سلائیڈرسیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا ائمہ اطہار علیہم السلام کی نگاہ میں

مقالہ نگار: جعفرعلی تبسم
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عظمت ائمہ معصومین میں سے ہرایک نے بیان کی ہے ۔ البتہ بعض اماموں کو اپنے زمانے کے حالات کے نشیب و فراز کی وجہ سے حضرت سیدہ کی عظمت کو بیان کرنے کا موقع نہیں ملا تاہم اکثر ائمہ ؑ نے ان کی عظمت کے مختلف پہلوں پر روشنی ڈالی ہے ۔ امیرالمومنین نے آپ کے وجود کو اللہ کی اطاعت کے لئے بہترین مدد گار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود کی مانند قرار دیا ہے۔ امام حسن علیہ السلام نے دوران عبادت آپ کی عبادت اور ہمسایوں کے لئے دعا کرنے کی کیفیت کو بیان فرمایاہے۔ امام حسین علیہ السلام کو اپنی زندگی میں جب بھی کسی مشکل کا سامناہوا تو آپ کو یاد کیاہے۔ امام سجاد ، باقر اور جعفر علیہم السلام نے آپ کی خلقت مادی سے پہلے خلقت نوری کو بیان فرمایا۔ امام زمان علیہ السلام نے آپ کو اپنے لئے اسوہ قرار دیاہے۔
کلیدی الفاظ
عظمت سیدہ، نوری خلقت ، ہمسایوں کے حقوق، صدّیقہ کبری، نمونہ عمل
مقدمہ
کسی بھی بڑی شخصیت کی عظمت اور مقام وہی شخص بتا سکتا ہے جو رتبے میں اس کے برابر ہو یا اس سے بالاترہو ۔ کیونکہ جس کا مقام کم تر ہو وہ اسے نہیں سمجھ سکتا ۔ لہذا حضرت زہرا ء سلام اللہ علیہا کی عظمت اور مقام کو ائمہ اطہار علیہم السلام سے بڑھ کر کوئی نہیں سمجھ سکتا اسی لئے اس مقالےمیں حضرت صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کی عظمت کو سمجھنے کے لئے ائمہ اطہارکے فرامین اور ان کی سیرت سے استفادہ کیا گیاہے تاکہ حضرت صدیقہ کبری سلام اللہ علیہ کے مقام کا اندازہ ہو سکے۔ اس کے علاوہ بعض ائمہ کی طرف سے اس موضوع سے مربوط کو ئی خاص مطلب نہیں ملا۔ مقالے میں اس کی وجہ بھی بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا امیرالمومنین علیہ السلام کی نگاہ میں
عام طور پر کسی بھی خاتون کو اس کے شوہر سے زیادہ کوئی نہیں جان سکتا اور جب کہ وہ شوہر معصوم اور حجت خدا بھی ہو تو اس سے زیادہ بہتر بھلا کون جان سکتاہے لہذا حضرت سیدہ کونین سلام اللہ علیھا کو حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جان سکتا اور جب آپ ؑ حضرت سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کی فضیلت اور مقام بیان کرتے ہیں تو صرف احساس اور جذبات سے مغلوب ہوکر بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ حجت خدا اور معصوم ہونے کے ناطےحقیقت بیان کرتے ہیں جس میں کسی قسم کے احساسات اور جذبات کا غلبہ نہیں ہوتا۔ لہذا سب سے پہلے ہم یہاں پر یہ دیکھتے ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام کی نگاہ میں حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کا مقام کیا ہے؟
ازدواجی زندگی کا پہلا ہی دن تھا ۔ کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی دختر نیک اختر سے ملنےتشریف لے آئے اور مختصر گفتگو کے بعد جب امیرالمومنین علیہ السلام سے پوچھا :
فَسَأَلَ عَلِيّاً كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَك( اے علی (علیہ السلام )آپ نے اپنی اہلیہ کو کیسا پایا؟ تو امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: نِعْمَ الْعَوْنُ عَلَى طَاعَةِ اللَّه۔1  یارسول اللہ: میں نے فاطمہ کو اللہ کی اطاعت میں بہترین مددگار پایا۔)
یہاں سے ہمیں ازدواجی زندگی کا مقصد بھی سمجھ میں آتاہے کہ میاں بیوی کی ازدواجی زندگی میں اللہ کی اطاعت اور عبادت بنیادی ہدف ہوناچاہئے۔ خصوصا زہراء مرضیہ سلام اللہ علیہا کے چاہنے والوں کو ان کی سیرت سے درس لیتے ہوئے اپنی زندگی میں اللہ تعالی کی اطاعت کو اپنی زندگی کا ہدف قرار دینا ہوگا۔
اسی طرح جب حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا کا آخری وقت تھا تو امیر المومنین علیہ السلام نے آپ سے فرمایا:
قَالَ لَهَا عَلِيٌّ أَوْصِينِي بِمَا أَحْبَبْتِ يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ فَجَلَسَ عِنْدَ رَأْسِهَا وَ أَخْرَجَ مَنْ كَانَ فِي الْبَيْتِ ثُمَّ قَالَتْ يَا ابْنَ عَمِّ مَا عَهِدْتَنِي كَاذِبَةً وَ لَا خَائِنَةً وَ لَا خَالَفْتُكَ مُنْذُ عَاشَرْتَنِي فَقَالَ ع مَعَاذَ اللَّهِ أَنْتِ أَعْلَمُ بِاللَّهِ وَ أَبَرُّ وَ أَتْقَى وَ أَكْرَمُ وَ أَشَدُّ خَوْفاً مِنَ اللَّهِ أَنْ أُوَبِّخَكِ غَداً بِمُخَالَفَتِي فَقَدْ عَزَّ عَلَيَّ بِمُفَارَقَتِكِ وَ بِفَقْدِكِ إِلَّا أَنَّهُ أَمْرٌ لَا بُدَّ مِنْهُ وَ اللَّهُ جَدَّدَ عَلَيَّ مُصِيبَةَ رَسُولِ اللَّه۔ِ2
(امیرالمومنین علیہ السلام نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: اےرسول خدا کی بیٹی جو چاہیں مجھے اپنی وصیت کریں پھر آپ ؑ زہراء مرضیہ کے سراہنے بیٹھ گئے اور جتنے بھی لوگ گھر میں تھے سب کو باہر نکا ل دیا پھر زہرا ء مرضیہ سلام اللہ علیہا نے فرمایا: اے میرے چچا کے بیٹے جب سے آپ کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوں میں نے کبھی آپ سے جھوٹا وعدہ نہیں کیا اور نہ کبھی خیانت کی اور نہ کبھی آپ کی مخالفت کی ہے۔ ( یہ سن کر ) امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: آپ اللہ تعالی کی ذات کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والی ، نیک ، باتقوی ، مکرم اور سب سےزیادہ خوف خدا رکھنے والی ہیں۔ (لہذا) اللہ کی پناہ کہ میں آپ کی بابت ایسا سوچوں؟ بتحقیق آپ کی جدائی میرے لئے بہت گراں اور سخت ہے لیکن موت ایک اٹل حقیقت ہے اسے آنا ہی ہے ۔ خدا کی قسم آپ کی موت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مصیبت مجھ پر تازہ ہوگئی۔)
