سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

فدک اور خطبہ فدک کا تحقیقی مطالعہ

احمد رضا علوی ( متعلم جامعۃ الکوثر)
مقدمہ
رسول خدا ﷺکی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی شہادت کے ایام ہیں۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کا نام جب انسان کے ذہن میں آتا ہے تو جہاں پر بی بی کی عظمت کا ذکر ہوتا ہے وہاں پر آپ ؑپر ہونے والے مصائب انسان کے ذہن میں آجاتے ہیں اور جب بھی آپ ؑپر ہونے والے مصائب کا ذکر کیا جاتا ہے تو وہاں پر آپ ؑ کا وہ یاد گار خطبہ جو آپ ؑ کی مظلومیت کو بیان کر رہا ہوتا ہے ذھن میں آ جاتا ہے۔ بی بی کا یہ خطبہ در اصل بہت سارے پہلوؤں کا ذکر کرتا ہوا نظر آتا ہے حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کے اس خطبہ میں معرفت الٰہی کے وہ سمندر موج زن ہیں جنہیں سن کر اور پڑھ کر انسان حیران ہوجاتا ہے ۔
باغ فدک کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس میں بی بی ؑ کی عظمت ، آپ ؑ کا علم وحلم اور معرفت الٰہی ، معرفت رسالت ،معرفت امامت ، کے پہلو نمایاں نظر آتے ہیں اور یہ خطبہ ، جو فدک کے نام سے مشہور ہے اس بی بی نے دیا ہے جو خود عصمت کے درجے پر فائز ہے تو سوچنے کی بات ہے آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ بی بی اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر دربار خلافت میں آگئی اور مردوں کے ہجوم میں آکر اتنا بڑا خطبہ دیا ۔ در حالنکہ یہ وہ بی بی ہے جن کا اپنا فرمان یہ ہے عورت کے لئے سب سے بہترین چیز یہ ہے کہ کوئی مرد اسے نہ دیکھے اور وہ کسی کو نہ دیکھے۔ جیسا کہ وہ واقعہ بھی مشہور ہے جب رسول خدا ﷺاپنے ساتھ کسی نابینا صحابی کو لائے تھے اور بی بی کے دروازے پر آکر دستک دی تو جب بی بی دروازہ کھولنے کے آئیں تو پوچھا کون ہے تو آواز آئی کہ آپ کا بابا (اور ایک نابینا صحابی میرے ساتھ ہے )تو بی بی جلدی سے واپس گئیں اور اپنی چادر اوڑھ کر واپس آئیں اور دروازے کو کھولا تو رسول خدا ﷺنے پوچھا بیٹی اتنی دیر کیوں لگا دی تو بی بی نے جب کہا کہ میں چادر لینے گئی تھی تو رسول خدا ﷺنے ارشاد فرمایا بیٹی میرا یہ صحابی تو نابینا ہے تو بی بی نے فرمایا بابا وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا لیکن میں تو اسے دیکھ سکتی ہوں ۔
تو یہ ہی سوچنے والی بات ہے کہ آخر کیا وجہ تھی کہ جناب زہراء سلام اللہ علیھا جیسی ہستی گھر سے نکل کر فدک کے مطالبے کے لئے دربار خلافت میں گئیں اور نہ فقط دربار میں بلکہ بعض علماء نے یہاں تک لکھا ہے کہ بی بی مدینے میں ہر کسی کے گھر جا کر یہ کہتی تھیں کہ آپ میرے بارے میں باغ فدک سے متعلق جو رسول خداﷺنے جو مجھے ہدیہ کیا ہے اس کے متعلق میرے حق میں گواہی دیں ۔
ایک اور قابل غور بات یہ ہے کہ جب کوئی انسان کوئی بات یا کلام کرتا ہے تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کلام کرنے والے نے وہ بات کس وقت کن حالات میں وہ گفتگو کی ہے اور پھر اس کے بعد اندازہ لگایا جاتا ہے اس کا کلام کس قدر وزنی ہے اور کتنی اہمیت کا مالک ہے ۔
حصہ اول: فدک کا تاریخی مطالعہ
