سیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑسیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

احکام شرعیہ کا فلسفہ از نگاہ سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا

محمد اقبال انصاری (متعلم جامعۃ الکوثر)

مقدمہ:
اسلام دین حکمت
اسلام ادیان سماوی میں سے آخری دین اور آئین الہی ہے۔ یہ زندگی گزارنے کا دستور اور لائحہ عمل ہے۔ اس پر چل کر بنی نوع انسان جہاں روحانی سکون اور کمال حاصل کرسکتا ہے وہاں جسمانی طور پر بھی کمال اور سکون حاصل کرسکتا ہے۔ یہ وہ آئین ہے جس میں جس طرح اخروی کامیابیوں کے تقاضوں کو ملحوظ نظر رکھا گیا ہے وہاں دنیاوی زندگی کے بھی تقاضوں کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ کیونکہ دوسرے آئین اور قوانین انسانوں کےوضع کردہ ہیں جبکہ الہی ادیان کے قوانین اور آئین خالق انسان کے وضع شدہ ہیں اس لئے الہی آئین ہی میں انسانی فطری تقاضے پورے ہوتے ہیں۔ دیگرادیان الہی میں جہاں تحریف ہوئی ہے وہاں وہ قوانین قدیم زمانے کی ضروریات کے تقاضوں کے ساتھ مقرر ہوئے تھے اس لئے موجودہ زمانے میں جو الہی آئین انسانی امنگوں کو پورا کرتا ہے وہ اسلام ہی ہے اسی لئے قرآن پاک میں ارشاد الہی ہوتا ہے۔
"وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡن”
"اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا خواہاں ہو گا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔”1
اسلام کا حکمتوں پر مشتمل ہونا قرآن کریم کے بہت سارے مقامات پر ظاہر ہوتا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
الٓـمّٓ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ: الف ، لام ، یہ حکمت بھری کتاب کی آیات ہیں۔2
ذٰلِکَ نَتۡلُوۡہُ عَلَیۡکَ مِنَ الۡاٰیٰتِ وَ الذِّکۡرِ الۡحَکِیۡمِ۔ یہ اللہ کی نشانیاں اور حکمت بھری نصیحتیں ہیں جو ہم آپ کو پڑھ کر سنا رہے ہیں۔3
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ-
(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔4
ان مقامات کے علاوہ دسیوں مقامات پر اسلام اور قرآن پاک کا حکمتوں پر مشتمل ہونا واضح ہوتا ہے ۔
خطبہ سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا اور احکام شرعیہ کا فلسفہ
خطبہ فدکیہ یا خطبة لُمَّة، سیدہ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے اس خطبے کو کہا جاتا ہے جو آپ نے فدک واپس لینے کے اعتراض میں مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا۔ اس وقت حاکم نے آنحضرت (ص) سے منسوب کی گئی ایک حدیث ،جس میں یہ کہا گیا کہ انبیاء الہی اپنے بعد میراث نہیں چھوڑتے ہیں، فدک کے علاقے کو جسے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کو ہبہ کیا تھا، مصادرہ کر لیا۔ سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے انصاف سے مایوس ہو کر مسجد نبوی کا رخ کیا اور وہاں آپ ؑ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ انہوں نے اس خطبہ میں فدک پر اپنے حق مالکیت کی تصریح کی۔ اسی طرح سے انہوں نے اس خطبہ میں خلافت حضرت علی علیہ السلام بر حق ہونے کا بھی دفاع کیا اور مسلمانوں کو اہل بیت علیھم السلام پر ہونے والے ظلم کے مقابلہ میں سکوت اختیار کرنے پر سرزنش کی۔
خطبہ فدک معارف الٰہیہ کا ایک مجموعہ ہے جس میں خدا شناسی، معاد شناسی، نبوت و بعثت پیغمبر اکرمﷺ، عظمت قرآن، فلسفہ احکام و ولایت جیسے مطالب کا بیان ہے۔ان سب مطالب پر بحث کرنا ہمارے مقالے کا حصہ نہیں ہے لہذا ہم صرف اس حصے کا انتخاب کرتے ہیں جو ہمارے مقالے کا حصہ ہے یعنی سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کی نگاہ میں احکام شرعیہ کا فلسفہ ۔
خطبے کا منتخب شدہ حصہ بمع ترجمہ مندرجہ ذیل ہے۔
فَجَعَلَ اللَّـهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَكُمْ مِنَ الشِّرْكِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَكُمْ عَنِ الْكِبْرِ،وَ الزَّكاةَ تَزْكِیةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ،وَ الصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ، وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ، وَ الْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ،وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ، وَ اِمامَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ وَ الْجِهادَ عِزّاً لِلْاِسْلامِ، وَ الصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَی اسْتیجابِ الْاَجْرِ.
