سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

منزلت و عظمتِ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا اہلسنت کی روایات کی روشنی میں

مولانا نعیم عباس نجفی، حوزہ علمیہ نجف اشرف عراق
چکیدہ
اس مقالہ میں سیدہ فاطمہ زہرا ء سلام اللہ علیھا کی عظمت و منزلت کے بارے میں ان روایات کو بیان کیا گیا ہے جو روایات اہل سنت کے علماء نے اپنی کتب میں ذکر کی ہیں اس مختصر تحقیق میں جناب سیدہ فاطمہ زہرا ءسلام اللہ علیہا کی عظمت اور منزلت کے متعلق احادیث اور مفکرین کی آراء کو نقل کیا گیا ہے اور ان روایات کو بیان کیا گیا ہے جن میں نبی کریم نے فرمایا کہ فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے جس نے فاطمہ کو خوش کیا اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے فاطمہ کو غمگین کیا اس نے مجھے غمگین کیا اور آپ نے فرمایا فاطمہ زہرا ء پوری کائنات کی عورتوں کی سردار ہیں جناب سیدہ زہرا ءسیرت اور گفتار میں اپنے والدگرامی کے مشابہ تھیں اگرچہ ان کے علاوہ بھی کافی تعداد میں روایات ہیں جن روایات میں جناب سیدہ کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے تاہم ان تمام روایات کو یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ۔یہ مقالہ برادران اہلسنت کی عقیدت مندانہ کاوشوں کو سرہانے کے لیے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
کلیدی کلمات: منزلت، فاطمہؑ، اہلسنت،مفکرین، روایات
مقدمہ
تاریخ بشریت کے آغاز سے ہی عورت کا ایک اہم کردار پایا جاتا ہے اوریہ ہر دور ہر زمانے کے ایک غیر معمولی کردار کا حصہ رہی ہے جبکہ زمانے میں بسنے والوں نے اپنی اپنی فکر اور تربیت کے مطابق کبھی تو اسے عزت سے نوازا اور کچھ ادوار میں یہ انتہائی ذلت آمیز حیات سے وابستہ رہی بالخصوص جب اسلام کا شجر مکہ کی سرزمین میں پیوست ہوا اس سے قبل عربوں کی تاریخ عورت پر ظلم و ستم سے لبریز نظر آتی ہے انسان یہ جان کر حیران رہ جاتا ہے کہ اس دور کے سفاک انسان اپنی ہی اولاد کو ننگ و عار سمجھتے ہوئے زندہ در گور کر دیا کرتے تھے ۔ سرور دوجہاں رسول اکرم ﷺ کے لئے کس قدر دشوار تھا ایسے لوگوں کو بیٹی کی تعظیم سکھانا جنکا کردار فرعون کے برعکس تھا کیونکہ وہ بیٹیوں کو زندہ رکھتا اور بیٹوں کو ذبح کر دیا کرتا تھا اور عرب بیٹوں کو شان و شوکت کی علامت سمجھ کر عزت دیتے تھے اور بیٹیوں کو معاشرے میں ذلت سے بچنے کے لئے دفن کر دیتے تھے ایسے غیرمہذب معاشرے کو عورت کی عزت کی تعلیم دینا خود ایک معجزہ سے کم نہیں تھا جس طرح ان سے تین سو ساٹھ بتوں کی پرستش چھڑوانا آسان تھا مگر ایک غیرمرئی خدا کی عبادت کروانا مشکل تھا اسی طرح شاید بیٹیوں کو زندہ دفن ہونے سے بچانا آسان تھا مگر ان کے سامنے بیٹی کے احترام میں کھڑا ہونا مشکل تھا لیکن آپ کی حسن ِتربیت کا کمال یہ ہےکہ اس بے ضمیر معاشرہ میں اپنی بیٹی سیدہ فاطمہسلام اللہ علیھا کے استقبال کرنے انکے ہاتھ چومنے اور انکو اپنی جگہ پر بٹھانے کے عمل نے عربوںکےمردہ ضمیر میں ایک نئی روح پھونک دی اب اسلام کی بدولت عورت کو عزت ملی ،وقار ملا اور جن حقوق کی مستحق تھی وہ حقوق بھی ملےلہذا قیامت تک کی صنف نسوانیت جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی مقروض ہے جن کے وسیلہ سے انہیں یہ عزت و مقام عطا ہوا ۔
اہل اسلام نے اسی مقام و منزلت کے سبب جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی عظمت پر مستقل کتب لکھی ہیں اور ان میں آپکی عظمت کے متعلق احادیث کو درج کیا یہ مختصر مقالہ ان ذخیرہ احادیث میں سے چندمنتخب احادیث اور انکے متعلق علماء کی آراء پر مشتمل ہے جو اہل سنت علماء نے اپنی کتب میں درج کیں ۔یہاں ان احادیث کا احاطہ مطلوب نہیں اورنہ ہی اس مختصر مقالہ میں یکجا کرنا ممکن ہے بلکہ یہاں چند احادیث اور ان پر استدلال پیش کرکےاہل سنت کی روایات کی روشنی میں جناب سیدہؑ کی عظمت و منزلت کا ایک نمونہ پیش کرنا ہے ۔
