سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

معاشرہ اور خاندان کی تشکیل میں عورت کا کردارسیدہ کونین سلام اللہ علیھا:کی سیرت کی روشنی میں

مقالہ نگار: مولاناسفیر حیدر:متعلم جامعۃ الکوثر
مقدمہ
کسی بھی معاشرے اور خاندان کی تشکیل اور ترقی کیلئے جتنا اہم کردار مرد کاہوتا ہے اتنا ہی اہم کردار عورت کا بھی ہوتا ہےچاہے وہ کردار سیاسی ہو یا اقتصادی ظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ہو یا مظلوم کی حمایت ان دونوں صنفوں کے کردار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔چونکہ ذات احدیت نے خود بھی اپنی لاریب و بے عیب کتاب کے اندر مرد اور عورت کو ایک ہی انداز میں خطاب فرمایا ہے جسیا کہ سورہ نحل میں ارشاد خداوندی ہے
مَنۡ عَمِلَ صَالِحًا مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَنُحۡیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ۚ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَجۡرَہُمۡ بِاَحۡسَنِ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ. (1)
ترجمہ:- جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے اور ان کے بہترین اعمال کی جزا میں ہم انہیں اجر (بھی) ضرور دیں گے۔
کوئی شخص جہاں اور جس حالت میں بھی ایمان کے ساتھ عمل صالح بجا لائے تو قرآن اس کے بارے میں فرماتا ہے کہ مرد و عورت میں سے جو بھی ایمان کے ساتھ نیک عمل انجام دے ہم انہیں بہترین جزا دیں گے۔ گویا معیار ایمان اور عمل صالح ہے اس کے علاوہ کوئی شرط اور معیار نہیں ہے نہ سن وسال کا مسئلہ ہے نہ قوم و قبیلے کا اور نہ جنس وصنف کا۔ پس معاشرتی مقام و مرتبے کا معیار وہ عمل صالح ہے جو ایمان کی پیداوار ہو اُس جہاں میں اس کا نتیجہ "حیات طیبہ” ہے۔(2)
پس ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تمام انسان برابر ہیں اور کسی کو دوسرے پر فوقیت کا معیار کوئی مرد اور عورت ہونا نہیں ہے۔ بلکہ عمل صالح اور تقویٰ ہے۔
اگرچہ اس ذات احدیت اور حکیم ذات نے اپنی بعض مصلحتوں اور حکمتوں کی وجہ سے تمام انبیاء علیہم السلام اور آئمہ کرام علیھم السلام کو مرد بنایا لیکن اگر کسی عورت کو نبی یا امام نہیں بنایا تو نبی اور امام کی ماں ضرور بنایا ہے۔اور عورت کی آغوش کو ان عالی مرتبت ہستیوں کی تربیت گاہ قرار دیا ہے۔اور بعض خواتین کو اتنا باعظمت قرار دیا کہ معصوم امام کو فرمانا پڑا:” ہم لوگوں پر حجت ہیں اور فاطمہ ہم پر حجت ہیں”۔(3)
لہذا اپنے اس مقالہ میں جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے معاشرے اور خاندان کی تشکیل،ترقی اور ارتقاء میں عورت کے کردار کی اہمیت کو سیرتِ سیدہ فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی روشنی میں بیان کروں گا۔ کیونکہ ایک عورت سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کی سیرت عالیہ کو اپنا کر نہ صرف ایک گھر کو بلکہ پورے معاشرے کو جنت کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ دنیا کی نصف آبادی عورتوں پر مشتمل ہے اور اس معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا دارومدار جتنا مردوں پر ہے اتنا ہی عورتوں پر بھی ہے۔
لہذا ایک عورت جتنے احسن انداز اور بہترین طریقے سے اپنے اس فریضہ کو بجا لائے گی تو اتنا ہی نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورا معاشرہ جنت نظیر بن جائے گا۔اس عظیم کردار کو ادا کرنے کے لیے اور معاشرہ کو جنت نظیر اور خوشحال بنانے کے لیے ایک عورت کو جن جن صفات و خصوصیات کا مالک ہونا چاہیے اب میں انہیں سیرتِ طیبہ سیدہ فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی روشنی میں الگ الگ ذکر کروں گا۔
1۔ علم
ہم جانتے ہیں کہ جب تک ایک عورت اپنے آپ کو علم کے زیور سے آراستہ نہیں کرے گی اسوقت تک وہ معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکتی اس لیے ہمیں سیرت سیدہ کائنات میں بھی علم کو حاصل کرنے اور علم سیکھنے اور سیکھانے کی فضلیت اور عظمت واہمیت کے بارے میں کافی فرامین نظر آتے ہیں جیسا کہ آپ علیھاالسلام نے دینی احکام ومسائل کی تعلیم دینے کی فضيلت کے بارے میں اس عورت کے جواب میں فرمایا جس نے آپ علیھاالسلام سے کافی فقہی سوال پوچھنے کے بعد کہا: اے بنت پیغمبر میری باتوں سے آپ کو تکليف تو نہيں پہنچی؟
تو شہزادی کونین سلام اللہ علیھا: نےفرمایا: "ھاتی وسلی عمابدالک اراایت من اکتری یوما یصعدالی سطح بحمل ثقیل وکراہ ماۃ الف دینار ایثقل علیہ ذالک؟ فقالت:لا!
