سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے حالات زندگی اہل سنت روایات کی روشنی میں

سید بشارت حسین تھگسوی
چکیدہ [Abstract]
اہل بیت اطہار علیہم السلام کے حالات زندگی لکھنے کی باقاعدہ ابتداء پہلی صدی ہجری سے ہی ہوگئی تھی جس کی بہت ساری مثالیں کتب الفہرست میں مل جاتی ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں سے چند ایک کتابوں کے اقتباسات کے علاوہ ہمارے ہاتھ ان اہم ابتدائی کتابوں سے خالی ہے ،تاہم چوتھی صدی ہجری کےبعد تاریخ نگاری باقاعدہ تحریک کی شکل اختیار کرگئی اور بہت سارے علماو دانشوروں نے اس اہم موضوع پر قلم فرسائی کی۔
اہل بیت علیہم السلام کی زندگی حالات کو قلمبند کرنے میں علمائے امامیہ کے ساتھ ساتھ اہل سنت مورخین اور محدثین کا کردار بھی نمایاں نظر آتا ہے ۔ انہوں نے مختلف اہداف اور مقاصد کے تحت اہل بیت علیہم السلام کی زندگی کے مختلف پہلووں کو ضبط قلم کیا ہے ۔ زیر نظر مضمون میں ہم نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے حالات زندگی کو اہل سنت کی روایات کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔
بنیادی کلمات[ Keywords]
حضرت فاطمہ زہرا، اہل سنت، روایات۔
مقدمہ
جب ہم تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو بعض ہستیاں تاریخ کے صفحات پر ایسی نمایاں نظر آتی ہیں کہ کائنات کے باقی سارے افراد کے کردار کی روشنی ان کے سامنے ماند پڑجاتی ہیں ۔ ان کے ذاتی کمالات ، خداداد صلاحیتیں ، علم و فضل ، خاندانی حسب و نسب اور اسلام و انسانیت کے لئے ان کی بے پناہ قربانیوں کی وجہ سے مورخین ، محققین ، مفسرین و محدثین نے انہیں ہمیشہ سنہرے حروف میں یاد کیا ہے ۔ انہی با کمال اور لاجواب ہستیوں میں سے ایک سیدہ کائنات، خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات گرامی ہے ۔جہاںآپ کے کمالات کے ادرا ک سے انسان کی ناقص عقل قاصر ہے وہاں آپ کی فضیلتوں کا بیان بھی بشریت کی زبان سے ممکن نہیں ۔ آپ کو خالق لم یزل نے کائنات عالم کی تمام عورتوں سے افضل قرار دیا اور ائمہ معصومین علیہم السلام نے آپ کی ذات کو تمام انسانیت کے لئے نمونہ عمل قرار دیا ہے ۔ آپکی عظمت کا موازنہکسی سےنہیں کیا جا سکتا اور نہہی کوئی آپ کی عظمتوںکویبان کرسکتا ہے۔
خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شخصیت ، آپ کی عملی زندگی اور دیگر مختلف پہلووں پر بہت ساری کتابیں اور مقالات تحریر کے گئے ہیں ۔ ان کی زندگی پر جہاں شیعہ علماء نے قلم فرسائی کی ہے تو وہاں پر اہل سنت علما و محدثین بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہیں ۔ ہم زیر نظر مضمون میں اہل سنت کی روایات کی روشنی میں جناب زہر ا سلام اللہ علیہا کی فضیلتوں کے کچھ پہلووں کو بیان کرنے کی کوشش کریں گے:
خلقت آدم علیہ السلام سے پہلے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا وجود
مشہور اہل سنت عالم دین ابن حجر عسقلانی [متوفی 852ھ] نے امام حسن عسکری علیہ السلام اور جابر ابن عبداللہ انصاری سے مروی اس روایت کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے :
لَمَّا خَلَقَ اﷲُ آدَمَ وَ حَوَّاء کَانَا یَفْتَخِرَانِ فِی الْجَنَّةِ فَقَالَا مَاخَلَقَ اﷲُ خَلْقاً اَحْسَنُ مِنَّا فَبَیْنَمَاهُمَاکَذَالِکَاِذًرَاَیَا صُوْرَةً جَارِیَةً لَهَانُوْرٌشَعْشَعَانِیٌّیَکَادُ ضَوْئُه‘یُطْفِی الْاَبْصَارَ وَ عَلیرَاْسِهَا تَاجٌ وَفِیْ اُذُنَیْهَا قِرْطَانٌ قَالَا وَ مَاهَذِهِالْجَارِیَةُ قَالَ هَذِہٖصُوْرَةُ فَاطِمَةِ بِنْتِ مُحَمَّدٍ سَیِّدُ وُلْدِکَ فَقَالَا وَ مَاهَذاَالتَّاجُعَلی رَاسِهَاقَالَهَذَابَعْلُهَاعَلِیِّ اِبْنِ اَبِیْ طَالِبٍ قَالَا وَ مَاهذَا الْقِرْطَانُ قَالَ اَلْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُاَبْنَاهَاوَجَدَذَالِکَفِیْ غَامِضِ عِلْمِیْ قَبْلَ اَنْ اَخْلُقَکَ بِاَلْفَیْ عَامٍ ۔
ترجمہ: جب اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضرت آدم و حواء علیہما السلام کو خلق فرمایا تو وہ دونوں بہشت میں فخر کررہے تھے۔ انھوں نے کہا ہم سے زیادہ خوب تر اﷲ تعالیٰ نے کسی کو خلق نہیں فرمایادوران گفتگو انھوں نے ایک خاتون کی صورت اچانک دیکھی‘ کہ اس سے نور چمک رہا ہے اور اس نور کی روشنی آنکھوں کو خیرہ کررہی ہے اور اس کے سر پر ایک تاج ہے اور اس کے کانوں میں دو گوشوارے ہیں۔ پس انھوں نے درگاہ ایزدی میں درخواست کی۔ اے پالنے والے یہ خاتون کون ہے؟ ارشاد باری تعالی ہوا: اے آدمؑ و حوا ؑ یہ فاطمہ ؑ کی صورت ہے جو سردار اولاد آدم محمد ؐ کی بیٹی ہے پھر انھوں نے عرض کی اس کے سر پر جو تاج ہے وہ کیا ہے؟ فرمایا گیایہ اس کا شوہر نامدار علی ابن ابی طالب ؑ ہے پھر درخواست کی اور یہ دونوں گوشوارے کیا ہیں؟ ارشاد ہوا یہ ان کے دونوں صاحبزادے حسن ؑ و حسین ؑ ہیں اور اس کا وجود میرے پوشیدہ علم میں آپ ؑ دونوں کے پیدا کرنے سے دو ہزار سال پہلے موجود تھے۔[عسقلانی ، لسان المیزان، ج ۳، ص ۳۴۵] خاتون جنت کی ولادت
اہل سنت کی مشہور کتابوں میں بہت سارے اصحاب سے واقعہ معراج کے ذیل میں یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو میں جنت میں داخل ہوا اور میں ایک ایسے جنتی درخت کے پاس پہنچا کہ اس سے زیادہ خوبصورت اورمزیدار پھل والا درخت میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ جب میں نے اس درخت سے ایک پھل کھایا تو وہ میرے صلب میں نطفہ کی شکل اختیار کر گیا ۔ جب میں زمین پر واپس آیا اور خدیجہ سے مقاربت کی اور خدیجہ میں فاطمہ کا حمل ٹھہرا ۔ اسی لیے جب بھی جنت کی خوشبو سونگھنے کا دل کرتا ہے تو میں فاطمہ سے اس کی خوشبو سونگھتا ہوں ۔ [سیوطی ، الدرالمنثور ، ج ۵، ص 218] فاطمہ کا نام کس نے اور کیوں رکھا؟
ذہبی [ متوفی 748ھ] نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی اس روایت کو نقل کی ہے :
جب فاطمہ بنت رسول خدا کی ولادت ہوئی تو آپ نے ان کا نام "منصورہ” رکھا ۔ اس وقت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور فرمایا: اے محمد اللہ تعالیٰ نے آپ اور آپ کی بیٹی کو سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے : اس سے زیادہ محبوب بچی اس دنیا میں نہیں آئی ہے لہذا جو نام آپ نے رکھا ہے اس سے بہتر نام رکھا جاسکتا ہے وہ "فاطمہ ” ہے کیونکہ وہ اپنے چاہنے والوں کو آگ سے دور کردیتی ہے ۔ [ذہبی ، میزان الاعتدال، ج۲، ص ۴۰۰] خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ” فاطمہ ” کیوں نام رکھا گیا؟ اس حوالے سے فریقین کی کتابوں میں بہت ساری روایتیں موجود ہیں ، ان میں سے ایک روایت یہاں پیش کروں گا جسے شیعہ علما و محدثین کے ساتھ اہل سنت مورخین و محققین نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ إِنَّمَا سُمِّيَتْ ابْنَتِي فَاطِمَةَ لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى فَطَمَهَا وَ فَطَمَ مَنْ أَحَبَّهَا مِنَ النَّارِ.
