معصومین علیھم السلام میں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا امتیازی مقام
مولانا محمد شبیر واعظی ، جامعہ اہل البیت اسلام آباد
چکیدہ
اس مختصر تحقیق میں معصومین علیہم السلام میں جناب سیدہ کے امتیازی مقام کے بارے میں کچھ نکات کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔معانی عصمت اور ضرورت عصمت پر مختصر بحث کے بعد آپ ؑکے معصومہ ہونے کی دلیل کیطرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اہل عصمت اور حجت میں باقی معصومین کے ساتھ شریک ہونے کے ساتھ خالق کائنات کی طرف سے آپ ؑ کو عطا شدہ مقام جو کہ خلقت آدم علیہ السلام سے پہلے خلقت آدم علیہ السلام کے بعد اور آپ ؑ کی ولادت کے دوران عرش الٰہی سے روئے زمین پر تشریف لاتے ہوئے آپ ؑ کی خصوصیات پھر آپ ؑکی ازدواجی زندگی میں آپ کے نمایاں مقام اور آپ ؑ کی عظمت اور مرتبہ آپ ؑ کے فرزندوں کی نگاہ میں ان تمام جہات میں جہاں تک ممکن ہے فریقین کی روایات سے استفادے اور غیر اختلافی گفتگو کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن امتیازات کو یہاں پر عرض کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ اس اعتراف کے ساتھ ہیں کہ یہ آپ ؑ کی امتیازات کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔
مقدمہ
عصمت کا لغوی معنی
عصمت عربی لفظ ہے مادہ عصم سے جس کا معنی روک لینا محفوظ رکھنا ہے۔
ابن منصور کہتا ہے کہ کلام عرب میں عصمت کے معنی منع کرنے کے ہیں اور عاصم کے معنی مانع کے ہیں۔
اصطلاحی معنی
مسلمان مفکرین نے عصمت کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے سب سے معروف تعریف قاعدہ لطف کے ذریعے اس کی تفسیر ہے اس قاعدے کی بناء پر خداوند عالم بعض انسانوں کو عصمت عطا کرتا ہے جس کے سائے میں صاحب عصمت گناہ اور ترک اطاعت پر قدرت رکھنے کے باوجود ان کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔
معصوم شخص کے لیے گناہوں کے برے اثرات اور خداوند متعال کی اطاعت اور بندگی کی قدر وقیمت سے مکمل آگاہی حاصل ہونے کی وجہ سے اس میں عصمت کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے۔
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے علم لدنی کے حامل ہونے کے بارے میں شیعہ سنی مصدر روایات موجود ہیں ایک روایت شیعہ مصدر اور ایک روایت سنی منبع سے ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا۔
1. اہل سنت منابع سے روایت
مسند احمد میں ام سلمہ سے نقل ہے جب فاطمہ (علیہا السلام) ایسی بیماری میں جس میں آپ وفات پا گئیں تھیں، آپ تیمارداری کر رہی تھیں۔ ایک دن آپ کی حالت باقی دنوں کی نسبت بہتر نظر آئی علی علیہ السلام کسی کام سے گئے ہوئے تھے۔ حضرت فاطمہ نے فرمایا پانی لے آو، تاکہ غسل کروں میں پانی لے آئی اور آپ نے غسل کیا پھر فرمایا میرے لیے صاف کپڑے لے آو کپڑے لے آئی جوا ٓپ نے پہن لئے۔پھر فرمایا میرے بسترے کو کمرے کے درمیان بچھاؤ میں نے بچھا دیا آپ رو بقبلہ لیٹ گیئں اور ہاتھ کو چہرے پر رکھ دیا اور فرمایا ای ام سلمہ میں ابھی دنیا سے جا رہی ہوں پاکیزگی کے ساتھ کوئی میرے چہرے کو نہ کھولے۔ یہ کلام کرنے کے بعد آپ کی روح پرواز کر گئی۔
2. شیعہ منابع سے روایت
حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں میری ماں فاطمہ اپنے پدر بزرگوار کے بعد ۷۵ دن زندہ رہیں اس دوران آپ بہت محزون رہیں اسی دوران جبریل آپ کے حضور شرف یاب ہوتے رہے آپ کو تسلیت دینے کے واسطے اور آپ کو حالات سے آگاہ کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کو آئندہ کی خبر اور آپ کے فرزندوں کے بارے میں بھی فرماتے تھے۔۔
ان دو روایتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپ نہ فقط اطاعت اور گناہوں کے اثرات سے واقف ہیں بلکہ آپ محرم علم غیب الٰہی تھیں ۔
آئمہ علیہم السلام معصوم تھے حجت الٰہی ہونے کی وجہ سے کیونکہ عقل حکم کرتی ہے کہ جو راہ نما ہو حجت ہو ان کا گناہوں سے پاک ہونا خطا اور اشتباہ سے عاری ہونا ضروری ہے کیونکہ اگر ان سے خطا سرزد ہوجائے تو ان سے حاصل ہونے والے معارف کے بارے میں اطمینان ختم ہو جاتا ہے۔
اس طرح حضرت زہراء سلام اللہ علیہا بھی حجت الٰہی ہیں۔
سورہ مدثر کی آیت ۳۵۔ ۳۶۔ انما الاحدی الکبر نزیرا للبشر کی تفسیر میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں اس سے مراد حضرت فاطمہ ہیں۔
امام حسن عسکری علیہ السلام سے یہ روایت نقل ہو ئی ہے آپ فرماتے ہیں:
نحن حجج اللہ علی خلقہ، وجد تنا فاطمہ علیہا السلام حجۃ اللہ علینا
مذکورہ روایات کی روشنی میں جس طرح سے بارہ امام علیہم السلام حجت ہیں اور معصوم ہیں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بھی حجت ہیں اور معصوم ہیں ۔ اہل حجت اور عصمت میں تمام معصومین شریک ہونے کے باوجود کچھ صفات حمیدہ میں سے بعض نمایاں ہیں یہاں اس مختصر گفتگو میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ معصومین علیہم السلام میں جناب سیدہ کے امتیازی مقام پرکچھ روشنی ڈالی جائے۔
نوری خلقت
پیغمبر اکرم ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ؐ فرماتے ہیں کہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کا نور زمین و آسمان خلق ہونے سے پہلے خلق ہوا تھا کچھ لوگوں نے عرض کیا یا رسول خداﷺ !فاطمہ سلام اللہ علیھا بشر میں سے نہیں ہیں کیا؟ فرمایا فاطمہ سلام اللہ علیھا حوریہ ہے انسان کے لباس میں۔خلقت آدم سے پہلے نور فاطمہ سلام اللہ علیھا کو خلق کیا آدم کو خلق کرنے کے بعدآدم کو نور فاطمہ سلام اللہ علیھا دکھایا گیا جب انہوں نے استفسار کیا کہ یہ کون ہے ہم سے بہتر اور زیبا تر تو ان کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت کرادی گئی۔
عرض ہوا حضرت زہراء اس وقت کہاں تھیں؟
آپ ؐ نے فرمایا :عرش الٰہی کے ستون تلے۔
عرض ہوا آپ ؑ کی غذا کیا تھی فرمایا :تسبیح و تقدیس اور تمحید الٰہی پھر فرمایا مجھے صلب آدم سے نکالا تو اللہ نے چاہا میرے صلب میں زہراء سلام اللہ علیھا کو قرار دے۔
عرش الٰہی سے زمین پر لانے کے لیے خاص اہتمام
ایک دن پیغمبر اکرم ﷺ ایک جگہ تشریف فرما تھے کہ جبریل ؑ آپ ؐ پر نازل ہوئےاور سلام کے بعد عرض کیا آپ چالیس دن کے لئے جناب خدیجہ ع سے دور رہیں دن کو روزہ اور رات کو عبادت میں مصروف رہیں۔ اس وحی کے بعد عمار کے ذریعے آپ ؐ نے گھر پیغام بھیجا کہ اے خدیجہ ؑ آپ میرے لیے عزیز ہو اور گھر میں نہ آنے کی وجہ آپ سے ناراضگی نہیں بلکہ خدا نے مجھے دستور دیا ہے اور میں حکم خدا کا تابعدار ہوں چناچہ چالیس دن کے بعد ایک روایت کے مطابق افطاری کے لیے جبریل بہشت کی غذا لے کر حاضر ہوا ۔
