سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

کاروان حسینی کی مدینہ منّورہ سے روانگی

مولانا سید تحریر علی نقوی
قیام حسینی کے اہداف
حضرت رسولِ خدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانسوز شہادت کے ساتھ ہی اہلبیتِ رسالت پر انواع و اقسام کی مشکلات اور مصیبتیں آنے لگیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ خامس آل عبا، پنچتن کے پانچویں تن حضرت امام حسین علیہ السلام سے ماہ رجب المرجب سنہ ۶۰ ہجری قمری میں معاویہ ابن ابی سفیان حاکم شام کی ہلاکت کے بعد یزید ابن معاویہ کے برسرکار آتے ہی اس کیلےبیعت کا مطالبہ کیا گیا۔
کتاب مستطاب شاہکار آفرینش(مقتل شیخ الریئس) سے تلخیص کرتے ہوئے اس واقعے کی کچھ تفصیلات ذکر کررہے ہیں تاکہ معلوم ہوسکے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کن اسباب کے پیش نظر اس ہجرت و روانگی کا فیصلہ کرتے ہیں اور کیا اہداف سامنے لیے ہوئے مدینہ منورہ،قبر رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،قبر برادراور قبر مادر گرامی سلام اللہ علیھما سے الوداع کرتے ہیں۔
امام حسین علیہ السلام سے بیعت کی پہلی درخواست اور امام عالیمقام کا شدید انکار
ماہ رجب سنہ ۶۰ ہجری کے درمیان معاویہ ابن ابی سفیان ۸۰ سالہ عمر میں مر گیا اور یزید اس کی جگہ پر (پہلے سے بنائی گئی سازش کے عین مطابق) حاکم بن بیٹھا اور پھر بلا فاصلہ والیِ مدینہ ولید بن عُتبہ بن ابی سفیان کو ایک خط لکھا کہ کسی تاخیر کے بغیر حسین(علیہ السلام) سے بیعت لے لو اور اگر وہ بیعت نہ کریں تو سرتن سے جدا کرکے بھیج دو۔
ولید کو جیسے ہی یزید کا خط ملا،اُس نے مروان کے ساتھ مشورہ کیا۔مروان نے کہا امام حسین(علیہ السلام) بیعت نہیں کریں گے،اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتا تو انہیں قتل کردیتا۔ولید کہنے لگا اےکاش دنیا میں میرا نام و نشان نہ ہوتا پھر امام حسین علیہ السلام کی طرف پیغام بھیجا کہ دارالامارہ میں آئیں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام ۳۰ ہاشمی مسلح جوانوں کے ساتھ دارالامارہ کی طرف چل دیے اور ان جوانوں سے فرمایا:
’’آپ لوگ دارالامارہ سے باہر ٹہرایں،اگر میری آواز بلند ہوئی تو دارالامارہ کے اندر آجانا‘‘
جب امام حسین علیہ السلام دارالامارہ میں داخل ہوئے تووالی مدینہ نے ہلاکت معاویہ کی خبرسنائی،امام عالی مقام علیہ السلام نے جملۂ استرجاع(انّا للہ۔۔۔۔) زبان پر جاری فرمایا۔ولید نے یزید کا خط پڑھ کر سنایا،امام حسین علیہ السلام نے فرمایا
’’مجھے نہیں لگتا کہ تم مخفی بیعت پر قناعت کرو‘‘
ولید نے کہا:جی ہاں؛امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ صبح تک فکر کرو،ولید نے کہا:آپ تشریف لے جائیں۔مروان نے ولید سے کہا:اگر وہ چلے گئے تو پھر کبھی بھی ہاتھ نہ آئیں گے جب تک بہت زیادہ خونریزی نہ ہو،ابھی ابھی اُنہیں قیدی کرلو تاکہ یاتو بیعت کرلیں اور یاقتل کردو۔
(مقتل خوازمی ج۱،ص۱۸۳)
اس موقع پر شور اُٹھا،مروان نے تلوار کھینچ لی اور والی سے کہا:حکم دو کہ انہیں قتل کردیں اس اثناء میں دارالامارہ کے دروازے کے پیچھے موجود ۳۰ ہاشمی جوان ایک دم ننگے خنجر لیے دارالامارہ کے اندر آپہنچے اور امام حسین علیہ السلام کی ہمراہی میں باہر چلے گئے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام رات کے وقت حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مطہر پر حاضر ہوئے،گریہ کیا،اُن لوگوں کی شکایت کی جنہوں نے قدردانی نہیں کی اور امام علیہ السلام کا ساتھ نہیں دیا،پھر عرض کی:میں آپ کے حرم سے مجبور ہوکر ہجرت کررہا ہوں ،پھر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجا،صبح ہوئی تو گھر واپس آئے۔دوسری رات پھرامام حسین علیہ السلام اپنے جد بزرگوار کی قبر مطہر پر حاضر ہوئے، چندرکعت نماز ادا کی،ظہر کے نزدیک تک مناجات میں مشغول رہے اور لحظہ بھر کیلیے آنکھ لگ گئی،عالم خواب میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی،رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور اُنہیں سرزمینِ کربلا میں ایک تشنہ لب گروہ کی ہمراہی میں شہید ہونے کی خبر دی۔امام علیہ السلام نے عرض کی:مجھے(اپنے پاس ہی) بلالیں،خواب میں فرمایا:
’’جنت میں کچھ ایسے درجات ہیں کہ شہادت کے بغیر آپ ان تک نہیں پہنچ سکیں گے۔‘‘
