سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا علمبردارِ عظمت ووقار خواتین عالم حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا علمبردارِ عظمت وقار خواتین عالم

سید ذیشان حیدر شمسی، متعلم جامعۃ الکوثر
خلاصہ:
معاشرتی زندگی میں عورت کے حقوق کے حوالے سے سیرتِ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہامشعل راہ ہے۔احترامِ نسواں ، عظمت و فضیلت اور وقار کے اصولوں کے بر خلاف دنیاوی تہذیبوں میں عورت کے حوالے سے انتہائی کم ظرفی پر مبنی موقف رہے ہیں ہاں مگر دینِ اسلام وہ انسانی اقدار کا ترجمان دین ہے کہ جس کا موقف واضح انداز میں موجود ہے کہ انسانی بنیادوں پر مرد و عورت مساویحقوق رکھتے ہیں۔اسلام عورت کو مکمل حقوق فراہم کرتا ہے۔انسانی حقوق، عفت و پاکیزگی،رازداری،حصول علم،ملکیت، زوجیت، کفالت، میراث، اور عبادات جیسے حقوق کی ادائیگی دین اسلام کے عالمگیرہونے کی دلیل قرار پاتی ہے۔
خطبہ فدک اور میراث کے مطالبے کا اقدام خواتین کے حق میں عظیم تحریک تھی ایسی تحریک جو حقیقی اسلامی قوانین کا نفاذ چاہتی تھی اور تحفظ حقوق نسواں کے مقابل ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی۔ بقول شاعر
شاہ زنان وقت مسیحا کی ماں ہوئیں
زہراؑ ہر ایک عصر میں شاہ زناں ہوئیں
مقدمہ
ذات مقدس حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا تاریخ نسواں کا وہ روشن ترین پہلو ہے جس کی بدولت آج عالم نسواں عظمت و رفعت کا حامل ہے۔حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا وہ عالی قدر انسان اور ایسی عورت ہیں کہ جو ذات احدیت کی قدرت و اقتدار کی واضح ترین نشانی قرار پاتی ہیں۔حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا اپنی ذات میں اس قدر جلالت کی حامل ہیں کہ ان کے بارے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہاان الله يرضى لرضی فاطمۃ و يغضب لغضبھا(حدیث متواتر)۔۱
ترجمہ: بے شک خداوند متعال حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے اور ان کے ناراض ہونے سے ناراض ہوتا ہے
یعنی حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا معیار رضائے الہٰی ہیں۔ذات فاطمہ سلام اللہ علیہا میزان حق ہیں۔آپ کی بابرکت زندگانی میں اٹھایا جانے والا ہر قدم انسانیت کے ارتقاء کے لیے ایک سنگ میل قرار پایا اور آپ کے فضائل و کمالات انسانی فضیلتوں کا خلاصہ بنے اور ذات باری تعالیٰ کی عطاء و فضل کا مجموعہ قرار پائے۔
اسلام وہ عظیم دین ہے کہ جس نے انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات کے لیے مکمل رہنمائی فراہم کی اور کسی جہت کو تشنہ نہ چھوڑا۔ عصر حاضر کا انسان حیرانگی اور پریشان کن صورتحال سے دوچار ہے کہ اسے آج اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں انحراف اور روگردانی دکھائی دیتی ہے۔چونکہ انسان کی فردی اور معاشرتی تربیت ، اصلاح اور تہذیب کے عروج و زوال میں خواتین کا اہم کردار ہے لہذا آج کے انسان کی تمام تر مشکلات کا حل اس میں ہے کہ ہمارے معاشرے کی خواتین کی تربیت اچھی ہو۔
خواتین کو اسلام کے اصول و ضوابط کے سائے میں رہتے ہوئے زندگی کے ہر میدان میں نظر آنا چاہئیے۔اس کے لیے ایک نمونہ عمل کا ہونا ضروری ہے ایسا اسوہ کاملہ جس کے اندر انسانیت کی تمام عالی خصوصیات موجود ہوں۔ایک ایسا نقشِ زندگی کہ جس پر چل کر انسانی و معاشرتی گتھی کو سلجھایا جا سکے اور یہ عظیم اسوہ برائے نسواں حضرت فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ وہ ہستی جو اپنے دامن میں خاتون کی زندگی کے ہر کردار کو سموئے ہوئے اس چاہے بیٹی کا کردار ہو یا زوجہ کا، یا پھر ایک ماں کا کردار ہر لحاظ سے ایک کامل ترین اسوہ ہےجو مکتب اسلام نے عالم انسانیت کو عنایت کیا ہے۔
اس مختصر مقالے حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا علمبردار عظمت و وقارِ خواتین عالم میں ان اہم نکات کی جانب توجہ مبذول کروائی گئی ہے کہ ایک خاتون کن اقدار کی حامل ہونی چاہئیے اور جناب فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی مقدس زندگانی میں وہ کون کونسی خصوصیات تھیں جن کی بدولت آپ عالم نسواں کی عظمت و وقار کی پرچم گزار بنیں۔معاشرتی خواتین کے لیے زندگانی فاطمہ سلام اللہ علیہا میں کونسے اہم دروس موجود ہیں جنہیں اخذ کرنے کی اشد ضرورت ہے ان پر مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے۔
انسان فطرت کا بہترین شاہکار
انسان اس وسیع و عریض کائنات میں فطرت کا سب سے خوبصورت شاہکار ہےکہ خداوند عالم نے جب تخلیق انسانی فرمائی تو اس پر یوں فخر فرمایا:
ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ۔ 2
"پھر ہم نے نطفے کو لوتھڑا بنایا پھر لوتھڑے کو بوٹی کی شکل دی پھر بوٹی سے ہڈیاں بنا دیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنا دیا، پس بابرکت ہے وہ اللہ جو سب سے بہترین خالق ہے۔ ”
آغاز میں ہم حقوق انسانی اور ان حقوق کے تناظر میں دنیا کی مختلف غیر اسلامی تہذیبوں میں عورت کے مقام کے عنوان سے بحث کرتے ہیں۔
انسان عظمت و وقار میں اولین نقطہ اس کو انسانیت کے تمام معین شدہ حقوق کی فراہمی ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انسان کی نشوونما اور زمانے کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ انسان کی ضروریات اور حاجات بھی بدلتی رہتی ہیں اگر یہ تبدیلی نہ ہوتی تو کسی طرح کی ترقی اور نشوونما کا امکان بھی نہ ہوتا چونکہ انسان طبیعی طور پر معاشرتی اور اجتماعی حیوان ہے اسی لئے اسےاپنی شخصی اور فردی زندگی کے علاوہ معاشرتی زندگی میں بھی آگے بڑھنا ہے اس سلسلے میں وہ اپنی ذاتی صلاحیتوں کے علاوہ ووسروں کے تجربات اور روزمرہ کے ایسے سارے وسائل کا سہارا لیتا ہے جو اس کے لیے جلد از جلد اپنی منزل تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہوں انہی وسائل میں سے ایک ناقابل انکار حقیقت آئیڈیل، ماڈل یا اسوہ ہے جس کے نقش قدم پر چل کر انسان اپنی زندگی کے مختلف شعبہ جات میں رشد و ترقی کی راہوں کو طے کر سکتا ہے۔ بعض افراد غیر شعوری اور بعض شعوری طور پر اپنی زندگی میں اس ضرورت کو محسوس کرتے ہیں اور یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس میں نہ عمر کا لحاظ ہوتا ہے اور نہ دیگر عواملِ زندگی کا بلکہ انسان اپنے آئیڈیل کی کامیاب زندگی کے اصولوں کی پیروی کر کے اپنی زندگی کو بھی کامیاب بنانا چاہتا ہے لہذا بچے، بوڑھے، خواتین ومرد، جاہل، عالم، اچھے برے تمام طبقات اپنی زندگی میں ایک ایسے اسوہ کی تلاش میں ہوتے ہیں جسے وہ اپنی زندگی کے تمام میادین میں نمونہ عمل بنا سکیں۔ پس دوسرے معنوں میں اگر اسے فطری ضرورت کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
حضرت انسان کی زندگی دو وجودات سے مکمل قرار پاتی ہے مرد اور عورت۔جہاں مرد ترقی کی راہوں پر گامزن ہے وہاں خاتون کی زندگی بھی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ اسے بھی اس دنیا میں ارتقائی مراحل کو طے کرنے کا حق دیا جائے۔دین اسلام خاتون کے تمام انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے اور عظمت و وقار کے حصول کے تمام مواقع فراہم کرتا ہے۔
اس سلسلے میں اگر مشاہدہ کیا جائے تو خدا نے جہان آدمیت کے لیے حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کے مبارک ترین اسوہ ہائے حسنہ کا انتظام فرمایا تو ایسا نہیں ہے کہ عالم نسواں کو اس لطف سے محروم رکھا گیا ہو بلکہ خواتینِ عالم کے لیے بھی بہت سی خواتین کو اسوہ و نمونہ عمل قرار دیا گیا۔امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے چار خواتین کو منتخب فرمایا مریم، آسیہ، خدیجہ اور فاطمہ سلام اللہ علیہم. ۳
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی زندگی بہت سے پہلو رکھتی ہے کہ جو خواتین کی عظمت کے مینارے ہیں۔
اگر ہم ماضی کا مشاہدہ کرے تو عورت کی عظمت کے منافی سلسلے بہت ملتے ہیں۔مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی پیدائش تضحیک کا نشان سمجھی جاتی تھی ، عورت ذلت ، حقارت اور تجارت کی انتہائی تصویر تھی ، وہ تباہی ، بربادی اور آفات کی وجہ قرار دی جا چکی تھی۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ۔
ترجمہ:جو شخص بھی نیک عمل کرے گا ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، بشرطیکہ ہو وہ مومن ، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔۴
پاکیزہ زندگی گزارنے کے بعد خداوند عالم اعمال کے بدلے میں بہترین اجر عنایت فرمائے گا۔زندگانی حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا اگر مشاہدہ کیا جائے تو نظر آئے گا کہ آپ کی مکمل زندگی ہر لمحہ و ہر لحظہ راضی بررضائے خدا گزری۔آپ اس طرح راضی رہیں کہ بزبان پیغمبریہ سند حاصل کر لی کہ "اللہ تعالیٰ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے راضی ہونے سے راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے۔”
غیر اسلامی تہذیبوں میں عورت کا مقام
