سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

عظمت قرآن حضرت زہرا ء سلام اللہ علیھا کی نگاہ میں

مولانا فدا حسین فردوسی
مقدمہ:
شریعت ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےساتھ تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات نکتہ کمال کو پہنچ گئیں۔ اور اب شریعت پیامبر خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور نگہبانی کے لئے سلسلہ امامت کا اہتمام ہوا۔انسانوں کی ہدایت کے اس مرحلے کے لئے خدا وند عالم نے دو وسیلے اور ذریعے معین فرمائے ایک اللہ کی کتاب جو دستورہدایت کے طور پر تا قیامت باقی رہے گی اور دوسرا وسیلہ عترت پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ جن کو ناطق قرآن اور شریعت خاتم الأنبياء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محافظ اور امت محمدی کے امام وپیشوا کے طور پر بھیجا گیا۔ان دونوں وسیلوں سے متمسک رہنے کی پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کو وصیت فرما گئے اور تمسک کی صورت میں ضلالت و گمراہی سے نجات کی ضمانت دے گئے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ امت قرآن مجید کی معرفت اور اس دستور الہی کے احکام کو اس کے حقیقی ترجمان کے بیان اور تشریح و تفسير کے مطابق لیا جائے اور قرآن کے حقیقی ترجمان اور وارث کی معرفت اور پہچان کے لئے قرآن مجید ہی کی طرف رجوع کیا جائے تاکہ ہادیان برحق کی ھدایت سے بہرہ مند ہوا جا سکے۔ انہی ہادیان میں سے ایک جناب سیدہ سلام اللہ علیھا ہیں کہ جنھیں خدا وند عالم نے ہدایت امت کے لئے نمونہ اور مثال بنا کر بھیجا،اور ہدایت کے لئے لازم فضیلتوں اور کمالات سے نوازا۔حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا جگر گوشہ خاتم الأنبياء ہیں کہ جن کے بارے میں سید الأنبياء نے فرمایا :فاطمة بضعة مني۔(1)
حضرت زہرا ء سلام اللہ علیھا کی ولادت اور پرورش نزول وحی کی فضا اور تلاوت و تعلیم قرآن کے مرکزو منبع میں ہوئی ہے۔ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے جہاں دوسرے مسلمان بہرہ مند ہوتے تھے وہیں جناب سیدہ سلام اللہ علیہا بھی عام افراد امت کی طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی شفقت اور عنایات سے فیضیاب ہوتی تھیں اور خصوصی طور پر علم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیض یاب ہوئیں۔ لہذا قرآن مجید کی عظمت کاادراک سب سے بہتر جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کو حاصل ہے اور اس با عظمت کتاب کی شان کو ہر ایک سے بہتر آپ ہی بیان کر سکتی ہیں۔ آپ کے علم ومعرفت کے ذرائع فقط رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین علیہ السلام ہی نہ تھے بلکہ آپ محدثہ بھی تھیں اور ملائکہ سے ہم کلام ہوتی تھیں اس طرح علم جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کا ایک وسیلہ علم لدنی بھی تھا۔جس کا واضح نمونہ مصحف فاطمہ ہے کہ جسے جبرئیل امین علیہ السلام نے آپ سے بیان کیا اور آپ کے املا کرنے پر امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا اور اسرار امامت کے طور پر ہر امام کے پاس موجود رہا،جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
"إنما سميت فاطمة محدثة لأن الملائكة كانت تهبط من السماء فتناديها كما تنادي مريم بنت عمران فتقول: يافاطمة إن الله اصطفاك وطهرك واصطفاك على نساء العالمين. يا فاطمة اقنتي لربك واسجدي واركعي مع الراكعين فتحدثهم ويحدثونها”.(2)
