سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

شہزادی کونین سلام اللہ علیھا مولائے کائنات علیہ السلام کی نگاہ میں اورمولائے کائنات علیہ السلام شہزادی کونین سلام اللہ علیھا کی نگاہ میں

مقالہ نگار:امجد علی امجد، متعلم جامعۃ الکوثر
مقدمہ
قال رسول الله صل الله عله وآله وسلم :
” لو لم یخلق الله علي ابن ابی طالب ما کان لفاطمة کفو۔ 1 ”
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا زوجہ امیرالمؤمنین ، فاتح بدر و حنین ،سرچشمہ عزو شرف ، روح وقار گلشن سرکار دوعالم کی پائندہ بہار ،آپ ایک قابل فخر بیٹی ،اطاعت شعار زوجہ ،اور علم و عمل کے لحاظ سے تمام عالم انسانیت کے لئے پیشوا اور سردار ہیں ۔اسی طرح امیرالمؤمنین ،امام المتقین ایک مثالی شوہر ہیں ۔ کائنات میں اس جیسے گھرانے کی مثال نہیں ملتی ۔ آپ دونوں ایک اچھے خاندان کے لئے ہر جہت سے نمونہ عمل تھے ۔جیساکہ روز مرہ کے کاموں کو آپس میں بانٹےتھے ۔حضرت فاطمہ الزہراء اپنے گھریلو امور سر انجام دیتی تھیں ۔آپ چکی سے آٹا خود بناتی تھیں ۔پھر اپنے پاکیزہ ہاتھوں سے روٹیاں بناتی تھیں ۔گھر سے باہر کے کام حضرت علیؑ کے ذمہ تھے۔آپؑ کھانے پینے کی اشیاء لاتے ،ضروریات زندگی کی ذمہ داری حضرت علیؑ پر تھی ۔آپ دونوں ایک دوسرےکا بہت عزت و احترام کرتے تھے ۔اسی تناظر میں ہم نےاس مقالے کو لکھنے کی کوشش کی ہے ۔خداوند بارگاہ سیدہ سلام اللہ علیھا میں قبول فرمائے ۔
امام علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کا رشتہ
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے رشتے کی داستان مختصر اختلاف کے ساتھ منابع میں ذکر ہوا ہے ۔ ان منابع میں ذکر ھواہے کہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور عبداللہ بن عوف جیسے اصحاب نے آپ ﷺ سے جناب فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا کا رشتہ مانگا آپؐ نے جواب میں فرمایا” اس سلسلے میں حکم خدا کا منتظر ہوں” ۔2
بعض مہاجرین نے امام علیؑ سے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کا رشتہ مانگنے کی پیشکش کی تو امام علی ؑ نے جواب دیا ” خدا کی قسم ! میرے پاس کچھ نہیں ہے ” آخر کار امام علی ؑ آپ ﷺ کے پاس گئے لیکن شرم کی وجہ سے کوئی درخواست نہ کی ۔ تیسری بار آپؑ نے رسول خدا ﷺ سے فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کا رشتہ مانگا ، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے ؟ امام ؑ نے فرمایا : یا رسول اللہ ﷺ ایک زرہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ آپ ﷺ نےساڑھے بارہ اوقیہ سونا حق مہر رکھا اور امام کو زرہ واپس لوٹا دی ۔3
بعض مھاجرین نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے رشتے سے متعلق آپ ﷺ سے شکوہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ فاطمہ ؑ کے رشتے کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔4
سیدہ کی ازدواجی زندگی :