قبل ازاسلام عرب معاشرے میں عورت کی ازدواج کے اعتبار سے حالت ناگفتہ بہ تھی عرب میں عورت محض ایک قابل استعمال شے سمجھی جاتی تھی، تعدد ازدواج کی کوئی حد مقرر نہ تھی، بعض شریر، عورتوں کو برسوں معلق کر کے رکھتے تھے، ترکہ میں عورت کا کوئی حق نہ تھا، وہ کسی چیز کی مالک نہ تھی۔۵
اسی تناظر میں ارشاد باری تعالی ہے۔فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْھَا کَالْمُعَلَّقَۃِ۔۶
ترجمہ:اسے معلق نہ رکھو یا تواچھی طرح حسنِ معاشرت کرو یا اچھی طرح رخصت کر دو“۔ان کی جاہلانہ رسوم میں سے ایک رسم ایسی بھی تھی جس سے عورت کی بے بسی کے ساتھ ساتھ اُس پر بداعتمادی کا کھُلا اظہار ہوتا ہے، وہ رسم یہ تھی کہ جب کوئی شخص سفر پر جاتا تو ایک دھاگا کسی درخت کی ٹہنی کے ساتھ باندھ دیتا یا اُس کے تنے کے اردگرد لپیٹ دیتا، جب سفر سے واپس آتا تو اُس دھاگے کو دیکھتا، اگر وہ صحیح سلامت ہوتا تو وہ سمجھتا کہ اس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں کوئی خیانت نہیں کی اور اگر وہ اسے ٹوٹا ہوا یا کھُلا ہوا پاتا تو خیال کرتا کہ اُس کی بیوی نے اس کی غیر حاضری میں بدکاری کا ارتکاب کیا ہے، اس دھاگے کو ’’الرتم‘‘ کہا جاتا۔۷
اگر ہم انسانی تاریخ میں تہذیب کے آثار کا پتہ چلائیں تو ہمیں اس کا سب سے پہلا قدیم نشان یونان میں ملتا ہے، انہوں نے دنیا میں انصاف اور انسانی حقوق کے دعوے کئے اور علوم و فنون میں ترقی کی بقول ڈاکٹر خالد علوی:مسلمان علمائے معاشرت نے اسلام سے پہلے کے معاشرتی حالات کو یونان سے شروع کیا ہے، کیونکہ یونان علم و تمدن کی دنیا میں امام کے فرائض انجام دے چکا ہے، بیشتر علمی، سیاسی، معاشرتی، تعلیمی اور فلسفیانہ نظریات کی نسبت یونان کی طرف کی جاتی ہے یونان نے سیاسی اور معاشرتی استحکام کی بنیاد ڈالی۔۸
مگر اس ترقی اور ان دعو ؤں کے باوجود عورت کا مقام کوئی عزت افزا نہیں تھا، ان کی نگاہ میں عورت ایک ادنی درجہ کی مخلوق تھی اور عزت کا مقام صرف مرد کے لیے مخصوص تھا، سقراط جو اس دور کا فلسفی تھا اس کے الفاظ میں:”عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں وہ دفلی کا درخت ہے کہ بظاہر بہت خوب صورت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر چڑیا اُس کو کھا لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے“۔۹
اگرچہ یونانی فلاسفروں نے مردو عورت کی مساوات کا دعوٰی بھی کیا تھا لیکن یہ محض زبانی تعلیم تھی۔ اخلاقی بنیادوں پر عورت کی حیثیت بے بس غلام کی سی تھی اور مرد کو اس معاشرے میں ہر اعتبار سے فوقیت حاصل تھی۔عام طور پر یونانیوں کے نزدیک عورت گھر اور گھر کے اسباب کی حفاظت کے لیے ایک غلام کی حیثیت رکھتی تھی اس میں اور اس کے شوہر کے غلاموں میں بہت کم فرق تھا وہ اپنی مرضی کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتی تھی، بلکہ اس کے مشورے کے بغیر لوگ اس کا نکاح کر دیتے تھے، وہ خود بمشکل طلاق لے سکتی تھی، لیکن اگر اس سے اولاد نہ ہو یا شوہر کی نگاہوں میں غیر پسندیدہ ہو تو اس کو طلاق دے سکتا تھا۔ مرد اپنی زندگی میں جس دوست کو چاہتا، وصیت میں اپنی عورت نذر کر سکتا تھا، اور عورت کو اس کی وصیت کی تعمیل مکمل طور پر کرنا پڑتی تھی، عورت کو خود کسی چیز کے فروخت کرنے کا اختیار نہ تھا ۔غرض وہاں عورت کو شیطان سے بھی بدتر سمجھا جاتا تھا، لڑکے کی پیدائش پر خوشی اور لڑکی کی پیدائش پر غم کیا جاتا تھا۔ ۱۰
عبدالقیوم ندوی لکھتے ہیں:
رومی، عورت کو شوہر کی ملکیت قرار دیتے تھے اور منجملہ جائیداد منقولہ میں اسے بھی شمار کرتے تھے“۔ ۱۱
ایرانی معاشرے میں عورت کی کوئی حیثیت نہ تھی اور اگر کسی درجے پر اُسے اہمیت دی بھی جاتی تو ایک غلام کی سی اہمیت مل پاتی۔ قانون میں بیوی اور غلام کی حالت ایک دوسرے سے مشابہ تھی۔۱۲
یہودیت میں عورت کی حیثیت:ہنود و یہود کی تاریخ ہو کہ عیسائیت کی مہذب و متمدن دنیا، قبل از اسلام مذاہب عالم کے مصلحین نے عورت کی عظمت و رفعت اور قدر و منزلت سے ہمیشہ انکار کیا، اور ایک اکثریت کے نزدیک عورت کو بے زبان و پا لتوجانور ہی سمجھا گیا ہے۔یہودیت میں عورت کو حقوق ملنے کی بات تو ایک طرف رہی، اُسے تمام گناہوں کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔
موجودہ عیسائیت میں عورت کی حیثیت کچھ یوں ہے کہ کرائی سو سسٹم (Chrysostom) جو مسیحیت کے اولیاء کبار میں شمار ہوتا ہے عورت کے بارے میں کہتا ہے۔ایک ناگزیر برائی، ایک پیدائشی وسوسہ، ایک مرغوب آفت، ایک خانگی خطرہ، ایک غارت گرد سربائی، ایک آراستہ مصیبت۔ ۱۳
