سیرت سیدة نساء العالمین کانفرنس 2022

بہترین عورت جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا کی نگاہ میں

مولانا روشن علی النجفی ، مدرس جامعۃ الکوثر
مقدمہ
ائمہ ،معصومین ع کے وظائف میں سے اہم وظیفہ بشریت عالم کی ہدایت کرنا ہے ،چنانچہ ممکن ہے کہ اس ہدایت کا ایک طریقہ اس "عمل ” کی صورت میں ہو کہ جس کو سیرت معصومین ع سے تعبیر کیا جاتا ہے ،اورممکن ہے کہ یہ ہدایت بعض اوقات” اقوال زرین "کی صورت میں انجام پائے جس کو روایت یا حدیث سے تعبیر کیا جاتا ہے ، بہر صورت ائمہ کی رفتار ، گفتار اور ان کا کلام ایک نور ہے جو ہر انسان کے لئے نجات کی راہ کو متعین کرتا ہے ۔
دور حاضر میں ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا گھر اور خاندان کا ماحول بہتر سے بہتر ، پر امن اور جنت نظیر ہو جس میں تمام افراد باہمی احترام اور حقوق کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی زندگی بسر کریں ۔
جیسا کہ یہ پہلے ذکر ہو چکا کہ عالم بشریت کی ہدایت کا فریضہ ائمہ ع کے وظائف میں سے ہے لہذا گھر کے پر امن ماحول کی تعمیر میں بھی ہم ائمہ ع کی ہدایت کے طلب گار ہیں اور جب ہم ان بزرگوار اور مقدس ذوات کی سیرت پر نظر کرتے ہیں تو ہمیں ایک جنت نظیر گھر جناب امیر المومنین ع کا ملتا ہے ۔ جس گھر میں والد ، والدہ اور اولاد فضائل اور کمالات کی انتہاء کو پہنچے ہوئے ہیں اور احترام متقابل کے بے نظیر شواہد موجود ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ جب ایک بیٹا گھر میں داخل ہوتا ہے اور مودبانہ لہجہ میں اپنی والدہ گرامی کو سلام کرتا ہے کہ” السلام علیک یا امّاہ ”جواب میں والدہ ارشاد فرماتی ہیں "و علیک السلام یا قرۃ عینی وثمرۃ فوادی "
تم پر بھی سلام ہو اے میرے دل کے میوے اور آنکھوں کی ٹھنڈک۔
اور جب چھوٹا بیٹا داخل ہوتا ہے تو سلام کرتے ہوئے فرماتا ہے "السلام علیک یااماہ ” تو والدہ گرامی زیادہ شفقت اور نرم لہجہ میں جواب دیتے ہوئے فرماتی ہیں کہ "و علیک السلام یا ولدی و یا قرۃ عینی و ثمرۃ فوادی”
اے میرے بیٹے ، میری آنکھوں کی ٹھنڈک ، میرے دل کے چین تم پر بھی سلام
جب شوہر گھر میں داخل ہوتا ہے تو ادب کامل کے ساتھ اپنی زوجہ پر سلام کرتا ہے کہ ” السلام علیک یا بنت رسول اللہ”تو زوجہ محترمہ بھی نہایت ادب اور تواضع کے ساتھ جواب دہتے ہوئے فرماتی ہیں کہ و علیک السلام یا اباالحسن و یا امیر المومنین "(1)
اس طرح کا خاندان اور گھرانہ ہر معاشرہ اور ہر دور میں ایک نمونہ عمل بن سکتا ہے اور اس طرح کے گھرانہ کی تعمیر میں زیادہ کردار ایک عورت کا ہوتا ہے اس لئے مرکز گفتگو جناب زہراء س کی ذات مقدسہ کو قرار دیں کے جن کے بارے میں خاتم الانبیاء ص نے فرمایا کہ ” ان ابنتی فاطمۃ سیدہ نساء اہل الجنۃ”(2)
تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ جناب سیدہ کی سیرت گفتار اور اقوال زریں کی روشنی وہ کونسی خصوصیات لئے ہوئے ہے جن سے مزین ہو کر ایک خاتون اپنے گھرکو جنت نظیر اور امن کا گہوارہ بنا سکتی ہے۔