امیرالمومنین علیہ السلام کے ان جملوں میں جس طرح آپ کی مصیبت اور بے کسی کا بیان ہے اسی طرح زہر اء مرضیہ سلام اللہ علیہا کی منزلت اور عظمت کا بیان بھی ہے۔ اس نورانی کلام میں آپ نے زہراء مرضیہ سلام اللہ علیہا کو اعلم یعنی سب سے زیادہ اللہ کی معرفت رکھنے والی، سب سے زیادہ نیک ، سب سے زیادہ مکرم اور سب سے زیادہ خوف الہی رکھنے والی ذات قراردیاہے۔اگر غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ جو شرائط اور خصوصیات امام کے لئے بیان کی جاتی ہیں انہی خصوصیات اور شرایط کو امام ؑ نے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے لئے بیان کیا ہے۔
مولا کی بیان کردہ صفات میں سے ہر ایک صفت سے متعلق بہت کچھ لکھا جاسکتاہے لیکن مقالے کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر بعض مطالب کی طرف اشارہ کرتےہیں۔ مولا نے ان کلمات میں زہراء سلام اللہ علیہا کی مصبیت کو مصیبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تجدید قرار دیا ہے۔ جس طرح رسول اللہ کی رحلت کےوقت آپ نے مصیبت بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا:
لَقَدِ انْقَطَعَ بِمَوْتِكَ مَا لَمْ يَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَيْرِكَ مِنَ النُّبُوَّةِ وَ الْإِنْبَاءِ وَ أَخْبَارِ السَّمَاءِ۔3 ‏
( آپ کی رحلت سے نبوت ،خدائی احکام اور آسمانی خبروں کا سلسلہ قطع ہوگیا جو کسی اور(نبی) کے انتقال سے قطع نہیں ہواَ)
لہذا رسول اللہﷺ کی رحلت کے ساتھ جو مصیبت امیرالمومنین علیہ السلام پر پڑی بلکہ پوری امت مسلمہ پرپڑی ، وہ مصیبت وحی الہی کا منقطع ہونا تھا کیونکہ اب رسول اللہ ﷺکی رحلت کے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں آنے والا اور وحی الہی کا سلسلہ بھی ختم ہوا ۔
وہی مصیبت سیدہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد بھی آن پڑی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ کی رحلت کے بعد فرشتے حضرت زہرا ءمرضیہ سلام اللہ علیہا کے پاس نازل ہوتے تھے ۔ اگرچہ کوئی شرعی حکم نہیں لاتے تھے لیکن رسول کی بیٹی کو تسلی دیتے تھے ، ان سے غیبی خبریں بیان کرتے تھے اور قیامت تک پیش آنے والے واقعات آپ کو سناتے تھے جیسا کہ روایت میں آیا ہے:
قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ع يَقُولُ إِنَّمَا سُمِّيَتْ فَاطِمَةُ ع مُحَدَّثَةً لِأَنَّ الْمَلَائِكَةَ كَانَتْ تَهْبِطُ مِنَ السَّمَاء۔ 4
( فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا کو محدثہ اس لئے کہا جاتاہے کیونکہ آسمان سے فرشتے ان کے پاس نازل ہوتے رہتے تھے)بعض روایات میں اس فرشتے کا نام جبرائیل بیان ہوا ہے:
كَانَ جَبْرَئِيلُ يَأْتِيهَا فَيُحْسِنُ عَزَاهَا عَلَى أَبِيهَا وَ يُطَيِّبُ نَفْسَهَا وَ يُخْبِرُهَا عَنْ أَبِيهَا وَ مَكَانِهِ وَ يُخْبِرُهَا بِمَا يَكُونُ بَعْدَهَا فِي ذُرِّيَّتِهَا وَ كَانَ عَلِيٌّ يَكْتُبُ ذَلِك۔ 5‏
( امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جبرائیل ان کے پاس آکےان کی مصیبت پر تسلیت عرض کرتے تھے اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو تسلی دیتے تھے۔ ان کے والد گرامی اور ان کے مقام و منزلت کے بارے میں خبر دیتے تھے اور ان کے بعد ان کی اولاد کے ساتھ پیش آنے والی مشکلات بیان کرتے تھے جبکہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام ان کو لکھتے تھے۔)
لہذا رسول اللہ کے رحلت کے بعد اللہ کے فرشتے حضرت فاطمہ الزہرا ء سلام اللہ علیہا کے پاس آتے رہتے تھے ۔ لیکن جب آپ کی شہادت ہوئی تو فرشتوں کے آنے جانے کا سلسلہ بھی منقطع ہوا ۔ اسی لئے امیرالمومنین علیہ السلام نے ان کی شہادت کو رسول اللہ کی شہادت کی تجدید قرار دیا۔
آپ ؑکی نظرمیں حضرت فاطمہؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہم پلہ بھی تھیں کیونکہ آپ کی شہادت سے وہ مصیبت آئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت پر آئی تھی ۔
سیدہ کونین سلام اللہ علیہا امام حسن المجتبی علیہ السلام کی نگاہ میں
امام حسن مجتبی ٰ علیہ السلام اپنی مادر گرامی کی عبادات کے بارےمیں فرماتے ہیں:
عن الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ (عَلَيْهِمُ السَّلَامُ)، قَالَ:رَأَيْتُ أُمِّي فَاطِمَةَ (عَلَيْهَا السَّلَامُ) قَائِمَةً فِي مِحْرَابِهَا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، فَلَمْ تَزَلْ رَاكِعَةً سَاجِدَةً حَتَّى انْفَجَرَ عَمُودُ الصُّبْحِ، وَ سَمِعْتُهَا تَدْعُو لِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ، وَ تُسَمِّيهِمْ، وَ تُكْثِرُ الدُّعَاءَ لَهُمْ، وَ لَا تَدْعُو لِنَفْسِهَا بِشَيْ‏ءٍ، فَقُلْتُ: يَا أُمَّاهْ، لِمَ لَا تَدْعِينَ لِنَفْسِكِ كَمَا تَدْعِينَ لِغَيْرِكِ؟ فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّ، الْجَارَ ثُمَّ الدَّار۔ 6
( امام حسن مجتبی علیہ السلام فرماتے ہیں: میں نے اپنی والدہ محترمہ کو ایک جمعہ کی رات کو اپنی محراب عبادت میں کھڑے دیکھا کہ وہ مسلسل رکوع و سجود انجام دے رہی تھیں یہاں تک کہ صبح کی روشنی نمودار ہوئی اور میں نے سنا کہ آپ مسلسل مومنین اور مومنات کے لئے دعا کر رہی ہیں اور ان کا نام لے لے کر ان کے لئے کثرت سے دعا مانگ رہی ہیں اور اپنے لئے کچھ بھی نہیں مانگتی ہیں ۔ ( جب یہ صورت حال تھی) تو میں نے آپ سے پوچھا: مادر گرامی آپ اپنے لئے کیوں دعا نہیں مانگتی ہیں جس طرح دوسروں کے لئے دعامانگتی ہیں۔ تو اس وقت آپ نے جوا ب میں فرمایا: اے میرے پیارے بیٹے پہلے ہمسایوں کا خیال رکھنا ہوتاہے پھر اپنے گھر والوں کا ۔)
دین مقدس اسلام کے آفاقی احکام میں سے ایک حکم ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہمسایوں کے ساتھ نیک برتاؤرکھتے تھے اور مسلمانوں کو بھی ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی کے بارے میں مسلسل تاکید فرماتے رہتے تھے یہاں تک کہ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
وَ اللَّهَ اللَّهَ فِي جِيرَانِكُمْ فَإِنَّهُمْ وَصِيَّةُ نَبِيِّكُمْ مَا زَالَ يُوصِي بِهِمْ حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُم‏ ( اپنے ہمسایوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ ان کے بارے میں تمہارے پیغمبر نے برابر ہدایت کی ہے اور آپ اس حد تک ان کے لئے سفارش فرماتے رہے کہ ہم لوگوں کو گمان ہونے لگا کہ آپ انہیں بھی ورثہ دلائیں گے۔) 7