ترجمہ:حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کو محدثہ اس لئے کہا گیا کہ آسمان سے فرشتے نازل ہو کر آپ سے مخاطب ہوتے تھے جیسے حضرت مریم سے مخاطب ہوتے تھے اور کہتے تھے اے فاطمہ بے شک اللہ نے آپ کو چن لیا ہے اور پاکیزہ قرار دیا ہے اور عالمین کی خواتین میں سے آپ کو منتخب کیا ہے۔اے فاطمہ اپنے رب کی اطاعت کرو اس کے سامنے سجدہ ریز ہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع بجا لاؤ۔پس حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا فرشتوں سے گفتگو فرماتی تھیں اور ملائکہ آپ سے گفتگو کرتے تھے۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کے محدثہ ہونے پر اشکال اور اس کا جواب
بعض کا گمان ہے کہ کسی انسان کا ملائکہ سے گفتگو کرنا وحی کہلاتا ہے اور وحی فقط انبیاء پر نازل ہوتی ہے لہذا جناب سیدہ کا محدثہ ہونا ختم نبوت کے منافی ہے۔جبکہ قرآن مجید میں متعدد افراد کے ساتھ ملائکہ کا ہم کلام ہونا ثابت اورمسلم ہے, قرآن کریم ملائکہ کے ساتھ غیر انبیاء کی گفتگو کو صراحتا نقل کر رہا ہے لہذا ملائکہ کے ساتھ گفتگو نہ توانبیاء کے ساتھ خاص ہے اور نہ ہی غیر انبیاء کے لئے محال و ناممکن۔جیسے حضرت مریم علیہا السلام کے بارے میں سورہ آلعمران میں ارشاد باری تعالی ہے:
"وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ۔(3)
اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا: اے مریم!بیشک اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں میں برگزیدہ کیا ہے۔
"يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ”۔(4)
اے مریم! اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔
إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِين۔(5)
جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہو گا،وہ دنیا و آخرت میں آبرومند ہو گا اور مقرب لوگوں میں سے ہو گا۔
حضرت مریم علیہا السلام ہی کے بارے میں سورہ مریم آیہ 16_21میں ارشاد باری ہے :
"وَ اذۡکُرۡ فِی الۡکِتٰبِ مَرۡیَمَ ۘ اِذِ انۡتَبَذَتۡ مِنۡ اَہۡلِہَا مَکَانًا شَرۡقِیًّا۔فَاتَّخَذَتۡ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ حِجَابًا ۪۟ فَاَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡہَا رُوۡحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا۔قَالَتۡ اِنِّیۡۤ اَعُوۡذُ بِالرَّحۡمٰنِ مِنۡکَ اِنۡ کُنۡتَ تَقِیًّا۔قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوۡلُ رَبِّکِ ٭ۖ لِاَہَبَ لَکِ غُلٰمًا زَکِیًّاقَالَتۡ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ لَمۡ یَمۡسَسۡنِیۡ بَشَرٌ وَّ لَمۡ اَکُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ ۚ قَالَ رَبُّکِ هو عَلَیَّ ھیِّن ۚ وَ لِنَجۡعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحۡمَۃً مِّنَّا ۚ وَ کَانَ اَمۡرًا مَّقۡضِیًّا
آيات کا ترجمہ:
اور (اے رسول!) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجیے جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔پھر انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا پس ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا، پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔مریم نے کہا: اگر تو پرہیزگار ہے تو میں تجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔اس نے کہا: میں تو بس آپ کے رب کا پیغام رساں ہوں تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔مریم نے کہا : میرے ہاں بیٹا کیسے ہو گا؟ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں ہے اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔فرشتے نے کہا: اسی طرح ہو گا، آپ کے رب نے فرمایا: یہ تو میرے لیے آسان ہے اور یہ اس لیے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لیے نشانی قرار دیں اور ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ ہے۔یہ تمام آیتیں ملائکہ کے ساتھ حضرت مریم علیہا السلام کے ہم کلام ہونے کو بیان کرتی ہیں حالانکہ حضرت مریم علیہا السلام نہ نبی تھیں اور نہ رسول۔
اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ کے بارے میں ارشاد باری ہے:
"وَ امۡرَاَتُہٗ قَآئِمَۃٌ فَضَحِکَتۡ فَبَشَّرۡنٰہَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَ مِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ یَعۡقُوۡبَ۔(6)
اور ابراہیم کی زوجہ کھڑی تھیں پس وہ ہنس پڑیں تو ہم نے انہیں اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بشارت دی۔
قَالَتۡ یٰوَیۡلَتٰۤیءَ اَلِدُ وَ اَنَا عَجُوۡزٌ وَّ ہٰذَا بَعۡلِیۡ شَیۡخًا ؕ اِنَّ ہٰذَا لَشَیۡءٌ عَجِیۡبٌ۔(7)
وہ بولی: ہائے میری شامت! کیا میرے ہاں بچہ ہو گا جبکہ میں بڑھیا ہوں اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہیں؟ یقینا یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔
قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِیۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰہِ رَحۡمَتُ اللّٰہِ وَ بَرَکٰتُہٗ عَلَیۡکُمۡ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ ؕ اِنَّہٗ حَمِیۡدٌ مَّجِیۡدٌ۔(8)
انہوں نے کہا:کیا تم اللہ کے فیصلے پر تعجب کرتی ہو؟ تم اہل بیت پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکات ہیں، یقینا اللہ قابل ستائش، بڑی شان والا ہے۔جبکہ یہ واضح ہے کہ جناب سارہ زوجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ نبی تھیں اور نہ ہی رسول۔
اسی طرح مادر حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہے:
وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اُمِّ مُوۡسٰۤی اَنۡ اَرۡضِعِیۡہِ ۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَیۡہِ فَاَلۡقِیۡہِ فِی الۡیَمِّ وَ لَا تَخَافِیۡ وَ لَا تَحۡزَنِیۡ ۚ اِنَّا رَآدُّوۡہُ اِلَیۡکِ وَ جَاعِلُوۡہُ مِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ۔(9)
اور ہم نے مادر موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں دودھ پلائیں اور جب ان کے بارے میں خوف محسوس کریں تو انہیں دریا میں ڈال دیں اور بالکل خوف اور رنج نہ کریں، ہم انہیں آپ کی طرف پلٹانے والے اور انہیں پیغمبروں میں سے بنانے والے ہیں۔اس آیت میں حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو وحی سے تعبیر کیا گیا ہے جبکہ مادر موسی علیہ السلام بھی نہ تو نبی تھیں اور نہ ہی رسول۔
مندرجہ بالا آیات اور قرآن مجید کی دیگر بہت سی آیات میں اس بات کی صراحت ہوئی ہے کہ ملائکہ غیر انبیاء سے ہم کلام ہوئے ہیں اور ان باتوں کو بھی قرآن کریم نے نہ فقط تفصیل سے بیان کیا ہے بلکہ بعض موارد میں اس گفتگو کو وحی سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ یہ گفتگو نہ تو انبیاء پر ہونے والی وحی کی طرح کی وحی تھی اور نہ ہی یہ شخصیات نبی اور رسول تھیں۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیھا بھی ملائکہ سے ہم کلام ہوتی تھیں اسی لئے محدثہ کہلاتی ہیں اور ملائکہ سے ہونے والی یہی گفتگو تحریر کی صورت میں ائمہ معصومین علیہم السلام کے ہاں موجود رہی ہے اور یہ اسرار امامت میں سے ہے جس کے بارے میں روایات نقل ہوئی ہیں۔لہذا یہ مصحف نہ انبیاء پر نازل ہونے والی وحی کی طرح کوئی وحی ہے اور نہ الگ سے کوئی قرآن۔
مصحف فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کے بارے میں مزید وضاحت
مصحف لغت میں ان مکتوب اوراق کو کہا جاتا ہے جو دو جلدوں میں ہوں جیسے کہ لسان العرب میں ابن منظور لکھتے ہیں:
المصحف والمصحف الجامع للصحف المكتوبة بين الدفتين ”
” مصحف يا مصحف ان لکھے ہوئے اوراق کے مجموعے کو کہتے ہیں جو دو جلدوں کے درمیان میں ہوں۔
