محافلمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

خلافت امیر المومنینؑ سے انحراف کے علل واسباب (حصہ دوم)

مقالہ نگار: جعفر علی سبحانی

قطب خلافت
حضرت علیؑ  نے خلیفہ اول کے پیراہن خلافت پہنے کا تذکرہ کرنے کے بعد ان کی خلافت کا ابطال اور اپنے حق خلافت کا اثبات کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ( وَإِنَّهُ لَيَعْلَمُ أَنَّ مَحَلَّى مِنْهَا مَحَلَّ الْقُطْبِ مِنْ الرَّحى) حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیلی کا ہوتا ہے۔
مذکورہ بالا کلمات سے حضرت نے خلافت کی تشبیہ چکی سے دی اور اپنی ذات والا صفات کی تشبیہ چکی کی کیلی سے دی ہے۔ اس تشبیہ سے حضرت کا مقصود یہ ہے کہ جس طرح چکی کے لئے کیلی کا وجود ضروری ہے۔ اسی طرح سے خلافت کے لئے بھی میرا وجو د ضروری ہے۔ اگر کیلی نہ ہو تو چکی بے فائدہ ہے۔ اسی طرح سے نظام خلافت سےاگر مجھے نفی کر دیا جائے تو خلافت بے فائدہ ہے۔ اگر کیلی نہ ہوتو چکی گردش نہیں کر سکتی اور اگر نظام خلافت میں میرا وجود نہ ہو تو خلافت کی چکی بھی گردش نہیں کر سکتی۔ چکی کے دو پاٹوں میں آنے والے دانے پیس کر آٹا بن جاتے ہیں مگر وہ چند دانے محفوظ رہتے ہیں جو اپنے آپ کو کیلی سے وابستہ کر لیتے ہیں تو ایسے دانے آٹا بننے سے بچ جاتے ہیں بعینہ آپ نے فرمایا گردش روزگار سے صرف وہی افراد بچیں گے جو میرے ساتھ وابستگی اختیار کرلیں گے۔( الخوئی مو لف علامہ محقق آیۃ اللہ سید حبیب اللہ ہاشمی قدس سرہ منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ ج ٣ ص ٤٤ مترجم حجۃ الاسلام علامہ الشیخ محمد علی فاضل مدظلہ العالی ناشر صادق آل محمد پبلی کیشنز را جن پور اشاعت فروری ٢٠٠٢)
خلافت سے اعراض
حضرت علی ؑ نے غصب خلافت کی طرف اشارہ کیا اور اپنے اعراض و یاس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ( فَسَدَلْتُ دُونَهَا فَوَبًا وَ طَوَيْتُ عَنْهَا كَشَحًا ) پس میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کر لی۔ یعنی میں نے خلافت واقتدار سے بے رغبتی اختیار کی، اس سے اعراض کر لیا اور اس کے حصول سے مایوس ہو گیا۔ اور جب میں نے خلافت کو غیر مستحق کے ہاتھ میں دیکھا تو (وَطَفِقْتُ اَرْتَاكُ بَيْنَ أَنْ أَصُولَ بِيَدِ جَدَّاء ) میں سوچنے لگا کہ مجھے دو میں سے کون سا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔
یعنی میں سوچنے لگا کہ کیا میں اپنے کٹے ہوئے ہاتھ سے حملہ کروں یا میں کسی معاون و مددگار کے بغیر غاصبان حکومت سے جنگ کروں۔ حضرت نے معاون و مددگار کی عدم دستیابی کو کٹے ہوئے ہاتھ سے اس لئے تشبیہ دی کہ جس طرح سے کٹے ہوئے ہاتھ والا شخص کسی چیز کو قابو نہیں کرسکتا، اسی طرح سے معاون و مددگار کے بغیر تنہا شخص بھی کچھ نہیں کر سکتا اور بالخصوص جب اس کا مقابلہ ایک منظم حکومت سے ہو۔ حضرت نے اسے بطور استعارہ استعمال کیا ہے۔
