سیرتسیرت امام علی نقیؑ

امام علی نقی علیہ السلام کا اخلاق اور سیرت

تحریر نگار: محسن اقبال متعلم جامعۃ الکوثر اسلام آباد
امام کی عملی سیرت:
ائمہ معصومین علیہم السلام انسان کامل اور اللہ کے منتخب و برگزیدہ بندے ہیں جنہیں کردار و رفتار کے نمونے کے عنوان سے اور بنی نوع بشر کی ہدایت کے لئے روشن چراغ بناکر پروردگار کی طرف سے بھیجا گیا ہے ۔ ان بزرگوں کی حیات پاک یعنی رفتار و گفتار، اخلاق و عادات اور انسانی فضائل، تمام لوگوں کے لئے الٰہی اقدار کا مکمل آئینہ ہیں ۔
امام علی نقی (ع) اہل بیت اطہار علیہم السلام کے مقام و مرتبہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں :
’’ وَ معدِنَ الرَّحْمَةِ وَ خُزَّانَ الْعِلْمِ وَ مُنْتَهَى الْحِلْمِ وَ أُصُولَ الْكَرَمِ … وَ عَنَاصِرَ الْأَبْرَارِ … وَ صَفْوَةَ الْمُرْسَلِينَ …أَئِمَّةِ الْهُدَى وَ مَصَابِيحِ الدُّجَى وَ أَعْلَامِ التُّقَى … وَ الْمَثَلِ الْأَعْلَى … وَ حُجَجِ اللَّهِ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ الْأُولَى‘‘
’’اور رحمت معدن اور علم کے خزینہ دار، حلم کے انتهائی مقام، کرامت کے اصول، اور ابرار و نیکوں کے ارکان، اور مرسلین کے برگزیده و منتخب، ہدایت کے ائمہ، تاریکیوں کے چراغ اور تقویٰ کی نشانیاں، اور الله کے عظیم و برتر نمونے اور دنیا و آخرت میں الله کی حجت ہیں‘‘۔
(زیارت جامعہ)
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ایسی ذوات مقدّسہ اور درخشان چہروں کے مالک افراد کے دستور اور رفتار و کردار کی پیروی کرنا ہی انسانی کمال کے مدارج اور دونوں جہاں کی سعادت و کامیابی تک پہنچا سکتے ہیں ۔
امام علی نقی (ع) کے اخلاق و فضائل کسی پر پوشیده نہیں ہیں، علماء اور مؤرخین اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں، یہاں تک کہ اهل بیت علیہم السلام کے دشمنوں نے بھی آپ کی مدح و ثنا کی ہے ۔ ابو عبدالله جنیدی کہتا ہے:
"خدا کی قسم وه روئے زمین پر اللہ کی بہترین مخلوق اور لوگوں میں سب سے افضل ہیں‘‘
(ائمتنا،2 ،ص، 252)
ابن حجر حضرت کی زندگی کے بارے میں لکھتا ہے :
’’ و کان وارث ابیه علما و سخاء‘‘
’’ وه علم و سخاوت میں اپنے والد کے وارث تھے ‘‘۔
دلوں میں رعب و دبدبہ:
ائمہ معصومین (ع) خداوند عالم کی قدرت و عظمت کے مظاہر، ذات مقدس پروردگار کے کلمات و حکمت کے معادن اور اس کی تجلّیات کے منبع و مرکز اور خاص انوار ہیں، اسی بنیاد پر یہ حضرات ایک غیر معمولی معنوی قدرت کے حامل تھے اور لوگوں میں خاص مقام و مرتبہ اور رعب و دبدبہ رکھتے ہیں:
’’ طَأْطَأَ كُلُّ شَرِيفٍ لِشَرَفِكُمْ وَ بَخَعَ كُل‏ مُتَكَبِّرٍ لِطَاعَتِكُمْ وَ خَضَعَ كُلُّ جَبَّارٍ لِفَضْلِكُمْ وَ ذَلَّ كُلُّ شَيْ‏ءٍ لَكُمْ ‘‘
’’ ہر شریف و بزرگ نے آپ کی شرافت و عظمت کے سامنے سرخم کردیا ہے اور ہر متکبّر و مغرور نے آپ کی اطاعت کی ہے اور ہر جابر و ظالم نے آپ کے فضل و کرم کے مقابلے میں سر جھکادیا ہے اور ساری چیزیں آپ کے سامنے ذلیل و خوار ہوگئی ہیں‘‘ ۔
