سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

خطبہ فدک معارف الٰہیہ کا خزینہ (توحیدی معارف)

عامر حسین شہانی، فاضل جامعۃ الکوثر
چکیدہ
سیدہ فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیھا اپنے والد گرامی کی طرح بہت ذہین، بہادر، تعلیم یافتہ اور اعلیٰ حسن اخلاق کی مالک تھیں آپ کی ذہانت اور حسن اخلاق کا مشاہدہ آپ کی سیرت، اقوال اور بالخصوص آپ کے اس تاریخی خطبے سے لگایا جاسکتا ہے جو خطبہ آپ نے خلیفہ اول اور باقی تمام مسلمانوں کے سامنے مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا ،یہ خطبہ جناب سیدہ زہراء کا وہ تاریخی خطبہ تھا جس میں اسلامی تعلیمات کو بہترین طریقے سے واضح کیا گیا سب سے پہلے جناب سیدہ زہرا نے اپنے والد اور شوہر کی طرح جس چیز کو بیان کیا وہ تو حیدالہی اور اللہ تعالی کی حمد و ثناء تھی اور اس کے بعد نبوت ،امامت اور قیامت جیسی تعلیمات اسلامی کو واضح فرمایا اور اس کے بعد قرآن مجید کا تعارف ،عربوں کی تاریخ ، میراث کے قوانین اور اسلامی احکام کا فلسفہ بیان فرمایا. اس مقالہ میں جناب سیدہ کے خطبہ کے ان نکات کے بارے میں بحث کریں گے جن کا تعلق توحید اور صفات کے ساتھ ہے۔
مقدمہ
خطبہ فدک سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا وہ مشہور خطبہ ہے جو آپ نے فدک غصب ہونے کے بعد مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا تھا۔ یہ خطبہ بہت سے اہم دینی معارف پر مشتمل ہے۔ اس خطبے کے مندرجات مختلف موضوعات پر مختصر مگر جامع بیانات پر مشتمل ہیں جن میں سے ہر موضوع ایک الگ شعبہ سے تعلق رکھتا ہے اور ہر موضوع پر الگ سے کتب تحریر کی گئی ہیں۔ سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اس خطبے میں توحید، رسالت، امامت، قیامت، فلسفہ احکام، احکام ارث، تعارف قرآن، تعارف اہل بیت اور عربوں کی تاریخ کے علاوہ مختلف اہم موضوعات پر گفتگو کی گئی ہے۔ مختصرا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خطبہ فدک تمام دینی معارف کا ایک خوبصورت گلدستہ ہے۔ ہمارے لیے اس مختصر مقالے میں خطبہ فدک کے تمام موضوعات کا احاطہ کرنے کی گنجائش نہیں تھی لہٰذا ہم نے یہاں فقط اس خطبے میں مذکور توحیدی معارف کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کا خطبہ فدک بلاشبہ معارف الٰہی و دینی سے بھرپور ہے جس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن وقت کی قلت اور مقالے میں گنجائش کی کمی کے باعث ہم اس مقالے میں خطبہ فدک سے اخذ کردہ چند توحیدی معارف پر ذیلی عنوانات کی شکل میں گفتگو کریں گے۔
حمد الٰہی کے ذریعے تربیت:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت اطہار علیھم السلام میں سے ہر ایک کی زندگی میں عملی طور پر جس چیز کی سب سے پہلے تربیت دی گئی ہے وہ حمد الٰہی ہے۔ یہ ہستیاں اپنے قول و فعل میں ذات الٰہی کو سب سے مقدم رکھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کا آغاز ہمیشہ حمد الٰہی سے ہوتا ہے۔ سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے عظیم خطبے میں بھی سب سے پہلے اسی چیز کا اہتمام موجود ہے۔ چنانچہ سیدہ سلام اللہ علیھا اپنے کلام کے آغاز میں فرماتی ہیں” اَلْحَمْدُلِلّهِ عَلی ما أنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ”(1)آپؑ نے فرمایا:ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں۔ اور اس کا شکر ہے اس سمجھ پر جو اس نے (اچھائی اور برائی کی تمیز کے لیے) عنایت کی ہے۔”(2)
حمد کے معنی "تعریف کرنا” ہےجو ذم کے متضاد ہے۔(3)کلمہ "الحمدللہ” ۲۳ بار قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے اور پانچ سورتیں "الحمدللہ” سے شروع ہوتی ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ نے اپنی حمد خود کی ہے، نیز دیگر حمد کرنے والے انبیاء، ملائکہ، مومنین ہیں، بلکہ ہر چیز حمد کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرتی ہے جیسے قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡساتوں آسمان اور زمین اور ان میں جو موجودات ہیں سب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی ثناء میں تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو،(4)مگر قرآن کریم نے بعض عظیم شخصیات کا حمد کرنا بتایا ہے اور بعض کی حمد کو تسبیح کے ساتھ ذکر کیا ہے، علامہ طباطبائی ؒ کے قول کے مطابق جب اللہ تعالی نے حمد کرنے کی نسبت مخلوقات سے دی ہے تو اس کے ساتھ تسبیح کا بھی تذکرہ کیا ہے اور جب حمد کو اپنی طرف سے یا انبیاء (علیہم السلام) کی طرف سے بیان کیا ہے تو حمد کو علیٰحدہ سے ذکر کیا ہے۔  (5)
حمد اور مدح کا فرق:
حمد کے بارے میں کہا گیا ہے کہ "هو الثناء على الجميل الاختياري و المدح أعم من”(6)حمد وہ ثناء ہے جو اچھے اور خوبصورت عمل کی وجہ سے کی جاتی ہے اور عمل کرنے والے نے اپنے اختیار سے وہ عمل کیا ہو، مگر مدح، اِس ثناء (اچھا کام اور بااختیار) میں بھی شامل ہوتی ہے اور غیراختیاری عمل میں بھی۔ ساری حمد، اللہ کے لئے اس وجہ سے ہے کیونکہ اللہ کا ہر فعل اچھا اور حسن ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: "ذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ‏ "یہی اللہ تمہارا رب ہے جو ہر چیز کا خالق ہے”(7) ، لہذا جو مخلوق بھی شی اور چیز کہلاتی ہے وہ اللہ کی مخلوق ہے۔ دوسرے مقام پر فرمایا ہے: الَّذِي أَحْسَنَ كُلَّ شَيْ‏ءٍ خَلَقَهُ” جس نے ہر اس چیز کو جو اس نے بنائی بہترین بنایا ۔