اللہ تعالیٰ نے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ اللہ نے نماز واجب كى تاکہ تکبر سے روکاجائے زکواۃ کو وسعت رزق اور تہذیب نفس کے لئے واجب قرار دیا۔ روزے کو بندے کے اخلاص کے اثبات کےلئے واجب کیا۔ حج کوواجب کرکے دین كى بنیاد کو استوار کیا، عدالت کو زندگی کے نظم اور دلوں كى نزدیکی کےلئے ضرورى قرار دیا، اہلبیت علیھم السلام كى اطاعت کوملت اسلامی کے نظم کےلئے واجب قرار دیا اور امامت کے ذریعے اختلاف و افتراق کاسد باب کیااور جہاد اسلام کے لئے عزت اور صبر کو اجر حاصل کرنے کے لیے مددگار قرار دیا۔
و الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلِحَةً لِلْعامَّةِ، وَ بِرَّ الْوالِدَینِ وِقایةً مِنَ السَّخَطِ، وَ صِلَةَ الْاَرْحامِ مَنْساءً فِی الْعُمْرِ وَ مَنْماةً لِلْعَدَدِ، وَ الْقِصاصَ حِقْناً لِلدِّماءِ، وَ الْوَفاءَ بِالنَّذْرِ تَعْریضاً لِلْمَغْفِرَةِ، وَ تَوْفِیةَ الْمَكائیلِ وَ الْمَوازینِ تَغْییراً لِلْبَخْسِ.
امر بالمعروف کو عمومی مصلحت کے ماتحت واجب قرار دیا، ماں باپ کے ساتھ نیکی کو ان کے غضب سے مانع قرار دیا، اجل کے موخر ہونے اور افزائش نسل کے لئے صلہ رحمی کا دستور دیا، قتل نفس کو روکنے کے لئے قصاص کو واجب قرار دیا۔ نذر کے پوراکرنے کو گناہوں کی مغفرت کاسبب بنایا، ناپ تول میں درستگی کو کم فروشی ختم کرنے کا سبب بنادیا۔
وَ النَّهْی عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزیهاً عَنِ الرِّجْسِ، وَ اجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِ اللَّـعْنَةِ، وَ تَرْكَ السِّرْقَةِ ایجاباً لِلْعِصْمَةِ، وَ حَرَّمَ اللَّـهُ الشِّرْكَ اِخْلاصاً لَهُ بِالرُّبوُبِیةِ. فَاتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقاتِهِ، وَ لاتَمُوتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُونَ، وَ اَطیعُوا اللَّـهَ فیما اَمَرَكُمْ بِهِ وَ نَهاكُمْ عَنْهُ، فَاِنَّهُ اِنَّما یخْشَی اللَّـهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ.
پلیدی سے محفوظ رہنے كى غرض سے شراب خورى پر پابندی لگائی، بہتان اور زنا كى نسبت دینے كى لعنت سے روکا، چوری نہ کرنے کو پاکی اور عفت کا سبب بنایا۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کواخلاص کے ماتحت ممنوع قرار دیا۔ پس تقوى اور پرہیزگاری کو اپناؤ جسطرح اپنانے کا حق ہے۔ دنیا سے مسلمان ہوئے بغیر مت جانا، اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی كى اطاعت کرو صرف علماء اور دانشمند خدا سے ڈرتے ہیں۔5
منتخب حصے پر ایک تدبرانہ نظر
ہمارے پیش نظر اس مختصر سے حصے میں سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے ان بیس (20) امور اسلام کے فلسفہ کو بیان فرمایا ہے:
1. ایمان کا فلسفہ:
ایمان ’’ امن ‘‘ (سلامتی)سے ماخوذ ہے۔ کیونکہ ایمان باللہ ابدی ہلاکت سے سلامتی اور بچاؤ کا موجب ہے نیز ایمان باللہ سے قلب و ضمیر کو امن و سکون ملتا ہے۔ پھر چونکہ ایمان کے بھی درجات ہیں، یعنی قلب کا ایمان (تصدیق)، زبان کا ایمان (اقرار) اور اعضائے بدن کا ایمان (عمل)، لہٰذا کامل ایمان وہ ہو گا جو ان سب کامجموعہ ہو۔ چنانچہ امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
"الْایمَانُ ھَوَ الْاِقرٰارُ بِالْلِسَانِ وَ عَقْدٌ فِی الْقَلْبِ وَ عَمَلٌ بِالْاَرکَانِ”
ایمان زبان سے اقرار، دل سے تصدیق اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنے سے عبارت ہے۔6
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام سے ایمان کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؑ نے فرمایا:
"اَلْاِیْمَانُ عَلٰۤى اَرْبَعِ دَعَآئِمَ: عَلَى الصَّبْرِ، وَ الْیَقِیْنِ، وَ الْعَدْلِ، وَ الْجِهَادِ۔”
ایمان‘‘چار ستونوں پر قائم ہے: ’’صبر‘‘، ’’یقین‘‘، ’’عدل‘‘ اور ’’جہاد۔7
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان ( حقیقی) کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے ۔
واضح رہے کہ جناب سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے شرک کو نجاست قرار دیا ہے جس کی طہارت ایمان سے ہوسکتی ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ۔۔۔۔۔اے ایمان والو! مشرکین تو بلاشبہ ناپاک ہیں۔۔۔8
2. نماز کا فلسفہ