دوسری روایت کے مطابق بہشت سے سیب لے کر حاضر ہوا۔
تیسری روایت ہے آپ ؐ کو معراج پر بلایا گیا جہاں آپ ؐ عرش الٰہی کی سیر کو نکلے اور جبرئیل ؑ نے آپ ؐکو بہشت کی کھجورپیش کی اور آپ ؐ نے تناول فرمائی اور یوں نور فاطمہ سلام اللہ علیھا آپ ؐکے وجود مبارک میں منتقل ہوا۔
نور حضرت فاطمہ علیہا السلام کو عرش الٰہی سے منتقل کرنے کے لیے پیغمبر اکرم نبی رحمت ﷺ کو چالیس دن ریاضت کا حکم دیا جاتا ہے پھر آپ ؐ کو عرش پر بلایا جا تا ہے اور بہشتی غذا کی صورت میں نور مبارک کو صلب نبی مکرم ؐ میں منتقل کیا جاتا ہے یہ اہتمام کسی اور معصوم کے لیے دیکھنے کو نہیں ملتا ۔
پہلی معصوم جو شکم مادر میں ماں سے ہمکلام ہوئیں۔
مفضل بن عمر نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا آپ کی جدہ امجد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی ولادت کیسی ہوئی آپ ؑنے فرمایا جب حضرت خدیجہ ؑنے رسول خدا ؐسے شادی کی تو مکہ کی عورتوں نے آپ سے دوری اختیار کی اور آپ کے ہاں آنا جانا چھوڑ دیا حتی کہ کوئی آپ پر سلام تک نہیں کرتی تھی اور کسی کو آپ سے رابطہ کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتی تھیں اس وجہ سے آپ کافی پریشان ہوئیں جب نور فاطمہ سلام اللہ علیھا آپ میں منتقل ہوا تو آپ کے لیے ہم دم بن گئیں اور آپ سے بات کیا کرتی تھیں اور آپ کو حوصلہ دیا کرتی تھیں اس بات کو حضرت خدیجہ ؑ نے پیغمبر اکرم ؐ سے مخفی رکھا ایک دن جب حضور گھر تشریف لائے تو دیکھا آپ گفتگو میں محو ہیں۔
فرمایا اے خدیجہ ؑ آپ کس سے ہم کلام تھیں؟
عرض کیا اس بچے سے جو میرے وجود میں ہے یہ مجھ سے بات کرتا ہے اور مجھے تسلی دیتا ہے تو آپ ؐ نے فرمایا ۔اے خدیجہؑ جبرئیل ؑنے مجھے بشارت دی ہے کہ یہ بیٹی ہے اور یہ پاکیزہ اور مبارک ہے اور خدا میری نسل کو اس کے ذریعے برقرار رکھے گا۔
مندرجہ بالا روایت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جناب سیدہ کائنات معصومین میں پہلی ہستی ہیں جو شکم مادر میں ماں سے ہمکلام ہوئیں نہ فقط آپ ؑ پدر بزرگوار کے لیے باعث آرام اور سکون تھیں بلکہ آپ ؑ شکم مادر میں بھی مادر گرامی کے لیے مونس تھیں وہ ہستی جو باپ کے لیے ام ابیھا ہو۔ اور ماں کے لیے ان کی ہمدم اسے فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کہتے ہیں۔
بے مثال نسب کی مالک
مفضل ابن عمر کی روایت میں امام صادق علیہ السلام حضرت صدیقہ طاہرہ کی ولادت کا احوال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب آپ ؑ کی ولادت ہوئی تو جنت کے زیور سے آپ ؑ کو آراستہ کیا گیا۔
فنطقت فاطمۃ شہادۃ ان لا الہ الا اللہ وان ابی رسول اللہ سید الانبیاء وان بعلی سید الاوصیاء وان ولدی سید الاسباط۔۔۔۔
روایت کی روشنی میں کائنات کی واحد ہستی جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا ہیں جن کو یہ حق ہے کہ اپنا تعارف اس طرح سے کرائیں۔
ان ابی رسول اللہ سید الانبیاء و ان بعلی سید الاصیاءوان ولدی سید الاسباط وحجہ اللہ
پیغمبر اکرم ﷺکی ایک روایت ہے جس میں یہ جملہ آیا ہے یہ بھی شرف اور فضیلت سوائے حضرت زہراء کےکسی اور کو نہیں ملاآپ نے فرمایا