فدک ایک علاقے کا نام تھا جو مدینہ سے دو یا تین دن کی مسافت پر واقع ہے تقریباً دوسو ساٹھ کلو میٹر کا فاصلہ بنتا ہے اور خود فدک اور خیبر کے درمیان ایک دن سے بھی کم مسافت ہے اور ہجرت کے ساتویں سال رسول خدا ﷺ نے فدک کے یہودیوں سے مصالحت کر کے اس کو حاصل کیا تھا یہ علاقہ سرسبز و شاداب اور درختوں سے بھراتھا یہ گاؤں خیبر کا حصہ تھا اور مدینہ کے یہودی اس میں آباد تھے وہ اس سر زمیں میں کاشت کرتے اور اس سے اپنی روزی روٹی کماتے یہ علاقہ بہت زیادہ زخیز اور درآمد والا تھا ،جنگ خیبر کے بعد جب حضرت علی ؑ نے خبیر کے قلعہ کو فتح کیا اور مولا علی ؑنے یہودیوں کے بڑے نامور پہلوانوں کو مار ڈالا تو فدک کے یہودی اس سے ڈر گئے اور انہوں نے رسول خدا ﷺ سےصلح کرنے کا ارادہ کر لیا ۔اور اس علاقے کو رسول خدا ﷺکے حوالے کر دیا پھر اس فدک کو رسول خدا ﷺنے اپنی بیٹی کو ہبہ کر دیا ۔
فدک کی وجہ تسمیہ :
فدک کی تاریخ ہمیشہ سے تابناک رہی ہے اور یہ بستی ہر دور میں مشہور اور معروف رہی ہے خواہ وہ ظہور اسلام ہو یا اسلام سے پہلے کا زمانہ ہو لیکن یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر بستی کس کی ملکیت تھی اور اس سرزمین کو فدک ہی کیوں کہا جاتا ہے جہاں تک فدک کی ملکیت کا سوال ہے تو اس سلسلے میں تمام علماء کا اتفاق ہے اس سر زمیں پر سب سے پہلے یہودیوں نے ڈیرہ جمایا ہوا تھا انہوں نے اس سر زمیں کو آباد کیا اور اس کی آمدنی سے استفادہ کرنے لگے زمانہ قدیم سے یہ سر زمیں طائفہ بنی مرۃ کی قیام گاہ تھی اور یہ عرب کے مشہور قبیلے "عطفان ” کی ایک شاخ تھی طبری کے قول کے مطابق حیرہ کے بادشاہ نومان بن منزر کی ماں فدک کی رہنے والی تھی اس سرزمین کو فدک اس لئے کہتے ہیں کہ حام بن نوح کے بیٹے کا نام فدک تھا اور اسی کے نام پے اس بستی کا نام رکھ دیا گیا ۔ 1
فدک کی زمین اور آمدنی :
تاریخ اسلام کا اگر مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اسلام کے ظہور سے پہلے بھی فدک حجاز کے مشہور قصبوں میں سے ایک قصبہ تھا جوخیبر کے بالکل قریب واقع تھا اور یہ علاقہ یہودیوں کا مرکز شمار کیا جاتا تھا اسی لئے اس علاقے کے لوگ معاشرتی اور مذہبی اعتبار سے خیبر کے یہودیوں کے تابع تھے گویا کہ وہ ان کے ہم عقیدہ تھے ۔اس سرزمین کا محل وقوع کتنا ہے اس کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے آج کل یہ سرزمین "الحائط "کے نام سے بھی مشہور ہے جو "حائل "کے زیر میں آتا ہے یہ خلیفہ کے مغرب اور فرغد کے جنوب میں واقع ہے اگر خیبر کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ سرزمین اس کے مشرق میں واقع ہے اور اس کی سرحد معین اور مشخص ہیں (۱۹۷۵) کے آخر تک یہ سرزمین ۲۱ علاقوں پر مشتمل تھی جس کی مجموعی جمعیت ۱۱ہزار پر مشتمل ہے اور آج کل یہ سرزمین خشک ہے اس لئے وہاں پر لوگوں کی آمد و رفت بھی بہت کم ہے بعض مؤرخین نے تو یہاں تک لکھاہے کہ اس سرزمیں کے کھجوروں کے درختوں کی تعداد چھ ہجری میں شہر کوفہ کے درخت خرما کی تعداد کے برابر تھی اس سے بھی اس زمین کی وسعت کے بارے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور یہ بھی کہ کتنی زرخیز تھی کہ کس طرح اس زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے کی حیثیت کا کوفہ جیسے بڑے شہر کے ساتھ مقابلہ کیا جارہا ہے۔
