سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

امام حسین علیہ السلام اور زیارت اربعین(حصہ دوم)

نجف سے کربلا کا پیدل سفر:
قدیم الایام سے عراقی شیعوں میں خصوصاً علمائے نجف میں یہ رواج تھا کہ وہ اربعین امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے موقع پر نجف سے کئی دن کا سفر کر کے کربلا پیادہ (پیدل) جایا کرتے تھے۔گروہی اور اجتماعی طور پر نجف سے کربلا پیدل جانے کا یہ سلسلہ مرجع عالی قدر آیت اللہ مجتہد شیخ انصاری کے زمانے سے شروع ہوا لیکن بعد میں اس رسم کو فقراء کے طبقہ سے منسوب سمجھا جانے لگا لیکن بعد میں عالم بزرگوار محدث نوری نے اس رسم کو دوبارہ زندہ کیا۔
(نقباء البشر، ج1، ص349، سیمای فرزانگان، ص193)
اسی طرح لوگوں میں ان زائرین کی خدمت کا بے مثال جذبہ بھی صدیوں سے جاری و ساری ہے، جس نے تمام دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے اور ان خدمت گزاروں میں شیعہ علماء کی موجودگی کسی سے پوشیدہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے مومنین نے اس سنت حسنہ کو قائم رکھا ہوا ہے۔
حتی صدام ملعون کے زمانے میں اس کے شیعوں پر ناروا مظالم کی وجہ سے اس کی رونق میں کمی آ گئی تھی لیکن اس زمانے میں بھی عراق کے مومنین نے اس رسم کو جاری و زندہ رکھا تھا۔ صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد لوگوں کا اربعین حسینی پر جوش اور ولولہ کے ساتھ جانا آج کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے۔
ثقافت اہلبیت علیہم السلام میں اربعین کی فضیلت:
اربعین کا لفظ دینی نکتہ نظر سے اور احادیث میں بہت بڑی فضیلت کا حامل ہے۔ چالیس حدیثوں کو یاد کرنے کی تاثیر ، چالیس دن خلوص سے عمل کرنا، چالیس دن صبح کو دعائے عہد کی تلاوت کرنا، چالیس سال کی عمر میں عقل انسانی کا کامل ہونا، میت کیلئے چالیس مومنین کی گواہی، امام زمان علیہ السلام کی زیارت اور دیدار کیلئے چالیس بدھ کی راتوں میں توسل اور عبادت کو انجام دینا، اکثر انبیاء کا چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہونا، یہ موارد اس علمی، اسلامی اور عرفانی اصطلاح کی منزلت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اربعین ان رائج اصطلاحات میں سے ہے کہ جو اسلامی عبارتوں میں بہت زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔
1۔چالیس مؤمنین کی شہادت اور گواہی:
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
اذا مات المؤمن فحضر جنازته اربعون رجلا من المؤمنين و قالوا: اللهم انا لا نعلم منه الا خيرا و انت اعلم به منا، قال الله تبارک و تعالي: قد اجزت شهاداتکم و غفرت له ما علمت مما لا تعلمون
جب بھی کسی مومن کا انتقال ہوتا ہے اور اس کے جنازے میں چالیس مومنین حاضر ہوتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں : پروردگارا ! ہم اس مومن کے بارے میں نیکی اور خیر کے علاوہ کچھ نہیں جانتے تو اس کے بارے میں ہم سے بہتر جانتا ہے۔ تو اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: میں تم لوگوں کی گواہی کو قبول کرتا ہوں اور جن گناہوں کے بارے میں تم نہیں جانتے اور میں جانتا ہوں، وہ سارے کے سارے معاف کرتا ہوں۔
(من لايحضره الفقيه، ج 1، ص 166، ح 472،مستدرک سفينة البحار، ج 4، ص 64)
اسی طرح امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
بنی اسرائیل میں ایک عابد تھا جو ہمیشہ عبادت اور اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز میں مشغول رہتا تھا۔ اللہ تعالی نے حضرت داوود پر وحی نازل فرمائی:یہ عابد ریا کار ہے اور کوئی خلوص نہیں رکھتا۔ حضرت داوود اس کی تشییع جنازہ کے لیے حاضر نہ ہوئے لیکن بنی اسرائیل کے چالیس مومنین وہاں حاضر ہوئے اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس میت کیلئے نیکی اور خوبی کی گواہی دی اور اللہ تعالی سے اس میت کی مغفرت طلب کی۔ غسل میت کے دوران دوسرے چالیس مومنین نے بھی مغفرت طلب کی۔ اسی طرح دفن کے دوران بھی چالیس مومنین نے اس میت کی نیکی اور خوبی کی گواہی دی اور اس کیلئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کی۔ اس وقت اللہ تعالی نے حضرت داود پر الہام فرمایا:
میں نے اتنی تعداد میں مومنین کی گواہی کی وجہ سے اس میت کے گناہوں اور ریاکاری سے درگذر فرمایا ہے۔
(مستدرک الوسائل، ج 2، ص 471)
2۔چالیس مومنین کیلئے دعا کرنا:
امام جعفر صادق علیہ السلام دعا کی قبولیت کے اہم ترین عوامل میں سے ایک، اپنے لیے دعا سے پہلے دوسرے مومنین کے مقدم کرنے کو شمار کرتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں:
من قدم اربعين من المؤمنين ثم دعا استجيب له