آخر کا دختر پیغمبر ﷺاپنے شوہر نام دار کے خانہ اقدس میں منتقل ہوگئیں۔ آپ رسالت و نبوت اور آستانہ وحی سے امامت و وصایت اور خلافت و ولایت کے گھر پہنچ گئیں ۔آپ ؑکی حیات کا ہر لمحہ نور سعادت سے منور رہا جب آپ اپنے بابا کے آستانہ قدس میں تھیں تو اس وقت آپ کے جسم اقدس پر نبوت کی شعاعیں ضوفشاں تھیں ۔ جب وہاں سے منتقل ہوئیں تو نور امامت نے آپ کو اپنی کرنوں میں سمیٹ لیا اور آپ ہمیشہ کے لئے امیر حریت و فضیلت کی قرین و ہم نشین بن گئیں۔آپ کی ازدواجی زندگی کا آغاز عظمت و شان و شوکت سے ہم کنار تھا ۔ آپ اپنے رفیق حیات کی دینی و دنیوی اور معاشی و اخروی تمام امور میں معاون و مددگار تھیں ۔ آپ اپنے شوہر نام دار کی مختلف اقسام کی اسلامی و انسانی ذمہ داریوں کو نمٹانے کے لئے ان کے شانہ بہ شانہ رہتی تھیں ۔
فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی نگاہ میں امام علی علیہ السلام:
فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے اقوال میں ولایت کا دفاع:
جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے مختلف طریقوں سے جانشین رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لو گوں کو تعارف کرایا اور اس پیغام کو پہنچایاکبھی کنایہ کی زبان میں جناب امیر المومنین علیہ السلام کا تعارف کراتیں اور فرماتیں کہ کوئی بھی انکی مثل نہیں ہے۔ امیرالمومنین کی خصوصِیات کا ذکر کرتیں اور آپ کے فضائل کو بیان فرماتیں اور ایسے فضائل بیان فرماتیں جن کو مد مقابل اور دشمن بھی رد نہیں کرتا تھا بلکہ ان فضائل کو قبول کرتا ، ان فضائل اور صفات کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے احساسات کو بیدار کریں کیونکہ قیام کا اصلی محرک یہی احساسات کا بیدار کرنا ہی ہے . جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کی ساری کوشش یہ تھی کہ لوگوں کو اس خطاء اور اشتباہ سے آگاہ کریں جس میں سب پڑ گئے تھے، آپ چاہتی تھیں کہ لوگوں کو سمجھائیں کہ اگر جانشین پیغمبر کا انتخاب بھی کرنا ہے تو انتخاب کا بھی معیار صحیح ہونا چاہئے اسی لئے اپنی گفتگو کا آغاز ایسے کیا کہ لوگوں کے احساس بھی بیدار ہوں اور وہ احساس مسئولیت بھی کریں۔
ممکن ہے جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے اقوال کو ٓ ہم اسطرح تقسیم کریں ۔
امامت اور ولایت کے بارےمیں فرامین۔
مولا امیر المومنین کے فضائل و قصائد کے فرامین۔
یار و انصار کی سستی اور انکی سرزنش کے بارے اقوال۔
خلافت کے غصب کئے جانے کے بارے میں اقوال ۔
امامت و ولایت کے بارے میں فرامین:
1۔مثل امام مثل کعبہ ہے:
حضرت فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیھا نے فرمایا:
” مَثَلُ الاِمامِ مَثَلُ الکَعبَة اِذتُؤتی وَ لاتَأتی”
” امام کی مثال کعبہ کی ہے، کہ لوگ طواف کرنے کیلئے کعبہ کے پاس آئیں اور آتے ہیں کعبہ کسی کی طرف نہیں جاتا” ۔
اس حدیث شریف کو سیدہ سلام اللہ علیھا نے اس شخص کے جواب میں فرمایا جس نے یہ اعتراض کیا تھا کہ اگر امیر المومنین حق پر تھے اور خلیفہ اول نے انکے حق کو غصب کیاتھا تو امیر المومنین نے اپنے حق کا دفاع کیوں نہیں کیا اور قیام کیوں نہیں فرمایا؟تو جناب سیدہ نے فرمایا کہ امام کی مثال کعبہ کی ہے کہ حجاج کرام طواف کیلئے خود کعبہ کے پاس آتے ہیں کعبہ کسی کی طرف نہیں جاتا یہاں بھی لوگ آتے امیر المومنین کی بیعت کرنے نہ یہ کہ امام خود ان کے پاس جاتے ،پس لوگ امیر المومنین کے پاس نہیں آئے اور راہ کو بھی گم کر بیٹھے۔