ایک دلچسپ واقعہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عباسی خلیفہ ہارون رشید نے امام موسیٰ کاظم ؑ کو بلایا جب آپ تشریف لائے تو اس نے امام سے کہا کہ میں آپ کو آپ کی دادی زہراء سلام اللہ علیھا کا حق فدک دینا چاہتا ہوں اب کیوں کہ مجھے اس کی حدود معلوم نہیں ہیں تو آپ مجھے اس کی حد معین کر کے دیں تاکہ میں وہ آپ کو واپس کر سکوں تو اس کے جواب میں امام نے ارشاد فرمایا کہ مجھے وہ نہیں چاہئے یعنی امام نے لینے سے انکار کردیا تو ہارون نے بہت اصرار کیا تو امام موسیٰ کاظم ؑ نے ارشاد فرمایا اگر تم دینے پر تیار ہوتو سنو باغ فدک کو اس کی تمام معین کردہ حدود کے ساتھ واپس کرنا ہوگا جو اس کی واقعی اور حقیقی حدود ہیں، تو ہارون رشید نے کہا آپ حدود بیان فرمائیں امام نے فرمایا اگر میں اس کی حدود کو بیان کروں تو تم کبھی بھی مجھ کو واپس نہیں کرو گے تو ہارون نے کہا آپ کو اپنے جد کی قسم اس کی حدود بیان کیجیئے تو امام نے فرمایا اس کی پہلی حد سرزمین عدن جب ہارون نے یہ سنا تو اس کا رنگ متغیر ہوا اور کہنے لگا عجب ہے اس کے بعد امام نے فرمایا اس کی دوسری حد سمر قند ہے یہ سن کر ہارون کے چہرے پر ناراضگی کے آثار نمایاں ہونے لگے اور اس کا چہرہ لال پیلا ہونے لگا میرے امام نے فرمایا اس کی تیسری حد آفریقہ ہے ہارون نے جواب دیا عجب ہے امام نے فرمایا اس کی چوتھی حد دریا  ئے خزر اور ارمنستان کے ساحل تک ہے ہارون کو غصہ آگیا اور کہا بس کریں میرے پاس تو کچھ نہیں بچے گا آپ اٹھیں اور میری جگہ حکومت کریں امام نے کہا میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ اگر میں اس کی حد بیان کروں تو تم مجھے ہر گز واپس نہیں کرو گے ۔ (2)
آمدنی فدک :
گذشتہ مطالب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فدک تاریخ کے لحاظ سے ایک خاص اہمیت کا حامل علاقہ تھا اس زمانے میں اس کی حیثیت کسی بھی طرح سے کم نہ تھی ،بلکہ اس کی شادابی اور چشمو ں کی روانی اور کھجوروں کی فراوانی کی وجہ سے بہت زیادہ شہرت حاصل تھی اسی وجہ سے یہ بستی محدود اور مختصر ہونے کے با وجود پورے عرب میں مشہور اور معروف تھی کیونکہ اس کی سر زمین میں ہریالی زیادہ تھی اور کاشت کے لئے بہترین زمین تھی اس لئے اس کی آمدنی بھی زیادہ تھی رسول خدا ؐ کی ملکیت میں آنے کے بعد اس سرزمین کی کھجوروں اور اس کی کھیتی کی آمدنی کے بارے بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے ابن ابی حدید لکھتے ہیں جب حضرت عمر ؓ نےفدک کی نصف زمین پر یہودیوں سے مصالحت کر لی تھی تو اس کے مقابلے میں عراق کے بیت المال سے پچاس ہزار درہم انہیں دیئے۔(3)
قطب الدین راوندی لکھتا ہے رسول خدا ؐنے فدک کی زمین کو چوبیس ہزار دینار میں کرائے پر دیا تھا اور بعض احادیث میں اس کی قیمت ستر ہزار دینار بھی بتائی گئی ہے اس میں اختلاف کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ہر سال آمدنی میں کمی اور زیادتی جو ہوتی رہتی تھی وہ ہر سال کے موسمی اناج کے زیادہ اور کم ہونے کی وجہ سے تھی اس لئے کبھی چوبیس اور کبھی ستر ہزار بتائی گئی ہے ۔(4)
فدک کی بابرکت کھجوروں کی وجہ :