نماز دین کا ستون اور معراج مومن ہے جو کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑی جا سکتی۔ نماز تکبر کو ختم کر دیتی ہے۔ دوسری جانب متکبر اللہ کے ناپسندیدہ بندے ہوتے ہیں : اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡتَکۡبِرِیۡنَ۔9 وہ تکبر کرنے والوں کو یقینا پسند نہیں کرتا ۔ اسی طرح قرآن پاک میں متکبرین کے لئے برے ٹھکانے کی وعید سنائی گئی ہے : فَلَبِئۡسَ مَثۡوَی الۡمُتَکَبِّرِیۡنَ ۔ تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا نہایت برا ہے۔10 اسی طرح دیگر آیات کثیرہ میں اس عمل کی سرزنش کی گئی ہے ۔ نہج البلاغہ میں مولائے کائنات علیہ السلام فرماتے ہیں: وَ اَوْحَشَ الْوَحْشَةِ الْعُجْبُ، سب سے بڑی وحشت غرور و خود بینی ہے 11۔ چونکہ یہ خلاف فطرت ہے پس جو بھی خلاف فطرت چلے گا وہ دنیا میں بھی خطرناک حالات سے دوچار ہوجاتا ہے ۔ جو انسان تکبر و خودبینی( جس کا لازمہ تکبر ہوتا ہے ) کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ بے یار و مددگار رہ جاتا ہے ۔ لوگ اس سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں۔ نتیجتا وہ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے اس لئے تکبر سے بچنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے نماز کے ذریعے انسان کو جھکنا سکھادیا ہے تاکہ انسان میں عاجزی اور انکساری جیسی صفات حمیدہ پیدا ہوجائیں۔ سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اس نورانی خطبہ میں اسی چیز کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ "الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَكُمْ عَنِ الْكِبْر”، (اللہ نے نماز واجب کی تاکہ تکبر سے روکا جائے ۔)
3. زکوۃ کا فلسفہ
زکوٰۃ اسلام کے مالی واجبات میں سے ایک ہے۔ اس کی فرضیت کا اظہار قرآن پاک کے متعدد مقامات پر ہوا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے ہوتا ہے کہ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر جہاں نماز کا ذکر ہوا ہے وہاں زکوٰۃ کا بھی ذکر ہوا ہے۔ یہ مسلمات دین میں سے ہے اس کا انکار موجب کفر ہے کیونکہ جو مسلمات دین کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہوجاتا ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم قرآن پاک میں اس طرح ہوتا ہے : وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ اور زکوٰۃ دیا کرو 12 ۔ جس طرح زکوٰۃ معاشرے کے ضرورت مند طبقے کی ضروریات پوری کرنے کا موجب ہے اسی طرح خود زکوۃ دینے والے کیلئے بھی نفع بخش ہے اسی نکتہ کی طرف جناب سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اپنے نورانی خطبے میں رہنمائی فرمائی ہے: وَ الزَّكاةَ تَزْكِیةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ : زكوة كو وسعت رزق اور تہذیب نفس کے لئے واجب قرار دیا۔ ایسا نہیں ہے کہ زکوٰۃ صرف غرباء کی ضروریات کو پوری کرنے کیلئے ایک اسلامی نظام ہے بلکہ یہ صاحب زکوۃ کے رزق میں اضافہ اور اس کی باطنی پاکیزگی کا بھی موجب بنتی ہے۔
4. روزے کا فلسفہ
روزہ ارکان دین میں سے ہے۔ اس کی ادائیگی رمضان المبارک میں ہوتی ہے ۔ اس کے وجوب اور فرضیت قرآن میں جابجا بیان ہوئی ہے قرآن پاک میں ایک مقام پر ارشاد ربانی ہوتا ہے: الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ "اے ایمان والو! تم پر روزے کا حکم لکھ دیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔13″ روزہ انسان کو بھوک و پیاس کا احساس دلاتا ہے جس سے انسان غربت زدہ انسانوں کے درد کو محسوس کرتا ہے اسی طرح اس کو اخلاص کی وادی میں لے کر آتا ہے کیونکہ روزہ کا مطلب ہے کہ انسان دن بھر بھوک و پیاس برداشت کرے تاکہ خوشنودی خدا حاصل ہو ۔ دن بھر جب وہ بھوک پیاس سے گزارتا ہے تو عاطفت کی روح اس میں بیدار ہوجاتی ہے اسی وجہ سے جذبہ اخلاص بھی ابھرتا ہے۔ پس سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اسی نکتہ کی طرف رہنمائی فرمائی ہے: وَ الصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ، ۔روزے کو بندے کے اخلاص کے اثبات کےلئے واجب کیا۔ البتہ روزہ دار کو چاہیے کہ وہ مولائے کائنات کے اس فرمان کی طرف بھی توجہ رکھے۔ مولائے متقیان علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں :
” کم مِنْ صَآئِمٍ لَّیْسَ لَهٗ مِنْ صِیَامِهٖ اِلَّا الْجُوْعُ وَ الظَّمَاُ، وَ كَمْ مِنْ قَآئِمٍ لَّیْسَ لَهٗ مِنْ قِیَامِهٖ اِلَّا السَّہَرُ وَ الْعَنَآءُ، حَبَّذَا نَوْمُ الْاَكْیَاسِ وَ اِفْطَارُهُمْ.”
بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزوں کا ثمرہ بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے عابد شب زندہ دار ایسے ہیں جنہیں عبادت کے نتیجہ میں جاگنے اور زحمت اٹھانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ زیرک و دانا لوگوں کا سونا اور روزہ نہ رکھنا بھی قابل ستائش ہوتا ہے۔14
5. حج کا فلسفہ
حج ارکان دین میں سے ہے۔ حج اسلامی قوت کا ایک مظاہرہ ہے۔ حج ایک سیاسی تعلیم ہے ۔ ہر مسلمان پر جو استطاعت رکھتا ہو زندگی میں ایک مرتبہ حج کرنا واجب ہے البتہ اسی سال حج کرنا واجب ہوجاتا ہے جس سال وہ مستطیع ہوا ہے قرآن پاک میں حج کو ان الفاظ میں واجب قرار دیا ہے: وَ اَتِمُّوا الۡحَجَّ وَ الۡعُمۡرَۃَ لِلّٰہِ ؕ اور تم لوگ اللہ کے لیے حج اور عمرہ مکمل کرو 15 ۔ حج کی تین قسمیں ہیں :۱۔ حج افراد۲۔ حج قران۳۔ حج تمتع
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے حج کا فلسفہ یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ تثبیت دین کیلئے فرض کیا گیا : وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ : حج کو واجب کرنےسے دین كى بنیاد کواستوار کیا۔
6. عدل کا فلسفہ
عدالت پر نظام الہی کا دار و مدار ہے۔ قرآن کریم میں اسے تقوی سے قریب ترین قرار دیا گیا ہے چنانچہ حکم خداوندی ہوتا ہے: "اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ،”عدل کرو! یہی تقویٰ کے قریب ترین ہے ۔16 ۔حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ عدل اور سخاوت میں سے کون سی صفت بہتر ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا:العَدْلُ یَضَعُ الْاُمُورَ مَوَاضِعَہَا وَ الْجُودُ یُخْرِجُہَا مِنْ جِہَتِہَا وَ الْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌّ وَ الْجُودُ عَارِضٌ خَاصٌّ فَالْعَدْلُ اَشْرَفُہُمَا وَ اَفْضَلُہُمَا ۔
عدل ہر چیز کو اس کے موقع محل پر رکھتا ہے اور سخاوت ہر چیز کو اس کی حد سے باہر کر دیتی ہے۔ عدل ایک اجتماعی نظام سے عبارت ہے جب کہ سخاوت ایک خصوصی مسئلہ ہے۔ لہذا عدل سخاوت سے اشرف و افضل ہے۔ 17
ایک اور فرمان میں آپ ہی سے منقول ہے کہ وَ اِنَّ اَفْضَلَ قُرَّةِ عَیْنِ الْوُلَاةِ اسْتِقَامَةُ الْعَدْلِ فِی الْبِلَادِ: حکمرانوں کیلئے سب سے بڑی آنکھوں کی ٹھنڈک اس میں ہے کہ شہروں میں عدل و انصاف برقرار رہے۔18
رسالتمآبﷺ سے روایت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا : بالعدل قامت السمٰوات و الارض ۔ زمین و آسمان عدل و انصاف کی بنیاد پر قائم ہیں 19۔ سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے عدل کو نظام کی برقراری اور دلوں کے جڑنے کا ذریعہ قرار دیا ہے : وَ الْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ: عدالت کو زندگی کے نظم اور دلوں کی نزدیکی کے لئے ضروری قرار دیا ۔
7. اطاعت اہل بیت علیھم السلام کا فلسفہ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد جن کی اطاعت کا حکم دیا تھا چونکہ ان کی اطاعت ہی دنیا وآخرت کی کامیابیاں ممکن تھیں لیکن بعد از پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگ اطاعت اہل بیت سے منحرف ہوگئے جس کے نتیجے میں سعادت کی بجائے بدبختیاں مسلمانوں کے گلے پڑ گئیں اور آج تک امت مسلمہ اس نافرمانی کا نتیجہ بھگت رہی ہے۔ ائمہ اہل بیت علیھم السلام کی پیروی سے کیونکر سعادت دنیاوی و اخروی مل سکتی تھی اس کیلئے ہمیں امیر المومنین علیہ السلام کے چند فرامین کی طرف توجہ کرنی ہوگی تاکہ ہم حقیقی معنوں میں سمجھ سکے کہ کیسے اطاعت اہل بیت علیھم السلام انسانیت کی فلاح کا ذریعہ ہوسکتی ہے؟
مولائے کائنات کا فرمان ہے: "(فَاَیْنَ تَذْهَبُوْنَ﴾ وَ ﴿اَنّٰی تُؤْفَكُوْنَ﴾! وَ الْاَعْلَامُ قَآئِمَةٌ،وَ الْاٰیَاتُ وَاضِحَةٌ، وَ الْمَنَارُ مَنْصُوْبَةٌ، فَاَیْنَ یُتَاهُ بِكُمْ؟ بَلْ كَیْفَ تَعْمَهُوْنَ وَ بَیْنَكُمْ عِتْرَةُ نَبِیِّكُمْ؟ وَ هُمْ اَزِمَّةُ الْحَقِّ، وَ اَعْلَامُ الدِّیْنِ، وَ اَلْسِنَةُ الصِّدْقِ! فاَنْزِلُوْهُمْ بِاَحْسَنِ مَنَازِلِ الْقُرْاٰنِ، وَ رِدُوْهُمْ وُرُوْدَ الْهِیْمِ الْعِطَاشِ.”