2۔امام، پیغمبروں کا وارث ہوتا ہے:
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا :
” نحن وسیلته فی خلقه ونحن خاصته فیمحل قدسه ونحن حجته فی غیبه ونحن ورثة الانبیا” ( خطبہ فدک)
” ہم اہلبیت ہی ہیں جو اللہ اور اسکی مخلوق کے درمیان وسیلہ ہیں خدا وندمتعال کے منتخب شدہ اور پاکیزہ افراد ہیں ، خدا کی حجت ہیں اور اسکے انبیاء کے وارثہم اہل بیت ہی ہیں” ۔
اس حدیث میں جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے امامت کے چار وظیفوں اور ذمہ داریوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، ایک یہ کہ امام خالق اور اسکی مخلوق کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہے، دوسرا یہ کہ امام خدا کا منتخب نمائندہ ہوتا ہے، تیسرا یہ کہ امام زمین پر اللہ کی طرف سے حجت ہوتا ہے اور آخری یہ کہ اسکے انبیاء کا وارث ہوتا ہے جیسا کہ زیارات میں ہم یہی پڑھتے ہیں خصوصا زیارت وارث میں کہ :
السلام علیک یا وارث آدم صفوۃالله۔۔۔۔۔۔۔
جس شخص کو لوگوں نے انتخاب کیا تھا اس میں مذکورہ صفات میں کوئی ایک صفت بھی نہیں تھی، جناب سیدہ یہ بات واضح کر رہی ہیں کہ اگر جانشین خود ہی انتخاب کرنا ہے تو اسکےلئے بھی معیار صحیح ہونا چاہئے۔
3۔امام امت کیلئےنظم و اتحاد کا سبب ہوتا ہے :
حضرت زہرا سلام اللہ علیھا نے اپنے فصیح و بلیغ خطبہ میں فرمایا :
"جعل الله طاعتنا نظاما للملة وامامتنااماناللفرقة” (خطبہ فدک)
"خداوند متعال نے ہم (اہل بیت) کی پیروی کو امت اسلامی کا نظام قرار دیا ہے ، اور ہماری ولایت و امامت کو عامل وحدت قرار دیا ہے اسی کو سبب بنایا ہے کہ امت اسلام فرقوں میں تقسیم نہ ہو” ۔
ایک اور مقام پر اس عامل وحدت یعنی امامت و ولایت کی طرف اشارہ کر کے فرماتی ہیں :
"اما والله لوترکواالحق علیالله واتبعواعترة نبیه لمااختلف فی الله اثنان” (خطبہ فدک)
"خدا کی قسم اگر لوگ حق امامت کو اسکے اہل کو دے دیتے اور عترت رسول خدا کی اطاعت کرتے تو خدا کے بارے (اور اسکے احکام ) کے بارے اس عالم میں دو افراد بھی اختلاف نہ کرتے” ۔
یہ حدیث شریف یہ بیان کرتی ہے کہ امامت وامام بر حق نا صرف امت کی اجتماعی و سیاسی وحدت کا سبب ہے بلکہ امت اسلام کی اعتقادی و عقیدتی وحدت کا سبب بھی ہے، ائے کاش امامت کو امام بر حق کے پاس رہنے دیتے تو بشریت بالعموم اور امت اسلام بالخصوص اس سعادت سے محروم نہ ہوتی۔
فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے اقوال میں فضائل امیر المؤمنین :
1۔علی میرابہترین خلیفہ ہے :
حضرت زہرا سلام اللہ علیھا نے اپنے والد محترم جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہوئے فرمایا :
"علی خیرمن اخلفه فیکم " (خطبہ فدک)
"علی ؑ سب سے بہتر ہے جسکو میں تمہارے درمیان جانشین بنا کر جا رہا ہوں”