و کان فیھا احد عشر نخلۃ غرسھا رسول اللہ بیدہ فکان بنو فاطمۃ یاخذون ثمرھا فاذا قدم الحاج اھدوا لھم من ذالک تمر فیصلونھم فیصراالیھم من ذالک مال جزیل
فدک میں گیارہ درخت کھجوروں کے ایسے تھے جنہیں رسول خدا ؐ نے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا اور اس کے پھلوں کو اولاد فاطمہ اور حاجیوں کو تحفہ پیش کرتے تھے اور حاجی ان کے عوض درہم اور دینار سے معقول خدمت کرتے تھے .(5)
بس اس بات سے بھی فدک کی آمدنی اور اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی کل آمدنی سے نہ صرف کئی خاندان عزت کی زندگی گزار سکتے تھے بلکہ پوری فوج کو پالا جا سکتا تھا کیونکہ اس کی آمدنی اس قدر زیادہ تھی کہ ہر کوئی اس پر قابض ہونا چاہتا تھا ۔ لیکن در حقیقت یہ زمین رسول اکرم ؐ کی ملکیت تھی جسے آپ ؐ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے نام ہبہ کیا تھا ۔
حصہ دوم:
اس باب میں ہم رسول اکرم ﷺ کی بیٹی کے اس تاریخی خطبہ کے بارے کچھ جاننے کی کوشش کرینگے جو خطبہ فدک کے نام سے مشہور ہے۔ اس خطبہ میں جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے اسلام کا جامع خلاصہ پیش کیا تھا۔
توحید
"الحمداللہ علی ما انعم ولہ الشکرعلی ما الھم”
ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے ان نعمتوں پر جواس نے (اچھائی اور برائی کی تمیزکےلئے)عنایت کی ہیں۔ ان الفاظ کی خوبصورتی بتاتی ہے کہ بی بی سلام اللہ علیھا کس عقیدہ توحید کی مالک ہے اور آپ ؑ کس طرح معرفت خدا رکھتی تھیں۔
نبوت
اب بی بی سلام اللہ علیھا توحید کی گواہی دینے کے بعد رسالت کی گواہی دے رہی ہیں کہ میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے بابا حضرت محمد ﷺاللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس سے قبل کہ اللہ ان کو دنیا میں رسول ﷺبنا کر بھیجتاانہیں (رسالت کے لیے ) چن لیا تھا اوران کے انتخاب سے پہلے انکا نام بھی رکھا تھا اللہ نے میرے بابا کو مبعوث فرمایا ہے تاکہ اپنے امر کو تمام کر سکیں اور اپنے حکم کو جاری کر سکیں ۔
اھل بیت علیھم السلام
حضرت فاطمہ ؑ ارشاد فرماتی ہیں کہ اللہ تعالی نے ہماری اطاعت کو دین کا نظام اور ہماری امامت کو فرقہ واریت سے نجات کا ذریعہ بنایا ہے (بی بی سلام اللہ علیھا یہ فرمانا چاہتی ہیں کہ امامت کے تم تابع ہو نہ کہ امامت تمہارے تابع ہے )
قرآن مجیدکا تعارف
اور میرے بابا نے اپنے بعد اپنا ایک جانشین چھوڑاہے جو اللہ کی بولنے والی کتاب قرآن مجید ہے جو کہ قرآن صادق ہے جس کی دلیل واضح ہیں جو اس کی پیروی کرنے والوں کو اللہ کی رضا کی طرف لے جاتا ہے اسی کے ذریعے اللہ کی حجتوں کی طرف رسائی ممکن ہے۔
ایمان کی حکمت:
پھر بی بی سلام اللہ علیھا یہ بیان فرماتیں ہیں کہ ایمان کی کیا حکمت ہے ، فرمایا: اللہ نے تمہارے لئے شرک سے پاک رہنے کے لیے ایمان کی دیوار بنائی ہے کہ جسے آپ ؑ نے اس خطبہ میں فرمایا کہ (پس اللہ نے ایمان کو تمہارے لئے شرک سے پاکیزگی قراردیا ہے ۔پس اللہ سے ایسے ڈروجیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔
احکام الہی کی حکمت
جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا نے اپنے خطبے میں احکامات الٰہی کی حکمت سے بھی آگاہ فرمائی۔ آپ فرماتیں ہیں کہ اللہ تعالی نے تم پر نماز اس لیے واجب کی ہے کہ تم تکبر سے بچ جاؤ اور روزے کو اس لیے کہ تم اس کے ذریعے اخلاص کو مستحکم کر سکو اور حج کو اپنے دین کے محکم ہونے کا سبب قرار دیا اور عدل و انصاف کو دلوں کو منظم ہونے کا سبب قراردیا ۔
میں فاطمہؑ ہوں
اب تحریر کو مختصر کرتے ہوئےصرف وہ تعارف جو بی بی سلام اللہ علیھا نے خود اپنا کروایا ہے، بیان کرتے ہیں ۔ آپؑ فرماتی ہیں کہ ؛اے لوگوجان لو میں فاطمہ سلام اللہ علیھا ہو ں)کون فاطمہؑ جس کا بابا رسول خدا ﷺہے جس کی ماں عرب کی عورتوں کی سردار ہے جس کا شوہر علی مرتضی علیہ السلام ہیں جس کے بیٹے حسنین شریفینؑ ہیں۔
اسلام نے تمہیں عزت بخشی
یہاں تک صبح کی کرن نے رات کی تاریکی کا پردہ چاک کیا اور خالص حق واضح ہو گیا کلمہ توحید تمہاری زبان سے جاری کروایا گیا جبکہ تم جہنم کے کنارے پر تھے اور جب تمہاری تعداد ایک گھونٹ کے برابرتھی اور تم دشمنوں کا نوالہ بننے والے تھے اور تم پیروں کے تلے دبنے والے تھے اور تم وہ پانی پیتے تھے جس میں اونٹ پیشاب کرتے تھے ۔اور تمہاری خوارک درختوں کے پتے تھے اور تم رؤے زمین پر اس طرح ذلیل تھے کہ ہر وقت تمہیں یہ خوف رہتا کہ تمہارے اردگردکے لوگ تمہیں چراکے نہ لے جائیں ۔
فدک، رسول خداﷺسے فاطمہ سلام اللہ علیھا تک
اب ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ فدک رسول خداﷺ سے حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا تک کیسے آیا اور وہ کون سے اسباب تھے ۔کہ جن کی وجہ سے رسولﷺنے فدک اپنی بیٹی کو دے دیا ۔ 7 ہجری میں رسولﷺنے یہویوں سے جنگ کی اور تاریخ اسلام،کے مطابق لشکراسلام نے چالیس دن تک جنگ لڑ ی اور مولا علیؑ نے مرحب ،عنتر،اور حارث جیسے پہلوانوں کو شکست دی جسکی وجہ سے خیبر کو فتح کر لیا جب یہودیوں نے کفار کے ساتھ ملکر سازش کی تو خیبر کے یہودی بھی اس میں شامل تھے ۔اسی لیے رسولﷺنے خیبر کی فتح کے بعد فدک کو فتح کرنا تھا اور اس سارے واقعہ کا علم ان کو ہو گیا تھا اور رسولﷺہمیشہ جنگ سے پہلے اسلام کی دعوت دیتے تھے اب جب ان کو دعوت دی تو انہون نے ایک دن کی مہلت مانگی ۔ پھردوسرے دن انہوں نے اپنا ایک نمائندہ رسولﷺکے پاس بھیجاکہ ہم آپ کو فدک دیتے ہے تو رسولﷺ نے قبول فرمایا ۔
فدک اورقرآن
اب ہم سب سے پہلےقرآن میں اور فرمان خدامیں دیکھتے ہیں کہ فدک کس کا حصہ ہے اور کس کی ملکیت میں تھا اب جیسے ہی یہ مال رسول ﷺکو ملا تو لوگوں میں شورشروع ہوگیا کوئی کہتاکہ میراحق ہے تو کوئی کہتا میرا ابھی یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ رسول خدا ﷺ پر وحی ہوئی سورہ حشرآیت نمبر (6)میں ارشاد ہوا ،
وماافاءاللہ علی رسولہ منھم فمااوجفتم علیہ من خیل و لا رکاب و لکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشاء و اللہ علی کل شئی ء قدر
اور ان کے جس مال (غنیمت) کو اللہ نے اپنے رسول ﷺکی آمدنی قرار دیا ہے (اس میں تمہارا کوئی حق نہیں )کیونکہ اس کے لئے نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ ،لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتاہے غالب کردیتا ہے اور اللہ ہر چیزپر قادر ہے ۔
