سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

حضرت فاطمہ زہرا ءسلام اللہ علیہا کے چند اہم عملی سیرت کے نمونے

محمد ذاکر رضوان
تمہید(Abstract)
انسانی تاريخ ميں عورت کی داستان دردناک ہے، جسمانی اعتبار سے مرد سے كمزور تصور کئے جانے کی بناء پردنیا میں اس صنفِ نازک پر ظالم و جابر ہميشہ اس کی نازکی كو پامال كرتے رہے۔ اس سلسلہ ميں کیسے کیسے مظالم ڈهائے گئے، خاص طور پر زمانہ جاہلیت میں عرب كے اس ماحول ميں عورت کی شخصيت كو كس طرح كچلاگیا لوگ اسے انسان سمجھ کے نہیں بلکہ اسے مال سمجھ کر اس کی خريد و فروخت كرتے رہے اور ان كے لئے ميراث کا قائل ہونا تو دور کی بات لڑكی كی پيدائش كو ہی باعث ننگ و عار سمجھتے تهے اور تاريخ شاہد ہے کہ اپنی ہی لخت جگر كو زنده درگور كر كے بھی كوئی خفت محسوس نہيں كرتے تهے۔ اس سلسلہ میں قانون فطرت كا بھی ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا ليكن جب اسلام نے انسانی اقدار كو زنده كرنے كے لئے اپنا نورہویدا کیا تو جاہلیت کے ساتھ سخت مقابلہ کرتے ہوئے عورت كی پامال شده شخصيت كو انسانی روپ میں زنده كيا۔
خداوند عالم نے عورت کی شخصيت كو انسانی معاشره ميں مزید اجاگر كرنے كے لئے اپنے حبيب كو ايک ايسی بيٹی عطا کی جس كے ساتھ رسول اكرم كا رہن سہن اور سيده كونين كی عملی زندگی ديكھ كر اسلامی اور انسانی معاشره ان سے درس لے اور ان كو اپنی زندگی كے لئے نمونہ عمل قرار دے۔ حضرت فاطمه زہرا ؑ کی زندگی كا ہر پہلو الٰہی اقدار سے عبارت تها اور اسلامی تعلیمات كا ایک مجسمہ فاطمہ ؑ کی شكل ميں خداوند متعال نے عطا کی جو علم و دانش، حجاب و عفت، ازدواجی زندگی ، شوہر داری ، اولاد کی تربيت، معاشی کمک اور سياسی و اجتماعی ميدان ميں آج كی خواتين كے لئے ایک مكمل نمونہ عمل ہے۔ لہٰذا آج كی خواتين کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس عظيم ہستی كو اپنے لئے نمونہ بنائیں تاكہ ان كی پيروی كركے سعادت كی منازل طے کر سکیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰ لہ وسلم اپنی بیٹی کی تربيت کے لئے اپنی تمام تر كوششيں بروئے كار لائے یہاں تک کہ وہ صنف نسواں كے لئے نمونہ عمل بنیں۔ آپ نے اپنی بيٹی كی اس طرح تربيت كی کہ حضرت فاطمہ ؑ ،سيدۃ نساء عالمين كے لقب کی مستحق بنیں۔ آپؑ کے سارے کمالات صرف چند فضیلتوں پر منحصر نہیں کہ آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی اور علی ؑ کی زوجہ اور حسنین ؑ کی ماں ہیں، بلکہ آپ میں بہت سے کمالات تھے جن کی وجہ سے آپ مذکورہ فضیلتوں کی مالکہ بنیں، آپ میں کچھ ایسے کمالات تھے جنہوں نے آپ کو اس قابل بنایا کہ آپ ان تین نسبتوں (دختر رسول، ہمسر علی و مادر حسنین )بنیں ۔ شیعہ سنی کتابوں میں آپؑ کی عظمت و فضلیت میں بہت سی روایات ملتی ہیں ۔آپ کی فضیلت کے لئے اتنا کافی ہے کہ رحمت للعالمین نے آپ کو (سیدة نساءالعالمین) عالمین کی عورتوں کے لئے سردار قرار دیا۔اس زیر نظر مختصر مقالہ میں حضرت فاطمہ زہرا ؑ کی زندگانی کے چند اہم نمونوں کا ذکر کیا جارہا ہے ۔جو کہ درج ذیل ہیں:
سیرتِ فاطمہ سلام اللہ علیھا میں پردہ کی اہمیت