اسی لئے حضرت زہرا ء مرضیہ سلام اللہ علیہا رات کی تاریکیوں میں اٹھ کر ان کے لئے دعا فرماتی تھیں اور اپنے بابا کی سیرت اور فرامین پر بطور احسن عمل پیرا ہوتی ہوئی ان کے حق میں دعا کرتی تھیں ۔ امام حسن مجتی علیہ السلام کی نگاہ میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی زندگی میں ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی تھی ۔
خاتون جنت سلام اللہ علیھا امام حسین علیہ السلام کی نگاہ میں
جس طرح حضرت زہرا ءمرضہ سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت کرتی تھیں بالکل اسی طرح امام حسین علیہ السلام بھی آپ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے۔ اسی لئے زندگی کے مہم لمحات میں آ پ اپنی مادر گرامی کو یا د کرتے تھے ۔چنانچہ آپ کی بیٹی کا رشتہ جب امام حسن کے بیٹے سے ہونا قرار پایا تو آپ نے اپنے بھتیجے سے پوچھا کہ تم میری کونسی بیٹی کے ساتھ شادی کرنا پسند کرتے ہو؟ اس وقت چچا سے شرم کی وجہ سے بھتیجا کچھ کہہ نہ سکا تو آپ نے یہ کہہ کر ایک بیٹی کو ان کے لئے انتخاب کیا کہ میں تجھے فاطمہ دے دونگا کیونکہ وہ میری ماں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زیادہ شباہت رکھتی ہے8 ۔ اسی طرح جب شب عاشور کو اپنی بہن زینت کی بےتابی دیکھی تو آپ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے اپنی بہن زینب کبری سلام اللہ علیہا کو تسلی دیتے ہوئے انبیاء اور اولیاء کی موت کا تذکرہ کیا اور فرمایاکہ دنیامیں آنے کے بعد ایک دن انسان نے اس دنیا سے ضرور جانا بھی ہے اور ہم سے پہلے اللہ کے نیک بندے بھی اس دنیا کو خدا حافظ کر کے گئے ہیں۔ ان نیک بندوں میں سے ایک میری ماں تھیں جو مجھ سے بہتر تھی یہاں پر بھی امام حسین علیہ السلام اپنی والدہ گرامی کو خیر منی سے تعبیر کرتے ہیں: وَ أُمِّي خَيْرٌ مِنِّي‏ ( میری ماں مجھ سے بہتر تھیں۔9
امام حسین علیہ السلام جنگ کےاس عالم میں اپنی ماں کی شہادت کا تذکرہ کر کے اپنی بہن زینت کے لئے کربلا میں پیش آ ئے ہوئےحالات آسان کرتے ہیں تو دوسری طرف یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ جناب سیدہ کونین کا مقام اور منزلت آپ کے مقام سے بھی بلند ہے اور ساتھ ہی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی عظمت اور رفعت کو بھی بیان کرتےہیں ۔ کربلا جیسے سخت حالات میں امام حسین علیہ السلام کا اپنی مادر گرامی کا تذکرہ کرنا اس بات کی نشانی ہے کہ جناب سیدہ کا مقام آپ کی نظر میں بہت بلند تھا۔
اس کے علاوہ کربلا کی اس سر زمین میں مصائب اور مشکلات سہنے کے بعد جب وقت آخر آن پہنچا اور آپ اپنی کی امامت کے وارث اور حجت خدا امام سجاد علیہ السلام سے آخری وداع کرنے لگے تو پھر اپنی مادر گرامی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
يَقُولُ يَا بُنَيَّ احْفَظْ عَنِّي دُعَاءً عَلَّمَتْنِيهِ فَاطِمَةُ ع وَ عَلَّمَهَا رَسُولُ اللَّهِ ص وَ عَلَّمَهُ جَبْرَئِيلُ ع۔ 10 ‏
( اے میرے بیٹے! مجھ سے وہ دعا محفوظ کرلو جو مجھے میری ماں فاطمہ سلام اللہ علیہانے تعلیم دی ہے۔ جبکہ ان کو رسول اللہ ص نے اور رسول اللہ کو جبرائیل نے تعلیم دی ہے ۔)
زہراء مرضیہ سلام اللہ علیہا کی عظیم منزلت اور قربت و وجاہت کی وجہ سے امام حسین علیہ السلام مشکل ترین وقت میں ان کو یا د کرتےتھے۔
اس کےعلاوہ امام حسین علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کی نظر میں مقام حضرت زہرا سلام اللہ علیہا بہت بلند و بالا ہے اور ان کا وجود ایک نورانی وجود ہے ۔ روایت طولانی ہے یہاں پر اختصار کی خاطر صرف مورد نظر کو نقل کرتے ہیں جیسا کہ آ پ نے فرمایا:
بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ ص فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ إِذْ هَبَطَ عَلَيْهِ مَلَك‏۔۔۔ أَنَا صَرْصَائِيلُ بَعَثَنِيَ اللَّهُ إِلَيْكَ لِتُزَوِّجَ النُّورَ مِنَ النُّورِ فَقَالَ النَّبِيُّ ص مَنْ مِمَّنْ قَالَ ابْنَتَكَ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَزَوَّجَ النَّبِيُّ ص فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيٍّ بِشَهَادَةِ جَبْرَئِيلَ وَ مِيكَائِيلَ وَ صَرْصَائِيل۔ 11‏
( رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جناب ام سلمہ کے گھر تشریف فرماتھے کہ اتنے میں ایک فرشتہ نازل ہوا ۔۔۔ اور کہا: مجھے صرصائیل کہتے ہیں۔ مجھے اللہ نے اس لئے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ نور کی نور سے شادی کرائیں ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا: کس کی کس سے( یعنی وہ دو نور کون ہیں؟اس وقت اس فرشتے نے جواب میں کہا : آپ کی بیٹی فاطمہ کی شادی علی بن ابی طالب سے ۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل ، میکائیل اور صرصائیل کی موجودگی میں علی و بتول کا عقد پڑھا۔)
امام حسین ؑ سے نقل شدہ یہ روایت در حقیقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس نورانی روایت کی طرف اشارہ ہے کہ جس میں حضرت فاطمہ سلام اللہ کی نوری خلقت کے بارے میں آپ نے فرمایا:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص خُلِقَ نُورُ فَاطِمَةَ ع قَبْلَ أَنْ تُخْلَقَ الْأَرْضُ وَ السَّمَاء۔۔۔
زمین وآسمان کی خلقت سے پہلے نورفاطمہ سلام اللہ علیہا کی خلقت ہوئی تھی ۔کچھ لوگوں نے سوال کیا یا رسول اللہ پھر کیا فاطمہ انسان اور مادی مخلوق نہیں ہیں؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا:فاطمؑہ ایک حور ہے جو انسانی شکل میں ہے۔
پھر لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ وہ کیسے ؟ آپ نےفرمایا:
قَالَ خَلَقَهَا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ مِنْ نُورِهِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ۔۔۔12