اس مجموعے میں ایک قول کے مطابق جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے ملائکہ سے اپنی ہونے والی گفتگو کوخود تحریر کیا ہے اور ایک قول کی بنا پر جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے املا کیا ہے اور امیر المومنین علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے۔لفظ مصحف کے رائج الوقت معانی کی وجہ سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مصحف فاطمہ سلام اللہ علیھا الگ سے شاید ایک اور قرآن ہے حالانکہ نہ تو یہ کوئی قرآن ہے اور نہ ہی قرآنی مطالب پر مشتمل ہے۔مکتب تشیع کا قرآن بھی وہی قرآن ہے جو تمام مسلمانوں کے درمیان رائج اور موجود ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود خداوند عالم نے اپنے ذمہ لی ہے اور فرمایا ہے ۔
اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ۔(10)
اس ذکر کو یقینا ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِالذِّکۡرِ لَمَّا جَآءَہُمۡ ۚ وَ اِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیۡزٌ۔(11)
جو لوگ اس ذکر کا انکار کرتے ہیں جب وہ ان کے پاس آجائے، حالانکہ یہ معزز کتاب ہے۔
لَّا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ لَا مِنۡ خَلۡفِہٖ ؕ تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ حَکِیۡمٍ حَمِیۡدٍ۔(12)
باطل نہ اس کے سامنے سے آ سکتا ہے اور نہ پیچھے سے، یہ حکمت والے اور لائق ستائش کی نازل کردہ ہے۔
قرآن كريم معجزہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور معجزہ میں تحریف ناممکن ہے۔(تفسير کوثر)
ان مذکورہ تمام شواہد اور مطالب کی روشنی میں ہم یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پیامبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المومنین علی علیہ السلام کے بعد امت میں قرآن مجید کی عظمت اور معارف میں جناب سیدہ سلام اللہ علیھا سب سے بلند اور اعلی مرتبے پر فائز تھیں۔اور آپ بھی ائمہ معصومین علیہم السلام کی طرح تعلیمات قرآن کی امین تھیں۔ پس یہی وجہ ہے کہ جناب سیدہ کی حیات طیبہ میں عظمت قرآن کے متعدد نمونے ہمیں نظر آتے ہیں۔
انس بالقرآن
جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کی حیات طیبہ کے واقعات میں متعدد روایات قرآن مجید سے آپ کے انس وتعلق کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ آپ نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے وصیت میں فرمایا:
إذا أنا مت فتول أنت غسلي، وجهزني، وصل علي، وأنزلني قبري، والحدني، وسو التراب علي، واجلس عند رأسي قبالة وجهي، فأكثر من تلاوة القرآن والدعاء، فإنها ساعة يحتاج الميت فيها إلى أنس الأحياء. (13)
ترجمہ: جب میرا انتقال ہوجائے تو آپ خود میر ی تجھیز و تکفین کریں اور میری نماز جنازہ ادا کریں مجھے قبر میں اتاریں اور میری قبر کو برابر کریں/ مٹی ڈالیں اور میرے سرھانے میرے سامنے بیٹھ جائیں اور زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت اور دعا کریں کیونکہ یہ وہ وقت ہے کہ جس میں میت زندوں کی طرف سے انس و توجہ کی محتاج ہوتی ہے۔
نیز بعض دیگر روایات میں آیا ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا بروز قیامت صحرائے محشر میں تلاوت قرآن اوربعض دیگر میں وارد ہوا ہے کہ آپ سلام اللہ علیھا جنت میں داخل ہوتے وقت تلاوت کلام پاک کر رہی ہونگی ۔
ان مذکورہ بالا مطالب اور دیگر بہت سے شواہد اور موارد سے یہ بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کا تعلق قرآن مجید سے نہایت گہرا اور مستحکم تھا اور آپ میں اور قرآن میں دوری ممکن ہی نہیں۔اسی تعلق اورارتباط کو قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جیسے حدیث ثقلین وغیرہ میں فرمایا کہ قرآن اور اہل بیت علیہم السلام میں جدائی اور دوری نا ممکن ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو( جو کہ فریقین کے ہاں تواتر کے ساتھ ثابت ہے) اہل بیت علیہم السلام نےمقام عمل میں اس فرمان کو ثابت کر دکھایا کہ قرآن اور عترت میں جدائی تا ورود حوض کوثر ممکن نہیں۔
عظمت قرآن بلسان زہرا ء سلام اللہ علیھا