سیرتِ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا میں غور کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ آپ میں شرم و حیا کا جو ہر بدرجہ کمال موجود تھا ۔ آپؑ چھوٹی عمر میں ہی پردہ کرنے کو اہمیت دیتی تھی ۔بلا ضرورت اور بلا سبب کبھی باہر نہ نکلتی تھیں۔اگر نکلنا پڑتا تو چادر اورنقاب اوڑھ لیتیں ۔ کیونکہ آپ ؑ نے سایہ رسالت مآب میں زندگی بسر کی تھیں۔ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے ہاں تشریف لے گئے ۔آپؐ کے ساتھ ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم بھی تھے۔حضرت فاطمہ ؑ نے دیکھتے ہی اس سے پردہ کیا ۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا ،بیٹی تم کیوں چھپ گئی تھیں ام مکتوم تو نابینا ہیں۔سیدہ عالم نے جواب دیا : ابا جان ! اگر وہ نابینا ہیں تو میں تو نابینا نہیں ہوں کہ خواہ مخواہ غیر محرم کو دیکھا کروں!(1 ) آپ سلام اللہ علیہا کا یہ جواب پوری کائنات کی خواتین کے لئے ایک ایسا نمونہ ہے کہ ایسے عملی نمونہ کسی اور کی زندگی میں نہیں ملتے ۔اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ دین اسلام نے عورتوں کو محبوس و مقید کردیا ہے اور انہیں گھر کی چاردیواری سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی ۔جیساکہ بعض مستشرقین اور اپنے آپ کو ماڈرن کہنے والے لوگ کہتے پھرتے ہیں ۔اسلام تو یہ کہتا ہے کہ مسلم عورتوں کے بدن کا کوئی حصہ کسی نامحرم کو نظر نہ آئے ۔وہ بے شک ضرورت کے وقت باہر نکلیں ، مگر شرعی پردہ کے ساتھ جائیں ۔یہ سب اس لئے ہے کہ اسلام میں عورت کا مقام و منزلت بہت بلند ہے۔اسلام میں عورت سے بڑھ کر کوئی قیمتی گوہرنہیں اس قیمتی گوہر کی حفاظت جتنا ممکن ہو بے حد ضروری ہے۔
سیرت ِ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا علمی نمونے
انسان كے لئے علم و دانش كا ہونا ایک بہت بڑی فضيلت ہے اور خداوند عالم نے انسانوں كے لئے اسے عظيم سرمايہ قرار ديا ہے، علم كامل انبيا ءؑ اور معصومين ؑ كے اختيار ميں ہے تاكہ وہ انسانوں كی ہدايت كريں حضرت فاطمہ زہرا ؑ انہی افراد ميں سے تهیں۔ آپ نے اپنے علم كو خدا سے كسب كيا اسی لئے آپ كے القابات میں سے ايک مُحدَّثَہ ہے، يعنی فرشتے آكر آپ کو آیندہ پیش آنے والے امور کے علوم سناتے تهے(2 )۔ مجموعی طور پر ہماری روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ مصحف فاطمہ لکھنے والا امیرالمومنین ؑ تھے،حمادبن عثمان نے امام صادق ؑ سے مصحف فاطمہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا جو بھی جناب فاطمہ ؑ سے سنا آپ لکھتے گئے یہاں تک کہ ایک بڑی مصحف بن گئی(3 )۔آپؑ کے علمی مقام کا اندازا اس بات سے بھی عیاں ہوجاتی ہے ک آپؑ كی كنیز فضہ آپ كے جوار ميں ره كر اس مقام تک پہنچیں، نہ صرف حافظ قرآن تھیں بلكہ بيس سال تک ہر بات كا جواب آيات قرآنی سے ديا كرتی تھیں۔آپؑ کی کنیز کی علمی حالت ایسی تھی تو خود حضرت فاطمہ کی علمی منزلت کس قدر زیادہ ہوگی۔
سیرتِ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا كے گھریلو اور ازدواجی زندگی کےنمونے