(8)پس یہ آیات دلیل ہیں کہ اللہ کا ہر عمل اچھا اور خوبصورت ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ لائق حمد اس لیے بھی ہے کہ یہ سب افعال اس کے اپنے اختیار سے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے: "هُوَ اللَّهُ الْواحِدُ الْقَهَّارُ” "وہی اللہ ہے جو یکتا، غالب ہے”(9) نیز فرمایا: "وَ عَنَتِ الْوُجُوهُ لِلْحَيِّ الْقَيُّومِ‏(10)سب چہرے اس حی اور قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے۔” ان دو آیات سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی نے کسی چیز کو کسی کے جبر اور قہر سے خلق نہیں کیا، بلکہ جو کچھ خلق کیا ہے اپنے علم اور اختیار سے خلق کیا ہے، لہذا ہر مخلوق اللہ کا اختیاری فعل ہے اور وہ بھی جمیل اور حَسَن فعل۔ بنابریں فعل اور کام کے لحاظ سے ساری حمد اللہ کے لئے ہے۔ان آیات کی روشنی میںیہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی حمد کرنے والا، جس لائق حمد کی حمد و تعریف کرے وہ حقیقت میں اللہ کی حمد ہے، کیونکہ وہ جمیل چیز جس کی حمد کرنے والا حمد و تعریف کررہا ہے، وہ چیز اللہ کا عمل ہے لہذا حمد کی جنس اور ساری حمد و تعریف اللہ کے لئے ہے۔پس یوں سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے خطبے کے آغاز ہی میں یہ اہم بات سمجھا دی کہ ساری حمد و تعریف ذات احدیت سے مخصوص ہے۔
شکر پروردگار کی تعلیم
شکر، قرآنی اور اخلاقی اصطلاح ہے جو زبانی اور عملی طور پر اللہ تعالی کی نعمتوں سے شکریہ اور قدردانی کے معنی میں ہے۔ شکرلغوی لحاظ سے نعمت کی پہچان اور نعمت دینے والے کا شکریہ ادا کرنے کے معنی میں ہے۔(11) اور اصطلاحی طور پر اللہ کی نعمتوں کو یاد کرنے اور پہچاننے اور قلبی، زبانی اور عملی طور پر اظہار کرنے کے معنی میں ہے۔(12) سیدہ کے خطبے میں حمد الٰہی کے ساتھ ساتھ شکر الٰہی کی بھی تعلیم موجودہے چنانچہ حمد پروردگار کے بعد آپ کا دوسرا جملہ شکر پرودرگار سے متعلق ہے۔ آپ نے فرمایا: " اَلْحَمْدُلِلّهِ عَلی ما أنْعَمَ وَ لَهُ الشُّكْرُ عَلی ما أَلْهَمَ”… ” ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے ان نعمتوں پر جو اس نے عطا فرمائیں۔ اور اس کا شکر ہے اس سمجھ پر جو اس نے (اچھائی اور برائی کی تمیز کے لیے) عنایت کی ہے۔”یوں سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا نے اپنے خطبے میں حمد خدا کے فورا بعد اللہ تعالی کا شکر کیا ہے جس سے شکر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔شکر کا قرآن کریم میں۷۵ آیات میں مشتقات کے ساتھ تذکرہ ہوا ہے،شکر کرنا خود انسان کے لئے فائدہ مند ہے اور شکر کرنا یا ناشکری کرنا، اللہ تعالی کو کوئی فائدہ یا نقصان نہیں پہنچاتا، کیونکہ پروردگار، انسان کے اعمال سے غنی اور بے نیاز ہے اور وہ ذاتِ اقدس اس سے بالاتر ہے کہ انسان کی ناشکری سے اسے کوئی نقصان پہنچ سکے، لہذا نعمت پر شکر کرنا نعمتوں کے بڑھنے کا باعث بنتا ہے اور ناشکری کرنا عذاب کا باعث ہے۔(13) اگر ہم شکر سے متعلق روایات دیکھیں تو کثیر احادیث میں مختلف جہات سے شکر کی تاکید کی گئی ہے اور ان میں دنیوی و اخروی فوائد زیر بحث لائے گئے ہیں۔بطور نمونہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا یہ فرمان مبارک: "شُكرُ النِّعمَةِ اجتِنابُ المَحارِمِ ، و تَمامُ الشُّكرِ قولُ الرجُلِ: الحَمدُ للّهِ رَبِّ العالَمِينَ"(14)(( )) "نعمت کا شکر، حرام سے دوری اختیار کرنا ہے اور مکمل شکر انسان کا یہ کہنا ہے: الحَمدُ للّهِ رَبِّ العالَمِينَ”۔اسی طرح حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) سے منقول ہے: "شُكرُ العالِمِ على عِلمِهِ: عَمَلُهُ بهِ، و بَذلُهُ لِمُستَحِقِّهِ”، "عالم کا اپنے علم پر شکر کرنا اس علم پر عمل کرنا اور اس کو اس کے حقدار کو دینا ہے”.(15)
جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی فرمائی: اے موسی میرا اس طرح شکر کر جیسے میرے شکر کا حق ہے تو حضرت موسیؑ نے عرض کیا: اے میرا پروردگار میں کیسے اس طرح شکر کرسکتا ہوں جیسے تیرے شکر کا حق ہے حالانکہ تیرا جو شکر کرتا ہوں وہ خود ایسی نعمت ہے جو تو نے عطا فرمائی ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا: "يا موسى شَكَرتَني حَقَّ شُكري حينَ عَلِمتَ أنَّ ذلكَ مِنّي"(16)اے موسی! جب تم جان لو کہ اس شکر کی توفیق بھی میں نے تمہیں دی ہے تو تُو نے میرا ویسا شکر کیا ہے جیسا میرے شکر کا حق ہے۔
ثناء پروردگار سیدہ کونین (سلام اللہ علیہا) کے کلام میں:
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دختر نیک اختر نے بالترتیب اللہ تعالی کی حمد، شکر اور ثناء کرتے ہوئے، ان میں سے ہر ایک کے ذریعے کسی نعمت پر اللہ کی تعریف کی ہے۔ حمد، اِنعام پر، شکر اِلہام پر اور ثناء تقدیم پر۔ پھر خود ثناء تین طرح کی نعمتوں پر کی ہے:” وَ الثَّناءُ بِما قَدَّمَ مِنْ عُمُومِ نِعَمٍ اِبْتَدَاَها وَ سُبُوغِ الاءٍ اَسْداها وَ تَمامِ مِنَنٍ اَوْلاها”، زیربحث جملہ میں حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) فرماتی ہیں کہ ” اور اس کی ثنا و توصیف ہے ان نعمتوں پرجواس نےپیشگی عطاکی ہیں "۔ ثناء ہمہ گیر تعریف ہے، لہذا ان نعمتوں کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے جو اللہ تعالی نے انسان کو دی ہیں اور جو دوسری مخلوقات کو دی ہیں۔
حمد، شکر اور ثناء کی ترتیب:
سیدہ کے خطبے میں حمد، شکر اور ثناء کی ترتیب بھی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ شاید اس ترتیب کی وجہ یہ ہو کہ آپؑ چونکہ اللہ کی تعریف کررہی ہیں اور اللہ تعالی وہ ذات ہے جو عینِ حیات، قدرت اور علم ہے اور حیات، قدرت اور علم کے اعلی مراتب کی مالک ہے تو یقیناًانسان کو چاہیے کہ اللہ کے سب افعال پر اس کی تعریف کرے چونکہ اللہ کے سب کام اچھے اور سب اس کے اختیاری افعال میں سے ہیں۔ لہذا لفظ حمد، اللہ کی تعریف کے لئے مناسب لفظ ہے اور اللہ تعالی نے قرآن میں بھی اپنے کلام کو حمد سے شروع کیا ہے۔ دوسرے جملہ میں آپؑ اللہ کی تعریف کرنا چاہتی ہیں اس عطا پر کہ جس سے تعریف کرنے والا فیض یاب ہوتا ہے اور چونکہ وہ خصوصی عطا ہے لہٰذا ایسے مقام پر لفظ شکر مناسب ہے، اللہ کی حمد اور خاص نعمتوں پر شکر کے بعد، اس تعریف کو وسعت دیتے ہوئے لفظ ثناء کے ذریعے وسیع معنی میں رب کی تعریف کی گئی ہے۔
پیشگی نعمتیں عطاء کرنے والا رب
سیدہ سلام اللہ علیھا کے کلام سے معارف الٰہی میں سے ایک اہم بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو جن بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے وہ کسی چیز کے بدلہ میں یا انسان کے حقدار ہونے کی بنیاد پر نہیں ہیں، جیسا کہ دعا میں ہے: "يَا مُبْتَدِئاً بِالنِّعَمِ قَبْلَ اسْتِحْقَاقِهَا”(17)، "اے نعمتوں کی ابتداء کرنے والے، نعمتوں کے استحقاق سے پہلے”۔ البتہ ہوسکتا ہے کہ "قَبْلَ اسْتِحْقَاقِهَا” کا اور مطلب بھی ہو جو یہ ہے کہ مخلوقات اپنے اختیار سے اعمال بجالانے کے ذریعے بدلہ (اجر) کی مستحق ہوجائیں، لیکن اللہ تعالی اس سے پہلے کہ کوئی شخص اختیاری طور پر عمل انجام دے کر کسی نعمت کا مستحق ہوجائے، ابتدائی طور پر اپنے بندوں کو نعمت عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس پیشگی عطاءکی ان گنت مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ہماری زمین اور ہماری فضاء میں موجود بے شمار نعمتیں انسان کے اس زمین پر آنے سے پہلے مہیا کر دی گئیں ہیں۔اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اور پروردگار اس کی پیدائش سے پہلے اس کی ماں کے سینہ میں اس کا رزق خلق کردیتا ہے
اعضاء و حواس اللہ کے ادراک سے عاجز
اگرچہ اللہ نے توحید کے قلبی اور عقلی ادراک کو کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کی وجہ سے واضح قرار دیا ہے، لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے انسان کی آنکھ اور اس کی حقیقی توصیف سے انسان کی زبان اور اس کی کیفیتو حقیقت کو سمجھنے سے عقلیں عاجز ہیں۔اس بابت سیدہ نے اپنے خطبے میں فرمایا: "اَلْمُمْتَنَعُ مِنَ الأبْصارِ رُؤْيَتُهُ وَ مِنَ الْألْسُنِ صِفَتُهُ وَ مِنَ الأوْهامِ كِيْفِيتَّهُ”، نہ وہ نگاہوں کی(محدودیت)میں آسکتا ہےاورنہ ہی زبان سے اس کا وصف بیان ہو سکتا ہےاور وہم و خیال اس کی کیفیت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ آنکھیں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ جسم نہیں ہے، اور زبانیں اس کی حقیقی توصیف نہیں کرسکتیں، اس لیے کہ وہ لامحدود ہے اور محدود چیزوں سے لامحدود کے کمالات کی صفات کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔قرآن مجید میں ارشاد الٰہی ہے: "لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ”، (18)”نگاہیں اسے پا نہیں سکتیں جبکہ وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ نہایت باریک بین بڑا باخبر ہے”۔یہی مطلب حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) صحیفہ سجادیہ کی پہلی دعا کے ابتدائی فقروں میں بیان فرماتے ہیں: "الَّذي قَصُرَت عَن رُؤيَتِهِ أَبصارُ النّاظِرينَ ، وعَجَزَت عَن نَعتِهِ أَوهامُ الواصِفينَ”،(19)”وہ خدا جس کے دیکھنے سے دیکھنے والوں کی آنکھیں عاجز اور جس کی توصیف و ثنا سے وصف بیان کرنے والوں کی عقلیں قاصر ہیں”۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی انتہاء ہے کہ جس کے وجود پر کائنات میں ان گنت نشانیاں موجود ہیں لیکن اس کے باوجود کوئی بھی اس کی ذات کی کنہ حقیقت کے ادراک سے عاجز ہے۔
وسعتِ علم ِ الٰہی
اللہ تعالیٰ نہ صرف ماضی، حال اور مستقبل کے حادثات کو جانتا ہے، بلکہ ماضی، حال اور مستقبل یکساں طور پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جب آج کا دن آتا ہے تو کل ماضییا کل مستقبل، اللہ کے سامنے حاضر نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم، حصولی نہیں ہے کہ کہا جائے کہ وہ جانتا ہے کہ کل کیا واقعات رونما ہوئے تھے، بلکہ کائنات کا سابقہ اور حال حاضر اور آئندہ، سب کچھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہے۔سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا نے علم الٰہی کی وسعت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: "عِلْماً مِنَ اللّهِ تَعالی بِمَا یَلی الامُور وَ اِحاطَةً بِحَوادِثِ الدُّهُورِ وَ مَعْرِفَةً ‏بِمَوقِعِ الامورِ”، "اللہ کو(اس وقت بھی)آنے والے امور پر آگہی تھیاور آیندہ رونما ہونے والے ہر واقعہ بھی احاطہ تھااورتمام مقدرات کی جائے وقوع کی شناخت تھی۔” ان فقروں میں اللہ تعالیٰ کے متعلق تین چیزیں بیان ہوئی ہیں:علم، احاطہ، پہچان۔یعنی خدا کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے اور ہر چیز کی شناخت سے آگاہ ہے۔سب کچھ اس کے سامنے ایک ہی طرح حاضر ہے حتی کہ اس کے سامنے صبح و شام کا بھی کوئی فرق نہیں۔ جو کچھ ہوچکا جو کچھ ہورہا اور جو مستقبل میں ہوگا وہ سب احاطہ علم الٰہی میں ہے۔