” اذا سئل نکیر و منکر فی القبر من فاطمہ عن امامھا فانھا تقول ھذا الجالس علی شفیر قبری بعلی امامی”۔
جب آپ علیہا السلام سے سوال کیا جائے گا امام کے بارے میں تو آپ ؑ کا جواب ہوگا کہ میرے امام میری قبر کے کنارے بیٹھے ہیں۔
پیغمبر اکرم ﷺ کی تمنا۔ زہراء سلام اللہ علیھا کا بابا کہہ کر پکارنا
جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی "لا تجعلو دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضاً”
ترجمہ: تمہارے درمیان رسول کے پکارنے کو اس طرح نہ سمجھو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔
تو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا فرماتی ہیں میں نے خود کو تیار کیا کہ جب بھی حضرت تشریف لائیں تو بابا کہنے کے بجائے یا رسول اللہ ﷺکہوں
حضرت نے میری طرف نگاہ کی اور فرمایا یہ آیت آپ کے لیے اور آپ کے اہل بیت کے لیے نازل نہیں ہوئی ہے تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں تم مجھے بابا کہو یہ میرے دل کو زیادہ محبوب ہے اور اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ۔۔۔
اس واقعہ سےجہاں آپ ؑکی عظمت اور منزلت واضح ہوتی ہے وہاں ایک عظیم نکتہ بھی مل جاتا ہے کہ آپ ؑکے پیغمبر اکرم ﷺسے دو رشتے ہیں: 1۔ بیٹی ہونا ، 2۔ امتی ہونا۔ اور جب یہ آیت نازل ہو گئی تو آپ ؑ نے نسبی رشتہ کو ملحوظ رکھ کر خود کو حکم سے الگ سمجھنے کی بجائے بابا کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے آیت پر عمل کرنے کو تیار ہو گئیں اور دنیا کے صاحبان اقتدار اور حکومت سے وابستہ افراد کے وابستگان کو ایک عظیم درس دیا ۔
رکن ارکان الہدیٰ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا سلام ہو آپ پر اے جنت کی دو خوشبوؤں کے پدر گرامی، عنقریب آپ ؑکے دو رکن آپ سے چھین لئے جائیں گے خدا خود میری کمی کو آپ کے لیے پوری کرے گا۔ حضرت پیغمبر خدا ﷺکی وفات پر آپ ؑ نے فرمایا یہ ایک رکن تھا حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کی شہادت پر فرمایا یہ دوسرا رکن تھا۔
امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت شب ضربت کے بارے میں ایک روایت طولانی میں یہ جملہ آیا ہے؛ ونادی جبریل بین السماء والارض بصوت سیمعہ کل مستقیط تھدمت واللہ ارکان الہدیٰ
مذکور بالا دو روایتوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام ہدایت کے رکن تھے اور جو امیر المومنین علیہ السلام کے لیے رکن تھے وہ حضرت پیغمبر کے ساتھ حضرت زہراء علیہا السلام تھیں ۔ رکن کے معنی باعث تقویت، عزت، قوت و غلبہ کے ہیں۔
زوج آسمانی
حضرت زہراء اور امیر المومنین علیھما السلام کی شادی کے حوالے سے اگرچہ فریقین کی بہت ساری روایات پائی جاتی ہیں مگر میں فقط ایک روایت پر اکتفا کروں گا۔
۱۔ طبقات ابن سعد کے مطابق حضرت ابو بکر نے اور بعد میں حضرت عمر نے اپنے لیے خواستگاری کی تو دونوں کو حضور بن عبد اللہ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اس سلسلے میں وحی الٰہی کا انتظار ہے۔ کچھ عرصہ بعد حضرت علی علیہ السلام نے اسی خواہش کا اظہار کیا تو محمد بن عبد اللہ ﷺنے قبول کر لیا اور کہا مرحباً واھلاً۔۔۔