ازدواج انسان كی زندگی كے بہت بڑے اتفاقات ميں سے ايک ہے، اگر ہم كفو اور مناسب ہمسر مل جائے، تو دنيا اور آخرت دونوں كی سعادت كا مالک بن سكتا ہے، خاندان کی تشكيل كے لئے سب سے پہلا قدم خواستگاری ہے۔کیونکہ زندگی ایک ایسا مرکز ہے جس میں نشیب وفراز پائے جاتے ہیں زندگی میں کبھی انسان خوش ، کبھی غمگین ، کبھی آسائش اور کبھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا هے اگر میاں بیوی با بصیرت اشخاص ہوں تو سختیوں کو آسان اور ناہموار کو ہمورا بنادیتے ہیں۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اس میدان میں ایک کامل نمونہ ہیں آپ بچپن سے ہی سختی اور مشکل میں رہیں اپنی پاک طبیعت اور روحانی طاقت سے تما م مشکلات کا سامنا کیا اورجب شوہر کے گھر میں قدم رکھا تو ایک نئے عہد کا آغاز ہوا اس وقت آپ کی شوہرداری اور گھریلوزندگی کی اخلاقیات کھل کر سامنے آئیں ۔حضرت زہراء سلام اللہ علیھا اور علی عليهما السلام كے ازدواج کے حوالے سے تفسیر در منثور میں مفسر نے یو ں بیان کیا ہے کہ آپؑ دونوں کا ازدواج سوره رحمٰن كی ان آیات کےمصداق ہے۔(4 )
﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیانِ بَیْنَهُما بَرْزَخٌ لایَبْغِیانِ یَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجانُ﴾(5 )
امام صادق عليہ السلام سے مروی ہے، مرج البحرين يلتقيان سے مراد نبوت اور ولايت كے دريا کا آپس ميں مل جانا ہے اور لوءلوء والمرجان سے مراد حسنين عليهما السلام ہيں(6 )۔احادیث اور تاریخی مصادر میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہؑ امام علیؑ کے ساتھ مختلف انداز سے حتی پیغمبر اکرمؐ کے حضور میں بھی محبت سے پیش آتی تھیں اور آپ کو بہترین شوہر مانتی تھیں(7 )۔حضرت علیؑ کا احترام آپؑ کی نمایاں خصوصیات میں سے ہے۔ تاریخ میں ملتا ہے کہ آپؑ گھر کے اندر حضرت علیؑ کے ساتھ محبت‌ آمیز گفتگو فرماتی تھیں(8 )اور لوگوں کے سامنے حضرت علیؑ کو ان کی کنیت ابا الحسن سے پکارتی تھیں(9 )۔ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ حضرت فاطمہؑ حضرت علیؑ کیلئے خود کو عطر اور زینتی وسائل سے آراستہ فرماتی تھیں(10 )۔
ازدواجی زندگی کے ابتدائی ایام میں حضرت فاطمہؑ اور حضرت علیؑ کو انتہائی سخت اور کٹھن معاشی حالات کا سامنا تھا (11 )۔ یہاں تک کہ بعض اوقات حسنینؑ کیلئے پیٹ بھر کھانا بھی میسر نہ ہوتا تھا۔مگر حضرت فاطمہؑ نے اس حوالے سے کبھی کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں کی اور بعض اوقات گھریلو اخراجات پورا کرنے کی خاطر اپنے شوہر کی مدد کی غرض سے اون بھی کاتا کرتی تھیں(12 )۔گھر کے اندرونی معاملات حضرت فاطمہؑ جبکہ باہر کے معاملات حضرت علیؑ انجام دیتے تھے(13 )یہاں تک کہ جس وقت پیغمبر اکرمؐ نے فضہ کو بطور کنیز آپ کی خدمت کیلئے بھیجا تو اس وقت بھی آپ گھر کے تمام امور ان کے ذمہ نہیں لگاتی تھیں بلکہ آدھے امور خود انجام دیتیں اور آدھے امور فضہ کے سپرد فرماتی تھیں(14 )۔اس سلسلے میں تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ایک دن گھر کے کام کاج فضہ انجام دیتیں جبکہ دوسرے دن آپ خود انہیں انجام دیتی تھیں(15 )۔
حضرت فاطمہ زهرا ؑ نے اپنے حق مہر كے ذريعے دنيا كی عورتوں كو يہ پيغام ديا كہ مہر زیادہ رکھنے میں عورت كی خوش بختی نہيں ہے، بلكہ ایسا مہر رکھا جائے جو شوہر كی اقتصادی زندگی كے ساتھ مناسب ہو چونكہ حق مہر ايک تحفہ اور هدیہ ہے، جس ميں مرد كی رضامندی اور خوشنودی كا خيال ركهنا بھی لازمی ہے۔ پيغمبر اكرم ؐ نے اپنی بيٹی كی رضايت كے بغير كسی كو بهی مثبت جواب نہيں ديا، شوہر كے انتخاب ميں بيٹی كی رضايت كا مكمل خيال ركها گيا، آپ صلّی اللہ عليه وآلہ والسلام نے داماد كو كسی طرح كے بهی اضافی اخراجات دينے پر مجبور نہيں كيا، حضور صلی الله عليه وآله وسلم كے فرمان كے مطابق شادی كے دن وليمہ كی غذا كا كچھ حصہ مدينہ كے فقراء اور مساكين كے گهروں ميں بهيج دیا گیا تاكہ اس شادی كی خوشی ميں سب شریک ہوں، اس میں بھی ہمارے لئے درس ہے۔