اللہ تعالیٰ عدم سے وجود دینے والا خالق
کسی چیز کو بنانے میں تین چیزیں ہوتی ہیں:مادہ، صورت، شکل۔ انسان جب کسی چیز کو بناتا ہے تو مادہ اور صورت پہلے سے موجود ہوتی ہے اور انسان صرف شکل کو تبدیل کرتا ہے، انسان کی ایجادات اور ٹیکنالوجی اسی حد تک ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ عدم سے مادّہ، صورت اور شکل کو یکبارگی اور اچانک بناتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے چیزوں کو ایجاد کیا جبکہ ان کی ایجاد کے لئے کسی سابقہ مادہ (میٹریل) کی ضرورت نہیں تھی، بنابریں چیزوں کی ایجاد کے لئے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے، ان کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کا ارادہ چاہیے۔علامہ شیخ محسن علی نجفی خطبہ فدک کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "عدم سے وجود دینے کو خلق ابداعی کہتے ہیں اس معنی میں صرف اللہ تعالیٰ خالق ہے جبکہ اجزائے موجودہ کو ترکیب دینے کو بھی تخلیق کہا جاتا ہے، اس سے غیر اللہ بھی متصف ہو سکتا ہے۔ "(20)
چنانچہ سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میںاس بات کو ایک مختصر جملے میں خوبصورتی سے سموتے ہوئے فرمایا: اِبْتَدَعَ الْأشْيٰاءَ لا مِنْ شَی‏ءٍ كانَ قَبْلَها، "ہر چیز کو لا شی ٔ سے وجود میں لایا اور کسی نمونے کے بغیر ان کو ایجاد کیا”۔ پس اللہ تعالیٰ ہی وہ واحد ذات ہے جو چیزوں کو بغیر کسی سابقہ مواد یا مثال کے خلق کرنے کی قدرت رکھتی ہے اور ذات احدیت کے علاوہ کسی میں ایسی قدرت نہیں ۔
قدرت ِ الٰہیہ کی عظمت
اللہ تعالیٰ کی قدرت لامحدود، بے قید اور غیر مشروط ہے، نہ کوئی چیز اس کی قدرت کو روک سکتی ہے اور نہ کم کرسکتی ہے۔ وہ جو چاہے، جب چاہے، جتنا چاہے، جیسا چاہے، جہاں چاہے خلق کرسکتا ہے۔ لہذا سب سے چھوٹی چیز سے لے کر چاہے وہ جتنی بھی باریک کیوں نہ ہو، بڑی سے بڑی چیز تک، سب کی سب اللہ کی قدرت کے ذریعے خلق ہوئی ہیں۔حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میںقدرت الٰہی کی اس عظیم طاقت کو یوں بیان فرمایا: "كَوَّنَهَا بِقُدْرَتِهِ”، "اللہ نے اپنی قدرت سے انہیں وجود بخشا”۔كَوَّنَ کا مصدر تکوین ہے جو کسی چیز کو خلق کرنے، ایجاد کرنے کے معنی میں ہے۔یوں جب کہا جاتا ہے کہ فاعل کے پاس قدرت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فاعل (کام کرنے والے) کے پاس طاقت ہے، یعنی اس کے پاس ایسی صفت ہے کہ اگر ارادہ کرے تو انجام دیتا ہے اور اگر ارادہ نہ کرے تو انجام نہیں دیتا۔اللہ کا اسم "قدیر” جو قرآن کریم میں کئی بار ذکر ہوا ہے، قدیر، قدرت سے ہے کہ جو کچھ وہ ارادہ کرے، حکمت کے تحت انجام دیتا ہے۔ قدرت کی صفت مطلق طور پر صرف اللہ تعالیٰ کے لئے صحیح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی شخص اگر کسی لحاظ سے قادر ہو تو کسی اور لحاظ سے عاجز اور ناتواں بھی ہوتا ہے۔قرآن کریم میں مختلف مقامات پر اس عظیم الٰہی قدرت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ جیسےسورہ طلاق کی آیت۱۲ میں ارشاد الٰہی ہے: "اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا”، اللہ وہی ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی طرح زمین بھی ،اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور یہ کہ اللہ نے بلحاظ علم ہر چیز پر احاطہ کیا ہوا ہے۔(21)
اسی طرح جناب سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے اس فقرے کی طرح نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کا یہ ارشاد ہے: "فَطَرَ الْخَلائِقَ بِقُدْرَتِهِ”، "اللہ نے مخلوقات کو اپنی قدرت کے ذریعے پیدا کیا”۔(22)
اللہ تعالیٰ تخلیق میں مفاد سے بے نیاز
جب انسان کوئی کام کرتا ہے تو یا اپنے فائدہ کے لئے کرتا ہے یا دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے، مگر اللہ تعالیٰ کے کام، مخلوق کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے کسی کام سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور اسے حتی اپنے کاموں سے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے مخلوقات کے لئے ہی کرتا ہے اور اپنے لیے کچھ نہیں کرتا، اس لیے کہ وہ ہر لحاظ سے غنی اور بے نیاز ہے۔اللہ تعالیٰ اس عظیم کائنات کا عظیم خالق ہے اور اس کائنات کی بہترین تخلیق یعنی انسان کا بھی خالق ہے جیسا کہ سورہ اعراف کی گیارہویں آیت میں ارشاد الٰہی ہے: "وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ”، "بتحقیق ہم نے تمہیں خلق کیا پھر تمہیں شکل و صورت دی”۔(23)مگر اس وسیع کائنات کی صورت گری اور اس کے بہترین نظام کو بنانے میں ذات احدیت کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے۔اس نکتے کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے اپنے خطبہ فدک میں یوں بیان فرمایا ہے: ” كَوَّنَهٰا بِقُدْرَتِهِ وَ ذَرَأهٰا بِمَشيَّتِهِ مِنْ غَيْرِ حاجَةٍ إلی تَكْوينِهٰا، وَ لافائِدَةٍ لَهُ فی تَصْويرِهٰا"”اپنی قدرت سے انہیںوجود بخشااور اپنے ارادے سے ان کی تخلیق فرمائی, ان کی ایجاد کی اسے ضرورت تھینہ ان کی صورت گری میں اس کا کوئی مفاد تھا”۔حضرت سیدۃ نساء العالمین (سلام اللہ علیہا) نے اس فقرہ میں توحید کی معرفت کا یہ درس دیا ہے کہ اللہ نے چیزوں کی جو صورت گری کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے۔فائدہ سے اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کے بارے میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) دعائے عرفہ میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: "الٰھی اَنْتَ الغنیُّ بذاتِکَ اَنْ یَصِلَ اِلَیْکَ النَّفْعُ مِنْکَ فَکَیْفَ لا تکونُ غَنیّاً عَنّی”، "اے میرے معبود، تو اپنی ذات میں اس سے بے نیاز ہے کہ تجھے تیری طرف سے فائدہ پہنچے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ تو مجھ سے بے نیاز نہ ہو”۔(24)