(أَوْ أَصْبِرَ عَلى طَحبة عمياء ) یا اس بھیا نک تیرگی پر صبر کرلوں۔ نصب خلافت ایک ایسی تاریکی تھی جس میں راستہ چلنے والوں کو راستہ سجھائی نہیں دیتا تھا اور یہ تیرگی وہی تھی جس کا ذکر اللہ نے قرآن مجید میں ان الفاظ سے کیا ہے” اَو كَظُلُمٰتٍ فِي بَحْرٍ لجي يُغْشَهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكْدُ بَرَاهَا وَمَنْ لَّمْ يَجْعَلِ اللّٰهُ لَهُ نُورًا فَمَالَهُ مِن نور”۔( القرآن ۲۴/ ۴۰)
یا ان اعمال کی مثال ایسے گہرے دریا کی تاریکی جیسی ہے جسے ایک کے اوپر ایک لہر ڈھانک لے اور اس کے اوپر تہہ بہ تہہ بادل بھی ہوں کہ جب وہ اپنے ہاتھ نکالے تو تاریکی کی بناپر کچھ نظر نہ آئے اور جس کے لئے خدا نور قرار نہ دے تو اس کے لئے کوئی نور ہے ہی نہیں۔ احادیث میں اس ظلمات کی تفسیر تین حکومتوں سے کی گئی ہے۔( الخوئی مو لف علامہ محقق آیة الله سید حبیب اللہ ہاشمی قدس سره منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ ج ٣ ص٤۷ مترجم حجة الاسلام علامہ الشیخ محمد علی فاضل مدظلہ العالی ناشر صادق آل محمد پبلی کیشنز را جن پور اشاعت فروری)
عداوت و دشمنی
"لوگ فضیلت علی جانتے تھے مگر اکثر وہ تھے کہ جن میں سے کسی کا باپ،کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا، یا کسی کا کوئی قرابت دار جنگوں میں حضرت علی ؑ کے ہاتھوں قتل ہوا تھا۔حضرت علیؑ سے دشمنی اور کینہ اسی وجہ سے ان کے دلوں میں تھا”( عیون الاخبار ج2،ص176،طبع اول2021 اکبر حسین جیوانی ٹرسٹ کراچی)
ان حالات میں اگر حضرت علیؑ قیام کرتے اور مصلح ہو کر اپنا حق طلب کرتے تو یہی دشمن کہنے لگتے کہ علی ؑ نے مسلمانوں کے مابین رخنہ پیدا کیا ہے اور دین کے نام پر جنگ شروع کر دی ہے۔ممکن تھا ابتدا میں حضرت علیؑ کے ہمدرد ہی تہ تیغ ہو جاتے۔مجموعی نتیجہ یہ ہوتا کہ مسلمانوں کا مرکز زوال پذیر ہو جاتا اور جب مرکز کی طاقت کمزور ہو جائے تو وہ قبائل جو مرکز سے دور تھے یا جن کے اندر ابھی اسلام پوری طرح بسا نہ تھا وہ مرتدین سے جا ملتے اور اسلام کی روشنی ماند پڑ جاتی۔
دوسری طرف خارجی دشمنوں کا حملے کا خطرہ بھی تھا خصوصاً ایران اور روم۔ جبکہ پہلے تین بار رومیوں سے مقابلہ ہو چکا تھا۔ایسی صورت میں اگر امیر المومنینؑ قیام کرتے تو مرکز اسلام کا داخلی محاذ کمزور ہو جاتا۔پھر خارجی محاذ کےدفاع کے لیے قدرت ممکن نہ تھی۔ مولا کرتے تو کیا کرتے خودحضرتؑ  اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:”میں نے سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کروں”( شرح نہج البلاغہ ج2 آیت اللہ العظمی المنتظری صفحہ 14 ,15 دانشگاہ امام خمینی کراچی طبع اول۲۰۱۱)
ایک سبب نفاق اور مصلحت آمیز ایمان
جنہیں ہم آغاز اسلام کے مومن اور مسلمان سمجھتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ سارے کے سارے واقعی مومن یا مسلمان ہوں، اس بات کا بہترین گواہ خود قرآن مجید ہے جس میں صاف لکھا ہے کہ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللّٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَاهُمُ بِمُؤْمِنِين“۔( القرآن ۲ /۸)