بہترین عورت کی خصوصیات جناب سیدہ زہراء سلام اللہ علیھا کی نظر میں
گھر کی دیکھ بھال اور گھر کے امور پر توجہ :
یہ بات واضح اور روز روشن کی طرح ہے کہ مغرب نے ایسا ماحول بنایا کہ عورت نے اپنا گھر چھوڑ کر زیادہ وقت باہر رہنے کو ترجیح دی جس کے نتیجے میں گھر کا ماحول تو خراب ہوا لیکن معاشرہ بھی فساد کا شکار ہوا کیونکہ جب عورت گھر میں رہ کر بچوں کی تربیت کرے گی تو بہترین افراد معاشرہ سازی میں کردار ادا کریں گے اور اگر عورت گھر میں نہ ہو تو غیر تربیت یافتہ افراد معاشرے کو تباہ کر دیں گے۔ بناء بریں اس کے بر عکس اسلام کے نزدیک کسی عورت کا پسندیدہ عمل یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں رہے اور بچوں کی تربیت میں مشغول رہے جیسا کہ روایات میں ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا ﷺ نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ کس وقت ایک عورت اپنے رب سے نزدیک ترین ہوتی ہے تو اکثر نے کوئی مناسب جواب نہ دیا تو جناب سیدہ س نےاپنے والد گرامی کے سوال کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ”انّادنیٰ ماتکون من ربھا ان تلزم قعر بیتھا ”
"کوئی عورت اس وقت اپنے رب کے زیادہ نزدیک ہوتی ہے جب اپنے گھر میں گھر میں ہو”
پیغمبر اکرم ﷺ اپنی بیٹی کے اس جواب سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا "ان فاطمۃ بضعۃ منی "(3)
‘فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ”
قناعت ،سادگی اور شکر گزاری:
ایک مسلم خاتون کی زندگی قرآن مجید اور اہل بیت ؑکی تعلیمات کی روشنی میں با قناعت، سادہ اور ہمیشہ شکر گزاری کی حامل ہونی چاہیئے اور اسےاپنی تمام صلاحیتوں کو اولاد کی تربیت گھر کی اصلاح اور معنوی کمالات کے حصول کے لئے استعمال کرنا چاہیئے کیونکہ دنیا پروری ، شاہانہ زندگی اور قیمتی لباس کی تلاش انسان کو معنوی کمالات کے حصول سے محروم کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ جناب سیدہ س خاتم الانبیاء اور دنیا جہاں کے سردار کی بیٹی ہوتے ہوئے اگر چاہتیں تو دنیا کی ہر چیز حاصل کر سکتی تھیں لیکن آپ س نے سادہ اور با قناعت زندگی کو ترجیح دی جس طرح حضرت سلمان فارسی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں نے دیکھا کہ جناب سیدہ کے سر پر ایک سادہ چادر ہے میں نےتعجب سے پوچھا کہ دنیا کے حکمرانوں کی بیٹیاں سونے کی کرسیوں پر بیٹھتی ہیں بہترین اور قیمتی لباس زیب تن کرتی ہیں جب کہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کی عظمت ان سب سے زیادہ ہے تو پھرآپ نے قیمتی چادر کیوں نہیں پہنی ،جناب سیدہ س نے فرمایا " ان اللہ ذخر لنا الثیاب والکراسی لیوم آخر”(4)
"اللہ جل جلالہ نے زینتی لباس اور سونے کے تخت کو قیامت کے دن کے لئے ہمارے لئے قرار دیا ہے ”
