عظیم ماں اورعظیم بیٹی علیھماالسلام کےخطبات کاتقابلی مطالعہ
ڈاکٹر عارف حسین
خلاصہ
خاندان عصمت وطہارت کی آغوش میں پرورش پانےوالی صدیقہ کبریٰ حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا اورثانی زہراءحضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیھا کی زندگی اورشخصیت میں جہاں کئی جہات سےمشترکات ہیں وہاں آپ دونوں کےخطبات میں فکری اوراسلوبیاتی سطح پرکئی حوالوں سےمماثلتیں دیکھی جاسکتی ہیں۔عظیم ماں اورعظیم بیٹی علیھماالسلام کےخطبات اپنےعہد کےدینی ،سیاسی،سماجی اورتاریخی منظرنامےہیں۔اس مقالےمیں آپ دونوں (س)کےعظیم اورملکوتی خطبات کےپس منظراورتعارف کااجمالی جائزہ لیتےہوئےدونوں خطبات کا فکری جہات اوراسلوبیاتی حوالوں سےجائزہ لےکردونوں میں مشترکات اورتفردات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
حضرت فاطمۃ الزہراءسلام اللہ علیھا کےخطبات کاپس منظراورتعارف:
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےسانحہ ارتحال کے بعد آپ (س) کےشوہرنامدارحضرت علیؑ کوقرآن واحادیث کی واضح تصریحات کےباوجودخلافت سےدوررکھاگیا’حضوررحمت صلی للہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سےدیئے ہوئے باغ فدک کوبھی غصب کرنے میں حکومت وقت نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔اس ضمن میں حاکم نیشاپوری اپنی تالیف فضائل فاطمہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاسےمروی ایک روایت کوان الفاظ میں لکھتے ہیں:بعثت فاطمۃ الیٰ ابی بکرالصدیق فسالتہ من میراثھاعن ابیھافقال لھا:ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال انالانورث:ماترکناصدقۃ فان اتھمتنی فسلی المسلمین یخبرونک ثم قامت علی ذالک فماتت۔(۱)
صدیقہ کبریٰ سلام اللہ علیھانے خطبہ حجۃالوداع( خطبہ غدیر)کی یاددہانی ،حضرت علی ؑکی ولایت کی یادآوری اورحق میراث کوارباب اقتدارسےواپس لینے کی خاطرمسجدالنبوی ؐمیں( خطبہ دینے کے لیےخواتین جماعت کی ہمراہی میں )تشریف فرماہوئیں ۔ پردے کاباقاعدہ اہتمام ہواپردےکےپیچھے سے یکایک حضرت فاطمہ کی "آہ "بلندہوئی نہ جانے اس آہ میں کیارازپوشیدہ تھاسارامجمع رونے لگاجب آہ وبکااورگریہ کی آوازیں ذراکم ہوئیں توحضرت فاطمہ نے خطبہ دیناشروع کیااس ضمن میں ابن طیفوراپنی کتاب بلاغات النساء میں لکھتےہیں:حتی دخلت علی ابی بکر وھوفی حشد من المہاجرین والانصارفنیطت دونھاملاءۃ ثم انت اجھش القوم لھابالبکاء وارتج المجلس ،فاَمہلت حتیٰ تشیج القوم ھداَت فورتھم فافتحت الکلام بحمد اللہ والثناء علیہ والصلاۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فعادالقوم فی بکائھم فلماامسکواعادت فی کلامھا۔(۲)
حضرت زہراءسلام اللہ علیھاسےمنسوب خطبات میں خطبہ فدک کے علاوہ ایک اورخطبہ(خطبۃ الدار) بھی ہے جسے آپ نے اپنی تیماداری پرآئی ہوئی انصارومہاجرین کی خواتین کودیا۔
ان خطبات کوعامہ اورخاصہ دونوں نے چندایک فقرات وجملات اوراقتباسات میں قدرےفرق کےساتھ کثرت طرق اوراسانیدسےاپنی تصانیف وتالیفات کی زینت بنایا ہے ۔ یہ خطبات اپنےمعنی آفرینی،مضمون آفرینی،بلندپردازی اورعلمی،فکری اورملکوتی مفاہیم ومطالب کی بناپرحقانیت اورسچائی کی دلیل ہے۔لہذاکوئی بھی علمی ،فکری اوربلاغی ذوق رکھنےوالاباشعورانسان اس ملکوتی خطبہ کاانکارنہیں کرسکتا۔اس ضمن میں صاحب "اللمعۃ البیضاء فی شرح خطبۃ الزہراء”لکھتےہیں:
وبالجملہ لااشکال ولاشبھۃ فی کون الخطبۃ من فاطمۃ الزھراء علیھا السلام،وان المشایخ آل ابی طالب کانویروونھاعن آبائھم ویعلمونھاابنائھم،مشایخ الشیعۃ کانوایتدارسون بینھم،ویتداولونھابایدیھم والسنتھم(۳)
حضرت فاطمۃ الزہراسلام اللہ علیھاکےخطبات جہاں فکری جہات سے بلندمضامین کےگنج ہائے گراں مایہ ہیں وہاں اسلوبیاتی اعتبارسےبھی ادب عالیہ کادرجہ رکھتےہیں۔آپ کےخطبات منظم،اورعمیق ہونےکے ساتھ ساتھ دل آویز،دلنشین اوررقت آمیزبھی ہیں۔آپ ؑکےملکوتی خطبات شیرینی ،تازگی اورچاشنی کے خورشید خاوربن کر ارباب عقل ودانش کےفکری دریچوں کو ہمیشہ نورانیت پہنچاتے رہیں گے۔اس ضمن میں آیت اللہ قزوینی اپنی شہرت یافتہ کتاب”فاطمہ من المھد الیٰ اللحد میں لکھتےہیں:
خطبت السیدہ فاطمۃ الزہراءخطبۃ ارتجالیۃ،منظمۃ،منسقۃ،بعیدۃ عن اضطراب فی الکلام،ومنزھۃ ولمراوغۃ،والتھریج والتشنیع۔۔۔واماالفصاحۃ والبلاغۃ،حلاوۃ البیان،وعذوبۃ المنطق،وقوۃ الحجۃ،ومتانۃ ا الدلیل،وتنسیق الکلام،وایرادانواع الاستعارۃ بالکنایۃ،وعلو المستوی،والترکیزعلی الھدف،وتنوع البحث،فالقلم وحدہ لایستطیع استیعاب الوصف(۴)
خطبات حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا کی فکری جہات کا جائزہ:
یہ مختصرمقالہ مکمل خطبے کامتحمل نہیں مزید برآں جس طرح قرآن کاخلاصہ سورہ فاتحہ ہے اسی طرح نہج البلاغہ کانچوڑ خطبہ فدک ہےآپ کاخطبہ علمی اورفکری سرمایہ ہے جوفلسفہ دین،شرعی احکام کےعلل واسباب،امامت کی مبادیات ،اخلاقی معارف،قضیہ فدک اوراسلامی سیاست کےافکارجیسےبلند اورگہرےمضامین کابیش بہاخزانہ ہے۔اس ضمن میں "اشراقات غراء من خطاب السیدۃ الزھرا(س)"میں عبدالحسن علی حبیب الناصر لکھتے ہیں:یعد خطاب الزھراء(س) ثروۃ علمیۃ وفکریۃ؛لماتضمنہ من مضامین ومیقۃ فی مجال الفلسفۃ الدین وعلل شرائع الاحکام،مبادئ الامامۃ،وفلسفۃ التعالیم الاخلاقیۃ،والفکرالسیاسی السلامی(۵)
اختصارکی خاطرزیرنظرمقالےمیں درج ذیل فکری جہات سےخطبات فاطمۃ الزہراسلام اللہ علیھاکاتجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
۱۔خطبات فاطمۃ الزہراءسلام اللہ علیھا میں کلامی مباحث
۲۔خطبات فاطمۃ الزہراءسلام اللہ علیھامیں قضیہ فدک پراصولی اورمنطقی استدلال
۳۔خطبات فاطمۃ الزہراءسلام اللہ علیھا میں سماجی سیاسی،تاریخی اورعصری شعور
۴۔خطبات فاطمۃ الزہراءمیں مظلومیت اہل البیت ؑکادردآمیزبیان اورولایت علی کادفاع
۱۔خطبات فاطمۃ الزہراءسلام اللہ علیھا میں کلامی جہات:
الٰہی تصورکائنات میں عقیدہ توحید کوبنیادی اورکلیدی حیثیت حاصل ہے ۔یہی وجہ ہےکہ اسلامی علم الکلام کی بنیاد عقیدہ توحید پراستوارہے۔توحید کااقرارکرنے والارسالت وآخرت پربھی ایمان رکھ کراپنے ایمان وایقان میں مزیدپائیداری اوراستحکام لاتا ہے۔اگرمزیدآگے بڑھے توعدل الٰہی اورعقیدہ امامت کو بھی اپناکراپنی دنیاوآخرت دونوں کوسنوارنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
حضرت فاطمہ الزہراءسلام اللہ علیھا کے خطبات کاجائزہ لیاجائے تو آپؑ کے خطبے میں توحیدبالذات،توحیدباالصفات،توحید درافعال اورتوحیددرعبادت کے ساتھ ساتھ مراتب توحید پربھی ایمان افروزاورفکرآمیزاشارات ملتے ہیں ۔جیساکہ آپ اپنے خطبے کےآغازمیں فرمارہی ہیں:الحمدللہ علیٰ ماانعم۔۔اشھد ان لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ کلمۃ الاخلاص تاویلھا۔۔الممتنع من الابصاررؤیتہ۔۔ابتدع الاشیاء لامن شیءِِوانشاَ ھالامن شیء کان قبلھا وانشاَ ھابلااحتذاء امثلۃ امتثلھا کونھابقدرتہ وذراَھابمشیتہ،من غیرحاجۃ منہ الیٰ تکوینھا۔۔تعبداًلبریتہ (۶)
ترجمہ:ثنائے کامل ہے اللہ کے لیے ان نعمتوں پرجواس نےعطافرمائی۔۔میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کےسواکوئی معبود نہیں وہ یکتاہے اس کاکوئی شریک نہیں۔کلمہ شہادت ایک ایساکلمہ ہے کہ اخلاص(درعمل)کواس کانتیجہ قراردیاہے۔۔ہرچیز کولاشئ سےوجودمیں لایا اورکسی نمونے کےبغیران کوایجادکیا اپنی قدرت سےانہیں وجود بخشااوراپنےارادے سے ان کی تخلیق فرمائی ان کی ایجادکی اسے ضرورت نہ تھی۔۔اورمخلوق کواپنی بندگی میں لاناچاہتاتھا۔ (۷)
کلامی ابحاث میں سے دوسری اوراہم بحث عقیدہ رسالت ونبوت ہے۔جب تک کوئی مسلمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےخاتم النبیین ہونے ؐ کاعقیدہ نہ رکھے تو توحید پرعقیدہ نامکمل رہتاہے۔ام ابیھاحضرت فاطمۃ الزہراء کےملکوتی خطبات میں نبی اکرمؐ کی نبوت ورسالت کےآغازاوراہداف ومقاصدپرمختصرمگرجامع معارف ملتے ہیں جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی ان الفاظ میں دیتی ہیں:واشھدان ابی محمد محمداً عبدہ ورسولہ اختارہ وانتجبہ قبل ان ارسلہ وسماہ قبل ان جتبلہ واصطفاہ قبل ان ابتعثہ اذالخلائق بالغیب مکنونۃ۔۔۔ابتعثہ اللہ اتماماًلامرہ وعزیمۃ علیٰ امضاء حکمہ وانفاذالمقادیر حتمہ۔۔فاَناراللہ باَبی محمد ظلمھا۔۔۔وقام فی الناس بالھدایۃ (۸)