اللہ تعالی اپنے نور سے فاطمہ سلام اللہ علیھا کو اس وقت خلق کیا کہ جب آدم خلق نہیں ہو اتھا جب ان کی تخلیق ہوئی تو اس وقت آدم پرفاطمہ سلام اللہ علیہا عرضہ ہوئی ۔ کسی نے پوچھا:یا رسول اللہ اس وقت فاطمہ کہاں رہتی تھیں ؟ آپ نے فرمایا: عرش کے سایہ میں رہتی تھیں ۔ پھر لوگوں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول اس وقت فاطمہ کیا کھاتی تھیں ؟ آپ نے فرمایا : فاطمہ کا کھانا تسبیح ، تہلیل اور تمجید تھا ۔
لہذا زہرا مرضیہ سلام اللہ علیہا ایک نوری مخلوق ہیں جس کی تخلیق زمین و زمن سے پہلے ہوئی اور اسی خلقت کی طرف امام حسین علیہ السلام نے روایت میں اشارہ فرمایا۔
حضرت شافعہ محشر سلام اللہ علیہا امام زین العابدین علیہ السلام کی نگاہ میں
امام سجاد علیہ السلام حضرت زہر اء مرضیہ مقام و منزلت کو بنان کرتے ہوئے میدان محشر میں آپ کی تشریف آوری کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں:
قَالَ: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ نَادَى مُنَادٍ يا عِبادِ لا خَوْفٌ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ وَ لا أَنْتُمْ تَحْزَنُونَ قَالَ إِذَا قَالَهَا لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ إِلَّا رَفَعَ رَأْسَهُ فَإِذَا قَالَ الَّذِينَ آمَنُوا بِآياتِنا وَ كانُوا مُسْلِمِينَ لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ إِلَّا طَأْطَأَ رَأْسَهُ إِلَّا الْمُسْلِمِينَ‏ الْمُحِبِّينَ قَالَ [ثُمَ‏] يُنَادِي مُنَادٍ هَذِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ تَمُرُّ بِكُمْ هِيَ وَ مَنْ مَعَهَا إِلَى الْجَنَّةِ [ثُمَّ يُرْسِلُ فَطَأْطِئُوا رُءُوسَكُمْ فَلَا يَبْقَى أَحَدٌ إِلَّا طَأْطَأَ رَأْسَهُ حَتَّى تَمُرَّ فَاطِمَةُ وَ مَنْ مَعَهَا إِلَى الْجَنَّةِ] ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ إِلَيْهَا مَلَكاً فَيَقُولُ يَا فَاطِمَةُ سَلِي [سَلِينِي‏] حَاجَتَكِ فَتَقُولُ يَا رَبِّ حَاجَتِي أَنْ تَغْفِرَ [لِي وَ] لِمَنْ نَصَرَ وُلْدِي.13
(قیامت کے دن ندا دینے والا ندا دےگا : اے میرے بندو آج کے دن تمہیں کوئی خوف ہے اورنہ کوئی حزن۔ جب یہ صدا دی جائے گی تو ہر کوئی اپنا سر اوپر کرے گا تو اس وقت دوبارہ آواز آئے گی: وہ لوگ جو ہماری آیات پر ایمان لائے اور مسلمان ہوئے۔ اس صدا کو سننے کے بعد مسلمانوں میں سے آل محمد سے محبت کرنے والوں کے علاوہ سب کے سر جھک جائنگے ۔ ا تنے میں پھر آواز آئے گی : یہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں۔یہ اور ان کے چاہنے والے جنت کی طرف جائینگے لہذا اے اہل محشر اپنے سروں کو جھکاو۔ پھر سب کے سر نیچے ہونگے یہاں تک کہ فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے ساتھ رہنے والے جنت کی طرف جائینگے ۔ پھر اللہ تعالی ایک فرشتے کو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خدمت میں بھیج دے گااور وہ فرشتہ آپ سے کہے گا : اے فاطمہ اپنی حاجات مانگو ۔ اس وقت آپ اللہ سے یہی دعا کرئینگی: خدا یا!آج کےدن مجھے اور میری اولاد کی مدد کرنے والوں کو بخش دے۔)
امام سجاد علیہ السلام نے اس روایت میں حضرت فاطمہ ، شافعہ محشر سلام اللہ علیہا کے میدان محشر میں مقام و منزلت کو بیان کیا ہے ۔ اور قیامت کی اس گھڑی کا تذکرہ کیا ہے جس گھڑی ماں اپنی ممتا کو بھول جائے گی۔ باپ بیٹے سے بے خبر ہو گا ۔ حاملہ خاتون اپنا بچہ گرا دے گی۔اس خوف وہراس کی کیفیت میں شافعہ محشر سلام اللہ علیہا کا اک الگ سا مقام ہوگا کہ اہل محشر آپ کی تعظیم میں اپنے سروں کو جھکاکے محو تماشا ہونگے ۔ اللہ تعالی کی طرف سے آپ کو یہ اعزاز ملے گاکہ آپ اپنی حاجات اس سے مانگیں تاکہ وہ عطا کرسکے۔ اس اعزاز کے ملنے کے بعد آپ اللہ سے اپنے چاہنے والوں کی مغفرت مانگیں گی۔
سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کا مقام امام محمد باقر علیہ السلام کی نگاہ میں
امام محمد باقر علیہ السلام نے حضرت زہراء مرضیہ سلام اللہ علیہا کی عظمت اور منزلت کی دو قسمیں بیان کی ہیں ۔
۱۔ پہلی قسم وہ منزلت اور مقام ہے جو آپ کو اس دنیا میں آنے سے پہلے ملا جیسا کہ ایک روایت میں آپ کا اسم گرامی اللہ تعالی کی طرف سے تجویزہونے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا:
ابِي جَعْفَرٍ ع قَالَ: لَمَّا وُلِدَتْ فَاطِمَةُ ع أَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ إِلَى مَلَكٍ فَأَنْطَقَ بِهِ لِسَانَ مُحَمَّدٍ فَسَمَّاهَا فَاطِمَةَ ثُمَّ قَالَ إِنِّي فَطَمْتُكِ بِالْعِلْمِ وَ فَطَمْتُكِ عَنِ الطَّمْثِ ثُمَّ قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ ع وَ اللَّهِ لَقَدْ فَطَمَهَا اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى بِالْعِلْمِ وَ عَنِ الطَّمْثِ بِالْمِيثَاق‏۔ 14 ( جب حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ولادت ہوئی تو اللہ تعالی نے ایک فرشتے کی طرف وحی کہ وہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے آپ کا نام جاری کرے ( پھر حکم الہی) سے پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کا نام فاطمہ رکھا پھر کہا: میں نے تجھے علم کے ذریعے جہل سے دور رکھا اور پاکی کے ذریعے حیض کی نجاست سے دور رکھا۔ پھر امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: خدا کی قسم اللہ نے عالم میثاق میں علم اور پاکی کے ذریعے زہرا ء سلام اللہ علیہا کو(نجاست سے) دوررکھا ہے۔)
اس روایت کے آخری حصے میں امام باقر علیہ السلام نے عالم میثاق میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی منزلت کی طرف اشارہ کیا کہ آپ کو جو علم اور پاکی ملی ہے وہ عالم میثاق میں ملی ہے۔ لہذا حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے اس دنیا میں آنے سے پہلے اللہ تعالی نے آپ کو پاک وپاکیزہ بنایا اور علم جیسی نعمت سے نوازا۔