ہندو مت اپنے قدیم تمدن پر نازاں ہندوستان، کے مذہب ہندومت نے بھی عورت کی حیثیت پامال کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔ اگرچہ وید میں عورتوں کی تعظیم کا تذکرہ ملتا ہے لیکن وہاں بھی اطاعت شوہر فرض ہے۔ہندو ایک طرف تو وحدۃ الازواج کے قائل ہیں لیکن جب بیوی سے کوئی بیٹا نہ ہو رہا ہو تو مذکورہ بالا قانون کو توڑتے ہوئے کئی کئی شادیاں کرتے ہیں تاکہ بیٹا پیدا ہو۔
منوسمرتی میں بھی عورت کو مرد کے خوش کرنے کا فریضہ سونپا گیا ہے۔ لکھا ہے:
”اگر عورت خاوند کو خوش نہیں رکھتی اور اس کی حسرت ی تدبیر نہیں کرتی تو اس کی ناخوشی کی وجہ سے سلسلہ نسل آگے نہیں چل سکتا” اور لکھاہے ” رات دن عورت کو پتی کے ذریعے بے اختیار رکھنا چاہیے ۔ لڑکپن میں باپ اور جوانی میں شوہر اور بڑھاپے میں بیٹا عورتوں کی حفاظت کریں کیونکہ عورتیں خود مختار نہیں ہوسکتیں۔ ۱۴
دین اسلام اور عورت
دین اسلام خاتون کو انسان ہونے کے اعتبار سے تمام انسانی حقوق میں مساوات دیتا ہے اور عورت کی اہمیت کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مسجد میں تشریف فرما ہوتے اور حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا تشریف لاتیں تو آپ کھڑے ہو کر استقبال کرتے اور منبر پر اپنے ساتھ بٹھاتے۔۱۵
دین مقدس اسلام نے عورت کو محرومیت اور ظلم و زیادتی سے نجات دلائی اور بحیثیت انسان اسے مرد کے برابر درجہ عطا کیا ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا
ترجمہ:اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی“ ۔ ۱۶
آیت مبارکہ سے واضح ہے کہ اللہ نے مرد اور عورت دونوں کو مساوی اکرام و احترام دیا ہے کیونکہ ” بنی آدم” میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں ۔ ان میں کوئی فرق نہیں کیا گیا ، ہاں یہ کہا گیا ہے کہ دونوں کو باقی تمام مخلوقات پر فضیلت دی اور انسانوں میں آپس کی فضیلت کا معیار مرد یا عورت ہونے پر نہیں بلکہ عملی معیار ہے اور وہ ہے تقوی ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِير۔
ترجمہ:لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے“۔ ۱۷
تو جو اسلام کی تعلیمات پر عمل کرے گا وہی سب سے زیادہ قابل عزت ہے۔ تو اسلامی معاشرے میں یہی معیارِ قدر و عزت ہے۔ اس میں مرد ہونے اور عورت ہونے کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزَى إِلَّا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ۔
ترجمہ:جو برے کام کرے گا اس کو بدلہ بھی ویسا ہی ملے گا۔ اور جو نیک کام کرے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہوگا تو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہوں گے وہاں ان کو بےشمار رزق ملے گا“۔۱۸
یہی معیار ذات فاطمہ سلام اللہ علیہا میں نظر آتا ہے کہ جب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی رخصتی کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام علی علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ نے میری بیٹی فاطمہ س کو کیسا پایا؟
تو امام علی علیہ السلام نے جواب دیا کہ "نعم العون علی طاعة الله”
یعنی کہ اللہ کی اطاعت میں بہترین مددگار پایا۔۱۹
اسلام نے عورت کو ذلت اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا اور ظلم و استحصال سے نجات دلائی اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے وقار کے منافی تھیں اور اسے بے شمار حقوق عطا کئے ۔جن کا ہم اختصار کےساتھ یہاں ذکر کرتے ہیں۔
حقوق
۱۔معاشرے میں عورت کی عزت و احترام کو برقرار رکھنے کے لیے خاتون کو عفت و پاکیزگی کا حق عنایت فرمایا جیسا کہ قرآن کریم میں ذکر ہے کہ
قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہمْ وَیحْفَظُوا فُرُوجَہمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَہمْ إِنَّ اللَّہ خَبِیرٌ بِمَا یصْنَعُونَ۔
اے رسول مکرم!مومنوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے پاکیزگی کا موجب ہے۔ اللہ اس سے واقف ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ ۲۰
۲۔عورت کی عزت و پاکیزگی اس کے رازدار ہونے پر موقوف ہے اس حوالے خاتون اور دیگر افراد کو راز داری کی تاکید فرمائی جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
یا أَیہا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیوتًا غَیرَ بُیوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَہلِہا ذَلِكُمْ خَیرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ۔ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِیہا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوہا حَتَّى یؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِیلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ہوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّہ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیم ۔