اورمیں گوہی دیتی ہوں کہ میرے پدرمحمداللہ کےعبد اوراس کےرسول ہیں،اللہ نے ان کورسول بنانےسےپہلے انہیں برگزیدہ کیاتھا اوران کی تخلیق سےپہلے ہی ان کانام روشن کیا۔اورمبعوث کرنے سے پہلے انہیں منتخب کیا جب مخلوقات ابھی پردہ غیب میں پوشیدہ تھیں۔۔اللہ نے رسول کواپنے امورکی تکمیل اوراپنےدستورکےقطعی ارادے اورحتمی مقدرات کوعملی شکل دینے کےلیے مبعوث فرمایا۔۔پس اللہ تعالیٰ نےمیرے والدبزرگوارمحمدؐ کےذریعےاندھیروں کواجالاکردیا۔۔اورلوگوں کوہدایت کاراستہ دکھایا۔(۹)
کلامی مکاتب فکرمیں سےامامیہ اورمعتزلہ عدل الٰہی کے قائل ہیں اس میں سے بھی امامیہ کاطرہ امتیازہے کہ وہ امامت کومنصوص من اللہ سمجھتاہے۔ان کےمطابق رسالت کامنصب امرالٰہی کی پیغام رسانی سےعبارت ہے جبکہ امامت امرالہیہ کےنفاذکامرحلہ ہے۔خطبات فاطمۃ الزہراکابالاستیعاب مطالعہ کیاجائے تویہ بات روزروشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ آپ کےخطبے کابنیادی محورولایت وامامت ہے۔اس لیے آپ امامت کے منصب کی اہمیت وافادیت اورغرض وغایت ان الفاظ کےساتھ بیان فرمارہی ہے۔وطاعتنا نظاماللمۃ وامامتنااماناًللفرقۃوحبّناعزّاًللاسلام(۱۰)
ہماری اطاعت کوامت کی ہم آہنگی کا اورہماری امامت کوتفرقہ سےبچانے کاذریعہ بنایا ہماری محبت کواسلام کی عزت کاذریعہ بنایا(۱۱)
جناب فاطمۃ الزھراسلام اللہ علیھاکے خطبات میں عدل الٰہی اور عقیدہ آخرت کی طرف اشارہ وہاں ملتاہے جہاں آپ غاصبین سے مخاطب ہیں کہ میرااورتمہارافیصلہ وعدہ گاہ قیامت میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت میں عدل الٰہی کےعین مطابق ہوگاآپ ارشادفرماتی ہیں:فدونکھامخطومۃ مرحولۃً تلقاک یوم حشرک،فنعم الحکم اللہ وزعیم محمدؐ والموعد القیامۃ وعندالساعۃ(۱۲)وسوف تعلمون من یاتیہ عذاب یخزیہ ویحل علیہ عذاب مقیم (۱۳)
لے جاؤ(میری وراثت کو)اس آمادہ سواری کی طرح جس کی مہارہاتھ میں ہو۔تم سے حشر میں میری ملاقات ہوگی جہاں بہترین فیصلہ سنانے والا اللہ ہوگااورمحمد کی سرپرستی ہوگی اورعدالت کی وعدہ گاہ قیامت ہوگی جب قیامت کی گھڑی آئے گی ۔۔عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا کس پررسواکن عذاب نازل ہونے والاہےکس پر دائمی عذاب نازل ہونےوالاہے(۱۴)
۲۔خطبات فاطمۃ الزہراءسلام اللہ علیھا میں قضیہ فدک پراصولی اورمنطقی استدلال:
حضرت فاطمۃ الزہراء سلام اللہ علیھا کاخطبہ جہاں کلامی مباحث کابیش بہاخزانہ ہے اس میں علم اصول کے کئی مطالب ومعارف کی طرف لطیف اشارے بھی ملتے ہیں۔آپ سےحکومت وقت نے جب فدک چھین لیاتوآپ نے اپنےاحتجاج کو امت مسلمہ کے سامنے رکھا۔حکومت وقت حدیث( نحن معاشرالانبیاء لانورث ماترکناہ صدقۃ )کےجواب کی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھانے قرآن سےدلیل دی۔علم اصول کاایک واضح اورحتمی قاعدہ یہ ہے کہ اگر آیت قرآنی میں کسی مسئلہ کےبارے میں صراحت موجودہے توحکم قرآن کواخذکیاجائے گااورقرآن کےمخالف کوردکردیاجائےگا۔یہی وجہ ہے کہ حضرت فاطمہ نےقرآن سے استدلال قائم کیا۔حضرت فاطمہ الزہرانے قضیہ فدک یااپنے حق میراث کے لیے قرآن کے ان عمومات کاسہارا لیاجہاں میراث کاحق واضح اندازمیں بیان کیاگیاہے اب ان آیات میں کوئی تخصیص واردنہیں ہوئی لہذااس عموم میں فاطمہ الزہراء بھی شامل ہیں جیساکہ آپ نےایوان اقتدارکےبست وکشادکےحامل شخص سےمخاطب ہوکرارشادفرمایا:
یابن ابی قحافہ اَفی کتاب اللہ ان ترث اَباک ولاترث اَبی؟۔۔اذیقول:وورث سلیمان داؤد(۱۵)وقال فیمااقتص من خبریحیٰ بن زکریااذقال فھب لی من لدنک ولیاً یرثنی ویرث من آل یعقوب(۱۶)وقال یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین(۱۷)وقال ان ترک خیراالوصیۃ للوالدین والاقربین بالمعروف حقاًعلی المتقین(۱۸)افخصکم اللہ بآیۃ اخرج منھااَبی؟۔۔ام انتم اعلم بخصوص القرآن وعمومہ من اَبی وابن عمی؟(۱۹)
اےابوقحافہ کے بیٹے!کیااللہ کی کتاب میں ہے کہ تمہیں تو اپنےباپ کی میراث مل جائے اورمجھے اپنے باپ کی میراث نہ ملے۔۔جبکہ قرآن کہتاہے اورسلیمان’داؤدکےوارث بنےاوریحیٰ بن زکریاکےذکرمیں فرمایا:جب انہوں نےخداسے عرض کی:پس تومجھے اپنے فضل سے ایک جانشین عطافرماجومیراوارث بنےاورآل یعقوب کاوارث بنے۔۔نیزفرمایااللہ تمہاری اولاد کےبارے میں ہدایت فرماتاہے کہ ایک لڑکےکاحصہ دولڑکیوں کےبرابرہے۔نیزفرمایااگرمرنےوالامال چھوڑجائے،تواسےچاہیئے کہ والدین اورقریبی رشتہ داروں کےلیےمناسب طورپر وصیت کرے۔۔کیااللہ نےتمہارےلیےکوئی مخصوص آیت نازل کی ہے جس میں میرےوالدگرامی شامل نہیں ہیں؟۔۔کیامیرےباپ اورمیرےچچازاد(علیؑ)سےزیادہ تم قرآن کےعمومی اورخصوصی احکام کاعلم رکھتےہیں۔(۲۰)
۳۔خطبات فاطمۃ الزہراءسلام اللہ علیھا میں سماجی،سیاسی اورعصری شعور:
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لخت جگراوربہجۃ قلب المصطفیٰ( س)جہاں اپنے خطبے میں امت مسلمہ کوتنبیہ وتوبیخ کرنے کی خاطردورجاہلیت کی انسانیت سوز تہذیب وثقافت کی تصویرکشی بھی فرمارہی ہیں وہاں پیغمبررحمت ؐ کی برکت وفیوضات سے انسانیت سازانقلاب کی آمدکامکمل اورجامع منظرنامہ بھی پیش فرمارہی ہیں ۔جیساکہ آپ فرماتی ہیں: موطئ الاقدام تشربوں الطرق وتقتاتون الورق،اذلۃًخاسئین تخافون ان یتخطفکم الناس من حولکم،فانقذکم اللہ تبارک وتعالیٰ بمحمد ؐبعد اللتیا والّتیِ(۲۱)
تم کیچڑوالےبدبودارپانی سےپیاس بجھاتے تھے،اورگھاس پھونس سےبھوک مٹاتے تھے۔تم (اس طرح )ذلت وخواری میں زندگی بسرکرتےتھے۔تمہیں ہمیشہ یہ کھٹکالگارہتاتھاکہ آس پاس کےلوگ تمہیں کہیں اچک نہ لیں ایسے حالات میں اللہ نے تمہیں محمدؐ کےذریعےنجات دی (۲۲)
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے بعدفتنوں کےشعلےبھڑک اٹھے،لوگ آرام طلب ہوگئےدورجاہلیت کی واپسی ہوئی،قرآنی احکامات کوپس پشت ڈالاگیا یوں امت شیطان کےبہکاوے میں آگئی ،رحلت پیغمبرؐ کے بعد سماج میں لوگوں اکثریت ہدایت کی راہ گم کرگئی انہی باتوں کی طرف آپ(س) ان الفاظ میں اشارہ فرمارہی ہیں:فلمااختارلنبیہ دارانبیائہ وماویٰ اصفیائہ ظھر فیکم حسیکۃ النفاق وسمل جلباب الدین۔۔۔وقدخلفتموہ وراء ظھورکم۔۔وتستجیبون لھتاف الشیطان واطفاء انوارالدین الجلی واھمال سنن النبی الصفی (۲۳)
پھرجب اللہ نےاپنےنبیؐ کے لیے مسکن انبیاء اوربرگزید گان کی قرارگاہ(آخرت)کوپسندکیا توتمہارےدلوں میں نفاق کےکانٹے نکل آئے اوردین کالبادہ تارتارہوگیا۔۔اس قرآن کوتم نے پس پشت ڈال دیا۔۔تم دین کےروشن چراغوں کوبجھانے اوربرگزیدہ نبی کی تعلیمات سےچشم پوشی کرنے لگے(۲۴)
حضرت فاطمۃ الزہرااپنے عہد سےبھی مکمل آگاہ تھیں اورآپ اس بات سے بھی باخبرتھیں کہ سقیفہ کااجماع امامت وخلافت کی باگ دوڑسنبھالنے میں پوری توانائیاں بروئے کارلانے میں مصروف عمل ہے۔اس تناظر میں آپ سلام اللہ علیھانے فدک کامقدمہ نئی تشکیل پانےوالی حکومت کی پارلیمنٹ میں پیش کیا اور وہاں حق کے باوجود حق سے آپ ؑ کومحروم رکھاگیاآپ کی اس عصرشناسی نےہرصاحب شعورانسان پریہ واضح کیاکہ نئی تشکیل پانے والی حکومت کی پہلی عدالت میں صاحب شریعت کی بیٹی کوانصاف نہیں ملااب قارئین فیصلہ کریں کہ اس نئی نویلی حکومت کی اساس اوربنیادکن چیز وں پرقائم تھی؟ ذراغورکیجئے تاکہ حق وحقانیت کادریچہ کھل سکے اورتاریخ کی نئی بازیافت ہوسکےتاکہ لوگوں کےذہنوں میں سچائی اورحقیقت آشکارہوسکےٍ۔
۴۔خطبات فاطمۃ الزہراء میں مظلومیت اہل البیت کادردآمیزبیان اورولایت علی ؑ کادفاع:
خطبات فاطمہ جہاں علمی ،فکری،سیاسی،کلامی،اخلاقی اوردعوت وارشادکےانمول نمونے ہیں وہاں آپ کے خطبات اہل البیتؑ پروصال پیمبرؐ کےبعدڈھائے جانے والے مظالم کاغم نامہ بھی ہیں۔مزیدبرآں آپ کے خطبے میں جلالی اندازورجزیہ آہنگ کے ساتھ ساتھ رثائی پیرائے میں اپنےشوہرنامدارصدیق اکبراورفاروق اعظم حضرت علی علیہ السلام کےفضائل اوراپنےعصر کےخلیفہ بلافصل کےدفاع میں مزاحمانہ لب ولہجے آپ کی حریت فکر کی غمازی کرتے ہیں۔آپ اپنے”خطبۃ الدار”میں اہل البیت علیھم السلام پرہونےوالےمظالم کابیان ان دردآمیزالفاظ کے ساتھ کررہی ہیں:ابنۃ رسول اللہ کیف اصبحت عن لیلتک؟؟فقالت اصبحت واللہ عائفۃ لدنیاکم،قالیۃ لرجالکم،لفظتھم بعد ان عجمتھم وشنئتھم بعدان سبرتھم (۲۵)