(قارئیں کرام!واضح رہے کہ ان درجات سے مراد خاص درجات ہیں جو ان مقدس ہستیوں کےپیشِ نظر تھے چونکہ یہ ہستیاں جنت کی طلب میں نہیں ہوتیں بلکہ جنت تو ان کی مرضی کے مطابق ان کے چاہنے والوں کو عطا کی جاتی ہے اور یہ جنت کے مالک ہیں،ان حضرات کی معشوق ہستی کمال مطلق ہے اور اس کے انتہائی قریب ترین درجات پر پہنچنے کے لیے عاشق کو انتہائی خطر ناک مراحل سے گزرنا پڑتا ہےحضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا اشارہ اُنہیں قرب کے درجات کی طرف ہے)۔امام عالیمقام علیہ السلام نے اپنا خواب اپنے اہلبیت کو سنایا تو ان کی گریہ و زاری کی آوازیں بلند ہوئیں۔امام علیہ السلام مدینہ سے نکلنے کے لیے تیار ہوگئے۔تیسری رات اپنی والد ہ ماجدہ کی قبر مطہر کے پاس آئے،وداع کیا،اسی طرح بقیع میں اپنے بھائی کی قبر پر آکر وداع کیا اور صبح گھر گئے۔
(بحار ج۴۴،ص۳۲۹)

امام حسین علیہ السلام کے پاس بھائی محمد حنفیہ کا آنا
صبح سویرے محمد حنفیہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ باتیں کیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ یا تو آپ مکہ میں ٹھہر لیں(رہیں)یا یمن کے شہروں یا بیابانوں اور جنگلوں کی طرف چلے جائیں۔امام علیہ السلام نے فرمایا:اگر دنیا میں میرے لیے کوئی پر امن جگہ نہ بھی ہو پھر بھی یزید کی بیعت نہیں کرونگا،دونوں بھائی کچھ دیر روتے رہے امام علیہ السلام نے فرمایا:میرا مکہ کا ارادہ ہے؛پھر قلم و کاغذ طلب کیا اور اپنا وصیت نامہ لکھا۔
امام حسین علیہ السلام کا وصیت نامہ جو اپنے بھائی محمد حنفیہ کو لکھ کر دیا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’میں حسین خداوندمتعال کی توحید کی گواہی دیتا ہوں جو یکتا ہے اور شریک نہیں رکھتا،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خداوند کے بندے(عبد)اور رسول ہیں اور حق تعالیٰ کی جانب سے رسالت کے ساتھ مبعوث ہوئے ۔جنت اور دوزخ حق ہے،بے شک قیامت آئے گی اور خداوند متعال مردوں کو قبروں سے اُٹھائے گا۔
میں نے تکبر و خود خواہی یا فساد و ظلم ایجاد کرنے کے لیے قیام نہیں کیا بلکہ میں نے قیام کیا ہے تاکہ اپنے جد بزرگوار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اور اپنے والد نامدار علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے شیعوں کی اصطلاح کروں پس جس شخص نے مجھے قبول کیا،حق کو قبول کیا ہے اور جو بھی مجھے ٹھکرادے تو میں صبر سے کام لوں گایہاں تک کہ خداوند میرے اور اس گروہ کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرمائے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
اے بھائی!یہ آپ کے ہاتھوں میں میری وصیت ہے
’’وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب‘‘
بعد از ان خط کو بند کیا،اپنی مہر لگائی اور اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو دے دیا۔
(شاہکار آفرینش از ص ۷۷ تا ۷۹)
یزید پلید کی بیعت کرنا اور اس کی حکومت قبول کرنا؛اسلام کے ساتھ وداع ہے
کتاب مستطاب ’’سیرۂ امام حسین علیہ السلام از طلوع اشکبار تا عروج خونین‘‘ تالیف محسن غفاری میں مندرجہ بالا عنوان کے تحت مرقوم ہے کہ جس رات دارالامارہ میں بلوا کر حضرت امام حسین علیہ السلام سے ولید بن عتبہ نے یزید پلید کی بیعت کا سوال کیا،جب صبح ہوئی تو گھر سے باہر امام عالیمقام علیہ السلام کامروان بن حکم سے آمنا سامنا ہوا۔مروان نے عرض کی:یااباعبداللہ!میں آپ کی بھلائی چاہتا ہوں،آپ کیلیے میری ایک تجویز ہے کہ اگر قبول کرلیں تو آپ کی خیروصلاح میں ہے۔
امام علیہ السلام نے پوچھا:کیا تجویز رکھتے ہو؟
مروان کہنے لگا:جیسا کہ کل رات ولید بن عتبہ کے سامنے پیش آیا تھا، آپ یزید ابن معاویہ کی بیعت کرلیں کیونکہ یہ کام آپ کے دینی اور دنیوی فائدے میں ہے۔
امام عالی مقام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
’’انّا للہ و انا الیہ راجعون وعلی الاسلام سلام اذا بلیت الامّۃُ براعٍ مثل یزید۔‘‘
’’یعنی بے شک ہم اللہ کیلیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں(یہ کلمات کلمۂ استرجاع کہلاتے ہیں اور کسی مصیبت آپڑنے کے موقع پر ادا کیے جاتے ہیں،اُس ملعون کی تجویز ایک عظیم مصیبت سے کم نہ تھی لہٰذا امام علیہ السلام نے یہ کلمات ادا کیے)اور اسلام پر سلام ہے(یعنی ایسی صورتْحال میں اسلام سے وداع کرنا ہے اور سلامِ آخر کہنا ہے)کہ جب امت یزید جیسے نالائق فرد کی سرپرستی میں گرفتار ہوجائے۔‘‘
ولقد سمعت جدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول:
