
اس سورہ کی روشنی میں اللّٰہ تعالیٰ نےحضرت فاطمہ س کو اپنے باپ کے لیےتسلی بنا کر بھیجا۔
حضرت فاطمہ جن حالات میں پیدا ہوئیں وہ حالات اسلام اور رسولِ اسلام ص کے لیے بہت سخت تھےجس کی وجہ سے بچپن میں ہی حضرت فاطمہ س کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان مشکلات میں آپ نے نہ صرف اپنے دکھوں پر صبر کیا بلکہ اپنے باپ کے دکھوں کا مداوا بن گئیں چناچہ ایک دن رسول اسلام نماز پڑھا رہے تھے کہ کسی دشمن اسلام نے آپ پر اوجھڑی پھینک دی،جناب سیدہ س کو جب معلوم ہوا تو آپ اگرچہ کم سن تھیں لیکن دشمنان اسلام کی موجودگی میں تشریف لائیں اور اپنے بابا کے جسم سے اوجھڑی کو دور کیا۔اسی طرح آپ کا بچپن تھا کہ رسول اسلام اور آپ کے قریب ترین ساتھیوں کو سوشل بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا اور اپنے عزیز واقارب سمیت تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور ہوگئے،ان حالات میں بھی حضرت فاطمہ نے بھوک پیاس کا سامنا کیا اور نہایت صبرو استقامت کا مظاہرہ کیا۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا ام ابیہا
اُمّ اَبیہا، حضرت فاطمہ زہرا(س) کی کنیت ہے؛جس کے معنی اپنے باپ کی ماں کے ہیں۔ روایات کے مطابق پیغمبر اکرم (ص) اپنی بیٹی کو ام ابیھا کہا کرتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام نے اپنے والد امام باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ ام ابیھا حضرت فاطمہ کی کنیت تھی۔10
حضرت فاطمہ اپنے بابا رسول رحمت کے ساتھ اس طرح شفقت اور محبت سے پیش آئیں کہ آپ ام ابیہا کی کنیت سے مشہور ہوئیں اور یہ کنیت خود رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمائی۔
حضرت فاطمہ کو ام ابیہا کہنے کی یہ وجہ ہو سکتی ہے۔کہ رسول اللہ ص کے پچپن میں ہی ان کی والدہ ماجدہ کا سایہ اٹھ گیا تھااور آپ ص شفقت مادری سے محروم ہوگئے۔اور آپ ص شفقت مادری کے احساس کو بہت زیادہ محسوس کرتے تھے۔تاریخ شاہد ہے کہ حضرت فاطمہ س نے اپنے پدر بزرگوار کا خیال اسی طرح رکھا جس طرح ایک ماں اپنے بچے کا خیال رکھتی ہے۔بیٹی کی یہ خدمت اور شفقت رسول اللہ ص کو ماں کی شفقت ومحبت کا احساس دلاتی،اس لیے فرمایا:
"فاطمۃ ام ابیہا”۔ 11 "کہ فاطمہ اپنے باپ کی ماں ہے”
اور دوسری طرف حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کااپنی بیٹی کے ساتھ وہی سلوک تھا جو ایک بیٹے کا ماں سے ہوتا ہے؛ تاریخ میں موجود ہے کہ رسول اللہ ص جب کہیں سفر پر جاتے تو آخر میں اپنی بیٹی حضرت فاطمہ س سے الوداع کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے اپنی بیٹی کے گھر جاتے اور ان سے ملاقات کرتے۔
’’كان رسول اللّه(ص) إذا سافر كانت آخر الناس عهداً به فاطمة وإذا رجع من سفره كانت عليها أفضل الصلاة أوّل الناس عهداً به ۔‘‘12
ترجمہ:’’رسول اللہ ص جب بھی سفر پر جاتے تو آخر میں حضرت فاطمہ س سے الوداع کرتے اور جب سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ س سے ملاقات کرتے۔‘‘
اسی طرح جب رسول خدا ص کہیں پر تشریف فرما ہوتے اور حضرت فاطمہ س آپ کے پاس آتیں تو رسول خدا ص اپنی بیٹی کی تعظیم میں کھڑے ہو جاتے۔آگے بڑھ کر اپنی بیٹی کے ہاتھوں کو بوسے دیتے اور اپنی مسند پر بٹھایا کرتے۔