یہی وہ منافق لوگ تھے جن کے بارے میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں یہ وہ لوگ تھے جو مسجد میں نمازیں پڑھتے تھے، روزے بھی رکھتے تھے، حج اور جہاد بھی کیا کرتے تھے، راہ خدا میں خرچ بھی کیا کرتے تھے لیکن ان کی یہ نمازیں اور باقی عبادات صرف دکھاوے کی ہوتی تھیں اور ان کا کام ظاہر سازی پر مبنی ہوتا تھا۔ ان کا ایمان یا تو مصلحت پر مبنی تھا یا پھر اپنی جان کے ڈر سے تھا۔ ان لوگوں کی مانند جو حضرت رسول خدا ص کے سامنے فتح مکہ کے دن اسلام لے آئے اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں” انتُمُ الطَّلَقَاء ” کے لقب سے نوازاتھا۔ ان لوگوں کا ایمان در حقیقت ڈر کی وجہ سے تھا جبکہ کچھ لوگوں کا اسلام اس امید کے تحت تھا کہ اسلام کے زیر سایہ رہ کر اپنے ذاتی اور دلی ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔(یزدی آیتہ مصباح نور ولایت ص ۱۱۹ مرتبہ محمد علی فاضل (فاضل برادرزپبلی کیشنز )
نہج البلاغہ کی شرح میں مرحوم آیت اللہ خوئی نے "احتجاج طبرسی سے ایک روایت نقل کی ہے: "عن عامر الشعبي عن عروة بن الزبير عن الزبير بن العوام، قال: لما قال المنافقون ان ابابكر تقدم علياً وهو يقول انا اولى بالمكان منه قام ابوبكر خطيباً فقال: صبراً على من ليس يؤول الى دين ولا يحتيجب برعاية ولا يرعوى لولاية اظهر الايمان ذلة واسر النفاق غلة، هٰؤلاء عصبة الشيطان وجمع الطغيان، يزعمون الى اقول انى افضل من على، وكيف اقول ذلك ومالى سابقة ولا قرابته ولا خصوصيته ووحد اللّٰه وانا ملحده، وعبد اللّٰه قبل ان اعبده "
زبیر بن عوام کہتے ہیں: جب منافقین نے یہ کہا کہ ابوبکر مقام علی پر قابض ہو گئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میرا رتبہ علی سے بلند تر ہے تو اس وقت ابو بکر تقریر کرنے کھڑے ہوئے اور یوں گویا ہوئے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم بے دین لوگوں کی باتوں پر صبر کریں ایسی باتیں کرنے والے منافق ہیں جنہوں نے از راہ ذلت اسلام قبول کیا ہے جبکہ ان کے دلوں میں نفاق ہے۔ یہ منافق کہتے ہیں کہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں علی سے افضل ہوں۔ میں ایسی بات کیسے کہ سکتا ہوں حالانکہ میرا ماضی علی کے ماضی کی طرح نہیں وہ قرابت جو علی کو رسول سے ہے مجھے نہیں، علی جیسی خصوصیات وصفات سے میں عاری ہوں، علی جب موحد تھے تو میں کافر وملحد تھا وہ سب سے پہلے ایمان لائے اور مجھ سے پہلے خدا کی عبادت کی۔ اس گفتگو سے جناب ابوبکر کا مقصد یہ ہے کہ میں جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ علی مجھ سے افضل ہیں اور ویسا نہیں جیسا تمہارا خیال ہے۔ میں علی کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔ رہی بات میرے عنان خلافت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تو یہ از روئے تقاضائے مصلحت تھا۔ توجیہ اس طرح کی جاتی ہے کہ علی جوان ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے جنگوں میں قریش کی بڑی بڑی شخصیات کو قتل کیا ہے لہٰذا قریش ان سے کینہ رکھتے ہیں اور اگرعلیؑ کو منصب خلافت پر نصب کرتے تو نظام اسلام درہم برہم ہو جاتا۔ پس نظام اسلام کو ابتری سے بچانے کے لئے مصلحت کا تقاضا یہی تھا کہ خلیفہ علیؑ کے علاوہ کوئی شخص ہو۔ یہ بات بالکل اسی طرح ہے جس طرح کہ کہا جاتا ہے کہ مصلحت کو حقیقت پر ترجیح دی جائے۔ (یزدی آیتہ مصباح نور ولایت ص ۱۱۹ مرتبہ محمد علی فاضل (فاضل برادرزپبلی کیشنز)
دنیا پرستی اور مال دنیاکی طلب
اس زمانے میں ان سرکردہ اور سربراہ قسم کے لوگوں کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت فرزند ابوطالب ؑکے ساتھ دشمنی اور سرسخت مخالفت تھی اور اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ وہ یا تو دنیا اور ثروت کے پیاسے تھے یا پھر جاہ و مقام کے طالب تھے۔ وہ اس نتیجہ تک پہنچ چکے تھے کہ علی کی پیروی کے ساتھ اپنے دلی مقاصد تک ان کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ اسی لئے انہوں نے مخالفت کی بنیاد ڈال دی۔ جو لوگ پہلے ہی سے حضرت علی علیہ السلام کو بخوبی جانتے تھے۔ اس ابتدائی دن ہی سے آپ کے مخالفت کا سلسلہ شروع کر دیا اور کچھ لوگ ایسے تھے جو آپ کو پہلے سے تو نہیں پہچانتے تھے اور ان کی سوچ یہ تھی کہ وہ حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اپنے نا جائز مقاصد کو حاصل کر لیں گے لیکن جب انہوں نے عملی طور پر تجربہ کر لیا کہ ایسا کرنا بالکل نا ممکن ہے تو پہلے ساتھ دیا مگر بعد میں مخالفت پر کمر بستہ ہو کر آپ کے ساتھ جنگ کی ٹھان لی۔ بنابریں اس دور کےمعاشرتی سربراہوں کی علی علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کا ایک اہم عامل دنیا پرستی اور جاہ و طلبی تھی۔( یزدی آیتہ مصباح نور ولایت ص ۱۱۹ مرتبہ محمد علی فاضل (فاضل برادرزپبلی کیشنز)
تفریق و خوف
امیرالمومنین حضرت علیؑ نےفرمایا کہ جب نبیﷺ کی وفات ہوئی تو ہم آپ ﷺ کی وراثت کا زیادہ حق رکھتے تھے اور ہمارے حقوق کے متعلق ہم سے جھگڑاکرنا ممکن نہ تھا لیکن لوگوں نے ہم سے ہمارے نبیﷺ کا اقتدارچھین لیااور ہماری جگہ ہمارے غیر کو حکومت سپرد کردی۔ خداکی قسم ! اگر مسلمانوں میں تفریق کا خدشہ نہ ہوتااور یہ خوف نہ ہوتاکہ وہ کفرکی طرف پلٹ جائیں گے تو پھر ہم پوری طاقت سے اس صورتِ حال کو تبدیل کردیتے۔
لوگوں کے ارتداد کا خوف
حضرت امام محمد باقرؑ نے فرمایا: لوگوں نے جب حضرت ابوبکر کی بیعت کی تو حضرت علیؑ لوگوں کو اپنی جانب دعوت دے سکتے تھے لیکن آپ نے یہ کام اس لیے نہیں کیا کہ انھیں یہ اندیشہ تھا کہ لوگ اسلام کو چھوڑ کر بت پرستی کی طرف پلٹ جائیں گے اور وہ کلمہ شہادتین چھوڑ دیں گے۔ ( دار الکتب الاسلامیہ تہران کلینی محمد بن یعقوب الکافی: جلد ۸، ص ۳۹۵، حدیث ۴۵۴ )