اب تم کہاں جا رہے ہو؟ اور تمہیں کدھر موڑا جا رہا ہے؟ حالانکہ ہدایت کے جھنڈے بلند، نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں اور تمہیں کہاں بہکایا جا رہا ہے اور کیوں ادھر ادھر بھٹک رہے ہو؟ جبکہ تمہارے نبی اکرم ﷺکی عترتؑ تمہارے اندر موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں ہیں۔ جو قرآن کی بہتر سے بہتر منزل سمجھ سکو وہیں انہیں بھی جگہ دو اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سر چشمہ ہدایت پر اترو۔20
قرآن پاک میں اطاعت اہل بیت کو اطاعت رسول کی مانند قرار دیا ہے: ارشاد الہی ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ:اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو۔ 21
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اطاعت اہل بیت علیھم السلام کو نظم اسلامی کا زریعہ قرار دیا ہے : وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ : اہلبیت كى اطاعت کو ملت اسلامی کے نظم کے لئے واجب قرار دیا ۔
8. امامت کا فلسفہ
امامت قوم کی رہبری کرنے کو کہتے ہیں۔ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد حضرت علی علیہ السلام اور ان کے گیارہ فرزندوں کو جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی نسل سے تھے، ان کی امامت اور اقتداء کو امت پر ضروری قرار دیا تھا یعنی انہیں اپنا جانشین بنایا تھا لیکن بعد از رحلت نبی ؐ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین کو چھوڑ کر اپنی طرف سے خلافت کی بنیاد رکھنے میں مصروف ہوگئے ۔ اس طرح امامت کا سلسلہ جو اصل میں دین اسلام کا حصہ تھا اسے خلافت و ملوکیت میں تبدیل کرکے دین اسلام کے قواعد میں سے اساسی قاعدہ کو توڑدیا۔ جس کی وجہ سے امت کا شیرازہ بکھر گیا ، ملت اسلامیہ تفرقہ کا شکار ہوگئی اور اب تک امت تفرقے کی راہ پر چل رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امت اسلامیہ اب تک تنزلی کا شکار ہے ۔ اگر اہل بیت کی امامت پر سب متفق ہوجاتے تو دنیا میں الہی حکومت نافذ ہوجاتی ، عدل وانصاف کا دور دورہ ہوجاتا ، سرکشوں کے سر کچلے جاتے ، مظلوموں ا و ربے سہاروں کی داد رسی کی جاتی اور لوگ آپس میں پیار ومحبت سے رہ رہے ہوتے ،اور اطاعت الہی میں سبقت لے جانے کی کوششوں میں لگے ہوتے دنیا کی ترقی کامل ہوچکی ہوتی لیکن افسوس ایسا کہاں نصیب انسانوں کی نافرمانی سے! ہاں ایک وقت ایسا آئے گا کہ دنیا میں حکومت الہی نافذ ہوجائیگی اور دنیا خیر و خوبیوں کے سائے میں ہوگی جبکہ ظلم و انصافی کا خاتمہ ہوگا! یہ اس وقت ہوگا جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری جانشین کا دنیا میں ظہور ہوگا جو کہ اب پردہ غیب میں ہیں ۔ جب آپ ظہور فرمائیں گے تو آپ وہ حکومت نافذ کرینگے جو سابقہ آئمہ کی آرزو تھی۔ اور انہیں اس حکومت کے نفاذ کا موقع نہ دیا گیا۔یہی وہی امامت و ولایت ہے جسے سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے امت کے تفرقہ سے بچنے کا ذریعہ بتایا ہے: وَ اِمامَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ: اور ( اللہ تعالیٰ نے) ہماری امامت کے ذریعے اختلاف و افتراق کا سد باب کیا۔
9. جہاد کا فلسفہ
جہاد کے بارے میں شرح لمعہ میں شہیدین نے فرمایا ہے کہ : الجهاد و هو أقسام‏ } جهاد المشرکین ابتداء لدعائهم للإسلام و جهاد من یدهم على المسلمین من الکفار بحیث یخافون استیلاءهم على بلادهم و أخذ مالهم و ما أشبهه و إن قل و جهاد من یرید قتل نفس محترمة أو أخذ مال أو سبی حریم مطلقا و منه جهاد الأسیر بین المشرکین للمسلمین دافعا عن نفسه و ربما أطلق على هذا القسم الدفاع لا الجهاد و هو أولى و جهاد البغاة على‏ الإمام۔ 22