’’الخلافۃ محرّمۃٌ علی آل ابی سفیان،فاذا رایتُم معاویۃ علی منبری ۔۔۔۔۔۔۔ فابتلاھم اللہ بیزید الفاسق۔‘‘
’’یعنی میں نے اپنے جد بزرگوار حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ انہوں نے فرمایا:خلافت ابو سفیان کی اولاد پر حرام ہے،پس اگر معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے میرے منبر سے ہٹادو،اہل مدینہ نے ایسا ہی دیکھا لیکن قولِ رسول پر عمل نہیں کیا پس خداوندمتعال نے انہیں یزید جیسے فاسق(معاویہ سے بدتر)حکمران کی حکومت میں گرفتار کردیا۔‘‘
(سیرۂ امام حسین علیہ السلام ص ۱۳۱،۱۳۲)
حضرت امام حسین علیہ السلام کی بنو ہاشم کو قیام کیلیے دعوت
کربلا کا سفر شروع کرنے سے پہلے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے خاندان بنوہاشم کو مندرجہ ذیل الفاظ میں اپنے شہادت بخش انقلاب و تحریک میں شرکت کی دعوت دی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
’’مِن الحسین بن علی بن ابی طالب الی بنی ھاشم،امابعد! فانہ من الحق بی منکم استشھد ومن تخلف لم یبلغ مبلغ الفتح،والسلام‘‘
’’یعنی حسین ابن علی ابن ابیطالب کی طرف سے بنوہاشم کے نام،امابعد! آپ میں سے جو شخص میرے ساتھ ملحق ہوگیا شہادت کی سعادت پالے گا اور جو بھی سرپیچی کرے گا اُسے فتح و ظفر نصیب نہیں ہوگی۔والسلام۔‘‘
تاریخ کا تاریخی ستم
تاریخ نویس قلم بھی ہاتھوں کی حرکات سے تاریخ رقم کرتا ہے ہاتھوں کی حرکات مؤرخ کے اشارات سے ہم آہنگ اور مطابق ہوا کرتی ہے اور مورخ کے اشارات اُس کے دلی اعتقادات و رجحانات یا سیاسی و مالی منافع کے پس منظر سے منصۂ ظہور پر آتے ہیں۔
اگر ایک عام اور سادہ سا دیندار شخص ایک سادہ مگر سالم سی تاریخ اُٹھاکرمطالعہ کرے اور اُس میں بانی انقلاب کے اپنے فرامین و بیانات دیکھے تو اسے آسانی سے بہت زیادہ حقائق کی شناخت حاصل ہوجاتی ہے حتی کہ اگر مطالعہ و تحقیق کرنے والا شخص بطور مثال دیندار نہ بھی ہولیکن اُس کے وجود میں موجود فیصلہ و قضاوت کرنے والی قوت و قدرت آزادی و حریت کی نعمت سے مالا مال ہو،دوسری تعبیر میں اس کی روح کسی حد تک سالم اور ضمیر بیدار ہو تو پھر بھی کسی قیام و تحریک کے بانی کے اپنے بیانات و اقوال اور عین دورانِ قیام و حرکت میں اُس کے اعمال و افعال اور حرکات و سکنات سے روشناس ہوکر نہایت آسانی سے اُس قیام و تحریک کی ماہیت و حقیقت کی معرفت حاصل کرسکتا ہے۔
تاریخ کا تاریخی ستم یہ ہے کہ بعض بلکہ اکثر تاریخ نویس مورخ اہل ثروت کے مال و منال اور دولت و ثروت کی طمع ولالچ میں تاریخ لکھتے رہے لہٰذا اُن کا ہم و غم حقائق کو منظر عام پرلانا کب تھا بلکہ ان کے پیش نظر ہدف و مقصد فقط اپنی جیبیں بھرنا اور دولت کے حصول سے دنیوی،عارضی اور فانی لیکن ان کی خام خیالی اور زعم باطل میں جاودانی تسکین تک پہنچنا تھا جیسا کہ انتہائی دنیا پرست و عیاش و مست حکمران یزید پلید نے عمر ابن سعدجیسے احمقوں کو امارتِ رَے کے نشے میں مست کرکے حق و حقیقت کی مخالفت میں روانۂ میدان کردیااور وہ نادان حجت خدا یعنی خود خدا کے سامنے تاریخی حماقتوں اور جسارتوں سے بھی باز نہ آیا کیونکہ اپنا دل و ضمیر اُس مستی کی خاطر فروخت کرچکا تھا۔
خداوندمنان کا شکر کہ تاریخ اپنے اوپر روا رہنے والے ظلم و ستم کے باوجود منصف مورخین کی ایک اندک و قلیل تعداد کی سعی وکاوش اور محنت و حرکت سے بھی محروم نہیں رہی اور کبھی کبھی تو وقت کے حکمرانوں کو خوشنود کرنے اور دنیوی خواہشوں کے حصول سے اپنا پیٹ بھرنے والے خودفروش تاریخ نویسوں کے قلم سے بھی حقائق کے بعض گوشے عیاں ہوئے اور ناخواستہ انہیں کے ذریعے بھی بیان ہوگئے کہ اس امر کی بازگشت حکمت الہٰی کی طرف ہوتی ہے۔
بہرحال ہمارے زیر بحث موضوع میں ہمیں ناگزیر اُن تاریخی حقائق کی بھی مختصر طور پر ورق گردانی کرنا ہوگی جن سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ نپی تلی سازشوں کے جال اُس ناکام و نامراد حاکم شام نے اپنی زندگی میں اور جیتے جی ہی بچھادیے تھے۔