مددگاروں کی عدم موجودگی
الکافی میں سدیر سے منقول ہے کہ ہم حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس امر پر گفتگو شروع ہوئی کہ لوگوں نے کتنی جلدی امیر المومنین کو چھوڑ دیا تھا۔ وہاں پر موجود ایک شخص نے امام علیہ السلام سے کہا: اُس وقت بنی ہاشم کہاں تھے؟
حضرت امام محمد باقرؑ  نے فرمایا: بنی ہاشم میں سے کتنے افراد باقی تھے۔ حضرت جعفر طیار اور حضرت حمزہ دونوں شہید ہو چکے تھے اور دو کمزور افراد باقی بچے تھے: ایک عباس تھے اور دوسرے عقیل۔ یہ دونوں افراد کمزور تھے اور طلقاء میں سے شمار کیے جاتے تھے۔( کلینی محمد بن یعقوب الکافی ج ۸ ص ۱۸۹ حدیث ۲۱۶)
جی ہاں اگر جعفرطیار اور حمزہ دونوں زندہ ہوتے تو ان لوگوں کو اپنی من مانی کی جرات نہ ہوتی اگر کہیں ایسا کچھ ہوا تو یہ دونوں ہستی اس مقصد کے لیے اپنی جانوں کوقربان کردیتے۔( شہری رئیس المحقیقین علامہ محمد الری کتاب انسائیکلوپیڈیا امام علی ج ۱ ص ۲۷۷)
جبر اور تشدد
جب انصار اور ان کے علاوہ جو سقیفہ بنی ساعدہ میں موجود تھے انہوں سے جبراً جناب ابوبکر کی بیعت لی گئی حالانکہ حضرت علی ؑ رسول ؐ کی تجہیز و تکفین میں مصروف رہے۔ تجہیز و تکفین کے بعد حضرت علی ؑ اور ان لوگوں نے جنہوں نے جناب ابوبکر کی بیعت کر لی تھی یانہیں کی تھی۔ تمام نے رسولؐ خدا پر نماز پڑھی۔ رسول ؐخدا کی تدفین کے بعد حضرت علی بنو ہاشم کی جمعیت کے ساتھ مسجد نبوی میں جا کر بیٹھے اور آپ کے ساتھ زبیر بن عوام بھی تھے۔ اس وقت بنوامیہ جناب عثمان کے اردگرد بیٹھے تھے۔ اور بنی زہرہ عبدالرحمان بن عوف کے گرد حلقہ ڈالے بیٹھے تھے۔ اسی اثنا میں جناب ابوبکر کے ہمراہ جناب عمر وابو عبیدہ بن الجراح آئے اور کہا تم لوگ علیحدہ و حلقے بنا کر کیوں بیٹھے ہوئے ہو۔ اٹھو اور جناب ابو بکر کی بیعت کرو کیونکہ انصار اور دوسرے لوگوں نے ان کی بیعت کر لی ہے۔ چنانچہ جناب عثمان اور عبدالرحمان نے ان کی بیعت کر لی اور حضرت علی اور بنو ہاشم مسجد کو چھوڑ کر اپنے بیت الشرف تشریف لے آئے اور زبیر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ جناب عمر اپنے ساتھ اپنے وفاداروں کا گروہ لے کر جن میں اسید بن حصین اور سلمہ بن سلامہ پیش پیش تھے حضرت علیؑ کے دروازے پر آئے۔ یہاں آکر دیکھا کہ حضرت علی ؑکے ساتھ ان کے وفادار دوست موجود ہیں۔ عمر نے کہا کہ لوگو! ابو بکر کی بیعت کرو، باقی لوگ ان کی بیعت کر چکے ہیں۔سب نے انکار کیا اور زبیر بن عوام نے بڑھ کر حملہ کرنا چاہا تو عمر نے چلانا شروع کیا کہ مجھے اس کے شر سے بچاؤ۔ چنانچہ سلمہ بن سلامہ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے تلوار چھین لی اور جناب عمر نے اس کے ہاتھ سے لے لی اور زمین پر مار کر توڑ دی۔ وہاں پر موجود بنی ہاشم کی جماعت کو گرفتار کر کے جناب ابوبکر کے سامنے لایا گیا اور ہر ایک سے جبری بیعت لی گئی۔ ( الخوئی مو لف علامہ محقق آیة الله سید حبیب اللہ ہاشمی قدس سره منہاج البراعہ فی شرح نہج البلاغہ ج ٣ ص۱۸ مترجم حجة الاسلام علامہ الشیخ محمد علی فاضل مدظلہ العالی ناشر صادق آل محمد پبلی کیشنز را جن پور اشاعت فروری)