فقالت علیھاالسلام: اکتریت انا لکل مسالۃ باکثر من ملئ ما بین الثری الی العرش لؤلؤا فاحری ان یثقل علی(4)
ترجمہ؛ بی بی سلام اللہ علیھا نے فرمایا :جو کچھ چاہو سوال کرتی رہو(یہ نہ سوچو کہ میں تم سے گھبراجاؤں گی) کیونکہ اگر کوئی وزنی بوجھ اٹھانے کے لیے ایک لاکھ دینار لے تو کیا اسے سنگینی کا احساس ہوگا۔عرض کیا: نہيں
اس کے بعد جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا : مجھے ہر سوال کے جواب میں اجروثواب کے عنوان سے زمین سے لے کر عرش تک لولوومرجان ملیں گے تو بھلا تمھارے سوالات مجھ پر گراں کیوں گزرے گے۔
2۔ایثار:
کسی بھی معاشرے کی خوشحالی وترقی کے لیے ایک عورت کا جذبہ ایثار سے سرشار ہونا ضروری ہے ہمیں سیرت جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا میں ایثار کی اعلی مثالیں نظر آتی ہیں۔امام حسن علیہ السلام اپنی والدہ کے ایثار کے بارے میں فرماتے ھیں کہ
رایت امی۔۔۔تدعوللمؤمنین ولاتدعولنفسھا، فقلت:یااماہ!
لم لاتدرعین لنفسک؟ قالت علیھا السلام : یا بنی ! الجار ثم الدار(5)
امام حسن علیہ السلام کا بیان ہے میں نے اپنی مادر گرامی کو دیکھا وہ آدھی رات میں مؤمنین کے حق میں دعا کر رہی ہیں مگر اپنے لئے دعا نہیں کر رہی ہیں تو میں نے عرض کیا : مادر گرامی! آپ اپنے لئے کیو ں نہیں دعا فرما رہیں ہیں ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا میرے پیارے بیٹے پہلے پڑوسی پھر گھر والوں کے لئے دعا کی جاتی ہیں ۔
3۔ سادگی
ایک عورت اس وقت معاشرے اور خاندان کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے جب وہ سادگی کو اپنا شعار بنائے کیونکہ ہمارے بہت سارے مسائل سادگی کو ترک کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور معاشرہ غیر متوازن اور مختلف مسائل کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جناب سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا:کی ساری زندگی میں ہمیں سادگی کا عملی نمونہ نظر آتا ہے ایک موقعہ پر جب حضرت سلمان محمدی نے آپ کے سادہ لباس پر تعجب کیا تو آپ علیھا السلام نے فرمایا :
فوالذی بعثک بالحق نبیا مالی ولعلی منذ خمس سنین الا مسک کبش نعلف علیہ بالنہار بعیرنا فاذا کان الیل افترشناہ و ان مرفقتنا لمن ادحر حشوھا لیف النخل (6)
اس ذات کی قسم جس نے میرے بابا کو بر حق نبی بنا کر بھیجا ہے مسلسل پانچ سال سے ہم گوسفند کی وہ کھال جس پر اونٹ کو چارا ڈالتے ہیں رات میں اسی کا بستر بنا کر اسی پر سوتے ہیں اور ہمارا تکیہ بھی کھال کا ہے جس کے اندر کھجور کے درخت کی چھال بری ہوئی ہے۔
4۔ زھد و تقویٰ
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایسی عورت ہی کسی معاشرے میں خوشحالی کا باعث بن سکتی ہے جو زہد و تقویٰ کو اپنا شعار بنالے۔ اور ہم تاریخ انسانیت میں دیکھتے ہیں کہ جتنی بھی با عظمت خواتین گزری ہیں وہ زہد و تقویٰ کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھیں ۔سیرت سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا: میں بھی ہمیں زہد و تقویٰ کا عملی مظاہرہ نظر آتا ہے۔اور ہمیں سیرت سیدہ کائنات میں ملتا ہے کہ آپ علیھا السلام اپنی شادی کی پہلی شب حضرت علی علیہ السلام سے یہ فرماتی نظر آتی ہیں۔
"فانشدک اللہ ان امت الی الصلاۃ فنعبد اللہ تعالیٰ ھذہ اللیلۃ” (7)
ترجمہ۔ میں آپ کو خدا تعالیٰ کی قسم دے کر کہتی ہوں آئیے مشترک زندگی کا آغاز نماز سے کریں آج شب ہم مل کر خدا کی عبادت کریں