۲۔ عن ابان ابن تغلب عن ابی جعفر قال قال رسول اللہ انما انا بشر مثلکم اتزوج فیکم وازوجکم الا فاطمہ فان تزویجھا نزل من السماء
مذکورہ دو روایتوں کے تناظر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی امیر المومنین ؑ سے شادی معصومین علیہم السلام میں بلکہ کائنات میں واحد شادی ہے جو اللہ کے خصوصی حکم سے ہوئی۔
اگرچہ زمین و آسمان میں ذرہ برابر اور اس سے چھوٹی یا بڑی کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے رب سے پوشیدہ ہو اور روشن کتاب میں درج نہ ہو۔
آیت کے مطابق اگرچہ تمام چیزیں اللہ کے علم میں ہیں اور ہر کام اذن عمومی ہوتا ہے باقی رشتے بھی علم الٰہی میں ہیں اور اذن الٰہی سےہی طے ہوتے ہیں لیکن قول پیغمبر اکرم ﷺکے مطابق حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کی شادی میں پروردگار کا خصوصی حکم تھا۔ جو کہ خود پیغمبر اکرم ﷺ کے ازدواج میں نہیں تھا۔
آئمہ علیہم السلام کی پہچان
انسان عام طور پر اپنا تعارف باپ کے ذریعے کرتا ہے اور بیوی شوہر کے ذریعے سے تعارف کراتی ہے۔ لیکن ائمہ علیہم السلام باوجود اس کے کہ آباء طاہرین کے فرزند تھے لیکن جن کو بھی تعارف کا موقع ملا تو جہاں نانا رسول خدا کا ذکر کرتے تھے اور بابا امیر المومنین علیہم السلام کا وہاں مادر گرامی کا بھی ذکر فرماتے تھے حتی امیر المومنین بھی اپنی زوجیت کو اپنے تعارف کا ذریعہ جانتے تھے۔
۱۔ مولائے متقیان کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
وانا زوج البتول سیدہ النساء العالمین فاطمۃ التقیۃ النقیۃ البرۃ۔
۲۔ امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں۔
انا بن محمد المصطفیٰ وانا بن علی المرتضیٰ وانا بن فاطمۃ الزہراء ۔
۳۔ امام زین العابدین علیہ السلام دربار شام میں خطبہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
انا بن فاطمۃ الزہراء وانا بن سیدۃ نساء االعالمین ۔
مذکورہ احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کائنات کی واحد خاتون ہستی ہیں کہ معصوم امام جن کی نسبت پر فخر کرتے ہیں اور آپ ؑکے ذریعے اپنا تعارف کراتے ہیں۔
حوالہ جات:
- ۔ مصباح اللغات صفحہ ۵۵۷
- ۔ باب العین مع الصاد ج ۲ ص ۴۸۹ لسان العرب
- ۔رسائل الشریف ص ۳۲۶
- ۔ کشف لمراد ص ۴۹۴
- ۔ مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفہ ۴۶۱
- ۔ اصول کافی ج ۱ ص ۴۵۸ حدیث ۱
- ۔ تفسیر نو الثقلین ج ۵ ص ۴۵۸
- ۔ اطیب البیان فی تفسیر القرآن ۱۳: ۲۲۶
- ۔ بحار الانوار ج ۲۵ ص ۵ حدیث ۸
- ۔ معانی الاخبار ص ۳۹۴ ج ۳۹۴
- ۔بحار الانوار ج ۱۶ صفحہ ۷۸۔ ۷۹
- ۔ ترجمہ صبہ ۴۳ بحار الانوار ص ۳۹
- ۔علل الشرائع ص ۱۸۴ باب ۱۴۷ ح ۲
- ۔ امالی شیخ صدوق ص ۳۷ ح ۷ ترجمہ بحار الانوار ج ۴۳ ص ۳۵
- ۔ طبرانی المعجم الکبیر ۲۲۔ ۳۹۷
- ۔ حوالہ سابق
- ۔ بحار جلد ۴۳ ج ۵۰
- ۔ ترجمہ الکوثر فی تفسیر القرآن سورہ نور آیہ ۶۳
- ۔مناقب الامام علی بن ابی طالب۔ معازلی صفحہ ۳۶۵
- ۔زخائر العقبیٰ (زہبی) ص ۵۶
- ۔ بحار الانوار ج ۴۲ ص ۲۸۲
- ۔ مصباح اللغات صفحہ ۳۱۲
- ۔ طبقات ابن سعد جلد ۸ ص ۱۱،۱۲
- ۔ الکافی جلد ۵ ص ۵۶۵
- ۔الکوثر فی تفسیر القرآن یونس ۴۱
- ۔بحار الانوار جلد ۳۵ ص ۴۵
- ۔ صد داستان ج ۱ ص ۱۸۲
- ۔بحار الانوار ج ۴۵ ص ۱۳۸