حضرت علی کی ظاہری خلافت کے علل و اسباب
ہر ایسا انسان جو کسی مسلک کا پابند ہو کسی مقصد کی سمت گامزن ہو مجاہد ہو اور بالخصوص ایسا انقلابی ہو جو اپنے مقدس مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہو اور خدا کے اس قول کا مصداق ہو کہ: يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَ لَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَآئِهِ۔(القرآن ۵ /۵۴) تو ہر انسان اس کے دشمن بن جاتے ہیں کیونکہ انسان اس شخص سے دوست رکھتے ہیں اور اسے چاہتا ہے کہ اس کو کچھ فائدہ ہو، اس کے پسند کے مطابق کام کریں اور ہر وہ کام کرنے والا ہو جو لوگوں کو پسند ہو۔ لوگ جس طرح چاہے اس طرح کریں چاہے خدا کو پسند ہو یانہ ہو، اس قسم کے انسان کے زیادہ دوست ہوتے ہیں لیکن حضرت علی علیہ السلام کے زیادہ دشمن ہونے کی وجہ بھی یہی ہیں کہ وہ جو بھی کام کرتا رضاء الہٰی کے لیے ہوتا تھا خاص کر حضرت علی کے اپنے زمانے میں اُن کے دشمن اگر اُن کے دوستوں سے زیادہ نہیں، تو کم بھی نہ تھے۔
اگر آج حضرت علیؑ  کی شخصیت میں تحریف نہ کی جائے اور جیسے وہ تھے اُسی طرح انہیں پیش کیا جائے تو اُن سے دوستی کے بہت سے دعویدار اُن کے دشمنوں کی صف میں کھڑے ہو جائیں گےکیونکہ آج کے دور میں اُس زمانے کے نسبت زیادہ دنیا طلبی لوگ موجود ہے۔
حضرت علی ؑ راہِ خدا میں کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ بلکہ اگر آپ کسی پرمہربانی کرتے اور کسی کا لحاظ کرتے تو وہ بھی خدا ہی کے لیے ہوتا تھا۔ یہ کیفیت لاز ماً دشمن ساز ہوتی ہے اور لالچی اور حریص طبیعتوں کے مالک لوگوں کو یہ ناگوار گزرتی ہے اور دشمنی پہ تلے آتی ہیں۔
پیغمبر اسلام ﷺ کے اصحاب میں سے کسی کو بھی ایسے فدا کار دوست نہیں ملے جیسے علیؑ کے حصے میں آئے۔ یہی حال آپ کے دشمنوں کا بھی تھا، کسی کو ایسے گستاخ اور خطرناک دشمن بھی نہیں ملے۔ آپ ایسے شخص تھے کہ مرنے کے بعد بھی آپ کا دشمنوں کوآپ سے غصہ ختم نہ ہوا۔ آپ خود اس بات کو جانتے تھے اور آپ نے اس کی پیش بندی کر رکھی تھی لہٰذا آپ ؑنے وصیت کی تھی کہ آپ کی قبر مخفی رکھی جائے اور آپ کی اولاد کے سوا کوئی اسے نہ جانتا ہو یہاں تک کہ تقریبا ًایک صدی گزرنے کے بعد جب اموی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا، خوارج بھی ختم یا سخت کمزور ہو گئے، کینے اور کینہ تو زیاں کم ہو گئیں تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے آپ کے مزار مقدس کو ظاہر کیا۔( مطہری استاد شہید مرتضٰ جاذبہ ودافعہ علی ص ٩٥)
نہج البلاغہ خطبہ نمبر ١٧١ میں خود امیرالمومنین فرماتےہیں !