ترجمہ:’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو جب تک (اس امر کی) اجازت نہ لے لو اور اہلِ خانہ پر سلام کہو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم ان باتوں سے نصیحت حاصل کرو، اور اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو ان میں داخل نہ ہو، جب تک تمہیں (اندر جانے کی) اجازت نہ ملے اور اگر تم سے لوٹ جانے کو کہا جائے تو لوٹ جاؤ۔ یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے خوب واقف ہے“۔ ۲۱
۳۔علم ایک ایسا حق ہے جس میں مرد و زن تمام کو تاکید فرمائی گئی کہ علم کا حصول لازمی ہے۔معاشرتی ارتقاء کے لیے جہاں مرد کا صاحب علم ہونا لازمی ہے وہاں خاتون کا علم حاصل کرنا ازحد ضروری ہے۔مرد کا تعلیم یافتہ ہونا فقط اس تک محدود ہوتا ہے جبکہ خاتون اس سلسلے کو نسلوں تک منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اس لیے فرمان رسول ﷺہے :”طلب العلم فریضة علی کل مسلم۔”
’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔‘‘ ۲۲
۴۔ملکیت اور جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے بھی عورت کو محروم نہ رکھا گیا بلکہاسلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی حق ملکیت عطا کیا۔
ارشاد ربانی ہے:
"لِّلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ. "
ترجمہ:مردوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا، اور عورتوں کے لیے اس میں سے حصہ ہے جو انہوں نے کمایا۔ ۲۳‘‘
سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 26 کے ذیل میں واٰت ذالقربی حقہکے ذیل میں مفسر قرآن الشیخ محسن علی نجفی دام ظلہ نے ایک واقعہ درج فرمایا ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے ایک شامی سے پوچھا: کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟ اس نے کہا: ہاں
فرمایا: کیا تم نے سورہ بنی اسرائیل میں یہ آیت پڑھی ہے: وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ۔۔۔۔
اس نے کہا: کیا ذَاالۡقُرۡبٰی سے آپ لوگ مراد ہیں جن کا حق دینے کا اللہ نے حکم کیا ہے۔فرمایا: ہاں۔
حدیث ہے؛لما نزلت ھذہ الایۃ وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ دعا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم فاطمۃ فاعطاھا فدک۔جب آیت وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ (س) کو بلایا اور انہیں فدک عنایت فرمایا۔
اس حدیث کو ابن عباس، ابو سعید خدری اور خود حضرت علی علیہ السلام نے روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو مجمع الزوائد حدیث ۴۹۷۔ میزان الاعتدال ۲: ۲۲۸۔ منتخب کنزالعمال۔ شواھد التنزیل ۱: ۴۴۲۔ الدرالمنثور ذیل آیت۔
علی بن طاؤس سعد السعود صفحہ ۱۰۲ میں لکھتے ہیں : محمد بن العباس، جو ابن الحجام مشہور ہیں ، نے حدیث فدک کو بیس (۲۰) طرق سے روایت کیا ہے۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو: سید مرتضیٰ علم الہدیٰ کی کتاب الشافی۔ بحارالانوار ۲۹:۲۰۵۔ سیرت امیر المؤمنین (ع) اور الغدیر۷: ۱۹۰۔ ۸:۱۳۷۔ ۲۴
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے میراث کے عنوان پر ایک طویل گفتگو خطبہ فدک میں فرمائی یہ اپنی نوعیت کا پہلا مدلل احتجاج تھا جو حاکم وقت کے سامنے کیا گیا اور جناب سیدہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حاکم وقت کو اسلام کی اصلی و حقیقی تعلیمات سے روگردانی سے منع فرماتے ہوئے میراث النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور خود اپنے وارثِ پیغمبر ہونے پر ادلہ کیساتھ گفتگو فرمائی۔
۵۔اسلام نے عورت کو ملکیت کا حق عطا کیا۔ عورت کے حق ملکیت میں جہیز اور مہر کا حق بھی شامل ہے۔ قرآن حکیم نے مردوں کو نہ صرف عورت کی ضروریات کا کفیل بنایا بلکہ اُنہیں تلقین کی کہ اگر وہ مہر کی شکل میں مال بھی دے چکے ہوں تو واپس نہ لیں، کیونکہ وہ عورت کی ملکیت بن چکا ہے:
وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَیتُمْ إِحْدَاہنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہ شَیئًا أَتَأْخُذُونَہ بُہتَاناً وَإِثْماً مُّبِینا۔ً
ترجمہ:اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم بہتان تراشی کے ذریعے اور کھلا گناہ کر کے وہ مال واپس لو گے۔ ۲۵
