سیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

امام علی علیہ السلام کا عوام کے ساتھ طرز عمل

شیخ ضیاء جواہری
جب کہ آپ پوری امت کے امام تھے اور سبھی لوگوں نے آپ کی بیعت کی تھی لیکن آپ لوگوں کے درمیان ایک عام شخص کی طرح زندگی بسر کرتے ‘ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر فرماتے‘سلاطین اور بادشا ہوں کی سطوت و تکبر سے بہت دوررہتے آپ لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرتے اور ان کی مشکلات حل کرتے ‘ اور ان کی اس طرح تربیت فرماتے جس طرح اللہ تعالی نے اپنی پاک کتاب میں حکم دیا ہے ۔
ابحر ابن جرموز اپنے باپ سے روایت بیان کرتا ہے کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کو مسجد کوفہ سے باہر نکلتے ہوئے دی کہا آپ بازار تشریف لے گئے آپ کے ہاتھ میں ایک کوڑا تھا ۔اور آپ لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرنے ،سچ بولنے ، اورعمدہ خرید وفروخت کرنے اورپوری ناپ تول کرنے کی ھدایت فرمارہے تھے۔
(استیعاب ج ۲ ص ۴۶۵ )
ابو مطر روایت بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد سے نکلا وہاں ایک شخص لوگوں کو خد اسے ڈرا رہاتھا اور ا انہیں ناپ اورتول کے سلسلے میں وعظ و نصیحت کر رہاتھا جب میں نے غور سے دی کہا تو وہ علی علیہ السلام تھے ان کے پاس کوڑا تھا اور اسی طرح وعظ کرتے ہوئے وہ ”بازار ابل“ کی طرف بڑھ گئے اور لوگوں سے کہنے لگے کہ خرید وفروخت ضرور کرو لیکن قسمیں نہ کھاؤ کیونکہ قسمیں کہانے سے بخل پیدا ہوتا ہے اور برکت ختم ہوجاتی ہے۔ پھر آپ ایک کھجوروں کے مالک کے پاس آئے وہاں اس کی ملازمہ رو رہی تھی حضرت نے پوچھا تمھیں کیا ہوا ہے؟
اس نے کہامیں نے ان کھجوروں کو ایک درہم میں خریدا ہے اور میرا مولا اس کو قبول کرنے پر راضی نہیں ہے۔
حضرت نے اس کو ایک درہم دے دیا اور کہاکہ اپنے مالک کو دے دینا اور وہ راضی ہو جائے گا۔
راوی کہتا ہے میں نے مالک سے کہاکہ کیا تم جانتے ہویہ کون ہیں اس نے کہانہیں، میں نے بتایا یہ امیر المومنین علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام ہیں اس نے کھجور اٹھائے اور درہم دے دیا اور کہامیں چاہتا ہوں کہ امیرالمومنین علیہ السلام مجھ سے راضی رہیں۔
آپ نے فرمایا جب تم نے معاملہ ٹھیک کر لیا ہے میں تجھ سے راضی ہوں اور پھر آپ دوسرے کھجوریں بیچنے والوں کے پاس گئے اور فرمایا مسکینوں کو کھانا کھلاؤ اور انہیں اپنے جیسا لباس پہناؤ کہ اس سے تمہارے کاروبار میں برکت پیدا ہو گی پھرمچھلی فروشوں کے پاس گئے اور ان سے فرمایا: بازار میں حرام مچھلی نہ بیچا کرو۔
(کنزالعمال ج ۶ ص۴۱۰)
نیز ایک اور روایت میں ابن مطر بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام” دار بزاز“ تشریف لائے (یہ کھدر کے کپڑے کا بازار تھا) چنانچہ حضرت نے فرمایا:
مجھے ایک قمیص کی ضرورت ہے اور میرے ساتھ اچھا معاملہ کرو اور تین درہم میں مجھے قمیص دے دو ،لیکن جب اس شخص نے آپ کو پہچان لیا تو پیسے لینے سے انکار کر دیا ۔
کچھ دیرکے بعد اس کا نوجوان ملازم آگیا آپ نے اس سے تین درہم میں قمیص خریدلی اور اسے زیب تن فرمایا جو کہ پنڈلیوں تک لمبی تھی۔جب دکان کے مالک کومعلوم ہوا کہ اس کے ملازم نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو دودہم کی قمیض تین درہم میں فروخت کی ہے۔
تو اس نے ایک درہم لیا اور خود حضرت علی علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگا:
مولا یہ ایک درہم آپ کا ہے حضرت نے پوچھا یہ کیسا درہم ہے اس نے عرض کی آپ نے جو قمیص خریدی ہے اس کی قیمت دو درہم تھی لیکن میرے ملازم نے اسے آپ کو تین درہم میں فروخت کیا ہے، حضرت نے ارشاد فرمایا:اسے میں نے اپنی رضا ورغبت سے خریدا ہے اور اس نے رضا ورغبت سے فروخت کیا ہے۔
(کنزالعمال ج۶ ص ۴۱۰)
زاذان نے روایت بیان کی ہے کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام کو مختلف بازاروں میں دیکھا ہے کہ آپ علیہ السلام بزرگوں کو اپنے ہاتھوں سے سہارا دیتے اور بھولے ہوئے کو راستہ د کھا تے اور بار اٹھا نے والوں کی مدد کرتے ہیں اور قرآن مجیدکی اس آیت تلاوت کی فرماتے تھے:
تلک الدارُ الآخرةُ نجعلُها للذین لا یُریدون علوّا في الاٴَرض ولا فساد اً و العاقبةُ للمتقین
(ریاض النضرہ ج ۲ص ۲۳۴)
یہ آخرت کا گھر ہے جسے ان لوگوں کیلئے قرار دیا گیا ہے جو زمین پر تکبر اور فسادبرپا نہیں کرتے اور اچھا انجام تو فقط متقین کے لئے ہے ۔پھر فرمایا یہ آیت صاحب قد رت لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے ۔
شعبی روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام بازار گئے وہاں ایک نصرانی کوڈھا ل فروخت کرتے ہوئے دیکھا حضرت علی علیہ السلام نے اس ڈھال کو پہچان لیا اور فرمایا:
یہ تو میری زرع ہے خدا کی قسم تیرے اور میرے درمیان مسلمانوں کا قاضی فیصلہ کرے گا اس وقت مسلمانوں کا قاضی شریح تھا حضرت علی علیہ السلام نے اسے فیصلہ کرنے کے لئے کہا۔
جب شریح نے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام کو دے کہا تو مسند قضاء سے اٹھا اور وہاں حضرت کو بٹھایا اور خود نیچے نصرانی کے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔
حضرت علی علیہ السلام نے شریح سے فرمایا اگر میرا مخالف مسلمان ہوتا تو میں بھی اسکے ساتھ بیٹھتا لیکن میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
کہ ان سے مصافحہ نہ کرو ا انہیں سلام کرنے میں پہل نہ کرو ان کی مرضی کے مطابق نہ چلو، ان کے ساتھ ملکرنہ بیٹھو ، انہیں نیچی جگہ پر بٹھاؤ اور ا انہیں حقیر جانو جس طرح انہیں اللہ نے حقیر کیا ہے بہر حال اسکے اور میرے درمیان فیصلہ کرو۔
شریح : یا امیر المومنین آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔
حضرت امیر المومنین علیہ السلام : میری یہ ڈھال کچھ وقت پہلے گم ہو گئی تھی ۔
شریح: نصرانی تم کیا کہتے ہو۔
نصرانی: امیرالمومنین نے جھوٹ نہیں بولا لیکن یہ میری ڈھال ہے۔
شریح: تیرے پاس کوئی ایسی دلیل ہے جس سے ثابت ہو کہ یہ تیر ی ڈھال ہے ۔
نصرانی کہتا ہے:
میں گواہی دیتا ہوں کہ ہھی انبیاء کے احکام ہیں کہ امیرالمومنین ہونے کے باوجود قاضی کے پاس آئے کہ قاضی ان کے بارے میں فیصلہ کرے۔
خدا کی قسم اے امیرالمومنین یہ آپ کی ڈھال ہے جنگ کے دوران آپ سے کہیں گم ہوگئی تھی اورمیں نے اسے اٹھالیا تھا اور اب میں آپ سے متاثر ہوکر گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقینا محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا اب جب کہ تم مسلمان ہوچکے ہو میں یہ ڈھال تمھیں دیتا ہوں اورآپ نے نصرانی کو ایک عمدہ گھوڑے پر سوار کیا، راوی کہتاہے:اس کے بعد میں نے اسی نصرانی کو مشرکوں کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے دیکھاہے ۔
(سنن بیہقی ج۱۰ ص۱۳۶)
سودہ بنت عمارہ ہمدانیہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد معاویہ کے پاس گئی تو اس نے جنگ صفین کے قصے بیان کرنا شروع کئے اور معاملہ جھگڑے تک آپہنچاتومعاویہ نے کہا:
کیا تیری کوئی حاجت ہے؟
سودہ نے کہااللہ تم سے ہمارے معاملہ میں پوچھے گا تواس وقت تمہاری گردن پر ہمارے جتنے حقوق ہیں ان کے متعلق جواب ہوگا اور ہمیشہ تو ہم پرمقدم نہیں رہے گاجیسا کہ تم نے خودکواتنا اونچا بنا ر کھا ہے۔
تم نے اپنی حکومت کی طاقت سے ہمیں گرفتار کیا اور ہمیں قید خانوں میں ڈالا اور تم نے ہمیں اپنے پاؤں تلے روندا ہمیں غلام بنا کر فروخت کیا ہماری توہین کی، اور اس بُسربن ارطاة کو ہم پرفضیلت دی ہمارے مردوں کو قتل کیا ہمارے اموال کولوٹ لیا اگرہم اس کی اطاعت کریں تو پھر ہماری عزت ہے اوراگراطاعت نہ کریں تو کفر کے فتوے لگیں۔
معاویہ کہتا ہے اے سودہ تم اپنی قوم کے ذریعہ ہم کو تہدید کرتی ہو انھوں نے تمھیں اس مقام پر پہنچایا ہے کہ آج تم میرے پاس آئی ہوتا کہ میں تمہارے متعلق فیصلہ کروںسودہ کچھ دےر خاموش رہی اور پھر یہ اشعار پڑھے !
لی الاٴله علی روح تضمنها قبر فاٴصبح فیه العدلمدفونا
قدحالف الحق لایبغی به بدلا فصار بالحق والاٴ یمان مقرونا
اس پاک روح پر درود وسلام ہو ں جسے ہم قبر کے سپرد کر چکے ہیں اور اسی کے ساتھ عدل بھی دفن ہو گیا ہے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں اس کا بدل نہیں چاہتی کیونکہ وہ حق کے ساتھ ملحق تھا اور ایمان اس کے ساتھ ملا ہوا تھا۔
معاویہ کہتا ہے سودہ تمہارے اشعار سے کون مرادہے ؟سودہ کہتی ہیں کہ خدا کی قسم حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کی ذات مرادہے کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اسے نماز کی حالت میں قتل کر دیا گیا حالانکہ اس کا رحم وکرم اور لطف ومہربانی تو ضرب المثل ہے۔ انہوں نے کہابتا تیری کوئی حاجت ہے ؟تو میں نے کہاجی ہاں آپ نے ایک حدیث بیان کی اور رونا شروع ہوگئی اور پھر کہاپروردگارامجھ پر اور ان پر گواہ رہنا میں نے بھی تیری مخلوق پر ظلم کرنے کا حکم نہیں دیا اور پھر اس نے ایک فائل نکالی جس میں لکھا ہوا تھا ۔