’’ فعن عائشة رضي الله عنها قالت : ما رأيت أحداً كان أشبه كلاماً وحديثاً برسول الله صلى الله عليه وسلم من فاطمة ، وكانت إذا دخلت عليه قام إليها فقبَّلها ورحَّب بها ، وكذلك كانت هي تصنع به۔‘‘13
ترجمہ:’’حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ میں نے فاطمہ کے علاوہ بات چیت میں رسول اللہ ص کے مشابہ کسی کو نہیں پایا جب حضرت فاطمہ رسول اللہ ص کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں،تو آپ ص اپنی بیٹی کا استقبال کرتے کھڑے ہو کر آگے بڑھتے اور حضرت فاطمہ کے ہاتھوں کو پکڑ کر بوسہ دیتے اور پھر اپنی جگہ پر بٹھا دیتے اور حضرت فاطمہ س بھی اپنے بابا کے ساتھ یہی سلوک کرتیں تھیں جب رسول اللہ ص حضرت فاطمہ س کے ہاں تشریف لاتے تو آپ کھڑی ہو جاتیں آگے بڑھ کر استقبال کرتیں، ہاتھوں کو بوسے دیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔‘‘
حضرت رسول خدا ص کو پسند تھا کہ فاطمہ مجھے باپ کہے۔
’’وفي المناقب عن الصادق عليه السلام قالت فاطمة عليها السلام لما نزلت هذه الآية هبت رسول الله صلى الله عليه وآله أن أقول له يا أبة فكنت أقول يا رسول الله فأعرض عني مرة أو اثنتين أو ثلاثا ثم أقبل علي فقال يا فاطمة إنها لم تنزل فيك ولا في أهلك ولا في نسلك أنت مني وأنا منك إنما نزلت في أهل الجفاء والغلظة من قريش أصحاب البذخ والكبر قولي يا أبة فإنها أحيى للقلب وأرضى للرب۔‘‘14
ترجمہ :امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہ س فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت
’’لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًا ۚ ‘‘15
نازل ہوئی تو میں نے ارادہ کرلیا کہ اب اپنے باباکو بابا کہہ کر نہیں پکاروں گی ۔اس کے بعد میں اپنے بابا کو یا رسول اللہ کہہ کر پکارتی۔ رسول خدا ص نے ایک دو یا تین بار سن کر اعراض کیا، پھر میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا یہ آیت آپ کے لیے نازل نہیں ہوئی اور نہ ہی آپکے خاندان اور اولاد کے لیے نازل ہوئی ہےاس لیے کہ آپ مجھ سے ہیں اور میں آپ سے ہوں یہ آیت قریش کے بدکاروں، بد مزاجوں اور مغرور و متکبر سر غناوں کے لیے ہے،لہٰذا اے بیٹی آپ مجھے بابا کہہ کر پکاریں بے شک آپ بابا کہا کروکہ یہ میرے دل کی حیات ہے اور رضائے پروردگار کا باعث ہے۔
روایت میں ہے کہ جب جنگ احد میں رسول خدا ص کے دانت شھید ہونے کی خبر سنی تو آپ س انتہائی بے چینی کے عالم میں میدان احد میں پہنچیں اور اپنے بابا کے زخموں کی مرہم پٹی کی ۔16
نتیجہ کلام یہ کہ جناب سیدہ س کا اپنے والد گرامی کے ساتھ وہی رویہ تھا جو ایک شفیق ماں کا اپنے اکلوتے بیٹے سے ہوتا ہے اور دوسری جانب رسول اسلام ص کا اپنی بیٹی کے ساتھ وہی برتاؤ تھا جو ایک بیٹے کا اپنی ماں سے ہوتا ہے دنیا کی تمام بیٹیوں کو چاہیے کہ حضرت فاطمہ س کی سیرت کے اس پہلو کا مطالعہ کریں اور اسکے مطابق عمل پیرا ہو کر اپنے والدین کی عزت و احترام کریں۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا بیوی کی حیثیت سے
’’وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ‘‘17