اس حدیث میں پیغمبر اکرم نؐے اپنے جانشین کی تصریح فرمائی کہ وہ علی ہیں اور تم میں سب سے بہتر ہیں ، لہذا کہیں اور میرا جانشین تلاش نہ کرنا۔یہ حدیث بھی جناب سیدہ نے اس شخص کے جواب میں تلاوت کی جس نے جناب سیدہ سے تقاضا کیا کہ آیا پیغمبر اکرم نے غدیر کے علاوہ کسی اور جگہ اور کسی اور حدیث میں اپنی جانشینی کا اعلان کیا ہےیا نہ؟ تو جناب سیدہ نے فرمایا کہ ہاں بہت سارے مقامات پر ان ہی کی جانشینی کے بارے فرمایا ہے من جملہ یہ حدیث بھی اپنی جانشینی کے متعلق ہے۔
2۔علی علیہ السلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بھائی ہیں:
خطبہ فدکیہ میں جب اپنے بابا کی معرفی کراتی ہیں تو امیر المومنین کی بھی پہچان کراتی ہیں ، کہ اگر میرے بابا کوجانتے ہو تو میرے شوہر امیرالمومنین کو بھی پہچانو فرمایا:
"اخا ابن عمی دون رجالکم ” (خطبہ فدک)
” میرا شوہر رسول اللہ اور میرے والد کا بھائی ہے کسی اور کا بھائی نہیں”۔
یہ بات تو واضح ہے کہ اگر کوئی کسی کے چچا کا بیٹا ہو ،دوسری طرف والا بھی اسکے چچا کا ہی بیٹا ہو گا، لیکن فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا یہاں پر امیرالمومنین کو رسول اللہ کا بھائی معرفی کرا رہی ہیں ، یہ نسبت دینے کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان یہ تو جانتے تھے کہ پیغمبر اسلام نے جب مہاجرین و انصار کے درمیان بھائیِ چارا ایجاد کیا تو امیر المومنین اور اپنے درمیان صیغہ اخوت پڑھا اس کے بعد علی امیر المومنین رسول اللہ کے بھائی معروف ہو گئے ، یہ خطبہ دینے کا مقصد و ہدف در حقیقت امیر المومنین کی امامت و ولایت کا اثبات کرنا ہے اور یہ اشارات در حقیقت اسی مقصود کیلئے ثبوت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
3۔شجاعت امام علی:
فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا نے امیر المومنین علیہ السلام کی شجاعت کے بارے خطبہ فدکیہ میں فرمایا:
"قذف أخاه فی لهواتها فلا ینکفی حتّی یطأصماخها باصمخه و یخمد لهبها بسیفه”
"پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے بھائی علی کو فتنوں کے درمیان اور ان درندوں کے منہ میں ڈال دیتے تھے اور امیر المومنین مشرکین کے ساتھ اس وقت تک جنگ کرتے رہتےجب تک انکے بڑوں کو اپنے پاوں کے نیچے روند نہ ڈالتے ،انکی بھڑکتی آگ کو امیر المومنین علیہ السلام اپنی تلوار سے خاموش کرتے تھے”۔ (خطبہ فدک)
4۔عبادت امیر المومنین علیہ السلام بہ زبان صدیقہ طاہره سلام اللہ علیھا:
جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے امیر المومنین علیہ السلام کی عبادت کے بارے فرمایا :
” مکدودا فی ذات الله ومجتهدافی امر الله،قریبامن رسول الله ،سیدالاوصیاء۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاتاخذہ فی الله لومة لائم” (فدک) ۔
"علی ؑ راہ خدامیں سخت کوشش کرنے والے اور اسکے معاملات میں بھی نہایت جدوجہد کرنے والے ، رسول اللہ کے قریب اور اوصیاء الہی کے سید و سردار و آقا ہیں۔۔۔۔۔۔راہ خدا میں کسی کی ملامت و سرزنش کرنے والے ملامت و سرزنش کی پرواہ نہیں کرتے "۔