مشیت الہٰی کے آثار
اللہ تعالیٰ کی مشیّت دو طرح کی ہے: تکوینی مشیّت اور تشریعی مشیّت۔ تکوینی مشیّت کا اللہ تعالیٰ کے فعل سے تعلق ہے اور یہ مشیّت سب مخلوقات پر چھائی ہوئی ہے اور تشریعی مشیّت کا انسان کے اختیاری کاموں سے تعلق ہے۔ مشیّتیعنی "ارادہ الٰہی”۔ حضرت صدیقہ کبریٰ (سلام اللہ علیہا) نے اس سے پہلے والے فقرہ میں "قدرت” کا لفظ اور اِس فقرے میں "مشیّت” کا لفظ کچھ اس انداز سے بیان فرمایا: "وَ ذَرَأَهَا بِمَشِيَّتِه"، "اور اپنے ارادے سے ان کی تخلیق فرمائی۔”قدرت اور مشیّت کا باہمی تعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیّت، اس کی قدرت کی تجلّیات میں سے ایک تجلّی ہے۔ لہٰذا تمام اشیاء کی تخلیق میں فقط اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کا ارادہ کار فرما ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ کیونکہ لامحدود طور پر قادر ہے تو کوئی چیز اس کو محدود نہیں کرسکتی، لہذا اس کی مشیّت کا بھی لامحدود طور پر اثرورسوخ ہوتا ہے۔ سورہ قصص میں ارشاد الٰہی ہے: "وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ”، "اور آپ کا رب جسے چاہتا ہے خلق کرتا ہےاور منتخب کرتا ہے انہیں انتخاب کرنے کا کوئی حق نہیں۔(25)
اللہ تعالیٰ، چیزوں کی خلقت سے بے نیاز
اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بے نیاز ہے، کیونکہ وہ ذات لامحدود کمالات کی مالک ہے تو لامحدودیت کا تقاضا یہی ہے ورنہ اگر اسے حتی ایک ذرہ کی بھی ضرورت ہو تو اس کے کمالات محدود ہوجائیں گے، جبکہ واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمالات لامحدود ہیں۔حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدک میں ارشاد فرمایا: " كَوَّنَهٰا بِقُدْرَتِهِ وَ ذَرَأهٰا بِمَشيَّتِهِ مِنْ غَيْرِ حاجَةٍ إلی تَكْوينِهٰا، وَ لافائِدَةٍ لَهُ فی تَصْويرِهٰا”، "اپنی قدرت سے انہیں وجود بخشااور اپنے ارادے سے ان کی تخلیق فرمائی, ان کی ایجاد کی اسے ضرورت تھینہ ان کی صورت گری میں اس کا کوئی مفاد تھا "۔ان فقروں میں آپؑ نے دو چیزوں کی نفی کی ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے جو اشیاء خلق کی ہیں، ان کی اسے خود کوئی ضرورت نہیں ہے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ نے جو اُن اشیاء کی تصویریں بنائی ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔
یوں حضرت سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے "مِنْ غَيْرِ حاجَةٍ … وَ لافائِدَةٍ …” کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کو بیان فرمایا ہے اور قرآن کریم نے سورہ عنکبوت کی آیت۶ میں ارشاد فرمایا ہے: "إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ”(26) اور نیز کئی دیگر آیات میں بھی اللہ تعالیٰ کے غنی اور بے نیاز ہونے کا تذکرہ ہوا ہے۔؎حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۹۳ میں ارشاد فرماتے ہیں: "فَإِنَّ اللهَ ـ سُبْحانَهُ وَتَعَالَى ـ خَلَقَ الْخَلْقَ حِينَ خَلَقَهُمْ غَنِيّاً عَنْ طَاعَتِهِمْ"۔اللہ تعالی نے مخلوق کو خلق کیا درحالانکہ وہ ان کی تخلیق سے بے نیاز تھا۔(27)
اسی طرح حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) نے عمران صابی سے فرمایا: "لم یخلق الخلق لحاجۃ”، "اللہ نے مخلوق کو کسی ضرورت کے لئے خلق نہیں کیا”۔(28)واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ضرورت اور محتاجی کو انسانوں میں رکھا ہے۔ انسان اپنی ذات، صفات اور اعمال کے لحاظ سے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔
نمونہ کے بغیراشیاء کی تخلیق
کسی چیز کو بنانا دو طریقوں سے ہوسکتا ہے:۔ کسی چیز کا نمونہ لے کر اس کے مطابق بنانا اور دوسرا طریقہ نمونہ کے بغیر بنانا۔ دوسرے طریقے کو اِبداع اور انشاء کہا جاتا ہے۔ ابداع میں مادہ، صورت اور شکل سب ابداعی ہوتے ہیں یعنی بالکل عدم سے وجود میں لائے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی تخلیق اس لیے بھی عظیم ہےکہ اس نے اشیاء کو کسی سابقہ نمونے کے بغیر مکمل عدم سے وجود میں لا کر بنایا ہے۔ اس مطلب کو حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدک میں یوں ارشاد فرمایا: "وَ أَنْشَأَهَا بِلَا احْتِذَاءِ أَمْثِلَةٍ امْتَثَلَهَا"، "اور کسی نمونے کے بغیر ان کو ایجاد کیا۔
انسان جب بھی کوئی چیز بنانا چاہے تو اس کو کسی سابقہ نمونے کے مطابق بناتا ہے، یعنی پہلے سے جو چیزیں موجود ہیں ان میں سے کسی کے مطابق بناتا ہے، یا مختلف شکلوں کو آپس میں ملا کر نئی شکل بناتا ہے، مگر پہلے سے موجودہ شکلوں کو دیکھ کر ہی بناتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰنے چیزوں کو کسی نمونے کے بغیر بنایا ہے۔حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے خطبہ ۹۱ میں ارشاد فرماتے ہیں: "الَّذِي ابْتَدَعَ الْخَلْقَ عَلَى غَيْرِ مِثَال امْتَثَلَهُ”، "جس نے مخلوق کو پیدا کیا بغیر کسی مثال کے جس سے نمونہ لیا ہو۔(29)انسان کی محتاجی کی ایک دلیل یہ ہے کہ وہ نمونہ کے مطابق نئی چیز بناتا ہے، اور اللہ کی بے نیازی کی ایک دلیلیہ ہے کہ وہ اتنا بے نیاز ہے کہ اسے کسی چیز کے بنانے میں کسی سابقہ نمونہ کی ضرورت نہیں ہے۔