۲۔ دوسری قسم کی خصوصیا ت جو امام باقر علیہ السلام نے آپ کے لئے بیان فرمائی ہیں وہ ایسی خصوصیات ہیں جو کل قیامت کےدن آپ کو ملیں گی اگرچہ آپ کامقام اس دنیا میں بھی وہی ہے جو کل قیامت کو ملے گالیکن اس مادی دنیا میں کچھ لوگوں کے علاوہ کسی نے ان کی منزلت کو نہیں پہچانا۔ اس بارےمیں آپ سے منقول وہ معروف و مشہور روایت ہےجو آپ نے جابرسے بیان فرمائی تھی۔ روایت بہت مفصل ہے پوری تفصیلات کے ساتھ یہاں نقل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اس کے علاوہ اسی مضمون سے ملتی جلتی روایت کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے۔ لہذا صرف اشارے پر اکتفا کرتےہیں۔
قیامت کے دن اللہ تعالی دنیا کی نیک خواتین کو ایک ایک کر کے محشر کے میدان میں بلائے گا اور پھر ان کے سامنے اہل محشر سے پوچھے گا کہ آج کے دن کرامت اور شرافت کس کو حاصل ہے؟ اس وقت سواے پنجتن پاک کے ،کسی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آئے گا ۔پنجتن پاک میں سے فاطمہ سلام اللہ علیہا کے علاوہ سب یہی کہیں گے کہ خدایا !آج کے دن کرامت صرف آپ کے لئے ہے۔ اس وقت اللہ تعالی کہے گا : آج کے دن میں نے پوری کی پوری کرامت پنجتن کو دے دی ہے۔ اس کےبعدحکم خدا ہوگا کہ اے اہل محشر اپنے سروں کو جھکادو میرے حبیب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی جنت کی طرف جانا چاہتی ہے ۔ اس وقت اللہ تعالی کے مقرب فرشتوں کے جھرمٹ میں آپ جنت کی طرف بڑھیں گی۔ یہاں تک کہ جنت کے دروازے پر پہنچ کر آپ رک جائیں گی تو اللہ کی طرف سے سوال ہوگا : اےمیرے حبیب کی بیٹی میں نے تجھے جنت میں جانے کی اجازت دی ہے تو کیوں رکی ہو؟ اس وقت زہراءمرضیہ سلام اللہ علیہا فرمائینگی: خدایا! میں چاہتی ہوں کہ آج کے دن لوگوں کو میری قدر ومنزلت کا علم ہوجائے۔ اس وقت اللہ تعالی کی طرف سے آواز آئےگی : اے میرےحبیب کی بیٹی اہل محشر کی طرف پلٹ جاو اور جس کے دل میں آپ اور آپ کی ذریت کے لئے محبت ہو اسے جنت میں لے جاو۔ اس کے بعد امام محمد باقر علیہ السلام جابر سے فرماتے ہیں:
وَ اللَّهِ يَا جَابِرُ إِنَّهَا ذَلِكَ الْيَوْمَ لَتَلْتَقِطُ شِيعَتَهَا وَ مُحِبِّيهَا كَمَا يَلْتَقِطُ الطَّيْرُ الْحَبَّ الْجَيِّدَ مِنَ الْحَبِّ الرَّدِي‏ء۔ 15
( خدا کی قسم اے جابر!اس دن حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیھا اپنے چاہنےو الوں کو اور شیعوں کو اس طرح میدان محشر سے چن چن کے اٹھائینگی جس طرح پرندے اچھے دانوں کو کھوٹے دانوں سے چن کے اٹھاتے ہیں۔)
یہ وہ مقام ہے جو امام محمد باقر علیہ السلام نے جناب سیدہ کونین کے لئے بیان فرمایاہے جسے عام انسان درک کرنے سے قاصر ہے۔ اگرچہ اسی مضمون کی روایت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بھی منقول ہے جو ہمارےموضوع سے متعلق نہیں۔ اس کے علاوہ امام باقر علیہ السلام سے بہت ساری روایات ہیں جن میں محشر میں آپ کی عظمت اور منزلت کا تذکرہ موجود ہے ۔ یہاں پر طوالت کے خوف سے ہم اسی روایت پر اکتفاء کرتے ہیں۔
امام محمد باقر علیہ السلام اپنی زندگی میں حضرت صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا سے متوسل ہوتے رہتے تھے اور اپنے مشکل اوقات میں خصوصا بیماری کے ایام میں آپ سے متوسل ہوتے تھے جیسا کہ روایت میں آیا ہے:
"انّ أبا جعفر الباقر عليه السّلام اذا وعك استعان بالماء البارد ثمّ ينادي- حتّى يسمع صوته على باب الدار- فاطمة بنت محمد.”16 ( امام محمد باقر علیہ السلام کو جب بھی بخار ہوتاتھا تو آپ پانی سے مدد لیتے تھے( پانی چہرے پر چھڑکاتے تھے) اور اونچی آواز میں یا فاطمہ بن محمد کہہ کر پکارتے تھے یہاں تک کہ آپ کی آواز دروازے تک سنائی دیتی تھی۔)
حضرت صدیقہ کبری سلام اللہ علیھا کا مقام امام جعفر صادق علیہ السلام کی نگاہ میں
دیگرائمہ اطہار علیہم السلام کی نسبت امام صادق علیہ السلام سے حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی عظمت اور مقام کے بارے میں بہت ساری روایات آئی ہیں اور اس کی وجہ بھی واضح ہے کیونکہ معارف دین اور تعلیمات اسلامی پھیلانے کا جو موقع آپ کو ملا وہ کسی دوسرے امام کو نہیں ملا۔ ان روایات میں سے بہت بڑی تعداد حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نوری خلقت کے بارے میں بیان کرتی ہے ۔ اس مختصر تحریر میں ان ساری روایات پر تبصرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے ان ساری روایات میں سے محض اس روایت کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں جس میں آپ کے نورانی وجودکے مختلف پہلوؤں کی طرف اشارہ ہواہے۔ اس روایت میں راوی نے امام صادق علیہ السلام پوچھا : مولا حضرت سیدہ کونین کو زہراء کیوں کہتےہیں؟ آپ نے جواب میں فرمایا:
فَقَالَ: لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ خَلَقَهَا مِنْ نُورِ عَظَمَتِهِ، فَلَمَّا أَشْرَقَتْ أَضَاءَتِ السَّمَوَاتِ وَ الْأَرْضَ بِنُورِهَا، وَ غَشِيَتْ أَبْصَارَ الْمَلَائِكَةِ، وَ خَرَّتِ الْمَلَائِكَةُ لِلَّهِ سَاجِدِينَ، وَ قَالُوا: إِلَهَنَا وَ سَيِّدَنَا، مَا هَذَا النُّورُ؟ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِمْ: هَذَا نُورٌ مِنْ نُورِي، وَ أَسْكَنْتُهُ فِي سَمَائِي، خَلَقْتُهُ مِنْ عَظَمَتِي أُخْرِجُهُ مِنْ صُلْبِ نَبِيٍّ مِنْ أَنْبِيَائِي، أُفَضِّلُهُ عَلَى جَمِيعِ الْأَنْبِيَاءِ وَ أُخْرِجُ مِنْ ذَلِكَ النُّورِ أَئِمَّةً يَقُومُونَ بِأَمْرِي، يَهْدُونَ إِلَى حَقِّي، وَ أَجْعَلُهُمْ خُلَفَائِي فِي أَرْضِي بَعْدَ انْقِضَاءِ وَحْيِي۔ 17‏
( کیونکہ اللہ تعالی نےان کو اپنی عظمت کے نور سے خلق کیاہے ۔ جب آپ کے نور کی روشنی پھیلی تو آسمان اور زمین آپ کے نور سے منور ہوگئے اور فرشتوں کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں اور سب سجدے میں گر پڑے۔اور پوچھنے لگے: خدایا! اے ہمارے معبود یہ نور کیساہے؟ پھر اللہ تعالی کی طرف سے ان پر الہام ہوا کہ یہ میرے نور میں سے ایک نور ہے جسےمیں نے آسمان میں سکونت دی ہے اور اپنی عظمت سے خلق کیا اور انبیاء میں سے ایک نبی کے صلب سے اسے دنیا میں لایا۔ سارے انبیاء پر ان کو فضیلت دی اور اس نور سے آئمہ اطہار کے نور کو خلق کیا جو میرے امر کو قائم کرتے ہیں ۔ میرے حق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ۔ میری وحی کا سلسلہ ختم ہونے کے بعد ان کو میں زمین پر اپنا خلیفہ بناؤں گا۔)