مفھوم جزئیت اور تعظیم سیدہ فاطمہ ؑ
سب سے پہلے نہایت مشہور حدیث کا ذکر کر رہا ہوں جو متفق علیہ ہے البتہ اسکے صدر وذیل کے الفاظ مختلف آئے اسکے باوجود مفہوم و معنی میں یکسانیت پائی جاتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حدیث نبی کریم ﷺ نے متعدد موقع پر ارشاد فرمائی ہے ۔ چند متون پیش خدمت ہیں :
”عن مسور بن مخرمۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام قال فاطمۃ بضعۃ منہ فمناغضبھااغضبنی“
بیشک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے لہذاجس نے اسے غضبناک کیا ہے اس نے مجھے غضبناک کیا(1)
”فاطمہ بضعۃ منی یقبضنی ما یقبضھاو یبسطنی ما یبسطھا و ان الانساب تنقطع یوم القیامۃ غیر نسبی “
فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے جو بات انہیں کبیدہ خاطر کرتی ہے وہ مجھے بھی کبیدہ خاطر کرتی ہے اور جو بات انہیں خوش کرتی ہے وہ مجھے بھی خوش کرتی ہے اور بیشک قیامت کے دن میرے نسب کے علاوہ تمام نسب منقطع ہوجائیں گے۔ (2)
”فَإِنَّھا بَضْعَةٌ مِنِّی، يُرِيبُنِی مَا أَرَابَهَا وَ يُؤْذِينِی مَا آذَاهَا“
میری بیٹی میرا ٹکڑا ہے برا لگتا ہے مجھے جواسے برا لگے اور ایذا ہوتی ہے مجھ کو جس سے اسکو ایذا ہوا(ترجمہ وحید الزمان )(3)
”انما فاطمۃ شجنۃ منی یبسطنی ما یبسطھا و یقبضنی ما یقبضھا “
فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے جو بات انہیں کبیدہ خاطر کرتی ہے وہ مجھے بھی کبیدہ خاطر کرتی ہے اور جو بات انہیں خوش کرتی ہے وہ مجھے بھی خوش کرتی ہے(4)
”انما فاطمۃ مضغۃ منی فمن اذاھا فقد اذانی “
حضرت ابو حنظلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے جس شخص نے اسے اذیت دی اس نے مجھے اذیت پہنچائی (5)
”انما فاطمۃ بضعۃ منی یؤذینی ما اذاھا و ینصبنی ما انصبھا “
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:فاطمہؑ میرے جسم کا حصہ ہے اُس نے مجھے تکلیف پہنچائی جس نے اسکو تکلیف دی اور اس نے مجھے اذیت پہنچائی جس نے اسے اذیت دی (6)
ان مذکورہ بالا احادیث کے صدر میں درج ذیل کلمات آئے ہیں ؛
1. انما فاطمۃ بضعۃ منی
2. انما فاطمۃ مضغۃ منی
3. انما فاطمہ شجنۃ منی
اور ذیل میں بھی کلمات (اغضنبی ،اذانی، يُرِيبُنِی،یقبضنی،یبسطنی، ینصبنی) کی صورت میں بدلتے رہے ہیں لیکن ان میں تقریبا مفہوم کے لحاظ سے یکسانیت پائی جاتی ہے ۔
یہ حدیث سن کر اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں ایسی کونسی فضیلت ہے ہر اولاد اپنے والدین کا جزءہوتی ہے لیکن وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہعام والدین کا جزء ہونا اور سید الانبیاء ﷺکی ہستی کا جزء ہونا دونوں میں بہت فرق پایا جاتا ہے اور اس حقیقت کو علماء اہل سنت نے بہت بہترین انداز میں بیان کیا ہے کہ سرور کائنات ﷺ کی ذات اقدس سے نسبت اوج وکمال تک پہنچا دیتی ہے حتی کہ وہ اشیاء جو ذات پیغمبرﷺ سے متصل نہیں بلکہ منفصل ہیں مگر انکے وجود اقدس سے نسبت کے سبب ان کا شان بہت بلند ہے ۔
کچھ عبارات آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں اس کے بعد ایک نتیجہ لیں گے تاکہ جزئیت کا مفہوم اور عظمت واضح ہو جائے ۔
قاضی عیاض الشفاء میں لکھتے ہیں : وَلَا خِلَافَ أَنَّ مَوْضِعَ قَبْرِهِ أَفْضَلُ بِقَاعِ الْأَرْضِ
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ رسول اللہﷺ کی قبر کا مقام روئے زمین سے افضل ہے (7)
دیگر علماء کرام نے لکھا:وأجمعوا على أن الموضع الذي ضمَّ أعضاءه الشريفة -صلى الله عليه وسلم- أفضل بقاع الأرض، حتى موضع الكعبة
اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ وہ جگہ جس سے مصطفی ﷺ کا مقدس و مشرف جسم متصل ہے مطلقا روئے زمین کے تمام مقامات سے افضل ہے حتی کہ کعبہ معظمہ سے بھی (8)
حافظ ابن قیم جوزی حنبلی لکھتے ہیں:قال ابن عقیل سالنی سائل :ایما افضل حجرۃ النبی او الکعبۃ ؟فقلت ان اردت مجر د الحجرۃ فالکعبۃ افضل و ان اردت و ھو فیھا فلا واللہ ،والا العرش وحملتہ ،ولا جنۃ عدن ولا الافلاک الدائرۃ لان بالحجرۃ جسدا لو وزن بالکونین لرجح
ابن عقیل حنبلی فرماتے ہیں مجھ سے بعض سائلین نے دریافت کیا کہ حجرہ نبوی افضل ہے یا کعبہ معظمہ ؟ تو میں نے جواب دیا اگر تمھاری مراد خالی حجرہ ہے تو کعبہ افضل ہے اور اگر تمہاری مراد اس میں مقیم سے ہے تو خدا کی قسم پھر کعبہ افضل نہیں اور نہ ہی عرش اور اسکے حاملین نہ جنت عدن اور نہ تمام محیط افلاک ،اس لئے کہ حجرہ مقدسہ جسد اطہر سے متصل ہے اگر کونین کے ساتھ اس کا تقابل کیا جائے توبھی وہ افضل ہو گا (9)
علاء الدین حصکفی لکھتے ہیں :ما ضم اعضائہ علیہ الصلاۃ والسلام فانہ افضل مطلقا حتی من الکعبۃ والعرش والکرسی
جس مقام کیساتھ جسدمصطفیﷺ متصل ہے وہ مطلقا افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ ،عرش اور کرسی سے بھی (10)
امام سہیلی نے اسی حدیث سے جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی افضیلت کا استدلال کیا اور فرمایا کہ ابوبکر بن داؤد سے سوال کیا گیا :
فمن افضل اخدیجۃ ام فاطمۃ ؟ فقال ان رسول اللہ ﷺ قال ان فاطمۃ بضعۃ منی ،فلا اعدل ببضعۃ رسول اللہ احدا و ھذا استقراء حسن
پھر کون افضل ہے سیدہ خدیجہؑ یا سیدہ فاطمہؑ ؟تو انہوں نے جواب دیا بلاشبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یقینا فاطمہ ؑمیرے جسم کا حصہ ہے لہذا ہم رسول اللہﷺ کے جسم کے حصہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے اور یہ بہترین نتیجہ ہے (11)
اسی حدیث سے استدلال کرتے ہوئے قاضی ثناء اللہ رقمطراز ہیں :یقتضی فضل فاطمۃ علی جمیع الرجال والنساء کما قال مالک لا نعدل ببضعۃ رسول اللہﷺ احدا
یہ حدیث تمام مردوں اور عورتوں پر جناب سیدہ فاطمہ ؑ کی فضیلت کا تقاضا کرتی ہے جیسا کہ امام مالک کا قول ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے جسم اقدس کے حصہ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے (12)
شیخ محمود مصری نے اپنی کتاب میں گیارھواں قول درج کرتے ہوئے اسی حدیث سے استدلال پیش کیا اور اسکے آغاز میں لکھا کہ “بعض حضرات نے سیدہ فاطمہرضی اللہ عنھا بنت نبی ﷺ کو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر فضیلت دی ہے کیونکہ وہ نبی صلوات اللہ علیہ کے جسم اقدس کا حصہ ہیں ”(13)
نیز علامہ سید احمد حسن سنبھلی اپنی کتاب اللطائف الاحمدیہ فی المناقب الفاطمیہ میں اسی حدیث کے متعلق لکھتے ہیں “حضور نے فرمایا کہ فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے پس جس نے اسکو غصہ دلایا اسنے مجھے غصہ دلایا (اسکو بخاری نے صحیح سند سے روایت کیا ہے غرض یہ ہے کہ کوئی شخص ایسی بات کہے جس سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کو غصہ آوے تو یہ امر حضور کی طرف راجع ہو گا گویا کہ اس نے حضور ؐ کو غصے میں ڈالا امام سبکی ؒ نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ جو حضرت فاطمہ کو برا کہے وہ کافر ہے اسلئے کہ انکا برا کہنا بوجہ اتحاد گویا حضورؐ کو برا کہنا ہے )” (14)