ترجمہ :’’اور یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے ازواج پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے مابین محبت اور مہربانی پیدا کی، غور و فکر کرنے والوں کے لیے یقینا ان میں نشانیاں ہیں۔‘‘
اسی طرح رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
’’ما استفادالمؤمن بعد تقوی اللّٰہ عزوجل خیرًالہ من زوجۃ الصالحۃ أن أمرھا أطاعتہ وإن نظر إلیھا سرتہ وأن أقسم علیھا أبرتہ وإن غاب عنھا نصحت فی نفسھا و مالہ‘‘۔18
ترجمہ:”مومن کے لیے تقویٰ حاصل ہونے کے بعد سب سے بڑی بھلائی،نیک بیوی ہے۔جب وہ اسے حکم دے تو اطاعت کرے جب اس کی طرف دیکھے تو وہ خوش کردے اور اگر وہ اس کی طرف سے کوئی قسم کھا بیٹھے تو اسے پورا کرے اور اگر شوہر گھر میں موجود نہ ہو تو اپنی اورشوہر کے مال کی حفاظت کرے۔‘‘
گھریلو زندگی کو خوشگوار اور مثالی بنانے میں میاں بیوی کا اہم کردار ہوتا ہے میاں بیوی کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور انس و محبت ایک گھر کو جنت نظیر بنا دیتا ہے میاں بیوی کو زندگی کی گاڑی کے دو پہیوں سے تعبیر کیاگیا ہے،گھریلو زندگی کی ترقی اور انحطاط کا دارومدار میاں بیوی کے درمیان انس ومحبت اور امور خانہ داری میں ایک دوسرے کے تعاون پر ہوتا ہے، اگر یہ دو رکن صحیح ہوں تو گھر جنت نظیر بن جاتاہے اور اگر ان دونوں کے درمیان دراڑ پڑ جائے تو گھر تباہ و برباد ہوتا نظر آتا ہے۔
اسی لیےرسولِ خدا ص نے ارشاد فرمایا کہ:
’’لولا علی لم یکن لفاطمۃ کفو۔‘‘20
ترجمہ:”اگر علی نہ ہوتے تو میری بیٹی فاطمہ کا کوئی ہمسر نہ ہوتا”
حضرت فاطمہ س نےجس طرح بیٹی کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری کو خوبصورت طریقے سے انجام دے کر ایک مثالی بیٹی ہونے کا ثبوت پیش کیا اسی طرح آپ س نے بیوی کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کر کے ایک بہترین بیوی ہونےکا نمونہ پیش کیا۔
شوہر کے گھر میں بیوی کی ذمہ داریاں
جب ہم ایک گھریلو زندگی کو دیکھتے ہیں تو ایک گھر میں شوہر اور بیوی کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔جن کو ادا کرنا ہوتا ہے’ ایک گھر میں جو بیوی کی ذمہ داریاں ہیں ان میں اہم ترین تین ذمہ داریاں ہیں :1۔شوہر داری،2۔گھر کے کام کاج،3۔بچوں کی تربیت۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا اور شوہر داری
رسول اللہ ص ارشاد فرماتے ہیں کہ :
’’جھاد المرأۃحسن التبعل‘‘۔21
ترجمہ:’’عورت کا جہاد اچھی شوہر داری کرنا ہے۔‘‘
جب حضرت فاطمہ س کی شادی ہوئی تو حضرت رسول خدا ص نے حضرت علی ع سے پوچھا آپ نے اپنی زوجہ کو کیسا پایا ۔
’’فَسَأَلَ عَلِيّاً كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ ‘‘تو حضرت علی ع نے جواب دیا ’’قَالَ نِعْمَ اَلْعَوْنُ عَلَى طَاعَةِ اَللَّهِ ‘‘
فرمایا ’’اللہ کی اطاعت میں بہترین مددگار پایا۔‘‘
پھر حضرت فاطمہ س سےحضرت علی علیہ السلام کے بارے میں پوچھا۔’’ و سَأَلَ فَاطِمَةَ‘‘ تو حضرت فاطمہ س نے جواب دیا ’’فَقَالَتْ خَيْرُ بَعْلٍ‘‘ ۔فرمایا میں نے بہترین شوہر پایا۔
اس کے بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دونوں کے لیے دعا فرمائی:
’’فَقَالَ اَللَّهُمَّ اِجْمَعْ شَمْلَهُمَا وَ أَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمَا وَ اِجْعَلْهُمَا وَ ذُرِّيَّتَهُمَا مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ اَلنَّعِيمِ وَ اُرْزُقْهُمَا ذُرِّيَّةً طَاهِرَةً طَيِّبَةً مُبَارَكَةً وَ اِجْعَلْ فِي ذُرِّيَّتِهِمَا اَلْبَرَكَةَ وَ اِجْعَلْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِكَ إِلَى طَاعَتِكَ وَ يَأْمُرُونَ بِمَا يُرْضِيكَ۔۔۔۔۔‘‘22
ترجمہ:’’رسول خدا ص نے دونوں کے لئے دعا کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ ان دونوں کی شادی میں برکت عطا فرما،ان دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی الفت اور محبت عطا فرما،ان کو اور ان ذریت کی کو نعتوں سے بھری جنت کا وارث قرار دے اور ان کو پاک و پاکیزہ بابرکت اولا دنصیب فرما اور ان دونوں کی اولاد میں برکت عطا فرما اور انکی ذریت کو ایسا امام قرار دے جو تیرے امر سے تیری اطاعت کی طرف راہنمائی کریں اور جس بات سے تو راضی ہے اس کا حکم دیں۔‘‘ہم حضرت علی کے ساتھ حضرت فاطمہ س کی زندگی کے چند نمونے ذکر کرتے ہیں۔
1۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا حضرت علی ع سےاخلاقی سلوک
حضرت علی ع کا گھر وہ گھر تھا کہ جہاں میاں بیوی دونوں معصوم تھے اور وحی الہی کے سائے میں پروان چڑھے تھے،لہذا ایک دوسرے کا مقام ومرتبہ اور عزت و احترام خوب جانتے تھے،اس لیےحضرت فاطمہ س حضرت علی ع کے ساتھ انتہائی احترام اور شفقت ومحبت سے پیش آتیں، آپ س احترام کی خاطر حضرت علی ع کو نام کی بجائے ابا الحسن (حسن کے بابا)کہہ کر پکارتیں تھیں۔
حضرت امیر المؤمنین کے گھر کے حالات کو ملاحظہ کیا جائے تو غربت و افلاس،فقر و فاقہ ،ناخوشگوار واقعات و حوادث جیسے سنگین حالات سے پر ہے لیکن اس کے باوجود میاں بیوی کے تعلقات بہت خوشگوار رہے،حالات کی سنگینی کے باوجود عزت و احترام پیار ومحبت باقی رہا۔امیرالمومنین ع اپنے اور شریکہ حیات کے باہمی تعلقات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں
’’فوالله ما اغضبتها ولا اكرهتها علی امر حتی قبضھا اللّٰہ عز وجل الیہ ولا اغضبتنی ولا عصت لی امرا ولقد کنت انظر الیھا فتنکشف عنی الھموم والأحزان۔‘‘
(المناقب، خوارزمی، قم، مکتبہ المفید، بی تا، ص 256) 23
ترجمہ:’’خدا کی قسم جب تک زہرا زندہ رہیں میں نے کبھی بھی انہیں پریشان نہیں کیا، انہیں غصہ نہیں دلایا اور انہیں کسی کام پر مجبور نہیں کیا اور زہرا (س) نے بھی مجھے کبھی بھی پریشان نہیں کیا اور کسی بھی کام میں میری نافرمانی نہیں کی۔‘‘
2۔حضرت فاطمہ س اورگھر کے کام کاج
بہت سی روایات میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت فاطمہ ہمیشہ گھر کے اندر کے کاموں کو باہر کے کاموں پر ترجیح دیتی تھیں اور جہاں تک ممکن ہوتا گھر سے باہر نہیں جاتی تھیں بلکہ آپ پسند فرماتیں کہ ممکنہ حد تک گھر سے باہر کے ماحول کو نہ دیکھیں اور نا محرموں کے درمیان نہ جائیں۔24
ایک مرتبہ شادی کے ابتدائی ایام میں حضرت علی ع اور حضرت فاطمہ س رسولِ خدا ص کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ ہمارے درمیان امور خانہ داری کو تقسیم کریں! رسولِ خدا ص نے فیصلہ فرمایا کہ گھر کے اندرونی کام حضرت فاطمہ س کرےگی اور بیرونی کام حضرت علی ع کریں گے،حضرت فاطمہ س اس تقسیم پر اتنی خوش ہوئی کہ فرمایا:
’’فلا يعلم ما داخلنى إلا الله بإكفاني رسول اللّه صلى اللّه ۔عليه وآله وسلم تحمل رقاب الرجال‘‘۔25
ترجمہ:’’میری اس خوشی کو خدا کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا جو خوشی مجھے اس بات سے ہوئی ہے کہ اللہ کے رسول نے اس تقسیم سے مجھے مردوں کی ذمہ داری سے آزاد کر دیا۔‘‘
اس تقسیم کے بعد حضرت فاطمہ س گھر کے تمام کام خوش اسلوبی سے انجام دیتیں گھر کو صاف ستھرا رکھتیں،آٹا بنانے کے لیے چکی چلاتیں۔ جب آپ کی کنیز حضرت فضہ آپ کے گھر نہیں تھی تو حضرت فاطمہ س تمام کام خود کرتیں تھیں پھرجب حضرت رسول خدا ص نے جناب فضہ کو کنیز کے طور پر عطا کیا تو حضرت فاطمہ س ایک دن خود کام کرتیں اور ایک دن حضرت فضہ کام کرتی۔
امور خانہ داری اور باقی گھر کے تمام معاملات میں حضرت فاطمہ س نے کبھی بھی حضرت علی ع کو شکایت کا موقع نہیں دیا گھر میں فاقہ کے باوجود کسی چیز کی فرمائش نہیں کی۔ایک مرتبہ حضرت علی ع گھر تشریف لائے اور کھانا طلب کیا تو حضرت فاطمہ س یہ بات بتاتے ہوئے جھجھک محسوس کر رہی تھیں۔ کہ گھر میں دو دن سےکھانے کے لیے کچھ نہیں ہے حضرت علی ع نے فرمایا کہ آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ میں کچھ کھانے کا بندو بست کرتا جواب میں حضرت سیدہ س فرماتی ہیں :
’’يا أبا الحسن إني لأستحيى من الهى أن أكلف نفسك ما لا تقدر عليه‘‘.26
ترجمہ:’’اے حسن کے بابا؛ مجھے اللہ سے شرم آتی ہے کہ میں آپ سے اس چیز کا مطالبہ کروں جس پر آپ قادر نہ ہوں۔‘‘
3- اولاد کی تربیت اور فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا
رسولِ اکرم کا ارشاد گرامی ہے کہ :
’’المرأۃ راعیۃ علی أھل بیت زوجھا وولدہ وھی مسؤلۃ عنھم‘‘۔27
ترجمہ۔’’عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کی اولاد کی نگران ہے اور ان سے متعلق اس سے بازپُرس ہوگی۔‘‘
حضرت فاطمہ س نے گھر کی تیسری ذمہ داری (بچوں کی تربیت) کو بھی اس طرح ادا کیا کہ حسن و حسین علیہماالسلام جس طرح معصوم گود میں آئے تھے اسی طرح معصوم حالت میں انہیں معاشرے کے حوالے کردیا اس بات کو مزید ہم مندرجہ ذیل عنوان کے تحت بیان کریں گےکہ حضرت فاطمہ س نے ماں ہونے کی حیثیت سے کیا کردار ادا کیا۔
نتیجہ:حضرت فاطمہ س نے بیوی ہونے کی حیثیت سے قابلِ تقلید کردار ادا کیا اپنے شوہر کے لیے نہایت شفیق ،محبت کرنے والی، مدد گار اورفرمانبردار بیوی ثابت ہوئیں۔
اپنی شادی کے بعد 9 سال کے مختصر عرصے میں حضرت علی ع کے گھر کو جنت نظیر بنائے رکھا کہ جہاں فرشتے خادم بن کر آتے تھے اس گھر کے کام کاج اور بچوں کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی،یہاں تک کہ حضرت علی ع خود اپنی زبان اطہر سے حضرت فاطمہ س کی صفات حمیدہ بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ہماری خواتین کو چاہئے کہ اپنے شوہر کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے جناب سیدہ س کی سیرت کے اس پہلو کا مطالعہ کریں اور اس پر عمل کریں۔
4۔حضرت فاطمہ س ماں کی حیثیت سے
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے.