5۔سخاوت
ایک عورت معاشرے کی تشکیل اور ترقی میں اس وقت اہم کردار ادا کر سکتی ہے جب وہ سخاوت جیسی اہم صفت سے متصف ہوں۔اور سیدہ کائنات تو ایسی سخی ہے کہ ان کی سخاوت کے قصیدے قرآن مجید پڑھتا نظر آتا ہے۔
"وَ یُطۡعِمُوۡنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسۡکِیۡنًا وَّ یَتِیۡمًا وَّ اَسِیۡرًا اِنَّمَا نُطۡعِمُکُمۡ لِوَجۡہِ اللّٰہِ لَا نُرِیۡدُ مِنۡکُمۡ جَزَآءً وَّ لَا شُکُوۡرًا۔”(8)
” اور وہ اپنی خواہش کے باوجود مسکین، یتیم اور اسیر کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (وہ ان سے کہتے ہیں) ہم تمہیں صرف اللہ (کی رضا) کے لیے کھلا رہے ہیں، ہم تم سے نہ تو کوئی معاوضہ چاہتے ہیں اور نہ ہی شکرگزاری۔
قالت فاطمه علیھا السلام:حبب الی من دنیاکم ثلاث: تلاوۃ کتاب الله و النظر فی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والانفاق فی سبیل اللہ (9)
ترجمہ۔ سیدہ کائنات فرماتی ہیں :مجھے تمھاری دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: کتاب خدا قرآن پاک کی تلاوت، رسول خدا کے چہرہ مبارک کی زیارت اور راہ خدا میں انفاق۔
6۔پردہ داری
ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کا ایک اہم عنصر پردہ داری ہے جو بہت سے مسائل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتاہے ایک ایسی عورت جو کسی معاشرے کے ارتقاء و ترقی کا بیڑا اٹھاتی ہے اس کا با پردہ ہونا بہت ضروری ہے سید ہ کائنات سلام اللہ علیھا کی سیرت میں پردہ داری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مولا علی علیہ السلام فرماتے ھیں: کُنَّا جُلُوْساً عَنْدَہٗ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم :فقال اخبرونی ای شیء خیر للنسآء فعیینا فرجعت الی فاطمہ فقالت خیر للنسآء ان لایرین الرجال ولایراھن الرجال” (10)
حضرت امام علی علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک دن ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے تو حضور ؐ نے فرمایا
مجھے یہ بتائیں کہ عورتوں کے لئے کون سی چیز سب سے بہتر ہے تو ہم میں سے کوئی بھی جواب نہ دے سکا اور میں حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے پاس آیا ۔ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا "خواتین کے لیے سب سے اچھی بات یہ ہے کہ نامحرم مرد انہیں نہ دیکھ سکے اور نہ وہ خواتین ان نامحرم مردوں کو دیکھ سکے۔”
7۔شرم و حیا
کسی بھی معاشرے کی خوشحالی و ترقی میں وہی عورت اہم کردار ادا کر سکتی ھے جو اپنے آپ کو شرم و حیا سے مزین کر سکے اور سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کی سیرت طیبہ میں شرم و حیا کا عملی نمونہ ملتا ہے اور آپ علیھا السلام کی شرم و حیا کا اندازہ اس ارشاد گرامی سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا ہے۔
” انی قد استقبحت ما یمنع با النسآء انہ یطرح علی المرأہ الثوب فیعغھا لمن رأی فلا نحملینی علی سریر ظاھر استرینی سترک اللّٰہ من النار”(11)
سیدہ کائنات حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا،خواتین کے جنازہ اٹھانے کا جو طریقہ رائج ہے وہ مجھے بالکل پسند نہیں ہے کہ عورت کے جنازہ پر ایک کپڑا ڈال دیا جاتا ہے جبکہ نشیب و فراز پر لوگوں کی نظریں پڑتی ہیں ۔اسماء تم مجھے ایسے تختے پر نہ رکھنا جس سے بدن کا ہر حصہ ظاہر ہو۔ میرے بدن پر اچھی طرح سے پردہ کر دینا۔ خدا تمہیں دوزخ کی آگ سے محروم رکھے گا۔