اسی وقت جناب سیدہ اپنے والد گرامی کی خدمت میں تشریف لے کر آئیں اور عرض کیا کہ سلمان فارسی میرے سادہ لباس پر تعجب کر رہے تھے ، خدا کی قسم جس نے آپ کومبعوث فرمایا پانچ سال ہوگئے ہیں ہمارے گھر میں جو چادر موجود ہے وہ بھیڑ کی کھال سے بنی ہوئی ہے دن کو اس چادر پر اونٹ کو چارہ دیا جاتا ہے اور ہم اس چادر پر سوتے ہیں البتہ یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی اپنی سیرت اور گفتار میں حضرت علی ؑ اور جناب سیدہ کی طرح ہوجائے لیکن خواتین کو چاہیئے کہ مکان ، زمان اور اپنی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے سادہ زندگی کو شعار قرار دیں تاکہ ان کی سیرت سے جناب سیدہ زہراء س کی سیرت کی خوشبو آسکے ، ایک دن رسول خدا ﷺ حضرت فاطمہ زہراء کے گھر تشریف لے آئے تو دیکھا کہ جناب سیدہ س زمیں پر بیٹھی ہیں اورایک ہاتھ سے بچے کو گود میں اٹھا کر دودھ پلا رہی ہیں ، جناب سیدہ س کی سادہ زندگی دیکھ کر رسول خدا ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اور فرمایا "یا بنتاہ تعجلی مرارۃ الدنیا بحلاوۃ الآخرۃ "(5) "اے میری بیٹی دنیا کی مشکلات کے مقابلہ میں آخرت کی بہترین اور شیر ین زندگی کو یاد کیجیئے اور مشکلات برداشت کیجیئے ” جناب سیدہ زہراء س نے عرض خدمت کیا کہ یا رسول اللہ الحمد اللہ علی نعمائہ وآلائہ(6) "اے رسول اللہ، اللہ تعالی کا شکر ہے تمام نعمات پر جو اس ذات پاک نے عطا کی ہیں۔
عفت حیاء ،حجاب کی حفاظت اور نا محرم سے دوری:
سب سے بنیادی اہم نکتہ اسلامی تعلیمات میں یہ ہے کہ ایک مسلم خاتون کو پاک دامن اوربا حجاب ہونا چاہیئے ،ایک دن ایک نابینا شخص نے جناب امیر ؑ کے گھر داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو جناب سیدہ س نے پہلے اپنا حجاب مکمل کیا جبکہ رسول خدا ص بھی موجود تھے چنانچہ آپ ﷺ نے سوال کیا کہ وہ نابینا شخص ہے آپ کو دیکھ نہیں سکتا پھر کیوں آپ نے اس سے کامل حجاب کیا ؟ جناب سیدہ نے جواب دیا "ان لم یکن یرانی فانی اراہ وھو یشم الریح "(7) اگر وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا میں تو اسے دیکھ سکتی ہوں اور وہ میری بوء محسوس کر سکتا ہے ” اس وقت رسول اکرم ﷺنے فرمایا ” اشھد انک بضعۃ منی ” میں گواہی دیتا ہوں کہ تم میرے جگر کا ٹکڑا ہو ” مستورات کو نا محرم سے دور رہنا چاہیئے کیونکہ نامحرم کا اختلاط فتنہ اور معاشرہ کی خرابی کا سبب ہے معاشرہ کا اخلاق اور امن تباہ ہوجاتا ہے ،جیسا کہ رسول اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ با عدو بین انفاس النساء و انفاس الرجال(8) "نا محرم مرد اور عورتوں کے درمیان دوری اور فاصلہ ہونا چاہیئے ” ہر عورت کو اپنی زندگی میں حجاب کو ایک قیمتی ہیرے اور جوہر جیسی اہمیت دینا چاہیئے جیسا کہ جناب سیدہ کا ارشا د ہے کہ”الا یرین الرجال ولا یراھن الرجال "(9) بہترین عمل کسی عورت کے لئے یہ ہے کہ نہ وہ کسی مرد (نا محرم) کو دیکھے اور نہ ہی کوئی مرد (نامحرم)اسے دیکھے "واجب حجاب کی مقدار چہرہ اور ہاتھوں کے علاوہ پورے بدن کو چھپانا ہے لیکن جناب سیدہ زہراء س کے نزدیک حجاب یہ ہے کہ بدن کا حجم بھی ظاہر نہ ہو لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ دور حاضر میں خواتین کا لباس بہت ہی نا مناسب ہوتا جا رہا ہے۔