ان سابقہ عبارات سے واضح ہو گیا کہ کوئی شے نبی کریم ﷺ کی ذات کا حصہ تو نہ ہو فقط آپکے وجود سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ملی ہو وہ عرش و کرسی یہاں تک کہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے افضل قرار پاتی ہے اسی سے اندازہ لگائیں جس ہستی کو رسول اللہ ﷺ اپنے وجود کا حصہ قرار دیں اپنا پارہ تن قرار دیں اسکا مقام کیا ہو گا ؟
پیغمبر اکرم ﷺ جس ہستی کو اپنا جز ءقرار دیں اسکا مقام و مرتبہ اور اسکی تعظیم وہی حیثیت رکھتی ہے جو خود نبی کریم ﷺ کی ہے اسکے متعلق علماء نے صراحت کی ہے کہ جز ءکا حکم وہی ہوتا ہے جو کل کا حکم ہو جیسا کہ مفتی غلام رسول جماعتی نقشبندی سابق مفتی دار العلوم علی پور سیداں شریف نے اپنی کتاب میں علامہ شبلنجی کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا “فھو بضعۃ من رسول اللہ ﷺ وللبعض فی الاجلال والتعظیم والتوقیر ما للکل و حرمۃ جزئہ کحرمۃ جزئہ حیا علی حد سواء “
پس وہ رسول اللہ ﷺ کا جزء ہیں اور بعض جزء کا بزرگی اور توقیر میں وہی حکم ہے جو کل کا ہے اور نبی کریمﷺ کے انتقال کے بعد انکے جزء کی عزت اسی طرح ہے جیسے کہ جزء کی ظاہری زندگی مبارک میں تھی عزت برابر طریقہ پر ہے اس میں کوئی فرق نہیں (15)
اور مفتی غلام رسول صاحب اس کتاب میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ “قبر انور کا وہ حصہ جو جسم مبارک کیساتھ بالواسطہ ملا ہوا ہے وہ رسول پاک کے جسم کا حصہ نہیں مگر پھر بھی عرش اعظم سے زیادہ افضل ہے حضرت فاطمہ الزہراء تو رسول پاک ﷺ کے جسم مبارک کا حصہ اور جزء ہیں انکی شان و عظمت کا کون اندازہ کر سکتا ہے !(16)
اور اسی قانون اور قاعدے کی بنیاد پرشارح اتحاف السائل قاضی ظہور احمد فیضی صاحب نے نقل فرمایا کہ ابو القاسم سہیلی نے جناب سیدہ فاطمہ ؑ پر درود کو بعینہ رسول اللہ ﷺ پر درود کہنا قرار دیا اور فرماتے ہیں :
”ان فاطمۃ مضغۃ منی فصلی اللہ علیہ و علی فاطمۃ فھذا حدیث یدل علی ان من سبھا فقد کفر و ان من صلی علیھا فقد صلی علی ابیھاﷺ“
فاطمہ ؑ میرے جسم کا حصہ ہے اللہ عزوجل کا حضور ﷺ پر اور سیدہ فاطمہ ؑ پر درود ہو پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ جس نے سیدہ کو برا کہا اس نے کفر کیا اور جس نے سیدہ پر درود بھیجا اس نے حضور ﷺ پر درود بھیجا (17)
حدیث بضعۃ منی سے علماء اہلسنت کے استدلالات
اس مفہوم کی احادیث سے علماء اہلسنت نے چند استدلال کئے ہیں جن کا کچھ حصہ سابقہ گفتگو میں گزر چکا ہے البتہ ان استدلالات کا خلاصہ درج ذیل نکات میں ملاحظہ کریں :
1. فاطمہ ؑرسول اللہﷺ کا جزء ہونے کی حیثیت سے سب سے افضل ہیں کوئی انکے برابر نہیں ہو سکتا (بقول امام سہیلی ، و قاضی ثناء اللہ ومفتی غلام رسول جماعتی )
2. جس نے سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کو براکہا اس نے کفر کیا کیونکہ اس نے بوجہ اتحاد نبی ﷺ گویا رسول اللہ ﷺکو برا کہا (اللطائف الاحمدیہ)
3. جناب سیدہ کا احترام اور انکی تعظیم بالکل رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کی مانند ہے (بقول عبدالؤؤف مناوی صاحب اتحاف السائل )
4. جناب سیدہ فاطمہ ؑ پر درود پڑھنا رسول اللہ ﷺ پر درود کی مانند قرار پاتا ہے (بقول امام سہیلی )
5. جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کی خوشنودی رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی ہے اور انکی ناراضگی رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی ہے ۔
کائنات کی عورتوں کی سرداری اور افضلیت کااثبات
یہاں کچھ احادیث سے جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی عالمین کی تمام عورتوں پر سیادت کا اثبات کرتے ہیں اور اسکے ساتھ ہی علماء کے استدلال بھی ملاحظہ کرتے ہیں ؛