افسوس صد افسوس دولت کا نشہ اس قدر مستی آور ہوتا ہے کہ ایک بدمست حکمران جب بھی اپنے آپ کو عیش و نوش کے قابل سمجھتا ہے تو اپنے سامنے محسوس ہونے والی ہررکاوٹ اور ہرسنگِ راہ کو دور اٹھا پھینکتا ہے لیکن جب اپنے ضعفِ قویٰ نمایاں ہوناشروع ہوتے ہیں،پانی اپنے سر سے گذرتا لگتا ہے تو اب اپنی جیسی جانشینی برقرار کرنے کے خواب دیکھنے لگتا ہے کچھ ایسا ہی ہوا کہ تاریخی شواہد کی بناء پر معاویہ ابن ابی سفیان نے جب ایسی صورتحال دیکھی تو پہلے خط و کتابت کے ذریعے زمانے کے برحق امام نواسۂ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجت خدا حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنی دانست میں سمجھانا بجھانا اور مرعوب کرنا چاہا،جب کامیاب نہ ہوسکا تو خود مدینہ کو سفر کیا کتاب’’سیرۂ امام حسین علیہ السلام‘‘تألیف جناب محسن غفاری میں معروف کتاب الامامۃ والسیاسۃ(تألیف ابن قتیبہ)کے حوالے سے مفصل بیان ہوا ہے جس کا فقط ایک خلاصہ ہم یہاں لائیں گے تاکہ حق و باطل کی اساس کسی حد تک معلوم ہوسکے اور انصاف پسند مسلمان یا ہر آزاد شخص یہ جان سکے کہ تاریخ پر روا رکھے جانے والے اس تاریخی ستم میں کوئی حقیقت نامی چیز موجود نہیں ہے کہ یہ جنگ دو شہزادوں کی جنگ تھی جن میں سے ہر ایک بادشاہی کا طلبگار تھا،یہ رُخ دنیا پرست مورخ نے دیا جسے حق و حقیقت سے کچھ سروکار نہ تھا بلکہ اُس کے دل و جان میں فقط اور فقط مال و منال اور دولت و ثروت کا اعتبار تھا۔
مذکورہ بالا مأخذ اور کتاب الرجال للکشی کے حوالے سے سیرۂ امام حسین علیہ السلام نامی کتاب صفحہ ۱۰۴ میں قابل ملاحظہ ہے کہ جس دوران مروان بن حکم،حاکم شام کی طرف سے مدینہ پر حکمران (گورنر) تھا تو اُس نے شکایات بھرا خط شام بھیجا جس میں لکھا کہ :اہل عراق و اہل حجاز کا رجحان امام حسین علیہ السلام کی طرف ہے اور رفت و آمد ہورہی ہے؛میری تحقیق کے مطابق وہ حکومت وقت کی مخالفت کی فکر رکھتے ہیں،آخر میں لکھا کہ حاکم شام اس سلسلے میں اپنی نظر سے اُسے آگاہ کرے۔
حاکم شام نے مروان کے جواب میں لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک امام حسین حکومت وقت کے خلاف کوئی اعتراض نہ کریں تو ان سے کام نہیں رکھو لیکن ان کے اعمال پر کڑی نظر رکھو اور کوشش کرو کہ آپس میں نزاع پیش نہ آئے۔
اس مکاتبہ کے بعد حاکم شام نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام ایک خط لکھا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
’’ مجھے آپ کے بارے میں موصول ہونے والی معلومات آپ کے شایانِ شان نہیں ہیں اور میں آپ کو ان کاموں سے روکتا ہوں عہدوپیمان کی رعایت کریں،جان لیں کہ جب بھی میرے خلاف کوئی کام کیا تو میں آپ کا منکر ہوجاؤں گا،حملے کا جواب حملے سے دوں گا،امت محمد میں اختلاف نہیں ڈالیں۔۔۔۔‘‘
حضرت امام حسین علیہ السلام کو جونہی خط ملا تو جواب میں ایک تفصیلی خط لکھ کر بھیج دیا جس کا مختصر خلاصہ اس طرح سے ہے:
’’تمہارا خط ملا،ہمارے بارے میں جو خبریں تمہیں مل رہی ہیں وہ گھٹیا،جھوٹے اور چاپلوس افراد بھیجتے ہیں،یہی چغل خور افراد لوگوں کے درمیان تفرقہ ڈالتے ہیں،ان کی بات جھوٹی ہے کہ میں تمہارے خلاف جنگ کی تیاری میں مصروف ہوں لیکن اس سکوت والی صورتحال پر بھی خوش نہیں ہوں چونکہ باطل حکومت کے مقابلے میں سکوت کیسے ممکن ہے،پھر امام عالیمقام علیہ السلام نے حجر بن عدی اور عمر بن حمق صحابی کی حاکم شام کے ہاتھوں دردناک شہادتوں کا ذکر کیا،زیاد فرزند سمیہ کو بھائی بنانے کا تذکرہ کیا کہ کس طرح حاکم شام نے خلاف سنت کام کرکے سیاست بازی سے کام لیا ہے،زیاد کے ذریعے ہونے والے مظالم و جرائم کی طرف اشارہ کیا،کہ کس طرح وحشیانہ طور پر شیعیان علی علیہ السلام کو قتل کیا جاتارہا اور پھرکتنی پستی اور گھٹیاپن سے ان کو مثلہ کیا گیا،جبکہ علی علیہ السلام کا دین وہی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دین ہی تھا اور ابھی اسی دین کے نام پر اپنے آپ کو خلیفۂ رسول کہلا کر حاکم بن بیٹھے ہو،
جان لو کہ امت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتنہ و فساد میں مبتلا کرنا بہت بڑا گناہ اور احکام الہٰی سے سرپیچی کرنا ہے،
اور جہاں تک وفائے عہد کا تعلق ہے تو وعدہ خلافی اور نقضِ عہد تمہارے خاص شیووں میں سے ہے،جوتمہارےعہد و پیمان ہمارے ساتھ تھے ان میں سے کون سے ایک وعدے پر بھی پابند رہے ہو،امان دے کر امان نامے پایمال کرنا تمہارا ہی کام اور خاصہ ہے،ان سب امور کا ضرر خود تمہاری طرف ہی متوجہ ہے خود اپنا ہی نقصان کررہے ہو،والسلام۔‘‘
شام کے حاکم نے جب یہ خط پڑھا تو فکر میں پڑگیا اور پھر اظہاکیا:
’’یہ ہاشمی گویا زبان ہے اور اس قدر تیز اور کاٹنے والی زبان ہے کہ گویا پتھر کو بھی چیر کررکھ دیتی ہے اور سمندر کا پانی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔‘‘
(یہ مطالب مندرجہ ذیل مآخذ و منابع میں بھی موجود ہیں:بحار ج۴۴،ص۲۱۲،ناسخ التواریخ ج۱ص۲۵۴،احجاج طبرسی ج۲ ص۲۹۷،سیرۂ امامان ص۸۷ تا ۹۱)