ترجمہ : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک میری بیٹی کا نام فاطمہ رکھا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے اور اس کے چاہنے والوں کو جہنم کے دور کردیتا ہے ۔ [متقی ہندی ، کنز العمال ، ج ۱۲، ص ۱۰۹، سلیمان قندوزی ، ینابیع المودۃ ، ص ۱۹۴] حکم خدا سے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی
اہل سنت کی کتب احادیث میں امام علی علیہ السلام، عبداللہ ابن مسعود اور انس ابن مالک سے یہ روایت نقل ہوئی ہے کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی خداوند متعال کے حکم سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جناب امیر المومنین علی علیہ السلام کے ساتھ طے کی یعنی آپ کی شادی رضایت خداوندی اور حکم خداوند کے تحت ہوئی :
أَنَّ النَّبِيَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَمَرَنِي أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِي‏۔
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ فاطمہ کی شادی علی سے کروں ۔ [ہیتمی، مجمع الزوائد، ج ۹، ص ۲۰۴] نسل رسول خدا جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد سے
دنیا کا رسم اور دستور یہی ہے کہ کسی بھی شخص کی نسل اس کے بیٹوں کے ذریعے سے ہی آگے چلتی ہے ۔ اگر کسی کے ہاں اولاد نرینہ نہ ہو تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ اس کی نسل یہاں ختم ہوگئی کیونکہ بیٹی کی اولاد کو اس کے شوہر کی طرف نسبت دی جاتی ہے ۔ عالم انسانیت میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا وہ واحد خاتون ہیں جن سے انکے بابا رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نسل قیامت تک جاری رہے گی ۔ اہل سنت کے بعض علماء نے اپنی کتابوں میں یہ واقعہ نقل کیا ہے :
عاصم ابن بہاء الدولہ نقل کرتا ہے کہ حجاج کی ایک مجلس میں امام حسین ابن علی علیہ السلام کا ذکر آیا تو حجاج نے کہا : حسین پیغمبر کی ذریت میں سے نہیں ہیں ۔ وہاں یحیی ابن یعمر بھی موجود تھا ، اس نے کہا: اے امیر تم جھوٹ بول رہے ہو ۔ حجاج نے کہا: اپنی بات کی دلیل پیش کرو ورنہ تجھے قتل کردو ں گا ۔ یحیی نے کہا:وَ مِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَ سُلَيْمَنَ وَ أَيُّوبَ وَ يُوسُفَ وَ مُوسىَ‏ وَ هَرُونَ وَ كَذَالِكَ نجْزِى الْمُحْسِنِينَ وَ زَكَرِيَّا وَ يحَيىَ‏ وَ عِيسىَ‏ وَ إِلْيَاسَ كلٌ مِّنَ الصَّالِحِينَ۔[سورہ انعام ، آیت 84/85]خداوند متعال نے اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ماں کی نسبت سے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اسی طرح حسین ابن علی علیہ السلام اپنی والدہ ماجدہ کی نسبت سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذریت میں سے ہیں ۔ [حاکم نیشاپوری ، المستدرک ، ج ۳، ص 164] خدا کی رضایت اور غضب کا معیار
تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خوشنودی خدا کی خوشنودی اور آپ کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی قرار دیا تھا یہ مشہور حدیث بھی اہل سنت کی کتب احادیث میں موجود ہے :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لِفَاطِمَةَ يَا فَاطِمَةُ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ يَغْضَبُ لِغَضَبِكِ وَ يَرْضَى لِرِضَاكِ۔[حاکم نیشاپوری ، المستدرک ، ج ۳، ص 154]