اسماء بنت عمیس فرماتی ہیں کہ وہ جناب سیدہ زہراء س کے زندگی کے آخری ایام میں ان کے ساتھ تھی تو ایک دن جناب سیدہ زہراء نے جنازہ کے اٹھانے کی بات ذکر کی اور فرمایا کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میرا جنازہ کھلے تابوت میں اٹھایا جائے اور میرے بدن کا حجم ظاہر ہو ۔ میرے جنازہ کو ایسے تابوت میں اٹھایا جائے کہ میرےبدن کا حجم ظاہر نہ ہو۔
حضرت زہراء س نے اسماء کے سامنے اپنی وصیت پہ اکتفاء نہیں کی بلکہ جناب امیر ؑ کو اس طرح وصیت کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ ” اوصک یا ابن عم ان نتخدلی نعشاًفقد رایت الملائکۃ صوروا صورتہ” اے میرے چچا کے بیٹے میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میرے لئے ایسا تابوت ( مکمل جسم کو ڈھانپنے والا ) بنایا جائے جو ملائکہ نے مجھے دکھایا ہے۔
اسماء کہتی ہیں کہ میں نے حضرت زہراء س سے ذکر کیا کہ حبشہ میں ایسا تابوت بنایا جاتا ہے جس سے میت کا بدن ظاہر نہیں ہوتا اور میں نے نمونہ کے طور پر ایک تابوت بنا کر دکھایا ۔جناب سیدہ زہراء س خوش ہوئیں اور فرمایا: "اصنعی لی مثلہ استرینی سترک اللہ من النار "(10) میرے لئے بھی ایسا تابوت تیار کر اور میرے جنازہ کو اس طرح کے تابوت میں رکھا جائے ۔
شوہر کی فرمانبرداری کرنا اور تواضع کے ساتھ پیش آنا :
اگر کوئی عورت یہ چاہتی ہے کہ اس کا گھر پر امن رہے اور بچے بہترین تربیت حاصل کریں اور شوہر کے ساتھ بہترین تعلقات بھی قائم رہیں تو اس کو چاہیئے کہ اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرے ہر بات پر اس کا مقابلہ نہ کرے ہر مسئلہ کو متنازعہ نہ بنائے اور شوہر کے ساتھ نرم لہجہ تواضع اور انکساری کا اظہار کرے۔
جنا ب سیدہ فاطمۃالزہراء س کی تواضع کا عالم یہ تھا کہ واقعہ سقیفہ اور گھر پر حملہ جیسے تکلیف دہ واقعات کے بعد جب جناب امیر ؑ نے جناب سیدہ س سے فرمایا کہ فلاں ،فلاں ملاقات کی اجازت طلب کر رہے ہیں تو آپ نے فرمایا: "البیت بیتک والحرۃ زوجتک افعل ما تشاء "(11) یہ آپکا گھر ہےاور میں آپ کی زوجہ ہوں آپ جس طرح چاہیں کریں "۔
مہمان نوازی:
ایک مومنہ خاتون کو جب یہ خبر ملے کہ آج اس کے ہاں کوئی مہمان آرہے ہیں تو یہ خبر سن کر اس کو خوش ہونا چاہیئے کیونکہ مہمان نوازی کی صفت کوانسانی معاشرہ خصوصاً اسلام کی اہم تعلیمات میں شمار کیا جاتا ہے اور اسی صفت کا بہترین درس جنا ب سیدہ کی سیرت سے ہم حاصل کر سکتے ہیں۔
