مناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

حضرت امام علی علیہ السلام قرآن و حدیث کی روشنی میں

امام علی علیہ السلام قرآن کی نظرمیں:
حضرت علی(ع) کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بعد آپ(ع) کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ(ع) کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ(ع) کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں
(تاریخ بغداد، جلد ۶،ص ۲۲۱،صواعق محرقہ ،ص ۲۷۶،نورالابصار ،ص ۷۶،وغیرہ)
جو آپ(ع) کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیں آپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :
۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔
۲۔وہ آیات جو آپ(ع) اور آپ(ع) کے اہل بیت(ع)کی شان میں نازل ہو ئی ہیں۔
۳۔وہ آیات جو آپ(ع) اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں۔
۴۔وہ آیات جو آپ(ع) کی شان اور آپ(ع) کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں
ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :
آپ(ع) کی شان میں نازل ہونے والی آیات:
آپ(ع)کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ہیں :
۱۔اللہ کا ارشاد ہے :”انماانت منذرولکل قوم ھاد“(سورہ رعد، آیت ۷)
”آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہبر ہے “
طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہو ئی تو نبی نے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا: ”انا المنذرولکل قوم ھاد “،اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے علی(ع) کے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:”انت الھادي بک یھتدي المھتدون بعدي“
(تفسیر طبری ،جلد ۱۳،ص ۷۲اور تفسیر رازی میں بھی تقریباً یہی مطلب درج ہے ۔کنز العمال ،جلد ۶،ص ۱۵۷ تفسیر حقائق، ص ۴۲،مستدرک حاکم، جلد ۳، ص ۱۲۹)
”آپ ہا دی ہیں اور میرے بعد ہدایت پانے والے تجھ سے ہدایت پا ئیں گے “
۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے :”وتعیہااذن واعیة“ (سورہ حاقہ، آیت ۱۲)
”تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت بنائیں اور محفوظ رکھنے والے کان سُن لیں“
امیر المو منین حضرت علی(ع) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اسلام نے فرمایا:
”سالتُ رَبِّیْ اَن یَجْعَلَہااذُنُکَ یاعلیُّ،فماسمعتُ مِنْ رسُولِ اللّٰہِ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) شَیْئاًفنَسِیْتُہُ(کنزالعمال ،جلد ۶،ص ۱۰۸)
”میں نے پروردگار عالم سے دعا کی کہ وہ کان تمہارا ہے لہٰذا میں نے رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے جو کچھ سنا ہے اسے کبھی نہیں بھولا“
۳۔خداوند عالم کا فرمان ہے :الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَار ِسِرًّا وَعَلاَنِیَةً اسباب النزول ِ واحدی، ص ۳۲۹،تفسیر طبری، جلد ۲۹،ص ۳۵،تفسیر کشاف، جلد ۴، ص ۶۰،در منثور ،جلد ۸،ص ۲۶۷ فَلَہُمْ اٴَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَخَوْفٌعَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ۔(سورہ بقرہ ،آیت ۲۷۴)
”جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ،دن میں خا مو شی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انہیں نہ کو ئی خوف ہو گا اور نہ حزن و ملال “
امام(ع) کے پاس چار درہم تھے جن میں سے آپ(ع) نے ایک درہم رات میں خرچ کیا ،ایک درہم دن میں ،ایک درہم مخفی طور پر اور ایک درہم علی الاعلان خرچ کیا ۔تو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آپ(ع) سے فرمایا : آپ(ع) نے ایساکیوں کیا ہے ؟مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدہ پروردگار کامستحق بنناچاہتا ہوں اسی لئے میں نے ایسا کیا “اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی
(اسد الغابہ، جلد ۴،ص ۲۵،صواعق المحرقہ، ص ۷۸۔اسباب النزول مولف واحدی، ص ۶۴)
۴۔خدا وند عالم کا ارشاد ہے :إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ھمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ۔ (سورہ بینہ، آیت ۷)
”اور بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیںاور انہوں نے نیک اعمال کئے ہیں ہ بہترین خلائق ہیں “
ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے : ہم نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی(ع) وہاں پر تشریف لائے تو رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا:”وِالَّذِیْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ اِنَّ ھذَا وَشِیْعَتَہُ ھمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ “
”خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں “
اسی موقع پر یہ آیہ کریمہ نازل ہو ئی ،اس کے بعد سے جب بھی مو لائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کہا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ہیں
(در المنثور ”اسی آیت کی تفسیر میں “جلد ۸ ،ص ۳۸۹،تفسیر طبری، جلد ۳۰،ص ۱۷،صواعق المحرقہ ،ص ۹۶)
۵۔خداوند عالم کا فرمان ہے :فَسْاٴَلُوا اٴَھلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ۔(سورہ نحل، آیت ۴۳)
”اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو“
طبری نے جابر جعفی سے نقل کیا ہے :جب یہ آیت نازل ہو ئی تو حضرت علی(ع) نے فرمایا :”ہم اہل ذکر ہیں “
(تفسیر طبری ،جلد ۸ ،ص ۱۴۵)
۶۔خداوند عالم کا فرمان ہے : یَااٴَیُّہَاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا اٴُنزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاللهُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لاَیہْدِي الْقَوْمَ الْکَافِرِین(سورہ مائدہ ،آیت ۶۷)
”اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گو یا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا بیشک اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے“
جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حجة الوداع سے واپس تشریف لا رہے تھے تو غدیر خم کے میدان میں یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اپنے بعد حضرت علی(ع) کواپنا جانشین معین کرنے کا حکم دیا گیا اس وقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کو اپنے بعد اس امت کا خلیفہ و جا نشین معین فرمایااور آپ(ع) نے اپنا مشہور قول ارشاد فرمایا :
”من کنت مولاہ فعلی مولاہ ،اللّہم وال من والاہ،وعادِمَن عاداہ، وانصرمَن نصرہ،واخذُلْ مَنْ خَذَلَہُ“
” جس کا میں مو لا ہوں اس کے یہ علی بھی مو لا ہیں خدا یا جو اسے دو ست رکہے تو اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر “
عمر نے کھڑے ہو کر کہا :مبارک ہو اے علی بن ابی طالب آپ(ع) آج میرے اورہر مومن اور مومنہ کے مولا ہوگئے ہیں ‘‘
(ا سباب النزول، ص ۱۵۰۔تاریخ بغداد، جلد ۸،ص ۲۹۰۔تفسیر رازی، جلد ۴،ص ۴۰۱۔در منثور، جلد ۶،ص ۱۱۷)
۷۔خداوند عالم کا ارشاد ہے : الْیَوْمَ اٴَکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَاٴَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا
(سورہ مائدہ ،آیت ۳)
”آج میں نے تمہارے لئے دین کو کا مل کردیاہے اوراپنی نعمتوں کو تمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے“
یہ آیت ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ سن ہ کواس وقت نازل ہو ئی جب رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے بعد کےلئے حضرت علی(ع) کو خلیفہ معین فرمایااور آنحضرت نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد فرمایا : ”اللّٰہ اکبر علیٰ اِکمالِ الدِّین،وَاِتْمَامِ النِّعْمَةِ،ورضِیَ الرَّبِّ بِرِسَالَتِي وَالْوِلایَةِ لِعَلِيْبنِ اَبِیْ طَالِب“
(دلائل الصدق ،جلد ۲،ص ۱۵۲)
”اللہ سب سے بڑا ہے دین کا مل ہو گیا ،نعمتیں تمام ہو گئیں ،اور پروردگار میری رسالت اور علی بن ابی طالب(ع) کی ولایت سے راضی ہو گیا “
جلیل القدر صحابی جناب ابوذر سے روایت ہے :میں رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خدا کے ساتھ مسجد میں نمازظہر پڑہ رہا تھا تو ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا لیکن کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا تو سائل نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا :خدا یا گواہ رہنا کہ میں نے مسجد رسول میں آکر سوال کیا لیکن مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا ، حضرت علی(ع) نے رکوع کی حالت میں اپنے داہنے ہاتھ کی انگلی سے انگوٹھی اتارنے کا اشارہ کیاسائل نے آگے بڑھ کر نبی(ع) کے سامنے ہاتھ سے انگوٹھی نکال لی ،اس وقت رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اسلام نے فرمایا :خدایا !میرے بھا ئی مو سیٰ(ع) نے تجھ سے یوں سوال کیا : رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي ۔وَیَسِّرْلي اٴَمْرِي۔وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِی۔یَفْقَہُوا قَوْلِي وَاجْعَلْ لِي وَزِیرًامِنْ اٴَہْلِي ہَارُونَ اٴَخي اشْدُدْ بِہِ اٴَزْرِي۔وَاٴَشْرِکْہُ فِي اٴَمْرِی
(سورہ طہ، آیت ۲۵،۳۲)
”خدایا ! میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ،اورمیرے اہل میں سے میرا وزیر قرار دے ،ہارون کو جو میرا بھا ئی بھی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے “تونے قرآن ناطق میں نازل کیا : سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاٴَخِیکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَانًا
(سورہ قصص، آیت ۳۵)
” ہم تمہارے بازؤوں کو تمہارے بہا ئی سے مضبوط کر دیں گے ،اور تمہارے لئے ایسا غلبہ قراردیں گے کہ یہ لوگ تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے “
”خدایا میں تیرا نبی محمد اور تیرا منتخب کردہ ہوں میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ،میرے اہل میں سے علی(ع)کو میرا وزیر قرار دے اور ان کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط کردے ‘‘
جناب ابوذر کا کہنا ہے :خدا کی قسم یہ کلمات ابھی ختم نہیں ہونے پائے تھے کہ جبرئیل خدا کا یہ پیغام لیکر نازل ہوئے ،اے رسول پڑھیے :اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ۔۔۔
(تفسیر رازی ،جلد ۱۲،ص ۲۶،نورالابصار ،ص ۱۷۰،تفسیر طبری، جلد ۶،ص ۱۸۶)
اس روایت نے عام ولایت کو اللہ ،رسول اسلام اور امیر المو منین(ع) میں محصور کر دیا ہے ،آیت میں صیغہ جمع تعظیم و تکریم کے لئے آیا ہے ،جو جملہ اسمیہ کی طرف مضاف ہوا ہے اور اس کولفظ اِنَّما کے ذریعہ محصور کردیا ہے ،حالانکہ ان کے لئے عمومی ولایت کی تا کید کی گئی ہے اور حسان بن ثابت نے اس آیت کے امام(ع) کی شان میں نازل ہونے کو یوں نظم کیا ہے :
مَن ذَابِخَاتِمِہِ تَصَدَّقَ رَاکِعاً
وَاَسَرَّہافِيْ نَفْسِہِ اِسْرارا
(در منثور، جلد ۳،ص ۱۰۶،کشاف، جلد ۱،ص ۶۹۲،خائر العقبیٰ ،ص ۱۰۲،مجمع الزوائد ،جلد ۷،ص ۱۷،کنز العمال، جلد ۷ص ۳۰۵)
”علی(ع) اس ذات کا نام ہے جس نے حالت رکوع میں زکات دی اور یہ صدقہ آپ(ع) نے نہایت مخفیانہ انداز میں دیا“
اہل بیت(ع) کے سلسلہ میں نازل ہونے والی آیات:
قرآن کریم میں اہل بیت(ع) کی شان میں متعدد آیات نازل ہو ئی ہیں جن میں ان کے سید و آقا امیر المو منین(ع) بھی شامل ہیں اُن میں سے بعض آیات یہ ہیں :
۱۔خداوند عالم کا ارشاد ہے : ذَلِکَ الَّذِی یُبَشِّرُاللهُ عِبَادَہُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لاَاٴَسْاٴَلُکُمْ عَلَیْہِ اٴَجْرًاإِلاَّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَنْ یَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَہُ فِیہَاحُسْنًاإِنَّ اللهَ غَفُورٌشَکُورٌ
(سورہ شوریٰ آیت ۲۳)
”یہی وہ فضل عظیم ہے جس کی بشارت پروردگار اپنے بندوں کو دیتا ہے جنہوں نے ایمان اختیار کیا ہے اور نیک اعمال کئے ہیں ،تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کو ئی اجر نہیں چا ہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو اور جو شخص بھی کو ئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کر دیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدر داں ہے “
تمام مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر جن اہل بیت(ع) کی محبت واجب کی ہے ان سے مراد علی(ع) ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام ہیں ،اور آیت میں اقتراف الحسنہ سے مراد اِن ہی کی محبت اور ولایت ہے اور اس سلسلہ میں یہاں پردوسری روایات بھی بیان کریں گے جنہوں نے اس محبت و مودت کی وجہ بیان کی ہے :
ابن عباس سے مروی ہے :جب یہ آیت نازل ہو ئی تو سوال کیا گیا :یارسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ آپ کے وہ قرابتدارکو ن ہیں جن کی آپ نے محبت ہم پر واجب قرار دی ہے؟
آنحضرت نے فرمایا :”علی(ع) ،فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے “
(مجمع الزوائد، جلد ۷، ص ۱۰۳،ذخائر العقبیٰ، ص ۲۵،نور الابصار ،ص ۱۰۱،در المنثور، جلد ۷،ص ۳۴۸)
جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے :ایک اعرابی نے نبی کی خدمت میں آکر عرض کیا :مجھے مسلمان بنا دیجئے تو آپ نے فرمایا :
” تَشْہدُ اَنْ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہُ،وَاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ“
”تم خدا کی وحدانیت اور محمد کی رسالت کی گو اہی دو میں قرابتداروں کی محبت کے علاوہ اور کچھ نہیں چا ہتا “