8 ۔ خلوص
جو بھی عورت کسی معاشرے کی تشکیل اور تر قی میں اہم کردار ادا کرنا چاہتی ہے اس میں ایک اہم چیز یعنی خلوص کا ہونا بہت ضروری ہے۔
اور سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کی سیرت میں ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں خلوص نظر آتا ہے چنا نچہ سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا عبادت میں خلوص کے بارے میں فرماتی ہیں؛
قالت فاطمہ سلام اللہ علیہا؛”من اصعد الی اللہ خالص عبادتہ اھبط اللّٰہ الیہ افضل مصلحتہ” (12)
جو شخص اپنی خالص عبادتیں خدا کی بارگاہ میں بھیجے گا خداوند عالم اپنی بہترین مصلحت اس پر نازل فرمائے گا۔
9۔تربیت اولاد
ایک ایسی عورت جو نہ صرف ایک خاندان بلکہ ایک معاشرے کو جنت نظیر بنانے کا ذمہ لیتی ہے اسکی ایک اہم خوبی یہ ہونی چاہئے کہ وہ خاندان یا معاشرے کو اچھے اور تربیت یافتہ افراد دے سکے۔ اس کام کے لیے اسے تربیت اولاد کا فن آنا چاہیے۔جناب سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کی سیرت میں ہمیں تربیت اولاد کا عملی نمونہ نظر آتا ہے۔آپ بچپن سے ہی اپنے بچوں کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مسجد میں بھیجتی تھیں تاکہ وہ اپنے نانا سے علم دین اور احکام شریعت کو سیکھ سکیں. اور بچپن سے ہی انکا لگاؤ علم دین کے حصول کی طرف ہو. اور وہ جب ایسی شریعت گاہ سے تربیت پائیں گے تو پھر ایک عظیم مصلح کی صورت میں ایک اہم کردار ادا کریں گے.

10۔اطاعت و فرمانبرداری
یہ حقیقت ہے کہ وہ عورت جس کے کاندھوں پر ایک اچھے معاشرے کی تشکیل اور اس معاشرے کو جنت نظیر بنانے کی ذمہ داری ہو تو اس میں اطاعت و فرمانبرداری کا عنصر ضرورموجود ہونا چاہیے ۔ چنانچہ جہاں وہ اپنے خالق ومالک کی اطاعت گزار اور فرماں بردار ہو وہیں پر اگر وہ اایک بیٹی ہےتو اپنے والدین کی اطاعت گزار اور فرما ںبردار ہو۔چونکہ اگر ایک بیٹی معاشرے میں اپنی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے ادا کرے تو وہ اس معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ اللّہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعض عظیم بیٹیوں کے کردار کو بیان کیا ہے
جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدۡیَنَ وَجَدَ عَلَیۡہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسۡقُوۡنَ ۬۫ وَ وَجَدَ مِنۡ دُوۡنِہِمُ امۡرَاَتَیۡنِ تَذُوۡدٰنِ ۚ قَالَ مَا خَطۡبُکُمَا ؕ قَالَتَا لَا نَسۡقِیۡ حَتّٰی یُصۡدِرَ الرِّعَآءُ ٜ وَ اَبُوۡنَا شَیۡخٌ کَبِیۡرٌ،فَسَقٰی لَہُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤی اِلَی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ،فَجَآءَتۡہُ اِحۡدٰىہُمَا تَمۡشِیۡ عَلَی اسۡتِحۡیَآءٍ ۫ قَالَتۡ اِنَّ اَبِیۡ یَدۡعُوۡکَ لِیَجۡزِیَکَ اَجۡرَ مَا سَقَیۡتَ لَنَا ؕ فَلَمَّا جَآءَہٗ وَ قَصَّ عَلَیۡہِ الۡقَصَصَ ۙ قَالَ لَا تَخَفۡ ٝ۟ نَجَوۡتَ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ۔ (13)