اس آیت سے انداز ہ ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس مال کو صرف اپنے رسول ﷺکو بخشا ہے اور اس میں کسی مسلمان کا کو ئی حصہ نہیں ہے اور رسولﷺجس کو چاہیں دے سکتے ہیں اوراس مال کو مال فئی ، بھی کہتے ہیں۔

غنیمت اور مال فئی میں فرق
مال غنیمت اس مال کو کہتے ہیں کہ جس کو حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں نے کافروں کے ساتھ جنگ کی ہو یعنی اپنے آپ کو تھکایا ہو ۔
اور مال فئی اس مال کو کہتے ہیں جس کو حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں نے جنگ نہ کی ہو یعنی جس مال کے حصول کے لیے مسلمانوں نے جدوجہدنہ کی ہو وہ مال رسول خدا ﷺکی ذاتی ملکیت ہے جس میں کسی مسلمان کا حصہ نہیں ہےاور اس آیۃکی تفسیر میں علامہ علی نقی نے اپنی تفسیرفصل الخطاب میں لکھا ہے کہ فئی کے معنی پلٹنے کے ہے اور یہاں افاء کے لفظ کے معنی راجع کے ہے یعنی پلٹایا جائے کہ ان اموال کے ذکر میں قرآن مجید نے لفظ افاء صرف کیا ہے اسی لیے اسلامی فقہ میں اس کانام ہی اموال فئی ہوگیااب چوں کہ جو پہلے مالک تھے ان کا یہاں نام نہیں ہے بلکہ پہلے منھم کی ضمیر کے ساتھ ہے "کہ ان لوگوں سے "اور پھر "اھل القرٰی”ان بستیوںوالوں سے کیونکہ اس سورہ کا آغا ز بنی نضیر سے ہو ا ہے لہذا بعض مفسرین نے اسے بنی نضیر ہی کے متروکہ اموال سے متعلق قرار دیا ہے اور بعض نے یہودیوں کے دوسرے قبیلے بنی قریظہ کے اموال میں سے کہ ہے ۔جن کی سرکوبی کی مہم اس کے بعد انجام پائی تھی ۔اورخود اللہ تعالی نے بھی اس مال ٖفئی کا تصرف بتایا ہےکہ اس مال کوکس کودیا جاسکتا ہے سورہ حشرہ کی آیت نمبر (7) میں ذکر کیا ہے ۔
مافا ءاللہ علی رسولہ من اھل القری فللہ و للرسول و لذی القری والیتمیٰ المسکین وابن السبیل کئ لا یکون دولۃ بین الاغنیا ء منکم وما اٰتکم الرسول فخذوہ و ما نھکم عنہ فانتھوا واتقواللہ ان اللہ شیدید العقاب
ترجمہ:اللہ تعالی نے اس بستی والوں کے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی میں قرار دیا وہ اللہ اور رسولؐ اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کیلئے ہے تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش کرتا رہے اور رسولؐ جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤاور اللہ کا خوف کرو اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے۔
فدک بیٹی کے حوالے
ان دونوں آیات کی تفسیر میں آیت مکام شیرازی اپنی تفسیر نمونہ میں لکھتے ہے۔کہ ابن عباس سے مروی ہے کہ جس وقت آیت (فات ذاالقربی حقہ)نازل ہوئی تو پیغمبر ﷺنے جناب فاطمہ ؑکو فدک عنایت فرمایا :(اقطع رسول اللہ فاطمۃ فدکا)
یا اس طرح فرمایا (یافاطمۃلک فدک) اے فاطمہ ؑ فدک تیرے لئے ہے:
اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو حق سمجھنے، پڑھنے ،لکھنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)
حوالہ جات :
1. خطبہ فدک منظر اور پس منظر
2. شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی
3. تفسیر نمونہ مکارم شیرازی
4. تفسیر الکوثر شیخ الجامعہ
5. تفسیر فصل الخطاب علامہ سید علی نقی نقن
6. کتاب فاطمہ طلوع سے غروب تک
7. خواص الامتہ علامہ سبط ابن جوزی
8. ترجمہ خطبہ فدک شیخ الجامعہ
9. سیرت حلبیہ علی بن برہان الدین

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button