سیرتسیرت امام حسن عسکریؑ

امام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ بادشاہان وقت کا سلوک اور طرز عمل

جس طرح آپ کے آباؤ اجداد کے وجود کو ان کے عہد کے بادشاہ اپنی سلطنت اور حکمرانی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے رہے، ان کا یہ خیال رہا کہ دنیا کے قلوب ان کی طرف مائل ہیں کیونکہ یہ فرندر سول اور اعمال صالح کے تاجدار ہیں لہذا ان کو انظار عامہ سے دور رکھا جائے، ورنہ امکان قوی ہے کہ لوگ انہیں اپنا بادشاہ وقت تسلیم کر لیں گے۔ اس کے علاوہ یہ بغض و حسد بھی تھا کہ ان کی عزت بادشاہ وقت کے مقابلہ میں زیادہ کی جاتی ہے اور یہ کہ امام مہدی انہیں کی نسل سے ہوں گے، جو سلطنتوں کا انقلاب لائیں گے، انہیں تصورات نے جس طرح آپ کے بزرگوں کو چین نہ لینے دیا اور ہمیشہ مصائب کی آماجگاہ بنائے رکھا اسی طرح آپ کے عہد کے بادشاہوں نے بھی آپ کے ساتھ کیا عہد واثق میں آپ کی ولادت ہوئی اور عہد متوکل کے کچھ ایام میں بچپنا گزرا، متوکل جو آل محمد کا جانی دشمن تھا۔ اس نے صرف اس جرم میں کہ آل محمد کی تعریف کی ہے ابن سکیت شاعر کی زبان گدی سے کھنچوا لی۔
ابو الفداء ج 2 ص 14
اس نے سب سے پہلے تو آپ پر یہ ظلم کیا کہ چار سال کی عمر میں ترک وطن کرنے پر مجبور کیا یعنی امام علی نقی علیہ السلام کو جبرا مدینہ سے سامرا بلوا لیا جن کے ہمراہ امام حسن عسکری علیہ السلام کو لازما جانا تھا پھر وہاں آپ کے گھر کی لوگوں کے کہنے سننے سے تلاشی کرائی اور اپ کے والد ماجد کو جانوروں کے ذریعے سے جان سے مارنے کی بھی کوشش کی ، غرضکہ جو جو سعی آل محمدعلیہم السلام کو ستانے کی ممکن تھی، وہ سب اس نے اپنے عہد حیات میں کر ڈالی۔ اس کے بعد اس کا بیٹا مستنصر خلیفہ ہوا۔ یہ بھی اپنے پاپ کے نقش قدم پر چل کر آل محمد علیہم السلام کو ستانے کی سنت ادا کرتا رہا اور اس کی مسلسل کوشش یہی رہی کہ ان لوگوں کو سکون نصیب نہ ہونے پائے، اس کے بعد مستعین کا جب عہد آیا تو اس نے آپ کے والد ماجد کو قید خانہ میں رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی سعی پیہم کی کہ کسی صورت سے امام حسن عسکری علیہ السلام کو قتل کرا دے اور اس کے لیے اس نے مختلف راستے تلاش کیے۔
ملا جامی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ اس نے اپنے شوق کے مطابق ایک نہایت زبردست گھوڑا خریدا، لیکن اتفاق سے وہ کچھ اس درجہ سرکش نکلا کہ اس نے بڑے بڑے لوگوں کو سواری نہ دی اور جو اس کے قریب گیا اس کو زمین پر دے مار کر ٹاپوں سے کچل ڈالا، ایک دن خلیفہ مستعین باللہ کے ایک دوست نے رائے دی کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کو بلا کر حکم دیا جائے کہ وہ اس پر سواری کریں، اگر وہ اس پر کامیاب ہو گئے تو گھوڑا رام ہو جائے گا اور اگر کامیاب نہ ہوئے اور کچل ڈالے گئے تو تیرا مقصد حل ہو جائے گا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا لیکن اللہ رے شان امامت جب آپ اس کے قریب پہنچے تو وہ اس طرح بھیگی بلی بن گیا کہ جیسے کچھ جانتا ہی نہیں۔ بادشاہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا کہ گھوڑا حضرت ہی کے حوالے کر دے۔
شواہد النبوۃ ص 210