’’وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ ۚ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُون‘‘۔28
ترجمہ:’’اور اللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویاں بنائیں اور اس نے تمہاری ان بیویوں سے تمہیں بیٹے اور پوتے عطا کیے اور تمہیں پاکیزہ چیزیں عطا کیں تو کیا یہ لوگ باطل پر ایمان لائیں گے اور اللہ کی نعمت کا انکار کریں گے؟‘‘
حضرت فاطمہ س کی پانچ اولادیں تھیں؛ 1.حضرت امام حسن علیہ السلام 2. حضرت امام حسین علیہ السّلام، 3. حضرت زینب علیہا السلام 4.حضرت ام کلثوم علیہا السلام 5.حضرت محسن علیہ السّلام۔
جناب سیدہؑ نے چاربچوں کی تربیت کی جبکہ پانچویں فرزند حضرت محسن گود میں آنے سے پہلے ہی شہید ہوگئے حضرت فاطمہ س نے حسن،حسین،زینب اور ام کلثوم جیسی اولاد کی تربیت کی۔
حضرت فاطمہ س کو جب ہم ماں کی حیثیت سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ س نے اپنے بچوں کی جسمانی اور روحانی اقدار کو اس طرح پروان چڑھایا کہ آپ کے چاروں بچے اسلام کی بقاء کے لئے قربان ہوئے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت
حضرت زہرا (س) شروع ہی سے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتی تھیں اور انھیں حصول علم پر مائل کرتی تھیں اسی سلسلے میں روایات میں آیا ہے کہ ایک دن آپ (س) نے اپنے فرزند ارجمند امام حسن (ع) سے جو کہ تقریبا سات سال کے تھے (اس کے باوجود کہ آپ جانتی تھیں کہ وہ امام ہیں اور علم لدنی کے مالک ہیں) فرمایا: بیٹا مسجد میں جائیں اور اپنے جد بزرگوار سے جو کچھ سنیں اسے یاد کر کے میرے پاس آئیں اور مجھے سنائیں۔29
بچوں کے ساتھ کھیلنا
بچوں کی فطری اور طبیعی ضروریات میں سے ایک ضرورت کھیلنا ہے کیونکہ ان کے لیے جسمانی اور فکری ورزش دونوں ضروری ہیں۔ اس لیے کہ کھیل ان کی روح اور جان کو فرحت بخشتا ہے اور ان میں نشاط پیدا کرتا ہےحضرت زہرا (س) جو کہ اس نکتے سے بخوبی آگاہ تھیں اپنے فرزند گرامی امام حسن (ع) کو ہاتھوں پر لے کر اوپر کی طرف اچھالتیں اور فرماتیں :
أَشبِه أَباكَ يا حَسَن وَاِخلَع عَنِ الحقّ الرسَن
وَاِعبُد إِلهاً ذا مَنن وَلا توالِ ذا الأحَن۔30
ترجمہ: ’’اے میرے بیٹے ! اپنے والد بزرگوار کی طرح بننا اور حق سے ظلم کی رسی کو دور پھینک دینا ، خدا جو کہ تمام نعمتوں کا مالک ہے اس کی عبادت کریں اور تاریک دل افراد کے ساتھ تعلق نہ رکھیں۔‘‘
بچوں کے درمیان عدالت
بچوں کی تربیت کے سلسلے میں حضرت زہرا (س) اسوہ و نمونہ تھیں اور ایک ماں کی ذمہ داریوں کو خوب نبھاتی تھیں۔ اولاد کی تربیت کے سلسلے میں قابل توجہ نکات میں سے ایک نکتہ آپ کا اولاد کے درمیان عدالت سے کام لینا ہے۔ یہ واقعہ اسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے:
امام حسن (ع) و امام حسین (ع) اپنے جد گرامی رسول خدا (ص) کے سامنے کشتی لڑ رہے تھے ، رسول خدا حسن کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے مسلسل فرما رہے تھے :حسن بیٹا ! اٹھیں اور حسین کو زمین پر گرا دیں۔
حضرت زہرا (س) یہ منظر دیکھ کر حیران ہوئیں اور پوچھا : پدر جان ! حسن بڑا ہے اور حسین چھوٹا ہے اور آپ بڑے کی حوصلہ افزائی فرما رہےہیں۔