”عَنْ عَائِشَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَهُوَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ: «يَا فَاطِمَةُ، أَلَا تَرْضَيْنَ أَنْ تَكُونِي سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ وَسَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَسَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ؟ (هَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ هَكَذَا)“
حضرت عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنھا سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جس مرض میں وفات پائی اس میں فرمایا اے فاطمہ :کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تم عالمین کی عورتوں کی سردار ہو اور تم اس امت کی اور مومنین کی عورتوں کی سردار ہو ۔(18)
اس حدیث کو امام حاکم نے شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا ۔ جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا عالمین کی تمام عورتوں کی سردار ہیں اس مضمون کی احادیث بکثرت ہیں
کہیں فرمایا سَيِّدَةَ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ آپ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں
کہیں فرمایا: وَسَيِّدَةَ نِسَاءِ هَذِهِ الْأُمَّةِ آپ اس امت کی عورتوں کی سردار ہیں
کہیں فرمایا :َسَيِّدَةَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ آپ مومنین کی عورتوں کی سردار ہیں
کہیں فرمایا : أَنْتِ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الجَنَّةِ تم اہل جنت کی عورتوں کی سردار ہو
جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی سرداری میں کسی مسلمان کو شک و شبہ نہیں ہے فقط کچھ روایات اور مریم بنت عمران صلوات اللہ علیھما کے متعلق قرآنی حکم کے سبب کچھ حضرات کو تخصیص کا شبہ ہوا ہے کہ جناب سیدہ ؑجناب مریم کے علاوہ عورتوں کی سردار ہیں جبکہ تمام متون کو مدنظر رکھا جائے تو یہ تخصیص بے جا نظر آئے گی اور اسکا اقرار اہلسنت علماء نے بھی کیا ہے حتی جناب سیدہ فاطمہ ؑ نے خود بھی یہ سوال کیا تھا جسکا جواب انہیں رسول اللہﷺ نے مرحمت فرمایا اور وہ حدیث یہ ہے کہ :
“حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ ؑ بیمار ہوئیں تو نبی کریم ﷺ نے انکی عیادت کرتے ہوئے پوچھا بیٹی تمہاری آنکھیں کیسی ہیں ؟ پھر فرمایا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ اللہ تعالی نے تمہیں عالمین کی عورتوں کا سردار بنایا ہے ؟ انہوں نے فرمایا تو مریم بنت عمران کا مقام کیا ہو گا ؟ فرمایا: وہ اپنے زمانے کی سیدہ تھیں تم اپنے زمانے کی سیدہ ہو اور خدا کی قسم تمھارا شوہر بھی دنیا و آخرت میں سردار ہے۔”(19)
قاضی ظہور احمد فیضی صاحب مفتی غلام رسول جماعتی نیز سید احمد حسن سنبھلی و دیگر علماء نے اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے چند عبارات پیش خدمت ہیں :
قاضی صاحب نے فرمایا “ اس امت کا نبی تمام انبیاء کرام علیھم السلام سے افضل اس امت کا صدیق تمام صدیقوں سے افضل ، اس امت کا شہید تمام شہیدوں سے افضل ، اس امت کا ولی تمام اولیاء سے افضل ،اور اس امت کی سیدہ عالمین کی تمام سیدات سے افضل ہے اب بھی کسی کا ذہن تذبذب کا شکار ہو تو ہم اسکے سامنے اور زیادہ واضح حدیث پیش کئے دیتے ہیں أربعُ نسوةٍ ساداتُ عالَمِهن مريمُ بنتُ عِمْرَانَ وآسيةُ امرأةُ فرعونَ وخديجةُ بنتُ خويلد وفاطمةُ بنتُ محمدٍ وأفضلُهن عالماً فاطمةٌجہان کی سردار چار عورتیں ہیں مریم بنت عمران ،آسیہ بنت مزاحم (فرعون کی بیوی )،خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ﷺ اور ان سب سے افضل فاطمہ ہیں”(20)