ترجمہ:-اور جب وہ مدین کے پانی پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا لوگوں کی ایک جماعت (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہی ہے اور دیکھا ان کے علاوہ دو عورتیں (اپنے جانور) روکے ہوئے کھڑی ہیں، موسیٰ نے کہا: آپ دونوں کا کیا مسئلہ ہے؟ وہ دونوں بولیں: جب تک یہ چرواہے (اپنے جانوروں کو لے کر) واپس نہ پلٹ جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتیں اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔ موسیٰ ؑنے ان دونوں (کے جانوروں) کو پانی پلایا پھر سایے کی طرف ہٹ گئے اور کہا: میرے رب! جو خیر بھی تو مجھ پر نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں۔پھر ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک حیا کے ساتھ چلتی ہوئی موسیٰ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میرے والد آپ کو بلاتے ہیں تاکہ آپ نے جو ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے آپ کو اس کی اجرت دیں، جب موسیٰ ان کے پاس آئے اور اپنا سارا قصہ انہیں سنایا تو وہ کہنے لگے: خوف نہ کرو، تم اب ظالموں سے بچ چکے ہو۔
صاحب تفسیر نمونہ اس بارے میں فرماتے ہیں
یہ واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کا ہے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ اتنی عظیم بیٹیاں اور باہمت لڑکیاں ہیں کہ اپنے والد گرامی کی ضعیفی کے باعث خود اپنے جانوروں کی دیکھ بھال کر کے اپنے خاندان کا معاشی سہارا بننے کیساتھ ساتھ پردے وشرم وحیا کا مکمل خیال رکھنے والی ہیں تو انہوں نے انکی مدد کی اور پھر انہوں نے دیکھا کہ ان دونوں میں سے ایک نہایت حیا سے چلتی ہوئی آرہی ہے اس کے انداز سے ظاہر تھا کہ اسے ایک جوان سے باتیں کرتے ہوئے شرم آتی ہے حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹی نے فقط ایک جملہ کہا کہ میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تا کہ آپ نے جو ہماری بکریوں کے لئے کنویں سے پانی کھینچا تھا اس کا معاوضہ دیں۔(14)
اور اگر ہم بیٹی کے کردار کو سیرت جناب زہراء سلام اللہ علیہا کی روشنی میں دیکھیں تو سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے یہ کردار اس احسن طریقے سے نبھایا کہ سردار الانبیاء یہ لقب عطا فرماتے نظر آتے ہیں کہ "ام ابیھا ! یعنی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنے والد کی ماں ہے۔
اس عظیم جملے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جناب سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا نے اپنے والد گرامی رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلّم کا اسطرح خیال رکھا جس طرح ایک ماں خیال رکھتی ہے۔
اسی طرح اگر وہ بیٹی جوان ہو کر منصب زوجیت پر پہنچے اور اپنے اعلیٰ کردار سے منصب زوجیت کو اچھی طرح نبھائے تو نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرے کو جنت نظیر بنا سکتی ھے اور قرآن مجید نے بھی ایک اچھی بیوی کی صفات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے۔
عَسٰی رَبُّہٗۤ اِنۡ طَلَّقَکُنَّ اَنۡ یُّبۡدِلَہٗۤ اَزۡوَاجًا خَیۡرًا مِّنۡکُنَّ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبۡکَارًا﴿15)
” اگر نبی تمہیں طلاق دے دیں تو بعید نہیں کہ اس کا رب تمہارے بدلے اسے تم سے بہتر بیویاں عطا فرما دے جو مسلمان، ایماندار اطاعت گزار، توبہ کرنے والیاں، عبادت گزار اور روزہ رکھنے والیاں ہوں خواہ شوہر دیدہ ہوں یا کنواری۔
اس آیت مجیدہ میں ایک با عظمت زوجہ کی درج ذیل چھ صفات حمیدہ کو بیان کیا گیا ہے۔
اسلام=وہ بیوی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ھے جو مسلمان ہو.