جو بھی اپنے لیے دعا کرنے سے پہلے چالیس مومنین کو مقدم کرے اور پھر اپنے لیے حاجت طلب کرے تو اس کی دعا قبول ہو گی۔
(اصول کافى، ج 2، ص 509، ح 5)
آپ تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:اگر اس طرح نماز شب یا اس کے بعد دعا مانگی جائے تو اس دعا کا اثر اور بڑھ جاتا ہے۔
(بحار الانوار، ج 90، ص 389)
اسی طرح چالیس مومنین کیلئے تاریک راتوں کی نماز وتر کے قنوت میں دعا مانگنے سے دعا قبولیت سے زیادہ قریب ہو جاتی ہے۔
(کشف الغطاء، ج 1، ص 246)
3۔چالیس لوگوں کا دعا کرنا:
دعا کرنا ہمیشہ ایک اچھا کام ہے، دعا مومن کا ہتھیار ہے، دعا اللہ تعالی سے راز و نیاز کرنے کا ذریعہ ہے۔
جب انسان خود کو عاجز اور لاچار پاتا ہے تو دل و جان سے فریاد کرتے ہوئے دعا کرتا ہے۔
ان حساس لمحات میں دعا امید کی ایک کرن بن کر اس انسان کے دل کو روشن کر دیتی ہے۔ دعا کرنے والا اپنے اندر سکون محسوس کرنے کے علاوہ اعتماد نفس، روحانی لذت، عشق اور معرفت کو بھی پا لیتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام اپنے ایک حکیمانہ کلام میں ہمیں اجتماعی دعا کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
اگر چالیس مومنین مل کر اللہ تعالی سے دعا مانگیں یقین اور اطمنان ہے کہ وہ دعا ضرور قبول ہو گی اور اگر چالیس لوگ نہ ہوں اور چار لوگ دس بار اللہ تعالی سے دعا مانگیں تو وہ دعا بھی اتنا ہی اثر رکھتی ہے اور اگر ایک بندہ دس بار اللہ تعالی سے دعا مانگے تو خداوند عزیز اور جبار اس کی دعا کو قبول کرتا ہے۔
(اصول کافى، ج 2، ص 487)
4۔چالیس گناہوں کی معافی:
امام محمد باقر علیہ السلام مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق میں سے ایک، ان کے جنازے میں شرکت کرنے کو شمار کرتے ہیں۔ مسلمان کے جنازہ میں شرکت کرنے کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی معنوی تاثیر کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
من حمل جنازة من اربع جوانبها غفر الله له اربعين کبيرة
جو بھی جنازہ کو چاروں طرف سے کاندھا دے گا، اللہ تعالی اس کے چالیس گناہوں کو معاف فرمائے گا۔
(اصول کافی ، ج 3، ص 174، ح 1)
5۔چالیس سالوں میں انسانی عقل کا کامل ہونا:
جن چیزوں کا انسانی زندگی اور اس کی شخصیت اور کمال میں بہت بڑا اثر ہے، ان میں سے ایک انسان کا کامل اور پختہ ہونا ہے۔ اللہ تعالی اس سلسلے میں چالیس سالوں کو انسانی زندگی کی معراج مانتا ہے اور فرماتا ہے:
حتى اذا بلغ اشده وبلغ اربعين سنة قال رب اوزعنى ان اشکر نعمتک التى انعمت على وعلى والدى وان اعمل صالحا ترضيه واصلح لى فى ذريتى انى تبت اليک وانى من المسلمين
(سورہ احقاف آیت 15)
6۔چالیس دن کے خلوص کے اثرات:
امام رضا علیہ السلام ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے ارشاد فرمایا:
ما اخلص عبد لله عزوجل اربعين صباحا الا جرت ينابيع الحکمة من قلبه على لسانه
جو بھی چالیس دنوں تک اللہ تعالی کیلئے خلوص سے عمل کرتا رہے گا تو اللہ تعالی اس کے دل سے اس کی زبان پر حکمت کے چشمے جاری فرمائے گا۔
(عيون اخبار الرضا عليہ السلام، ج 1، ص 74، ح 321)
7۔امام زمانہ حضرت مہدی علیہ السلام کے ساتھی:
جب امام زمان علیہ السلام ظہور فرمائیں گے تو ان کے ہر مددگار اور شیعہ ساتھی کی قوت اور طاقت، جسمانی اور روحانی لحاظ سے مضبوط چالیس مردوں جتنی ہو گی۔
امام زین العابدین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
اذا قام قائمنا اذهب الله عزوجل عن شيعتنا العاهة وجعل قلوبهم کزبر الحديد وجعل قوة الرجل منهم قوة اربعين رجلا
جب ہمارے قائم عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا ظہور ہو گا تو اللہ تعالی ہمارے شیعوں سے آفت اور بلاؤں کو دور کرے گا اور ان میں سے ہر ایک کو چالیس مردوں کی طاقت عنایت فرمائے گا۔(خصال ، ج 2، ص 541، ح 14)
8۔ چالیس دن مومن کیلئے سوگ منانا:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مومن کے مقام کے متعلق ابوذر کو سفارش کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
يا اباذر ! ان الارض لتبکى على المؤمن اذا مات اربعين صباحا
اے ابوذر ! جب مومن اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو چالیس دنوں تک یہ زمین اس پر گریہ اور عزاداری کرتی ہے۔
(مکارم الاخلاق، ص 465)
٭ ممکن ہے مومنین کے چہلم کی مجالس کی یہی دلیل ہو۔
9۔چالیس سالہ زندگی:
جب فرزدق نے ظالم عباسی خلیفہ ہشام ابن عبد الملک کے سامنے امام زین العابدین علیہ السلام کی مدح میں ایک بہترین قصیدہ خوبصورت انداز میں پڑھا جس کا مطلع یہ تھا:
هذا الذى تعرف البطحاء وطاته
والبيت يعرفه والحل والحرم
اسے سر زمین بطحا اور اس کی گلیاں جانتی ہیں۔ اسے اللہ کا گھر بیت الحرام، حل اور حرم پہچانتے ہیں۔