ترجمہ : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے فرمایا: اے فاطمہ بے شک اللہ تعالیٰ تیری ناراضگی سے ناراض ہوتا ہے اور تیری خوشنودی سے خوش ہوتا ہے ۔
رسالت کی مدافعہ
اہل سنت کی کتابوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے مختلف صورتوں میں رسالت کا دفاع کیا ہے ۔ یہاں پر ہم ایک روایت بعنوان مثال پیش کرتے ہیں :
ابن مسعود نقل کرتے ہیں : رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کعبہ کےسامنے نماز میں مشغول تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی ایک کونے میں بیٹھے تھے ۔ ایک دن پہلے وہاں پر ایک اونٹ ذبح کیا گیا تھا ۔ ابوجہل نے کہا: تم میں سے کون اس اونٹ کی اجڑی اور دیگر غلاظت کو محمد پر اس وقت گرائے گا جب وہ سجدہ میں ہو؟ ان میں سے ایک شقی ترین شخص اٹھا اور ان غلاظتوں کو اٹھاکر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر گرایا ۔ باقی سب وہاں کھڑے ہو کر مذاق اڑا تے رہے ۔ میں یہ سب دیکھ رہا تھا مگر میرے اندر یہ ہمت اور طاقت نہیں تھی کہ میں رسالت مآب پرسے وہ کچرا ہٹادوں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایسے ہی سجدے کی حالت میں رہے یہاں تک کہ کسی نے فاطمہ کو اس حالت سے آگاہ کیا ۔ اس وقت وہ ایک چھوٹی بچی تھیں وہ وہاں آئیں اور ان غلاظتوں کو ہٹایا اور ان لوگوں کی طرف رخ کرکے ان کی سرزنش کی۔ [صحیح البخاری ، ج ۵، ص ۵۷] مصائب و مشکلات
جناب سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے اتنے سارے مناقب و فضائل اور ان کے حوالے سے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اتنی تاکید کے باوجود بابا کی وفات کے بعد آپ پر بہت ساری مشکلات اور مصیبتیں آئیں ۔ ہیتمی [متوفی 807ھ] امام باقر علیہ السلام کی سند کے ساتھ طبری سے نقل کرتے ہیں :
پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد فاطمہ تین مہینے زندہ رہیں اور اس دوران کسی نے بھی ان کو ہنستے مسکراتے نہیں دیکھا ، اہل سنت کی بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے صرف ایک بار تبسم فرمایا۔ [ ہیتمی ، مجمع الزوائد ، ج۹، ص212] اپنی موت سے آگاہی
جناب ام سلمہ روایت کرتی ہیں :
فاطمہ بیمار تھیں اور میں ان کی تیمارداری کیا کرتی تھی ۔ ایک دن ان کی حالت بہتر تھی اور علی علیہ السلام کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے مجھ سے کہا: مجھے پانی دیجیے ۔میں پانی لائی تو انہوں نے اس سے غسل کرکے فرمایا: نیا لباس لے آنا ۔ جب میں نے لباس لائی تو زیب تن کرنے کے بعد کہا: میرے لئے کمرے کے درمیان میں بستر بچھا دیا جائے ۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ انہوں نے قبلہ رخ کرکےہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر کہا: میری موت آپہنچی ہے ۔ میں نے اپنے آپ کو تیار کیا ہے ۔ اسی حالت میں وہ اس دنیا سے چلی گئیں ۔ جب علی علیہ السلام پہنچے تو میں نے ان حالات سے انہیں آگاہ کیا۔ [احمد ابن حنبل، المسند ، ج ۶، ص ۴۶۱] رات میں تدفین
