سیرتسیرت امام علی رضاؑ

حیات امام ثامن علی ابن موسیٰ الرضاؑ کے چند پہلو (پانچواں پہلو)

مختلف مذاہب کے علماء سے حضرت امام رضا علیہ السلام کے علمی مناظرے:
مامون رشید کو خود بھی علمی ذوق تھا، اس نے ولی عہدی کے مرحلہ کو طے کرنے کے بعد حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے کافی استفادہ کیا پھر اپنے ذوق کے تقاضے پر اس نے مختلف مذاہب کے علماء کو دعوت مناظرہ دی اور ہر طرف سے علماء کو طلب کر کے حضرت امام رضا علیہ السلام سے مقابلہ کرایا۔عہد مامون میں امام علیہ السلام سے جس قدر مناظرے ہوئے ہیں، ان کی تفصیل اکثر کتب میں موجود ہے، اس سلسلہ میں کتاب احتجاج طبرسی ، بحار الانوار ، دمعہ ساکبہ وغیرہ جیسی کتابیں دیکھی جا سکتی ہیں۔
نصاریٰ کے عالم سے علمی مناظرہ:
مامون رشید کے عہد میں نصاریٰ کا ایک بہت بڑا عالم و مناظر شہرت عامہ رکھتا تھا، جس کا نام جاثلیق تھا، اس کی عادت تھی کہ متکلمین اسلام سے کہا کرتا تھا کہ ہم تم دونوں نبوت عیسی اور ان کی کتاب پر متفق ہیں اور اس بات پر بھی اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پر زندہ ہیں، اختلاف ہے تو صرف نبوت محمد مصطفی ﷺ میں ہے، تم ان کی نبوت کا اعتقاد رکھتے ہو اور ہمیں انکار ہے پھر ہم تم ان کی وفات پر متفق ہو گئے ہیں، اب ایسی صورت میں کونسی دلیل تمہارے پاس باقی ہے کہ جو ہمارے لیے حجت قرار پائے۔ یہ کلام سن کر اکثر مناظر خاموش ہو جایا کرتے تھے۔مامون رشید کے اشارے پر ایک دن وہ حضرت امام رضا علیہ السلام سے بھی ہم کلام ہوا، موقع مناظرہ میں اس نے مذکورہ سوال دہراتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ یہ فرمائیں کہ حضرت عیسی کی نبوت اور ان کی کتاب دونوں پر آپ کا ایمان و اعتقاد ہے یا نہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا:میں اس عیسی کی نبوت کا یقینا اعتقاد رکھتا ہوں کہ جس نے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نبوت کی اپنے حوارین کو بشارت دی ہے اور اس کتاب کی تصدیق کرتا ہوں کہ جس میں یہ بشارت درج ہے کہ جو عیسائی اس کے معترف نہیں اور جو کتاب اس کی شارح اور مصدق نہیں اس پر میرا ایمان نہیں ہے۔ یہ جواب سن کر جاثلیق خاموش ہو گیا۔
پھر آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے جاثلیق ہم اس عیسی کو کہ جس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی بشارت دی ہے ، نبی برحق جانتے ہیں مگر تم ان کی تنقیص کرتے ہو اور کہتے ہو کہ وہ نماز روزے کے پابند نہ تھے۔جاثلیق نے کہا کہ ہم تو یہ نہیں کہتے، وہ تو ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار رہا کرتے تھے، آپ نے فرمایا عیسی تو بنا بر اعتقاد نصارا خود معاذ اللہ، خدا تھے۔ تو یہ روزہ اور نماز کس کے لیے کرتے تھے ؟