مفتی غلام رسول جماعتی صاحب یوسف نبھانی کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں “حضرت فاطمہ الزہرا ء دنیا کی تمام عورتوں بلکہ تمام ازواج مطہرات سے بھی افضل ہیں کیونکہ حضورﷺ نے فرمایا فاطمۃ بضعۃ منیفاطمہ میرے جسم کا حصہ اور جزء ہے رسول پاک کے جسم اطہر کے حصہ اور جزء کے برابر کوئی نہیں ہے لہذا فاطمہ زہراء کے برابر کوئی عورت نہیں ہو سکتی ۔۔۔ ” (21)
سید احمد حسن سنبھلی لکھتے ہیں “ حدیث میں ہے فاطمہ رض اس امت میں ایسی ہیں جیسی مریم اپنی قوم میں تھیں اس سے بھی ثابت ہو گیا کہ ممدوحہ تمام عورتوں سے اس امت میں افضل ہیں اور یہ امت سب امتوں سے افضل ہے پس سیدہ کا سب عورتوں سے افضل ہونا ضروری ہوا اس لئے کہ حضرت مریم ؑ اپنی قوم میں سب عورتوں سے افضل تھیں اور چونکہ انکی قوم امت محمدیہ ؐ سے رتبہ میں کم تھی پس وہ بھی حضرت فاطمہ سے رتبہ میں کم ہوئیں جیسا کہ ظاہر ہے ۔ علامہ سیوطی نے فرمایا ہے کہ حضرت عائشہ سے حضرت فاطمہ افضل ہیں اور ہی اصح مذھب ہے اور امام مالک کے نزدیک بھی حضرت فاطمہ تمام جہان کی عورتوں سے افضل ہیں ” (22)
اسکے علاوہ متعدد کتب کی عبارات پیش کی جاسکتی تھیں لیکن یقین ہے کہ یہی کفایت کریں گی ان سابقہ مطالب کا خلاصہ یہی بنتا ہے کہ سیدہ فاطمہسلام اللہ علیھا تمام اہل اسلام کے نزدیک عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ۔
سیدہ فاطمہ ع کی رسول اللہ ﷺ سے مشابہت
”عن عائشة ام المؤمنين قالت‏:‏ ما رايت احدا كان اشبه حديثا وكلاما برسول الله صلى الله عليه وسلم من فاطمة، وكانت إذا دخلت عليه قام إليها، فرحب بها وقبلها، واجلسها في مجلسه، وكان إذا دخل عليها قامت إليه فاخذت بيده، فرحبت به وقبلته، واجلسته في مجلسها، فدخلت عليه في مرضه الذي توفي، فرحب بها وقبلها‏“
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے کسی کو بات چیت میں اور گفتگو میں رسول اللہ ﷺ کے مشابہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر نہیں دیکھا۔ جب وہ نبی ﷺ کے پاس آتیں تو آپ ﷺ آگے بڑھ کر ان کا استقبال کرتے، انہیں بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر انہیں بٹھاتے۔ اور جب نبی ﷺ ان کے پاس جاتے تو وہ بھی اٹھ کر استقبال کرتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کا ہاتھ پکڑ لیتیں، خوش آمدید کہتیں اور آپ ﷺکو بوسہ دیتیں، نیز اپنی جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بٹھاتیں، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی اس بیماری میں تشریف لائیں جس میں آپ ﷺ فوت ہوئے، تو بھی آپ ﷺ نے خوش آمدید کہا اور انہیں بوسہ دیا۔(23)
”عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا كَانَتْ إِذَا ذُكِرَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ «مَارَأَيْتُأَحَدًاكَانَأَصْدَقَلَهْجَةًمِنْهَاإِلَّاأَنْيَكُونَالَّذِيوَلَدَهَا»هَذَاحَدِيثٌصَحِيحٌعَلَىشَرْطِمُسْلِمٍ، وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ“
جب حضرت عائشہ کے پاس حضرت فاطمہ ؑ بنت نبی ﷺ کا ذکر کیا گیا تو حضرت عائشہ نے فرمایامیں نے سوائے انکے باباﷺ کے ان سے زیادہ گفتگو میں سچا کسی کو نہیں پایا (24)
”عن عائشة قالت :‏ ما رأيت أفضل من فاطمة غير أبيها‏، قالت :‏ وكان بينهما شيء‏؟‏ ، فقالت : يا رسول الله سلها فإنها لا تكذب ‏، رواه الطبراني في الأوسط وأبو يعلى إلاّّ أنها قالت :‏ ما رأيت أحداًًً قط أصدق من فاطمة ‏،‏ ورجالهما رجال الصحيح‏“
حضرت عائشہ سے روایت ہے فرمایا میں نے فاطمہؑ سے افضل کسی کو نہ پایا سوائے اسکے بابا رسول اللہ ﷺ کے اور فرمایا رسول اللہ ﷺاور جناب فاطمہ ؑ کے درمیان کوئی بات ہوئی تو حضرت عائشہ نے فرمایا یا رسول اللہﷺ فاطمہ سے پوچھئے پس بیشک وہ جھوٹ نہیں بولتی۔
طبرانی نے اوسط میں اور ابو یعلیٰ نے روایت کیا کہ حضرت عائشہ نے فرمایا میں نے فاطمہؑ سے زیادہ کسی کو سچا نہ پایا (ان دونوں کے راوی صحیح حدیث کے راوی ہیں )(25)
ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس حدیث کے متعلق فرمایا “رجالہ رجال الصحیح اس کے تمام راوی صحیح ہیں ”(26)
اس قسم کی احادیث کافی مقدار میں پائی جاتی ہیں یہ توبطور نمونہ پیش کی گئی ہیں ان میں چند اہم نکات سامنے آتے ہیں :
انداز گفتگو ،کلام و صداقت میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا رسول اللہ ﷺسے مشابہت رکھتی تھیں نیزجس طرح جناب سیدہ ؑ آگے بڑھ کر بابا کا احترام کرتی تھی اسی طرح رسول اکرم ﷺ بھی آگے بڑھ کر استقبال کرتے بیٹی کے ہاتھ کا بوسہ لیتے اور اپنی نشست پر بٹھاتے ، رسول اللہ ﷺ کی نظر میں فاطمہسلام اللہ علیھا اسقدر قول کی سچی تھی کہ فرمایابیشک کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔
خلاصہ
رسول اللہ ﷺ کی مانند انکی دختر اور انکے پارہ تن کے فضائل و مناقب کا احاطہ انسانی عقل کی دسترس سے باہر ہے مذکورہ بالا چند روایات اور ان کے متعلق علماء اہل سنت کے استدلال شاید جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھاکی فضیلت کا مقدمہ بھی نہیں ہیں وگرنہ یہ ایسا بحربیکراں ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کے فضائل (ماسوا منصب نبوت )کی ہر موج کا رخ جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کی جانب ہو جاتا ہے اور کسی بشر کی کیا مجال جو رسول اللہ ﷺ اور سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا جیسی آیات الہیہ کے مناقب کا احاطہ کر سکے ۔ اہل سنت کتب جناب سیدہ کے صدیقہ ،طاہرہ ،بتول ، محدثہ نیز شافعہ روز محشر ہونے کے متعلق احادیث سے لبریز ہیں جن کو مستقل کتب میں علماء نے یکجا کرنے کی کوشش کی ہے بطور نمونہ مناقب الزہرا شرح اتحاف السائل قاضی ظہور احمد فیضی ، سید احمد حسن سنبھلی صاحب کی اللطائف الاحمدیہ (جسکے صاحبان تقریظ کی نظر میں تمام معتبر احادیث جمع کی گئی ہیں جنکی تعداد اسی ہے )،البتول صائم چشتی ، الدرۃ البیضاء فی مناقب الزہرا ڈاکٹر طاہر القادری نیز اسکے علاوہ عربی ،فارسی میں ایک عظیم سلسلہ ہے جس میں علماء نے ان احادیث کی روشنی میں جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا کے مناقب درج کئے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ کائنات عالم کی ہر مستور پر اس شہزادی کے احسان ہیں انکا کردار ان سب کے لئے مشعل راہ اور چراغ ہدایت ہے جس پر گامزن ہو کر وہ بھی فضائل و مناقب پا سکتی ہیں اسی کی جانب متنبی کا شعر دلالت کرتا ہےکہ اگر تمام خواتین ایسی ہوتیں جیسے جناب خدیجہ وجناب فاطمہ و جناب زینب سلام اللہ علیھن گزری ہیں تو یقینا عورتیں مردوں سے افضل ہوتیں ۔
ولو كان النساء كمن فقدنا لفضلت النساء على الرجال
اگر سب عورتیں ایسی ہوتیں جیسی ہم نے کھو دی ہیں تو عورتوں کو مردوں پر فضیلت حاصل ہوتی ۔(27)
حوالہ جات
1. بخاری ،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل ،صحیح البخاری (مکتبہ رحمانیہ لاہور)باب 414 حدیث954 ج2ص 421 ، نیز جلد2 ص 408 باب 395 حدیث 908
2. الحاکم ،حافظ ابو عبداللہ نیشاپوری، المستدرک علی الصحیحین (دار الحرمین قاہرہ طبع اولی 1997ء)ج3ص 178 رقم 4811
3. ترمذی ، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ،جامع ترمذی(مکتبہ جویریہ لاہور)ج2 ص655 باب ما جاء فی فضل فاطمہ ؑ حدیث 3867
4. الحاکم ،حافظ ابو عبداللہ حاکم نیشاپوری ،المستدرک علی الصحیحین(دار الحرمین قاہرہ طبع اولی 1997ء) ج3ص 182رقم 4797۔
5. ایضا، ج3ص 188 رقم 4814۔
6. ترمذی ، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ، جامع ترمذی (مکتبہ جویریہ لاہور)ج ص655 باب ما جاء فی فضل فاطمۃ حدیث 3869