سیرتِ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی سیاسی بصیرت کے نمونے
حضرت فاطمہؑ کی مختصر زندگی میں مختلف معاشرتی سرگرمیوں کے علاوہ سیاسی موقف بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہجرت مدینہ، جنگ احد،جنگ خندق کے موقع پر زخمیوں کی دیکھ بھال، مجاہدین تک جنگی ساز و سامان کی ترسیل اورفتح مکہ کے موقع پر آپ کی موجودگی سماجی سرگرمیوں میں سے ہیں لیکن آپ کے سیاسی موقف کا اظہار پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس مختصر عرصے میں اسلامی حکومت کے سیاسی منظر نامے پر حضرت فاطمہؑ کا سیاسی موقف کچھ یوں دیکھنے میں آیا:
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کا مباہلہ کے لئے انتخاب
صدر اسلام کی مسلمان خواتین میں سے حضرت فاطمہؑ وہ اکیلی خاتون ہیں جنہیں پیغمبر اکرمؐ نے نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کیلئے منتخب فرمایا تھا۔ یہ واقعہ قرآن مجید کی آیۂ مباہلہ میں ذکر ہوا ہے۔ تفسیری، روائی اور تاریخی مصادر کی روشنی میں آیت مباہلہ اہل‌ بیت پیغمبرؐ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے(16 )۔کہا جاتا ہے کہ فاطمہؑ، امام علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ اس واقعے میں پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ مباہلے کیلئے گئے اور ان اشخاص کے علاوہ پیغمبر اکرمؐ نے کسی کو بھی اپنے ساتھ نہیں لیا(17 )۔
حضرت فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھاکی سیاسی جد و جہد میں فدک کی ملکیت کے لئے جو آپؑ نے خطبہ دیا وہ انتہائی اہمیت کے حامل ہے۔
خطبہ فدکیہ:
حضرت فاطمہؑ کے اس خطبے کو کہا جاتا ہے جو آپ نےحضرت ابو بکر کے فدک واپس لینے کے اعتراض میں مسجد نبوی میں ارشاد فرمایا۔ حضرت ابوبکر نے خلافت حاصل کرنے کے بعد آنحضرت ؐ سے ایک حدیث منسوب کرکے جس میں یہ کہا گیا کہ انبیاء الہی اپنے بعد میراث نہیں چھوڑتے ہیں، فدک کے علاقے کو جسے آنحضرت ؐ نے حضرت فاطمؑہ کو ہبہ کیا تھا، خلافت کی طرف سے مصادرہ کر لیا۔ فاطمہ نے انصاف سے مایوس ہو کر مسجد نبوی کا رخ کیا اور اور وہاں آپ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ انہوں نے اس خطبہ میں فدک پر اپنے حق مالکیت کی تصریح کی۔ اسی طرح سے انہوں نے اس خطبہ میں خلافت حضرت علی ؑکے حق ہونے کا بھی دفاع کیا اور مسلمانوں کو اہل بیت ؑ پر ہونے والے ظلم کے مقابلہ میں سکوت اختیار کرنےپر سرزنش کی(18 )۔
خطبہ فدک معارف کا مجموعہ ہے جس میں خدا شناسی، معاد شناسی، نبوت و بعثت پیغمبر اکرم ؐ ، عظمت قرآن اور فلسفہ احکام و ولایت جیسے مطالب کا بیان ہے۔(19 )
خطبہ فدکیہ کی سند