اس حدیث کا ہدف و مقصد لوگوں کو بیدار کرنا ہے کہ جان لو خلیفہ رسول کو رسول اللہ ﷺکے ساتھ کچھ مناسبت ہونی چاہئے ، علی ؑ پیغمبر کا بھائی ہے علیؑ کو بہادری اور عبادت میں دیکھو ، سب سے پہلے جس نے اسلام قبول کیا وہ علی ہی ہیں اور خلافت کا اہل وہی ہے جو اس طرح ہو۔
امام علی علیہ السلام کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی وصیتیں:
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کی کرامات میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے پہلے سے ہی امام علی علیہ السلام کو اپنی وفات کی خبر دے دی تھی اور حتی وفات کا دن اور وقت بھی بتا چکی تھیں۔ یہ کرامت شیعہ اور سنی دونوں محدثین نے بیان کی ہے۔ اس بارے میں ایک حدیث میں یوں بیان ہوا ہےکہ حضرت فاطمہ (س) نے امام علی ؑکو کہا:
"میری موت کا وقت آن پہنچا ہے۔ امام علی (ع) نے فرمایا: اے دختر رسول خدا ﷺ، اب جبکہ وحی کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے آپ کو اس کا علم کیسے ہوا؟ حضرت فاطمہ (س) نے جواب دیا: مجھے ابھی ابھی نیند کا ایک جھونکا آیا تھا اور خواب میں رسول خدا (ص) کو دیکھا جو مجھ سے فرما رہے تھے: آج رات تم ہمارے پاس آ جاو گی۔ میں جانتی ہوں کہ انہوں نے سچ کہا ہے اور آج میری زندگی کا آخری دن ہے”۔5
ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ اس کے بعد حضرت فاطمہ (س) نے امام علی علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "میرے دل میں کچھ باتیں ہیں جو میں آپ کو وصیت کے طور پر کہنا چاہتی ہوں۔امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اے دختر رسول خداﷺ جو چاہتی ہیں بیان کریں۔امام علی علیہ السلام نے کمرے میں موجود افراد کو باہر جانے کا کہا اور خود حضرت فاطمہ (س) کے سرہانے تشریف فرما ہو گئے۔ حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا: اے رسول خداﷺکے چچا زاد، آپ نے مجھے ہر گز جھوٹا یا بددیانت نہ پایا ہو گا اور جب سے میں آپ کے گھر آئی ہوں آپ کی نافرمانی نہیں کی۔ امام علی علیہ السلام نے جواب دیا: خدا کی پناہ، آپ سب سے زیادہ دانا، نیک سیرت، پرہیزگار، عظیم اخلاق کی مالک اور خدا سے خوف کھانے والی ہیں پھر میں کیسے آپ کو اپنی مخالفت اور نافرمانی پر سرزنش کر سکتا ہوں؟ سچ تو یہ ہے کہ آپ کی جدائی میرے لئے انتہائی ناگوار ہےلیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں۔حضرت علی علیہ السلام نے مزید کہا: خدا کی قسم، رسول خدا (ص) کی وفات کی مصیبت میرے لئےتازہ ہو گئی ہے اور میرے لئے آپ کی وفات اور جدائی بہت بھاری ہے۔ پس انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آہ، یہ مصیبت کس قدر دردناک، جانکاہ اور غمناک ہے۔ خدا کی قسم اس مصیبت کا ازالہ ممکن نہیں۔”
حدیث میں آیا ہے کہ اس کے بعد دونوں شدید گریہ کرنے لگے۔ کچھ لمحات کے بعد امام علی علیہ السلام نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا سر اپنے سینہ مبارک سے لگایا اور فرمایا: "جو بھی وصیت ہے بیان کر دیں تاکہ میں اسے انجام دے دوں۔”
حضرت فاطمہ (س) نے فرمایا:
"خدا آپ کو نیک اجر عطا فرمائے اے رسول خدا (ص) کے چچازاد۔ میری پہلی وصیت یہ ہے کہ میرے بعد "امامہ” سے شادی کر لیجئے گا کیونکہ وہ میرے بچوں پر میری طرح مہربان ہے اور مردوں کو بھی شادی شدہ رہنے کی ضرورت ہے۔ میری دوسری وصیت یہ ہے کہ جن افراد نے مجھ پر ظلم کیا اور میرا حق مجھ سے چھینا ہے ان میں سے کوئی میرے جنازے میں شرکت نہ کرے کیونکہ یہ میرے اور رسول خدا (ص) کے دشمن ہیں۔ آپ انہیں یا ان کے پیروکاروں میں سے کسی کو میرے جنازے میں شریک نہ ہونے دیں۔ مجھے رات کو اس وقت دفن کریں جب سب سو چکے ہوں”۔6 اسی طرح ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اپنی وصیتیں کاغذ کے ایک ٹکڑے پر تحریر فرمائیں اور اپنے سرہانے کے نیچےرکھ دیں۔ آپ کی وفات کے بعد امام علی علیہ السلام کو وہ کاغذ ملا جس میں یہ لکھا تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"یہ دختر رسول خدا (ص) کا وصیتنامہ ہے۔ میں نے ایسی حالت میں یہ وصیت نامہ لکھا ہے جب یہ گواہی دے رہی ہوں کہ خدائے یکتا کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺخدا کے بندے اور رسول ہیں۔ اور گواہی دیتی ہوں کہ بہشت حق ہے اور جہنم حق ہے اور قیامت ضرور برپا ہو گی اور اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہہ نہیں۔ اور گواہی دیتی ہوں کہ خداوند متعال تمام قبروں والوں کو مبعوث فرمائے گا۔ اے علی ؑ میں فاطمہ رسول خدا ﷺ کی بیٹی ہوں جسے خداوند متعال نے آپ کی زوجہ قرار دیا تاکہ دنیا اور آخرت میں آپ کی ہو جاؤں۔ آپ کو دوسروں کی نسبت میرے کاموں کا زیادہ حق پہنچتا ہے۔ میرا حنوط، غسل اور کفن رات کو انجام دیں۔ رات کو میری نماز جنازہ پڑھیں اور رات کو ہی دفن کریں۔ کسی کو میری وفات کی اطلاع مت دیں۔ آپ کو خدا کے حوالے کرتی ہوں اور قیامت تک آنے والے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو سلام کہتی ہوں”۔ 7
امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا:
1۔جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کی تدفین کے وقت امام علی علیہ السلام کا خطبہ:
” روِيَ عَنْه(امیر المؤمین) أَنَّه قَالَه عِنْدَ دَفْنِ سَيِّدَةِ النِّسَاءِ فَاطِمَةَعليه‌السلام كَالْمُنَاجِي بِه رَسُولَ اللَّه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌ وسلم عِنْدَ قَبْرِه "
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّه عَنِّي – وعَنِ ابْنَتِكَ النَّازِلَةِ فِي جِوَارِكَ – والسَّرِيعَةِ اللَّحَاقِ بِكَ – قَلَّ يَا رَسُولَ اللَّه عَنْ صَفِيَّتِكَ صَبْرِي ورَقَّ عَنْهَا تَجَلُّدِي۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وإِنْ أُقِمْ فَلَا عَنْ سُوءِ ظَنٍّبِمَا وَعَدَ اللَّه الصَّابِرِينَ "
روایت کی گئی ہے کہ یہ کلمات سیدة النساء فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا: کے دفن کے موقع پر قبر سیدہ سلام اللہ علیھا کے پاس امیر المومنین علیہ السلام نے پیغمبراسلام (ص) سے راز دارانہ گفتگو کے اندازمیں ارشاد فرمائے ہیں ۔