یزید کی بیعت لینے کے لیے حاکم شام نے خود مدینہ کا سفر کیا،امام حسین علیہ السلام اور ابن عباس سے ملاقات کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام زندہ تھے کیونکہ حاکم شام نے امام حسین علیہ السلام سے امام مجتبیٰ علیہ السلام کی احوال پرسی کی تھی،تقریر کے آخر میں اُس نے یزید کا ذکر کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یزید کی بہت تعریف کی اور کہا کہ اس کو ولی عہد بنانا چاہتا ہے،اسے آزمایا ہے اور اس منصب کے لائق پایا ہے آپ لوگ بھی اس کی تائید کریں۔
اس کی باتیں جب مکمل ہوئیں تو ابن عباس نے چاہا کہ جواب دے لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلے میں جواب دوں گا
’’پس حمد و ثناء بجالائے درودوسلام بھیجے اور فرمایا اما بعد،حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جس قدر فضائل بیان کیے جائیں ،کم ہیں لیکن افسوس کہ حضور کی صفات و فضائل کی پاسداری نہیں کی گئی،اُن کے برحق جانشین کی بیعت نہیں کی گئی،برتری اور خود خواہی میں افراط و زیادہ روی کہاں تک لے جائے گی۔
مزید کہا یزید کی شائستگی،تدبیر اور سیاست کے بارے میں جو تم نے کہا اس سے تمہارا خیال ہے کہ یزید کا لوگوں کے سامنے تعارف کرواؤ،کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ لوگ یزید کو نہیں پہچانتے،یزید کی صورتحال اور حقیقت لوگوں کے سامنے ہےبہتر یہی ہے کہ یزید کے بارے میں اُسی راہ پر چلو جس پر وہ خود جارہا ہے،اُس کا راستہ سگ بازی،کتوں کی لڑائی،کبوتر بازی،عیش و نوش کی محافل،شراب خواری اور گانا گانے والیوں کے ساتھ ساز و نواز میں خوش گذرانی کا راستہ ہے،ہاں یزید ان تمام فنون میں مکمل بصیرت رکھتا ہے لہٰذا دوسرے خیال کو دل سے نکال دو۔‘‘
جب امام حسین علیہ السلام کا خطاب اختتام کو پہنچا تو ابن عباس نے بھی امام عالیمقام علیہ السلام کے حق اور حمایت میں گفتگو کی۔
(سیرۂ امام حسین علیہ السلام ص۱۱۴)
بصیرت اور بصارت
فہم و بصر رکھنے والا شخص میدان قضاوت میں گمراہ نہیں ہوتا۔حضرت امام حسین علیہ السلام کی پاک و پاکیزہ حیات سب کو نظر آرہی ہے دوست و دشمن اس حقیقت پر شاہد اور معترف ہیں جبکہ دوسری طرف کے حالات اور اوضاع سے بھی لوگ باخبر تو ہیں لیکن انواع واقسام کی مصلحت کوشیاں آڑے آرہی ہیں،یزید پلید کا جب غلط تعارف کروایا جاتا ہے تو فرزند رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساکت نہیں رہتے اور اُس کی حقیقت کو کھول کر سامنے لاتے ہیں اور اس طرح سب سازش سے پردہ اٹھ جاتا ہے کہ شام کا غاصب حاکم اپنے ذہن میں اپنے بعد کیلیے کیسے فرد کا انتخاب کرنا چاہتا ہے۔اگر بعض لوگوں کی نظر میں حاکم شام اچھا ہے تو اس کا فیصلہ اور انتخاب بھی تو اچھا ہونا چاہیے تھا،کاش وہ خود بھی اچھا ہوتا اور اس کا فیصلہ بھی اچھا ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچ پاتی۔اب بھی کس شخص کو حقیقی صورتحال کا علم نہیں ہے،آخر حقائق سے غفلت اور حقائق کی پردہ پوشی جیسے گناہان کبیرہ پر کیوں توجہ نہیں ہوتی اور بصیرت و بصارت سے کیوں کام نہیں لیا جاتا
فاعتبروا یا اولی الابصار
سورج ہے آسمان پر،آنکھیں نہ بند کرو
گذشتہ عنوان‘‘حضرت امام حسین علیہ السلام کی بنو ہاشم کو قیام کیلیے دعوت’’کے ضمن میں اُس خط کا مضمون پیش کیا گیا ہے جو امام عالیمقام علیہ السلام نے اپنے قبیلے کو لکھا تھا۔
اگر امام علیہ السلام کا ہدف بادشاہت اور حکومت ہوتا تو نہ تو اہل و عیال و اطفال کو ساتھ لے جاتے اور نہ ہی اس قدر اطمینان سے بتلاتے کہ جو میرے ساتھ ملحق ہوجائے وہ شہادت کے درجے پر فائز ہوگا۔جیسا کہ ذکر ہوچکا کہ جس رات دارالامارہ میں طلب کیے گئے ،اگلی صبح جب مروان سے اتفاقی ملاقات ہوئی اور اُس نے بیعت کرلینے کی تجویز پیش کی تو فوراً فرمایا اِنّا للہ و۔۔۔۔یہ کلمہ استرجاع معاشرے کی ساری صورتحال کے پیش نظر جاری ہوا تھا یعنی یزید جیسا فاسق و فاجر اگر حکمران ہوتو معاشرہ کس طرف کو جائے گا کیونکہ کوئی ایسی خامی و خرابی اور بدی و برائی قابل تصور نہیں ہوگی جو اس پلید میں موجود نہ ہو؛اسی لیے فرمایا تھا کہ یزید پلید کی بیعت کرنا اور اس کی حکومت قبول کرنا؛اسلام کے ساتھ خدا حافظی کرنا ہے۔
خود حجت خدا نے اپنے قیام کا ہدف مدینہ میں بھی اور بعد میں بھی بیان فرمایا اور وہ امت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور شیعیان امیرالمؤمنین علیہ السلام کی اصلاح تھا،محمد حنفیہ کو جو خط لکھا اس میں یہی ہدف ذکر فرمایا۔