علامہ مجلسی نے خطبہ فدکیہ کو مشہور خطبوں میں شمار کیا ہے جسے شیعہ و اہل سنت نے مختلف سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے( 20 )۔ شیخ صدوق نے بھی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں اس کے بعض حصے نقل کئے ہیں( 21 )۔آیت اللہ منتظری کے مطابق اس خطبہ کی قدیم ترین سند کتاب بلاغات النساء تالیف احمد بن طاہر مروزی ہے جو ابن طیفورکے نام سے مشہور اہل سنت عالم دین ہیں جو زمانہ کے اعتبار سے امام علی نقی ؑ و امام حسن عسکری ؑ کے معاصر تھے(22 )۔ابن طیفور نے اس خطبہ کو دو روایت سے ضبط کیا ہے(23 )۔البتہ سید جعفر شہیدی کے بقول متاخر اسناد میں دونوں روایتیں خلط ملط ہوکر ایک ہی صورت میں نقل ہوئی ہیں(24 )۔ بہرحال خطبہ فدکیہ کے لئے 16 منابع ذکر ہوئے ہیں۔
نقل ہوا ہے کہ امام حسن ،امام حسین ،حضرت زینب ،امام باقر ، امام صادق ، حضرت عائشہ، عبدالله بن عباس علیہم السلام وغیرہ اس خطبے کے راویوں میں شامل ہیں(25 )۔
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی زندگی میں اقتصادی نمونہ
حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا اقتصادی حوالے سے بھی ہمارے لیے اسوہ کامل ہیں سخاوت کے میدان میں آپ اپنے پدر بزرگوار کے نقش قدم پر چلتی تھیں ۔کیونکہ آپ نے اپنے بابا سے سن رکھاتھا” السخی قریب من الله” سخی الله کے قریب ہوتا ہے ۔
جابر بن عبد الله انصاری کا بیان ہے کہ رسو ل خدا نےہمیں عصر کی نماز پڑھائی جب تعقیبات سے فارغ ہوگئے تومحراب میں ہماری طرف رخ کرکے بیٹھ گئے لوگ آپ کو ہر طرف سے حلقہ میں لیے ہوئے تھے کہ اچانک ایک بوڑھا شخص آیا جس نے بالکل پرانا لباس پہنا ہوا تھا یہ منظر دیکھ کر رسول خدا نے اس کی خیرت پوچھی اس نے کہا:ا ے الله کے رسول میں بھوکا ہوں لہذا کچھ دیجئے میرے پاس کپڑا بھی نہیں ہیں مجھے لباس بھی دیں۔ رسول خدا نے فرمایا فی الحال میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے لیکن تم اس کے گھر جاؤ جو الله اور اس کے رسول سےمحبت کرتاہے اورالله اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں جاؤ تم فاطمہ کی طرف اور بلال سے فرمایا تم اسے فاطمہ کے گھر تک پہنچا دو۔فقیر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کے دروازہ پررکا بلند آواز سے کہا نبوت کے گھرانے والو تم پر سلام ۔شہزادی کونین نے جواب میں کہا تم پر بھی سلام ہو ۔تم کون ہو ؟کہا میں بوڑھا اعرابی ہوں آپ کے پدر بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تھا لیکن رسول خدا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔ میں فقیرہوں مجھ پر کرم فرمائیں خدا آپ پر اپنی رحمت نازل فرمائے حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے اپنا ہار یا گلو بند جو آپ کو حضرت حمزہ کی بیٹی نےہبہ کیا تھا اتار کر دے دیا اور فرمایا امید ہے کہ خدا تم کو اس کے ذریعے بہتر چیز عنایت فرمائے ۔اعرابی ہارلے کر مسجد میں آیا حضور مسجد میں تشریف فرماتھے عرض کیا اے رسول خدا: فاطمہ زہرا نے یہ ہار دے کر کہا اس کو بیچ دینا حضور یہ سن کر روپڑے اس وقت جناب عمار ىاسر کھڑے ہوئے عرض کہا یارسول الله کہا مجھے اس ہا رکے خریدنے کی اجازت ہے رسول خدا نے فرمایا خرید لو جناب عمار نے عرض کی اے اعرابی یہ ہار کتنے میں فروخت کرو گے اس نے کہا اس کی قیمت یہ ہے کہ مجھے روٹی اور گوشت مل جائے اور ایک چادرمل جائے جسے اوڑھ کر میں نماز پڑھ سکوں اور اتنے دینار جس کے ذریعے میں گھر جاسکوں۔ جناب عمار اپنا وہ حصہ جو آپ کورسول خدا نےخیبر کے مال سے غنیمت میں دیا تھا قیمت کے عنوان سے پیش کرتے ہوئے کہا :اس ہارکے بدلے تجھےبیس دینار،دوسو درہم ٬ ایک بردیمانی ٬ ایک سواری اور اتنی مقدار میں گیہوں کی روٹیاں اور گوشت فراہم کررہا ہوں جس سے تم بالکل سیرہوجاؤ گے۔جب یہ سب حاصل کیا تو اعرابی رسول خدا کے پاس آیا ۔رسول خدا نے فرمایا کیا تم سیرہوگئےہو؟ اس نے کہا میں آپ پر فدا ہوجاؤں بے نیازہو گیا ہوں۔جناب عمار نے ہار کو مشک سے معطر کیا اپنے غلام کو دیا اور عرض کیا ا س ہار کو لو اور رسول خدا کی خدمت میں دو اور تم کوبھی آج سے رسول خدا کو بخش دیتا ہوں۔ غلا م ہار لے کر رسول خدا کی خدمت میں آیا او رجناب عمار کی بات بتائی رسول خدا نے فرمایا یہ ہار فاطمہ کو دو اور تمہیں فاطمہ کو بخش دیتا ہوں۔ غلام ہار لے کر حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی خدمت میں آیا اور آپ کو رسول خدا کی بات سے آگاہ کیا۔حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے و ہ ہار لیا اور غلام کو آزاد کردیا۔ غلام مسکرانے لگا ۔ حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے وجہ پوچھی تو غلام نے کہا مجھے اس ہا ر کی برکت نےمسکرانے پر مجبور کیا جس کی برکت سے بھوکا سیرہو ا اورخستہ لباس کو لباس اور غلام آزادہوگیا پھر بھی یہ ہا ر اپنے مالک کے پاس پلٹ گیا( 26 )۔
نتیجہ:
خلاصہ یہ کہ حضرت فاطمہ زہراؑ منصب امامت کے لحاظ سے تو اگرچہ پیغمبر گرامی ﷺکی جانشین نہیں تھیں لیکن وجودی کمالات اور منصب عصمت و طہارت کے لحاظ سے کوئی دوسری خاتون اولین و آخرین میں سے ان جیسی نہیں ہے۔ جناب سیدہ ؑ علمی ،عملی ،اخلاقی،اور تربیتی حوالے سے نمونہ عمل ہیں۔ انسان کی دینی و دنیاوی سعادت اس بات میں مضمر ہے کہ وہ ان ہستیوں سے متمسک رہے جنہیں اللہ نے”اسوہ حسنہ”قرار دیا ہے۔بنابرین حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا کی زندگی ہماری زندگی کے ہر شعبے میں نمونہ عمل اور قابل تقلید ہے ۔

حوالہ جات:

  1. القرآن
  2. ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر،تفسیر القرآن العظیم، 1412 دار المعرفت،بیروت،1412ھ، ج1، ص379
  3. ابن‌اثير، الکامل فی التاريخ، دار الصادر ،بیروت ، 1385ھ، ج:2، ص:293
  4. ابن طیفور، احمد بن ابی‌ طاہر خراسانی، بلاغات النساء،دار الکتب المصریہ ،1326ھ ، ص:۱۷-۲۵.
  5. ابن‌ شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل‌ابی ‌طالب، المکتبۃ و المطبعۃ الحیدریہ ، نجف، 1376ھ، ج:3، ص:131
  6. ابن ‌سعد،محمد بن سعد ، الطبقات الکبری، دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،  1410ھ،ج8، ص25
  7. الانصاری الزنجانی الخوئنی ، اسماعیل ، الموسوعۃ الکبری عن فاطمۃ الزہراء، انتشارات دلیل ما،قم، 1428ھ، ج‏17، ص429۔
  8. امینی ، آیۃ اللہ ابراہیم ،اسلام کی مثالی خاتون،(مترجم،اخترعباس)،دارالثقافہ اسلامیہ ،1470 ھ، ص:191
  9. پور سیدآقایی، مسعود، خطبہ های فاطمی، در دانشنامہ فاطمی، ۱۳۹۳ش.ص:47
  10. ترمذی، محمد بن عیسیٰ ،سنن الترمذی، دار الفکر ، بیروت،  1403ھ، ج4، ص293 و 294۔
  11. جوہری بصری، ابوبکر احمدبن عبدالعزیز، السقیفۃ و فدک، تحقیق: محمد ہادی امینی، تہران، مکتبۃ النینوی الحدیثہ، ۱۴۰۱ق.