ایمان=قرآن مجید نے ایک اچھی زوجہ کی جو دوسری صفت بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ ایمان سے مزین ہو۔
قانتات=قرآن مجید نے ایک اچھی بیوی کی جو تیسری صفت بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کی فرمانبردار ہو.
تائبات=قرآن مجید نے ایک اعلیٰ کردار کی حامل زوجہ کی چوتھی صفت بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ اگر اس سے غلطی سرزد ہو جائے تو اس غلطی سے توبہ کرے.
عابدات=قرآن مجید نے ایک اچھی بیوی کی جو پانچویں صفت بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ عابدہ ہو یعنی عبادت الٰہی کے جذبہ سے سرشار ہو۔
مطیعات=قرآن مجید نے ایک ایسی زوجہ جو معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے کی چھٹی صفت یہ بتائی ہے کہ وہ اطاعت الٰہی کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہو.(16)
اگر ہم ان تمام صفات اور خصوصیات کا حضرت زہراءسلام اللّٰہ علیھا کی سیرت میں دیکھیں تو یہ تمام صفات سیدہ کائنات میں بطور کامل موجود تھیں.لہذاہم سیدہ کائنات کی ازدواجی زندگی کا مختصر جائزہ پیش کرتے ہیں.
سیدہ زہراء سلام اللہ علیھا کی ازدواجی زندگی
آپ اپنے رفیق حیات کی دینی ودنیاوی اور معاشی واخروی تمام امور میں معاون ومددگار تھیں۔آپ اپنے شوہر کی مختلف اقسام کی اسلامی وانسانی ذمہ داریوں کو نمٹانے کے لیے ان کے شانہ بشانہ رہتی تھیں حتی کہ آپ اپنے شوہر کے ان کاموں ہمکاری اور ہمراہی میں پیش پیش رہیں جو مشکل ترین ہوتے تھے۔یہ حقیقت ہے کہ اگر خانوادگی میں افکار وعقیدہ اور ہدف میں ہم آہنگی ہو تو ایسی خانوادگی زندگی ہر زاویہ نظر سے مہر ومحبت ,اور عشق و محبت اور ہم سر کے حقوق کی پاسبانی ورعایت سے معمور ہوتی ہےتو ایسی زندگی کس قدر شیریں اور سعادت مندانہ ہوگی؟یہ حقیقت ہے کہ ان دوگوہر گرانقدر کی مشترک زندگی ایسی ہی تھی۔یہ کوئی مقام تعجب نہیں ہے کہ جناب زہراء سلام اللہ علیھا جہاں اپنے رفیق حیات کی اس عظمت ومنزلت ورفعت وسربلندی کو جانتی تھیں۔جو انھیں بارگاہ خدا وندی میں حاصل تھی۔آپ ان کا احترام واکرام اس طرح کرتی تھیں جس طرح ایک مسلمان عورت اپنے امام کا احترام کرتی ہے بلکہ وہ اپنے سچے راہبر وامام کا احترام بہتر وبیش تر کرتی تھیں۔آپ ان کے رو برو ہمیشہ سراپا گوش و ہوش,اطاعت وانکساری کی صورت لیے ہوتی تھیں۔آپ جناب امیر کے حق کی عارفہ تھیں اور ان کی منزلت کی بھرپورمعرفت رکھتی تھیں۔ان کے حقوق کی پاسبان تھیں کیونکہ وہ خوب جانتی تھیں کہ اللہ کے رسول تمام انسانوں میں ان سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں اور وہ ان کے محبوب ہیں۔آپ بخوبی جانتی تھیں کہ جہاں امام علی ان کے رفیق حیات ہیں وہاں وہ ولایت عظمیٰ ,خلافت کبریٰ اور امامت مطلقہ کے مالک ہیں وہ رسول اللہ کے برادر ہیں اور ان کے خلیفہ و جانشین ہیں اور وارث ووصی ہیں۔آپ کو معلوم تھا کہ آپ کے شوہر فضائل وفضیلت میں ,عزم وعزیمت میں بعدازرسول پوری کائنات پر برتری رکھتے ہیں دین کی سربلندی وترویج کی خاطر پوری امت پر سبقت رکھتے ہیں۔