فرمایا:
’’مِثلی لا یُبایعُ مثلَہ‘‘
’’ مجھ جیسا شخص اُس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔‘‘
یعنی کبھی بھی حق،باطل کی بیعت نہیں کرسکتا۔
اگر حکومت کیلیے قیام کررہے ہوتے تو اس انداز میں جدبزرگوار،مادر گرامی اور برادر گرامی سے الوداع نہ فرماتے۔
حق و باطل کے اوضاع کو سامنے رکھتے ہوئے اور اظہار فرمایا:
’’اَلا تَرَونَ الی الحق لا یُعمل بہ والی الباطل لا یتناھی عنہ‘‘
کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے روکا نہیں جارہا۔
(سیرہ ٔ امام حسین علیہ السلام ص۱۳۰)
یعنی حق کی مظلومیت و محرومیت دیکھنا حجت حق کے لیے قابل برداشت نہیں تھا۔
ایک مقام پر قیام کا ہدف اس انداز میں بیان فرمایا:
اے لوگو میں نے خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے:
’’جو شخص بھی ظالم و ستمگر سلطان و حاکم کو دیکھے جو خداوند کے حرام قراردیے ہوئے کو حلال کررہا ہو(اور حلالِ خدا کو حرام کررہا ہو)،خدا کے وعدے کو توڑ رہا ہو،پیغمبرِ خدا کی سنت،سیرت اور قانون کی مخالفت کررہا ہو،خدا کے بندوں کے درمیان گناہ،معصیت اور دشمنی و عداوت کے راستے پر چل رہا ہو اور یہ سب کچھ دیکھنے والا شخص ایسے ستمگر سلطان و حاکم کے سامنے اپنے قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے اور خاموش رہے،خداوند پر لازم ہے کہ ایسے شخص کو آتش جہنم میں وہیں پر رکھے جہاں اُس ستمگر حاکم کو رکھے گا۔
پس ایسی صورتحال میں مسلمانوں کے معاشرے کی ہدایت و رہبری کے لیے اور اپنے جد رسولِ خدا کے دین میں تغیر و تبدل پیدا کرنے والے فساد و مفسدین کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے اور قیام کرنے میں،میں دوسرے لوگوں سے زیادہ سزاوار اور شائستہ ہوں۔‘‘
(سیرۂ امام حسین علیہ السلام ص ۱۳۰، ۱۳۱)
یہ تھا اجمال اُن اہداف کے بیان کا جو حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے قیام کیلیے سامنے آئے۔
امام حسین علیہ السلام سے کربلا کی طرف سفر سے پہلے بعض اہم افراد کی ملاقات
حضرت امام حسین علیہ السلام سے کربلا کی طرف سفر سے پہلے بعض اہم افراد نے ملاقاتیں کیں،مقتل شیخ الریئس میں ان ملاقاتوں کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ ملاقات کرنے والے یہ سات افراد ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ام ہانی ۲۔ام سلمہ ۳۔عبداللہ بن عمر۴۔عبداللہ بن زبیر ۵۔عبداللہ ابن عباس ۶۔عبداللہ بن جعفر ۷۔جابر بن عبداللہ انصاری
یہ ملاقاتیں زیادہ تر مدینہ میں ہوئی ہیں؛محمد حنفیہ اور عبداللہ بن جعفر سے دوسری مرتبہ مکہ میں بھی ملاقات ہوئی۔
۱۔اُمّ ہانی امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں
جب حرہت امام حسین علیہ السلام مدینہ سے چلنے لگے تو بنی عبدالمطلب کی خواتین نوحہ کیلیے جمع ہوگئیں۔امام عالی مقام علیہ السلام درمیان میں تشریف لائے اور صبر کی تلقین فرمائی تو خواتین نے کہا:اگر ابھی ہم نوحہ خوانی اور گریہ و زاری نہیں کریں تو کب کریں؟
خلاصہ یہ کہ یہ خواتین ام ہانی کے پاس آئیں اور کہنے لگیں:آپ بیٹھی ہوئی ہیں جبکہ امام حسین علیہ السلام اہل وعیال کے ساتھ مدینہ چھوڑ رہے ہیں؟ ام ہانی فوراً امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔
یہ کہہ کر گریہ وزاری کا آغاز کیا:میں نے سنا ہے کہ بیواؤں کی خبر گیری اور کفالت کرنے والا مدینہ چھوڑ کرجانا چاہتا ہے
حضرت نے فرمایا: ’’پھوپھی جان جو کچھ مقدر ہے،وہی ہوگا۔‘‘
(معالی السبطین ج۱ص۱۳۲)
۲۔ام سلمہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں
ام سلمہ جب امام حسین علیہ السلام کے ارادے سے مطلع ہوئیں تو امام علیہ السلام کی خدمت میں آئیں اور عرض کی:میرے فرزند!عراق جانے سے گھبرانا نہیں،میں نے آپ کے جد حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ فرماتے تھے:میرا بیٹا حسین عراق میں کربلا نامی سرزمین میں شہید ہوگا۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:
’’اماجان!خدا کی قسم،میں اچھی طرح جانتا ہوں،مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میرا قاتل کون ہے اور میرے ساتھ کون شہید ہوں گے ۔پس امام علیہ السلام نے کربلا کی طرف اشارہ کیا،زمین نشیبی صورت میں ہوگئی،قتل گاہ،مدفن اور اپنے لشکر کی جگہ یہ سب مقامات امام علیہ السلام نے تمام حاضرین کو دکھائے ۔‘‘
ام سلمہ نے سخت گریہ کیا اور کہا:جو کچھ خدا چاہے۔