زید بن موسی نے کئی بار (عمربن فرخ) کا کان بھرا اور اس سے درخواست کیا کہ اسے اس کے بھتیجے (امام علی نقی علیہ السلام) پر ترجیح دے، اسی کے ساتھ یہ بھی کہتا تھا، وه جوان ہیں اور میں ان کے والد کا چچا ہوں۔ عمر نے اس کی بات امام علی نقی (ع) سے بیان کردی، امام (ع) نے فرمایا: تم ایک بار یہ کام کرو، کل مجھے ان سے پہلے بزم میں بٹھا دو، اس کے بعد دیکھو کیا ہوتا ہے ۔دوسرے دن عمر بن فرخ نے امام علی نقی (ع) کو بلایا اور حضرت کو بزم میں صدر مقام پر بٹھایا، اس کے بعد زید کو آنے کی اجازت دی۔ زید، امام کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا ۔جب پنجشنبہ کا دن آیا تو پہلے زید کو داخل ہونے کی اجازت دی اور صدر مجلس میں بٹھایا، اس کے بعد امام سے اندر آنے کی درخواست کی، امام (ع) اندر داخل ہوئے جس وقت زید کی نظر امام (ع) پر پڑی اور امام کی ہیبت و جلالت کو ان کے رخسار پر دیکھا تو اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا، امام کو اپنی جگہ پر بٹھایا اور خود امام کے سامنے بیٹھا۔
(اعلام الوریٰ، ص، 347)
امام علی نقیؑ کا زہد:
حضرت امام علی نقی ؑ نے اپنی پوری زند گی میں زہد اختیار کیا ،اور دنیا کی کسی چیز کو کو ئی اہمیت نہیں دی مگر یہ کہ اس چیز کا حق سے رابطہ ہو ،آپ ؑ نے ہر چیز پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دی۔ راویوں کا کہنا ہے کہ مدینہ اور سامراء میں آپ ؑ کے مکان میں کو ئی چیز نہیں تھی ،متوکل کی پولس نے آپ ؑ کے مکان پر چھاپا مارا اور بہت ہی دقیق طور پر تلاشی لی لیکن ان کو دنیا کی زند گی کی طرف ما ئل کر نے والی کو ئی چیز نہیں ملی ،امام ؑ ایک کھلے ہوئے گھر میں بالوں کی ایک ردا پہنے ہوئے تھے ،اور آپ ؑ زمین پر بغیر فرش کے ریت اور کنکریوں پر تشریف فرما تھے ۔
سبط احمد جوزی کا کہنا ہے : بیشک امام علی نقی ؑ دنیا کی کسی چیز سے بھی رغبت نہیں رکھتے تھے ، آپ ؑ مسجد سے اس طرح وابستہ تھے جیسے اس کالازمہ ہوں ،جب آپ ؑ کے گھر کی تلاشی لی تو اس میں مصاحف ، دعاؤں اور علمی کتابوں کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا۔ حضرت امام علی نقی ؑ اپنے جد امیرالمو منین ؑ کی طرح زندگی بسر کر تے تھے جو دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے ،انھوں نے دنیا کو تین مرتبہ طلاق دی تھی جس کے بعد رجوع نہیں کیا جاتا ہے ،اپنی خلافت کے دوران انھوں نے مال غنیمت میں سے کبھی اپنے حصہ سے زیادہ نہیں لیا ،آپ ؑ کبھی کبھی بھوک کی وجہ سے اپنے شکم پر پتھر باندھتے تھے،وہ اپنے ہاتھ سے لیف خرما کی بنا ئی ہو ئی نعلین پہنتے تھے، اسی طرح آپ ؑ کا حزام ”تسمہ ‘‘ بھی لیف خرما کاتھا ،اسی طریقہ پر امام علی نقی ؑ اور دوسرے ائمہ علیہم السلام گامزن رہے انھوں نے غریبوں کے ساتھ زندگی کی سختی اور سخت لباس پہننے میں مواسات فرما ئی ۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button