یہ سن کر جاثلیق مبہوت ہو گیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔البتہ یہ کہنے لگا کہ جو مردوں کو زندہ کرے، جذامی کو شفا دے، نابینا کو بینا کر دے اور پانی پر چلے، کیا وہ اس کا سزاوار نہیں ہے کہ اس کی پرستش کی جائے اور اسے معبود سمجھا جائے ؟اس پر آپ نے فرمایا:الیسع بھی پانی پر چلتے تھے، اندھے کوڑی کو شفا دیتے تھے، اسی طرح حزقیل پیغمبر نے 35 ہزار انسانوں کو 60 برس کے بعد زندہ کیا تھا، قوم اسرائیل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سے اپنے گھر چھوڑ کر باہر چلے گئے تھے۔ حق تعالی نے ایک لمحے میں سب کو مار دیا۔بہت دنوں کے بعد ایک نبی بوسیدہ ہڈیوں پر گزرے، تو خداوند نے ان پر وحی نازل کی کہ انہیں آواز دو، انہوں نے کہا کہ اے استخوان بالیہ (استخوان مردہ) اٹھ کھڑے ہو، وہ سب بحکم خدا اٹھ کھڑے ہوئے۔
اسی طرح حضرت ابراہیم کے پرندوں کو زندہ کرنے اور حضرت موسی کے کوہ طور پر لے جانے اور رسول خدا کے احیاء اموات فرمانے کا حوالہ دے کر فرمایا کہ ان چیزوں پر تورات، انجیل اور قرآن مجید کی شہادت موجود ہے، اگر مردوں کو زندہ کرنے سے انسان خدا ہو سکتا ہے تو یہ سب انبیاء بھی خدا ہونے کے مستحق ہیں۔یہ سن کر وہ چپ ہو گیا اور اس نے اسلام قبول کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ دیکھا۔
عالم یہودی سے علمی مناظرہ:
عالم یہود میں سے ایک عالم جس کا نام راس الجالوت تھا، کو اپنے علم پر بڑا غرور اور تکبر و تھا۔ وہ کسی کو بھی اپنی نظر میں نہ لاتا تھا۔ ایک دن اس کا مناظرہ اور مباحثہ فرزند رسول حضرت امام رضا علیہ السلام سے ہو گیا۔ آپ سے گفتگو کے بعد اس نے اپنے علم کی حقیقت جانی اور سمجھا کہ میں خود فریبی میں مبتلا ہوں۔امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کے بعد اس نے اپنے خیال کے مطابق بہت سخت سوالات کیے، جن کے تسلی بخش اور اطمینان آفرین جوابات سے بہرہ ور ہوا۔جب وہ سوالات کر چکا تو امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اے راس الجالوت ! تم تورات کی اس عبارت کا کیا مطلب سمجھتے ہو کہ: آیا نور سینا سے روشن ہوا جبل ساعیر سے اور ظاہر ہوا کوہ فاران سے، اس نے کہا کہ اسے ہم نے پڑھا ضرور ہے لیکن اس کی تشریح سے واقف نہیں ہوں۔آپ نے فرمایا کہ نور سے وحی مراد ہے، طور سینا سے وہ پہاڑ مراد ہے کہ جس پر حضرت موسی خدا سے کلام کرتے تھے، جبل ساعیر سے محل و مقام عیسی علیہ السلام مراد ہے، کوہ فاران سے جبل مکہ مراد ہے کہ جو شہر سے ایک منزل کے فاصلے پر واقع ہے، پھر فرمایا تم نے حضرت موسی کی یہ وصیت دیکھی ہے کہ تمہارے پاس بنی اخوان سے ایک نبی آئے گا، اس کی بات ماننا اور اس کے قول کی تصدیق کرنا ؟اس نے کہا ہاں دیکھی ہے آپ نے پوچھا کہ بنی اخوان سے کون مراد ہے ؟ اس نے کہا معلوم نہیں، آپ نے فرمایا کہ وہ اولاد اسماعیل ہیں، کیونکہ وہ حضرت ابراہیم کے ایک بیٹے ہیں اور بنی اسرائیل کے مورث اعلی حضرت اسحاق ابن ابراہیم کے بھائی ہیں اور انہیں سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔
اس کے بعد جبل فاران والی بشارت کی تشریح فرما کر کہا کہ شعیا نبی کا قول توریت میں مذکور ہے کہ میں نے دو سوار دیکھے کہ جن کے نور سے دنیا روشن ہو گئی، ان میں ایک گدھے پر سوار تھا اور ایک اونٹ پر،اے راس الجالوت تم بتلا سکتے ہو کہ اس سے کون مراد ہیں؟ اس نے انکار کیا، آپ نے فرمایا کہ راکب الحمار سے حضرت عیسی اور راکب الجمل سے مراد حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں۔پھر آپ نے فرمایا کہ تم حضرت حبقوق نبی کے اس قول سے واقف ہو کہ خدا اپنا بیان جبل فاران سے لایا اور تمام آسمان حمد الہی کی (آوازوں) سے بھر گئے، اسکی امت اور اس کے لشکر کے سوار خشکی اور تری میں جنگ کرینگے، ان پر ایک کتاب آئے گی اور سب کچھ بیت المقدس کی خرابی کے بعد ہو گا۔اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ یہ بتاؤ کہ تمہارے پاس حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت کی کیا دلیل ہے؟اس نے کہا کہ ان سے وہ امور ظاہر ہوئے ہیں کہ جو ان سے پہلے انبیاء سے ظاہر نہیں ہوئے تھے، مثلا دریائے نیل کا شگافتہ ہونا، عصا کا سانپ بن جانا، ایک پتھر سے بارہ چشموں کا جاری ہو جانا اور ید بیضا وغیرہ وغیرہ۔آپ نے فرمایا کہ جو بھی اس قسم کے معجزات کو ظاہر کرے اور نبوت کا مدعی ہو، اس کی تصدیق کرنی چاہیے؟اس نے کہا نہیں،آپ نے فرمایا کیوں؟اس نے کہا اس لیے کہ موسی کو جو قربت یا منزلت حق تعالی کے نزدیک تھی، وہ کسی کو نہیں ہوئی لہذا ہم پر واجب ہے کہ جب تک کوئی شخص بعینہ وہی معجزات و کرامات نہ دکھلائے، ہم اس کی نبوت کا اقرار نہ کریں گے۔امام نے ارشاد فرمایا کہ تم موسی سے پہلے انبیاء مرسلین کی نبوت کا کس طرح اقرار کرتے ہو، حالانکہ انہوں نے نہ کوئی دریا شگافتہ کیا، نہ کسی پتھر سے چشمے نکالے اور نہ ہی ان کا ہاتھ روشن ہوا، اور نہ ان کا عصا اژدہا بنا؟راس الجالوت نے کہا کہ جب ایسے امور و علامات خاص طور سے ان سے ظاہر ہوں جن کے اظہار سے عموما تمام خلائق عاجزہوں، تو وہ اگرچہ بعینہ ایسے معجزات ہوں یا نہ ہوں، ان کی تصدیق ہم پر واجب ہو جائے گی۔
حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت عیسی بھی مردوں کو زندہ کرتے تھے، کور مادر نوزاد کو بینا بناتے تھے، مبروص کو شفا دیتے تھے، مٹی کی چڑیا بنا کر ہوا میں اڑاتے تھے، وہ یہ امور ہیں جن سے عام لوگ عاجز ہیں پھر تم ان کو پیغمبر کیوں نہیں مانتے؟راس الجالوت نے کہا کہ لوگ ایسے ہی کہتے ہیں، مگر ہم نے ان کو ایسا کرتے دیکھا نہیں ہے۔امام نے فرمایا تو کیا آیات و معجزات موسی کو تم نے بچشم خود دیکھا ہے، آخر وہ بھی تو معتبر لوگوں کی زبانی سنا ہی ہو گا ویسا ہی اگر عیسی کے معجزات ثقہ اور معتبر لوگوں سے سنو، تو تم کو ان کی نبوت پر ایمان لانا چاہیے اور بالکل اسی طرح حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نبوت و رسالت کا اقرار آیات و معجزات کی روشنی میں کرنا چاہیے، سنو ان کا عظیم معجزہ قرآن مجید ہے کہ جس کی فصاحت و بلاغت کا جواب قیامت تک نہیں دیا جا سکے گا۔ یہ سن کر وہ خاموش ہو گیا۔