میں نے اس حال میں صبح کی کہ تمہاری اس دنیاسےبیزارہوں جانچنےکےبعدمیں نےانہیں دھتکاردیاامتحان کےبعدمجھےان سےنفرت ہوگئی (۲۶)
کس قدرافسوس اور دکھ کامقام ہے کہ رسول خداکی بیٹی کوبھری محفل میں جاناپڑرہا ہے اورمجمع عام میں بتاناپڑرہا ہے کہ لوگو!دیکھوتویہ رسول کی بیٹی اپناحق مانگ رہی ہےاوریہ کہ فاطمۃ کےقول وفعل میں کسی تضادکاکوئی شائبہ بھی نہیں ہے اب جبکہ رسول اللہ کی قبرکی مٹی بھی سوکھی نہیں تھی ایسے وقت میں آپ اپناتعارف ان الفاظ میں بیان فرمارہی ہیں:ایھاالناس اعلمواانّی فاطمۃ وابی محمدؐ اقول عوداًولااقول مااقول غلطاًولاافعل ماافعل شططاً (۲۷)پس حضرت فاطمۃ الزھراء (س)کےخطبہ دینے کی بنیادی وجہ ولایت کادفاع تھاجس طرح حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھانےاپنے اقوال مبارکہ اورافعال حسنہ سے ولایت کابہترین پیرائے میں دفاع کیاوہاں خطبات کے ذریعے حریت فکروالوں کے لیے ولایت کابھی ابلاغ فرمایا۔”خطبۃ الدار”میں آپ فرماتی ہیں:ویحھم انّیٰ زعزعوھاعن رواسی السالۃ وقواعد النبوۃ والدلالۃ ومھبط الروح الامین والطیبین باُموررالدنیاوالدین الاذالک ھوالخسران المبین وماالذی نقموا من اَبی الحسن(۲۸)
کٹ جائیں ان کی سواری کی ناک اورکوچیں دورہورحمت سے یہ ظالم قوم۔افسوس ہوان پر،یہ لوگ (خلافت کو)کس طرف ہٹاکرلے گئے’رسالت کی محکم اساس سے،نبوت کی مضبوط بنیادوں سے،نزول جبرائیل کےمقام سے،دین ودنیاکےامورکی عقدہ کشائی کی لائق ترین ہستی سے،آگاہ رہویہ ایک واضح نقصان ہے ابوالحسن سےان کوکس بات کاانتقام لیناتھا؟(۲۹)
الحاج الشیخ احمد الرحمانی الھمدانی اپنی کتاب”فاطمۃ بہجۃ قلب المصطفیٰؐ"میں اسی بات کواس انداز میں بیان کررہے ہیں:
دفاعھاعن الامامۃ باقوالھا وافعالھا؛ولھاایضافی ذالک خطبۃ القاھا بحشد من الصحابۃ فی مسجد الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ فی امرفدک،وکلام مع نساء المھاجرین والانصار عند مااجتمعن الیھافی مرضھایعدنہ،تشکوفیہ المستبدین بالخلافۃ وتتلھف من خروج الامر عن علی علیہ السلام(۳۰)
آپ(س) نے وصیت پیغمبریعنی حدیث ثقلین کی بھی یاددہانی کرائی وبقیۃ استخلفھاعلیکم ومعناکتاب اللہ(۳۱)
(آپ نے ایک گرانبھا)ذخیرےکوتمہارےدرمیان جانشین بنایا،اوراللہ کی کتاب بھی ہمارےدرمیان موجودہے(۳۲)
خطبات حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھاکااسلوبیاتی جائزہ:
حضرت فاطمۃ الزہرابضعۃ رسول خداہونےکےناطے بلندمطالب اورمعارف کابیان فرمارہی تھیں عوام الناس کے بہترافہام کی غرض سےآپ (س)نےاستعاروں اورکنایوں کابرملااستعمال فرمایا’یوں معنوی اوربلندمعارف ومطالب عام فہم اورمحسوس صورت میں سامنےآئے۔اس ضمن میں ریحانہ ملازادہ اپنے مقالہ "تصویر دازی ھنری درخطبہ فدک”میں رقمطرازہیں:حضرت زھرا(س)باکمک صنائع بیانی بہ انبوھی ازمعنویات،جامہ مادی بخشیدہ تامحسوساتی تبدیل شوند کہ باچشم،گوش وسایر حواس بشری قابل درک شود۔غالب مفاہیم انتزاعی بااسلوب استعارہ بیان شدہ تابری ھرسطحی ازمخاطب قابل فہم باشد(۳۳)جیساکہ خطبہ فدک میں آپ کایہ ارشادہے کہ فاَناراللہ باَبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ ظلمھا وکشف عن القلوب(۳۴) اس فقرے میں "انار”ہدایت کے لیے استعارہ ہے اور”ظلمھا”کفروشرک اورجہالت سے کنایہ ہے۔
آپ (س) کےخطبہ کے اسالیب میں سے بنیادی اورکلیدی اسلوب آیات قرآنی سےاستشہادپیش فرماناہے علاوہ ازیں آپ نےاپنےاحتجاج کومزیدتقویت دینےکے لیےاورمدمقابل کومسکت جواب دینےکےلیےاحادیث رسول اللہ،تاریخی شواہد اورکلام میں تاثیرپیداکرنے کی غرض سے امثال عرب کابھی سہارالیا۔اس ضمن میں عامرسعیدنجم عبداللہ الدلیمی اپنی کتاب اسالیب الانشاء فی کلام السیدۃ الزھراءعلیھا السلام میں لکھتےہیں:کثرۃ التضمین السیدۃ فاطمۃ کلامھاآیات من القرآن الکریم وھذایتناسب ومقامھا فھی سیدۃ نساء اہل الجنۃ۔۔وکانت تلک الآیات تارۃ کاملۃ،وتارۃ مجتزاۃ واخریٰ مضمنۃ فی المعنی،وذالک حسب المقام۔وکذالک تضمین کلامھابعض احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وامثال العرب(۳۵)
آپ (س) نےدوران خطبہ حکومت وقت اورمخاطبین سےاحتجاج اورحجت قائم کرنے کے لیےقرآن کومیزان قراردیتےہوئے کبھی مکمل آیت کی تلاوت فرمائی جیساکہ آپ نےفرمایا:یابن ابی قحافہ اَفی کتاب اللہ ان ترث اَباک ولاترث اَبی؟۔۔اذیقول:وورث سلیمان داؤد(۳۶)کبھی آپ (س) نے قرآن مجید کے کلمات اورفقرات سےاقتباسات اٹھائےجیساکہ آپ نےمجمع سےمخاطب ہوتے ہوئےارشادفرمایا:کنتم علی شفاحفرۃ من النار(القرآن)،مذقۃ الشارب،ونھزۃ الطامع،ووقبسۃ العجلان،وموطیء الاقدام (۳۷)
حضرت فاطمۃ الزہراء نےاپنے ملکوتی کلام میں تاثیرپیداکرنے کے لیےاحادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مخاطبین کی تہذیب وثقافت سےضرب الامثال کابھی سہارالیاجیساکہ آپ کاارشادہے:ماھذہِ الغمیرہ فی حقی والسنۃ عن ظلامتی؟اماکان رسول اللہ ابی یقول:المرء یحفظ فی ولدہ،سرعان مااحدثتم وعجلان ذااھالۃً(۳۸)
ترجمہ:مجھے میراحق دلانےمیں اتنی کوتاہی کاکیامطلب؟کیااللہ کےرسول اورپدربزرگواریہ نہیں فرماتےتھے:کہ شخصیت کااحترام اس کی اولاد کےاحترام کےذریعےبرقراررکھاجاتاہے؟کس سرعت سےتم نےبدعت شروع کردی اورکتنی جلدی اندرکی غلاظت باہرنکل آئی(۳۹)
اس اقتباس میں عجلان ذااھالۃ کافقرہ بطور ضرب المثل استعمال ہوا ہے ۔
آپ کے خطبہ میں مکالماتی اندازبھی رجزیہ کیفیت میں ملتا ہے جیساکہ آپ نےفرمایایابن ابی قحافہ افی کتاب اللہ ان ترث اباک ولاترث ابی؟(۴۰) اسی طرح مقتضائے حال کےمطابق خطبہ دارمیں زیادہ ترمکالماتی کیفیت ملتی ہیں۔جیسا کہ آپ نے”خطبہ دار”میں فرمایا: اصبحت واللہ عائفۃ لدنیاکم،قالیۃ لرجالکم،لفظتھم بعد ان عجمتھم وشنئتھم بعدان سبرتھم فقبحاًلفلوآل الجدوحورالقناۃ وخطل الرای(۴۱)
علاوہ ازیں آپ کےخطبات مسجع ومقفیٰ ہونےکے ساتھ ساتھ استہفامیہ،تعجب،تمنی،دلالتی،ندائی،دعائیہ اورترغیب وترہیب جیسے کئی نحوی اسالیب سےمزین ہیں۔
خطبات حضرت زینب سلام اللہ علیھاکاپس منظراورتعارف:
وصال پیمبرؐکےبعدحدیث ثقلین سےروگردانی کی صورت میں کئی فتنوں نےجنم لیامسلمان حکمرانوں میں اسلام سےزیادہ ملوکیت منظورنظرٹھہری ملوکیت بچاؤتحریک کےنتیجےمیں امام وقت حضرت امام حسین علیہ السلام سےبیعت کاسوال ہواآپ ؑنےسرکٹاناقبول کیالیکن جھکناقبول نہیں کیایہاں تک کہ شہادت کے بعدبھی نیزےپرسربلندہوکرانسانیت کے لیےحریت کادرس دیا۔حسینی فکراورفلسفہ کورہتی دنیاتک زندہ اورروشن رکھنےکےلیے شریکۃ الحسین حضرت زینب سلام اللہ علیھانےفصیح وبلیغ،زوربیان سےلبریز،اثرآمیزاوربیباک وبےلاگ اورطاغوت شکن خطبات دیئے۔آپ کے خطبات میں "خطبہ درکوفہ "اور”خطبہ دردربارشام "مشہورومقبول ہیں ۔آپ کے ان دونوں خطبات کے بارے میں آیت اللہ قزوینی اپنی کتاب” زینب الکبرٰی من المھد الیٰ اللحد "میں لکھتے ہیں :تعتبر خطبۃ السیّدۃ زینب ۔فی الکوفہ وفی مجلس یزید فی الشام۔فی ذروۃ الفصاحۃ وقمۃ البلاغہ وآیۃ فی قوۃ البیان ومعجزۃ فی قوّۃ القلب والاعصاب وعدم الوھن والانکساراَمام طاغیۃ بنی امیۃ(۴۲)کوفہ میں آپ کےخطبہ پیش کرنےکےمنظرکو راوی بشیربن خزیم الاسدی اپنی مشہورزمانہ کتاب "الملہوف علیٰ قتلی الطفوف” میں ان الفاظ میں بیان کررہاہے کہ:نظرت الیٰ زینب بنت علی یومئذِ فلم اَرخفرۃ قط اَنطق منھا،کاَنھا تفرغ من لسان اَمیرالمؤمنین علیہ السلام،وقد اَوماَت الیٰ الناس اَن اسکتوافارتدّت الانفاس وسکنت الاَجراس(۴۳)
میں نےکبھی کسی خاتون کودخترعلی ؑ سےزیادہ قادرالکلامی سےپرزوراورتواناتقریرکرتےنہیں دیکھا ایسامحسوس ہورہاتھاگویاامیرالمؤمنین کی زبان مبارک سےبول رہی ہے۔جونہی لوگوں کوخاموش رہنے کاکربلاکی شیردل خاتون نےحکم دیا تو ایسی خاموشی چھاگئیں کہ سانسیں رک گئیں اورصدائےجرس تک چپ سادھ گئیں۔
خطبات حضرت زینب سلام اللہ علیھا کافکری مطالعہ:
حضرت زینب سلام اللہ علیھاکےخطبات جہاں زورِبیان ،رفعت خیال ،فصاحت وبلاغت اورخاص کرعربی ادب کےبہترین اورقابل تقلیدشاہکارہیں وہاں علمی اورفکری سطح پرگہرےاورعمیق مطالب سے مزین معجزنماگنج ہائے گراں مایہ بھی ہیں۔جن فکری جہات کی طرف لطیف اشارے کیے گئے ہیں اختصارکی خاطران کا درج ذیل عناوین میں تجزیہ کیاجاسکتاہے۔
۱۔ خطبات حضرت زینب سلام اللہ علیھاکلامی مباحث
۲۔ خطبات حضرت زینب سلام اللہ علیھا میں سماجی سیاسی،تاریخی اورعصری شعور
۳۔ مظلومیت اہل البیت کارجزیہ بیان
۴۔فلسفہ قیام وشہادت امام حسین کابیباکانہ اظہار
۱۔خطبات حضرت زینب سلام اللہ علیھاکلامی مباحث:
آپ (س) امام الکلام کی شیردل بیٹی ہونےکےناطے اپنےخطبے میں توحیدالٰہی کابیان بہترین پیرائے میں فرمایا۔ جب دربارمیں خانوادہ اہل بیت کولایاگیاتویزیدنشےمیں مست ہو کہ اپنی نجس زبان کوان کفریہ اشعار سےمزید پلیدکررہاتھا۔
لعبت ھاشم بالملک فلا
خبرجاءولاوحی نزل ابن (۴۴)
یزیدکفریہ اشعارکہہ چکاتوحضرت زینب توحید کی حفاظت کی خاطردرباریزید میں اُٹھ کہ کھڑی ہوگئیں اورفرمانے لگیں:الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علیٰ رسولہ وآلہ اجمعین صدق اللہ سبحانہ(۴۵)ثم کان عاقبۃ الذین اسآءوالسوآی اَن کذبواباٰیاتوکانوابھایستھزءون (۴۶)
ان جملوں میں توحید،رسالت اوراللہ کی عدالت کی طرف جامع اوراثرآمیزاشارےفرمائے گئے ہیں ۔
آپ (س) کےخطبہ میں مذکورآیت الحمدللہ رب اللعالمین گویا اعلان حق ہے کہ کائنات کی تدبیربھی اللہ کےقبضہ قدرت میں ہے یعنی مقام خلق کےساتھ ساتھ مقام ربوبیت اورتدبیراموربھی اللہ کےاختیارمیں ہے۔یعنی اللہ کاکوئی شریک نہیں۔
اللہ تعالیٰ عادل ہے اللہ کسی پرذرہ برابرظلم نہیں کرتاومااللہ لیس بظلام للعباد۔عدل الٰہی کےبارے میں امامیہ اورمعتزلہ اتفاق رکھتے ہیں جبکہ اشاعرہ حسن وقبح عقلی کاانکارکرتاہے اس بابت ان کےمطابق اللہ کسی فاسق وکافرکوجنت داخل کرے تویہ بھی اللہ کی عدالت ہے اس کےبرخلاف امامیہ کاکہناہے کہ عمل سے جنت یاجہنم کافیصلہ کیاجاتاہے۔اسی عقیدےکوسامنےرکھتےہوئے آپ نےفرمایایزیدیہ جومہلت تجھےملی ہے اس پراترایامت کر،وہ دن دورنہیں جب اللہ کی عدالت کاترازونصب ہوگااورتجھے ذلت اورخواری کاعذاب پوری طرح گھیرےمیں لے لےگا:فمھلاً مھلاًاَنسیت(۴۷)وقول اللہ عزوجل:ولایحسبنّ الذین کفروااَنمانملی لھم خیرلاَنفسھم ط انمانملی لھم لیزدادوااِثماً ولھم عذاب مھین(۴۸)
آپ (س) نےدرباریزیدمیں دیئے گئے خطبے میں واضح لفظوں میں ارشادفرمایا کہ یزیدقسم خداکی تونےخوداپنی کھال نوچی ہے۔اورخوداپنےگوشت کوچیرا،کاٹاہےاورتجھےرسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےحضورپیش ہوناہوگادرحالانکہ تیری گردن پران کی آل واولادکےخون بہانے،بےحرمتی کرنےکامقدمہ چلے گا۔۔اس دن فیصلہ کرنےوالااللہ ہوگا،مدعی رسول خدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں گے اورتائید ونصرت کےلیےجبرئیل امین آیاہواہوگا(۴۹)وکفیٰ باللہ حاکماًوبمحمدِخصیماًوبجبرئیل ظہیرا (۵۰)
پس حضرت زینب (س) کےخطبات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ کی نبوت ورسالت کےاقرارکےساتھ ساتھ وحی اوررسول اللہؐ کےلوگوں کےاعمال پرشاہدہونےکا بھی واضح اندازمیں اشارہ ملتاہے جیساکہ آپ کایہ فرماناکہ مدعی کےلیےرسول خدااورمددکےلیےجبرئیل کافی ہے۔پس یزید کےدربارمیں جو یزیدکی فکری بدحواسیوں کابہترین پیرایےمیں مسکت جواب اور مقتضائےحال ومقال کےمطابق اسلامی کلامی فکرکاپرچارکرے اسے زینب کہتےہیں۔اور اگر یوں کہوں توبےجانہ ہوگاکہ ام لمصائب کےخطبات صبرومصائب کےاُمڈتےسیلابوں میں” توکل علی اللہ "کی بہترین جلوہ گاہ ہیں۔
آپ (س) کےخطبے میں خلافت امامت کےحوالے سے بھی واضح بیانات ملتےہیں۔جیساکہ آپ نے فرمایا:والحمد للہ رب اللعالمین الذی ختم لاَوّلنابالسعادۃ والمغفرۃولاٰخرنابالشھادۃ والرحمۃ ونساَل اللہ ان یکمل الثواب ویوجب لھم المزیدویُحسن علیناالخلافۃانہ رحیم وّدودحسبنااللہ ونعم الوکیل (۵۱)
ترجمہ:ثنائے کامل ہواللہ رب العالمین کےلیےجس نےہمارےپیشروبزرگوں کوسعادت ومغفرت سےنوازااورہماری آخری ہستی کوشہادت ورحمت عنایت فرمائی ہم اللہ سےان کےلیےثواب مزیدکاموجب بنیں اوران کےجانشینوں پراحسان فرمابےشک رحم والامہربان ہےہمارےلیےاللہ ہی کافی ہے اوروہی بہترین کارسازہے (۵۲)آپ(س) نے اپنےخطبات میں اس بات کوبھی واضح کیاکہ امام حسینؑ وارث انبیاء،جوانان جنت کےسردار،امن وعافیت کا باعث اوردلیل وبرہان کامنارہ اورسنت کےحصول کے لیےمرجع خلائق تھے۔خطبہ درکوفہ میں آپ فرماتی ہیں :واَنّیٰ ترحضون قتل سلیل خاتم النبوۃ معدن الرسالۃ وسیّدشباب اھل الجنۃ ملاذخیرتکم ومفزع نازلتکم ومنارحجتکم ومدرۃ سنتکم(۵۳)
تم کہاں دھوسکوگےاس ہستی کےقتل کادھبہ جوخاتم نبوت اورسرچشمہ رسالت کی اولادہے۔جوجوانان جنت کےسردارتھےوہ تمہارےنیک لوگوں کےلیےپناہ تھےتمہاری مصیبتوں کےلیےامن تھےتمہارےلیےدلیل وبرہان کامنارہ تھےتمہارے لیےسنت اخذکرنےکےلیےمرجع خلائق تھے(۵۴)
۲۔خطبات حضرت زینب سلام اللہ علیھا میں سماجی ،تاریخی اورعصری شعور:
"خطبہ درکوفہ”میں کوفہ والوں کی شدیدالفاظ میں مذمت کی گئی ہےجناب زینب کوفہ والوں کی ذہنیت اورسماج سےبخوبی آگاہ تھیں چونکہ آپ (س) حضرت علی ؑکی خلافت ظاہری کے بعد کچھ مدت یہاں قیام پذیررہی تھیں۔ کیونکہ یہی کوفہ والے تھے جنہوں نے امام کوہزاروں کی تعدادمیں خطوط لکھے امام عالی مقام نےاپنےسفیرکوبھیجاتوپہلےپہل ہزاروں کی لیکن بیعت کے بعدازاں ایسامرحلہ بھی آیا
کھلانہ کوئی بھی در باب التجاکےسوا
یعنی سفیرامام حسین ؑکو ایک رات ٹھہرنےکے لیے بھی کوئی پُرامن جگہ میسرنہیں آتی۔یہی کوفی آج رورہے ہیں ان کےمگرمچھ کےآنسواورگرگٹ کی طرح رنگ بدلنے کی شدید الفاظ میں اور توبیخی لب ولہجہ میں خطبہ ان الفاظ میں ارشادفرمایا:یااھل الکوفۃ!یااھل الختل والغدر؟اَتبکون؟فلارقأت الدمعۃ ۔۔کفضۃ علیٰ ملحودۃِ(۵۵)ترجمہ:کوفےوالو!غدار،فریب دینے والو کیاتم روتےہو؟تمہارےآنسو کبھی نہ رکیں تمہاری فریادمیں کبھی کمی نہ آئے۔۔تم دفن شدہ عورت کی لاش پرزیورکی طرح ہو(یعنی یہ لوگ مردہ ہیں زندوں کےلباس میں)(۵۶)
۳۔مظلومیت اہل البیت کارجزیہ بیان:
قوت وشجاعت حیدری کی وارثہ اورکربلاکی شیرخاتون (س) کےخطبات میں اتنی بڑی مصیبتوں کےباوجودکہیں اضطراب کاشائبہ تک نہیں ملتا۔آپ ؑکےخطبات جہاں استدلالی ہیں وہاں ضمیرانسانی کوللکارنے کابہترین پیرایہ اظہاربھی ہیں جیساکہ آپ فرماتی ہیں:امن العدل بابن الطلقاءتخدیرک حرائرک واِمائک وسوقک بنات رسول اللہ سبایاوقدھتک ستورھن وابدیت وجوھھن تحدوابھن الاعداءمن بلد الیٰ بلد (۵۷)
اےہمارےآزادکیےہوؤں کی اولاد!کیایہی انصاف ہے؟تیری عورتیں اورکنیزیں پردےمیں ہوں اورنبی زادیوں کواسیربناکرپھرایاجائےان کی چادریں چھین لی جائیں اوران کوبےنقاب کیاجائے’دشمن ان کوایک شہرسےدوسرےشہرپھرائے (۵۸)
ارباب علم و دانش غورکریں کہ ام المصائب پرکتنی بڑی مصیبتیں آن پڑیں ؟کیایہ مصیبت کم ہے کہ یزیدجیسےفاسق وفاجرسےعابدہ آل علی کومخاطب ہوناپڑرہا ہے۔حضرت زینب کی مصیبتوں کولفظوں کےقالب میں بیان کرنےسےراقم کاقلم قاصرہےخودجناب زینب سلام للہ علیھافرماتی ہیں لٰکن العیون لعبریٰ والصدورحرٰی اَلافالعجب کل لعجب لقتل حزب اللہ النجباء بحزب الشیطان الطلقاء(۵۹)
مگرآنکھیں اشکبارہیں اوردلوں میں سوزش ہے دیکھو!نہایت تعجب کامقام ہے اللہ کاپاکیزہ نسل پرمشتمل گروہ آزادکردہ شیطانی حزب کےہاتھوں قتل ہواہے (۶۰)خطبہ درکوفہ میں ارشادفرمایا:ولقد جئتم بھاصلعاء،عنقاء سوداء ،فقماء(خرقاء)شوھاء کطلاع الارض وملاءالسماء افعجبتم اَن مطرت السماء دماً!ولعذاب الآخرۃ اخزیٰ انتم لاتنصرون(۶۱)
تم نے یہ جرم کرکےقبیح مکاری کاارتکاب کیاہے۔جوایک فریب کاری ہے اوربہت بڑاحادثہ بھی۔حقیقت کاچہرہ مسخ کرنےکی کوشش بھی،یہ جرم زمین اورآسمان پرحاوی ہے کیاتمہیں اس بات پرحیرت ہوئی کہ آسمان نے خون برسایا؟آخرت کاعذاب تواورزیادہ رسواکن ہے ۔
درباریزید میں یزیدلعین نےاپنےکفریہ اشعارمیں اپنےآباؤاجدادکوبھی یادکیاتھااور ان کےبارے میں یہ اشعارکہےتھے:
لیت اشیاخی ببدرشھدوا جزع الخزرج من وقع الأسل
لاَھلواواستھلوافرحا ثم قالوایایزیدلاتشل