پھر ام سلمہ نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی اس شیشی کا حوالہ دیا جس میں خاکِ کربلا تھی،امام علیہ السلام نے دست مبارک کربلا کی طرف بڑھایا،خاک اٹھائی،ایک شیشی میں ڈال کر ام سلمہ کو دی اور فرمایا یہ شیشی میرے نانابزرگوار کی دی ہوئی شیشی کے ساتھ رکھ دیں جب بھی یہ خون میں تبدیل ہو جائیں جان لینا کہ میں شہید ہو گیا ہوں۔
(بحار الانوار ج ۴۴،ص۳۳۱)
عاشور محرم ۶۱ ہجری کو جب خاک کو خون میں تبدیل دیکھا تو سمجھ گئیں،بہت زیادہ گریہ کیا اور اہل مدینہ کو باخبر کیا۔
۳۔عبداللہ بن عمر کی ملاقات
عبداللہ بن عمر نے جب مکہ میں امام حسین علیہ السلام سے ملاقات کی تو عرض کی:آپ عراق تشریف نہیں لے جائیں کہ مارے جائیں گے؛حضرت نے یوں نہیں فرمایا کہ میں مارا نہیں جاؤں گا لیکن فرمایا: دنیا کے دَنی اور پست ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ یحییٰ بن ذکریا(پیغمبر) کا سر بنی اسرائیل کی ایک بدکارہ عورت کو ہدیہ کے طور پر دیا گیا۔
عبداللہ نے عرض کی:اب جبکہ جانے کا ہی ارادہ ہے تو اجازت دیں اُس مقام پر بوسہ دوں جہاں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسے دیتے تھے۔امام علیہ السلام نے اپنا پیراہن کچھ اوپر کو اُٹھایا،عبداللہ ابن عمر کے حضرت کے سینے اور قلب مبارک پر بوسہ دیا(اُسی مقام پر بوسہ دیا جہاں خود پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بوسے دیتے تھے اور فرماتے تھے یہ تیر کی جگہ ہے)۔
(بحار ج۴۴ ص۳۱۳)
۴۔عبداللہ بن زبیر کی ملاقات
عبداللہ بن زبیر نے امام حسین علیہ السلام کو عراق جانے سے منع کیا، امام علیہ السلام نے فرمایا:خانۂ خدا میں قریش کا ایک بڑا شخص ماردیا جائے گا،جس کے قتل ہونے سے بیت اللہ کی بے حرمتی ہوگی،میں نہیں چاہتا کہ وہ شخص میں ہو جاؤں۔
(تاریخ طبری ج۴ص۲۸۹)
گردشِ ایام سے بعد میں معلوم ہوگیا کہ امام علیہ السلام نے جو قریش کے ایک فرد کے قتل ہونے کی خبر دی تھی وہ خود عبداللہ بن زبیر ہی نکلا کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اُس نے یزید اور امویوں پر خروج کیا اور نتیجے میں امویوں نے خانہ کعبہ کو منجنیق کے استعمال سے ویران کرکے حرمت شکنی کی۔
۵۔عبداللہ بن عباس کی ملاقات
عبداللہ بن عباس نے امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی:
اے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے فرزند!آپ یا تو مکہ میں ٹھہریں اور یا پھر یمن کو چلے جائیں کیونکہ وہاں آپ کے شیعہ ہیں۔حضرت نے فرمایا:بنی امیہ مجھ سے ہاتھ نہیں اُٹھائے لہٰذا یا تو یزید کی بیعت کرلوں(جوکہ محال ہے)اور یا پھر شہید ہو جاؤں؟
(تاریخ طبری ج۴ص۳۸۸)
۶۔عبداللہ بن جعفر کی ملاقات
مکہ سے ہجرت کرتے وقت عبداللہ بن جعفر نے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ ملاقات کی اور امام علیہ السلام کو سفر پر جانے سے منع کیا،جب امام علیہ السلام نے قبول نہیں کیا تو عبداللہ نے اپنے دو فرزند امام کے ساتھ بھیج دیے جو دونوں کربلا میں شہید ہوگئے۔
۷۔مدینہ سے مکہ کی طرف ہجرت کرتے وقت جابر کی ملاقات
علامہ بحرانی لکھتے ہیں:جب حسین ابن علی علیہما السلام عراق جانے کے لیے تیار ہوئے،جابر بن عبداللہ امام علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور عرض کی:آپ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند اور حضرت کے دونواسوں میں سے ایک ہیں،آپ کے بھائی امام حسن علیہ السلام نے صلح کی،کامیاب رہے،آگاہ تھے،آپ بھی ایسا ہی کریں۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:میرے بھائی امام حسن علیہ السلام نے وہ کام خدااور رسولِ خدا کے حکم کے مطابق انجام دیا اور میں بھی خدا اور اُس کے رسول کے حکم کے مطابق عمل کروں گا۔پھر امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:کیا آپ چاہتے ہیں کہ ابھی ابھی حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،حضرت علی علیہ السلام اور میرے بھائی کی میرے اس عمل پر تصدیق و گواہی دیکھیں؟