اعرابی نے عرض کیا :مجھ سے اس کی اجرت طلب کر لیجئے ؟رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا : ”إِلا َّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی“
اعرابی نے کہا :میرے قرابتدار یا آپ کے قرابتدار ؟فرمایا :” میرے قرابتدار “اعرابی نے کہا :
میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کرتا ہوں پس جو آپ اور آپ کے قرابتداروں سے محبت نہ کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے نبی نے فوراً فرمایا :”آمین “
(حلیة الاولیاء، جلد ۳،ص ۱۰۲)
۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے : فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ اٴَبْنَائَنَاوَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَاوَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَاوَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ۔(سورہ آل عمران، آیت ۶۱)
”اےپیغمبر !علم آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پہر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جہوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں “
مفسرین قرآن اور راویان حدیث کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیہ کریمہ اہل بیت ِ نبی کی شان میں نازل ہو ئی ہے ،آیت میں ابناء( بیٹوں) سے مراد امام حسن اور امام حسین عليهما السلام ہیں جوسبط رحمت اور امام ہدایت ہیں ،نساء ”عورتوں “ سے مراد فاطمہ زہرا دختر رسول سیدئہ نساء العالمین ہیں اور انفسنا سے مراد سید عترت امام امیر المو منین(ع) ہیں
(تفسیر رازی، جلد ۲،ص ۶۹۹،تفسیر بیضاوی ،ص ۷۶،تفسیر کشّاف، جلد ۱،ص۴۹،تفسیر روح البیان، جلد ۱،ص ۴۵۷،تفسیر جلالین، جلد ۱،ص ۳۵صحیح مسلم، جلد ۲،ص ۴۷صحیح ترمذی ،جلد ۲،ص ۱۶۶سنن بہیقی ،جلد ۷،ص ۶۳،مسند احمد بن حنبل، جلد ۱،ص ۱۸۵مصابیح السنّة، بغوی، جلد ۲،ص ۲۰۱سیر اعلام النبلاء، جلد ۳،ص ۱۹۳)
۳۔خداوند عالم کا ارشاد ہے :ھلْ اَتیٰ عَلَی الاِنْسَانِ ۔ کامل سورہ
مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ سورہ اہل بیت ِنبوت کی شان میں نازل ہوا ہے
(تفسیر رازی، جلد ۱۰، ص ۳۴۳،اسباب النزول ، واحدی ص۱۳۳، روح البیان ،جلد ۶،ص ۵۴۶،ینابیع المودة ،جلد ۱،ص ۹۳،ریاض النضرہ ،جلد ۲،ص ۲۲۷،امتاع الاسماع ،ص ۵۰۲)
۴۔خداوند عالم کا فرمان ہے :إِنَّمَایُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا
(سورہ احزاب، آیت ۳۳)
”بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکہے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے “
مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت پانچوں اصحاب کساء کی شان میں نازل ہو ئی ہے
(تفسیررازی، جلد ۶، ص ۷۸۳،صحیح مسلم، جلد ۲،ص ۳۳۱،الخصائص الکبریٰ ،جلد ۲،ص ۲۶۴،ریاض النضرہ ،جلد ۲،ص ۱۸۸،تفسیر ابن جریر، جلد ۲۲،ص ۵،مسند احمد بن حنبل، جلد ۴،ص ۱۰۷،سنن بیہقی ،جلد ۲،ص ۱۵۰،مشکل الآثار ،جلد ۱،ص ۳۳۴،خصائص النسائی ص ۳۳)
ان میں سرکار دو عالم رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ،ان کے جا نشین امام امیر المو منین(ع) ،جگر گوشہ رسول سیدہ نسا ء العالمین جن کے راضی ہونے سے خدا راضی ہوتا ہے اور جن کے غضب کرنے سے خدا غضب کرتا ہے ، ان کے دونوں پھول حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں ،اور اس فضیلت میں نہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے خاندان میں سے اور نہ ہی بڑے بڑے اصحاب کے خاندان میں سے ان کا کو ئی شریک ہے۔ اس بات کی صحاح کی کچھ روایات بھی تا ئید کر تی ہیں جن میں سے کچھ روایات مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔ام المو منین ام سلمہ کہتی ہیں :یہ آیت میرے گھر میں نازل ہو ئی جبکہ اس میں فاطمہ ،حسن، حسین اور علی علیھم السلام مو جود تھے ،آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اُن پر کساء یما نی اڑھاکر فرمایا :اللَّہمَّ اَہلُ بَیْتِیْ فَاذْہبْ عنْہمْ الرِّجْسَ وَطَہرْہمْ تَطْہِیرًا“
”خدایا !یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے رجس کو دور رکہ اور ان کو اس طرح پاک رکہ جو پاکیزہ رکہنے کا حق ہے “آپ نے اس جملہ کی اپنی زبان مبارک سے کئی مرتبہ تکرار فر ما ئی ام سلمہ سنتی اور دیکھتی رہیں،ام سلمہ نے عرض کیا :یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کیا میں بھی آپ کے ساتھ چادر میں آسکتی ہوں ؟اور آپ نے چادر میں داخل ہونے کےلئے چا در اٹہائی تو رسول نے چادر کھینچ لی اور فر مایا : ”اِنَّکِ عَلیٰ خَیْر“”تم خیر پر ہو “
(مستدرک حاکم، جلد ۲،ص ۴۱۶۔اسدالغابہ، جلد ۵،ص ۵۲۱)
۲۔ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو سات مہینے تک ہر نماز کے وقت پانچ مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب(ع) کے دروازے پر آکر یہ فرماتے سناہے :”السَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ یہ بات شایان ذکر ہے کہ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں۱۵،روایات میں مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے کہ یہ آیت اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہو ئی ہے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ بَرَکَاتُہُ اَہلَ الْبَیْتِ:إِنَّمَایُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ اٴَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا،الصَّلَاةُ یَرْحَمُکُمُ اللّٰہُ“
” اے اہل بیت(ع)تم پر سلام اور اللہ کی رحمت وبرکت ہو !”بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت(ع) کہ تم سے ہر برائی کو دور رکہے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“،نماز کا وقت ہے اللہ تم پر رحم کرے“آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہر روز پانچ مرتبہ یہی فرماتے‘‘
(در منثور ،جلد ۵،ص ۱۱۹)
۳۔ابو برزہ سے روایت ہے :میں نے سات مہینے تک رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ہمراہ نماز ادا کی ہے جب بھی آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)بیت الشرف سے باہر تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے دروازے پر جاتے اور فرماتے : ”السَّلامُ عَلَیْکُمْ : إِنَّمَایُرِیدُ اللهُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمْ الرِّجسَ اٴَھلَ الْبَیْتِ وَ یُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیرًا
(ذخائر عقبیٰ ،ص ۲۴)
”تم پر سلام ہو:”بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے “
بیشک رسول اللہ کے اس فرمان کا مطلب امت کی ہدایت اور اُن اہل بیت(ع) کے اتباع کوواجب قرار دینا ہے جو امت کو ان کی دنیوی اور اُخروی زندگی میں اُن کے راستہ میں نفع پہنچانے کےلئے ان کی ہدایت کرتے ہیں
امام اور نیک اصحاب کے بارے میں نازل ہو نے والی آیات:
قرآن کریم کی کچھ آیات امام(ع) اور اسلام کے کچھ بزرگ افراد اور نیک و صالح اصحاب کے سلسلہ میں نازل ہو ئی ہیں ،جن میں سے بعض آیات یہ ہیں :
۱۔خداوند عالم کا ارشاد ہے :وَعَلَی الْاٴَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلًّابِسِیمَاھم (سورہ اعراف، آیت ۴۶)
”اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے“
ابن عباس سے روایت ہے :اعراف صراط کی وہ بلند جگہ ہے جس پر عباس ،حمزہ ،علی بن ابی طالب(ع) اور جعفر طیار ذو الجناحین کھڑے ہوں گے جو اپنے محبوں کو ان کے چہروں کی نورانیت اور اپنے دشمنوں کو اُن کے چہروں کی تاریکی کی بنا پر پہچان لیں گے
(صواعق محرقہ، ص ۱۰۱)
۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے : مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوامَا عَاہَدُوا اللهَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَہُ وَمِنْہُمْ مَنْ یَنْتَظِرُوَمَابَدَّلُوا تَبْدِیلًا ۔(سورہ احزاب ،آیت ۲۳)
”مو منین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکہایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کر چکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور اُن لوگوں نے اپنی بات میں کو ئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے“
اس آیت کے متعلق امیر المو منین(ع) سے اس وقت سوال کیا گیا جب آپ منبر پر تشریف فر ما تھے تو آپ(ع) نے فرمایا:”خدایا ! بخش دے یہ آیت میرے ، میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھا ئی عبیدہ بن حارث کے بارے میں نازل ہو ئی ہے ،عبیدہ جنگ بدر کے دن شہید ہوئے ،حمزہ احد کے معرکہ میں شہید کر دئے گئے لیکن میں اس شقی کے انتظار میں ہوں جو میری اس ”ڈاڑھی اور سر مبارک کوخون سے رنگین کر دے گا “
(صواعق محرقہ ،ص ۸۰،نورالابصار، ص ۸۰)
آپ(ع) کے حق اور مخالفین کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات:
قرآن کریم کی کچھ آیات آپ(ع) کے حق اور اُن مخالفین کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں جنہوں نے آپ(ع) کے سلسلہ میں مروی روایات اور فضائل سے چشم پوشی کی ہے :
۱۔خداوند عالم کا فرمان ہے : اٴَجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِر
(سورہ برائت ،آیت ۱۹)
”کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبا دی کو اس جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اورآخرت پر ایمان رکھتا ہے اور راہ خدا میں جہاد کرتا ہے ہر گز یہ دونوں اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کر تا ہے “
یہ آیت امیر المو منین(ع) کی شان میں اس وقت نازل ہو ئی جب عباس اور طلحہ بن شیبہ بڑے فخر کے ساتھ یہ بیان کر رہے تھے ۔طلحہ نے کہا :میں بیت اللہ الحرام کا مالک ہوں ،میرے ہی پاس اس کی کنجی ہے اور میرے ہی پاس اس کے کپڑے ہیں ۔عباس نے کہا :میں اس کا سقّہ اور اس کے امور کے سلسلہ میں قیام کرنے والا ہوں ۔امام(ع) نے فرمایا :”ماادری ماتقولون ؟لقدْ صلّیتُ الیٰ القِبْلَةِ سِتَّةَ اَشْہرقَبْلَ النَّاسِ،واَنا صاحب الجہاد “
”مجھے نہیں معلوم تم کیا کہہ رہے ہو ؟میں نے لوگوں سے چہ مہینے پہلے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑہی ہے اور میں صاحب جہاد ہو ں“اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی
(تفسیر طبری ،جلد ۱۰،ص ۶۸،تفسیر رازی، جلد ۱۶،ص ۱۱،در منثور،جلد ۴،ص ۱۴۶،اسباب النزول، مولف واحدی ،ص ۱۸۲)
۲۔خدا وند عالم کا فرمان ہے :اٴَفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًاکَمَنْ کَانَ فَاسِقًالَایَسْتَوُون۔(سورہ سجدہ، آیت ۱۸)
”کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہو جائے گاجو فاسق ہے ہر گز نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے “
یہ آیت امیر المو منین(ع) اور ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہو ئی ہے جب وہ اس نے امام(ع) پر فخر و مباہات کرتے ہوئے کہا :میں آپ(ع) سے زیادہ خوش بیان ہوں ،بہترین جنگجو ہوں،اور آپ سے بہتر دشمنوں کو پسپا کر نے والا ہوں “اس وقت امام(ع)نے اس سے فرمایا : ” اسکُتْ، فَاِنَّکَ فَاسِقٌ “ ”خاموش رہ بیشک تو فاسق ہے “،اس وقت دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
(تفسیر طبری ،جلد ۲۱، ص ۶۸،اسباب نزول واحدی ،ص ۲۶۳،تاریخ بغداد، جلد ۱۳،ص ۳۲۱،ریاض النضرہ ،جلد ۲، ص ۲۰۶)
امام(ع) روایات کی رو شنی میں:
صحاح اور سنن جیسے مصادر امام کے متعلق نبی سے مروی روایات سے پُر ہیں جو اسلامی عدالت کے قائد و رہبر امام کے فضائل کا قصیدہ پڑہتی ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کے مقام کو بلند کرتی ہیں
احادیث کی کثرت اور راویوں کے درمیان اُ ن کی شہرت میں غور کرنے والا پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اس بلند مقصد سے آگاہ ہو سکتا ہے جو امام(ع)کی مر کزیت اور ان کے خلیفہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ نبوت ہمیشہ کے لئے باقی رہے اور وہ امت کی مشکلات حل کر سکے ،اُ ن کے امور کی اصلاح کر سکے اور اُن کو ایسے راستہ پر چلائے جس میں کسی طرح کی گمرا ہی کا امکان نہ ہو نیز امت مسلمہ پوری دنیا کے لئے نمونہ عمل بن سکے
بہر حال جب ہم امام کی فضیلت کے سلسلہ میں روایات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم یہ دیکہتے ہیں کہ روایات کا ایک گروہ آپ کی ذات سے مخصوص ہے ،روایات کا دوسرا طائفہ اہل بیت(ع) کے فضائل پر مشتمل ہے جس میں لازمی طور آپ بھی شامل ہیں چونکہ آپ(ع) عترت کے سید و آقا ہیں اور ان کے علم کے منارے ہیں ہم اس سلسلہ میں ذیل میں چند روایات پیش کرتے ہیں :
پہلا دستہ:
یہ روایات تعظیم و تکریم کی متعددصورتوں پر مشتمل ہیں اور امام فضائل کا قصیدہ پڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں،ملاحظہ کیجئے:
نبی کے نزدیک آپ(ع) کا مقام و مرتبہ:
امام(ع) لوگوں میں سب سے زیادہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے نزدیک تھے ،ان میں سب سے زیادہ رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے قربت رکھتے تھے ،آپ ابو سبطین ،رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے شہر علم کا دروازہ ،آپ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے سب سے زیادہ اخلاص رکھتے تھے ،احادیث کی ایک بڑی تعداد رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نقل کی گئی ہے جو آپ(ع) کی محبت و مودت کی گہرا ئی پر دلالت کرتی ہے اس میں سے کچھ احادیث مندرجہ ذیل ہیں :
۱۔امام نفس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