تخلیق کائنات کے الٰہی مقاصد
ہم نے دیکھا کہ سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے بہت خوبصورتی سے توحید الٰہی کی باریکیوں کو بیان فرمایا جس سے ہمیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کا خالق ہے مگر اس تخلیق میں اس کا ذاتی کوئی مفاد نہیں۔پھر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ اللہ کی ذات حکیم ہے اور فعل الحکیم لا یخلو عن الحکمۃ کے تحت تخلیق کائنات کے الٰہی مقاصد کیا ہو سکتے ہیں ؟ اس سوال کے جواب سیدہ فاطمہ زہرا ؑ نے اپنے خطبہ فدک میں نہایت مختصر اور جامع انداز میں بیان فرمائے ہیں جو کہ مندجہ ذیل ہیں:
اظہار حکمت
حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے خلقت کا پہلا مقصد یہ بتایا ہے کہ اللہ نے اپنی حکمت کو ظاہر کرنے کے لئے چیزوں کو خلق کیا ہے۔
اس سے پہلے فقرہ میں اللہ سے دو چیزوں کی نفی فرمائی: ضرورت اور فائدہ۔ لہذا لفظ "اِلّا” کے ذریعے جو مستثنیٰ کرکے مقاصد خلقت بیان فرمائے ہیں،یہ استثناء منقطع ہے، اور استثناء منقطع میں انتہائی تاکید پائی جاتی ہے، یعنی جو مقاصد ذکر کیے جارہے ہیں،یہ ایسے مقاصد نہیں ہیں جن کی اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت ہو اور نہ ہیان میں خدا کا کوئی مفاد ہے، بلکہ یہ ایسے مقاصد ہیں جن سے مخلوق کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔خلقت کا پہلا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: "إِلَّا تَثْبِيتاً لِحِكْمَتِهِ”، "مگر وہ صرف اپنی حکمت کو آشکار کرناچاہتا تھا”۔حکمت میں دو چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ پائی جاتی ہیں: علم اور عمل۔ لہذا صاحبِ حکمت انسان اسے کہا جاتا ہے جس کے پاس فائدہ مند علم ہو اور اس کا عمل مضبوط ہو۔ وہ اعلیٰ اور مصلحت خیز مقصد تک پہنچنے کے لئے بہترین اور نزدیک ترین راستہ اختیار کرے اور بہترین اسباب کو استعمال کرے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے لئے حکمت کے معنییہ ہیں کہ وہ مخلوقات کو بہترین راستوں سے بہترین مقاصد تک پہنچاتا ہے۔
بندگی کی جانب متوجہ کرنا
دنیا گذرگاہ اور پُل کی طرح ہے جس سے انسان گذر کر آخرت کی طرف جارہا ہے جو اس کا مقصد ہے۔ اس گذرگاہ میںمختلف مزین کی ہوئی چیزیں انسان کے سامنے آتی رہتی ہیں جن کے حصول میں انسان کھو جاتا ہے اور اپنے حقیقی اعلیٰ مقصد سے غافل ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت کے ذریعے انسان کو متوجہ اور بیدار کرتا ہے۔جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "النَّاسُ نيام ٌ إذا ماتُوا اِنْتَبَهُوا”، "لوگ سورہے ہیں، جب مریں گے تو جاگ اٹھیں گے”۔ (30)حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکمیں انسان کو بیدار کرنا اور بندگی الٰہی کی طرف متوجہ کرنا تخلیق کا دوسرا بڑا مقصد بیان فرمایا ہے۔آپ نے ارشاد فرمایا: ” ... إِلَّا تَثْبِيتاً لِحِكْمَتِهِ، وَ تَنْبِيهاً عَلَى طَاعَتِهِ…"، "وہ صرف اپنی حکمت کو آشکار کرناچاہتا تھااور طاعت و بندگی کی طرف توجہ دلانا چاہتا تھا”
حضرت امام علی (علیہ السلام) کے مذکورہ فرمان اور حضرت سیدہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کے مذکورہ بالا ارشاد سے یہ نتیجہ ملتا ہے کہ لوگ اس دنیا میں غفلت کی نیند سورہے ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے اظہار سے لوگوں کو غفلت کی نیند سے جگاتا ہے اور ان کو اپنی اطاعت کا حکم دیتا ہے،پس جس نے اللہ کی اطاعت کے راستے کو اختیار کرلیا وہ بیدار ہوگیا اور جس نے اطاعت نہ کی وہ غفلت کی نیند میں رہا تو جب موت آئے گی تو وہ جاگ اٹھے گا، مگر اس وقت جاگنے کا کیا فائدہ! سورہ فجر میں ارشاد الٰہی ہے: "وَجِيءَ يَوْمَئِذٍ بِجَهَنَّمَ ۚ يَوْمَئِذٍ يَتَذَكَّرُ الْإِنسَانُ وَأَنَّىٰ لَهُ الذِّكْرَىٰ”، "اورجس دن جہنم حاضر کی جائے گی اس دن انسان متوجہ ہوگا لیکن اب متوجہ ہونے کا کیا فائدہ؟(31) پس واضح ہے کہ ہر سونے والے کو بیدار تو کردیا جائے گا، مگر اسی دنیا میں انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے ذریعے خود ہی بیدار ہوجانا چاہیے۔
اظہار قدرت
ہر چیز کا تعارف، اس کی طاقت اور توانائی سے ہے، جب کسی شخص کا تعارف کروایا جاتا ہے تو جو کچھ اس کی طاقت میں ہے، اسے بیان کیا جاتا ہے تاکہ اسے بخوبی پہچانا جائے، اللہ تعالیٰ چیزوں کی خلقت کے ذریعے، اپنی قدرت کو ظاہر کرتا ہے اور اپنا تعارف کرواتا ہے۔آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں۔ انسان جب اپنے جسم کے اعضا اور ان کے باریک باریک کاموں کی طرف توجہ کرتا ہے تو انتہائی عجب و حیرت انگیز نتائج تک پہنچتا ہے۔ انسان کا دماغ، دل، آنکھیں، کان اور دیگر اعضا کس طرح کام کررہے ہیں، انسان کی اندرونی طاقتوں اور جذبات کا باہر کے ماحول سے کتنا گہرا تعلق ہے۔حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدک میں تخلیق کا ایک اہم مقصد قدرت الٰہی کا اظہار قرار دیا ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا: "..وَ إِظْهَاراً لِقُدْرَتِهِ” "اور اپنی قدرت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔”