ایک دن امیر المومنین ؑ کچھ مہمان اپنے ساتھ گھر لے کر آئے اور جناب سیدہ سے پوچھا کہ گھر میں کھانا ہو گا تاکہ مہمان کو کھلایا جائے جناب سیدہ س نے فرمایا "ما عندنا الا قوت الصبیہ ولکنا نؤثر بہ ضیغا "(12) ہمارے پاس آج ایک چھوٹی بچی کے کھانے کی مقدار کے برابر کھانا ہے لیکن آج ہم قربانی دیں گے اور یہ غذا مہمان کو دیکر خود بھوک برداشت کریں گے "۔
فرمائش اور شوہر کی شکایات سے اجتناب :
بہترین زوجہ کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ حد سے زیادہ خواہشات اور فرمائش سے اجتناب کرے ،مشکلات پر صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرے ہر ایک شخص سے اپنے شوہر کی شکایات نہ کرے اور یہی درس جناب سیدہ زہراء کی سیرت سے ہمیں ملتا ہے۔
ایک دن گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا جناب امیر ؑنے جناب سیدہ س سے پوچھا کہ اے زہراء کھانے کے لئے کچھ مل جائے گا جناب سیدہ س نے جواب دیا کہ اس خدا کی قسم جس ذات نے آپ کے مقام اور منزلت کو بلند کیا تین دن سے کھانے کا سامان کم ہے جو تھوڑا بہت تھا آپ کو دیا ہے اور میں نے بھوک برداشت کی ہے ۔جناب امیر ؑنے فرمایا کہ آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا جناب سیدہ زہراء نے جواب دیا " کان رسول اللہ نہانی ان اسالک شیئاًفقال لا تسالی ابن عمک شیئا ان جاءک بشئ عفواً و الا فلا تسالیہ”(13) رسول خدا ﷺ نے مجھے آپ سے کوئی چیز طلب کرنے سے روکا تھا اور فرمایا تھا کہ اپنے چچا کے بیٹے سے کوئی چیز طلب نہ کرنا اگر خود سے کوئی لیکر آئے تو قبول کیجیئے گا فرمائش نہ کیجیئے گا ۔
گھر کے کاموں کی تقسیم بندی :
گھر کے نظام کو منظم اور بہتر کر نے کے لئے ضروری ہے کہ گھر کے کاموں کو گھر کے افراد آپس میں تقسیم کریں تاکہ ہر شخص اپنی ذمہ داری کو صحیح طریقہ سے انجام دے سکے خصوصاً شوہر اور زوجہ کو تقسیم کار کرنا چاہیئے۔
روایات میں ذکر ہوا ہے کہ ایک دن جناب امیر ؑ اور جناب سیدہ س رسول اللہ کی خدمت میں پیش ہوئے اور رہنمائی کی گزارش کی تو رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ اے زہراء س گھر کے کام تمہارے حوالے اور باہر کے کام علی کے حوالے "یہ بہترین قانون حاصل کرنے کے بعد جناب سیدہ زہراء نے خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ " فلا یعلم ما داخلنی من السرور الا اللہ باکفائی رسول اللہ تحمل رقاب الرجال "(14) اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ میں اس تقسیم کار پر کتنی خوش ہوں کہ رسول اللہ نے مجھے ان کاموں سے منع فرمایا جو کام مرد حضرات کےلئے مختص ہیں۔
جناب سیدہ س اپنی کنیزوں تک کو بھی مسلسل کام نہیں کرنے دیتی تھیں اور اپنے اور ان کے درمیان کاموں کو تقسیم فرماتی تھیں۔