آیہ مباہلہ میں صاف طور پر یہ بات واضح ہے کہ بیشک امام نفس نبی ہیں ،ہم گذشتہ بحثوں میں اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں اور یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے خود یہ اعلان فرمادیا تھا کہ امام(ع) ان کے نفس ہیں منجملہ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ کیجئے :
عثمان کے سوتیلے بھا ئی ولید بن عقبہ نے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو خبر دی کہ بنی ولیعہ اسلام سے مرتد ہو گیا ہے ،تو نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے غضبناک ہو کر فرمایا :”لَیَنْتَہیَنَّ بَنُوْوَلِیْعَةَ اَوْلَاَبْعَثَنَّ اِلَیْہمْ رَجُلاً کَنَفْسِیْ،یَقْتُلُ مَقَاتِلَہمْ وَیَسْبِیْ ذَرَارِیْہمْ وَہوَ ہٰذا“،”بنو ولیعہ میرے پاس آتے یا میں ان کی طرف اپنے جیسا ایک شخص بھیجوں جو ان کے جنگجوؤں کوقتل کرے اور ان کے اسراء کولے کر آئے اور وہ یہ ہے“،اس کے بعد امام(ع) کے کندھے پر اپنا دست مبارک رکھا ‘‘
(جمع الزوائد، جلد ۷،ص ۱۱۰،ولید اپنی بات کے ذریعہ بنی ولیعہ کی تردید کر رہا تھا اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی : یَااٴَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَائَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا اٴَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ۔۔۔سورہ حجرات، آیت ۶۔”ایمان والو اگر کو ئی فاسق کو ئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک نا واقفیت میں پہنچ جاؤ )
عمرو بن عاص سے روایت ہے :جب میں غزوئہ ذات سلاسل سے واپس آیا تو میں یہ گمان کر تا تھا کہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ،میں نے عرض کیا :یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) آپ(ع) کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کو ن ہے ؟آپ نے چندلوگوں کاتذکرہ کیا۔میں نے عرض کیا: یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) علی کہاں ہیں ؟تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا :”اِنَّ ہٰذایَسْاَلُنِيْ عن النفسِ“
(کنز العمال، جلد ۶،ص ۴۰۰)
”بیشک یہ میرے نفس کے بارے میں سوال کر رہے ہیں “
۲۔امام(ع)نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بھا ئی:
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اصحاب کے سامنے اعلان فرمایا کہ امام علی(ع) آپ کے بہا ئی ہیں ،اس سلسلہ میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں چند روایات پیش کر تے ہیں :
ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی ہے :رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اصحاب کے ما بین صیغہ اخوّت پڑہا ،تو علی(ع) کی آنکہوں میں آنسو آگئے اور آپ(ع) نے عرض کیا :یارسو ل (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ آپ(ع) نے اصحاب کے درمیان صیغہ اخوت پڑہاہے لیکن میرے اور کسی اور شخص کے درمیان صیغہ اخوت نہیں پڑہا ہے؟تورسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی(ع) سے فرمایا:اَنْتَ اَخِيْ فَيْ الدَّنْیَاوَالآخِرَةِ “
(صحیح ترمذی، جلد ۲،ص ۲۹۹،مستدرک حاکم، جلد ۳،ص ۱۴)
”آپ(ع) میرے دنیا اور آخرت میں بھا ئی ہیں “
امام(ع) کے لئے نبی کا صرف اس دنیامیں بھا ئی ہونا کا فی نہیں ہے بلکہ اس کا تسلسل تو آخرت تک ہے جس کی کو ئی حد نہیں ہے
انس بن مالک سے روایت ہے : رسول اسلا م(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ دینے کے بعد ارشاد فرمایا :”علی بن ابی طالب(ع) کہاں ہیں ؟“،تو فوراً علی(ع) یوں گویا ہوئے :میں یہاں ہوںیارسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ، رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ نے علی(ع) کو اپنے سینہ سے لگایا اور آپ(ع) کی دونوں آنکہوں کے درمیان کی جگہ کا بوسہ لیا اور بلند آواز میں فرمایا :”اے مسلمانو!یہ میرے بہا ئی ،چچا زاد بھائی اور میرے داماد ہیں ،یہ میرا گوشت اور خون ہیں ،یہ ابوسبطین حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں“
(ذخائر العقبیٰ ،ص ۹۲)
ابن عمر سے روایت ہے :میں نے حجة الوداع میں اس وقت رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو یہ فرماتے سنا ہے: جب آپ ناقہ پر سوار تھے ،تو آپ(ع) نے علی(ع) کے کاندہے پر ہاتہ رکہ کر یہ فرمایا :”خدایا گواہ رہنا ۔ خدایا میں نے پہنچادیا کہ یہ میرے بھائی ،چچا زاد بھا ئی ،میرے داماد اورمیرے دونوں فرزندوں کے باپ ہیں۔خدایا ! جو ان سے دشمنی کرے اس کواوندھے منہ جہنم میں ڈال دے “
(کنز العمال ،جلد ۳،ص ۶۱)
نبی اور علی(ع)ایک شجرہ طیبہ سے ہیں:
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے یہ اعلان فرمایا کہ میں اور علی(ع) ایک شجرہ سے ہیں، اس سلسلہ میں متعدد احادیث بیان ہو ئی ہیں ہم ذیل میں بعض احادیث پیش کرتے ہیں :
جابر بن عبداللہ سے روایت ہے :میں نے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو علی(ع) سے یہ فرماتے سنا ہے : ”اے علی لوگ مختلف شجروں سے ہیں اور میں اور تم ایک ہی شجرہ سے ہیںاس کے بعد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس آیت کی تلاوت فرما ئی :وَجَنَّاتٌ مِنْ اٴَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُصِنْوَانٍ یُسْقَی بِمَاءٍ وَاحِد
(سورہ رعد ،آیت ۴)
”اور انگور کے باغات ہیں اور زراعت ہے اور کہجوریں ہیں جن میں بعض دو شاخ کی ہیں اور بعض ایک شاخ کی ہیں اور سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں“
رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ کا فرمان ہے : ”میں اور علی(ع)ایک ہی شجرہ سے ہیں اور لوگ مختلف شجروں سے ہیں “
(کنز العمال، جلد ۶،ص ۱۵۴)
یہ شجرہ کتنا بلند و بالا ہے اس درخت کا کیا کہنا جس سے سرور کا ئنات انسانی تہذیب کے قائدنبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے شہر علم کا دروازہ امام امیر المو منین(ع) وجود میں آئے یہ وہ مبارک شجرہ ہے جس کی جڑ زمین میں ہے اور اس کی شاخ آسمان میں ہے یہ وہ درخت ہے جس کی ہر نسل نے ہر دور میں لوگوں کو فائدہ پہنچایا ہے
۴۔امام نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے وزیر:
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے متعدد احادیث میں اس بات کی تاکید فر ما ئی ہے کہ امام میرے وزیر ہیں
اسماء بنت عمیس سے روایت ہے کہ میں نے نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو یہ فرماتے سنا ہے :خدایا ! میں وہی کہہ رہا ہوں جو میرے بھا ئی مو سیٰ نے کہا تھا : ”خدایا ! میرے اہل میںسے میرا وزیر قرار دے ،علی(ع)کو جو میرا بہا ئی بھی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے ،تاکہ ہم تیری بہت زیادہ تسبیح کرسکیں ،تیرا بہت زیادہ ذکر کرسکیں ، یقینا تو ہمارے حالات سے بہتر با خبر ہے “
( الریاض النضرہ ،جلد ۲،ص ۱۶۳)
۵۔امام(ع) نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے خلیفہ:
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے دعوت اسلام کے آغاز ہی میں یہ اعلان فرمادیا تھا کہ میرے بعد حضرت علی(ع) میرے خلیفہ ہیں ،یہ اعلان اس وقت کیا تھا جب قریش کے خاندان اسلام سے سختی سے پیش آرہے تھے ،اور آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنی دعوت کے اختتام میں قریش سے فرمایا:”اب یہ (یعنی علی(ع) ) تمہارے درمیان میرے بہا ئی ،وصی اور خلیفہ ہیں ،ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو “
(تاریخ طبری، جلد ۲،ص ۱۲۷،تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،ص ۲۲،تاریخ ابو الفدا،جلد ۱،ص ۱۱۶،مسند احمد، جلد ۱،ص ۳۳۱،کنزالعمال، جلد ۶،ص ۳۹۹)
رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ نے اپنے بعد امام(ع) کی خلافت کو اسلام کی دعوت سے متصل فرمایا ،اس کے بعد بت پرستی اور شرک کے بارے میں پر رو شنی ڈالی ،مزید یہ کہ اس مطلب کے سلسلہ میں متعدد اخبار و روایات ہیں جن میں نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے بعد امام کی خلافت کا اعلان فرمایاان میں سے ہم کچھ احادیث ذیل میں پیش کررہے ہیں :
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے :”اے علی(ع) !تم میرے بعد اس امت کے خلیفہ ہو “
(مراجعات، ص ۲۰۸)
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے :”علی بن ابی طالب تم میں سب سے پہلے اسلام لائے ،تم میں سب سے زیادہ عالم ہیں اور میرے بعد امام اور خلیفہ ہیں “
(مراجعات ، ص۲۰۹)
۶۔ امام(ع)کی نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے نسبت، ہارون کی مو سیٰ سے نسبت کے مانند ہے:
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے ایک ہی مضمون اور ایک ہی نتیجہ کی متعدد احادیث نقل ہو ئی ہیں کہ آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے علی(ع) سے فرمایا :”تمہاری مجہ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی “اس سلسلہ میں کچھ احادیث ملاحظہ فرما ئیں :
آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کےلئے فرمایا ہے : ”کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کی موسیٰ سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا “
(مسند ابو داؤد، جلد ۱ ،ص ۲۹،حلیة الاولیاء، جلد ۷،ص ۱۹۵،مشکل الآثار، جلد ۲،ص ۳۰۹،مسند احمد بن حنبل، جلد ۱، ص ۱۸۲،تاریخ بغداد، جلد ۱۱،ص ۴۳۲،خصائص النسائی ،ص ۱۶)
سعید بن مسیب نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے انہوں نے اپنے والد سعد سے نقل کیا ہے : رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے علی(ع) کےلئے فرمایا ہے :” تمہاری مجہ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کی موسیٰ سے نسبت تھی مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں آئے گا “،سعید کا کہنا ہے :میں نے بذات خود یہ حدیث بیان کر نا چاہی اور میں نے ان سے ملاقات کی اور وہ حدیث بیان کی جو مجھ سے عامر نے بیان کی تھی اس نے کہا :میں نے سنا ہے ۔میں نے پوچہا :کیا تم نے سنا ہے ؟!اس نے اپنے دونوں کانوں میں انگلیاں دے کر کہا :ہاں ،اگر میں نے یہ بات نہ سنی ہو تو میرے دونوں کان بہرے ہوجائیں “
(اسد الغابہ ،جلد ۴،ص ۲۶،خصائص النسائی ،ص ۱۵،صحیح مسلم ،کتاب فضائل الاصحاب، جلد ۷ص ۱۲۰،سکَکَ(دونوں کاف پر فتحہ) الصمم واستکّت مسامعہ :اذا صمّ)
۷۔امام شہر علم نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دروازہ:
نبی اکر م (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے امام کی عظمت و منزلت کا قصیدہ پڑہتے ہوئے ان کو اپنے شہر علم کا دروازہ قرار دیا ،یہ حدیث متعدد طریقوں سے بیان ہو ئی ہے ،قطعی السند ہے اور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے متعدد مو قعوں پر نقل کی گئی ہے :
جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے :میں نے حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو حدیبیہ کے دن علی کے دست مبارک کو اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے یہ فرماتے سنا ہے :”یہ نیک و صالح افراد کے امیر ، فاسق و فاجر کو قتل کرنے والے ہیں ،جو ان کی مدد کرے اس کی مدد کرنے والے ،جو ان کو رسوا کرے اس کو ذلیل کرنے والے ہیں “آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آواز کھینچ کر فرمایا :”میں شہر علم ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہیں جو گھر میں آنا چاہے اس کو چاہئے کہ وہ دروازے سے آئے “
(تاریخ بغداد، جلد ۲،ص ۳۷۷)
ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کافرمان ہے :” میں شہر علم ہوں اور علی اس شہر کا دروازہ ہیں جو شہرمیں آنا چاہے اس کو چا ہئے کہ وہ دروازے سے آئے “
(کنز العمال ،جلد ۶،ص ۴۰۱)
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ،فرمان ہے :”علی میرے علم کا دروازہ ہیں ،میں جو کچھ امت کےلئے لیکر آیا ہوں اس کو میرے بعد امت تک پہنچانے والے ہیں ،اُن کی محبت ایمان ہے ،ان سے بغض رکھنا نفاق ہے اور اُن کے چہرے پر نظر کرنا رافت ”مہربانی “ ہے “
(کنز العمال ،جلد ۶،ص ۱۵۶،صواعق المحرقہ، ص ۷۳)
بیشک امام شہر علم نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا دروازہ ہیں ، امام سے جو دینی باتیں،احکام شریعت ،محاسن اخلاق اور آداب حسنہ نقل ہوئے ہیں کو امام نے نبی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے حاصل کیا ہے
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے بعد علم کے ایسے سر چشمے چھوڑے ہیں جن کےزریعہ زندگی رونق کے ساتھ آگے بڑھتی ہے ،پیغمبر نے ان کو امام کے سپرد فرمایا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی امت اُن سے سیراب ہو تی رہے لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ قریش کے امام سے بغض و کینہ رکھنے والوں نے اِن نور کے دروازوں کو بند کر دیا ،امت کو ان سے فیضیاب ہونے سے محروم کردیا اور زندگی کی گم گشتہ راہوں میں تنہا چھوڑدیا
۸۔امام(ع)،انبیاء کے مشابہ:
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے اصحاب کے معاشرہ میں فرمایا :”اگر تم آدم کو ان کے علم ،نوح کو ان کے ہم و غم ،ابراہیم کو اُن کے خُلق ،موسیٰ کو اُن کی مناجات ،عیسیٰ کو ان کی سنت اور محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو ان کے اعتدال اور حلم میں دیکہنا چا ہوتو اِن کو دیکھو “جب لوگوں نے ٹکٹکی باندہ کر دیکھا تو وہ امیر المو منین(ع) تھے
شاعر کبیر ابو عبد اللہ مفجع نے اپنے قصیدہ میں امام(ع) کے ماثورہ مناقب کو یوں نظم کیا ہے :
ایّہا اللَّا ئمی لِحُبِّی علِیّاً
قُم ذَمیماً الیٰ الجَحِیْمِ خَزِیّاً
اّ بِخَیْرِ الاَنَام عَرَّضْتَ لَازِلْتَ
مَذُوداً عَنِ الہدیٰ وَ غَوِیّا