تو خلیفہ، فرزدق پر بہت ناراض ہوا اور اس نے حکم دیا کہ فرزدق کا ماہانہ وظیفہ قطع کرتے ہوئے اسکو اہلبیت کے حق سے دفاع کرنے کے جرم میں قید کیا جائے لیکن وہ امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا سے چند دنوں میں ہی رہا ہو گیا۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس کی چالیس سالہ زندگی کے خرچ جتنا مال اس کیلئے تحفہ بھیجا اور فرمایا:
لو علمت انک تحتاج الى اکثر من ذلک لاعطيتک
اے فرزدق ! اگر مجھے تیری چالیس سال سے زیادہ زندگی کا علم ہوتا تو میں اس سے زیادہ مال تمہیں بھیجتا۔
(صراط مستقيم، ج 2، ص 181)
علی ابن یونس بیاضی لکھتے ہیں: اس تاریخ سے دقیقا چالیس سال بعد فرزدق نے اس فانی دنیا کو خدا حافظ کہا جس سے امام زین العابدین علیہ السلام کی صداقت اور کرامت سب پر واضح و ثابت ہو گئی۔
10۔چالیس سالوں کی عمر میں انبیاء کی بعثت:
ایک روایت میں آیا ہے کہ اکثر انبیاء کی بعثت چالیس سال کی عمر میں ہوئی۔
(بحار الانوار، ج 13، ص 50)
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی ظاہری طور پر چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہوئے۔
(تاريخ يعقوبى، ج 2، ص 22)
امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم 63 سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوئے اور آخری سال ہجرت کا دسواں سال تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب اپنی پیدائش سے چالیس سال مکمل کیے تو اللہ تعالی نے انہیں مبعوث فرمایا۔ اس کے بعد 13 سال رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ میں گزارے اور 53 سال کی عمر میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی اور دس سال بعد مدینہ میں ہی داعی اجل کو لبیک کہا۔
(کشف الغمہ، ج 1، ص 14)
11۔چالیس حدیثوں کو یاد (حفظ) کرنا:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسلامی معارف اور اسلامی ثقافت کی حفاظت کیلئے مقدمہ سازی کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
من حفظ من امتى اربعين حديثا مما يحتاجون اليه من امر دينهم بعثه الله يوم القيامة فقيها عالما
میری امت میں سے جو بھی ایسی چالیس حدیثیں یاد کرے کہ جنکی معاشرے کو عموما ضرورت پڑتی ہے تو اللہ تعالی اسے قیامت کے دن فقیہ اور دانشمند بنا کر محشور کرے گا۔
(خصال ج 2، ص 541، ح 15)
اسی حدیث کی بنیاد پر بہت سے شیعہ بزرگ علماء نے چالیس حدیثوں کے عنوان سے کتابیں تالیف کی ہیں اور اپنی یادگار چھوڑی ہیں، اس امید پر کہ اللہ تعالی انہیں بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس نورانی فرمان کا مصداق بنائے،جیسے اربعين شيخ بہائى، اربعين شہيد اول، اربعين مجلسى دوم، اربعين جامى و چہل حديث امام خمينى وغیرہ۔
12۔چالیس دنوں تک گناہ کا اثر:
انسان جس گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، اس گناہ کا اثر چالیس دنوں تک انسان کی روح اور نفس پر باقی رہتا ہے۔
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
لا تقبل صلاة شارب الخمر اربعين يوما الا ان يتوب
شراب پینے والے کی نماز چالیس دنوں تک قبول نہیں ہوتی، یہاں تک کہ وہ توبہ کر لے۔
(مستدرک الوسائل، ج 17، ص 57)
13۔ چالیس سالوں تک اصلاح:
بنیادی طور پر سعادتمند افراد وہ ہوتے ہیں جو خوش بختی اور کمال کو حاصل کرنے کی کوشش کریں اور چالیس سال کی عمر تک ان کے اخلاق اور کردار میں اصلاح پیدا ہو جائے اور اگر چالیس سال تک کسی کے کردار اور اخلاق میں تبدیلی نہ آئے اور وہ اپنے آپکو بری چیزوں سے روک نہ پائے تو اس کے بعد اسکی اصلاح مشکل ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمام مسلمانوں کو اس معاملہ میں خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:
اذا بلغ الرجل اربعين سنة ولم يغلب خيره شره قبل الشيطان بين عينيه وقال: هذا وجه لا يفلح
جب انسان چالیس سال کا ہو جائے اور اس کے اچھے اعمال کی تعداد اس کے برے اعمال سے زیادہ نہ ہو تو شیطان اس کی پیشانی پر بوسہ دیتا ہے اور کہتا ہے اس چہرے والا کبھی کامیاب نہیں ہو گا۔
(مشکاة الانوار، ص 295)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ: جو افراد چالیس سال تک اپنی اصلاح کیلئے کوشش نہیں کرتے ان کو جہنمی شمار کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:
وہ چالیس سالہ انسان جس کو نیکی کی فکر نہیں وہ اپنے آپ کو جہنم کیلئے تیار کرے اور اس کی نجات مشکل ہے۔
(مشکاة الانوار، ص 295)
14۔چالیس سالہ افراد کو آگاہ کرنا:
امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:
اذا بلغ الرجل اربعين سنة نادى مناد من السماء دنا الرحيل فاعد زادا ولقد کان فيما مضى اذا اتت على الرجل اربعون سنة حاسب نفسه