رسول خدا (ص) نے فرمایا : یہ جبرائیل حسین کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور میں اس کے مقابلے میں حسن کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوں۔31
اللہ کی عبادت اور ہمسایوں کے حقوق کا درس
حضرت فاطمہ اپنے بچوں کو اقوال و افعال کے ذریعے اللہ کی عبادت اور ایثار و قربانی جیسے اخلاق حسنہ کا درس دیتی تھیں۔جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔
’’قال الحسن ع رایت امی فاطمة قامت فی محرابها لیلة جمعتها فلم تزل راکعة ساجدۃ حتی اتضح عمود الصبح وسمعتها تدعو للمومنین والمومنات و تسمیهم وتکثر الدعاء لهم ولا تدعولنفسها بشیء فقلت لھا یا اماه! لم لا تدعین لنفسک ؟؟ فقالت؛ یا بنی الجار ثم الدار‘‘۔32
ترجمہ: ’’امام حسن علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ ایک شب جمعہ کو میں نے اپنی ماں کو دیکھاکہ وہ پوری رات رکوع وسجود میں مصروف رہیں رات کے آخری حصے میں دعا شروع کی جب صبح قریب ہوئی تو میں نے سنا ہماری ماں تمام مومنین و مومنات کے لیے ان کا نام لے کر کثرت سے دعا کر رہی ہیں اور اپنے لیے کچھ نہیں مانگا جب دعا سے فارغ ہوئیں تو میں نے پوچھا :اماں جان آپ نے سب کے لیے دعا کی ہے اپنے لیے دعا کب دعا فرمائیں گی؟ تو جواب میں حضرت فاطمہ س نے فرمایا: بیٹا! پہلے پڑوس پھر گھروالے۔‘‘
نتیجہ:حضرت فاطمہ س نے ایک ماں ہونے کی حیثیت سے اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی کمی نہیں کی؛ نامساعد حالات اور اپنی مختصر عمر میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی تعلیم و تربیت اخلاق و کردار اور ایثارو قربانی جیسے کمالات سے اپنے بچوں کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں آپ کے بچے قیامت تک پوری انسانیت اور اسلام کے محسن ثابت ہوۓ۔
پوری دینا کی ماؤں کو چاہیے کہ حضرت فاطمہ س کی سیرت کے اس پہلو کا مطالعہ کریں اور اس کے مطابق اپنے بچوں کی تربیت کریں۔
مقالے کا خلاصہ
مقالے کا نتیجہ اور خلاصہ یہ ہے کہ حضرت فاطمہ س کو جب انسانی کرداروں میں سے تین اہم کرداروں میں ملاحظہ کرتے ہیں تو حضرت فاطمہ س کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا ایک خاتون کی زندگی بیٹی، بیوی اور ماں جیسے انتہائی اہم کردار پر مشتمل ہےاور خاتون ان تین کرداروں کے ذریعے ایک گھر کو جنت نظیر بنا سکتی ہےاور اپنی ذمہ داری ادا نہ کرکے ایک گھر کو برباد بھی کر سکتی ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے بیٹی، بیوی اور ماں کے روپ میں وہ کردار ادا کیا کہ آپ اہل بیت ع کے لیے تعارف بن گئی ۔ رسول خدا صلی علیہ والہ وسلم نے جب اہل بیت کا تعارف کرایا تو ان الفاظ سے فرمایا :
’’ھم فاطمۃ و ابوھا و بعلھا و بنوھا‘‘.33
کہ یہ فاطمہ ہیں اور اس کا باپ، اس کا شوہر اور اسکے بیٹے ہیں۔
حضرت فاطمہ نے جب بیٹی کا کردار ادا کیا تو (ام ابیھا) یعنی باپ کی ماں بن گئیں اور جب بیوی کی شکل میں شوہر کے گھر زندگی گذاری تو علی جیسے بلند وبالا صفات کے حامل شخص حضرت فاطمہ زہرا س کی صفات حمیدہ کو بیان کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں. اور جب ماں کا روپ اختیار کرتی ہیں. تو ان بچوں کی صفات حمیدہ اور اخلاق حسنہ کی ضامن بنیں جو دنیا میں انسانیت اور اسلام کی بقاء کا باعث بنے اور آخرت میں جوانان جنت کے سردار ہوئے.
