محافلمناقب امام محمد تقی عمناقب و فضائل

امام جواد علیہ السلام کا بغداد کے قاضی القضاۃ ابن ابی داؤد اور یحییٰ بن اکثم کے ساتھ مناظرہ

تحریر:ڈاکٹر محمد لطیف مطہری

آپ کا نام محمد بن علی بن موسی اور امام جواد کے لقب سے معروف ہیں۔آپ10 رجب المرجب سنہ 195 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔(۱) آپ کے والد امام رضاعلیہ السلام اور والدہ سبیکہ،خیزران یا ریحانہ خاتون ہیں۔شیخ مفیدعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کی کوئی اولاد آپ کی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکا ہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔(۲)
امام رضاعلیہ السلام کی بہن جناب حکیمہ خاتون فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے بھائی نے مجھے بلاکر کہاکہ آج تم میرے گھرمیں حاضر رہو،کیونکہ خیزران کے بطن سے آج رات کوخدا مجھے ایک فرزندعطافرمائے گا ۔میں نے خوشی کے ساتھ اس حکم کی تعمیل کی۔جب رات ہوئی تو ہمسایہ کی چندعورتیں بھی بلائی گئیں، نصف شب سے زیادہ گزرنے پریکایک وضع حمل کے آثارنمودارہوئے یہ حال دیکھ کر میں خیزران کوحجرہ میں لے گئی، اورمیں نے چراغ روشن کردیا تھوڑی دیرمیں امام محمدتقی علیہ السلام پیداہوئے ۔میں نے دیکھاکہ وہ مختون اورناف بریدہ ہیں ۔ولادت کے بعد میں نے انہیں نہلانے کے لیے طشت میں بٹھایا، اس وقت جوچراغ روشن تھا وہ گل ہوگیا مگر پھر بھی اس حجرہ میں اتنی روشنی بدستور رہی کہ میں نے آسانی سے بچہ کونہلادیا۔تھوڑی دیرمیں میرے بھائی امام رضاعلیہ السلام بھی وہاں تشریف لے آئے۔ میں نے نہایت عجلت کے ساتھ صاحبزادے کوکپڑے میں لپیٹ کر حضرت کی آغوش میں دیدیا آپ نے سر اورآنکھوں پربوسہ دے کر پھرمجھے واپس کردیا۔دودن تک امام محمدتقی علیہ السلام کی آنکھیں بند رہیں۔ تیسرے دن جب آنکھیں کھولیں تو آپ نے سب سے پہلے آسمان کی طرف نظرکی پھرداہنے بائیں دیکھ کرکلمہ شہادتین زبان پرجاری کیا ۔(۳)
امام محمد تقی علیہ السلام امام رضاعلیہ السلام کی عمر کے آخری برسوں میں پیدا ہوئے اور چونکہ آپ کی ولادت سے قبل امامؑ کی کوئی اولاد نہ تھی۔مخالفین کہتے تھے کہ "امام رضاعلیہ السلام سے کوئی نسل موجود نہیں ہے لہٰذا امامت کا سلسلہ منقطع ہوگا”۔ جب امام محمد تقی علیہ السلام کو پیدائش کے بعد امام رضا علیہ السلام کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا:(هٰذا المولود الذي لم يولد مولود أعظم بركة على شيعتنا منه)(۴) یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ برکت والا مولود ہمارے شیعوں کے لئے اب تک دنیا میں نہیں آیا ہے۔ ابن اسباط اور عباد بن اسمعیل نیز ابو یحییٰ صنعانی کہتے ہیں:( إنا لعند الرضا عليه السلام بمنى إذ جبئ بأبي جعفر عليه السلام قلنا: هذا المولود المبارك قال: نعم، هذا المولود الذي لم يولد في الاسلام أعظم بركة منه)(5)  ہم امام رضاعلیہ السلام کے ساتھ تھے جب ابو جعفر کو ان کے پاس لایا گیا۔ ہم نے عرض کیا: کیا وہ بابرکت مولود یہی ہے؟ فرمایا: ہاں! یہی وہ مولود ہے جس سے زيادہ عظیم برکت والا اسلام میں پیدا نہیں ہوا۔علامہ طبرسیؒ لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشاد فرمایاتھا کہ میرے ہاں عنقریب جوبچہ پیداہوگا وہ عظیم برکتوں کاحامل ہوگا۔(۶)
امام محمد تقی علیہ السلام کے درباری علماء اور فقہاء سے کئی علمی مناظرے ہوئے جن میں ہمیشہ آپ کو غلبہ رہا۔
ہم یہاں امام جواد علیہ السلام اور بغداد کے قاضی القضاۃ ابن ابی داؤد اور یحییٰ بن اکثم کے ساتھ جومناظرے ہوئے اسے ذکر کریں گے:
زرقان،(۷) جو ابن ابی داؤد(جومامون، معتصم، واثق اور متوکل عباسی کے دور خلافت میں بغداد کا قاضی تھا) کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلق رکھتا تھا، کہتا ہے: ایک دن "ابن ابی داؤد” معتصم کی مجلس سے واپس آئے، جبکہ وہ بہت افسردہ اور غمگین تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا: آج میں نے خواہش کی کہ کاش میں بیس سال پہلے مر جاتا! میں نے پوچھا: کیوں؟ اس نے کہا: معتصم کے مجلس میں میں ابو جعفر (امام جواد) نے جو کچھ میرے ساتھ کیا۔ میں نے کہا: کیا ہواتھا؟ اس نے کہا: ایک شخص نے چوری کا اقرار کیا اور خلیفہ (معتصم) سے کہا کہ اسے دین کے دستور کے مطابق سزا دے تا کہ وہ اس گناہ سے پاک ہو ۔ خلیفہ نے تمام فقہاء کو جمع کیا اور "محمد بن علی” (امام جواد) کو بھی بلایا اور ہم سے پوچھا: چور کا ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے؟ میں نے کہا: کلائی سے۔ فرمایا: اس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا: کیونکہ تیمم کی آیت میں ہاتھ کا معنی یہ ہے: (فَامْسَحُوا بِوُجُوهِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ)(۸) اپنے چہرے اورہاتھوں کا مسح کر لو۔
فقہاء کی ایک جماعت نے اس بات پر مجھ سے اتفاق کیا اور کہا: چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹا جائے، لیکن دوسرے گروہ نے کہا: کہنی سے کاٹنا ضروری ہے، اور معتصم نے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا:وضو کی آیت میں ہاتھ سے مراد کہنیوں تک ہے جیساکہ ارشاد ہوتا ہے: (يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلىَ الصَّلَوة فَاغْسِلُوا وُجُوهَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اًّلىَ الْمَرافِقِ) (۹) اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تواپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو ۔
معتصم محمد بن علی (امام جواد) کی طرف متوجہ ہوئے اور آپ سے پوچھا: اس مسئلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟آپ نے فرمایا: انہوں نے تبصرہ کیاہے اس لئے مجھے معاف کر دو۔معتصم نے اصرار کیا اور قسم کھایاکہ آپ اپنی رائے بتائیں۔امام جواد علیہ السلام نے فرمایا: چونکہ تم نے قسم کھایا ہے اس لئےمیں اپنی رائے کا اظہارکرتا ہوں ۔ یہ سب باتیں غلط ہے اورچور کی صرف انگلیاں کاٹ دیں اور باقی ہاتھ رکھ دیں۔
معتصم نے کہا: اس کی کیا دلیل ہے ؟ تو آپ نے فرمایا:کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سجدہ جسم کے سات حصوں کے ذریعے کی جاتی ہے :۱۔ چہرہ (پیشانی)۲۔ دو ہتھیلیاں۳۔ دو گھٹنے ۴۔ پاؤں کی دو بڑی انگلیاں۔ لہٰذا اگر چور کا ہاتھ کلائی یا کہنی سے کاٹ دی جائے تو سجدہ کرنے کے لیے اس کا کوئی ہاتھ باقی نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا)(۱۰) اور یہ کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔اور جو خدا کے لئے ہے وہ قطع نہیں ہوگا۔
"ابن ابی داؤد” کہتے ہیں: معتصم کو محمد بن علی کا جواب پسند آیا اور اس نے حکم دیا کہ چور کی انگلیاں کاٹ دی جائیں، اور سامعین کے سامنے ہماری بے عزتی ہو گئی ، اور شرم و حیا کی وجہ سے وہی پر ہی میں نے موت کی تمنا کی۔(۱۱)
مامون نے امام محمد تقیؑ  کو اپنی بیٹی ام الفضل کے ساتھ شادی کی پیشکش کی ۔ عباسی عمائدین مامون کی پیشکش سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے اعتراض کیا چنانچہ مامون نے اپنی بات کے اثبات کے لئے معترضین سے کہا: تم ان کا امتحان لے سکتے ہو۔ انھوں نے قبول کیا اور فیصلہ کیا کہ دربار کے عالم ترین فرد اور امام جوادعلیہ السلام کے درمیان مناظرے کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ امام کا امتحان لے سکیں۔