اس عبارت میں شہیدین نے جہاد کی مختلف صورتیں بیان فرمائی ہیں یہاں انہوں نے پانچ صورتیں بیان کی ہیں، جہاں انسان پر بحیثیت مسلم جہاد واجب ہوجاتا ہے :
(1) وہ جہاد جو مشرکین کے خلاف ا سلئے کیا جاتا ہے تاکہ اسلام کا ستون قائم ہوجائے۔
(2) ان کفار سے جہاد جنہوں نے مسلمانوں کے مال و نفوس کو خطرے میں ڈال رکھا ہو تاکہ وہ اپنے برے عزائم سے باز آجائیں
(3) ان سے جہاد جو کسی نفس محترمہ کے قتل کے درپے ہو ں یا کسی مال محترم کو لوٹ لینے کا ارادہ کریں۔
(4) اس مسلمان شخص کا جہاد جو مشرکین کے مابین اسیر ہو تاکہ اپنا دفاع کرسکے۔
(5) باغی ( جو امام وقت کے خلاف خروج کرے) کے خلاف جہاد کرنا ۔
مذکورہ پانچ قسموں کو بنیادی طور پر دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا تھا (الف) ابتدائی (ب) دفاعی
اسلام کی اکثر جنگیں قسم دوئم سے تعلق رکھتی ہیں لیکن جہاد ابتدائی بھی بعض صورتوں میں واجب ہوجاتا ہے وہ اسلامی تعلیمات کے پھیلاؤ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف کیا جاتا ہے البتہ نبی یا امام کا اذن ضروری ہے۔
سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا نے جہاد کو اسلام کی سربلندی اور عزت کا ذریعہ قرار دیا ہے: وَ الْجِهادَ عِزّاً لِلْاِسْلامِ اور جہاد اسلام کے لئے عزت ہے۔
10. صبر کا فلسفہ
لغت میں صبر یعنی برداشت کرنا۔ 23 (ص ب ر) قدرت کے باوجود باز رہنا۔ 24
شرعی اصطلاح میں اپنے نفس کو عقل اور شریعت کے تقاضوں کے مطابق قابو میں رکھنا۔ 25
صبر،عاجزی اور بے بسی نہیں بلکہ مشکلات اور شدائد کا مقابلہ کرنے کی ایک معنوی اور روحانی طاقت کا نام ہے۔ اسی لئے اس پر انسان کو اجر ملتا ہے ۔ سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے بھی صبر کا فلسفہ یہی بتایا ہے کہ اسکو کسب اجر کی خاطر فرض کیا ہے:” وَ الصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَی اسْتیجابِ الْاَجْرِ” : اور صبر کو اجر حاصل کرنے کے لیے مددگار قرار دیا۔ اسلام روزے اور دوسرے احکام کے ذریعے صبر کی تربیت دیتا ہے۔ بعض مفسرین نے صبر سے مراد روزہ لیا ہے۔ لیکن صبر صرف روزے پر منحصر نہیں،بلکہ روزہ تو صبر کے مصادیق میں سے ایک مصداق اور اس کے تربیتی مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے۔
علل و اسباب کی دنیا میں انسان کو گونا گوں حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے اورکبھی ناکامی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ چنانچہ وہ فطری طو رپر کامیابی کے وقت خوش اور ناکامی کی صورت میں غمگین ہوتا ہے۔لیکن اگر انسان مضبوط شخصیت کا مالک ہو تو وہ خوشی کی حالت میں آپے سے باہر نہیں ہوتااور ناکامی کی حالت میں بدحواس نہیں ہوتا۔یہی صبر کے ساتھ متمسک ہونے کی نشانی ہے۔ قرآن اس قسم کی مضبوط اور آہنی شخصیت کی اس طرح مدح سرائی کرتا ہے :"لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ "”تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھ سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کوعطا ہو اس پر اترایا نہ کرو”۔ 26 پس یہی انسان اجر کا مستحق ٹھہرتا ہے اور قرآن کی مدح کے لائق ہے۔
11. امر بالمعروف کا فلسفہ:
معاشرے میں انسانی و اخلاقی اقدار کو زندہ رکھنا اور ان اقدار کا دفاع کرنا، ضمیر کو زندہ رکھنا اور اس میں احساس و شعور بیدار رکھنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل اور اسلامی معاشرے کو مختلف آلودگیوں سے پاک اور صاف رکھنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی از منکر ایک فلٹر ہے، جس سے یہ صحت مند معاشرہ ہمیشہ پاک اور صاف رہتا ہے۔اسلام اپنے معاشرے میں ایک نظام دعوت قائم کر کے بیدار، باشعور اور ہمہ وقت مستعد معاشرہ تشکیل دینے کا اہتمام کرتا ہے، جس میں کسی ظالم کو ظلم، کسی خونخوار کو استحصال اور کسی استعماری طاقت کو سازش کرنے کا موقع ہی میسر نہ آئے۔وہ معاشرہ کبھی آسودہ حال نہیں ہوسکتا، جس میں ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے کوئی طاقت، جرائم کے سیلاب کو روکنے کے لیے کوئی بند اور وحشیانہ خواہشات کو قابو کرنے کے لیے کوئی لگام میسر نہ ہو۔