لست من خندف ان لم انتقم من بنی احمدماکان فعل(۶۲)
کاش میرےبدرکےاسلاف دیکھ لیتےنیزوں کےلگنےسےبنی خزرج کااضطراب،وہ خوش ہوکرچلاتےاورکہتے:اےیزیدتیرابازوشل نہ ہوآل احمدنےجوکچھ کیاہے اس کامیں انتقام نہ لوں تومیں خندف کی اولادنہیں ہوں (۶۳)
حضرت زینب(س) کےخطبہ درشام کازیادہ ترحصہ یزیدکےاسی کفریہ اورفخریہ اشعارکےجواب میں ہے۔یزیدتاریخ کےاوراق کوپلٹتےہوئےاپنےدورجاہلیت کےانسانیت سےعاری بدخواوربدکرداروں کوآوازیں دینےلگاتوعقیلہ بنی ہاشم سلام اللہ علیھانےاپنےخطبے میں اس اندازسےجواب دیا:وتھتف باَشیاخک زعمت انک تنادیھم فلتردّنّ وشیکاًموردھمولتودنّ اَنّک شللت(۶۴)
تواپنےاسلاف کوپکارتاہے۔تیراگمان ہے کہ توان (مردوں)کوآوازدےرہاہے۔جب کہ توخودبھی اسی گھاٹ اترنےوالاہےجہاں وہ ہےپھرتیرادل چاہے گا:کاش ہاتھ شل ہوجاتا(۶۵)حضرت زینب عصری شعوررکھتےہوئےیزید لعین کی حکومت کوغیرشرعی،غیراخلاقی اورعارضی گردانتی تھیں جیساکہ آپ نے”خطبہ دردربارشام”فرمایا:وسیعلم من سوّای لک ومن مکنّک من رقاب المسلمین۔۔۔وھل رائک الّافند،وایّامک الّاعدد،وجمعک الّابدد(۶۶)
ان لوگوں کواپنےانجام کاعلم ہوجائےگاجنہوں نےتیرےلیےزمین ہموارکی اورتجھ کومسلمانوں کی گردنوں پرمسلط کردیا۔۔۔تیری رائےغلط ہے تیری زندگی تھوڑی رہ گئی ہےتیری جمعیت بکھرنےوالاہے(۶۷)
۳۔فلسفہ قیام وشہادت امام حسین علیہ السلام کابیباکانہ اظہار:
کربلاکی شیردل خاتون سیدہ زینب (س) نےحالت اسیری میں زبان عصمت سے "اللھم تقبل ھذاالقربان"کےورد ،"ماراَیت الّاجمیلاًجیسے فکرآمیزجوابات ،”حسبنااللہ نعم الوکیل” پرکامل ایمان اور جارحانہ انداز کے حامل خطبات سےفکریزیدیت کےقصر کو ِقیامت تک کےلیےزمین بوس کرکےحسینیت یعنی حریت فکرکی نئی داستان رقم کردی۔
حکومت وقت کی طرف سے لوگوں کواندھیرے میں رکھنے کے لیے پوری طاقت صرف کردی گئی لیکن ” بقول احمدفراز”اب لہوبولےگاتلوار کوکیابولناہے”حضرت زینب (س)نےحکومتی پروپیگنڈوں کوطشت ازبام کرتےہوئے "خطبہ درکوفہ”میں شہادت عظمیٰ سے عوام الناس کوآگہی ان الفاظ میں دلادی:ویلکم یااھل الکوفہ اَتدرون اَیّ کبدِلرسول اللہ واَیّ کریمۃ لہ ابرزتم؟وایّ دمِ لہ سفکتم واَیّ حرمۃ لہ انتھکم؟(۶۸)
کوفیو!ہلاکت تمہارامقدرہو’کیاتم جانتےہو؟تم نےرسول اللہ کےکس کلیجے کوپارہ کیااوررسول کےکس حرم کوبےپردہ کیااورکس خون کوتم نےبہایااوررسول کی کس حرمت کی ہتک کی؟
حضرت امام حسین ؑکےانکارکی طرح بھرےدربارمیں جب آپ (س) یزیدسےمخاطب ہوتی ہیں تویزیدکواس کی اوقات یاد دلاتے ہوئے یابن الطلقاء جیسےالفاظ کااستعمال فرماتی ہیں اور پھر یزیدکوان الفاظ میں للکارتی ہیں:ولئن جرت علی الدّواہی مخاطبتک انّی لاَستصغر قدرک واستعظم تقریعک واستکثرتوبیخک(۶۹) ترجمہ:اگرچہ میں تجھ سےمخاطبت کی مصیبت سےدوچارہوں تاہم میں تجھےحقیر و بےوقعت سمجھتی ہوں اورتیری گفتگو کوبڑی جسارت سمجھتی ہوں اورتیری دھمکی کوحدسےزیادہ سمجھتی ہوں(۷۰)
حضرت زینب (س)نےحیاوعفت اپنی مادرگرامی سےمیراث میں پائی اورزبان وبیان کی بلندی اپنےباباامیرالمؤمنین سےپائی صبروحلم کوامام حسن سےاخذکیااورشجاعت واستقامت کوامام حسین سےلےکرآپ کی ذات شریکۃ الحسین قرارپائی۔آپ درباریزید میں رہتی دنیاتک یہ رجائیت آمیزمژدہ سنادیتی ہیں کہ یزیداوریزیدی افکارلاکھ کوشش کریں لاکھ چالیں چلیں لیکن وہ ذکراہل البیت علیھم السلام نہیں مٹاپائیں گےاورکوئی اہل البیت کےمقام ومنزلت تک نہیں پہنچ پائے گااورنہ ہی وحی کےآثارمٹاپائے گا اور نہ ہی یزیداس ننگ وعارکادھبہ دھوسکےگا :قالت السیدۃ الزینب بنت علی ؑ فی خطبۃ الشام:فکد کیدک واسع سعیک وناصب جھدک واللہ لاتمحوذکرناولاتمیت وحیناولاتدرک اِمدناولاترحض عنک عارھا (۷۱)
خطبات حضرت زینب (س)کااسلوبیاتی مطالعہ:
حضرت زینب (س)جہاں زاہدہ وعابدہ آل علی جیسےالقابات رکھتی ہیں وہاں آپ عقیلہ بنی ہاشم،ثانی زہراء اورعالمہ غیرمعلمہ جیسی اسنادبھی معصوم کی زبانی حاصل کرچکی ہیں ۔کربلا کی شیردل خاتون حضرت زینب (س)کےخطبوں کےآہنگ ،لب ولہجہ ،فصاحت وبلاغت ،دلیری وبہادری اوراستقامت پرمبنی رجزیہ اندازکودیکھ کرعلمائے معانی وبیان اورحریت فکرکےدیدہ وررہنمامحوِحیرت نظرآتےہیں۔چناچہ محمدباقربحرالعلوم اپنی تصنیف "فی رحاب السیدۃ زینب (س)”میں لکھتےہیں:کانت السیدۃ زینب (س) علیٰ قدرکبیرمن الفصاحۃ والبلاغۃ والمقدرۃ الکلامیۃ المتضمنۃ للحجج والبراھین (۷۲)
حضرت زینب (س) کےخطبات میں لہجہ علوی ؑاورلسان فاطمی ؑکارنگ کیوں نہ چھلکے جن کی تربیت آغوش عصمت وطہارت میں ہوئی ہے۔اس ضمن میں عبدالحمیدالمھاجر اپنی تالیف "اعلمواانّی فاطمہ "میں لکھتے ہیں:انّ بلاغۃ السیدۃ زینب (س) وفصاحتھامکسوّۃ بانوارالبلاغۃ العلویۃ،واسرارالخطبۃ الفاطمیۃ الّتی تاَثرت بھا(س) مذکانت صغیرۃ(۷۳)
قرآن ناطق کی زینت حضرت زینب (س)کےخطبوں میں قرآنی آیات،اقتباسات ،الفاظ و محاورات اورتشبیہات واستعارات کےساتھ ساتھ حسب حال سےتطبیق پرمشتمل قرآنی معارف کی کئی کلیاں کھلتی نظرآتی ہیں ‘بعبارت دیگرآپ کےخطبوں میں حضرت علی علیہ السلام اورحضرت فاطمہ سلام اللہ کی پیروی میں قرآن مجیداوراحادیث کےگہرےاثرات ملاحظہ کرسکتےہیں جیساکہ آپ نے فرمایا:صدق اللہ کذالک یقول(۷۴) ثم کان عاقبۃ الذین اسآءوالسوآی اَن کذبواباٰیاتوکانوابھایستھزءون (۷۵)
اسی طرح آپ نےدعوت ارشادکافریضہ اداکرنےکی خاطراورکوفیوں کے ضمیروں کوجھجھوڑنے کےلیے اِن قرآنی اصطلاحات کواپنےالفاظ میں بیان فرمایا:اَتبکون وتنحتون؟ اَی واللہ فابکواکثیراًواضحکواقلیلاً(۷۶)
آپ نےجہاں قرآن مجید کی آیات،فقرات اورالفاظ ومعانی سامعین پراستدلال اورگہرےاثرات مرتب کرنےکےاستعمال فرمائےوہاں آپ نےاحادیث مبارکہ کےفقرات اورالفاظ سے استشہادواستدلال فرمایا۔جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نےحضرت امام حسین اورامام حسن علیھماالسلام کےبارے میں ارشادفرمایاتھاکہ جوانان جنت کےسردارہیں ۔ان الحسن والحسین سیدی شباب اھل الجنۃ۔اس حدیث سے کوفہ والے سبھی باخبرتھےان کوخواب غفلت سےبیدارکرنےاوران کواہل البیت کی اہمیت یاددلانے کے لیے آپ نےفرمایاکہ تم ہرگزنہیں دھوسکتےاس ہستی کےقتل کادھبہ جوخاتم نبوت کے چشمہ رسالت کی اولاد ہیں جوجوانان جنت کےسردار ہیں قالت السیدۃ الزینب (س)وانّٰی ترحضون قتل سلیل خاتم البنوۃ معدن الرسالۃ وسیدشباب اہل الجنۃ(۷۷)
حضرت زینب (س)نےاپنے طاغوت شکن ،باطل شکن اوریزیدیت شکن خطبے میں جہاں قرآن واحادیث کےالفاظ وتراکیب کواستعمال کیاوہاں قرآن واحادیث میں بیان کرہ تشبیہات واستعارات اورکنایات کابھی بہترین اندازمیں استعمال کیا جیساآپ نے کوفیوں کی دغابازی اوردھوکہ دہی کوطشت ازبام کرنے کے لیے ان کواس عورت سے تشبیہ دیاجوپوری طاقت کےساتھ سوت کاتنے کےبعد ٹکڑے ٹکڑے کرڈالتی ہے۔انمامثلکم کمثل الّتی نقضت غزلھا(۷۸)اسی طرح احادیث میں بیان کردہ تشیبہات واستعارات (جیساکہ رسول اللہ نےفرمایاتھاکہ ایاک والخضراء الدمن) کےاستعمالات بھی مقتضائے حال بمطابق پوری رعنایوں کے ساتھ ملتےہیں چناچہ کوفیوں کی ذہنی اورفکری سطح کی توبیخ میں ارشادفرمایا:وملق الاماءاوکمرعیٰ علیٰ دمنہ(۷۹)
لونڈیوں کےسےخوشامدی اوردشمنوں کی طرح عیب جوئی رہ گئی یاتم غلاظت پراُگےہوئےسبزہ کی طرح (۸۰) اس کےعلاوہ آپ کےخطبہ میں قسم،دعائیہ اوراستفہامیہ جیسے کئی اوراسالیب ملاحظہ کیے جا سکتےہیں۔
عظیم ماں اورعظیم بیٹی علیھماالسلام کےخطبات کاتقابلی مطالعہ :
آپ علیھماالسلام کےیہ دونوں خطبات اہل سنت اوراہل تشیع دونوں کی شہرت یافتہ تاریخی کتابوں (بلاغات النساء،احتجاج طبرسی اورالملہوف علیٰ قتلی الطفوف جیسی دسیوں کتابوں)میں ملاحظہ کرسکتےہیں۔لہذاان خطبات کوجعلی کہنااوراختراعی کہنا بہتان عظیم ہے۔ان خطبات کےمنفردطرزاستدلال ، رفعت خیال،بلندمضامین اورجامع اندازبیان اوربلندمعانی ومعارف پرمشتمل ہونا بتاتاہے کہ یہ عام انسان کی تخلیق نہیں بلکہ یہ خطبات عصمت وطہارت کی آغوش میں پرورش یافتہ عظیم ماں اورعظیم بیٹی کی قادرالکلامی کےبہترین ادبی شاہکارہیں۔