اشبِہ الانبیاء طِفلاً وزولاً۔ الزول یعنی جوان۔
وَفطِیماًورَاضِعاً وَغَذِیّاً
کَانَ فِیْ علمہِ کَآدَمَ اِذْ عُلِّمَ
شَر حَ الاسْمَاءِ والمکنِیّا
وَکَنُوحٍ نَجَامِنَ الہلْکِ یَوماً
فِیْ مَسِیْرٍاِذِ اعتَلَاالجودِیّاً
(معجم الادباء، جلد ۱۷،ص ۲۰۰)
”حُبِّ علی(ع) کی خاطر میری ملامت کرنے والے جا ذلت و خواری کے ساتھ دوزخ میں جل جا‘‘
کیا تونے اپنے عمل کے ذریعہ بہترین انسان یعنی علی(ع) پر تشنیع کرنا چا ہی ہے ،خدا کرے کہ تو ہمیشہ ہدایت سے دور رہے
علی(ع) بچپن ،جوا نی ،شیر خوارگی غرض ہر حال میں انبیاء سے مشابہ تھے
علی(ع) علم میں آدم(ع) کے مانند تھے چنانچہ آپ(ع) نے اسماء نیزمخفی امورکی تعلیم دی
آپ(ع) نوح(ع) کی طرح تھے جو کوہ جودی پر پہنچنے سے غرق ہونے سے محفوظ رہے
۹۔ علی(ع) کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے:
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ علی(ع) کی محبت ایمان اور تقویٰ ہے اوراُن سے بغض رکھنا نفاق اور معصیت ہے، اس سلسلہ میں بعض ماثورہ اقوال درج ذیل ہیں :
حضرت علی(ع) سے روایت ہے : ”اس خدا کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا میرے سلسلہ میں نبی امی نے یہ عہد لیا ہے کہ مجھ سے مو من کے علاوہ اور کو ئی محبت نہیں کرے گا اور منافق کے علاوہ اور کو ئی بغض نہیں رکھے گا “
(صحیح ترمذی، جلد ۲، ص ۳۰۱،صحیح ابن ماجہ ، ص ۱۲،تاریخ بغداد، جلد ۲، ص ۲۵۵،حلیة الاولیاء ، جلد ۴، ص ۱۸۵)
مساور حمیری نے اپنی ماں سے روایت کی ہے :وہ ام سلمہ کے پاس گئی تو اُن کو یہ کہتے سنا: رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ، فرمان ہے :علی(ع) سے منافق محبت نہیں کرے گا اور مومن بغض نہیں رکھے گا“
(صحیح ترمذی ، جلد ۲، ص ۲۹۹)
ابن عباس سے روایت ہے : رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کے چہرےکی طرف رُخ کرتے ہوئے فرمایا : مو من کے علاوہ تجھ سے کو ئی محبت نہیں کرے گا ،اور منافق کے علاوہ اور کو ئی بغض نہیں کرے گا ، جس نے تجھ سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی ،جس نے تجھ سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض کیا ،میرا دوست اللہ کا دوست ہے ،میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے اور اس پر وائے ہو جو تجھے میرے بعد غضبناک کرے ‘‘
(مجمع الزوائد ، جلد ۹، ص ۱۳۳)
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کے لئے فرمایا :آپ(ع) کی محبت ایمان ہے ،آپ(ع) سے بغض رکہنا نفاق ہے ،جنت میں سب سے پہلے آپ(ع)سے محبت کرنے والا داخل ہوگا اور دوزخ میںسب سے پہلے آپ سے بغض رکہنے والا داخل ہو گا “
(نور الابصار شبلنجی ، ص ۷۲)
یہ حدیث اصحاب میں مشہور ہو گئی ،اور وہ اسی حدیث کے معیار پر جو علی(ع) سے محبت کرتا تھا اس کو مومن اور جو علی(ع) سے بغض رکھتا تھا اسے منافق کہتے تھے ،جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری کہتے ہیں : ہم منافقین کو اللہ اوراس کے رسول کی تکذیب ،نماز سے رو گردانی اور علی بن ابی طالب(ع) سے بغض و نفاق رکھنے سے پہچان لیا کرتے تھے “
(مستدرک حاکم، جلد ۳، ص ۱۲۹)
صحابی کبیر جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے :ہم منافقین کو علی(ع) سے بغض رکھنے کے علاوہ کسی اور چیز سے نہیں پہچانتے تھے
(استیعاب، جلد ۲، ص ۴۶۴)
دوسرے دستہ کی روایات:
ہم بعض وہ روایات نقل کرتے ہیں جو نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے حضرت علی(ع) کی شان میں منقول ہو ئی ہیں جن کوآپ(ع) کے لئے کرامت شمار کیا جاتا ہے
دار آخرت میں امام(ع) کا مقام:
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے کچھ وہ روایات نقل ہو ئی ہیں جن کو اللہ نے دار آخرت میں علی(ع) کےلئے کرامت شمار کیا ہے ان میں سے بعض روایات درج ذیل ہیں :
۱۔امام(ع) لواء حمد کو اٹھانے والے:
صحاح میں نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے متعدد احادیث نقل ہو ئی ہیں کہ خدا وند عالم قیامت کے دن علی(ع) کو لوائے حمد اٹھانے کا شرف عطا کر ے گا ،یہ ایسا بلند مرتبہ ہے جو آپ(ع) کے علاوہ کسی اور کو نہیں عطا کیا گیا۔ ہم ان میں سے بعض روایات ذیل میں نقل کرتے ہیں :
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کےلئے فرمایا :”تم قیامت کے دن میرے امام ہو ،مجھے پرچم دیا جائے گا ، میں اسے تمہارے حوالہ کر دوں گا ،اور تم ہی لوگوں کو میرے حوض کے پاس سے دور کروگے “
۲۔ امام(ع) صاحب حوض نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم:
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے متواتر احا دیث نقل ہو ئی ہیں کہ امام(ع) نبی کے اس حوض کے مالک ہوں گے جو اپنے گوارا میٹھے اور خو بصورت نظاروں کی وجہ سے جنت کی تمام نہروں سے عظیم ہو گی ،اس کا پانی صرف امام(ع)کے غلاموں اور چاہنے والوں کو ہی نصیب ہو گا ،ہم ذیل میں اس کے متعلق بعض روایات نقل کررہے ہیں :
رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرمان ہے :علی بن ابی طالب قیامت کے دن میرے حوض کے مالک ہوں گے ،اس میں آسمان کے ستاروں کی تعدادکے مانند ستارے ہیں اور وہ جابیہ اور صنعاء(پہاڑیوں) کے درمیان کی دوری کی طرح وسیع ہو گی “
(مجمع الزوائد، جلد ، ۱ص ۳۶۷)
امام جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے:
سب سے بڑی شرافت و بزرگی جس کا تاج رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے باب مدینة العلم کے سرپر رکھا وہ یہ ہے کہ امام جنت و جہنم کی تقسیم کر نے والے ہیں ۔ابن حجر سے روایت ہے کہ آپ نے شوریٰ کے جن افراد کا انتخاب کیا تھا ان سے فرمایا:”میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں یہ بتاؤ کیا تم میں کو ئی ایسا ہے جس کے لئے رسول اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا ہو :”اے علی(ع) قیامت کے دن آپ میرے علاوہ جنت و جہنم کے تقسیم کرنے والے ہو؟۔انہوں نے کہا : خدا کی قسم ،ایسا کو ئی نہیں ہے “
ابن حجر نے اس حدیث پر جو حاشیہ لگایا اس کا مطلب امام رضا علیہ السلام سے مروی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے امام علی(ع) کے لئے فرمایا ہے :تم قیامت میں جنت و جہنم کی تقسیم کر نے والے ہودوزخ خود کہے گی یہ میرے لئے اور یہ آپ(ع) کے لئے ہے “
(صواعق محرقہ، ص ۷۵)
یہ مطلب بڑی تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ خدا کے او لیاء میں سے اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد یہ مرتبہ علی(ع)کے علاوہ کسی کو نہیں ملا، اس کرامت کی کو ئی حدنہیں ہے ،اللہ نے ان کو یہ کرامت اس لئے عطا کی ہے کہ علی(ع) نے اسلام کی راہ میں بہت زیادہ جد وجہد کی اور خود کو حق کی خدمت کےلئے فنا کر دیا ہے
عترت اطہار کی فضیلت کے بارے میں نبی(ص) کی احادیث:
عترت اطہار کی فضیلت ،ان سے محبت اور متمسک ہونے کے سلسلہ میں نبی سے متواتر احادیث نقل ہو ئی ہیں جن میں سے بعض احادیث یہ ہیں :
حدیث ثقلین:
حدیث ثقلین پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی دلچسپ اور سند کے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح اور مشہورحدیث ہے ،مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ شائع و مشہور ہو ئی ہے ،اس کو صحاح اور سنن میں تحریر کیا گیا ہے ،علماء نے قبول کیا ہے اور یہاںپر یہ ذکرکردینابھی مناسب ہے کہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس حدیث کو متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے :
زید بن ارقم سے روایت ہے کہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا ہے :”اِنّي تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن مَااِن تَمَسَّکْتُمْ بِہمَالَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي ،اَحَدُہمَا اَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ:کِتَابَ اللّٰہِ،حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الاَرْضِ،وَعِتْرَتِيْ اَہْلَ بَیْتِيْ،وَلَنْ یَفْتَرِقَاحتیّٰ یَرِدَاعلَيَّ الْحَوْضَ، فَانظُرُوْا کَیْفَ تُخْلُفُوْنِيْ فِیْہمَا“
(صحیح ترمذی، جلد ۲، ص ۳۰۸)
”میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان دونوں سے متمسک رہے تو ہر گز گمراہ نہیں ہوگے ،ان میں ایک دوسرے سے اعظم ہے :اللہ کی کتاب آسمان سے زمین تک کھنچی ہو ئی رسی ہے ،میری عترت میرے اہل بیت ہیں اور وہ ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کو ثر پر وارد ہوں ،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتاؤ کروگے “؟
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے یہ حدیث حج کے موقع پر عرفہ کے دن بیان فرما ئی ،جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے : میں نے حج کے مو قع پر عرفہ کے دن رسول اللہ کوان کے ناقہ قصواپر سوار دیکھا آپ یہ خطبہ دے رہے تھے :اے لوگو !،میں نے تمہارے درمیان اللہ کی کتاب اور اپنی عترت اوراپنے اہل بیت کو چھوڑ دیا ہے، اگر تم ان سے متمسک رہے تو ہر گز گمراہ نہیں ہو گے “
(صحیح ترمذی ، جلد ۲، ص ۳۰۸،کنز العمال، جلد ۱، ص ۸۴)
نبی بستر مرگ پر تھے، لہٰذاآپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ”اَیُّہاالنَّاس یُوْشکُ اَنْ اُقْبِضَ قَبْضاًسَرِیعاًفَیُنْطَلَقَ بِيْ،وَقَدْ قَدَّ مْتُ اِلَیْکُمُ الْقَوْلَ مَعْذِرَةً اِلَیْکُمْ آلَا اِنِّيْ مُخَلِّفُ فِیْکُمْ کِتَابَ رَبِّيْ عَزَّوَجَلَّ ،وَعِتْرَتِيْ اَہلَ بَیْتِيْ “
”اے لوگو!مجھے عنقریب قبض روح کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں جانا ہے میں اس سے پہلے تمہارے لئے بیان کرچکا ہوں آگاہ ہوجاؤ کہ میں تمہارے درمیان اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنی عترت اپنے اہل بیت(ع)کو چھوڑ کر جا رہا ہوں “
اس کے بعد آپ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(ع) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :”یہ علی(ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی(ع)کے ساتھ ہے ،یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے “
(صواعق محرقہ ، ص ۷۵)
حدیث سفینہ:
ابو سعید خدری سے مر وی ہے کہ میں نے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو یہ فرماتے سنا ہے :بیشک تمہارے درمیان میرے اہل بیت(ع) کی مثال کشتی نوح کے مانندہے ،جو اس میں سوار ہو گیا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے رو گردانی کی وہ ہلاک ہوگیا ،بیشک تمہارے درمیان میرے اہل بیت(ع) کی مثال بنی اسرائیل میں باب حطّہ کے مانند ہے جو اس میں داخل ہوا وہ بخش دیا گیا “
(مجمع الزوائد، جلد ۹، ص ۱۶۸،مستدرک، جلد ۲، ص ۴۳،تاریخ بغداد، جلد ۲، ص ۱۲۰،حلیة ، جلد ۴، ص ۳۰۶،ذخائر ، ص ۲۰)
اس حدیث شریف میں اس بات کی حکایت کی گئی ہے کہ عترتِ طاہرہ سے متمسک رہنا واجب ہے اسی میں امت کے لئے زندگی کے نشیب و فراز میں نجات اور غرق ہونے سے محفوظ رہنا ہے ،پس اہل بیت(ع) نجات کی کشتیاں اور بندوں کا ملجا و ماویٰ ہیں
امام شرف الدین( خدا ان کے درجات بلند کرے ،)کا کہنا ہے :”اہل بیت(ع)کے کشتی نوح کے مانند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس نے دنیا و آخرت میں اِن کو اپنا ملجا و ماویٰ قرار دیا ،اوراپنے فروع و اصول ائمہ معصومین(ع) سے حاصل کئے وہ دوزخ کے عذاب سے نجات پا گیا ،اور جس نے اُن سے روگردانی کی وہ اس کے مانند ہے جس نے طوفان کے دن اللہ کے امر سے بچنے کےلئے پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی اور غرق ہوگیا ، اس کی منزل آب ِ حمیم ہے جو بہت ہی گرم پا نی ہے اور جس سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں
ائمہ(ع) کو باب حطّہ سے اس لئے تشبیہ دی گئی ہے کہ باب حطّہ خدا کے جلال کے سامنے تواضع کا مظہرتھاجو بخشش کا سبب ہے ۔یہ وجہ شبہ ہے ،اور ابن حجر نے اِس اور اِس جیسی دوسری احادیث کو بیان کرنے کے بعد کہا ہے :
ائمہ(ع)کے کشتی نوح سے مشابہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جس نے ان سے محبت کی اور ان کے شرف کی نعمت کا شکریہ ادا کرنے کےلئے ان کی تعظیم کی اور ان کے علماء سے ہدایت حاصل کی، اُس نے تاریکیوں سے نجات پا ئی اور جس نے مخالفت کی وہ کفران ِ نعمت کے سمندر میں غرق ہو گیا اور سرکشی کے امنڈتے ہوئے سیلاب میں ہلاک ہو گیا ۔یہاں تک کہ فرمایا:(باب حطّہ ) یعنی ائمہ کی باب حطّہ سے مشابہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو بھی اس باب ”دروازہ “یعنی اریحا یا بیت المقدس میں تواضع اور استغفار کے ساتھ داخل ہوگا خدا اس کو بخش دے گا ، اسی طرح اہل بیت(ع)سے مودت و محبت کواس امت کی مغفرت کا سبب قراردیا )
(مستدرک جلد ۳، ص ۱۴۹،کنز العمال، جلد ۶، ص ۱۱۶،فیض قدیر اور مجمع الزوائد، جلد ۹، ص ۱۷۴میں آیا ہے : ’’ستارے اہل زمین کے لئے امان ہیں اور میرے اہل بیت(ع)میری امت کے لئے امان ہیں‘‘)
اہل بیت(ع) امت کے لئے امان ہیں:
نبی اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اس امت کےلئے اہل بیت کی محبت کو واجب قرار دیا اور ان سے متمسک رہنے کو امت کےلئے ہلاک ہونے سے امان قرار دیتے ہوئے فرمایا :”ستارے زمین والوں کےلئے غرق ہونے سے امان ہیں اور میرے اہل بیت(ع)میری امت میں اختلاف نہ ہونے کےلئے امان ہیں جب عرب کا کو ئی قبیلہ ان کی مخالفت کرے تو اُن میں اختلاف ہو جا ئیگا اور وہ ابلیس کے گروہ میں ہوجائیں گے“
(ریاض النضرہ ، جلد ۲، ص ۲۵۲،تقریباً یہی روایت صحیح ترمذی جلد ۲، ص ۳۱۹ میں آئی ہے ،سنن ابن ماجہ ، جلد ۱، ص ۵۲)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button