جو عجائب ایٹم جیسے باریک ذرات اور چاند، سورج، ستاروں اور کہکشاؤں میں پائے جاتے ہیں،ان سے نئے زمانے میں خالق کائنات کی نئی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں جن سے دانشوروں اور سائنسدانوں کے سامنے علم کا نیا دروازہ کھل جاتا ہے جس کے کھلنے سے ان کے ذہن میں مجہولات اور سوالات کی برسات ہوتی ہے۔یہ سب اور اس کے علاوہ بہت کچھ جو یہاں ذکر نہیں ہوا دنیا میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں، اور جو آخرت میں اللہ کی قدرت کی نشانیاں ہیں، وہ تو الگ ایک باب ہے۔
مخلوق کو دائرہ بندگی میں لانا
سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکمیں تخلیق کا ایک اور اہم مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالی لوگوں کو اپنی بندگی کے دائرے میں لانا چاہتا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: "...وَ تَعَبُّداً لِبَرِيَّتِهِ...”، "اور مخلوق کو اپنی بندگی کے دائرہ میں لانا چاہتا تھا”۔
یہاں سیدہ فاطمہ ؑ نے تعبُّد کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا مطلب انتہائی خضوع ہے یعنی عبادت۔اور صحیح قرآنی شواہد کی روشنی میں عبادت کی تعریف یوں کی گئی ہے:”کسی کو خالق یا رب سمجھتے ہوئے اس کی تعظیم کرنا”(32) پس عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی کرنی چاہیے کیونکہ اس پاک ذات کا کوئی کُفْو اور ہم پلہ نہیں ہے اور صرف وہی ہے جو سب کمالات کا مالک ہے، اسی لیے صرف وہی لائق عبادت ہے۔اطاعت یعنی فرمانبرداری کرنا، لیکن تعبّد انتہائی خضوع ہے جو بندہ نماز، روزہ، حج اور دیگر اعمال کی صورت میں اختیار کرتا ہے۔واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تعبّد اور بندگی کرنے کا لازمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے انبیاء اور اہل بیت (علیہم السلام) کے سامنے تسلیم ہونا اور ان کی اطاعت کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کا تعبّد اور بندگی کرنا ہے، کیونکہ ولی اللہ اور خلیفۃ اللہ کے سامنے تسلیم ہونا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو مصلحت پر قائم ہے۔
دعوت و بندگی کی عزت و استحکام کے لیے:
سیدہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکمیں تخلیق کا پانچواں مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: "وَ إِعْزَازاً لِدَعْوَتِهِ. "، "اور اپنی دعوت کو استحکام دینا چاہتا تھا””عزّت” ایسی حالت ہے جو کسی کو شکست کھانے اور ناکام ہونے سے روکتی ہے اور عزیز اسے کہا جاتا ہے جو غالب ہوتا ہے اور مغلوب نہیں ہوتا،جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ کا اسم عزیز مختلف مقامات پہ استعمال ہوا ہے چنانچہ ایک مقام پہ فرمایا:فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ،(33)”توجان رکھ کہ اللہ غالب آنے والا باحکمت ہے۔”اور اعزاز یعنی عزت دینا، اکرام و احترام کرنا۔سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے اس نورانی کلام کے ذریعے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو خلق کرنے کے ذریعے جن میں سب سے اشرف مخلوق، انسان ہے، اور اس خلقت کے حکیمانہ ہونے کے ذریعے اپنے تعبُّد اور بندگی کی اس دعوت کو عزت اور غلبہ دیا جو انبیائے الٰہی کے ذریعے لوگوں تک پہنچتی رہی۔ سیدہ کے خطبے کے اس جملے "اعزازاً لدعوتہ”کے بارے میں علامہ مجلسی (علیہ الرحمہ) فرماتے ہیں: "و اعزازا لدعوتہ ای خلق الاشیاء لیغلب و یظھر دعوتہ الانبیاء بالاستدلال بھا”، "اعزازاً لدعوتہ یعنی اللہ نے چیزوں کو خلق کیا تا کہ انبیاء جو چیزوں (کی خلقت) کو دلیل کے طور پر پیش کرکے (لوگوں) کو اللہ کی طرف دعوت دیتے تھے (اللہ اس دعوت کو) غالب اور ظاہر کرے”۔ (34)
خلاصہ
محمد و آل محمد علیھم السلام کی مجموعی سیرت میں جو روش اظہر من الشمس ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہستیاں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو مقدم رکھتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان ہستیوں نے دنیا میں بہت زیادہ مظالم سہے ہیں لیکن ان مظالم کے رد عمل میں سب سے پہلے اللہ کی حمد و ثناء بجالاتے ہیں اور اس کی مختلف صفات سے دنیا کو متعارف کراتے ہیں اور پھر اس کے بعد اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے دفاع میں دلائل پیش کرتے ہیں۔ یہی روش ہمیں سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے خطبہ فدک میں نظر آتی ہے۔ آپ نے یہ خطبہ اس وقت ارشاد فرمایا جب آپ ایک طرف اپنے بابا کی رحلت کے صدمے سے دو چار تھیں اور دوسری طرف ان کا ذاتی حق ان سے چھینا جا چکا تھا مگر ان سب مصائب کے باوجود آپ نے اپنے خطبے میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور پھر معارف الٰہیہ پر مشتمل ایسے عظیم جملے ارشاد فرمائے کہ جن میں سے ہر ایک جملہ اپنی جگہ توحید کا ایک الگ باب ہے۔ یہ آپ کے کلام کی فصاحت و بلاغت ہے کہ جو اس گھرانے کا ورثہ ہے کہ مختصر جملوں میں پوری توحید کے اہم نکات بیان فرما دیئے ہیں۔ اس تحقیقی مقالے کے تحت ہم نے دیکھا کہ سیدہ سلام اللہ علیھا نے بہترین نظم اور کمال مہارت سے توحید باری تعالیٰ سے امت کو مختصر مگر جامع الفاظ میں روشناس کرایا ہے۔سیدہ کے کلام میں سب سے پہلے توحید کو فوقیت دے کر عملی طور پر یہ سمجھایا ہے کہ انسان پر چاہے کیسی ہی بڑی مشکل کیوں نہ آ جائے حتیٰ کہ اس کا ذاتی حق غصب کر لیا جائے تب بھی اسے اللہ اور اس کی توحید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے اور حمد و ثناء الٰہی کو مقدم رکھنا چاہیے۔