حضرت فاطمۃ الزھرا (س) اورحضرت زینب (س) کی شخصیت اور زندگی میں کئی مشترکات ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حضرت زینب کوثانی زہرا (س) کے لقب سے جاناجاتاہے۔حضرت فاطمہؑ ہجرت النبوی ؐ کے وقت مکہ سے مدینہ تشریف لائیں اسی طرح حضرت زینب سلام علیھاکومدینہ سےکربلااورکوفہ سےشام تک حوادث زمانہ نےسفرکرنےپرمجبور کیا۔اسی طرح مجمع عام میں حضرت فاطمہ (س)نے کبھی خطبہ نہیں دیالیکن پیامبررحمت رسول اکرم محمدمصطفٰی ؐ کےوصال کےبعدنص صریح کےباوجودحضرت علی علیہ السلام کوخلافت سے محروم رکھاگیا،اورخلیفہ وقت کےاشارےپرحضرت زہراؑسےفدک غصب ہواصرف یہی نہیں فرشتوں کی ادب گاہ و جائے سلام وپیام یعنی درزہراپرآگ لگوائی گئی اس پرمستزاددرودیوارکے بیج میں محسن جیسےفرزند کی شہادت بھی ہوگئی مولائے کائنات کے گلے میں رسیاں ڈال کربیعت کرانے کی ناکام کوششیں ہوئیں ان تمام مظالم کوہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے مخدومہ کونین دیکھ لیتی ہیں تواس کےردعمل میں مزاحمتی اوراحتجاجی رویہ اپناتے ہوئے مناسب وقت اورمقام کاتعین کرکے حضرت زہرانےحکومت وقت اورانصارومہاجرین کے سامنےمسجد النبوی ؐ میں فصیح وبلیغ اوربلند مضامین اورتوانااسلوب پرمشتمل خطبہ دیا۔اس کے علاوہ ایک اورخطبہ بھی آپ نے انصارومہاجرین کی عورتوں کودیااسی طرح حضرت زینب سلام اللہ نے بھی مجمع عام میں اس وقت خطبہ دیاجب کربلامیں حضرت امام حسین اوراصحاب واعوان سارے شہید ہوچکے تھے چناچہ خانوادہ اہلبیت ؑکواسیربناکرجب یزیدی کوفہ پہنچےتوحکومت وقت اپنے ظلم وبربریت کوچھپانےکے لیے نعوذ باللہ عوام کویہ باورکرارہی تھی کہ ایک باغی گروہ کاقلع قمع کیا گیاہے۔یہاں پرحضرت زینب نےمختصرخطبہ دیا۔جب لٹاہوا قافلہ درباریزید میں پہنچاتودربارمیں یزید شراب میں مست ہوکرکفریہ اشعاربکتے ہوئےطنزیہ جملے بک رہاتھااس کےجواب میں علی کی شیردل بیٹی نے ایسادندان شکن خطبہ دیاکہ یزیدیت وملوکیت کی دیواریں ہلنی شروع ہوگئیں۔
جس طرح ام ابیھاسیدہ فاطمۃالزھراء (س)اور ثانی زہراحضرت زینب (س) کی شخصیت اورزندگی میں کئی اشترکات ہیں وہاں آپ دونوں کے خطبات میں بھی موضوعاتی اور فکری اوراسلوبیاتی حوالوں سے کئی اشترکات دیکھنےکوملتےہیں اس کے علاوہ زمان ومکان اورمقتضائے حال ومقال دونوں کےخطبات میں تفردات بھی قابل غور اورلائق صدتحسین ہیں۔
حضرت فاطمۃ الزہراءاورحضرت زینب سلام اللہ علیھمانےاس وقت خطبات دیئےجب ظلم حدسےبڑھ گیا۔حق خلافت اورحق ارث کےلیےحضرت زہراء (س)نےاحتجاجی خطبات (خطبہ فدک اورخطبہ دار)دیئے اول الذکرسقیفائی ارباب حل وعقدکےسامنے مہاجرین وانصارکی موجودگی میں دیئےگئے جبکہ ثانی الذکراپنےگھرتیماداری میں آئی ہوئی انصارومہاجرین کی خواتین سے مخاطب ہوکرارشادفرماہوئیں۔جیساکہ بیان ہواکہ حضرت زینب نے کبھی مجمع عام میں خطبہ نہیں دیاتھاآپ نے بھی اس وقت خطبات دینے شروع کیےجب کربلامیں اپنےعظیم بھائی انصارواعوان سمیت جام شہادت نوش فرماچکے تھے، حضرت زہراکاپوراگھرانہ اجڑ چکاتھا،مخدرات عصمت کوقیدی بناکرگلی کوچوں اورجنگل وصحرامیں ہاتھوں میں رسن بندھےبےکجاوہ اونٹوں پرپھرایا جارہا تھا۔اور پھر جب یہ قافلہ کوفہ پہنچاتوتماشہ بین آئے،اس وقت اسرائےآل محمؐد کی توہین ہورہی تھی،حقیقت کوچھپایاجارہاتھا کہاجارہاتھااور نعوذباللہ ایک باغی جماعت قتل ہوچکی ہے۔اس پرُغم ماحول اوراس دلخراش فضامیں حضرت زینب (س)نے لوگوں کے ضمیروں کوجھنجھوڑنےاورانہیں خواب غفلت سے بیداکرنےکے لیےتوبیخی اندازمیں بصیرت آمیزاورایمان افروز خطبات دیئے اسی طرح درباریزید میں یزیدلعین کی گستاخیاں پستی کی انتہاکوپہنچیں توآپ نے موقع کی نزاکتوں کاادراک کرتےہوئے فکریزیدکےقصرکوہمیشہ کےلیے منہدم کردیا۔آپ کایہ خطبہ "خطبہ دردربارشام”کےنام سےاردواورفارسی زبان میں مشہورہے۔
ان دونوں کےخطبےکاآغازاللہ تعالی جل شانہ کی حمدوثنااورخاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوان کی آل پاک ؑ پردرودوسلام سےہواہے۔آپ کے دونوں خطبات کلامی رنگ وآہنگ کےساتھ ساتھ سیاسی،سماجی ،تاریخی اورعصری شعورکی بہترین غمازی بھی کرتےہیں۔کلامی حوالے سے حضرت فاطمۃ الزھراءؑ کےہاں توحیددر ذات،توحیددرصفات کےساتھ ساتھ توحیددرافعال اورتوحید درعبادت کےمعارف کی جانب تصریحات ملتی ہیں جبکہ حضرت زینبؑ کےخطبات میں مقتضائےحال کےمطابق حمدوتوصیف کےبعداصل موضوع کی طرف مخاطبین کی توجہات مبذول کرائی گئی ہیں۔حضرت فاطمہؑ نےاپنےخطبے میں عدل الٰہی پرکامل یقین کےساتھ غاصبین کےانکارپرفرمایاکہ تمہارےساتھ حشرمیں ملاقات ہوگی تلقاک یوم حشرک فنعم حشرک فنعم الحکم اللہ والزعیم محمداسی طرح سیدہ زینب نےیزید کوان الفاظ میں عدل الٰہی کی یاددہانی کرائی: وکفی باللہ حاکماًوبمحمدِخصیماًوبجبرئیل ظہیراً
عظیم ماں اورعظیم بیٹی علیھماالسلام کےخطبات میں تصورامامت پربھی بہترین اندازمیں بہترین مفاہیم ومطالب ملتےہیں امامت کوحضرت زہراسلام اللہ نے ایک مکمل نظام اورتفرقہ سےبچانے کابہترین ذریعہ قراردیاطاعتنانظاماًللمۃامامتنااماناًللفرقہ(۸۱)جہاں آپ نےامامت کونظام اورتفرقہ سےبچاؤکاذریعہ قراردیاوہاں امامت کوبرکت کابھی ذریعہ قراردیاامامت کےفیوضات کے بیان میں آپ نے اس آیت کاسہارالیاولوان اہل القرٰی آمنواوتقوالفتحناعلیھم برکٰت من السماء والارض(۸۲)اسی طرح سیدہ زینب (س)نےخطبہ درکوفہ میں وقت کےامام کونیک لوگوں کی جائے پناہ ،مصیبتوں کےلیے امن اوردلیل وبرہان کامنارہ اورمرجع خلائق قراردیئے۔وملاذ خیرتکم ومفزع نازلتکم ومنارحجتکم ومدرۃ سنّتکم (۸۳)
آپ دونوں کے خطبات پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےوصال کے بعدسےشہادت امام حسین علیہ السلام کے فوری بعدتک کے سیاسی حوالوں سے آئی ہوئی تبدیلیوں اورتغیرات کووسعت نظری سےدیکھنےکےدریچے ہیں۔اس حوالے سےمنصورالحلواپنےمضمون” الثورۃ الفکریہ فی خطب السیّدۃ فاطمۃ الزھراءوالسیّدۃ زینب انموذجاً”میں لکھتےہیں:
کان الخطب السیاسۃ نصیب وافرفی خطب السیدات ولاسیما السیدۃ فاطمۃ الزھراء والسیدۃ زینب علیھن السلام لاَنھا لازمت تغیرات کبیرۃ علی واقع السیاسۃ ولاسیمابعد وفاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ واستشھاد الامام الحسین علیہ السلام فکان عصر ھن مزدحماً باالاحداث والتطورات،ملیا بالاصطدام۔لذالک جاءت خطبتین ممثلۃ للواقع وعمق اتصالہ وارتباطہ بوجدان المتلقین(۸۴)
پس حضرت فاطمۃ الزھرا(س) اورسیدہ زینب (س)کے خطبات میں سیاسی موضوعات کی فراوانی ملتی ہیں کیونکہ ان دونوں نے اپنی مبارک آنکھوں سے سیاسی حوالےسے کافی تبدیلیاں دیکھیں انہی تبدیلیوں کی منظرکشی آپ دونوں کے خطبات میں ملتی ہیں۔
اسی طرح ان خطبات کے مطالعہ سے سماجی اورتاریخی اورعصری حوالوں سے بھرپورآگاہی اورشعورکااندازہ کیاجاسکتاہے۔حضرت زہرانےخطبہ فدک اورخطبۃ الدارمیں ارباب اقتداراورانصارومہاجرین سے مخاطب ہوکرکہاکیاتم لوگ تہذیب سے عاری نہیں تھے؟تم لوگوں کوتہذیب واخلاق کی تعلیم کس نے سکھائی؟ اب (ناصراسلام اورناصررسول ؐ کی امامت وخلافت برحق کوچھوڑکر)کیادوبارہ دورجاہلیت میں جانے کے لیےآمادہ ہوچکے ہواب جبکہ رسول کورحلت فرمائے ہوئے چند دن گذرے ہیں۔تشربون الطرق وتقتانون الورق ۔۔۔فانقذکم اللہ تبارک وتعالیٰ بمحمد بعداللتیاوالّتی۔۔والرسول لمایقبر۔۔۔۔تشربون حسواًفی ارتغاء ۔۔افحکم الجاھلیۃ تبغون(۸۵)
سیدہ زینب (س)کے خطبے میں سماجی ،تاریخی اورعصری شعورکاگہرارنگ جھلکتاہے۔آپ کوفہ کےمکرو فریب پرمشتمل معاشرے سے آگاہ تھیں اسی لیے یااہل الختل والغدرجیسےالفاظ استعمال فرمائے اسی طرح سماج کی طرف سے یزید کی تائید کی شدت سےمخالفت کی۔اوراس کےمنفی اثرات کی جانب بھی اشارہ فرمایاوسیعلم من سوّٰی لک ومن مکّنک من رقاب المسلمین۔ اوران لوگوں کواپنےانعام کاعلم ہوجائے گاجنہوں نےتیرے لیےزمین ہموارکی اورتجھ کومسلمانوں کی گردنوں پرمسلط کردیا(۸۶)تاریخی حوالے سے بھی مقتضائے حال کےمطابق لطیف اشارےحضرت زینب کےخطبات میں آئے ہیں۔جب یزید اپنے آباؤاجدادکویادکیاتودندان شکست جواب ان الفاظ میں دیا گیا یابن الطلقاء ،اے آزادکردہ غلاموں کی اولادتمہارےمردہ آباؤاجدادکی کیااوقات ہے تو بھی عنقریب انہی سے ملنےوالاہےزعمت انک تنادیھم فلتردنّ وشیکاًمورھم(۸۷)