عائشہ سے مروی ہے کہ وہ کہتی ہے :
دفنت فاطمة بنت رسول اللّه صلى اللّه عليه و آله و سلم ليلا، دفنها عليّ و لم يشعر بها أبو بكر حتّى دفنت، و صلّى عليها عليّ بن أبي طالب عليه السّلام.[حاکم نیشاپوری ، المستدرک ، ج ۳، ص ۱۶۲۹]
ترجمہ: فاطمہ بنت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تدفین رات کو ہوئی ۔ حضرت علی نے انہیں دفن کیا اورحضرت ابو بکر کو خبر نہیں دی یہاں تک کہ تدفین ہوگئی اور علی نے ان پر نماز پڑھی ۔
جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا حشر کے میدان میں
اہل سنت کے منابع میں علی علیہ السلام، ابو سعید خدری، ابو ہریرہ اور ابن عمرو غیرہ سے یہ روایت نقل ہوئی ہے :
قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ اِذَاکَانَ یَوْمُ الْقِیَامَةِ نَادی مُنَادٍ مِنْ وَّرَ ائِ الْحُجْبِ غُضُّوْا اَبْصَارَکُمْ حَتّی تُجَوِّزَ فَاطِمَۃ ُ بِنْتُ مُحَمَّدٍعَلی الصِّرَاطِ۔ [متقی ہندی، کنزالعمال ، ج ۱۲، ص ۱۰۶، حاکم نیشاپوری، المستدرک ، ج ۳، ص ۱۵۳]
ترجمہ:رسول خدا ؐ نے ارشاد فرمایا: جب قیامت کی گھڑی آئے گی تو ایک ہاتف غیبی پس پردہ ندا کرے گا: اے لوگو ! اپنی نگاہوں کو بند کرلو تاکہ محمد ؐ کی بیٹی فاطمہ ؑ صراط سے گزر جائیں۔
عزداران حسین کی شفاعت
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا قیامت کے دن امام حسین علیہ السلام کی خون آلود قمیص کو تھامے اللہ تعالیٰ کے حضور عزادران حسین کی شفاعت کی طلب گار ہوں گی اس وقت پروردگار عالم کی طرف سے انہیں شفاعت کا اختیار دیا جائے گا ۔ جیسا کہ مختلف کتب میں یہ روایت یوں نقل ہوئی ہے :
عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ قَالَ اِذَا کَانَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ نَادی مُنَادٍ مِنْ بُطَّانِ الْعَرْشِ یَا اَهْلَالْقِیَامَةِ اُغمِضُوْا اَبْصَارَکُمْ لِتُجَوِّزَ فَاطِمَةُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ مَعَ قَمِیْصٍ مَخْضُوْبٍ بِدَمِ الْحُسَیْنِفَتَحْتَوی عَلی سَاقِ الْعَرْشِ فَتَقُوْلُ اَنْتَ الْجَبَّارُ الْعَدْلُ اِقْضِ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ مَنْ قَتَلَ وَلَدِیْ فَیَقْضِی اﷲُ بِنْتِیْ وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ ثُمَّ تَقُوْلُ اَللّهُمَّاِشْفِعْنِیْ فِیْمَنْ بَکی عَلی مُصِیْبَتِه فَیَشْفَعَهَا اﷲُ فِیْهِمْ۔ [ہیتمی ، مجمع الزوائد، ج ۴، ص ۲۱۲، متقی ہندی، المستدرک، ج ۱۳، ص ۹۳]
ترجمہ: رسول خدا ؐ نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہوگا تو میان عرش سے ایک ہاتف نداء کرے گا : اے محشر والو اپنی آنکھیں بند کرلو تاکہ فاطمہ بنت محمد ؑ خون حسین ؑ سے رنگین پیراہن کو اپنے ساتھ لئے ہوئے گزر جائیں پس فاطمہ ؑ ستون عرش کو تھام کر کہیں گی: اے (اﷲ) تو جبّار و عادل ہے میرے اور میرے فرزند حسین ؑ کے قاتلوں کے درمیان فیصلہ فرما۔ ربّ کعبہ کی قسم میری بیٹی فاطمہ ؑ کے حق میں خدا تعالیٰ فیصلہ کرے گا پھر فاطمہ ؑ عرض کریں گی: اے الہٰ العالمین جو لوگ میرے حسین ؑ پر روئے ہیں مجھے ان کے لئے شفاعت کا اختیار دے پس اﷲ تعالیٰ ان (فاطمہ ؑ ) کو ان کے حق میں شفیع قرار دے گا۔