مناظرے کا آغاز قاضی القضاۃ یحییٰ بن اکثم نے کیا اور پوچھا: اگر کوئی مُحرِم شخص کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟ آپ نے جواب میں فرمایا: اے یحییٰ : تمہارا سوال بالکل مبہم ہے ،یہ شکار حل میں تھا یا حرم میں ؟، شکار کرنے والا مسئلہ سے واقف تھا یا ناواقف؟ اس نے عمدا ًاس جانور کا شکار کیا تھا یا سہواً اس سےقتل ہوگیا تھا؟ وہ شخص آزاد تھا یا غلام؟ کمسن تھا یا بالغ؟ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس سے پہلے بھی ایسا کرچکا تھا ؟ شکارپرندہ تھا یا کوئی اور جانور؟چھوٹا تھا یا بڑا؟وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے؟ رات کو چھپ کراس نے شکار کیا ہےیا اعلانیہ طور پر؟احرام عمرہ کا تھا یا حج کا؟ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس وقت تک اس مسئلہ کا کوئی معین حکم نہیں بتایا جاسکتا ۔یحیی ٰکے چہرہ پر شکستگی کے آثار نمودار ہوئے جن کا تمام دیکھنے والوں نے اندازہ کرلیا ۔ اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہیں دے رہا تھا۔مامون نے امام جواد علیہ السلام سے عرض کیا کہ پھر ان تمام شقوں کے احکام بیان فرمادیجئے تاکہ ہم سب کو اس کا علم ہو ۔
امام ؑنے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ احکام بیان فرمائے ، آپ نے فرمایا : اگر احرام باندھنے کے بعد "حل” میں شکار کرے اور وہ شکار پرندہ ہو اور بڑا بھی ہو تو اس کا کفارہ ایک بکری ہے اور اگر ایسا شکار حرم میں کیا ہے تو دو بکریاں ہیں اور اگر کسی چھوٹے پرندہ کو حل میں شکار کیا تو دنبے کا ایک بچہ جو اپنی ماں کا دودھ چھوڑ چکا ہو ، کفارہ دے گا اور اگر حرم میں شکار کیا ہو تو اس پرندہ کی قیمت اور ایک دنبہ کفارہ دے گا اور اگر وہ شکار چوپایہ ہو تواس کی کئی قسمیں ہیں ۔اگر وہ وحشی گدھا ہے تو ایک گائے اور اگر شتر مرغ ہے تو ایک اونٹ اور اگر ہرن ہے تو ایک بکری کفارہ دے گا ۔ یہ کفارہ اس وقت ہے جب شکار حل میں کیا ہو ۔ لیکن اگر حرم میں کئے ہوں تو یہی کفارے دگنے ہوں گے اور ان جانوروں کو جنہیں کفارے میں دے گا ،اگر احرام عمرہ کا تھا تو خانہ کعبہ تک پہنچائے گا اور مکہ میں قربانی کرے گا اور اگر احرام حج کا تھا تو منیٰ میں قربانی کرے گا اور ان کفاروں میں عالم و جاہل دونوں برابر ہیں اور عمداً شکار کرنے میں کفارہ دینے کے علاوہ گنہگار بھی ہوگا ۔ہاں بھولے سے شکار کرنے میں گناہ نہیں ہے۔ آزاد اپنا کفارہ خود دے گا اور غلام کا کفارہ اس کا مالک دے گا ، چھوٹے بچے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور بالغ پر کفارہ دینا واجب ہے اور جو شخص اپنے اس فعل پر نادم ہو وہ آخرت کے عذاب سے بچ جائے گا ، لیکن اگر اس فعل پر اصرار کرے گا تو آخرت میں بھی اس پر عذاب ہوگا ۔
اس کے بعد امام جواد علیہ السلام نے یحییٰ بن اکثم سے سوال کیا:اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے صبح کو ایک عورت کی طرف نظر کی تو وہ اس پر حرام تھی ، دن چڑھے تو حلال ہوگئی ، پھرظہر کے وقت حرام ہوگئی، عصر کے وقت پھر حلال ہوگئی ، غروب آفتاب پر پھر حرام ہوگئی ، عشاء کے وقت پھر حلال ہوگئی ، آدھی رات کو حرام ہوگئی ، صبح کے وقت پھر حلال ہوگئی ، بتاؤ ایک ہی دن میں اتنی دفعہ وہ عورت اس شخص پر کس طرح حرام و حلال ہوتی رہی ۔