جابر نے عرض کی :جی ہاں۔پس امام علیہ السلام نے آسمان کی طرف نگاہ کی،جابر نے دیکھا کہ آسمانی دروازے کھل گئے ہیں،حضرت پیغمبر،حضرت علی، حضرت حسن،حضرت حمزہ اور حضرت جعفر(علیہم السلام)آسمان سے اُترے اور زمین پر آگئے۔جابر کہتے ہیں:میں وحشت زدہ ہوکر اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:‘‘اے جابر!کیا میں نے تمہیں حسین سے پہلے حسن کے بارے میں بتایا نہیں تھا کہ مومن نہیں ہومگر یہ کہ آئمہ کے سامنے تسلیم رہو اور ان پر اعتراض نہیں کرو’’پس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:کیا پسند کرتے ہو کہ معاویہ،میرے فرزند حسین اور اس کے قاتل یزید کے مقامات دیکھو؟عرض کیا:جی ہاں اے اللہ کے رسول۔حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ نے زمین پر پاؤں سے ٹھوکر ماری،زمین شکافتہ ہوئی،ایک سمندر ظاہر ہوا،پھر سمندر شکافتہ ہوا اور زمین ظاہر ہوئی دوبارہ ایسا ہی ہوا یہاں تک کہ اسی طرح سے سات زمین اور سات سمندر شکافتہ ہوئے ،ان کے نیچے آگ دیکھی کہ ولید بن مغیرہ،ابوجہل،معاویہ اور یزید اس آگ کے اندر سرکش شیاطین کے ساتھ ایک زنجیر میں بندھے ہوئے تھے اور یہ سب بدترین جگہ اور شدید ترین عذاب میں گرفتار تھے۔اس وقت حریت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:سراوپر اٹھاؤ،میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ آسمان کے دروازے کھل گئے ہیں،بہشت کو آسمانوں کی انتہائی بلندی پر دیکھا،پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ آسمان کی طرف تشریف لے گئے جس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آسمان کی طرف تشریف لے جارہے تھے انہوں نے فریاد بلند کی:اے میرے فرزند حسین!میرے ساتھ ملحق ہوجاؤ،حسین علیہ السلام ان کے ساتھ ملحق ہوگئے اور اوپر چلے گئے اور میں نے دیکھا کہ جنت کے اعلیٰ درجات میں پہنچ گئے۔
اس وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ نے امام حسین علیہ السلام کا ہاتھ جنت میں پکڑ لیا اور فرمایا:یہ حسین میرے فرزند اور یہاں میرے ساتھ ہیں،اس کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم رہو اور بالکل شک نہیں کرو تاکہ مومن رہو؛جابر (آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کے بعد)کہتے ہیں:
’’جو کچھ میں نے بیان کیاس ہے یہ سب کچھ اگر آنکھوں سے نہ دیکھا ہو تو دونوں آنکھوں سے محروم ہو جاؤں۔‘‘
’’شاہکار آفرینش ص۸۰ تا ۸۴ ۔اور جابر والا مفصل واقعہ مذکورہ کتاب میں الثاقب فی المناقب ص۳۲۲ سے نقل کیا گیا ہے‘‘۔
مدینہ سے ہجرت کے وقت کاروانِ حسینی
امام حسین علیہ السلام نے قبر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(اوربھائی اور مادر گرامی کی قبور) سے وداع کرنے کے بعد ۲۸ رجب سنہ۶۰ ہجری کو اپنے اہلبیت اور اعوان و انصار کے ساتھ مدینہ منورہ سے مکہ کے قصد سے ہجرت فرمائی۔(بروز جمعہ تین شعبان مکہ پہنچے)۔
اس کاروان میں ۲۲۲ افراد تھے۔
( معالی السبطین ج۱ ص۱۳۴)
کربلا میں داخل ہونےوالے سواری کے حیوانوں میں ۲۵۰ عدد گھوڑے اور ۲۵۰ عدد اونٹ تھے؛ماہ رجب کے ختم ہونے سے تین راتیں باقی تھیں جب مدینہ سے مکہ کی طرف ہجرت کی۔
حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھو ڑا ’’مرتجز‘‘ کہ غزوۂ احد میں حضور اس پر سوار ہوئے تھے،پھر حضرت علی علیہ السلام کو منتقل ہوا اور حضرت جنگ صفین میں اس پر سوار ہوئے؛امام حسین علیہ السلام نے اپنے ساتھ لیا،اسی طرح حضرت پیغمبر کی شمشیر جس کا نام‘‘بتّار’’ تھا،ساتھ اٹھائی،رسول خدا کی ‘‘ ذات الفضول ’’ نامی زرہ جسم پر باندھی اور ’’سحاب‘‘نامی عمامۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سرمبارک پر رکھا۔
( ص۸۷،۸۸)۔
ہجرت کی کیفیت
تاریخ میں ثبت و ضبط ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کے نام اپنا وصیت نامہ لکھا تو وصیت نامے کو تہ کیا پھر اپنی مہر لگائی اور اپنے بھائی محمد حنفیہ کو دے دیا،بھائی سے خدا حافظی کی اور آدھی رات گذرچکی تو اپنے کاروان کے ہمراہ حضرت موسیٰ کی طرح انتہائی خوف کی حالت میں اپنے جد بزرگوارحضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ منورہ چھوڑا اور مکہ کی طرف روانہ ہوگئے(واضح رہے کہ اس خوف سے مراد قطعاً جانی یا مالی خوف نہیں تھا کیونکہ امام علیہ السلام شہادت کی طلب میں اس سفر پر روانہ ہورہے تھے بلکہ ظاہراً اس سے مراد یہ اندیشہ تھا کہ جو بہت بڑا ہدف لے کر ہجرت کررہے ہیں وہ ہدف پورا ہو جائے)۔
اس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام یہ آیت تلاوت فرمارہے تھے:
فخرج منھا خائفا یترقب قال رب نجنی من القوم الظالمین
(سورہ قصص آیت ۲۱)
’’موسیٰ خوف و پریشانی کی حالت میں(مصر سے) باہر نکلے اور کہہ رہے تھے:بارالہٰا! مجھے اس ستمگر و ظالم قوم کے شر سے نجات عطا فرما۔‘‘
(شاہکار آفرینش ص۷۹،از ارشاد مفید ج۲ ص۳۵)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button