جب انسان چالیس سال کا ہوتا ہے تو آسمان سے ایک فرشتہ ندا دیتا ہے، سفر کا وقت قریب ہے سفر کی تیاری کر لو۔ گزشتہ زمانے میں انسان جب بھی چالیس سال کا ہوتا تھا تو اپنا حساب کتاب کرنا شروع کر دیتا تھا۔
(مستدرک الوسائل، ج 12، ص 156،مجموعه ورام، ج 1، ص 35)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منقول ہے کہ اللہ تعالی نے ایک فرشتہ کو مقرر فرمایا ہے جس کا کام ہر رات یہ فریاد کرنا ہے:
يا ابناء الاربعين ماذا اعددتم للقاء ربکم
اپنی زندگی کی چالیس بہاریں دیکھنے والے لوگو ! تم نے اپنے پروردگار سے ملاقات کیلئے کیا تیاری کی ہے ؟ تمہارے پاس کیا جواب ہے ؟
(مستدرک الوسائل، ج 12، ص 157)
15۔اربعین اور کھانا:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:
من ترک اللحم اربعين صباحا ساء خلقه
جو بھی چالیس دنوں تک گوشت نہ کھائے تو اس کا اخلاق برا ہو جائے گا۔
(مستدرک الوسائل ج 16، ص 305)
16۔چالیس افراد جتنے لشکر کی تعداد:
جب امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں میں سے کسی نے امام سے ظلم اور ستم کے مقابل خصوصا معاویہ کے ظلم کے خلاف قیام کرنے کی درخواست کی تو امام نے ارشاد فرمایا :
لى اسوة بجدى رسول الله حين عبد الله سرا وهو يومئذ فى تسعة وثلاثين رجلا فلما اکمل الله له الاربعين صاروا فى عدة واظهروا امر الله فلو کان معى عدتهم جاهدت فى الله حق جهاده
امت کی رہبری میں میرے نانا کی سیرت میرے لیے نمونہ عمل ہے، جب تک ان کی تعداد انتالیس تھی وہ چھپ کر اللہ تعالی کی عبادت کرتے رہے۔ جب ان کی تعداد چالیس ہوئی تو آپ نے اللہ تعالی کے دین کو ظاہر کیا اور اس کی تبلیغ فرمائی۔ اگر میرے ساتھ چالیس لوگ ہوتے تو اس طرح جہاد کرتا کہ جس طرح جہاد کرنے کا حق ہے۔
(مستدرک الوسائل، ج 11، ص 77)
17۔ چالیس سچے دوستوں کا نہ ہونا:
امام علی علیہ السلام اپنی غربت اور مظلومیت کی شکایت کرتے ہوئے فریاد کرتے ہیں:
میں نے کئی بار لوگوں سے مدد اور نصرت طلب کی لیکن چار لوگوں زبیر، سلمان، ابوذر اور مقداد کے علاوہ کسی نے میری دعوت کو قبول نہیں کیا۔ اس کے بعد امام نے ارشاد فرمایا:
لو کنت وجدت يوم بويع (اخوتيم) اربعين رجلا مطيعين لجاهدتهم
اگر بیعت کے دن میرے پاس چالیس فرمانبردار اور مطیع افراد ہوتے تو میں ان سے مقابلہ اور جہاد کرتا۔
(مستدرک الوسائل ، ج 11 ص 74)
18۔ ہمسایوں کے حقوق:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معاشرہ کی سلامتی کیلئے اور لوگوں کے درمیان اعتماد اور اطمئنان کی فضا کو برقرار رکھنے کیلئے اور اسی طرح اتحاد کی تقویت کیلئے، اسلامی ماحول میں ہمسایہ کے حقوق کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
کل اربعين دارا جيران من بين يديه ومن خلفه وعن يمينه وعن شماله
ایک مسلمان کے گھر کے چاروں طرف ، آگے ، پیچھے، دائیں اور بائیں سے چالیس گھروں تک ایک مسلمان کے ہمسایگی میں شامل ہوتے ہیں۔
(وسائل الشيعہ، ج 12، ص 132)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکمت بھرے پیغام کے حوالے سے امام علی علیہ السلام کو سلمان، ابوذر اور مقداد کے ساتھ حکم دیا کہ لوگوں کے درمیاں ندا کرو اور ان کو ہمسائے کے حقوق اور حدود کے بارے میں بتاؤ کہ:
انه لا ايمان لمن لم يامن جاره بوائقه
جس شخص کے ہمسائے اس کے شر اور آزار سے امان میں نہ ہوں، اس کے پاس کوئی ایمان نہیں۔
(مستدرک الوسائل، ج 8، ص 431)
19۔ چالیس دنوں کی مہلت:
کچھ مسلمان دینی مسائل اور اپنی عزت کے حوالے سے سستی اور کاہلی کا شکار ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اللہ کے عذاب کے مستحق قرار پاتے ہیں تو اللہ تعالی ان کو چالیس دنوں کی مہلت دیتا ہے تا کہ اپنی اور اپنے خاندان کے اصلاح کر سکے اگر وہ پھر بھی دینی مسائل میں سستی اور کاہلی کرتا ہے اور چشم پوشی کرتا ہے تو وہ حقیقت کی پہچان سے عاجز ہو جاتا ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:
جو بھی اپنے اہل و عیال میں کسی برائی کو مشاہدہ کرے اور دینی غیرت کا مظاہرہ نہ کرے اور اپنے خاندان کو گناہ سے باز نہیں رکھے اور انکی اصلاح کی کوشش نہ کرے تو اللہ تعالی ایک سفید پرندے کو اس پر مامور کرتا ہے کہ جو چالیس دنوں تک اس کے گھر کے دروازے پر پروں کو پھیلائے رکھتا ہے اور اس کے آتے جاتے اس سے کہتا ہے:
اپنی اصلاح کرو ! اپنی اصلاح کرو ! غیرت کرو ! غیرت کرو ! اگر اس نے اپنے اہل اور عیال کی اصلاح کی تو ٹھیک، ورنہ وہ اپنے پروں کو اس شخص کی آنکھوں پر ملتا ہے اور اس کے بعد وہ شخص کچھ نہیں دیکھ پاتا یعنی نیکی کو اچھا اور برائی کو برا نہیں سمجھتا۔
(الجعفريات، ص 89)
20۔ بچوں کی صحت اور صفائی:
اپنے نو مولود بچوں کے ختنہ کرانے کے لازمی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:
اختنوا اولادکم يوم السابع فانه اطهر واسرع لنبات اللحم فقال ان الارض تنجس ببول الاغلف اربعين يوما
اپنے نو مولود بیٹوں کا ختنہ انکی پیدائش کے ساتویں دن انجام دو، ایسا کرنا انکی سلامتی اور پاکیزگی کا سبب ہے اور ختنہ، ان کی نشو و نما میں بہت زیادہ اثر رکھتا ہے۔ جس کا ختنہ نہ ہوا ہو اسکے پیشاب سے زمین چالیس دنوں تکآلودہ رہتی ہے اور کراہت کرتی ہے۔
(مکارم الاخلاق، ص 230)
21۔حیوانات کی تسبیح:
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ایک رات حضرت داوود علیہ السلام خوشی خوشی زبور کی تلاوت فرما رہے تھے اور اس تلاوت سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس رات انہیں اندازہ ہوا کہ شب بیداری کتنی لذت آور چیز ہے۔ اس بات پر وہ بہت تعجب کر رہے تھے کہ ناگاہ ایک بڑی چٹان کے نیچے سے ایک مینڈک نے اللہ تعالی سے مناجات کرتے ہوئے کہا:
يا داود تعجبت من سهرک ليلة وانى لتحت هذه الصخرة منذ اربعين سنة ماجف لسانى عن ذکر الله تعالي
اے داوود ! ایک رات کی بیداری ، ذکر اور عبادت پر تعجب نہ کرو ! مجھے اس چٹان کے نیچے اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہوئے چالیس سال ہو گئے ہیں اور اس عرصے میں ایک لمحہ بھی میری زبان اللہ کے ذکر سے خاموش نہیں ہوئی۔
(بحار الانوار، ج 61، ص 50)
22۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نام کی کرامت:
حضرت امام علی علیہ السلام، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدحت اور منقبت کرتے ہوئے ایک بہت طولانی روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:
ایک دن یہودیوں کے علماء میں سے ایک عالم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے متعدد سوالات پوچھے اور ان کے جوابات دریافت کیے اور مسلمان ہو گیا، پھر اس نے کچھ تختیاں باہر نکالیں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دکھاتے ہوئے کہا: یہ ان نورانی عبارتوں میں سے ہیں کہ جو حضرت موسی ابن عمران علیہ السلام پر نازل ہوئیں۔ میں نے آپ کے فضائل اس میں پڑھے پھر بھی شک کرتا تھا اور چالیس سال تک آپ کا نام گرامی تورات سے مٹاتا رہا لیکن اس ذات حق کی قسم! جس نے آپ کو مبعوث کیا میں نے جتنی بار بھی آپ کا نام گرامی مٹایا، اتنی بار دوبارہ وہاں آپ کا نام گرامی لکھا ہوا پایا۔
(خصال ، ج 2، ص 356)
23۔قرآن میں اربعین (چالیس):
قرآن مجید میں اربعین کے لفظ کی طرف متعدد بار اشارہ ہوا ہے۔ جیسے حضرت موسی علیہ السلام کے قصہ میں ارشاد ہوتا ہے:
واذ واعدنا موسى اربعين ليلة
اور ہم نے موسٰی سے چالیس راتوں کا وعدہ لیا۔
(سورہ بقره آیت 51)
اور پھر ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
و واعدنا موسى ثلثين ليلة واتممناها بعشر فتم ميقات ربه اربعين ليلة
اور ہم نے موسٰی سے تیس راتوں کا وعدہ لیا اور اسے دس مزید راتوں سے مکمل کر دیا کہ اس طرح ان کے رب کا وعدہ چالیس راتوں کا وعدہ ہو گیا۔
(سورہ اعراف آیت 141)
قرآن کریم نے بنی اسرائیل کی حضرت موسی سے نافرمانی کو ذکر کیا ہے اور یہودیوں میں سے اس نا فرمان گروہ کی سزا اور عتاب چالیس سالوں تک سرگردان بھٹکنا، بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
فانها محرمة عليهم اربعين سنة يتيهون فى الارض فلا تاس على القوم الفاسقين
ارشاد ہوا کہ اب ان پر چالیس سال حرام کر دئیے گئے کہ یہ زمین میں چکرّ لگاتے رہیں گے لہذا تم اس فاسق قوم پر افسوس نہ کرو۔
(سورہ مائده آیت 26)
24۔چالیس سال تک اپنی سولی ساتھ لیے پھرنے والا جاں نثار:
دعبل ابن علی خزائی ، اہلبیت علیہم السلام کے عارف اور شجاع شعراء میں سے ایک تھے اور وہ امام رضا علیہ السلام کے ہاتھوں سے بہت سارے مادی اور معنوی تحفہ تحائف سے شرفیاب بھی ہوئے تھے۔ اس نے وصیت کی کہ اس کے قصیدہ کو جو کہ مدارس آیات کے نام سے مشہور تھا اور اہلبیت کی تائید اور تصدیق کا مورد تھا، وہ اس کے کفن پر تحریر کیا جائے۔ اس کی زبان میں اتنا اثر تھا کہ ظالم حکمران اس سے خوف کھاتے تھے۔
ابن مدبر لکھتا ہے : میں نے ایک دن دعبل سے کہا میں نے تیرے جیسا بے باک، بہادر اور نڈر انسان نہیں دیکھا تم اسقدر بے باک ہو کہ سفاک اور ظالم حکمرانوں کے کرتوتوں کو بے نقاب کرتے ہو اور ان کی حقیقت کو اپنے اشعار میں بیان کرتے ہو اور اس پیغام کو لوگوں تک پہنچا بھی رہے ہو۔
دعبل ، ابن مدبر کی اس خبرداری کے با وجود اہلبیت کے عشق اور محبت پہ ڈٹا رہا اور اس بات کے جواب میں کہا: میں چالیس سال سے اپنے سر کیلئے سولی ساتھ لے کے پھرتا ہوں لیکن آج تک مجھے اس سولی پہ لٹکانے والا نہیں ملا !