لاَّ جُنَاحَ عَلَیكُمْ إِن طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوہنُّ أَوْ تَفْرِضُواْ لَہنَّ فَرِیضَةً وَمَتِّعُوہنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُہ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُہ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِینَ۔
ترجمہ:تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نے (اپنی منکوحہ) عورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں (ایسی صورت میں) مناسب خرچہ دے دو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگدست پر اس کی حیثیت کے مطابق (بہرطور) یہ خرچ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہے۔ ۲۶
۶۔ مرد پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ خاتون کو حقوق زوجیت ادا کرنے سے دریغ نہ کرے۔ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ اگر خاوند بیوی کو دق کرنا چاہتا تو قسم کھا لیتا کہ میں بیوی سے مقاربت نہیں کروں گا اسے اصطلاح میں ایلاء کہتے ہیں۔ اس طرح عورت معلقہ ہو کر رہ جاتی ہے، نہ مطلقہ نہ بیوہ (کہ اور شادی ہی کر سکے) اور نہ شوہر والی۔ کیونکہ شوہر نے اس سے قطع تعلق کر لیا ہے۔ یہ رویہ درست نہیں کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے حلال ٹھہرائی ہے، انسان کا کوئی حق نہیں کہ اسے اپنے اُوپر حرام قرار دے لے۔ قرآن کہتا ہے:
لِّلَّذِینَ یؤْلُونَ مِن نِّسَآئِہمْ تَرَبُّصُ أَرْبَعَةِ أَشْہرٍ فَإِنْ فَآؤُوا فَإِنَّ اللّہ غَفُورٌ رَّحِیمٌ۔
ترجمہ:جو لوگ اپنی بیویوں کے قریب نہ جانے کی قسم کھالیں تو ان کے لیے چار ماہ کی مہلت ہے۔ پھر اگر وہ اس مدت کے اندر رجوع کر لیں اور آپس میں ملاپ کر لیں تو اللہ رحمت سے بخشنے والا ہے“۔۲۷
۷۔شوہر کو اپنی زوجہ کی تمام ضروریات مثلاً خوراک، سکونت، لباس، زیورات وغیرہ کا کفیل بنایا گیا ہے
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّہ بَعْضَہمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْو آلہمْ۔
ترجمہ:مرد عورتوں پر محافظ و منتظم ہیں اس لیے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، اور اس وجہ سے (بھی) کہ مرد (ان پر) اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔۲۸
اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَاۗرُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ ۭ وَاِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَيْهِنَّ حَتّٰى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ ۚ وَاْتَمِرُوْا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ ۚ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهٗٓ اُخْرٰى ليُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ ۭ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ ۭ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰىهَا ۭ سَيَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا 
ترجمہ:تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانہ) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گیo صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت (کے لحاظ) سے خرچ کرنا چاہیے، اور جس شخص پر اُس کا رِزق تنگ کر دیا گیا ہو تو وہ اُسی (روزی) میں سے (بطورِ نفقہ) خرچ کرے جو اُسے اللہ نے عطا فرمائی ہے۔ اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں ٹھہراتا مگر اسی قدر جتنا کہ اُس نے اسے عطا فرما رکھا ہے، اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشائش پیدا فرما دے گا“۔ ۲۹
حضرت فاطمۃ الزھراء سلام اللہ علیہا وہ عظیم ذات کہ جو اپنے شوہر کیساتھ ہر میدان میں صف اول میں نظر آتی ہیں۔ فتح خیبر کے بعد جب فاتح خیبر گھر کو پلٹے تو ملنے والا مال غنیمت راستے میں یتیموں ،ناداروں اور ضرورت مندوں میں تقسیم فرما دیا تو جب گھر آئے اور سیدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کو علم ہوا تو آپ نے سجدہ شکر فرمایا:حضرت زہراءسلام اللہ علیہا اپنے شوہر یعنی کفیل کے لیے راہ خدا میں بہترین مددگار رہیں۔
میراث
میراث کے عنوان سے دین اسلام نے خاتون کو مکمل حقوق فراہم کئے اس حوالے سے سورۃ النساء میں ارشاد فرمایا۔
یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗۤ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ اِخۡوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ لَا تَدۡرُوۡنَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ لَکُمۡ نَفۡعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۱۱﴾
۱۱۔ اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے، پس اگر لڑکیاں دو سے زائد ہوں تو ترکے کا دو تہائی ان کا حق ہے اور اگر صرف ایک لڑکی ہے تو نصف (ترکہ) اس کا ہے اور میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر میت کی اولاد نہ ہو بلکہ صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا، پس اگر میت کے بھائی ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور اس کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی، تمہیں نہیں معلوم تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں فائدے کے حوالے سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے، یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں، یقینا اللہ بڑا جاننے والا، باحکمت ہے۔ ۳۰
اسلام نے میراث کے لیے بنیادی طو رپر دو سبب متعین کیے ہیں : نسب و سبب۔ سبب کی دو قسمیں ہیں: زوجیت اور ولاء ۔ نسب کے تین طبقے ہیں: پہلا طبقہ اولاد اور والدین، دوسرا طبقہ اجداد اور بہن بھائی یا ان کی اولاد، تیسرا طبقہ چچا ، پھوپی، ماموں، خالہ اور ان کی اولاد ہیں۔
اس آیت میں طبقۂ اول کی میراث کا حکم بیان ہوا ہے اور ان میں سے یہاں دو اختلافی مسائل کا مختصر بیان مناسب ہے۔ عول: کبھی میراث کے کل حصے ترکے سے زیادہ ہو جاتے ہیں، مثلاً مرنے والے کے پسماندگان میں دو لڑکیاں والدین اور شوہر ہوں تو حصے 6؍2، 3؍2، 4؍1 بنتےہیں جو اصل ترکے سے زیادہ ہیں۔ اہل سنت میں مشہور یہ ہے کہ سب کے حصوں سے کم کیا جائے۔ اسے عول کہتے ہیں جو حضرت عمر نے اپنے ایام خلافت میں رائج کیا۔ (مستدرک حاکم 340) امامیہ کے نزدیک یہ کمی بہنوں اور بیٹیوں پر آئے گی۔ تعصیب: کبھی میراث کے کل حصے اصل ترکے سے کم ہو جاتے ہیں اور ترکہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً مرنے والے کے پسماندگان میں ایک لڑکی ماں اور چچا ہیں تو نصف لڑکی کا، 6؍1 حصہماںکا۔امامیہ کے نزدیک یہ زیادہ ان کی طرف رد کیا جائے گا جن پر پہلی صورت میں کمی آئی تھی۔ یعنی بہنوں اوربیٹیوں کو دیا جائے گا۔ جبکہ اہل سنت اس زیادہ کو طبقہ دوم کے وارثین میں تقسیم کرتے ہیں۔ فقہی اصطلاح میں اسے تعصیب کہتے ہیں۔
اس آیت کی عمومیت میں نبی، غیر نبی سب شامل ہیں۔ یہاں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی بات بالاجماع ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اپنے پدر بزرگوار کی میراث کا مطالبہ کیا اور اس مطالبے کے مسترد ہونے پر ناراض رہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ (26: 214) کے تحت رسول کریمؐ پر واجب ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو احکام کی تبلیغ و انذار کریں۔ لہٰذا اگر حضرت زہراء (س) کو وراثت میں کچھ بھی نہیں ملنا تھا تو رسول اللہ ؐنے یہ حکم حضرت زہراء (س) کو بتایا ہو گا۔ اس کے باوجود حضرت زہراء (س) نے میراث کا مطالبہ کیا ہے تو اس سے حکم رسولؐ کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔ چونکہ حضرت زہراء سے حکم رسولؐ کی خلاف ورزی ممکن نہیں ہے لہٰذا جناب سیدہ کا مطالبہ حق بجانب ثابت ہوتا ہے۔
میراث کی تقسیم مرد و زن کی قدر و قیمت کے مطابق نہیں، بلکہ عائلی نظام میں حاصل مقام کے مطابق ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر مرنے والے نے اپنے پیچھے ایک بیٹی اور باپ چھوڑا ہے تو بیٹی (عورت) کو باپ (مرد) سے زیادہ حصہ ملے گا۔ اگر مرنے والے کے پسماندگان میں بیٹا اور والدین ہیں تو باپ (مرد ) اور ماں (عورت ) کو برابر حصہ ملے گا ۔ ۳۱
میراث کے باب میں حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کا تقاضا اور خطبہ فدک کا اجراء انتہائی اہم اقدام رہا اس خطبے کا ایک حصہ جو میراث کے حوالے سے تھا ہم یہاں ذکر کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔سیدہ سلام اللہ علیہا نے ایک جملے میں مکمل حقوق نسواں کا اظہار فرمایا جو انسانی ضمیر جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہو گا۔آپ سلام اللہ علیہا نے فرمایا۔
اَنْتُمُ الانَ تَزْعُمُونَ اَنْ لااِرْثَ لَنا أَفَحُكْمَ الْجاهِلِیةِ تَبْغُونَ، وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْماً لِقَومٍ یوقِنُونَ، أَفَلاتَعْلَمُونَ  بَلی، قَدْ تَجَلَّی لَكُمْ كَالشَّمْسِ الضَّاحِیةِ أَنّی اِبْنَتُهُ.