امام علیہ السلام کی زبان سے اس سوال کو سن کر قاضی القضاۃ یحییٰ بن اکثم مبہوت ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا، اور انتہائی عاجزی کے ساتھ کہا کہ فرزند رسولؐ آپ ہی اس کی وضاحت فرمادیں ۔امام علیہ السلام نے فرمایا : وہ عورت کسی کی کنیز تھی۔اس کی طرف صبح کے وقت ایک اجنبی شخص نے نظر کی تو وہ اس کے لئے حرام تھی ، دن چڑھے اس نے وہ کنیز خرید لی تو حلال ہوگئی، ظہر کے وقت اس کو آزاد کردیا، وہ حرام ہوگئی، عصر کے وقت اس نے نکاح کرلیا پھر حلال ہوگئی، مغرب کے وقت اس سے ظہار کیا تو پھر حرام ہوگئی، عشاء کے وقت ظہار کا کفارہ دیدیا تو پھر حلال ہوگئی، آدھی رات کو اس شخص نے اس عورت کو طلاق رجعی دی ، جس سے پھر حرام ہوگئی اور صبح کے وقت اس طلاق سے رجوع کرلیا ،حلال ہوگئی۔اہلیان دربار اور عباسی علما ءنے آپ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔(۱۲)
اسی طرح حضرت ابوبکر اور عمر کے فضائل کے بارے میں یحیی ٰبن اکثم کے سوالات کا جواب دیا۔ یحییٰ نے کہا: جبرئیل نے خدا کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: "میں ابوبکر سے راضی ہوں؛ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہیں؟امام علیہ السلام نے فرمایا: میں ابوبکر کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقولہ دوسری حدیثوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ آپؐ نے فرمایا: جب میری جانب سے کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کا کتاب اللہ اور میری سنت کے ساتھ موازنہ کرو اور اگر خدا کی کتاب اور میری سنت کے موافق نہ ہو تو اسے رد کرو؛ اور بےشک یہ حدیث قرآن کریم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:(وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ)(۱۳) اور ہم نے پیدا کیا ہے آدمی کو اور ہم جانتے ہیں جو اس کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس کے شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں ۔تو کیا خداوند متعال کو علم نہ تھا کہ کیا ابوبکر اس سے راضی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔یحیی ٰنے اس روایت کا حوالہ دیا کہ (أنّ مثل أبي بكر وعمر في الاَرض كمثل جبرئيل وميكائيل في السماء) بےشک روئے زمین پر ابوبکر اور عمر کی مثال، آسمان میں جبرائیل اور میکائیل کی مانند ہے۔(۱۴)  امام نے جواب دیا: اس روایت کا مضمون درست نہیں کیونکہ جبرئیل اور میکائیل ہمیشہ سے خدا کی بندگی میں مصروف رہے ہیں اور ایک لمحے کے لئے خطا اور اشتباہ کے مرتکب نہیں ہوئے جبکہ ابوبکر اور عمر قبل از اسلام برسوں تک مشرک تھے۔(۱۵)

حوالہ جات:
۱۔ کلینی، اصول کافی،ج1، ص492۔
۲۔ مفید،ارشاد ص ۴۷۳
۳۔ المناقب، ج4، ص394
۴۔کلینی، اصول کافی، ج1 ص321۔
۵۔مجلسی، بحارالانوار، ج50، صص20و23و35۔ شیخ مفید، الارشاد ص 279۔
۶۔اعلام الوری ص ۲۰۰
۷۔ زرقان (بروزن عثمان) ابو جعفر کا لقب تھا، جو محدث تھا۔ مجلسى، بحار الأنوار، الطبعه الثانيه، تهران، المكتبه الاسلاميه، 1395 ه”.ق، ج 50، ص ۸
۸۔سورہ المائدہ،۶۔
۹۔ایضا۔
۱۰۔سورہ جن،۱۸۔
۱۱۔طبرسى، مجمع البيان، شركه المعارف الاسلاميه، 1379 ه”.ق، ج 10، ص 372 – عيّاشى، كتاب التفسير، تصحيح و تعليق: حاج سيد هاشم رسولى محلاتى، قم، مطبعه علميه، ج 1، ص 320 –
۱۲۔ طبرسی، احتجاج، ص443و444۔
۱۳۔سورہ ق،۱۶۔
۱۴۔طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔
۱۵۔ سيوطی، الدر المنثور ج4 ص107۔ كنز العمال ج11 ص569 ح32695۔ ابو نعیم اصفہاني، حليۃ الاَولياء، ج4 ص304

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button