امام صادق علیہ السلام کے ان گہر بار کلمات میں سیدہ کی شان میں اتنے معارف ملتے ہیں کہ قابل شمار نہیں بلکہ قابل ادرک بھی نہیں ۔ ان میں سے صرف چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
اس روایت میں جو قابل تامل الفاظ ہیں ان میں سےایک لفظ "عظمت” ہے کیونکہ صرف یہ نہیں کہا کہ اللہ نے اپنے نور سے خلق کیا بلکہ کہا اللہ نے اپنی عظمت کے نور سے خلق کیا ۔مقام عظمت الہی کا اندازہ اور تصور بشرسے ممکن ہی نہیں ہے لیکن آیات اور روایات کی روشنی میں کسی حد تک اس مقام کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔قرآن مجید میں آیت الکرسی میں اللہ تعالی نے مقام عظمت کو مقام علویت کے بعد بیان کیاہے "وھوالعلی العظیم” اللہ تعالی کی ذات وہ ہے جو علی بھی ہے اور عظیم بھی۔ یہاں عظیم، علی کے بعد بیان ہواہے اس سے معلوم یہ ہوتاہے کہ مقام عظمت الہی مقام علویت الہی سے بلند تر ہے اور اس مقام عظمت کی نور سے زہرا مرضیہ کی خلقت ہوئی ہے ۔
امام صادق علیہ السلام کی اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ زمین اور آسمان حضرت صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کے نور کی روشنی سے منور ہیں ۔ اس نور کی عظمت یہ ہے کہ فرشتے محو حیرت میں پڑ جاتے ہیں اور اسی نور کی عظمت دیکھ کر بے اختیار سجدےمیں گر جاتے ہیں۔ ایک دفعہ آدم کی تخلیق ہوئی اور فرشتوں کو حکم ہوا کہ سجدہ کریں پھر سجدہ کیا ۔ 18 دوسری دفعہ سجدہ کرنےکا حکم تو نہیں ہوا تھا لیکن عظمت سیدہ کونین کو دیکھ کر خود بخود سجدےمیں گر پڑے۔ اس روایت میں ایک اور قابل تفکر و تامل نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کہہ رہا ہے کہ میں نے اپنے آسمان میں اسے سکونت دی ہے۔ یہ تعبیر بہت ہی قابل تامل ہے کہ یہ نہیں کہا کہ میں نے اسے آسمان میں سکونت دی ہے بلکہ کہا: اپنے آسمان میں سکونت دی ہے۔ اب لوگوں کو دنیا کے آسمانوں کی خبر نہیں ہے تو آسمان الہی کی خبر کیسے ممکن ہے اور پھر اس آسمان میں موجود نور کا علم شاید ہی کسی کو حاصل ہو۔ اور پھر فرمایا: أُفَضِّلُهُ عَلَى جَمِيعِ الْأَنْبِيَاءِ یعنی میں نے نور زہراء سلام اللہ علیہا کو سارے انبیاء پر فضیلت دی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو امام صادق علیہ السلام نے ہمیں بتایا وگرنہ کسی بشر کی عقل اور فکر میں یہ مقام و منزلت کیسے آسکتی ہے؟ اس مختصر تحریر میں امام صادق علیہ السلام کی دوسری روایات کو بیان کرنے کی بجائے اسی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
حضرت سیدہ سلام اللہ علیھا کا مقام امام موسی کاظم علیہ السلام کی نگاہ میں
امام موسی کاظم علیہ السلام نے بھی متعدد روایات میں حضرت خاتون جنت شافعہ محشر سلام اللہ علیہا کی عظمت بیان کی ہے ۔ ان ساری روایات کا بیان کرنا موجب طوالت کلام ہوگا۔ اس لئے اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کچھ ایسی روایات کے بیان پر اکتفاء کرئینگے جس سے امام ؑ کی نظر میں عظمت سیدہ واضح ہو سکے۔ آپ فرماتے ہیں:
قَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ ع صِدِّيقَةٌ شَهِيدَةٌ وَ إِنَّ بَنَاتِ الْأَنْبِيَاءِ لَا يَطْمَثْنَ۔ ( بتحقیق فاطمہ سلام اللہ علیہا صدیقہ( سچی) اور شہیدہ ہیں اور انبیاء کی بیٹیاں حیض نہیں دیکھتی ہیں)19
امام علیہ السلام نے اس روایت میں سیدہ کی دو ایسی صفات بیان فرمائی ہے جو ظاہرا سادہ ہیں لیکن اگر غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ امام نے اپنے اس کلام کے ذریعے سیدہ کی حقانیت اور مظلومیت کے ساتھ دشمنوں کے ناحق اور ظالم ہونے کو آشکار کیا ہے۔ لہذا سیدہ صدیقہ ہیں۔ صداقت کےکمال کی منزل پر آپ فائز ہیں۔ اس لئےکہیں اگر کسی چیز کا دعوی کیا ہے تو آپ بالکل حق بجانب تھیں ۔
اسی طرح آپ جناب سیدہ کونین کے مبارک نام کی برکات کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ ع يَقُولُ لَا يَدْخُلُ الْفَقْرُ بَيْتاً فِيهِ اسْمُ مُحَمَّدٍ وَ أَحْمَدَ وَ عَلِيٍّ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ أَوْ جَعْفَرٍ أَوْ طَالِبٍ أَوْ عَبْدِ اللَّهِ أَ وْ فَاطِمَةَ مِنَ النِّسَاءِ20۔
( اس گھر میں فقر و تنگدستی نہیں آتی جس میں مردوں میں کسی کا نام محمد ، احمد ، علی ، حسن ، حسین ، جعفر، طالب اور عبداللہ ہواور عورتوں میں فاطمہ ہو۔)
لہذا نام فاطمہ ہی ایک ایسا مبارک نام ہے پس جس گھر میں یہ نام ہو گااس میں بہت ساری اجتماعی، معاشی اور سماجی برائیاں نہیں آئینگی۔
مقام سیدہ کونین سلام اللہ علیھا امام رضاعلیہ السلام کی نظرمیں
امام رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
قَالَ الْعَالِمُ ع أَوَّلُ مَنْ جُعِلَ لَهُ النَّعْشُ فَاطِمَةُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّه”‏ 21
( سب سے پہلی شخصیت جس کے لئے تابوت بنایا گیا وہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھیں۔)
در حقیقت ٍامام علیہ السلام کا یہ فرمان اس روایت کی طرف اشارہ ہےکہ جس میں یہ بیان ہوا ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا: اے اسماء کیا تم نہیں دیکھ رہی ہو کہ میرا جسم روز بہ روز کمزور ہو رہا ہے میں سمجھتی ہوں کہ میری موت نزدیک ہے جب مجھے موت آئے تو میرے جنازے کو اس طرح سے مت اٹھانا کہ دیکھنے والوں کومیری جسامت کا اندازہ ہوجائے۔ اس وقت اسماء کہتی ہے : دختر پیغمبر ! جب میں حبشہ میں تھی تو اس وقت میں نے وہاں پر ایسے تابوت دیکھے ہیں جس میں انسان کی جسامت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتاہے اور وہی تابوت آپ کے لئے بنالونگی۔ پھر سیدہ نے اس سے وہ تابوت بناکے دکھانے کی خواہش ظاہر کی تو اسماء نے وہ تابوت آپ کے سامنے بنایا۔ وہ تابوت دیکھ کے آپ کو خوشی ہوئی اور فرمایا:
فَقَالَتْ فَاطِمَةُ ع مَا أَحْسَنَ هَذَا وَ أَجْمَلَهُ لَا تُعْرَفُ بِهِ الْمَرْأَةُ مِنَ الرَّجُل‏ ( کتنا خوبصورت تابوت ہے۔ اس سے معلوم نہیں ہوتا کہ جنازہ مرد کا ہے یاعورت کا) 22
لہذا امام رضاعلیہ السلام نے فرمایا کہ تابوت میں پردے کے اہتمام کے ساتھ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی کا جنازہ اٹھا۔ اس طرح مرنے کے بعد بھی پردے کا اہتمام کرنے کا اعزاز جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو حاصل ہے۔
مقام جناب سیدہ کونین سلام اللہ علیھا امام محمد تقی علیہ السلام کی نگاہ میں
امام جواد علیہ السلام کے نزدیک حضرت سیدہ کونین سلام اللہ علیہا کےمقام اور منزلت کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتاہے کہ زکریا بن آدم معروف راوی کہتاہے کہ میں امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں تھا اتنےمیں امام جواد علیہ السلام تشریف لائے جبکہ اس وقت آپ کی عمرچار سال سے بھی کم تھی اور آپ ٹھوکر کھا کر زمین پر گر پڑے ۔پھر آپ سر آسمان کی طرف اٹھا کے کافی دیر تک سوچ میں پڑے رہے جب یہ صورت حال امام رضا علیہ السلام نے دیکھی تو بیٹے سے پوچھا:بیٹا کیا سوچ رہے ہو؟ تو آپ نے فرمایا:
فَقَالَ (عَلَيْهِ السَّلَامُ): فِيمَا صُنِعَ بِأُمِّي فَاطِمَةَ (عَلَيْهَا السَّلَامُ) ( جب میں زمین پر گرا) تو اپنی مادر گرامی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ ہونے والا ظلم یاد آگیا۔) 23
اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ امام جواد علیہ السلام ہمیشہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو یاد کرتے رہتے تھے۔
ایک دفعہ راوی (موسی بن قاسم) نے امام سے کہا مولا جب مجھے حج بیت اللہ کی زیارت کرنے کی توفیق ملتی ہے تو میں آپ (ائمہ) میں سے ہر ایک کی نیابت میں زیارت کرتاہوں اس طرح راوی نے ہر ایک کا نام لیااور جب حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا نام لیا اور کہا کبھی کبھار میں ان کی نیابت میں خانہ کعبہ کا طواف کرتاہوں تو جو ں ہی حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا نام لیا تو آپ نے فرمایا:
فَقَالَ اسْتَكْثِرْ مِنْ هَذَا فَإِنَّهُ أَفْضَلُ مَا أَنْتَ عَامِلُهُ إِنْ شَاءَ اللَّه۔ 24‏
( جتنا زیادہ ہوسکے ہماری ماں زہراء سلام اللہ علیہا کی طرف سے طواف انجام دو کیونکہ یہی سب سے بہتر عمل ہے ان شاء اللہ)
اسی سے اندازہ ہوجاتاہے کہ مقام حضرت زہراء سلام اللہ علیہا امام جواد علیہ السلام کے نزدیک کتنا بلند ہے۔ کیونکہ باقی سارے ائمہ اطہار کا نام لیا تو نہیں کہا کہ اسی کو زیادہ انجام دو یہی سب سے بہتر عمل ہے لیکن جب سیدہ کا نام آیا تو کہا: یہی سب سے بہتر عمل ہے۔
خاتون جنت حضرت زہراء سلام اللہ علیھا امام علی نقی علیہ السلام کی نظر میں
ائمہ معصومین میں سے امام علی النقی الہادی علیہ السلام وہ امام ہے جن کو بنو عباس کے خلفاء نے خصوصی طور پر اپنی نگرانی میں رکھا اورآپ کے بعد آنے والے ائمہ اطہار کو بھی آپ کی طرح سامراء میں اپنی نگرانی میں رکھا اور دشمنوں نے آپ پر خصوصی نظر رکھی تاکہ آپ کا شیعوں کے ساتھ رابطہ نہ ہونے پائے یہی وجہ ہے کہ معتبر کتابوں میں آپ سے حضرت سیدہ سلام اللہ علیہا کے بارے میں روایت نہیں ملتی ہے البتہ بعض کتابوں میں آپ سے وہ روایات نقل ہوئی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمائی تھیں جنہیں یہاں پر اختصار کی خاطر بیان نہیں کرتے ہیں۔
مقام حضرت زہراء سلام اللہ علیہا امام حسن العسکری علیہ السلام کی نظر میں
امام ہادی علیہ السلام سے متعلق بیان ہوا کہ آپ کو سامراء میں بنوعباس کے خلفاء نے خصوصی نگرانی میں رکھا جس کی وجہ سے آپ معارف اہل بیت علیہم السلام کو لوگوں تک اس طرح نہیں پہنچا سکے جس طرح عام حالات میں پہنچائے جا سکتے تھے۔البتہ آپ نے لوگوں کے ساتھ ارتباط کے لئے اپنا وکیل معین کیا ہوا تھا۔ مخفی طور پر لوگوں کے سوالوں کے جوابات دیتے رہتے تھے۔ لیکن ظالم حکمرانوں کی کڑی نگرانی کی وجہ سے دیگر معارف اہل بیت کی طرح کسی معتبر کتاب میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے بارےمیں کوئی قابل ذکر روایت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ البتہ بعض کتابوں میں آپ سے منسوب ایک روایت ملتی ہے کہ آپ نے فرمایا:
نحن حجج اللَّه على خلقه و جدتنا فاطمة حجة اللَّه علينا۔ 25
( ہم اہل بیت اللہ کی مخلوقات پر حجت ہیں اور ہماری جدہ ہم پر اللہ کی طرف سے حجت ہیں۔)
لیکن جس کتاب میں یہ روایت موجود ہے وہ کتاب چودہویں صدی ھجری میں لکھی گئی ہے۔ اس سے پہلے کسی معتبر کتاب میں یہ روایت نہیں ملتی ۔اس لئے بعض علماء اس روایت کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں جبکہ دوسرے بعض علماء اس روایت کو شیعوں کے مسلمہ عقایدسے متصادم نہیں سجھتے ہیں اور قبول کرتے ہیں۔ انہیں اقوال متعارض کی وجہ سے یہاں اس روایت پر تبصرہ نہیں کرتے ہیں۔
مقام زہراءمرضیہ سلام اللہ علیھا امام عصر کی نظر میں
امام زمان علیہ السلام نے بھی اپنی کمسنی سامراء میں ہی گزاری ہے اسی وجہ سے کوئی ایسا موقع آپ کو بھی میسر نہیں آیا کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا سے متعلق فضائل اور کمالات بیان فرماتے لیکن ایک توقیع میں امام زمان علیہ السلام نے حضرت صدیقہ سلام اللہ علیہا سے متعلق ایک جملہ فرمایاہے جس میں معارف کا سمندر موجود ہے۔ کہ آپ نے فرمایا:
فِي ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ ص لِي أُسْوَةٌ حَسَنَة۔ 26
( میرے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی اسوہ حسنہ ہے(بہترین نمونہ عمل ہے)
امام زمان علیہ السلام کے نزدیک حضرت صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کا کتنا بڑا مقام ہے اس ایک جملے سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دینا ہے اور پوری دنیا پر حکومت کرنی ہے اور پوری دنیا پر عادلانہ حکومت کرنے کے لئے نمونہ عمل حضرت سیدہ کونین ہیں۔