شيعه يعنى دعبل چشم انتظار
مى کشد بر دوش خود چل سال دار
شيعه يعنى همچو امثال کميل
سر نهد بر خاک پاى اهل بيت
شیعہ یعنی دعبل چالیس سال تک اپنی سولی ساتھ لیے اپنی موت کا انتظار کرتا ہے۔
شیعہ یعنی کمیل کی طرح اہلبیت علیہم السلام کے نقش پا پر سر رکھ دیتا ہے۔
25۔عدالت کا مقام اور فضیلت:
امام موسی کاظم علیہ السلام اس آیت :
يحيى الارض بعد موتها
کی تفسیر میں ارشاد فرماتے ہیں:
اللہ تعالی مردہ زمین کو بارش کے قطروں کے ذریعہ سے زندہ اور آباد نہیں کرتا بلکہ عدل اور عدالت کو قائم کرنے والے انسانوں کے ذریعہ زندہ اور آباد کرتا ہے ۔۔۔ کیونکہ عدل اور عدالت کو قائم کرنا اس چالیس دنوں کی بارش اور اس سے حاصل ہونے والے مادی منافع سے ہزار مرتبہ بہتر ہے۔
(تہذيب الاحکام، ج 10، ص 146)
26۔ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کی مذمت:
امام صادق علیہ السلام تاجروں کے لوگوں کی مورد نیاز روز مرہ کی اشیاء کو ذخیرہ کرنے اور اس کو کئی گنا زیادہ قیمت پر فروخت کرنے کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
الحکرة فى الخصب اربعون يوما وفى الشدة والبلاء ثلاثة ايام فمازاد على الاربعين يوما فى الخصب فصاحبه ملعون ومازاد على ثلاثة ايام فى العسرة فصاحبه ملعون
لوگوں کی مورد نیاز چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کی حد عام حالت میں چالیس دن اور خشکسالی کے دور میں تین دن ہے جو بھی تاجر جنس کی زیادتی کے زمانہ میں چالیس دن اور جنس کی نایابی کے زمانہ میں تین دن سے زیادہ ذخیرہ اندوزی کرے گا تو اس پر اللہ تعالی کی لعنت ہو گی۔
(الکافى، ج 5، ص 165)
27۔حاجت کی بر آوری کیلئے چلہ کاٹنا:
امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
اللہ تعالی نے حضرت داوود علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی:
انک نعم العبد لولا انک تاکل من بيت المال ولا تعمل بيدک شيئا
اے داوود ! اگر تو بیت المال میں سے نہ کھاتا اور اپنی محنت سے کما کر کھاتا تو میرا بہترین بندہ ہوتا !
حضرت داوود علیہ السلام چالیس دنوں تک اللہ تعالی کی بارگاہ میں گریہ اور زاری کرتے رہے، خداوند سے اس مشکل کی دوری کی دعا مانگتے رہے اور اللہ تعالی نے اس بات کے مقدمات فراہم کیے اور لوہے کو حٖضرت داوود کے کنٹرول میں دے دیا تا کہ وہ اس لوہے سے روزانہ ایک زرہ بنا سکے۔ حضرت داوود علیہ السلام نے اس زرہ کو ایک ہزار درہم میں فروخت کیا اور انھوں نے تین سو ساٹھ زرہیں بنائیں اور تین سو ساٹھ ہزار درہم کمائے جو انکے اپنے گھر کے خرچے کیلئے کافی تھے اور اسطرح سے وہ بیت المال سے بے نیاز ہو گئے۔
(وسائل الشيعہ، ج 17، ص 37)
28۔زیارت اربعین ایمان اور تشیع کی علامت:
امام حسن عسکری علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
علامات المؤمنين خمس: صلاة الاحدى و الخمسين و زيارة الاربعين و التختم فى اليمين و تعفيرالجبين و الجهر ببسم الله الرحمن الرحيم
مومن (شیعہ) کی پانچ علامتیں ہیں: روزانہ اکاون رکعتیں نماز ادا کرنا (سترہ رکعتیں واجب، چونتیس رکعتیں مستحب)، اربعین کے دن امام حسین کی زیارت کرنا، دائیں ہاتھ میں انگشتر پہننا، سجدے کی حالت میں پیشانی کو خاک پر رکھنا، اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کو نماز میں بلند آواز سے پڑھنا۔
)مصباح المتہجد، ص 787(
29۔ امام حسین علیہ السلام پر چالیس روز گریہ:
امام صادق علیہ السلام ایک روایت میں تمام موجودات کے سالار شہداء پر گریہ کرنے کو بیان کرتے ہوئے زرارہ سے فرماتے ہیں:
يا زرارة ! ان السماء بکت على الحسين عليه السلام اربعين صباحا بالدم وان الارض بکت اربعين صباحا بالسواد و ان الشمس بکت اربعين صباحا بالکسوف والحمرة … و ان الملائکة بکت اربعين صباحا على الحسين عليه السلام،
اے زرارہ ! آسمان نے چالیس دنوں تک امام حسین علیہ السلام پر خون کے آنسوں سے گریہ کیا اور زمین نے امام حسین علیہ السلام پر سیاہی کے ذریعے سے گریہ کیا۔ سورج نے بھی امام حسین علیہ السلام پر گرہن اور لالی کے ذریعہ گریہ کیا اور ملائکہ نے بھی چالیس روز امام حسین علیہ السلام پر گریہ اور عزاداری کی۔
)مستدرک الوسائل، ج 10، ص 314، تلخيص کے ساتھ(
30۔ زیارت اربعین سے اقتباس:
صفوان ابن مہران جمال کہتے ہیں: میرے مولا امام صادق علیہ السلام نے مجھے زیارت اربعین کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کے چہلم کے روز میرے دادا ، آقا ، مولا حسین علیہ السلام کی زیارت اس طرح کیا کرو:
السلام على ولى الله وحبيبه
اے اللہ کے ولی اور حبیب تم پر سلام ہو !
زیارت اربعین میں بہت بلند عرفانی اور معنوی مطالب پائے جاتے ہیں جیسے:
وبذل مهجته فيک ليستنقذ عبادک من الجهالة وحيرة الضلالة
پروردگارا ! میں گواہی دیتا ہوں کہ امام حسین علیہ السلام نے تیری بارگاہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تا کہ تیرے بندوں کو جہالت اور سرگردانی سے نجات بخشے !