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اسی نکتے کو فلسفہ امربالمعروف قرار دیا ہے اور اس عظیم الشان مطلب کو ایک مختصر سے جملے میں بھی جامعیت کے ساتھ ادا فرمایا : " الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلِحَةً لِلْعامَّةِ ": "امر بالمعروف کو عمومی مصلحت کے ماتحت واجب قرار دیا۔ ”
12. اطاعت والدین کا فلسفہ :
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے والدین کے ساتھ اچھے برتاوکا یہ فلسفہ بتایا ہے کہ : والدین کے ساتھ نیکی خداوند متعال کے غضب کو روک دیتی ہے ۔ فرمایا :” وَ بِرَّ الْوالِدَینِ وِقایةً مِنَ السَّخَطِ”: ماں باپ کے ساتھ نیکی کوخدا کے غضب سے مانع قرار دیا ۔
والدین کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ” قضی” کا لفظ استعمال کرتا ہے جو اس امر کے لیے استعمال ہوتا ہے جو زیادہ لازم اور واجب ہو 27۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اللہ نے والدین کی ساتھے نیکی اور احسان کو اپنی عبادت کے ساتھ ایک پیرائے میں بیان فرمایا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا 28۔اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ "تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیکی کرو۔”جبکہ ان کی معصیت سے نہی کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ: انہیں اف تک نہ کہنا۔29
اسی اہمیت طاعت اور انذار معصیت کو دیکھتے ہوئے سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے فرمایا ہے:” وَ بِرَّ الْوالِدَینِ وِقایةً مِنَ السَّخَطِ": ماں باپ کے ساتھ نیکی کو خدا وند کےغضب سے مانع قرار دیا۔
13. صلہ رحمی کا فلسفہ :
صلہ رحمی کا فلسفہ بتاتے ہوئے آپ فرماتی ہیں کہ: "صِلَةَ الْاَرْحامِ مَنْساءً فِی الْعُمْرِ وَ مَنْماةً لِلْعَدَدِ”اجل کے موخر ہونے اور نسل میں اضافے کے لئے صلہ رحمی کا دستور دیا. "صلہ رحمی سے انسان کی عمر بڑھتی ہے جبکہ قطع رحمی عمر کے گھٹنے کا سبب بنتی ہے۔ دوسرا فلسفہ اس کا یہ ہے کہ صلہ رحمی نسل انسانی میں اضافے کا بھی سبب بنتی ہے جبکہ اس کے برعکس عمل کا نتیجہ برعکس ہوگا۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام بھی صلہ رحمی کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے یہی دونوں چیزیں ذکر فرماتے ہیں ۔ نہج البلاغہ خطبہ 108 میں آیا ہے کہ: وَ صِلَةُ الرَّحِمِ فَاِنَّهَا مَثْرَاَةٌ فِی الْمَالِ وَ مَنْسَاَةٌ فِی الْاَجَلِ: عزیزوں سے حسن سلوک کرنا کہ وہ مال کی فراوانی اور عمر کی درازی کا سبب ہے۔ 30 یہیں سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ یہ مقدس ہستیاں اپنے اقوال و افعال اور فکر میں ایک دوسرے سے کتنا قریب ہیں۔ اور ان کے کلام و فکر میں کتنی یکسانیت ہے ۔ پس یہی چیز ان کے نمائندہ الہی ہونے کی دلیل بھی ہے۔
14. قصاص کا فلسفہ:
قصاص اسلام کی حدود کا حصہ ہے۔ یعنی تعزیرات اسلام میں سے ایک تعزیر قصاص ہے ۔ دوسرے الفاظ میں قصاص اسلام کی جزاء و سزاء کے قانون کا حصہ ہے۔ اسلام چونکہ دین حکمت ہے لہذا اس کا ہر حکم حکمت و مصلحت رکھتا ہے چنانچہ قصاص جو کہ جزاء و سزاء کے احکام میں سے ہے، اس کا بھی ایک فلسفہ اور حکمت ہے اسی فلسفہ کو سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے دربار کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ یہ انسان پر اس لئے فرض کیا گیا ہے تاکہ خونریزی کی روک تھام ہو ۔ یہ بھلا کیسے ہوگا؟ اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں قرآن کی طرف رجوع کرنا ہوگا قرآن کہتاہے : "وَ لَکُمۡ فِی الۡقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ 31۔ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں کہ:
"جب آدمی کو یقین ہو گا کہ اگرقتل کیا تو اس کے بدلے میں اپنی جان بھی دینی پڑے گی تو وہ قتل کا عمل انجام دینے سے گریز کرے گا۔ بنابریں قانون قصاص قتل کی روک تھام کا نہایت مؤثر ذریعہ ہے۔”
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر قصاص کا قانون نہ ہوتا تو مقتول کے ورثاء اپنے قتل کا انتقام خود لیتے اور ایک کے بدلے کئی افراد کو مارتے اور جواباً ان کے بھی کئی افراد قتل ہو جاتے اور اس طرح بہت سی جانیں ضائع ہوتیں۔ چنانچہ اسلامی تعزیرات نافذ نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے قبائل میں آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔قانون قصاص کے نفاذ سے اسلامی معاشرے کے افراد کو حیات نو مل جاتی ہے،کیونکہ اس میں قانون اور حکومت کے ذریعے صرف قاتل سے قصاص لیا جاتا ہے، دوسرے لوگوں کو تحفظ مل جاتا ہے۔ اس طرح قصاص سے مقتول کے ورثاء کی تشفی ہو جاتی ہے اور جذبۂ انتقام و کدورت کم ہو جاتا ہے۔
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا اسی قرآنی فلسفے کی طرف توجہ دلا رہی ہیں چنانچہ آپ ؑکا جملہ مبارک یہ ہے: وَ الْقِصاصَ حِقْناً لِلدِّماءِ:قتل نفس کو روکنے کے لئے قصاص کو واجب قرار دیا۔
15. نذر کے پورا کرنے کے وجوب کا فلسفہ
"نذر” لغت میں ” منت ماننے” کو کہتے ہیں، 32 ۔ فقہی اصطلاح میں یہ ہے کہ: انسان اپنے اوپر یہ واجب کرلے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کوئی اچھا کام کرے گا یا کوئی کام (جس کا نہ کرنا بہتر ہو) ترک کردے گا۔ ۔ 33
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نذر کے وجوب کو ان الفاظ میں واجب قرار دیتا ہے: "وَ بِعَہۡدِ اللّٰہِ اَوۡفُوۡا” 34 :اور اللہ سے کیا ہوا عہد پورا کرو۔
سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اس کا فلسفہ یہ بتایا ہے کہ اس کا پورا کرنا انسان کے گناہوں کی مغفرت کا سبب بنتا ہے : "وَ الْوَفاءَ بِالنَّذْرِ تَعْریضاً لِلْمَغْفِرَةِ”: نذر کے پورا کرنے کو گناہوں کی مغفرت کا سبب بنایا۔ قرآن پاک میں بھی محبوب خدا ہونے کا معیار عہد کی پابندی اور تقویٰ کو قرار دیا ہے۔
حوالہ جات:

  1. القرآن الکریم 3:85
  2. القرآن الکریم 1,2: 31
  3. القرآن الکریم 3: 58
  4. القرآن الکریم 16:125
  5. احتجاج طبرسی 1:128، بلاغات النساء 1: 20
  6. اصول الکافی ۲ : ۲۷ از تفسیر کوثر شیخ محسن علی نجفی
  7. نہج البلاغہ مترجم مفتی جعفر حسین ، کلمات قصار نمبر 30
  8. القرآن الکریم 9: 75
  9. القرآن الکریم 16: 23
  10. القرآن الکریم 16:29
  11. نہج البلاغہ از مفتی جعفر حسین کلمات قصار نمبر 38
  12. القرآن الکریم : متعدد مقامات
  13. القرآن الکریم 1: 183
  14. نہج البلاغہ مفتی جعفر حسین : کلمات قصار :145
  15. القرآن الکریم 1: 196
  16. القرآن الکریم 5: 8
  17. نہج البلاغہ مکتوب ۴۳۷
  18. نہج البلاغہ مکتوب : 53
  19. تفسیر الکوثر 5: 8
  20. نہج البلاغہ خطبہ: 85
  21. القرآن الکریم : 4: 59
  22. شرح لمعہ باب الجہاد
  23. القاموس : ص ب
  24. تفسیر الکوثر: شیخ محسن علی نجفی
  25. تفسیر الکوثر شیخ محسن علی نجفی
  26. {۵۷ حدید : ۲۳}
  27. تفسیر الکوثر شیخ محسن علی نجفی
  28. القرآن الکریم:17؛23
  29. القرآن الکریم 16 23
  30. نہج البلاغہ خطبہ: 108
  31. القرآن الکریم 1: 189
  32. القاموس: نذر
  33. توضیح المسائل: آیت اللہ سیستانی، منہاج الصالحین

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button