سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا پیغمبر اسلام کے اخلاق و کردارکا نمونہ

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا پیغمبر اسلامﷺ کے اخلاق و کردارکا نمونہ تھیں, پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:جس نے فاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت پہنچائی اس نے خدا کو اذیت پہنجائی، اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور فاطمہ سلام اللہ علیہا کے غضب سے اللہ غضبناک ہوتا ہے۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا اخلاق و کردار
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اپنی والدہ گرامی حضرت خدیجہؑ کی والا صفات کا واضح نمونہ تھیں جود و سخا، اعلیٰ فکری اور نیکی میں اپنی والدہ کی وارث اور ملکوتی صفات و اخلاق میں اپنے پدر بزرگوار کی جانشین تھیں۔ وہ اپنے شوہر حضرت علی علیہ السلام کے لئے ایک دلسوز، مہربان اور فدا کار زوجہ تھیں۔ آپ کے قلب مبارک میں اللہ کی عبادت اور پیغمبر ﷺ کی محبت کے علاوہ اور کوئی تیسرا نقش نہ تھا۔ زمانہ جاہلیت کی بت پرستی سے آپ کوسوں دور تھیں۔ آپ نےشادی سے پہلے کی ۹سال کی زندگی کے پانچ سال اپنی والدہ اور والد بزرگوار کے ساتھ اور ۴سال اپنے بابا کے زیر سایہ بسر کئے اور شادی کے بعد کے دوسرے نو سال اپنے شوہر بزرگوار علی مرتضیٰ علیہ السلام کے شانہ بہ شانہ اسلامی تعلیمات کی نشرواشاعت، اجتماعی خدمات اور خانہ داری میں گزارے۔ آپ کا وقت بچوں کی تربیت گھر کی صفائی اور ذکر و عبادت خدا میں گزرتا تھا۔ فاطمہ سلام اللہ علیہا اس خاتون کا نام ہے جس نے اسلام کے مکتب تربیت میں پرورش پائی تھی اور ایمان و تقویٰ آپ کے وجود کے ذرات میں گھل مل چکا تھا۔
فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنے ماں باپ کی آغوش میں تربیت پائی اور معارف و علوم الٰہی کو، سر چشمہ نبوت سے کسب کیا۔ انہوں نے جو کچھ بھی ازدواجی زندگی سے پہلے سیکھا تھا اسے شادی کے بعد اپنے شوہر کے گھر میں عملی جامہ پہنایا ۔ وہ ایک ایسی سمجھدار خاتون کی طرح جس نے زندگی کے تمام مراحل طے کر لئے ہوں اپنے گھر کے امور اور تربیت اولاد سے متعلق مسائل پر توجہ دیتی تھیں اور جو کچھ گھر سے باہر ہوتا تھا اس سے بھی باخبر رہتی تھیں اور اپنے اور اپنے شوہر کے حق کا دفاع کرتی تھیں ۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا نظام عمل
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے شادی کے بعد جس نطام زندگی کا نمونہ پیش کیا وہ طبقہ نسواں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ گھر کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتی تھیں۔ جھاڑو دینا، کھانا پکانا، چرخہ چلانا، چکی پیسنا اور بچوں کی تربیت کرنا۔ یہ سب کام اور ایک اکیلی سیدہ ، لیکن نہ تو کبھی تیوریوں پر بل پڑے اور نہ کبھی اپنے شوہر حضرت علی علیہ السّلام سے اپنے لیے کسی مددگار یا خادمہ کے انتظام کی فرمائش کی۔ ایک مرتبہ اپنے پدر بزرگوار حضرت رسولِ خدا سے ایک کنیز عطا کرنے کی خواہش کی تو رسول نے بجائے کنیز عطا کرنے کے وہ تسبیح تعلیم فرمائی جو تسبیح فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے نام سے مشہور ہے ۳۴مرتبہ اللّٰه اکبر، 33 مرتبہ الحمد اللّٰه اور 33 مرتبہ سبحان اللّٰه ۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا  اس تسبیح کی تعلیم سے اتنی خوش ہوئی کہ کنیز کی خواہش ترک کردی۔ بعد میں رسول خداﷺ نے بلا طلب ایک کنیز عطا فرمائی جو فضہ کے نام سے مشہور ہے۔ جناب سیّدہ اپنی کنیز فضہ کے ساتھ کنیز جیسا برتاؤ نہیں کرتی تھیں بلکہ اس سے ایک برابر کے دوست جیسا سلوک کرتی تھیں. وہ ایک دن گھر کا کام خود کرتیں اور ایک دن فضہ سے کراتیں۔ اسلام کی تعلیم یقیناً یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں زندگی کے جہاد میں مشترک طور پر حصہ لیں اور کام کریں، بیکار نہ بیٹھیں مگر ان دونوں میں صنف کے اختلاف کے لحاظ سے تقسیم عمل ہے. اس تقسیم کار کو علی علیہ السّلام اور فاطمہ نے مکمل طریقہ پر دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ گھر سے باہر کے تمام کام اور اپنی قوت بازو سے اپنے اور اپنے گھر والوں کی زندگی کے خرچ کا سامان مہیا کرنا علی علیہ السّلام کے ذمہ تھا اور گھر کے اندر کے تمام کام حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا انجام دیتی تھیں۔
حضرت زہراء سلام اللہ کا پردہ