  12. حاکم نیشابوری،محمد بن عبد اللہ ،المستدرک علی الصحیحین، دار المعرفۃ ،بیروت، ج 3، ص 154
  13. حمیری، عبد اللہ بن جعفر، قرب الإسناد، موسسہ آل البیت الاحیاء التراث ،قم،1413ھ، ص52۔
  14. خوارزمی، موافق بن احمد ،المناقب،نشر اسلامی ، قم، 1411ھ، ص268
  15. سیوطی، جلال‌ الدین، الدر المنثور فی تفسیر بالمأثور، قم، کتابخانہ مرعشی نجفی، 1404ھ،ج:6،ص143
  16. سجستانی، ابو داؤد سلیمان بن اشعث ،سنن ابی داود ، الجنائز ،باب: التعزیہ ،ح: 3123، مؤسسہ البعثہ ،قم،دار الثقافۃ ،1414ھ،ص 427،
  17. شهیدی، سید جعفر ،زندگانی فاطمہ زهرا، ۱۳۶۲ دفتر فرہنگ اسلامی ،تہران،1362ش، ص۱۲۲
  18. شیرازی ،ناصرمکارم ، هفت ‌گانہ خطبہ تاریخی حضرت زهراء ،دارالکتب الاسلامیہ ، تہران،1347ش
  19. صدوق، محمد بن علی، ثواب الاعمال، شیخ صدوق، مؤسسہ النشر الاسلامی ، 1379ش، ص 264
  20. صدوق،محمد بن علی ، الأمالی، موسسہ البعثۃ ،قم، 1417ھ، ص552
  21. طبری امامی، محمد بن جریر ، دلائل الامامۃ،موسسہ لبعثۃ ،قم،  1413 ھ، ص140-142۔
  22. عبد المجید سوہدروی،سیرتِ فاطمہ الزہرا، مسلم پبلیکیشنز ،لاہور،2015ء،ص:69
  23. مجلسی،محمد باقر ، بحار الانوار، 1404ھ، ج43، ص192 و 199؛ جوہری بصری، السقیفۃ و فدک، 1413ھ، ص64۔
  24. فرہمند پور، فہیمہ ،سیرہ سیاسی فاطمہ، دانشنامہ فاطمی ، تہران،1393ش،ص:309-316
  25. قزوینی،محمد کاظم، مترجم الطاف حسین ٬فاطمہ زہرا من المہدی الی الحد، قزوینی فاونڈیشن ،ایران ، 1980،ص:343
  26. قمی ، علی ابن ابراہیم ،تفسير قمي، مؤسسہ علمی،ج:2 ،ص:244
  27. نسائی ، احمد بن شعیب ،السنن الکبریٰ ،الجہاد، باب الرخصۃ فی التخلف لمن لہ والدۃ، دار الکتب العلمیۃ ،1411ھ،ح: 3106
  28. مجلسی، محمد باقر ، بحار الانوار، مؤسسہ الوفاء ،بیروت، لبنان، ۱۴۰4ق، ج:۲۹، ص:۲۱۵.
  29. صدوق، محمد بن علی ، من لا یحضر الفقیہ ، ۱۴۰۴ نشر اسلامی ، قم،1404ھ ، ج:۳، ص:۵۶۷-۵۶۸.
  30. منتظری، حسین علی ، خطبہ حضرت زهرا ؑ، ۱۳۸۵موسسہ فرہنگی خرد آوا ،ایران،1385ش، ص:۳۷.

کتابیات

  1. القرآن
  2. ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر،تفسیر القرآن العظیم، 1412 دار المعرفت،بیروت،1412ھ، ج1، ص379
  3. ابن‌اثير، الکامل فی التاريخ، دار الصادر ،بیروت ، 1385ھ، ج:2، ص:293
  4. ابن طیفور، احمد بن ابی‌ طاہر خراسانی، بلاغات النساء،دار الکتب المصریہ ،1326ھ ، ص:۱۷-۲۵.
  5. ابن‌ شہر آشوب، محمد بن علی، مناقب آل‌ابی ‌طالب، المکتبۃ و المطبعۃ الحیدریہ ، نجف، 1376ھ، ج:3، ص:131
  6. ابن ‌سعد،محمد بن سعد ، الطبقات الکبری، دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،  1410ھ،ج8، ص25

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button