آپ علیھماالسلام کےخطبات میں جہاں سماجی،تاریخی اورعصری تناظرمیں اہم نکات ملتےہیں وہاں آپ دونوں کےخطبوں میں مستقبل کےحوالے سےپیش گوئیاں بھی صداقت وسچائی کے ساتھ ملتی ہیں۔جیساکہ حضرت فاطمہ (خطبۃ دارمیں )مستقبل میں ملوکیت کےنتیجےمیں پیداہونےوالےفتنوں کوان الفاظ میں بیان فرمارہی ہیں:واطماَنّوللفتنۃ جأشاً وابشروابسیف ِصارم وسطوۃ معتدِغٖاشمِ وبھرجِ شامل واستبدادِللظالمین یدع فَیئکم زھیداًوجمعکم حصیداًفیاحسرۃ لکم واَنّٰی بکم(۸۸)
آنےوالےفتنوں کےلیےدل کوآمادہ کہ،سنوخوشخبری تیزدھارتلواروں کی اورحدسےتجاوزکرنےوالےظالموں کی مطلق العنانی کی وہ تمہارےبیت المال کوبےقیمت بنادےگااورتمہاری جمعیت کی نسل کشی کرے گاافسوس تمہارے حال پرتم کدھرجارہے ہو (۸۹)
اسی طرح یزید کے ظاہری غلبہ کے جلد ہی ختم ہونے کاعندیہ دیتے ہوئے مستقبل کی پیش گوئی ان الفاظ میں فرمائی ہے۔ولاترحض عنک عارھاوھل رأیک الّافنداًوایامک الاّعدداً،وجمعک الّابدداً (۹۰)نہ تواس عاروننگ کادھبہ دھوسکےگاتیری رائےغلط ہےتیری زندگی تھوڑی رہ گئی ہے تیری جمعیت کاشیرازہ بکھرنےوالاہے(۹۱)اسی طرح عالمہ غیرمعلمہ نے مستقبل شناسی کابھرپورمظاہرہ کرتے ہوئے حکومت وقت کےایوان میں ببانگ دھل یہ پیش گوئی فرمائی یزید توہمیں مارکرہماراذکرمٹاناچاہتاہے ہماری زندگی سعادت اورموت شہادت ہے نہ توہماراذکرمٹاسکتاہے نہ ہی کفریہ اشعارکہہ کرہماری وحی کومٹاسکتاہے۔ فکد کیدک واسع سعیک وناصب جھدک فواللہ لاتمحوذکرناولاتمیت وحیناولاتدرک اَمدنا(۹۲)
عظیم ماں اورعظیم بیٹی علیھماالسلام کی ان پیشگوئیوں کی صداقت آج دنیادیکھ رہی ہے کہ خلافت امیرالمؤمنینؑ سےانحراف کےنتیجےمیں ملوکیت کی جڑیں نکل آئیں کربلاجیسےدل دہلادینےوالےواقعات سےاسلام کادامن داغدارہوااورمدینہ رسول کوعصریزید لعین میں تاراج کیاگیاعصمتیں لوٹی گئیں ہزاروں حفاظ و صحابہ کرام قتل کیے گئے جناب سیدہ کی پیش گوئی جس طرح حتمی صورت میں وقوع پذیرہوئی اسی طرح لوگوں پرجلد ہی واضح ہوگیاکہ یزیدعین فسق وفجورہے اس کےسیاہ کرتوت اسلام کی تاریخ پربدنماداغ ہیں اورآج کی دنیابلکہ قیامت تک یزیدلعین کانام بھی گالی بن چکا جبکہ ذکرحسین علیہ السلام دن بہ دن بڑھتاجارہاہے۔یہ حضرت زینب کے انہی عظیم خطبوں کانتیجہ ہے۔
عظیم ماں اورعظیم بیٹی علیھماالسلام دونوں کےخطبات اہل البیت پرڈھائے گئے مظالم کی دردآمیزتاریخی دستاویزہیں۔حضرت فاطمہ نے” صبت علیّ المصائب” مرثیے اورغم آگیں وصیتیں فرمائیں وہاں اپنی مظلومیت کی دکھ بھری داستان اپنےملکوتی خطبوں میں سنائی ہے ۔بے شک حضرت زہراکاغم وراثت سےمحروم رہنا،دروازے کاجلنااورپسلیوں میں گہرےزخم کی وجہ سےبیٹھ کرعبادت بجالانابہت بڑاغم تھالیکن ان سے بھی بڑاغم لوگوں کےمرکزِہدایت سےدورہونےاورخلافت کےغصب ہونے کاتھا۔اسی وجہ سے” خطبہ دار”اور”خطبہ فدک” اپنے ارث کےپس منظرمیں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کےحق میں دیئےگئے۔جیساکہ خطبہ دارمیں ارشادفرمایا:ویحھم :افمن یھدی الی الحق احق اَن یتبع ام من لایھدّالّااِن یھدیٰ فمالکم کیف تحکمون(۹۳) ترجمہ:افسوس ہے ان پر:کیاجوحق کی راہ ڈھاتاہے وہ اس بات کازیادہ حقدارہے کہ اس کی پیروی کی جائے یاوہ جوخوداپنی راہ نہیں پاتاجب تک اس کی راہنمائی نہ کی جائے۔تمہیں کیاہوگیاہےتم کیسے فیصلے کررہے ہو؟ (۹۴)
یوں تو حضرت زینب (س)کےخطبات میں مظلومیت اہل البیت علیھم السلام کابیان ضرورہے لیکن مظالم کابیان رثائی اندازسے زیادہ رجزیہ اندازمیں ملتاہے۔اَمن العدل یابن الطلقءتخدیرک حرائرک واِمائک وسوقک بنات رسول اللہ سبایا(۹۵)اسی طرح ہم یہ کہنے کی جرات کرتےہیں کہ بیشک ام المصائب حضرت زینب ؑکی مصیبتیں بہت زیادہ ہیں لیکن خلافت وامامت کاحق ‘حقدارکونہ ملنااوریزیدجیسےفاسق وفاجرکاخلافت پرقابض ہونا حضرت زینب کاسب سے بڑاغم تھا۔جیساکہ آپ نےفرمایا:منحنیاًّعلیٰ ثنایایااَبی عبداللہ سیدشباب اہل الجنۃ۔۔اللّھم خذلنابحقنا(۹۶)
ابوعبداللہ جوانان جنت کےسردارکےہونٹوں کی طرف جھک کران کےساتھ اپنی چھڑی سےگستاخی کرتاہے۔۔اے اللہ ہماراحق ہم کودلادے(۹۷)
فکری اورمعارف دینی کےحوالےسےجہاں ان دونوں عظیم خطبات میں مشترکات ملتے ہیں وہاں ان خطبوں کی فکری اورعلمی حوالوں سےکچھ تفردات بھی سامنے آتےہیں۔حضرت فاطمۃ الزھراء (س)کےخطبات میں سے”خطبہ فدک” حق فدک کےپس منظرمیں دیا گیا ۔جیساکہ آپ نےحکومت وقت کی موجودگی میں لوگوں سےاستفسارکیاایھالناس اعلموااَنی فاطمہ واَبی محمد ۔۔۔ایھالمسلمون ءاغلب علیٰ ارثی بابن ابی قحافۃ اَفی کتاب اللہ اَفی کتاب اللہ اَن ترث اباک ولاترث اَبی؟؟(۹۸) آپ نےارث کےبارےمیں قرآنی عمومات پرمبنی آیات کوبطوراستدلال پیش فرمایااوراشارہ بھی فرمایاکہ ان عمومات قرآنی کی کوئی تخصیص نہیں لگی۔اسی طرح حضرت فاطمہ (س)کےخطبات میں قرآن کی فضیلت واہمیت اوراہداف کےضمن میں دعوت وارشادپرمبنی بلندمعارف کاجامع بیان بھی ملتاہے جیساکہ آپ نےفرمایا:والقرآن الصادق والنورالسّاطع۔۔قائدالیٰ رضوان اتباعہ ۔۔بہ تنال حجج اللہ المنوّرۃ (۹۹) (سچاقرآن،چمکتانور،۔۔اس کی پیروی رضوان کی طرف لےجاتی ہے۔۔اس قرآن کےذریعےاللہ کی روشن دلیلوں کوپایاجاسکتاہے(۱۰۰)
خطبات حضرت زہرا(س) کےتفردات میں سے ایک یہ ہے کہ آپ نے اپنےخطبات میں مقاصد شرعیہ کومختصراورجامع اندازمیں بیان کیاہے۔جیساکہ آپ فروع دین(نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ وغیرہ )کی طرح معاشرےمیں عدل وانصاف اورامربالمعروف کی غرض وغایت کوان الفاظ بیان کررہی ہیں۔والعدل تنسیقاًللقلوب۔۔والامربالمعروف مصلحۃ للعامۃ (۱۰۱)۔ترجمہ:عدل وانصاف کودلوں کوجوڑنےکاذریعہ بنایا۔۔۔امربالمعروف کوعوام کی بھلائی کاذریعہ بنایا (۱۰۲)
خطبات حضرت زینب سلام اللہ کےمخاطبین ایک دفعہ کوفہ کےعام لوگ قرارپائے دوسری دفعہ اوردربارمیں مسلمانوں کے ساتھ غیرمسلم بھی آپ کےمخاطبین تھے۔حضرت زینب (س)کےخطبات کےتفردات میں سے ایک یہ ہےکہ آپ نےخطبہ کےآغازمیں حمدوثنائےپروردگاراوردرودوسلام علیٰ محمدوآل محمد کےبعدبلاتمہیداصل موضوع پرخطبات دیئے۔حضرت فاطمہ نے خطبہ فدک میں کبھی انصارومہاجرین کےگروہ کوبراہ راست مخاطب فرمایاکبھی یابن ابی قحافہ کہہ کرحکومت وقت سےخطاب فرمایا اورکبھی اپنےرب سے دعائیہ کلمات ارشادفرمائےجبکہ حضرت زینب خطبہ درکوفہ میں کوفیوں سے مخاطب رہیں اورخطبہ دردربارمیں دیگرلوگوں کی بہ نسبت سلطان جابرسے تخاطب فرمایا۔یعنی آپ کاخطبہ یزیدکےدربارمیں کہے گئے کفریہ اشعارکامسکت اورمدلل جواب تھااس کے زریعے آپ نے یزیدکوسناکردیگرلوگوں کوبھی اصل حق اورحقانیت سےآشنافرمایا۔
حضرت زہراکےخطبات کاپتھردل انسانوں پرذرہ برابراثرنہیں ہوا۔اس لیے کہ وہ حق کوجان بوجھ کرمفادات کی خاطرچھپارہےتھےستم بالائےستم یہ ہےمدعی ‘منصف بناہوانظرآتاہے بقول شاعر:”بنےہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی "آپ کاخطبہ آج بھی انسانی ضمیرکی عدالت میں گونج رہاہے ہے اب دیکھناہے کہ کون حق کوچھپاتاہےاورکون حق کوقبول کرتاہے۔حضرت زینب کےخطبے کے بعدقصریزید کی بنیادیں ہلنےلگیں کیونکہ اہل شام کو یہ باورکرایاگیاتھاکہ نعوذباللہ باغی گروہ کاقتل ہواہے لیکن اب جبکہ حق آشکارہواتویزیدکےدربارمیں ہی انقلاب آناشروع ہوا پس شریکۃ الحسین نےخطبات کے وار سےیزیدیت کےناپاک چہرے کوہمیشہ کےلیےبےنقاب فرمایااوریوں حسینی فکروفلسفہ کاپرچارہوا۔
جہاں آپ دونوں علیھماالسلام کےخطبات میں علمی اورفکری جہات میں اشترکات ملتےہیں وہاں ہم دونوں کےخطبات میں اسلوبیاتی اعتبارسے بھی کئی زاویوں سےمشترکات ملاحظہ کرسکتےہیں۔آپ دونوں نےاپنےخطبات میں قرآنی آیات،اقتباسات معانی ومفاہیم اورتشبیہات کااستعمال برجستہ اندازمیں کیااسی طرح حسب ضرورت احادیث کابھی سہارالیا ہے۔جبکہ عربی تہذیب سے تعلق رکھنےوالی ضرب الامثال سےاپنےخطبےمیں مزیدتاثیرپیدا کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ الفاظ کےمناسب چناؤ،جملات کےزیروبم میں صوتی ہم آہنگی کے لحاظ سےبھی یہ بہترین ادبی شاہکارہیں۔جبکہ صرفی ،نحوی،صوتی اورمعانی بیان کےاعتبارسے بھی یہ خطبات لازوال ادبی فن پارےہیں۔
حوالہ جات:
۱۔نیشابوری،ابی عبداللہ الحاکم،فضائل فاطمۃ (س)،تحقیق علی رضا،دارالقرآن،قاہرہ،طبع اولیٰ،۲۰۰۵،ص۱۲۷