سیدہ عالم نہ صرف اپنی سیرت زندگی بلکہ اقوال سے بھی خواتین کے لیے پردہ کی اہمیت پر بہت زور دیتی تھیں۔ آپ کا مکان مسجدِ رسول سے بالکل متصل تھا۔ لیکن آپ کبھی برقع وچارد میں نہاں ہو کر بھی اپنے والدِ بزرگوار کے پیچھے نماز جماعت پڑھنے یا آپ کا وعظ سننے کے لیے مسجد میں تشریف نہیں لائیں بلکہ اپنے فرزند امام حسن علیہ السّلام سے جب وہ مسجد سے واپس آتے تھے اکثر رسول کے خطبے کے مضامین سن لیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ پیغمبرﷺ نے منبر پر یہ سوال پیش کر دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر کیا چیز ہے یہ بات سیدہ کو معلوم ہوئی تو آپ نے جواب دیا عورت کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ نہ اس کی نظر کسی غیر مرد پر پڑے اور نہ کسی غیر مرد کی نظر اس پر پڑے۔ رسول کے سامنے یہ جواب پیش ہوا تو حضرت نے فرمایا :
کیوں نہ ہو فاطمہ میرا ہی ایک ٹکڑا ہے۔
فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے اوصاف وکمالات اتنے بلند تھے کہ ان کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے محبت بھی کرتے تھے اور عزت بھی۔ محبت کا ایک نمونہ یہ ہے کہ جب آپ کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا  سے رخصت ہوتےتھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا سے ملنے کے لئے جاتے تھے۔اور عزت و احترام کا نمونہ یہ ہے کہ جب فاطمہ سلام اللہ علیہا ان کے پاس آتی تھیں تو آپ تعظیم کے لئے کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے. رسول خداﷺ کا یہ برتاؤ فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ تھا۔
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا پیغمبرﷺ کی نظر میں

سیدہ عالم کی فضیلت میں پیغمبرﷺ کی اتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں کہ جتنی حضرت علی علیہ السّلام کے سوا کسی دوسری شخصیت کے لیے نہیں ملتیں۔
ان میں سے اکثر علماء اسلام میں متفقہ حیثیت رکھتی ہیں ۔مثلاً
آپ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔
ایما ن لانے والی عوتوں کی سردار ہیں ۔
تما م جہانوں کی عورتوں کی سردار ہیں۔
آپ کی رضا سے اللہ راضی ہوتا ہے اور آپ کی ناراضگی سےاللہ ناراض ہوتا ہے۔
جس نے آپ کو ایذا دی اس نے رسولﷺ کو ایذا دی۔
اس طرح کی بہت سی حدیثیں ہیں جو معتبر کتابوں میں درج ہیں ۔
فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا پر پڑنے والی مصیبتیں
افسوس ہے کہ وہ فاطمہ سلام اللہ علیہا جن کی تعظیم کو رسولﷺ کھڑے ہوجاتے تھے بعدِ رسول اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا۔ ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے لگے ۔علی علیہ السّلام سے خلافت چھین لی گئی۔پھر آپ سے بیعت کا سوال بھی کیا جانے لگا اور صرف سوال ہی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ جبروتشدّد سے کام لیا جانے لگا. انتہا یہ کہ سیّدہ عالم سلام اللہ علیہاکے گھر پر لکڑیاں جمع کردیں گئیں اور آگ لگائی جانے لگی۔اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپ کی شہادت کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ عالم سلام اللہ علیہا کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ:
صُبَّت علیَّ مصائبُ لوانھّا صبّت علی الایّام صرن لیالیا
یعنی مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ رات میں تبدیل ہو جاتے۔
سیدہ عالم کو جو جسمانی وروحانی صدمے پہنچے ان میں سے ایک، فدک کی جائداد کا چھن جانا بھی ہے جو رسول خداﷺنے سیدہ عالم کو مرحمت فرمائی تھی۔ جائداد کا چلاجانا سیدہ کے لئے اتنا تکلیف دہ نہ تھا جتنا صدمہ آپ کو حکومت کی طرف سے آپ کے دعوے کو جھٹلانے کا ہوا. یہ وہ صدمہ تھا جس کا اثر سیّدہ کے دل میں مرتے دم تک با قی رہا۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات کے مطابق حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنے اوپر ظلم و ستم کرنے والوں کے ساتھ مرتے دم تک بات نہیں کی اور وصیت فرمائی کہ ظالموں کو ان کے جنازے میں شرکت کرنے کی اجازت نہ دی جائے اور یہی وجہ ہے کہ بی بی دوعالم وشہزادی کونین کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا گیا اور علی مرتضی علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام اورآپ کےچند اصحاب نے رات کی تاریکی میں انھیں سپردخاک کیا اور ان کی قبر مبارک آج تک مخفی ہے۔
https://ur.mehrnews.com/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button