جی ہاں!دختر سرتاج انبیاء مکمل وکامل شائستگی کے ساتھ آپ کے مقام کو جانتی تھیں اور ان کی حرمت کی پاسداری کرتی تھیں۔اب اس کا دوسرا پہلو بھی دیکھتے ہیں کہ امام علی سیدہ فاطمہ زہرا کا اسی طرح احترام واکرام کرتے تھے جس طرح وہ کرتی تھیں آپ دختر رسول کی تکریم وتعظیم اس قدر کرتے تھے کہ جس کی کائنات میں مثال نہیں ملتی۔آپ اس لیے ان کا احترام نہیں کرتے تھے کہ وہ ان کی رفیقہ حیات تھیں بلکہ اس لیے ان کا احترام کرتے تھے کہ وہ اللہ کے رسول کی محبتوں کا مرکزومحور ہیں۔اللہ کی مخلوق میں رسول اللہ کو سب سے بڑھ کر جس سے محبت تھی وہ ان کی بیٹی سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا تھیں۔جناب امیر ان کی تعظیم اس لیے کرتے تھے کہ وہ عالمین کی خواتین کی سیدہ و سالار ہیں اور وہ جزء پیغمبر ہیں اس لیے ان کی عظمت کو سلام کرتے تھے کہ ان کا نور رسول اللہ کے نور سے تھا۔آپ وہ مقدس ذات تھیں اور ان ہستیوں میں سے تھیں کہ جن کی وجہ سے اللہ نے کتاب ایجاد ووجود کی نقاب کشائی فرمائی۔آپ عزت وعظمت کا خزینہ تھیں۔ (17)
خلاصہ مقالہ:
اس مقالہ میں سیرت سیدہ کائنات سلام‌الله علیہا کی روشنی میں ان خصوصیات اور صفات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن سے مزین ہو کر ایک عورت نہ صرف ایک خاندان بلکہ پورے معاشرےکی تشکیل اور ارتقاء و ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے. ان صفحات میں علم؛سادگی زہد و تقوٰی؛ پردہ داری؛ شرم و حیا؛ خلوص و سخاوت اور تربیت اولاد اور ازدواجی زندگی کو نہ صرف سیرت جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی روشنی میں بلکہ فرامین سیدہ کائنات سلام اللہ علیھا کی روشنی میں بیان کیاگیا ہے. امید ہے میری یہ کاوش و کوشش نہ صرف بارگاہ احدیت بلکہ بارگاہ چہاردہ معصومین علیہم السلام اور بالخصوص جناب زھرا سلام اللہ علیہا میں شرف قبولیت پائے گی. اور آخرت میں ہمارے لیے ذریعہ نجات قرار پائے گی.
حوالہ جات
1۔قرآن کریم ، 16:97
2۔ناصر مکارم شیرازی (مترجم صفدر نجفی) تفسیر نمونہ ج،6ص412.
3۔علامہ باقر مجلسی بحارالأنوار،ج نمبر 4
4۔محسن فیض کاشانی، محجتہ البیضاء فی تہذیب الحیاء 30/1
5۔علامہ باقر مجلسی بحارالأنوار82/43
6۔سید ابن طاؤوس الدروع الواقیہ
7۔نور اللہ شوستری احقاق الحق ج6ص481
8۔قرآن کریم ، 76:8،9
9۔ملاعلی واعظ خیابانی وقایع الاسلام، ص295
10۔علی بن عیسیٰ اربلی کشف الغمہ فی معرفتہ الأئمہ466/1
11۔شیخ حر عاملی وسائل الشیعہ876/2
12۔ابو الحسن ورام مجموعہ ورام 108/2
13۔قرآن کریم،28:23،24،25
14-ناصرمکارم شیرازی(مترجم صفدرحسین نجفی) تفسیرنمونہ ج۹ ص٦۸
15-قرآن کریم، 28:05
16-ناصرمکارم شیرازی(مترجم صفدرحسین نجفی) تفسیرنمونہ ج۱٤ ص۷۵
17-محمدکاظم قزوینی (مترجم الطاف حسین) فاطمۃ الزہرا طلوع سے غروب تک ص ۲٠٠

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button