۲۔امام ابی الفضل احمد ابن ابی طاہرطیفور،بلاغات النساء، ،۱۹۰۸،ص۱۶
۳۔المولیٰ محمد علی بن احمدالقراچہ داغی ،اللمعۃ البیضاءفی شرح خطبۃ الزہراؑ،تحقیق: السید ہاشم المیلانی،دارالتبلیغ الاسلامی،الطبعۃ الثانیہ،بیروت،۲۰۱۱ء،ص۳۱۸
۴۔آیت اللہ قزوینی ،فاطمہ من المھد الیٰ اللھد،کربلاء،عراق،۱۳۹۲،ص۲۹۲،۲۹۳
۵۔عبدالحسن علی حبیب الناصر، اشراقات غراء من خطاب السیدۃ الزھرا(س)”مرکزعین الدراسات وابحوث المعاصر،عراق،الطببعۃ الاولیٰ ،۲۰۰۸ء،ص۴۳۹
۶۔ الطبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،انتشارات الشریف الرضی،ایران،الطبۃ الاولیٰ،۱۳۸۰ھ،
۷۔نجفی،شیخ محسن علی،(ترجمہ وشرح)حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں،مدرسہ معصومین ؑ،کراچی،طبع دوم،۲۰۰۹ص۳۹،۴۱،۴۳
۸۔ الطبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص۱۲۷،۱۲۸
۹۔ نجفی،شیخ محسن علی، زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں،ص۴۵،۴۷،۴۸
۱۰۔ امام ابی الفضل احمد ابن ابی طاہرطیفور،بلاغات النساء ،ص۲۰
۱۱۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۵۵
۱۲۔ الطبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص۱۳۲
۱۳۔ القرآن الکریم:۶،۶۷
۱۴۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۸۲،۸۳
۱۵۔القرآن الکریم۲۷ ،۱۶
۱۶۔ القرآن الکریم:۱۹،۶
۱۷۔ القرآن الکریم :۴،۱۱
۱۸۔ القرآن الکریم:۲،۱۸۰
۱۹۔ الطبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص۱۳۱،۱۳۲
۲۰۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۷۶تا۸۱
۲۱۔ابن طیفور،امام ابی الفضل احمد ابن ابی طاہر (متوفیٰ۲۸۰ھ)،بلاغات النساء ،مطبعۃ مدرسہ والدۃ عباس الاول،۱۳۲۶ہ،ص۱۷
۲۲۔ نجفی،شیخ محسن علی، زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۶۲تا۶۴
۲۳۔ الطبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص،۱۳۰،۱۳۱
۲۴۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۶۸،۶۹،۷۴
۲۵۔ ابن طیفور، امام ابی الفضل احمد ابن ابی طاہر،بلاغات النساء ،ص۲۳
۲۶۔ نجفی،شیخ محسن علی ،حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ص۹۷،۹۸
۲۷۔ الطبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول ،ص۱۲۸
۲۸۔ ابن طیفور، امام ابی الفضل احمد ابن ابی طاہر،بلاغات النساء ،ص۲۴
۲۹۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۹۹،۱۰۰
۳۰۔ الھمدانی، الحاج الشیخ احمد الرحمانی ،فاطمۃ (س)،بہجۃ قلب المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ،نشرالمرضیہ،الطبعۃ الثانیہ،۱۳۸۲،ص۳۲۵
۳۱۔ ابن طیفور، امام ابی الفضل احمد ابن ابی طاہر،بلاغات النساء،ص۲۰
۳۲۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۵۱
۳۳۔ ریحانہ ملازادہ ونفیسہ فیاض بخش،مقالہ:تصویردازی ھنری درخطبہ فدک، استادیاردانشگاہ آزاداسلامی واحدتھران مرکزی،تہران،۱۹۹۸،ص۲۵۳
۳۴۔ الطبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص۱۲۷،۱۲۸
۳۵۔ عبداللہ الدلیمی ،اسالیب الانشاء فی کلام السیدۃ الزھراءعلیھا السلام،دارالتبلیغ،العتبۃ العلویۃ المقدسہ،نجف اشرف،۱۴۳۲ھ،ص۳۴۳
۳۶۔ نمل ،۱۶
۳۷۔ ابن طیفور،امام ابی الفضل احمد ابن ابی طاہر،بلاغات النساء ،ص۱۷
۳۸۔ محولہ بالا،ص۲۱
۳۹۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۸۳،۸۴
۴۰۔ الطبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص۱۳۱
۴۱۔ابن طیفور، امام ابی الفضل احمد ابن ابی طاہر،بلاغات النساء ،ص۲۳
۴۲۔ قزوینی ،آیت اللہ محمدکاظم، زینب الکبرٰی من المھد الیٰ اللھد ،دارالمرتضیٰ ،بیروت،۱۴۰۹،ص۲۷۹
۴۳۔ ا بن طاووس ،الملھوف علی قتلی الطفوف ،علی بن موسی ٰ جعفر،دارالاسوۃ للطباعۃ والنشر،تہران ،الطبعۃ الرابعۃ،۱۳۸۳ھ،ص۱۹۲
۴۴۔محولہ بالا ،ص۲۱۵
۴۵۔ ایضاً،ص۲۱۵
۴۶۔ القرآن:۳۰،۱۰
۴۷۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص ۲۱۵
۴۸۔ القرآن : ۳،۱۷۸
۴۹۔ نجفی،شیخ محسن علی، حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ،ص۱۱۸
۵۰۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۲۱۸
۵۱۔محولہ بالا ،ص۲۱۸
۵۲۔ نجفی،شیخ محسن علی، حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۱۲۱
۵۳۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۱۹۳
۵۴۔ نجفی،شیخ محسن علی، حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۱۱۰
۵۵۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۱۹۲
۵۶۔ نجفی،شیخ محسن علی، حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۱۰۸،۱۰۹
۵۷۔ امام ابی الفضل احمد ابن ابی طاہرطیفور،بلاغات النساء ،ص۲۶
۵۸۔ نجفی،شیخ محسن علی، حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں، ص ۱۱۶
۵۹۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۲۱۷
۶۰۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں ،ص۱۱۰
۶1۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۱۹۳
۶۲۔ محولہ بالا،ص۲۱۴،۲۱۵
۶۳۔ نجفی،شیخ محسن علی، حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ،ص۱۱۴
۶۴۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۲۱۶
۶۵۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ،ص۱۱۷
۶۶۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۲۱۷،۲۱۸
۶۷۔ نجفی،شیخ محسن علی، حضرت زہراءسلام اللہ علیھاوزینب سلام اللہ علیھادربارمیں،ص۱۲۰
۶۸۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۱۹۳
۶۹۔ محولہ بالا،ص۲۱۷
۷۰۔ نجفی،شیخ محسن علی، حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ،ص۱۱۹
۷۱۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص ۲۱۸
۷۲۔ محمدباقربحرالعلوم ،فی رحاب السیدۃ زینب (س)، دارالزھراءللطباعۃ والنشر۔الفجالۃ۔القاہرہ،مصر،۱۸۸۶ء،،ص۱۴۸
۷۳۔ عبدالحمیدالمھاجر، اعلمواانّی فاطمۃ،فاطمۃ الزھراء والاحضارۃ الاسلامیۃ،المجلد الرابع،طبع اول،۱۴۲۶، ص۵۱
۷۴۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۲۱۵
۷۵۔ روم۱۰
۷۶۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۱۹۲
۷۷۔ محولہ بالا،ص۱۹۳
۷۸۔ ایضاً،ص۱۹۲
۷۹۔ ایضاً۱۹۲
۸۰۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ،ص۱۱۱
۸۱۔ طبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص۱۲۸
۸۲۔ القرآن الحکیم:۷، ۹۶، الطبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص۱۳۹
۸۳۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۱۹۳
۸۴۔ وسن منصور الحلو،الثورۃ الفکریۃ فی خطب السیدۃ فاطمۃ الزھراء والسیدۃ زینب انموذجا،مجلۃ الادب،العدد،کلیۃ الادب،جامعہ بغداد،۱۱۷،۱۴۳۸ھ،ص۳۲۱
۸۵۔ طبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص۱۲۹
۸۶۔ نجفی،شیخ محسن علی، حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ،ص۱۱۹
۸۷۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۲۱۶
۸۸۔ طبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص۱۴۰
۸۹۔ نجفی،شیخ محسن علی، حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ،ص۱۰۵،۱۰۶
۹۰۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۲۱۸
۹۱۔ نجفی،شیخ محسن علی، حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ص۱۲۰
۹۲۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف،ص۲۱۸
۹۳۔ طبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص۱۳۹
۹۴۔نجفی،شیخ محسن علی،(ترجمہ وشرح)حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ،ص۱۰۵
۹۵۔ ابن طاووس،علی ابن موسیٰ جعفر،المھوف علیٰ قتلی الطفوف ،ص۲۱۵
۹۶۔ محولہ بالا،۲۱۶،۲۱۷
۹۷۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ،ص۱۱۷
۹۸۔ طبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص۱۳۱
۹۹۔ طبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص ۱۲۸
۱۰۰۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ،ص۵۱،۵۲
۱۰۱۔ طبرسی ،ابی منصوراحمد بن علی بن اَبی طالب،الاحتجاج،جلداول،ص ۱۲۸
۱۰۲۔ نجفی،شیخ محسن علی،حضرت زہراء(س)وزینب (س)دربارمیں ،ص ص۵۴،۶۵