عالم مجوسی سے علمی مناظرہ:
مجوسی یعنی آتش پرست کا ایک مشہور عالم ہربذ اکبر، حضرت امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر علمی گفتگو کرنے لگا، آپ نے اس کے سوالات کے مکمل جوابات عنایت فرمائے۔ اس کے بعد اس سے سوال کیا کہ تمہارے پاس رزتشت کی نبوت کی کیا دلیل ہے ؟اس نے کہا کہ انہوں نے ہماری ایسی چیزوں کی طرف راہنمائی فرمائی ہے کہ جس کی طرف پہلے کسی نے راہنمائی نہیں کی تھی، ہمارے اسلاف کہا کرتے تھے کہ زرتشت نے ہمارے لیے وہ امور مباح کیے ہیں کہ ان سے پہلے کسی نے نہیں کیے تھے۔
آپ نے فرمایا کہ تم کو اس امر میں کیا عذر ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی نبی اور رسول کے فضائل و کمالات تم پر روشن کرے اور تم اس کے ماننے میں پس و پیش کرو، مطلب یہ ہے کہ جس طرح تم نے معتبر لوگوں سے سن کر زرتشت کی نبوت مان لی، اسی طرح معتبر لوگوں سے سن کر انبیاء اور رسل کی نبوت کے ماننے میں تمہیں کیا عذر ہو سکتا ہے ؟ یہ سن کر وہ خاموش ہو گیا۔
مناظرات کا تجزیہ:
مامون، امام رضا علیہ السلام کو مختلف مکاتب فکر کے دانشوروں کے ساتھ بحث اور مناظرات میں الجھا کر لوگوں کے درمیان آئمہ اہل بیت کے بارے میں قائم عمومی سوچ جو انہيں علم لدنی کے مالک سمجھتے تھے کو ختم کرنا چاہتا تھا۔شیخ صدوق لکھتے ہیں: مامون مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے بلند پایہ دانشوروں کو امام علیہ السلام کے سامنے لایا کرتا تھا تا کہ ان کے ذریعے امام علیہ السلام کے دلائل کو ناکارہ بنا دے۔ یہ سارے کام وہ امام علیہ السلام کی علمی اور اجتماعی مقام و منزلت سے حسد کی وجہ سے انجام دیتا تھا لیکن نتیجہ اس کے برخلاف نکل آیا اور جو بھی امام کے سامنے آتا، وہ آپ کے علم و فضل کا اقرار کرتا اور آپ کی طرف سے پیش کردہ دلائل کے سامنے لا جواب اور بے بس ہو کر انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔
(عیون اخبار الرضا، ج1، ص 152)
جب مامون کو اس بات کا علم ہوا کہ ان محفلوں اور مناظروں کا جاری رکھنا اس کے لیے خطر ناک ہو سکتا ہے، تو اس نے امام علیہ السلام کو محدود کرنا شروع کر دیا۔ابا صلت سے روایت ہے کہ جب مامون کو اطلاع دی گئی کہ امام رضا علیہ السلام نے کلامی اور اعتقادی مجالس تشکیل دینا شروع کیں ہیں جس کی وجہ سے لوگ آپ کے شیدائی بن رہے ہیں تو اس نے محمد ابن عمرو طوسی کی ذمہ داری لگائی کہ وہ لوگوں کو امام علیہ السلام کی مجالس سے دور رکھیں۔ اس کے بعد امام علیہ السلام نے مامون کو بد دعا دی تھی۔
(حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ علیہ السلام ، ص 442)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button