یہاں یہ سوال انسان کے ذہن میں آتاہے کہ امام نے کس چیز میں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیا؟
اس سوال کے جواب میں تین احتمالات سے جواب دیا گیاہے: 27
۱۔ جس طرح حضرت زہراء سلام اللہ علیہا نے کسی ظالم حکمران کی بیعت نہیں کی اسی طرح امام زمان بھی کسی ظالم اور جابر حکمران کی بیعت نہیں کرئینگے۔ بعض روایات میں آپ کی غیبت کا فلسفہ بھی یہی بتایا گیاہے۔
۲۔یہ جملہ امام ؑ نے اس وقت لکھا جب شیعوں کے درمیان آپ کی امامت سے متعلق اختلاف ہوا بعض نے آپ کے وجود کا انکار کیا بعض نے قبول کیا۔ لہذا اس جملہ میں آپ یہی سمجھا نا چاہتے ہیں کہ میرا نمونہ عمل حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ہے انہوں نے حضرت علی علیہ السلامی کی خلافت کو ثابت کرنے کے لئے کسی معجزے سے کام نہیں لیا بلکہ معمول کا رد عمل دیکھایا اسی طرح میں بھی تمہارے اختلاف کو ختم کرنے کے لئے معجزے سے کام نہیں لونگا بلکہ معمول کا راستہ اپناونگا۔ اور وہ معمول کا راستہ کتابت کے ذریعے تم تک پیغام کو پہنچاناہے۔
۳۔ تیسرا احتمال یہ ہے کہ جس طرح حضرت زہرا سلام اللہ علیہا امت کے ظلم و ستم سہتے ہوئےمسلسل ان کے لئے ہدایت کرتی رہیں میں بھی تمہارے لئے دعاکرتارہونگا اگرچہ تم میرے حق میں جفا کرتے رہو لیکن میں بہر حال تمہارا خیال رکھوں گا۔
نتیجہ
ائمہ اطہار علیہم السلام میں سےجس کو بھی جتنا موقع ملا حضرت صدیقہ کبری کی عظمت اور مقام کے بارے میں بیان فرمایا ہے۔ البتہ ہر ایک نے آپ کے مختلف پہلوؤں میں سے بعض کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی میں دیکھیں تو معلوم ہوتاہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی نظر میں خود پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی بیٹی کا مقام بہت بلند تھا اور سب سے زیادہ آپ کے اللہ کے ساتھ ارتباط کے پہلوکو آپ نے بیان فرمایاہے۔ امام حسن علیہ السلام نے آپ کی عبادت اور ہمسایوں کے حقوق کو اہمیت دینے کو بیان فرمایاہے۔ امام حسین ، امام سجاد ، امام محمد باقر اور امام جعفر الصادق علیہم السلام نے آپ کی خلقت نوری کی طر ف زیادہ توجہ دی ہے۔ بعض ائمہ اطہار نے اپنے مشکل اوقات میں آپ اور آپ پر ڈھائے گئے مظالم کو بیان کیا ہے جبکہ امام عصر علیہ السلام نے آپ کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے۔
حوالہ جات

  1. [1]۔ ابن شهر آشوب مازندرانى، محمد بن على‏، مناقب آل أبي طالب عليهم السلام‏، ج‏3، ص 356، قم‏، 1379 ق‏۔
  2. [1]۔ فتال نيشابورى، محمد بن احمد، روضة الواعظين و بصيرة المتعظين‏، ج‏1، ص 151، قم‏، ۱۴۱۷ق‏۔
  3. [1]۔ نہیج البلاغہ ، خطبہ۲۳۲۔
  4. [1]۔ ابن بابويه، محمد بن على‏، علل الشرائع‏، باب ۱۶۵(قم، کتاب فروشی داوری )ح۱،  ۔
  5. [1]۔ صفار، محمد بن حسن‏  ،   بصائر الدرجات في فضائل آل محمد صلى الله عليهم، باب ۱۴،(قم ، مكتبة آية الله المرعشي النجفي‏)ح۶‏۔
  6. [1]۔ طبرى آملى صغير، محمد بن جرير بن رستم‏، دلائل الإمامة، باب اخبار فی مناقبہا (قم ، بعثت، ) ، ح۶۵‏۔
  7. [1]۔ نہج البلاغہ ، مکتوب،۴۷۔
  8. [1]۔ شریفی ، محمود ، موسوعه کلمات الامام الحسین (ع)، منظمه الاوقاف و الامور الخيريه، دار الاسوه للطباعه و النشر، قم، ۱۴۲۷ق، ص 632۔
  9. [1]۔ مفيد، محمد بن محمد، الإرشاد في معرفة حجج الله على العباد، كنگره شيخ مفيد، قم 1413 ق‏،ص۹۴۔
  10. [1]۔ قطب الدين راوندى، سعيد بن هبة الله‏، الدعوات( للراوندي) / سلوة الحزين‏، انتشارات مدرسه امام مهدى( عجل الله تعالى فرجه الشريف)،قم،1407 ق‏،ص۵۴،ح۱۳۷۔
  11. [1]۔ اربلى، على بن عيسى‏، كشف الغمة في معرفة الأئمة، بنى هاشمى‏،تبريز، 1381 ق‏، ج‏1، ص 352۔
  12. [1]۔ ابن بابويه، محمد بن على‏، معاني الأخبار، باب نوادر المعانی، (قم‏، دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه) ،ح۵۳۔
  13. [1]۔ كوفى، فرات بن ابراهيم‏، تفسير فرات الكوفي‏،( تهران‏،،مؤسسة الطبع و النشر في وزارة الإرشاد الإسلامي‏، ) 1410 ق‏، ص۴۰۹،ح۵۵۰۔
  14. [1]۔ ابن بابويه، محمد بن على‏، علل الشرائع‏،باب العلة التي من أجلها سميت فاطمة ع فاطمة، (قم‏، دفتر انتشارات اسلامى وابسته به جامعه مدرسين حوزه علميه ،)ح۴۔
  15. [1]۔ مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى‏، بحار الأنوار، باب مناقبہا وفضائلہا و بعض احوالہا و معجزاتہا، (بیروت، دار إحياء التراث العربي‏،)ح۵۷۔
  16. [1]۔ قمى، عباس‏، سفينة البحار، انتشارات اسوہ، قم‏1414 ق ، ج‏7، ص 119۔
  17. [1]۔ ابن بابويه، على بن حسين‏، الإمامة و التبصرة من الحيرة، باب في آيات ظهوره‏ ، (قم‏،مدرسة الإمام المهدى عجّل الله تعالى فرجه الشريف‏)ح۱۴۴۔
  18. [1]۔ القرآن/۲/۳۴۔
  19. [1]۔ كلينى، محمد بن يعقوب‏، الكافي‏، باب مولد الزہراء فاطمہ ، (تهران‏، دار الكتب الإسلامية،) ح۲۔
  20. [1]۔ طوسى، محمد بن الحسن‏، تهذيب الأحكام‏،باب الولادہ والنفاس والعقیقہ، (تهران‏، دار الكتب الإسلاميه‏، )ح۱۲۔
  21. [1]۔ منسوب به على بن موسى،الفقه المنسوب إلى الإمام الرضا عليه السلام‏، باب آخر فی الصلاۃ علی المیت،مشہد،مؤسسة آل البيت عليهم السلام‏، ص۱۸۹۔( حدیث نمبر درج نہیں ہے)
  22. [1]۔ اربلى، على بن عيسى‏،كشف الغمة في معرفة الأئمة، بنى هاشمى‏،تبريز، 1381 ق، ج‏1، ص: 504۔
  23. [1]۔ طبرى آملى صغير، محمد بن جرير بن رستم‏، دلائل الإمامة، باب ذکر معجزاتہ،( قم‏، بعثت‏،)ح۱۸۔
  24. [1]۔ كلينى، محمد بن يعقوب‏،  الكافي‏، باب الطواف والحج عن الائمہ، ( تهران‏،دار الكتب الإسلامية،) ح۲۔
  25. [1]۔ طيب، عبدالحسين‏، اطيب البيان في تفسير القرآن‏، اسلام‏ ، تهران‏1369 ه. ش‏، ج‏13، ص 225۔
  26. [1]۔ طوسى، محمد بن الحسن‏، الغيبة( للطوسي)، دار المعارف الإسلامية،قم، 1411 ق‏، ص 286۔
  27. [1]۔ رضوانی ،علی اصغر ، موعود شناسی وپاسخ بہ شبہات، مسجد مقدس جمکران، قم ، ۱۳۳۵ھ، ص۳۹۴۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button