جناب سیدہ سلام اللہ علیھا جس طرح مقام عمل میں زندگی بھر قرآن مجید کی تلاوت، تعلیمات اور دستورات کی پابند اور ان پر عمل پیرا رہیں اسی طرح آپ نے اپنے بیان اور زبان مبارک کے ذریعے سے قرآنی تعلیمات کا پرچار کیا اور اس بارے میں جو موقع آپ کو میسر ہوا اس میں تعلیمات قرآن آپ کی اولین اور بنیادی ترجیحات میں سے تھیں۔ اس بات پر واضح دلیل آپ کا وہ عظیم الشان خطبہ ” خطبہ فدک” ہے کہ جس میں آپ نے جہاں توحید، نبوت، فلسفہ احکام اور اپنے غصب شدہ حق پر متقن ومحکم استدلال کیا اور حق ذوی القربی اورحق میراث جیسے قرآنی اصول کے ذریعے امت کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی وہیں عظمت قرآن کو لوگوں کے سامنے واضح کیا۔اور قرآن مجید کے اوصاف اور کمالات بیان کرنےکےساتھ ،قرآن کریم کے مضامین، اور تعلیمات قرآنی پر عمل کرنے کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا ۔
اس نازک اورنامساعد موقع پر بھی عظمت قرآن اور تعلیمات قرآن آپ کی اولین ترجیحات اورنصب العین تھیں۔ اور معارف قرآن سے امت کو روشناس کرانا آپ کا اہم ترین ہدف اور مقصد تھا۔حالانکہ حالات اس قدر نامساعد تھے کہ جہاں آپ ایک طرف اپنے عظیم بابا ختم المرسلین رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں نہایت کرب و اذیت میں تھیں۔ وہیں اس عظیم مصیبت پر آپ کو تعزیت و تسلیت دینے کی بجائے امت کی آل رسول سے رو گردانی اورخاموشی، آپ کے شوہر اور ابن عم حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے حق خلافت کے چھن جانے اور حکم الہی سے پیامبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کئے گئے باغ فدک سے بے دخلی اور محرومی کے مراحل در پیش تھے۔ان سب حالات کے ہوتے ہوئے مسجد پیامبر میں دربار خلافت میں انصار ومہاجرین سے خطاب اور توحید و نبوت عظمت قرآن اور فلسفہ احکام کے ساتھ ساتھ اپنے حق کو آيات قرآنی کے ذریعے ثابت کرنا وہ عظیم معرکہ تھا جس کا سر کرنا لخت جگر رسول اسلام ہمسر فاتح خیبر کے علاوہ کسی اور کے بس میں نہ تھا۔
خطبہ فدک تعلیمات قرآن اوعظمت قرآن کا ایک انمول خزانہ ہے کہ جس میں جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے جہاں بعض آيات سے اپنے غصب شدہ حق پر استدلال کیا ہے اور قرآن سے اپنے حق کو ثابت کیا ہے وہیں اس مختصر خطبے کو قرآنی اقتباسات سے مزین بھی کیا ہے حتی کہ بعض علماء کے مطابق آپ نے 30 آيات قرآنی سے اقتباسات پیش کئے ہیں۔ مزید یہ کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کا یہ خطبہ قرآنی مضامین و معارف کے اعتبار سے بھی بہت اہم ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے قرآن مجید کی بہت سی آیات کو اس خطبے میں تلمیحا بیان فرمایا ہے(تلمیح علم بلاغت کی اصطلاح میں ایسےکلام کوکہاجاتاہےکہ جس میں کسی دوسرے کےکلام کے محتوی اور مضمون کو ذکر کیا جاتا ہے) جناب سیدہ سلام اللہ علیھانےاس بلاغی جہت سےبھی اپنےاس خطبےکومزین فرمایاہےاورتقریبا30 مقامات پرتلمیحاآيات قرآنی کوبیان فرمایاہے۔
اس سے جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کی عالمہ بالقرآن ہونے اور قرآن مجید سے آپ کے تعلق اورارتباط کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ذیل میں ہم عظمت واہمیت قرآن کے بارے میں خطبہ جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کے اس حصے کو نقل کرنے پر اکتفا کریں گے جو کہ عظمت قرآن کے بارے میں ہے۔
جناب سیدہ قرآن کی قدر ومنزلت کو ان الفاظ میں بیان کر رہی ہیں:
كتاب الله الناطق والقرآن الصادق، والنور الساطع، والضياء اللامع، بينة بصائره، منشفة سرائره، متجلية ظواهره، مغتبطة به أشياعه، قائد إلى الرضوان أتباعه، مؤد إلى النجاة إسماعه، به تنال حجج الله المنورة، وعزائمه المفسرة، ومحارمه المحذرة، وبيناته الجالية وبراهينه الكافية، وفضائله المندوبة، ورخصه الموهوبة، وشرائعه المكتوبة.”