بسم الله الرحمن الرحیم قد جاءَ تکم بینة مِن ربکم فاٴوفوا الکَیل و المیزانَ ولا تبخَسوا الناسَ اٴشیاءهم
تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے دلیل آچکی ہے لہٰذا ناپ تول پورا رکھو اور لوگوں کو کم چیزیں نہ دو جب تم میرایہ خط پڑھو تو تمہار ے سامنے جو ہماراعمل ہے اس کی حفاظت کرو اور تم پر وہ مقدم ہے جو تم سے یہ حاصل کرلے۔
( الامام علی منتہی ص۱۷۲ ۔۱۷۳)
القعدالفرید میں ہے کہ معاویہ حج پر گیا اور اس نے بنی کنانہ کی ایک خاتون سے سوال کیا کہ جس پر لقوے کا اثر تھا اسی وجہ سے اسے دارمیہ جحونیہ کہاجاتاتھا اس کا رنگ سیاہ تھا اور اس پر بہت گوشت تھا اسے بتایا گیا کہ تم صحیح ہو سکتی ہو اور اسے معاویہ کے پاس لایا گیا اس نے کہااے آوارہ پھرنے والی عورت کی بیٹی میرے پاس کیو ں آئی ہو؟ اس نے کہامیں آوارہ نہیں ہوں بلکہ میں بنی کنانہ کی ایک خاتون ہوں اس نے کہاخوب یہ بتاؤ تم جانتی ہو کہ تمھیں کیوں لایا گیا ہے کہنے لگی :
اللہ کے علاوہ کوئی علم غیب نہیں جانتا ۔
معاویہ نے کہاتمھیں اس لئے لایا گیا ہے تاکہ تم سے سوال کیا جائے کہ تم علی علیہ السلام سے محبت کیوں کرتی ہو اور مجھ سے بغض کیوں رکھتی ہو اور اسے ولی کیوں مانتی ہو اور مجھ سے دشمنی کیوں رکھتی ہو۔
عورت کہتی ہے اگر مجھے معاف رکھوتو بتاؤں؟
کہنے لگا میں تجھے معاف نہیں کرسکتا ۔
اس عورت نے کہا:
جب اس طرح ہے تو سن میں حضرت علی علیہ السلام سے محبت اس لئے رکھتی ہوں کہ وہ رعیت کے ساتھ عدل وانصاف کرتے ہیں ،مال خدا کو برابر تقسیم کرتے ہیں۔
تجھ سے بغض اس لئے رکھتی ہوں کہ تم اس سے جنگ کرتے ہو جو تجھ سے زیادہ اس خلافت کا حقدار ہے، اور تو اس چیز کاطلب گار ہے کہ جس پر تیراکوئی حق نہیں۔
حضرت علی علیہ السلام کو دوست رکھتی ہوں کیونکہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ولی بنایا ہے وہ مسکینوں سے محبت کرتے ہیں، صاحبان دین میں سب سے زیادہ معظم و مکرم ہیں اور تجھ سے اس لئے دشمنی رکھتی ہوں کہ تو بے گناہ خون بہاتا ہے اور تیرے فیصلے ظلم و جور اور خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں ۔معاویہ کہنے لگا اسی وجہ سے تیرا پیٹ بہت پھولا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور تو بوڑھی ہوگئی ہے۔
وہ عورت کہنے لگی یہی صورت ہند کی تھی اسی لئے وہ تیرے باپ کے لئے ضرب المثل بن گئی تھی یہ سن کر معاویہ اس کو بہت برا بھلا کہاجس کو سن کر وہ عورت چپ ہو کر چلی گئی۔
(المجالس السنیة ۔ ج۱ ص۶۶۔۶۷)
(علی علیہ السلام صراط اللہ المستقیم سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button