حضرت فاطمہ س کی زندگی ایک اسوہ عمل ہے. دنیا کی تمام خواتین کو جناب سیدہ کی سیرت کا مطالعہ کر کے کامیاب زندگی گزارنا چاہیے. خصوصاً خواتین کو بیٹی، بیوی اور ماں کی حیثیت سے سیدہ فاطمہ س کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھر اور معاشرے کو صفات حمیدہ اور اخلاق حسنہ سے آراستہ افراد کا مسکن بنانا چاہیے. اللہ تعالیٰ ہم سب کو جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کی سیرت طیبہ پر عمل پیرا ہو کردنیا اور آخرت میں کامیابی کی توفیق عطا فرمائے آمین
حوالہ جات:


1۔قرآن:3،42
2۔علامہ اقبال,کلیات اقبال فارسی, ص152
3۔القرآن:21،107
4۔مجلسی،محمد باقر بن محمد تقی م 1110 ھ،بحارالانوار:1،39
5۔نور الدین الہیثمی ،ابوالحسن علی بن ابوبکر بن سلیمان، م،807ھ:مجمع الزواید: 9،204 ،
مجلسی،محمد باقر،بحارالانوار:43،263۔
6۔مجلسی،محمد باقر،بحارالانوار:43،36۔
7۔کلینی،محمد بن یعقوب،اصول کافی:1،458۔مجلسی،محمد باقر،بحارالانوار:43،6،
الموسوی،السید باقر،م 356ھ،الکوثرفی احوال بنت النبی الاطہر۔ طبعہ اولی،1429ھ ،المصحح،محمد حسین رحیمیان
8۔قرآن:16،58/59
9۔قرآن:810
10۔ابو الفرج اصفہانی،مقاتل الطالبین: تحقیق کاظم المظفر
11۔اربلی،کشف الغمہ،منشورات الرضی:1،438
12۔فیروز آبادی،سید مرتضیٰ م 1410ھ،الفضائل الخمسہ من صحاح الستہ:3،132
13۔الحاکم نیشاپوری،محمد بن عبداللہ م 405ھ،مستدرک علی الصحیحین:3،154
14۔الکاشانی،المولی محسن فیض،م110: تفسیر الصافی:3،451
مجلسی،محمد باقر،بحارالانوار:343,3
15۔قرآن:24,63
16۔مسلم،مسلم بن حجاج م 261ھ ،صحیح مسلم:5,178،کتاب الجھاد
البخاری،محمد بن اسماعیل،م256ھ،صحیح بخاری:20،7/19 کتاب بدء الخلق۔
17۔القرآن:30،21۔
18۔ابنِ ماجہ،محمد بن یزید القزوینی ،م275ھ،سنن ابنِ ماجہ: کتاب النکاح باب النظر الی المرأۃاذا اراد ان یتزوجھا،حدیث 5718.
19۔الامینی،عبدالحسین احمد،م1390, ،الغدیر:2،315۔
الطبری،محب الدین احمد بن عبداللہ،م694ھ ،ذخائر العقبی:ص31۔
20۔الحر العاملی،محمد بن حسن،م1104ھ،وسائل الشیعہ:20،275۔
21۔کلینی،محمد بن یعقوب،م 329ھ،اصول کافی:5،9دارالکتب الاسلامیہ تھران 1407 ق۔
الحر العاملی،محمد بن حسن،م1104ھ،وسائل الشیعہ:12،116۔
22۔مجلسی،محمد باقر،بحارالانوار:1,117۔ابن شھر آشوب،ابو عبداللہ بن محمد،م588ھ،مناقب آل ابی طالب:3،131۔
23۔الخوارزمی،المناقب:ص256 ، قم،مکتبہ مفید۔
اربلی،بہاءالدین علی بن عیسیٰ،م693ھ،کشف الغمہ فی معرفۃ الآئمۃ:1،353
24۔محلاتی ھاشم رسول،خلاصہ تاریخ اسلام:2،212, تہران،اسلامیہ۔
25۔محدث نوری،حسین بن تقی النوری،م1329ھ،مستدرک الوسائل:13،48۔
26۔بحرانی،الشیخ عبداللہ البحرانی،عوالم العلوم:11،212۔
27۔محمد بن اسحاق بن خزیمہ٫صحیح ابن خزیمہ:،باب جماع، ابواب صلاۃ النساء۔تحقیق محمد الاعظمی
مکتبۃ الاسلامی،البیروت،1400ھ۔
28۔القرآن:16،72۔
29۔مجلسی،محمد باقر،بحارالانوار:43،238،
30۔سید محسن بن عبد الکریم بن علی بن محمد الامین الحسینی،م 1371 ھ،عیان الشیعہ:1،563
31۔مجلسی،محمد باقر،بحارالانوار:43،265/286۔
32۔صدوق ،ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن بابویہ القمی،م382 ھ،
علل الشرایع:1،215 حدیث:1،موسسۃ الاعلمی للمطبوعات،بیروت۔
33۔حدیثِ کساء

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button