سلام ہو آپ پر اے خدا کے رسول (ص) ! میری طرف سے اور آپ کی اس دختر کی طرف سے جوآپ کے جوار میں نازل ہو رہی ہے اوربہت جلدی آپ سے ملحق ہو رہی ہے۔ یا رسول اللہ (ص) ! میری قوت صبر آپ کی منتخب روز گار دختر کے بارے میں ختم ہوئی جا رہی ہے اور میری ہمت ساتھ چھوڑے دے رہی ہے صرف سہارا یہ ہے کہ میں نے آپ کے فراق کے عظیم صدمہ اورجانکاہ حادثہ پر صبر کرلیا ہے تواب بھی صبر کروں گا کہ میں نے ہی آپ کو قبر میں اتارا تھا اور میرے ہی سینہ پر سر رکھ کر آپ نے انتقال فرمایا تھا بہر حال میں اللہ ہی کے لئے ہوں اور مجھے بھی اس کی بارگاہ میں واپس جانا ہے۔آج امانت واپس چلی گئی اور جوچیز میری تحویل میں تھی وہ مجھ سے چھڑالی گئی۔اب میرا رنج و غم دائمی ہے اورمیری راتیں نذر بیداری ہیں جب تک مجھے بھی پروردگار اس گھرتک نہ پہنچا دے جہاں آپ کا قیام ہے۔عنقریب آپ کی دختر نیک اختران حالات کی اطلاع دے گی کہ کس طرح آپ کی امت نے اس پر ظلم ڈھانے کے لئے اتفاق کرلیا تھا آپ اس سے مفصل سوال فرمائیں اورجملہ حالات دریافت کریں۔افسوس کہ یہ سب اس وقت ہوا ہے جب آپ کا زمانہ گزرے دیر نہیں ہوئی ہے اور ابھی آپ کاتذکرہ باقی ہے۔
میرا سلام ہو آپ دونوں پر۔اس شخص کا سلام جو رخصت کرنے والا ہے اور دل تنگ و ملول نہیں ہے ۔ میں اگراس قبر سے واپس چلا جاؤں تو یہ کسی دل تنگی کا نتیجہ نہیں ہے اور اگر یہیں ٹھہر جاؤں تو یہ اس وعدہ کا اعتبارہی نہیں ہے جو پروردگار نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے۔( نہج البلاغہ)
3۔امام علی علیہ السلام اور فاطمہ الزہرا ء سلام اللہ علیھا: کی عزت و تکریم :
امام علیؑ جناب سیدہ کا اسی طرح احترام و اکرام کرتے تھے جسطرح وہ کرتی تھیں ۔آپ ؑ دختر رسول کی تکریم و تعظیم اس قدر کرتے تھے کہ جس کی کائنات میں مثال نہیں ملتی ۔ آپ ؑ اس لئے ان کا اکرام و حترام نہیں کرتے تھے کہ وہ ان کی رفیقہ حیات ہیں بلکہ اس لئے انکا احترام کرتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول کی محبتوں کا مرکزو محور ہیں ۔اللہ کی مخلوق میں رسول اللہ کو سب سے بڑھ کر جس سے محبت تھی وہ ان کی بیٹی سیدہ فاطمہ ؑ تھیں۔ اور اس لئے کہ وہ عالمین کی خواتین کی سیدہ و سالار ہیں ۔اس حوالے سے ایک حدیث ملتی ہے جس میں امام فرماتے ہیں کہ :
"اللہ کی قسم میں نے ان کی زندگی میں کبھی ان پر غصہ نہیں کیا اور نہ ہی میں کسی معاملےمیں ان سے ناراض ہو ا یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رحلت کر کے بارگاہ خداوندی میں پہنچ گئیں ۔ اور نہ وہ کبھی مجھ پر ناراض ہوئیں اور نہ کبھی میری کسی بات پر برہم ہوئیں اور نہ انہوں نے کبھی میری نافرمانی کی جب بھی میں ان پر اپنی نگاہ ڈالتا تھا تو میرے رنج و الم ختم ہوجاتے تھے اور مجھے سکون مل جاتا تھا ” 8

حوالہ جات

[1] ۔بحار الانوار ،ج،43

 [2]  ۔(فاطمہ من  المھد الی  اللھد)

[3]  ۔(اعلام الوری        جلد 1)

[4]  ۔( تاریخ  یعقوبی   )

[5]  ۔(بحارالانوار،جلد،۳،صفحہ۔۲۱۳)

[6]  ۔(بحار الانوار، جلد ۴۳، صفحہ ۱۹۲)

[7]  ۔(بحار الانوار، جلد ۴۳، صفحہ ۲۱۴)

     [8]  ۔بحارانوار ،ج ، 43

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button