حوالہ جات:

(1)۔الطبرسي، أحمد بن علي بن أبي طالبأحمد، الاحتجاج، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات، بیروت لبنان،1461ھ ج1،  ص98

(2)نجفی، محسن علی، خطبہ فدک، ناشر: مکتبہ اہل بیت مدرسہ کلیہ اہل البیت، چینیوٹ، پاکستانص 62

(3)جوہری، ابی نصر اسماعیل بن حماد، الصحاح تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، طبعہ اولی، 1420ھ، دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان

(4)17 الاسراء:44 مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(5)طباطبائی، السید محمد حسین الطباطبائی، الميزان في تفسير القرآن، ناشر:مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان،1417ھ، ج1 ص13

(6)طباطبائی، السید محمد حسین الطباطبائی، الميزان في تفسير القرآن، ناشر:مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، لبنان،1417ھ، ج‏1، ص11۔

(7) 40الغافر:62مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(8) 32 سجدہ: 7مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(9) 39الزمر: 4مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(10) 20 طہ: 111مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(11)ابن منظور،محمد بن مکرم جمال الدین ابن منظور، لسان العرب، ناشر: مکتبہ دار صادر بیروت، لبنان1414ھ، ج1، ص170۔

(12)راغب الاصفہانی، ابو القاسم الحسین بن محمد،مفردات الراغب فی غریب القران، المطمبعۃ المیمنیہ،1906ء،ص 265۔

(13) سورہ ابراهیم: 7؛ سورہ نساء: 147

(14)ری شہری، محمد محمدی، میزان الحکمۃ، طبع سوم 2012، مترجم: محمد علی فاضل ناشر: مصباح القران ٹرسٹ لاہورج6، ص15

(15) آمدی، قاضی ناصح الدین ابوالفتح، غرر الحكم و درر الکلم، ناشر دارالکتب الاسلامی،قم، ایران، 1406ھ، ح:5667

(16)ری شہری، محمد محمدی، میزان الحکمۃ، طبع سوم 2012، مترجم: محمد علی فاضل ناشر: مصباح القران ٹرسٹ لاہورج6، ص15

(17)مجلسی، علامہ محمد باقر، بحار الانوار، طبعہ ثالثہ، 1403ھ، مؤسسۃ الوفاء بیروت لبنان، ج51، ص305

(18) 6 الانعام:103 مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(19) صحیفہ سجادیہ دعا اول، مترجم: مفتی جعفر حسین، ناشر مرکز افکار اسلامی

(20)نجفی، محسن علی، خطبہ فدک، ناشر: مکتبہ اہل بیت مدرسہ کلیہ اہل البیت، چینیوٹ، پاکستان

(21) 65 طلاق:12 مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(22)نہج البلاغہ، مترجم: مفتی جعفر حسین، ناشر: مرکز افکار اسلامیخطبہ:1

(23) 7 اعراف: 11 مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(24) قمی، شیخ محمد عباس، مفاتیح الجنان، اعمال ماہ ذی الحجہ، دعاء عرفہ امام حسین ؑ

(25) 28 قصص:68مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(26) 29 عنکبوت:6مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(27)نہج البلاغہ، مترجم: مفتی جعفر حسین، ناشر: مرکز افکار اسلامی خطبہ:193

(28)مجلسی، علامہ محمد باقر، بحار الانوار، طبعہ ثالثہ، 1403ھ، مؤسسۃ الوفاء بیروت لبنان، ج 54 کتاب السماء والعالم ص47

(29)نہج البلاغہ، مترجم: مفتی جعفر حسین، ناشر: مرکز افکار اسلامیخطبہ:91

(30)مازندرانی،ملا صالح،شرح اصول الکافی، ناشر: مؤسسۃ الوفاء، 1404ھ، بیروت، لبنان،ج۹، ص۱۸۰

(31) 89 فجر:23مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(32) نجفی، محسن علی، الکوثر فی تفسیر القرآن، ناشر: مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور ج1 ذیل تفسیر سورۃ فاتحہ

(33) 2 البقرۃ: 209 مترجم: شیخ محسن علی نجفی: البلاغ القرآن

(34)مجلسی، علامہ محمد باقر، بحار الانوار، طبعہ ثالثہ، 1403ھ، مؤسسۃ الوفاء بیروت لبنان، ج۲۹، ص۲۵۴

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button