علمائے اہل سنت کے نزدیک حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا مقام
خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مقام اور ان کی منزلت کے بارے میں اہل سنت کے مشہور علما و اکابرین سے بہت سارے اقول نقل ہوئے ہیں ۔ یہاں پر ہم بعنوان مثال چند ایک علما ئے اہل سنت کے اقوال نقل کرتے ہیں :
۱۔ جلا ل الدین سیوطی: ہمارا عقیدہ ہے کہ اس عالم میں سب سے عظیم اور بہترین خواتین حضرت مریم اور حضرت فاطمہ ہیں ۔ [کریمی، اہل بیت از دیدگاہ اہل سنت، ص ۸۸] ۲۔ محمود آلوسی : حدیث سے ثابت ہے کہ تمام خواتین میں سے حضرت فاطمہ کو برتری حاصل ہے ۔ [ آلوسی، روح المعانی، ج ۳، ص ۱۳۸] ۳۔ عبدالرحمن السہیلی: میں کسی کوبھی بضعہ رسول کے برابر نہیں سمجھتا ۔ [ سہیلی، الروض الانف، ج ۱، ص ۲۷۹] ۴۔ محمد امین ابن الجکنی: صحیح حدیث کی روشنی میں فاطمہ تمام عورتوں سے افضل ہیں ۔ [ایضاً] نتیجہ
مندرجہ بالا مطالب سمندر میں سے قطرہ نکالنے کے مترادف ہے ورنہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے ایک ایک پہلو پر اہل سنت کی کتابوں سے الگ الگ مضامین لکھے جاسکتے ہیں ۔ جو مطالب ہم نے بیان کیے ہیں ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل سنت کی کتب روایات اور تاریخ میں جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی زندگی کے تمام پہلووں پر سیر حاصل بحث ہوئی ہے ۔ یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ سیدہ کائنات کی زندگی اور فضائل کے حوالےسے جو روایات علمائے امامیہ کی کتابوں میں موجود ہیں ان میں اکثر الفاظ کے مختصر فرق کےساتھ اہل سنت کی کتابوں میں وہی روایات بھی پائی جاتی ہیں ۔ اگر ہم جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب کو اہل سنت کی کتابوں سے ہی بیان کریں اور تاریخی حقائق کو ان کی اپنی کتابوں سے پیش کریں تو یقیناً یہ ایک علمی انقلاب سے کم نہیں ہوگا۔

منابع و مآخذ
1. قرآن مجید
2. احمد ابن حنبل، المسند، دار الصادر، بیروت، [بی تا]
3. آلوسی، محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، انتشارات جہان، تہران[بی تا]
4. بخاری ، محمد ابن اسماعیل ، صحیح البخاری، دارالجیل ، بیروت[بی تا]
5. ذہبی ،احمد، میزان الاعتدال،دارالفکر، بیروت [بی تا]
6. سہیلی، عبدالرحمن ابن ابی الحسن، الروض الانف،مکتبہ الکلیات الازھریہ، مصر[بی تا]
7. سیوطی ،جلال الدین، الدرالمنثور فی تفسیر الماثور، دارالفکر ، بیروت، ۱۹۹۳م۔
8. عسقلانی ،احمد ابن حجر ، لسان المیزان،داراحیاء التراث العربی، بیروت، 1995م۔
9. قندوزی ، سلیمان، ینابیع المودۃ ،منشورات مکتبہ بصیرتی، قم ، 1996م۔
10. کریمی، امین اللہ ، اہل بیت از دیدگاہ اہل سنت،ناشر مولف، 1380ش[بی جا]
11. نیشاپوری ، حاکم، المستدرک علی الصحیحین ،دارالمعرفۃ ، بیروت، [بی تا]
12. ہندی ،علی متقی، کنز العمال ،موسسہ الرسالہ ، بیروت، 1989م۔
13. ہیتمی،نورالدین، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، دارالکتب العربیہ ، بیروت، 1998م۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button