)تہذيب الاحکام، ج 6، ص 113(
روز اربعین زیارت امام حسین علیہ السلام کی کیفیت:
اس زیارت کو شیخ طوسی نے کتاب تہذیب اور کتاب مصباح میں صفوان جمّال سے نقل کیا ہے :
صفوان جمّال نے کہا میرے مولا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ زیارت اربعین اس وقت جب دن چڑھ گیا ہو اس طرح پڑھو :
السَّلَامُ عَلَی وَلِیِّ ﷲِ وَحَبِیبِہِ اَلسَّلَامُ عَلَی خَلِیلِ ﷲِ وَنَجِیبِہِ اَلسَّلَامُ عَلَی
سلام ہو خدا کے ولی اور اس کے پیارے پر سلام ہو خدا کے سچے دوست اور انتخاب کیے ہوئے پر سلام ہو خدا کے
صَفِیِّ ﷲِ وَابْنِ صَفِیِّہِ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْحُسَیْنِ الْمَظْلُومِ الشَّھِیدِ، اَلسَّلَامُ عَلَی
پسندیدہ اور اس کے پسندیدہ کے فرزند پر سلام ہو حسین علیہ السلام پر جو ستم دیدہ شہید ہیں سلام ہو حسین علیہ السلام پر
ٲَسِیرِ الْکُرُباتِ وَقَتِیلِ الْعَبَرَاتِ۔ اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَشْھَدُ ٲَنَّہُ وَلِیُّکَ وَابْنُ وَلِیِّکَ، وَصَفِیُّکَ
جو مشکلوں میں پڑے اور انکی شہادت پر آنسو بہے اے معبود میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ تیرے ولی اور تیرے ولی کے فرزند تیرے پسندیدہ
وَابْنُ صَفِیِّکَ، الْفَائِزُ بِکَرَامَتِکَ، ٲَکْرَمْتَہُ بِالشَّھَادَۃِ، وَحَبَوْتَہُ بِالسَّعَادَۃِ، وَاجْتَبَیْتَہُ
اور تیرے پسندیدہ کے فرزند ہیں جنہوں نے تجھ سے عزت پائی تو نے انہیں شہادت کی عزت دی ان کو خوش بختی نصیب کی اور انہیں
بِطِیبِ الْوِلادَۃِ، وَجَعَلْتَہُ سَیِّداً مِنَ السَّادَۃِ، وَقَائِداً مِنَ الْقَادَۃِ، وَذَائِداً مِنَ الذَّادَۃِ
پاک گھرانے میں پیدا کیا، تو نے قرار دیا انہیں سرداروں میں سردار پیشوائوں میں پیشوا مجاہدوں میں مجاہد اور انہیں
وَٲَعْطَیْتَہُ مَوَارِیثَ الْاَنْبِیَائِ، وَجَعَلْتَہُ حُجَّۃً عَلَی خَلْقِکَ مِنَ الْاَوْصِیَائِ، فَٲَعْذَرَ فِی
نبیوں کے ورثے عنایت کیے تو نے قرار دیا ان کو اوصیاء میں سے اپنی مخلوقات پر حجت پس انہوں نے تبلیغ کا
الدُّعَائِ، وَمَنَحَ النُّصْحَ، وَبَذَلَ مُھْجَتَہُ فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَھَالَۃِ، وَحَیْرَۃِ
حق ادا کیا، بہترین خیر خواہی کی اور تیری خاطر اپنی جان قربان کی تا کہ تیرے بندوں کو نجات دلائیں نادانی و گمراہی کی پریشانیوں سے
الضَّلالَۃِ، وَقَدْ تَوَازَر َعَلَیْہِ مَنْ غَرَّتْہُ الدُّنْیا، وَبَاعَ حَظَّہُ بِالْاَرْذَلِ الْاَدْنیٰ، وَشَرَیٰ
جب کہ ان پر ان لوگوں نے ظلم کیا جنہیں دنیا نے مغرور بنا دیا تھا، جنہوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اور اپنی
آخِرَتَہُ بِالثَّمَنِ الْاَوْکَسِ، وَتَغَطْرَسَ وَتَرَدَّیٰ فِی ھَوَاہُ، وَٲَسْخَطَکَ وَٲَسْخَطَ نَبِیَّکَ
آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا انہوں نے سر کشی کی اور لالچ کے پیچھے چل پڑے انہوں نے تجھے غضب ناک اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
وَٲَطَاعَ مِنْ عِبادِکَ ٲَھْلَ الشِّقاقِ وَالنِّفاقِ، وَحَمَلَۃَ الْاَوْزارِ، الْمُسْتَوْجِبِینَ النَّارَ
ناراض کیا انہوں نے تیرے بندوں میں سے انکی بات مانی جو ضدی اور بے ایمان تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کر جہنم کی طرف چلے گئے
فَجاھَدَھُمْ فِیکَ صابِراً مُحْتَسِباً حَتَّی سُفِکَ فِی طَاعَتِکَ دَمُہُ وَاسْتُبِیحَ حَرِیمُہُ
پس حسین علیہ السلام ان سے تیرے لیے لڑے جم کر ہوشمندی کیساتھ یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر انکا خون بہایا گیا اور انکے اہل حرم کو لوٹا گیا
اَللّٰھُمَّ فَالْعَنْھُمْ لَعْناً وَبِیلاً، وَعَذِّبْھُمْ عَذاباً ٲَلِیماً۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ رَسُولِ اﷲِ
اے معبود لعنت کر ان ظالموں پر سختی کے ساتھ اور عذاب دے ان کو درد ناک عذاب آپ پر سلام ہو اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَابْنَ سَیِّدِ الْاَوْصِیائِ ٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ ٲَمِینُ ﷲِ وَابْنُ ٲَمِینِہِ عِشْتَ سَعِیداً