7. قاضی،عياض بن موسى بن عياض، أبو الفضل (ت ٥٤٤هـ ، الشفا بتعريف حقوق المصطفى(الناشر: دار الفيحاء – عمان
الطبعة: الثانية – ١٤٠٧ ه ) ج2ص213۔
8. الزرقاني،أبو عبد الله محمد بن عبد الباقي بن يوسف بن أحمد بن شهاب الدين بن محمد الزرقاني المالكي (ت ١١٢٢هـ)،شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمديۃ (الناشر: دار الكتب العلميةالطبعة: الأولى ١٤١٧هـ-١٩٩٦م)ج12ص234
9. الجوزی، محمد بن ابی بکر بن قیم (ت751م )،بدائع الفوائد (مکتبہ نزار مصطفی الباز مکہ مکرمہ طبع اولی 1416ء)ج3 ص655
10. حصکفی ،علاء الدین محمد بن علی متوفیٰ 1088ھ ، در المختار شرح تنویر الابصار (دار احیاء التراث العربی بیروت 1419ھ ) ج4ص37،38
11. السھیلی ،ابو القاسم عبدالرحمن بن عبداللہ متوفی 571ھ ، الروض الانف (دارالکتب العلمیہ ،بیروت طبع اولی 1418ھ )ج1ص 418
12. المظھری ، قاضی ثناء اللہ پانی پتی متوفی 1225ھ ، التفسیر المظھری (داراحیاء التراث العربی ،بیروت طبع اولی 1425ھ)ج2ص52
13. المصری،شیخ محمودسعید ،غایۃالتبجیل وترک القطع فی التفضیل (زاویہ پبلشرز بار اول 2012ء) مترجم علامہ محمد علی حسینی حیدر آباد ص 125،
14. سنبھلی ، سید احمد حسن چشتی ،اللطائف الاحمدیہ فی المناقب الفاطمیہ (دار النفائس لاہور 2005ء)ص 20
15. نقشبندی ،مفتی غلام رسول جماعتی سابق مفتی دار العلوم علی پور سیداں شریف ،جواہر العلوم فی فضائل باقر العلوم المعروف تذکرہ امام محمد باقر ؑ(قادریہ جیلانیہ پبلی کیشنز راولپنڈی) : ص 86،87
16. ایضا ص78
17. مناقب الزہرا ؑ قاضی ظھور احمد فیضی ص 172 مکتبہ باب العلم جامعہ علی المرتضی لاہور طبع ثالث 1439ھ
18. الحاكم،أبو عبد الله محمد بن عبد الله النيسابوري،المستدرك على الصحيحين مع تضمينات: الذهبي في التلخيص والميزان والعراقي في أماليه والمناوي في فيض القدير وغيرهم (الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة: الأولى، ١٤١١ – ١٩٩٠ ) جلد3ص 170 رقم ٤٧٤٠
19. فیضی، قاضی ظھوراحمد، مناقب الزہرا(مکتبہ باب العلم لاہور طبع ثالث 1439) ص 337
20. ایضا ص 337
21. نقشبندی ،مفتی غلام رسول جماعتی سابق مفتی دار العلوم علی پور سیداں شریف ،جواہر العلوم فی فضائل باقر العلوم المعروف تذکرہ امام محمد باقر ؑ(قادریہ جیلانیہ پبلی کیشنز راولپنڈی) : ص 79
22. سنبھلی ، سید احمد حسن چشتی ،اللطائف الاحمدیہ فی المناقب الفاطمیہ (دار النفائس لاہور 2005ء)ص 18
23. االادب المفرد :باب 444 ارجل یقبل ابنتہ حدیث 1999 ص 263 مکتبۃ دار الاشاعت کراچی 2010ء
24. الحاكم،أبو عبد الله محمد بن عبد الله النيسابوري،المستدرك على الصحيحين مع تضمينات: الذهبي في التلخيص والميزان والعراقي في أماليه والمناوي في فيض القدير وغيرهم (الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت الطبعة: الأولى، ١٤١١ – ١٩٩٠ ) جلد3ص 175 رقم 4756
25. الطبرانی ،امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد متوفی 360ھ المعجم الاوسط(مکتبۃالمعارف ،الریاض 1405ھ) ج3ص349 رقم 2742 ،الموصی،ابو یعلی احمد بن علی متوفی 307ھ ، مسند ابو یعلیٰ (دارالکتب العلمیہ بیروت طبع اولی 1418ھ ) ج4ص 192 رقم 4681 نقل از فیضی، قاضی ظھوراحمد، مناقب الزہرا(مکتبہ باب العلم لاہور طبع ثالث 1439) ص 50۔
26. ہیثمی ،حافظ نور الدین علی بن ابی بکر متوفی 752ھ ،مجمع الزوائد و منبع الفوائد (دار الفکر بیروت طبع اولی 1414ھ)ج9ص201 رقم 15193
27. المعری ،ابوالعلاء احمد بن عبداللہ متوفی 449 ھ ،اللامع العزيزي شرح ديوان المتنبي (مركز الملك فيصل للبحوث والدراسات الإسلامية
الطبعة: الأولى، ١٤٢٩ هـ – ٢٠٠٨م)ص 378

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button