"یہ اللہ کی ناطق کتاب، سچا قرآن، چمکتا نور اور روشن چراغ ہے۔اس کے دروس عبرت واضح اور اس کے اسرارورموزآشکار اور اس کے معانی روشن ہیں۔اس کے پیروکار قابل رشک ہیں، اس کی پیروی رضوان کی طرف لے جاتی ہے اسے سننا بھی ذریعہ نجات ہے، اس قرآن کے ذریعے اللہ کی روشن دلیلوں کو پایا جاسکتا ہے بیان شدہ واجبات کو، منع شدہ محرمات کو، روشن دلائل کو، اطمینان بخش براہین کو، مستحبات پر مشتمل فضائل کو، جائز مباحات کو، اور اس کے واجب دستور کو پایا جا سکتا ہے۔
جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے اپنے اس خطبے میں قرآن مجید کے ناطق اور صادق ہونے کے ساتھ ہدایت کے لئے چراغ اور نور ہونے کے اوصاف کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے نیز اس کے نصاب زندگی اور واضح وبین ہونے کا تذکرہ فرمایا ہے ان ذکر شدہ اوصاف کو ہم قرآن مجید میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی نہ ہونے کی دلیلوں میں سے ایک دلیل سمجھتے ہیں کیونکہ اگر قرآن میں کمی بیشی ہو تو اسے کیونکر کتاب ھدایت اور نور ہدایت قرار دے سکتے ہیں۔
قرآن مجید ہدایت کا نصاب ہے جو قیامت تک رہے گا۔ارشاد پروردگار ہے :إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون۔(14)
نیز قرآن کریم کے ظواہر کی حجیت بھی اس کلام سے سمجھ میں آتی ہے کیونکہ یہ کتاب ھدایت اسی وقت ہوگی جب اس پر عمل لازم ہو اور اس کے اوامر ونواھی کو انسان سمجھ سکتا ہو۔البتہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان ہادیان برحق کی طرف سے تفسير اور بیان سے بے نیاز ہو جائے اور یہ سمجھے کہ سارا قرآن ہی اس کے لئے قابل فہم ہے۔
وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ۔(15)
اور (اے رسول) آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں اور شاید وہ (ان میں) غور کریں۔
کیونکہ قرآن کے اندر محکم بھی ہیں اور متشابہ آيات بھی۔
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ؃ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ۔(14)
وہی ذات ہے جس نے آپ پر وہ کتاب نازل فرمائی جس کی بعض آیات محکم (واضح) ہیں وہی اصل کتاب ہے اور کچھ متشابہ ہیں، جن کے دلوں میں کجی ہے وہ فتنہ اور تاویل کی تلاش میں متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، جب کہ اس کی (حقیقی) تاویل تو صرف خدا اور علم میں راسخ مقام رکھنے والے ہی جانتے ہیں جو کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت تو صرف عقل مند ہی قبول کرتے ہیں۔
قرآن تقرب الی اللہ کا بہترین وسیلہ ہے اور نجات کا ضامن ہے
"إني تارك فيكم الثقلين كتاب الله وعترتي ما ان تمسكهم بهما لن تفضلوا بعدي ابدا.”