آپ پر سلام ہو اے سردار اوصیاء کے فرزند میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے امین اور اسکے امین کے فرزند ہیں آپ نیک بختی میں زندہ رہے
وَمَضَیْتَ حَمِیداً، وَمُتَّ فَقِیداً، مَظْلُوماً شَھِیداً، وَٲَشْھَدُ ٲَنَّ ﷲَ مُنْجِزٌ
قابل تعریف حال میں گزرے اور وفات پائی وطن سے دور کہ آپ ستم زدہ شہید ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا آپ کو جزا دے گا
مَا وَعَدَکَ، وَمُھْلِکٌ مَنْ خَذَلَکَ، وَمُعَذِّبٌ مَنْ قَتَلَکَ، وَٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ
جس کا اس نے وعدہ کیا اور اسکو تباہ کریگا وہ جس نے آپکا ساتھ چھوڑا اور اسکو عذاب دیگا جس نے آپکو قتل کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ
وَفَیْتَ بِعَھْدِ ﷲِ، وَجاھَدْتَ فِی سَبِیلِہِ حَتّی ٲَتَاکَ الْیَقِینُ، فَلَعَنَ ﷲُ مَنْ قَتَلَکَ
آپ نے خدا کی دی ہوئی ذمہ داری نبھائی آپ نے اسکی راہ میں جہاد کیا حتی کہ شہید ہو گئے پس خدا لعنت کرے جس نے آپکو قتل کیا
وَلَعَنَ ﷲُ مَنْ ظَلَمَکَ، وَلَعَنَ ﷲُ ٲُمَّۃً سَمِعَتْ بِذلِکَ فَرَضِیَتْ بِہِ۔ اَللّٰھُمَّ إنِّی
خدا لعنت کرے جس نے آپ پر ظلم کیا اور خدا لعنت کرے اس قوم پر جس نے یہ واقعہ شہادت سنا تو اس پر خوشی ظاہر کی اے معبود میں
ٲُشْھِدُکَ ٲَنِّی وَلِیٌّ لِمَنْ والاہُ وَعَدُوٌّ لِمَنْ عاداہُ بِٲَبِی ٲَنْتَ وَٲُمِّی یَابْنَ رَسُولِ ﷲِ
تجھے گواہ بناتا ہوں کہ ان کے دوست کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں، میرے ماں باپ قربان آپ پر اے فرزند رسول خدا
ٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْاَصْلابِ الشَّامِخَۃِ، وَالْاَرْحامِ الْمُطَھَّرَۃِ، لَمْ تُنَجِّسْکَ
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نور کی شکل میں رہے صاحب عزت صلبوں میں اور پاکیزہ رحموں میں جنہیں جاہلیت نے اپنی نجاست
الْجاھِلِیَّۃُ بِٲَنْجاسِھا وَلَمْ تُلْبِسْکَ الْمُدْلَھِمَّاتُ مِنْ ثِیابِھا وَٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ مِنْ دَعائِمِ الدِّینِ
سے آلودہ نہ کیا اور نہ ہی اس نے اپنے بے ہنگم لباس آپ کو پہنائے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ دین کے ستون ہیں
وَٲَرْکانِ الْمُسْلِمِینَ، وَمَعْقِلِ الْمُؤْمِنِینَ، وَٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ الْاِمامُ الْبَرُّ التَّقِیُّ الرَّضِیُّ
مسلمانوں کے سردار ہیں اور مومنوں کی پناہ گاہ ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امام علیہ السلام ہیں نیک و پرہیز گار پسندیدہ
الزَّکِیُّ الْھادِی الْمَھْدِیُّ وَٲَشْھَدُ ٲَنَّ الْاَئِمَّۃَ مِنْ وُلْدِکَ کَلِمَۃُ التَّقْوی وَٲَعْلامُ الْھُدیٰ
پاک رہبر راہ یافتہ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ جو امام آپ کی اولاد میں سے ہیں وہ پرہیزگاری کے ترجمان ہدایت کے
وَالْعُرْوَۃُ الْوُثْقی وَالْحُجَّۃُ عَلَی ٲَھْلِ الدُّنْیا وَٲَشْھَدُ ٲَنِّی بِکُمْ مُؤْمِنٌ وَبِ إیابِکُمْ مُوقِنٌ
نشان محکم تر سلسلہ اور دنیا والوں پر خدا کی دلیل و حجت ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کا اور آپ کے بزرگوں کا ماننے والا
بِشَرائِعِ دِینِی وَخَواتِیمِ عَمَلِی وَقَلْبِی لِقَلْبِکُمْ سِلْمٌ وَ ٲَمْرِی لاَمْرِکُمْ مُتَّبِعٌ
اپنے دینی احکام اور عمل کی جزاء پر یقین رکھنے والا ہوں، میرا دل آپکے دل کیساتھ پیوستہ ہے، میرا معاملہ آپ کے معاملے کے تابع اور میری
وَنُصْرَتِی لَکُمْ مُعَدَّۃٌ حَتَّی یَٲْذَنَ ﷲُ لَکُمْ فَمَعَکُمْ مَعَکُمْ لاَ مَعَ عَدُّوِکُمْ صَلَواتُ
مدد آپ کیلئے حاضر ہے حتی کہ خدا آپکو اذن قیام دے پس آپکے ساتھ ہوں آپکے ساتھ نہ کہ آپکے دشمن کیساتھ خدا کی رحمتیں ہوں
ﷲِ عَلَیْکُمْ وَ عَلَی ٲَرْواحِکُمْ وَ ٲَجْسادِکُمْ وَشاھِدِکُمْ وَ غَائِبِکُمْ وَ ظَاھِرِکُمْ وَ بَاطِنِکُمْ
آپ پر آپ کی پاک روحوں پر آپ کے جسموں پر آپ کے حاضر پر آپ کے غائب پر آپ کے ظاہر اور آپ کے باطن پر
آمِینَ رَبَّ الْعالَمِینَ
ایسا ہی ہو جہانوں کے پروردگار۔
https://www.valiasr-aj.com/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button