پھر مستعین کے بعد جب معتز باللہ خلیفہ ہوا تو اس نے بھی آل محمد کو ستانے کی سنت جاری رکھی اور اس کی کوشش کرتا رہا کہ عہد حاضر کے امام زمانہ اور فرزند رسول امام علی نقی علیہ السلام کو درجہ شہادت پر فائز کر دے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس نے 254 ہجری میں آپ کے والد بزرگوار کو زہر سے شہید کرا دیا، یہ ایک ایسی مصیبت تھی کہ جس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کو بے انتہا مایوس کر دیا۔ امام علی نقی علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام خطرات میں محصور ہو گئے کیونکہ حکومت کا رخ اب آپ ہی کی طرف رہ گیا۔ آپ کو کھٹکا لگا ہی تھا کہ حکومت کی طرف سے عمل درآمد شروع ہو گیا۔ معتز نے ایک شقی ازلی اور ناصب ابدی ابن یارش کی حراست اور نظر بندی میں امام حسن عسکری علیہ السلام کو دیدیا۔ اس نے آپ کو ستانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا لیکن آخر میں وہ آپ کا معتقد بن گیا، آپ کی عبادت گزاری اور روزہ داری نے اس پر ایسا گہرا اثر کیا کہ اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی مانگ لی اور آپ کو دولت سرا تک پہنچا دیا۔
علی بن محمد زیاد کا بیان ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے مجھے ایک خط تحریر فرمایا جس میں لکھا تھا کہ تم خانہ نشین ہو جاؤ کیونکہ ایک بہت بڑا فتنہ اٹھنے والا ہے۔ غرضکہ چند دنوں کے بعد ایک عظیم ہنگامہ برپا ہوا اور حجاج ابن سفیان نے معتز کو قتل کر دیا۔
کشف الغمہ ص 127
پھر جب مہدی باللہ کا عہد آیا تو اس نے بھی بدستور اپنا عمل جاری رکھا اور حضرت کو ستانے میں ہر قسم کی کوشش کرتا رہا۔ ایک دن اس نے آپ کو صالح ابن وصیف نامی ناصبی کے حوالہ کر دیا اور حکم دیا کہ ہر ممکن طریقہ سے آپ کو ستائے، صالح کے مکان کے قریب ایک بدترین حجرہ تھا۔ جس میں آپ قید کیے گئے صالح بدبخت نے جہاں اور طریقے سے ستایا۔ ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ آپ کو کھانا اور پانی سے بھی حیران اور تنگ رکھتا تھا۔ آخر ایسا ہوتا رہا کہ آپ تیمم سے نماز ادا فرماتے رہے ایک دن اس کی بیوی نے کہا کہ اے دشمن خدا یہ فرزند رسول ہیں، ان کے ساتھ رحم کا برتاؤ کر، اس نے کوئی توجہ نہ کی ایک دن کا ذکر ہے کہ بنی عباس کے ایک گروہ نے صالح سے جا کر درخواست کی کہ حسن عسکری پر زیادہ ظلم کیا جانا چاہیے۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے ان پر دو ایسے اشخاص کو مسلط کر دیا ہے جن کا ظلم و تشدد میں جواب نہیں ہے، لیکن میں کیا کروں، کہ ان کے تقوی اور ان کی عبادت گذاری سے وہ اس درجہ متاثر ہو گئے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں، میں نے ان سے جواب طلبی کی تو انہوں نے قلبی مجبوری ظاہر کی یہ سن کر وہ لوگ مایوس واپس گئے۔
تذکرةالمعصومینص 223
غرضکہ مہدی کا ظلم و تشدد زوروں پر تھا اور یہی نہیں کہ وہ امام علیہ السلام پر سختی کرتا تھا بلکہ یہ کہ وہ ان کے ماننے والوں کو برابر قتل کر رہا تھا۔ ایک دن آپ کے ایک صحابی احمد ابن محمد نے ایک عریضے کے ذریعے سے اس کے ظلم کی شکایت کی، تو آپؑ نے تحریر فرمایا کہ گھبراؤ نہیں کہ مہدی کی عمر اب صرف پانچ دن باقی رہ گئی ہے، چنانچہ چھٹے دن اسے کمال ذلت و خواری کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔
کشف الغمہ ص 126
اسی کے عہد میں جب آپ قید خانہ میں پہنچے تو عیسی ابن فتح سے فرمایا کہ تمہاری عمر اس وقت 65 سال ایک ماہ دو دن کی ہے۔ اس نے نوٹ بک نکال کر اس کی تصدیق کی پھر آپؑ نے فرمایا کہ خدا تمہیں اولاد نرینہ عطا کرے گا۔ وہ خوش ہو کر کہنے لگا مولا ! کیا آپ کو خدا فرزند نہ دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم عنقریب مجھے مالک ایسا فرزند عطا کرے گا جو ساری کائنات پر حکومت کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔
نور الابصار ص 101
الالعنۃ اللہ علی الظالمین۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button