۔ كیا تم یہ عقیدہ ركھتے ہو كہ ہم پیغمبرؐ سے میراث نہیں لے سكتے، كیا تم جاہلیت كے قوانین كى طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانكہ اسلام كے قانون تمام قوانین سے بہتر ہیں، كیا تمہیں علم نہیں كہ میں رسول خداؐ كى بیٹى ہوں كیوں نہیں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب كى طرح یہ روشن ہے۔ ۳۲
یعنی میراث بیٹی کا حق ہے اور یہ دین اسلام کی بدولت حق قرار پایا ہے جبکہ قبل از اسلام زمانہ جاہلیت میں عورت کو اس کا حق نہیں دیا جاتا تھا۔
ایک مثالی بیٹی، نمونہ عمل بیوی اور بہترین ماں ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی عبادت کی ایسی عظمت و رفعت تھی کہ ملائکہ بھی آپ پر درود و سلام بھیجتے تھے۔بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اہل مدینہ رات کے وقت حضرت امام علیؑ کے گھر سے ایک نور کو بلند ہوتے دیکھتے تھے، انہوں نے اس نور کے بارے میں پیغمبرِ اکرمﷺ سے استفسار کیا تو پیغمبرﷺ نے فرمایاکہ جب میری بیٹی فاطمہؑ محرابِ عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو ہزاروں فرشتے اس پر درودو سلام بھیجتے ہیں اوراسے عالمین کی عورتوں کی سردار کے لقب سے پکارتے ہیں۔ ۳۳
اسی طرح ایک اور حدیث ہے کہ جب بی بی دو عالم محرابِ عبادت میں کھڑی ہوجاتی تھیں تو وہ مقام آسمان پر ملائکہ ؑ کے لئے ایک ستارے کی مانند چمکنے لگتا تھا، اور خدا فرشتوں سے فرماتا تھا کہ اے فرشتو ! دیکھو میری بہترین کنیز فاطمہ ؑ میری عبادت کر رہی ہے۔وہ میری بارگاہ میں کھڑی ہیں اور میری ہیبت سے لرز رہی ہیں اور پورے خضوع و خشوع کے ساتھ میری عبادت میں مشغول ہیں۔۳۴
سیرت کی کتابوں کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ بی بی صرف ذکر و اذکار اور نماز و دعا میں مشغول نہیں رہتی تھیں بلکہ آپ عبادت کو قربِ الٰہی کا وسیلہ سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر مشکلات بھی عبادت کے ذریعے حل کرتی تھیں۔غرض کہ زندگانی کا ہر شعبہ و ہر میدان دیکھا جائے تو حضرت فاطمۃ الزھراء کی سیرت کو پائیں گے ایسی عالی سیرت کہ جس پر عمل پیرا ہو کر خواتین عالم اپنے کردار کو بلند ترین بنا سکتی ہیں
آج کے معاشرے کے ارتقاء میں مردوں کیساتھ ساتھ خواتین کو بھرپور انداز میں میدان میں اترنا ہے اورجب معاشرہ دوطرفہ انداز سے تربیت پائے گا تو ان شاءاللہ عزوجل اپنی انسانی و دینی اقدار میں ارتقاء حاصل کرے گا۔
منابع و مآخذ
۱۔نیشاپوری، الحاکم ، المستدرک جلد ۳، ص ۱۵۳
الجذری،ابن اثیر اسد الغابہ فی معرفة الصحابة ، جلد۵ ،ص ۵۲۷
الذھبی، حافظ، میزان الاعتدال جلد۲ ، ص ۷۲
۲۔المومن آیت 14
۳۔بحارالانوار جلد ۴۳، ص ۱۹
۴: النحل: ۵۹-۵۸
۵۔ صارم، عبدالصمد، مقالات صارم، حجازی پریس، لاہور، س۔ن، ص:۸۸
۶۔ القرآن ا، النساء:۱۲۹
۷۔ علی، خالد، ڈاکٹر، اسلام کا معاشرتی نظام، الفیصل ناشران، لاہور، ۲۰۰۱ء، ص:۴۶۱
۸۔ سعید، امر علی، عورت اسلا م کی نظر میں، آئینہ ادب، انار کلی، لاہور، ۱۹۷۶ء، ص:۲۹
۹۔ صارم عبدالصمد، مقالات صارم، حجازی پریس، لاہور، س۔ن ، ص:۸۵
۱۰۔ ایم عبدالرحمن، عورت انسانیت کے آئینے میں، ثناء اللہ خان، لاہور، ۱۹۵۷ء، ص:۸۸
۱۱۔ ندوی، عبدالقیوم، مولانا، اسلام اور عورت، البدر پبلی کیشنز، لاہور، ۱۹۸۳ء، ص:۲۵
۱۲۔ کرسٹن سین، آرتھر، پروفیسر، ایران بعہد ساسانیان، مترجم، ڈاکٹر محمد اقبال، انجمن ترقی اردو(ہند) دہلی،۱۹۴۱ئ، ص:۴۲۹
۱۳۔۔ عورت اسلامی معاشرہ میں ، ص:۲۷
۱۴۔ منوجی، مہاراج، منو سمرتی، ادھیائے۳، شلوک۶۱، بھائی تارا چند پبلشرز، لاہور، س۔ن، ص:۴۴
۱۵۔النسائی فی السنن الکبرٰی ، جلد ۵ ، ص ۳۹۲،۳۹۱
،۷۰۱۶۔القرآن الکریم:اسرا
۱۷۔القرآن الکریم:الحجرات:۱۳
۱۸۔القرآن الکریم:المومن:۴۰
۱۹۔بحارالانوار ،جلد ۴۳ ، ص ۱۱۷
۲۰۔ النور ، ۳۰
۲۱۔القرآن الکریم:النور:۲۷-۲۸
۲۲۔ ابن ماجہ، السنن، المقدمہ، باب فضل العلماء، 1: 81، رقم: 224 2
۲۳۔القرآن الکریم:النساء:۳۲
۲۴۔اسرا ، ۲۶ البلاغ القران
۲۵۔القرآن الکریم:النساء :۲۰
۲۶۔القرآن الکریم:البقرۃ:۲۳۶
۲۷۔القرآن الکریم:البقرۃ:۲۲۶
۲۸۔القرآن الکریم:النساء :۳۴
۲۹۔القرآن الکریم،الطلاق: ۶۔۷
۳۰۔القرآن الکریم،النساء، ۱۱
۳۱۔نجفی ، شیخ محسن علی ، تفسیر الکوثر ذیل النساء، ۱۱
۳۲۔شہیدی، زندگانی فاطمہؑ زہرا علیہا السلام، ص ۱۲۶-۱۳۵
۳۳۔در مكتب فاطمه ، ص ۱۷۱،
۳۴۔مجلسی ، باقر ، بحارالانوار، ج ۴۳، ص ۱۷۲

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button