اسی طرح قرآن کے بارے میں جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کے دیگر جملے بھی قرآن کریم کے کتاب عمل اور دستور حیات ہونے کو بیان کررہے ہیں قرآن مجید تشریع و تقنین احکام کا اولین مصدر ہے اور ان احکام ودستورات کے فلسفے کو بھی جناب سیدہ نے نہایت عمیق اور دقیق انداز سے پیش کیا ہے اور ان اہداف و مقاصد کی قرآن مجید اور فرامین ائمہ معصومین علیہم السلام سے تائید اور تاکید ہوتی ہے۔
عظمت جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا قرآن کی نظر میں۔
قرآن کریم کتاب ہدایت ہونے کے اعتبار سے ہدایت اور نجات سے متعلق تمام تعلیمات کی حامل کتاب ہے۔اور ہدایت سے متعلق جہات میں سے ایک اہم اور بنیادی جہت ہادیان برحق کا تعارف اور وارثان قرآن کا تعین اور تشخیص ہے۔ اس کے ساتھ ہی معجزہ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر دلیل اور قیامت تک کے لئے نصاب ہدایت ہونے کی بنا پر ان ہادیان الہی کا تعارف اسمائے گرامی کی بجائے ان کے اوصاف، عنوانات اور خصائل وکارناموں کے ذریعے سے کیا گیا۔
اللہ تعالٰی نے جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کو بھی انبیاء کرام اور ائمہ ہدی علیہم السلام کی طرح انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے پیدا کیا، لہذا قرآن مجید میں جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کے فضائل و کمالات اورامت پر ان کے حقوق و فرائض کو بھی بیان کر دیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں مذکور ان فضائل و اوصاف میں یا تو جناب سیدہ سلام اللہ علیھا، ائمہ معصومین علیہم السلام کے ساتھ شامل اور شریک ہیں یا خود جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کو خصوصیت کے ساتھ ان آیات میں امتیازی مقام و مرتبے سے نوازا گیا ہے۔
ان آیات کے اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہونے یا اہل بیت علیہم السلام(امیر المومنین علیہ السلام، جناب سیدہ سلام اللہ علیھا اور امام حسن علیہ السلام اورامام حسین علیہ السلام کا ان آیات میں شامل ہونے کا اعتراف اہل سنت علماء نے اپنی کتابوں میں متعدد روایات کو نقل کر کے کیا ہے جیسا کہ جلال الدین السیوطی اپنی کتاب تفسير در منثور میں ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ: "لما نزلت هذه الآية قل لا أسئلكم عليه أجرا إلا المودة في القربى ،قالوا يارسول الله من قرابتك هؤلاء الذين وجبت علينا مودتهم؟قال علي وفاطمة وولداهما.(16)
” جب یہ آیت "کہدیجئے: میں اس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا سوائے قریب ترین رشتہ داروں کی محبت کے نازل ہوئی تو لوگوں نے پوچھا يارسول اللہ آپ کے قریبی رشتہ داروں سے کون مراد ہیں جن سے مودت ہم پر فرض ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ، اور ان دونوں کے دونوں بیٹے۔
اور وہ آیات جو تاویل کے لحاظ سے شان اہل بیت کو بیان کرتی ہیں وہ بہت زیادہ ہیں یہاں تک کہ منقول ہوا ہے کہ ربع/ایک چوتھائی قرآن اہل بیت علیہم السلام کی شان اور منزلت کے بارے میں نازل ہوا ہے۔
حوالہ جات


1)۔بحارالأنوار: 43، 202
(2)۔بحار الأنوار:14، 206
(3) ال عمران:3، 42
(4) ال عمران:3، 43
(5) آل عمران: 3، 45
(6،7،8) ھود: 11، 71،72،73
(10) قصص :28 ،7
(11) الحجر:15، 9
(12) فصلت:41، 41
(13) فصلت: 41، 42
(14) بحار الأنوار:43/36 بحوالہ چشمہ در بستر :221(1)
(15)۔ النحل الأية ٤٤
(16)۔ أل عمران: 3، 7
(15)۔الدر المنورہ:7، 348

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button