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّ اَحَقَّ النَّاسِ بِهٰذَا الْاَمْرِ اَقْوَاهُمْ عَلَیْهِ، وَ اَعْلَمُهُمْ بِاَمْرِ اللّٰهِ فِیْهِ، فَاِنْ شَغَبَ شَاغِبٌ اسْتُعْتِبَ، فَاِنْ اَبٰی قُوْتِلَ۔
اے لوگو! تمام لوگوں میں اس خلافت کا اہل وہ ہے جو اس کی سب سے زیادہ قوت و صلاحیت رکھتا ہو اور اس کے بارے میں اللہ کے احکام کو سب سے زائد جانتا ہو۔ اس صورت میں اگر کوئی فتنہ پرداز فتنہ کھڑا کرے تو پہلے اسے توبہ و بازگشت کیلئے کہا جائے گا۔ اگر وہ انکار کرے تو اس سے جنگ و جدال کیا جائے گا۔
اپنی جان کی قسم! اگر خلافت کا انعقاد تمام افراد اُمت کے ایک جگہ اکٹھا ہونے سے ہو تو اس کی کوئی سبیل ہی نہیں بلکہ اس کے کرتا دہرتا لوگ اپنے فیصلہ کا ان لوگوں کو بھی پابند بنائیں گے جو موجود نہ ہوں گے، پھر موجود کو یہ اختیار نہ ہو گا کہ وہ (بیعت سے) انحراف کرے اور نہ غیر موجود کو یہ حق ہو گا کہ وہ کسی اور کو منتخب کرے۔
دیکھو! میں دو شخصوں سے ضرور جنگ کروں گا: ایک وہ جو ایسی چیز کا دعویٰ کرے جو اس کی نہ ہو اور دوسرا وہ جو اپنے معاہدہ کا پابند نہ رہے۔
جب ’’سقیفہ بنی ساعدہ‘‘ میں انتخاب کے سلسلہ میں اجتماع ہوا تو وہاں کے فیصلہ کا ان لوگوں کو بھی پابند بنایا گیا جو اس موقع پر موجود نہیں تھے اور یہ اصول قرار دے دیا گیا کہ جو انتخاب کے موقع پر موجود ہو اسے نظر ثانی اور بیعت سے انحراف کا کوئی حق نہیں ہوگا اور جو موجود نہ ہو وہ طے شدہ فیصلہ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگا۔ لیکن جب امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھ پر اہل مدینہ نے بیعت کی تو امیر شام نے اس بنیاد پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ چونکہ انتخاب کے موقع پر موجود نہیں تھا لہٰذا اس پر اس فیصلہ کی پابندی عائد نہیں ہوتی، جس پر امیر المومنین علیہ السلام نے ان مسلمات اور مقررہ اصول و شرائط کے مطابق اس خطبہ میں جواب دیا کہ جو ان لوگوں میں طے پا کر ناقابل انکار بن چکے تھے اور وہ یہ کہ جب اہل مدینہ اور انصار و مہاجرین میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں تو معاویہ کو اس بنا پر کہ وہ اس موقع پر موجود نہیں تھا، بیعت سے انحراف کا حق نہیں پہنچتا اور نہ طلحہ و زبیر بیعت کرنے کے بعد عہد شکنی کے مجاز ہو سکتے ہیں۔
حضرتؑ نے اس موقع پر پیغمبر ﷺ کے کسی ارشاد کو جو آپؑ کی خلافت پر نص قطعی کی حیثیت رکھتا ہو استدلال میں پیش نہیں فرمایا۔ اس لئے کہ انکار کی وجہ اصول انتخاب کے طریق کار کی بنا پر تھی، لہٰذا موقع و محل کے لحاظ سے انہی کے مسلمات کی رُو سے جواب دینا ہی فریق مخالف کیلئے مسکت ہو سکتا تھا اور اگر نص رسولؐ سے استدلال فرماتے تو اسے مختلف تاویلوں کی زد پر رکھ لیا جاتا اور بات سمٹنے کے بجائے بڑھتی ہی جاتی اور پھر رحلت پیغمبرؐ کے فوراً بعد آپؑ دیکھ چکے تھے کہ باوجود قرب عہد کے تمام نصوص و ارشادات نظر انداز کر دیئے گئے، تو اب جبکہ ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے اس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اسے تسلیم کرے گا جبکہ قولِ رسولؐ کے سامنے من مانی کرنے کی عادت پڑ چکی تھی۔( حسین مفتی جعفر ترجمہ نہج البلاغہ،ص ۴۵۱ تا ۴۵۴ لاہور امامیہ کتب خانہ مغل حویلی اندرون موچیدروازہ)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button