حضرت سلمان فارسی ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے فاطمہ زہراء کو دیکھا کہ اپنے ہاتھوں سے چکی چلا رہی ہیں اور گندم پیس رہی ہیں ،میں نے سلام کرنے کے بعد عرض کیا کہ اے دختر رسول خدا خود کو زحمت کیوں دے رہی ہیں جبکہ آپ کی کنیز جناب فضہ گھر میں موجود ہیں تو یہ کام ان کے حوالے کریں جناب سیدہ زہراء نے ارشاد فرمایا کہ " اوصانی رسول اللہ ان تکون الخدمۃ لھا یوماً و لی یوماًفکان امس یوم خدمتھا و الیوم یوم خدمتی "(15) رسول اللہ ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ آپ گھر کے کام فضہ کے ساتھ تقسیم کریں ایک روز وہ کام کرے گی اور دوسرے دن آپ کام کیجیئے گا ،کل اس کی باری تھی اور آج میری باری ہے
نتیجۃالبحث:
جناب سیدہ زہراء کی سیرت اور گفتار کی روشنی میں بہترین عورت وہ ہے جو با حجاب ، پاکدامن ،قناعت گذار ،شکر گذار ،مشکلات پر صبر اور استقامت کرنے والی شوہر کی اطاعت گذار ، گھر کے کاموں کے علاوہ تقسیم بندی کرنے والی اور مہمان نواز ہو۔ ان تمام خصوصیات سے مزین ہو کر ہی ایک خاتون اپنے گھر کے نظام کو بہتر ،پر امن بنا سکتی اور اپنی اولاد کی بہترین تربیت کر سکتی ہے ۔جس کے نتیجے میں ایک بہترین معاشرہ اسلامی تشکیل پا سکتا ہے اور اگر ایک خاندان کی صحیح طریقہ کے مطابق تربیت ہو جائے تو اس کی برکات سے پورا معاشرہ مستفید ہوتا ہے جیسا کہ جناب زہراء س نے اپنی اولاد کی تربیت کی ، جن کی برکات کے سبب معاشرہ میں حق اور باطل میں فرق پیدا کرنے کی قوت پیدا ہوئی ۔
منابع و مآخذ
1) قمی ، شیخ عباس ، مفاتیح الجنان ،آخر مفاتیح ، ملحقات و باقیات
2) الشیخ جعفر حسن ،جامع الاخلاق الفاطمیۃ ،الطبعۃ الاولیٰ 210ع،مرکز الدراسات الاسلامیۃ لفقہ اھل البیت
3) مجلسی ، علامہ محمد باقر ،بحار الانوار ، ادار احیاء التراث ،ج۱،ص 92
4) مجلسی ، علامہ محمد باقر ،بحار الانوار ،ج 8،ص 303،حدیث61
5) الشیخ الطبرسی ، مکارم الاخلاق ، ص117المکتبۃ الشیعہ Online library
6) مجلسی ، علامہ محمد باقر ،بحار الانوار 43،ص 86
7) مجلسی ، علامہ محمد باقر ،بحار الانوار، ج 43، ص91، روایت16
8) عمر و بن جاحظ ، المحاسن والاضداد ، مقدمہ ابو محلم ، علی ج 1,ص8،249بیروت دار مکتبہ الھلال ، 2002 ھ
9) العاملی ، محمد بن حسن الحرِ ِ،وسائل الشیعہ ، ج 20 ،ص ,67المکتبۃ الشیعہ ، ONLINE LIBRRY
10) کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ ؑ ، االاربلی ابو الحسن علی بن عیسیٰ ابی الفتح ، الطباعۃ و النشر للمجمع العالمی لاھل البیت ؑدار التعارف بیروت 2012ھ،ج 2، ص 262
11) مجلسی ، علامہ محمد باقر ،بحار الانوار، ج 43ص197
12) بحرانی ، السید ہاشم ، حلیۃ الابرار فی احوال محمد و آلہ الاطھار ؑ ، الناشر مؤسۃ المعارف الاسلامیۃ ، ج 2،ص263
13) مجلسی ، علامہ محمد باقر ،بحار الانوار، ج14ص197 ، شو ستری ، نور اللہ بن شریف الد ین، احقاق الحق و ازھاق باطل ، ناشر قم مکتبہ آیۃ اللہ المرعشی العامۃ
14) حمیدی ، ابوالعباس عبداللہ بن جعفر ، قرب الاسناد ، ج 1 ص52 ، جامع الاحاد یث
15) عوالم العلوم ، ج 11 ص 1042 بحرانی عبد اللہ بن نور اللہ جامع الاحاد یث

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button